فقہائے تابعین کی اہل حدیث اور اہل رائے میں تقسیم ۔ ایک تنقیدی جائزہ (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

تیسرا سبب :عراق میں رائے و اجتہاد کی کثرت اور حجاز میں قلت 

اہل رائے اور اہل حدیث کی تقسیم کا ایک اہم سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عراق میں اجتہاد اور رائے کا استعمال بہت زیادہ تھا ،چنانچہ اہل عراق کثرت سے اصولوں پر تفریع کر کے نئے مسائل کا استنباط کرتے، مسائل کو فرض کر کے اس کا حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کے برعکس حجاز میں رائے و اجتہاد کی بجائے حدیث کی تعلیم زیادہ ہوتی تھی ، اہل حجاز صرف پیش آمدہ مسائل کے بارے میں رائے کا اظہار کرتے ،اور بغیر ضرورت کے تفریعات کرتے اور نہ ہی مسائل کو فرض کر کے اس پر بحث کرتے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل عراق رائے کو زیادہ استعمال کرنے کی وجہ سے "اہل رائے"اور اہل حجاز "اہل حدیث" کے نام سے مشہور ہوئے۔محقق قطان اہل رائے کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

کثرۃ تفریعھم الفروع لکثرۃ ما یعرض لھم من الحوادث، نظرا لتحضرھم وقد ساقھم ھذا الی فرض المسائل قبل ان تقع؛ فاکثروا من" ارایت لو کان کذا"؟ فیسالون عن المسالۃ ویبدون فیھا حکما، ثم یفرعونھا بقولھم: "ارایت لو کان کذا"؟ ویقلبونھا علی سائر وجوھھا، الممکنۃ وغیر الممکنۃ احیانا، حتی سماھم اھل الحدیث "الارایتیون" وتمیز منھجھم بالفقہ الافتراضی (۳۷)

’’اہل عراق کا کثرت سے تفریعات کیا کرتے تھے ،کیونکہ عراق کے ترقی یافتہ تمدن کی وجہ سے وہاں حوادث کی کثرت تھی۔ حوادث کی کثرت نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مسائل کو وقوع سے پہلے فرض کریں۔ لہٰذا وہ جب کسی مسئلے کا حکم معلوم کرتے تو "ارا یت لو کان کذا"  کہہ کر مسئلہ شروع کرتے، اس کا حکم معلوم کرتے ،پھر اس پر تفریعات "ارا یت لو کان کذا"  کہہ کر کرتے ،اور اس مسئلے کے ممکنہ بلکہ کبھی غیر ممکنہ تمام پہلووں اور جوانب پر بحث کرتے۔ اس وجہ سے اہل الحدیث نے انہیں "ارایتیون" (یعنی کثرت سے ارایت کہنے والے )کا لقب دیا۔ان کے منہج کا بنیادی امتیاز فقہ افتراضی تھا۔‘‘

جبکہ اہل حدیث کی بنیادی خصوصیت یوں بیان کی ہے :

کراھیتھم لکثرۃ السؤال. وفرض المسائل، وتشعب القضایا؛ فالحکم ینبنی علی قضیۃ واقعۃ، لا علی قضیۃ مفترضۃ (۳۸)

’’اہل حجاز سوال کی کثرت ،مسائل کو فرض کرنے اور فقہی قضایا کے شاخ در شاخ پہلو نکالنے کو ناپسند کرتے تھے ،پس ان کے نزدیک حکم شرعی صرف اس مسئلے پر لگا یا جاتا، جو پیش آچکا ہوتا، نہ یہ کہ محض فرضی ہو۔‘‘

حجاز میں رائے و اجتہاد کا ایک جائزہ 

حجاز خصوصاً مدینہ منورہ کے بڑے فقہاء کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ رائے و اجتہاد کے استعمال کے حوالے سے کسی طرح سے فقہائے عراق سے کم نہیں تھے۔ان کی فقہی آراء،فتاوی اور غیر منصوص مسائل میں رائے و قیاس کا استعمال فقہائے عراق سے زیا دہ نہ سہی ،ان کے برابر ضرورتھا۔ اس حوالیسے چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

۱۔ اہل حجاز کے سرخیل صحابہ کرام میں سے حضرت ابن عباس کے بارے میں اما م ابن قیم لکھتے ہیں:

کان ابن عباس من اوسع الصحابۃ فتیا، وقد تقدم ان فتاواہ قد جمعت فی عشرین سفرا۔ (۳۹)

’’حضرت ابن عباس تمام صحابہ میں سے سب سے زیادہ کثرت سے فتوی دینے والے تھے ،اور یہ بات گزر چکی ہے کہ حضرت ابن عباس کے فتاوی بیس اجزا میں جمع کیے گئے۔‘‘

۲۔مدینہ میں مقیم صحابہ کرا م میں سے رائے اور اجتہاد کے حوالے سے حضرت عمر بلا شبہ ممتاز ترین صحابی ہیں۔ حضرت عمر کی فقہی آراء پر مستقل تصانیف موجود ہیں ،خصوصا مسند الہند شاہ ولی اللہ نے "ازالۃ الخفاء" میں فقہ عمر کے نام سے حضرت عمر کی فقہی آراء اور اجتہادات کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حضرت عمر کے بارے میں ابو زہرہ مرحوم لکھتے ہیں:

لا ن رای عمر فیما لا نص علیہ من کتاب او سنۃ الرسول کان کثیرا (۴۰)

’’کیونکہ غیرمنصوص مسائل کے بارے میں حضرت عمر کے اجتہادات کافی زیادہ ہیں۔’’

اسی طرح محقق محمد رواس قلعہ جی کی "موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب"سے بھی حضرت عمر کی فقہی آراء کے تنوع اور وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عمر جیسے صحابی کی موجودگی میں مدینہ منورہ میں رائے و اجتہاد کی کمی کا نظریہ تاریخی نقطہ نظر سے نہایت کمزور دعویٰ ہے۔

۳۔معروف تابعی حضرت سعید بن المسیب کا لقب فتاوی اور اجتہاد اور رائے کی کثرت کی بنا پر"الجریء" پڑ گیا تھا۔ امام بن قیم "اعلام الموقعین" میں لکھتے ہیں:

وکان سعید بن المسیب ایضا واسع الفتیا ۔۔۔ و کانوا یدعونہ سعید بن السمیب الجریء (۴۱)

’’حضرت سعید بن المسیب کثرت سے فتویٰ دیا کرتے تھے ،اور لوگ آپ کو سعید بن المسیب الجریء یعنی فتوی کے بارے میں جرات مند کے لقب سے پکارتے تھے۔‘‘

حضرت سعید بن المسیب کی فقہی آراء پر عراق سے ایک ضخیم کتاب "فقہ الامام سعیدبن المسیب"کے نام سے چھپی ہے۔ کتاب کے مصنف الدکتور ہاشم جمیل عبد اللہ ہیں ۔یہ کتاب تقریباً اٹھارہ سو صفحات پر مشتمل ہے ،ا س سے سعید بن المسیب کی فقہی آراء و اجتہادات کی کثرت اور تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

۴۔مدینہ منورہ کے معروف فقیہ اور امام مالک کے استاد ربیعہ بن عبد الرحمن کا لقب رائے اور اجتہاد کی مہارت کی بنا پر "ربیعۃ الرای"پڑگیا تھا۔علامہ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں:

وکان اماما حافظا فقیھا مجتھدا بصیرا بالرای ولذلک یقال لہ: ربