پاک بھارت تعلقات اور اقبال و جناح کا زاویہ نظر / عرب ایران تنازع۔ تاریخی وتہذیبی تناظر اور ہوش مندی کی راہ / مولانا محمد بشیر سیالکوٹی ؒ کا انتقال

محمد عمار خان ناصر

انگریزی دور اقتدار میں برصغیر کی اقوام جمہوریت کے جدید مغربی تصور سے روشناس ہوئیں اور برطانوی حکمرانوں نے اسی تصور کے تحت ہندوستان کے سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لیے اقدامات کا آغاز کیا تو یہاں کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین باہمی بے اعتمادی کی وجہ سے اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے کشمکش اور تناؤ کی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے آگے چل کر ایک باقاعدہ قومی تنازع کی شکل اختیار کر لی۔ اس صورت حال کے تجزیے اور ممکنہ حل کی تجویز میں مسلمان قیادت بھی باہم مختلف الرائے ہو گئی۔ ایک گروہ نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے لیے متحدہ قومیت کے تصور کی تائید کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام قومیں اور خاص طور پر ہندو اور مسلمان اپنے لیے ایک مشترک سیاسی مستقبل کے خط وخال متعین کریں اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے ہندوستانی قوم کو سیاسی خود مختاری یا آزادی کی منزل سے ہم کنار کریں۔ تاہم مسلم لیگ کی قیادت، کانگریس کے موقف، طرز سیاست اور رویے سے بوجوہ مطمئن نہ ہو سکی اور اس نے مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی سیاسی جدوجہد کو منظم کیا جس کا بنیادی مطالبہ آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم قرار پایا۔ مسلم لیگی قیادت اس مطالبے کے جواز پر مسلمان عوام کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی اور ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کی صورت میں تقسیم ہند کے تصور نے ایک عملی حقیقت کا درجہ اختیار کر لیا۔

یہاں یہ نکتہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ مسلم قائدین کا یہ اختلاف اس حوالے سے نہیں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف یا ماضی کی تلخیوں کی بنیاد پر کشمکش اور تصادم کی صورت حال کا قائم رہنا مطلوب یا ضروری ہے یا کسی بھی حوالے سے اس خطے کے سیاسی یا معاشی مفادات کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اس بات پر دونوں فریق متفق تھے کہ خطے اور اس میں بسنے والی قوموں کے مابین باہمی تعاون کی فضا ہی خطے کے مجموعی مفاد کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف اس پر تھا کہ تعاون اور موافقت کی یہ فضا آیا ایک ہی ملک میں اکٹھے رہتے ہوئے پیدا کی جا سکتی ہے یا اس کے لیے ملک کی سیاسی تقسیم کا طریقہ زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی ہے۔ مسلم لیگ دوسرے نقطہ نظر کی قائل تھی اور دراصل تقسیم ہند کے مطالبے کی بنیاد ہی یہ نکتہ تھا کہ اس فیصلے سے دونوں قوموں کے باہمی تنازعات کا ایک مستقل حل نکل آئے گا اور اس کے بعد دونوں قومیں دوستی اور تعاون کی فضا میں خطے کی مجموعی ترقی کے لیے جدوجہد کر سکیں گی۔

اس حوالے سے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی تشخص کے موقف کی ترجمانی کرنے والے دو صف اول کے مسلم قائدین کے زاویہ نظر کا حوالہ دینا یہاں مناسب ہوگا۔ 

علامہ محمد اقبال کا خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کی سیاسی فکر کا رخ متعین کرنے میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال نے اس خطبے میں جہاں خود مختار مسلم ریاستوں کی تشکیل کی فکری وتہذیبی اساسات کو واضح کیا ہے، وہاں دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس کے مضمرات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

Thus, possessing full opportunity of development within the body politic of India, the North-West Indian Muslims will prove the best defenders of India against a foreign invasion, be that invasion one of ideas or of bayonets. ...... From this you can easily calculate the possibilities of North-West Indian Muslims in regard to the defense of India against foreign aggression. 

اقتباس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں اگر مسلمانوں کو اپنی خود مختار ریاست بنانے کا موقع مل جائے تو وہ ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے اور باہر سے ہونے والی کسی بھی فکری یا عسکری جارحیت سے ہندوستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔ 

دوسری شخصیت، مسلمانوں کی قومی سیاسی جدوجہد کے حقیقی قائد، محمد علی جناح کی ہے۔ تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے رویٹرز کے نمائندے Doon Campbell کو ایک بہت اہم انٹرویو دیا جو ۲۲ مئی ۱۹۴۷ء کو ڈان میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا موضوع تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاسی وخارجہ پالیسی کے بنیادی نکات تھے، خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا اور بین الاقوامی طاقتوں میں وہ کس پر زیادہ انحصار کرے گا، اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت کیسے اور کیونکر کی جا سکے گی۔ انٹرویو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے قائد اعظم کا وژن بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

۱۔ قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ تقسیم ہند ان کے نقطہ نظر سے مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں، بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔

۲۔ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے مقابلے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین دفاعی معاہدے یا کسی دفاعی اتحاد میں شرکت کے موید تھے۔

۳۔ وہ پاکستان کے قیام کو ’’پان اسلام ازم‘‘کی قسم کے کسی سیاسی تصور یا تحریک کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ تصور عرصہ دراز ہوا، اپنی عدم افادیت ثابت کر چکا تھا۔ البتہ وہ تمام مسلم ممالک سے دوستانہ اور مبنی بر تعاون تعلقات کی خواہش رکھتے تھے۔

بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے مابین پر امن اور دوستانہ تعلقات کا یہ وژن مختلف عوامل کے زیر اثر نسیاً منسیاً ہو چکا ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پیدا ہو جانے والی یا پیدا کی جانے والی بعض پیچیدگیوں اور ان کے تلخ اثرات نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بنیاد کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ کشیدگی اور تناؤ کی اس فضا کو برقرار رکھنے کو اب دونوں ملکوں میں طاقت اور اقتدار کا کھیل کھیلنے والے توانا عناصر نے اپنی ضرورت فرض کر لیا ہے۔ 

سیاست بدقسمتی سے طاقت کا کھیل ہے جس کی مثال ایک طوائف کی ہے۔ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ غمزہ وعشوہ کے سامان اور داد وتحسین کے لیے تو ’’تماش بینوں‘‘ (یعنی عوام) پر انحصار کرے، لیکن خود چند مخصوص طبقوں کی رکھیل بن کر رہے۔ جنگ کو بھی ’’متبادل ذرائع سے سیاست‘‘ کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، سو یہ بھی ہمیشہ عوام کا خون نچوڑ کر لڑی جاتی ہے تاکہ چند بالادست طبقے اپنے خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ عوام کی، خود فریبی اور کوتاہ نظری کی صلاحیت کی بدولت، کشیدگی اور تصادم کے خواہش مند یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک محدود اور وقتی تناظر میں عوام کے دل ودماغ کو ہیجان اور اشتعال کا یرغمال بنا لیں۔ 

یہ صورت حال دیانت دار اہل دانش کے لیے ایک کڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ موقع پرست دانش وروں کے لیے اس فضا کا حصہ بن جانا آسان بھی ہوتا ہے اور صلہ بخش (rewarding) بھی، اور تاریخ کے ساتھ ساتھ معاصر حالات میں اس کے جوازات ڈھونڈ لینے میں بھی انھیں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی، لیکن حقیقی اہل دانش کی اصل اخلاقی ذمہ داری بہت بلند ہے۔ ان کا کام اسٹریٹجک تجزیوں سے کسی قوم کی دور بینی کی صلاحیت کو کند کرنا نہیں، انسان دوستی کے جذبے کو فروغ دینا اور طاقت اور مفادات کے ٹکراؤ کے ماحول میں ہوش مندی کے پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔

عرب ایران تنازع۔ تاریخی وتہذیبی تناظر اور ہوش مندی کی راہ

شرق اوسط میں عرب ایران تنازع کے جہاں سیاسی اور جغرافیائی پہلو اہم ہیں، وہاں اس کی حقیقی ماہیت کو سمجھنے کے لیے اس کا تاریخی وتہذیبی تناظر بھی پیش نظر رہنا بہت ضروری ہے۔ بطور ایک مشخص مذہبی روایت کے، اسلام کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں جزیرہ عرب میں ہوئی اور بہت جلد مسلمانوں کے سیاسی ومذہبی اقتدار نے ہمسایہ تہذیبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس توسیع سے سب سے زیادہ ایرانی تہذیب متاثر ہوئی، یہاں تک کہ ایک مستقل اور جداگانہ تشخص رکھنے والی تہذیب کے طور پر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس صورت حال میں ایرانی قوم نے بحیثیت مجموعی اسلام تو قبول کر لیا، لیکن عربوں کی مذہبی یا سیاسی سیادت کے حوالے سے دو تین مختلف رویے اختیار کیے:

ایک عنصر نے اس کو کسی بھی درجے میں تسلیم نہیں کیا۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور میں شعوبیت کی لہر اسی کا ایک اظہار تھی۔ 

دوسرے عنصر نے مین اسٹریم اسلام یعنی سنی تعبیر دین کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور اپنی غیر معمولی ذہانت اور صلاحیتوں سے اسلام کی علمی وتہذیبی ترقی میں کردار ادا کیا۔ سنی اسلام میں فقہاء، محدثین، مفسرین اور دیگر شعبوں کے اہل علم وفن کی ایک بہت بڑی اکثریت اسی عنصر سے تعلق رکھتی ہے۔ 

تیسرے عنصر نے اپنی قلبی وروحانی وابستگی اور اس کے نتیجے میں سیاسی اطاعت کا محور ومرکز صرف خانوادہ نبوت کو تسلیم کیا اور تشیع کے عنوان سے ایک الگ مذہبی وسیاسی گروہ کی صورت میں منظم ہو گیا۔

یوں شیعہ اسلام ابتدا ہی سے اپنا الگ تاریخی تشخص رکھتا ہے اور اس کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ دور جدید میں انقلاب ایران اور اس کے بعد کے سارے واقعات اس حقیقت واقعہ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تشخص کے اجزاء متعدد ہیں اور گہرے بھی، جن میں دو یعنی عرب اور عجم کی قدیم آویزش اور شیعہ وسنی تعبیر دین کا تاریخی اختلاف زیادہ اہم اور بنیادی ہیں۔ شیعہ نفسیات اور تشخص کی تشکیل کرنے والے یہ دونوں عناصر اپنے اندر حصول اقتدار اور غلبے کے داعیات پیدا کرنے کی غیر معمولی قوت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اگر شیعہ الہیات اور کچھ مذہبی پیشین گوئیوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس تحریک کی Potency کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس تناظر میں مشرق وسطی کی دوسری سیاسی طاقتوں اور شیعہ عنصر کے مابین آویزش کا پیدا ہونا اور ابھرنا کسی طرح بھی کوئی قابل تعجب بات نہیں۔

ایرانی کیمپ کی طرف سے اس صورت حال کی جو تعبیر عموماً کی جاتی ہے، وہ محض جزوی طور پر درست ہے، یعنی یہ کہ مشرق وسطی اور خلیج میں عرب بادشاہتیں دراصل عالمی سامراج کے مفادات کی محافظ ہیں، جبکہ ایران ایک انقلابی اور مزاحمت پسند اسلام کا علمبردار ہے۔ یہ بات جزوی طو رپر یقیناًدرست ہے، لیکن معاملے کے دوسرے پہلو اس سے کم اہم نہیں ہیں ، خاص طور پر ایرانی قیادت کی ترجیحات اور طرز عمل کبھی سنی دنیا کو اس پر مطمئن نہیں کر سکیں کہ وہ ایک خاص مذہبی عنصر کے بجائے بلا تفریق وامتیاز تمام مسلمانوں کی نمائندگی اور ترجمانی کا جذبہ رکھتی ہے۔ اس لیے خطے میں شیعہ غلبہ وتسلط کے مقابلے میں سنی دنیا کو بہرحال آل سعود جیسے حکمران ہمیشہ زیادہ گوارا رہیں گے، جو چاہے سلفی اور وہابی ہوں، چاہے عیش پرست اور عیاش ہوں اور چاہے جابر ومستبد ہوں، بہرحال سنی اور عرب ہیں۔ شیعہ قیادت کو جوش فراواں میں اس بنیادی نفسیاتی حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور شیعہ احیاء کے اہداف اور حدود کو بہرحال اسی کی روشنی میں متعین کرنا چاہیے، ورنہ اس آویزش کے نتیجے میں جتنا بھی خون خرابہ ہوگا، اس کی ذمہ داری سو فی صد نہ سہی، بہت بڑی حد تک شیعہ قیادت پر ہی عائد ہوگی۔

انصاف کی یہی بات دوسرے فریق کے متعلق بھی کہنی چاہیے۔ عرب سنی ممالک میں اہل تشیع بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن انھیں ان کی آبادی کے تناسب سے ان کے جائز سیاسی حقوق حاصل نہیں۔ یہ صورت حال بہرحال تناو اور تشدد کے پیدا ہونے کا سبب ہے اور غیر منصفانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسے زیادہ دیر تک طاقت کے زور پر قائم رکھنا بھی ممکن نہیں۔ چنانچہ سنی حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جہاں ایک طرف خطے کی سطح پر غلبہ وتسلط کے ایرانی عزائم کا سامنا متحد ہو کر کریں، وہاں اپنے اپنے سیاسی دائرہ اختیار میں سب گروہوں کو ان کے جائز سیاسی ومعاشرتی حقوق دینے کا اہتمام کریں۔ یہی ذمہ داری شیعہ اکثریتی ملکوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ وہاں بسنے والے سنی مسلمانوں کو مساوی شہری وسیاسی حقوق دینے کے بجائے خطے کی سطح پر جاری سیاسی کشمکش کی سزا دی جائے۔

عالم اسلام کو، یعنی عربی اور عجمی اسلام دونوں کو، اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ نہ تو کوئی گروہ مذہبی جوش وجذبے کے زیر اثر طاقت کے زور پر حقیقی دنیا میں اس سے زیادہ اثر ورسوخ پیدا کر سکتا ہے جتنا اس کا فی الواقع حق بنتا ہے اور نہ کسی گروہ کو نظام اقتدار میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے سے بزور بازو روکا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں راستے، چاہے سنی حکمران اختیار کریں یا شیعہ، باہمی تصادم، خون ریزی اور تباہی کے راستے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ جذبات کو اپیل کر کے وقتی طو ر پر ہمدردیاں اور وابستگیاں جیتی جا سکتی ہیں، لیکن تاریخ کے بہاو کے آگے باندھے گئے ایسے بند کبھی زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے۔

مغربی فکر وتہذیب اور حمایت دین کے امکانات

امت مسلمہ میں مغرب کے سیاسی ومعاشی غلبے کا جو رد عمل پیدا ہوا، بڑی حد تک قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ، اس لحاظ سے غیر متوازن ہے کہ اس ساری صورت حال میں امت مسلمہ کا داعیانہ کردار اور اس کے تقاضے ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہمارے پاس خدا کی دی ہوئی ایک ہدایت ہے جو ساری انسانیت کے لیے ہے اور امت مسلمہ اس ہدایت کی امین ہونے کے ناتے سے اس بات کے لیے مسوول ہے کہ وہ خود حاکمیت کی حالت میں ہو یا محکومیت کی، اس ہدایت کو کسی تعصب کے بغیر دنیا کے ہر اس گروہ تک پہنچائے جس تک دعوت حق کے پہنچائے جانے کا کسی بھی درجے میں کوئی امکان ہو۔ کسی قوم کے ساتھ سیاسی واقتصادی مفادات حتیٰ کہ مذہبی تصورات کا ٹکراؤ بھی اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ امت مسلمہ اس قوم تک دعوت حق پہنچانے کی ذمہ داری سے غافل ہو جائے۔ 

مغربی اقوام تک دعوت حق پہنچانے کی یہ ذمہ داری امت مسلمہ پر کامیابی اور قبولیت کے امکانات سے بالکل قطع نظر کر کے عائد ہوتی ہے۔ تاہم اگر دعوت دین کے لیے میسر مواقع اور امکانات کے زاویے سے غور کیا جائے تو مغربی معاشروں میں صورت حال کئی حوالوں سے امید افزا اور سازگار دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ مغربی تمدن میں مذہب اور روحانیت سے دوری اور محض مادی وجسمانی ضروریات کی تکمیل وتسکین پر توجہ کے ارتکاز کا مظہر ایک پہلو سے بڑا بھیانک دکھائی دینے کے باوجود اس لحاظ سے اپنے اندر مثبت پہلو بھی رکھتا ہے کہ اس یک طرفہ طرز زندگی نے انسان کی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے جو فطرت انسانی کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ مغربی طرز معاشرت میں اس کا مطالعہ کئی پہلوؤں سے کیا جا سکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ یہ چیز شعوری یا لاشعوری طور پر ایک سچی اور فطری روحانی دعوت کی طلب اور پیاس پیدا کرتی ہے اور اگر داعیانہ ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ نیز دعوت دین کے حکیمانہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مغربی معاشروں کی اس ضرورت پر توجہ مرکوز کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے لیے اسلام کے دامن رحمت سے وابستگی کے راستے نہ کھل جائیں۔

دعوت دین کی ذمہ داری اور دیارِ مغرب میں اس کے لیے موجود وسیع میدان ہمیں دور جدید کی بعض ایسی اہم خصوصیات کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو نہایت واضح اور بدیہی ہونے کے باوجود، غیر داعیانہ طرز فکر کی بدولت امت کی نگاہ سے اوجھل ہیں۔ 

مثال کے طور پر حیرت انگیز سائنسی اکتشافات وانکشافات کی روشنی میں کائنات کے نظم میں خالق کے علم وحکمت اور قدرت ورحمت کی جو ایمان افروز تفصیلات سامنے آتی ہیں، وہ ایمان باللہ کی دعوت کے لیے غیر معمولی تائیدی مواد فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایسے محسوس ومشہود حقائق ہیں جو محض سامنے آجانے سے ہی ایک سلیم الفطرت انسان کے قلب ودماغ پر ایسا تاثر قائم کرتے ہیں کہ اس کے سامنے فلسفیانہ ومنطقی استدلالات ہیچ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

پھر یہ کہ گوناگوں تاریخی وسماجی عوامل کے نتیجے میں مغربی ذہن میں عمومی سطح پر مذہب کے حوالے سے ایک نوع کی بے تعصبی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے جو فکر واعتقاد کی سطح پر کسی بھی نئی بات کو قبول کرنے یا کم از کم اس پر غور کرنے کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی معاشرے کی اپنے روایتی اور نسلی مذہب کے ساتھ وابستگی اس کے لیے کسی نئے مذہب کو اختیار کرنے میں ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مغرب میں فکری سطح پر مذہب کے ساتھ عدم اعتنا اگر ایک جانب منفی پہلو رکھتا ہے تو اس لحاظ سے ایک مثبت پہلو بھی رکھتا ہے کہ اس کے نتیجے میں‘‘مذہبی تعصب’’جیسی ایک بڑی رکاوٹ بھی بڑی حد تک دور ہوئی ہے جو اسلام کی دعوت کے فروغ میں شاید سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی۔

عقیدہ ومذہب کے معاملے میں ریاستی جبر کے خاتمے نے بھی دعوت حق کے فروغ کے حوالے سے معاون اور سازگار فضا پید اکرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج مغرب میں نہ ریاست کسی مذہب کو اس مفہوم میں تحفظ دے رہی ہے جس مفہوم میں قرون وسطیٰ میں دیتی تھی اور نہ مذہبی احتساب کے وہ ادارے موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے اہل مغرب کے لیے بڑے پیمانے پر کیا، انفرادی سطح پر بھی تبدیلی مذہب ممکن نہیں تھی۔ یہ تاریخ وتہذیب کی سطح پر رونما ہونے والی ایک بہت بڑی اور نہایت جوہری تبدیلی ہے جس کی قدر وقیمت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔

انسانی تہذیب کے ارتقا نے دور جدید میں بڑے پیمانے پر مسلم آبادی کے دیار مغرب کی طرف نقل مکانی اور یوں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے باہمی اختلاط کے وسیع اور پر امن مواقع پیدا کیے ہیں۔ اسباب کی دنیا میں یہ پہلو بھی دعوت دین کے زاویے سے بہت اہم ہے، اس لیے کہ انسانی تاریخ میں مختلف مذاہب کے فروغ اور نشر واشاعت کا عمل بنیادی طو رپر اسی طرح کے اختلاط اور تعامل کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔

اس ضمن میں جدید ذرائع ابلاغ اور ان کی اثر انگیزی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے ذریعے سے دعوت حق کو کسی رکاوٹ کے بغیر دنیا کے آخری کونے میں بسنے والے انسان تک پہنچا دینا جس طرح آج ممکن ہے، اس سے قبل تاریخ کے کسی دور میں ممکن نہیں تھا اور یہ چیز بنی نوع انسان کی سطح پر امت مسلمہ کی ذمہ داریوں اور ترجیحات کے تعین میں اساسی اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی ؒ کا انتقال

عربی زبان کے نامور استاذ اور متعدد درسی وعلمی کتب کے مصنف مولانا محمد بشیر سیالکوٹی طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

پاکستانی معاشرے میں عربی زبان کی ترویج ان کا خاص ذوق بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی زندگی کا مشن تھا۔ انھیں پاکستانی مدارس میں رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سالہا سال تک سعودی عرب میں گزارنے اور پاکستانی سفارت خانے میں بطور ترجمان کام کرنے کا موقع ملا۔ پھر وہ پاکستان آ گئے اور یہاں عربی زبان کی ترویج کے لیے مختلف النوع سرگرمیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا۔ وہ دینی مدارس میں عربی صرف ونحو کی تدریس کے قدیم اور فرسودہ طریقے سے سخت نالاں رہتے تھے اور اپنے نرم گرم انداز میں اہل مدارس کو جتلاتے رہتے تھے کہ ان کا اختیار کردہ منہج تدریس عربی زبان کی ترویج کے بجائے طلبہ کو اس سے نفور کرنے کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔ کوئی تین سال قبل انھوں نے ’’درس نظامی کی اصلاح اور ترقی‘‘ کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب (۵۲۸ صفحات) مرتب کی جس میں عربی زبان کے نصاب اور طریقہ تدریس کے حوالے سے اپنے زندگی بھر کے تجربات ومشاہدات اور تنقیدی تبصرے جمع کر دیے۔ 

مختلف سطحوں پر عربی زبان کی تدریس کے لیے نصابی کتب کی تیاری اور عالم عرب میں پڑھائی جانے والی بعض مفید کتب کی پاکستان میں اشاعت ان کی خدمات کا ایک مستقل حصہ ہے۔ دار العلم کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کی بنیاد رکھنے کے علاوہ انھوں نے اسلام آباد میں معہد اللغۃ العربیۃ بھی قائم کیا جو اس میدان میں عمدہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ مزید برآں انھوں نے اپنی اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) کو بھی اسی مقصد کے لیے وقف کر دیا جو سب کے سب معاہد اور جامعات میں عربی زبان کی تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور صحیح معنوں میں اپنے والد مرحوم کے لیے صدقہ جاریہ بنے ہوئے ہیں۔ 

علالت کے آخری سالوں میں بھی وہ وقفے وقفے سے فون پر رابطہ کرتے تھے اور ان کی طویل گفتگو کا محور یہی چیزیں ہوتی تھیں۔ غالباً وفات سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی مایہ ناز تصنیف ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء کے عربی ترجمے کی بیروت سے اشاعت کی خبر بھی دی جو انھوں نے اپنی نگرانی میں مکمل کروایا تھا اور اس کی اشاعت کے لیے بہت پرجوش تھے۔ 

بلاشبہ مرحوم کی شخصیت عزم وہمت، مقصد سے لگن اور جہد پیہم کا ایک شاندار نمونہ تھی اور سیکھنے والوں کے لیے ان کی زندگی میں بہت سے سبق موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ ، بالخصوص عربی زبان سے ان کی محبت اور اس کی ترویج کے لیے ان کی سعی وکاوش کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے مشرف فرمائے اور ان کی نیک اولاد کو اس میدان میں اپنے مرحوم والد کی جدوجہد کو بہتر انداز میں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آراء و افکار

(نومبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter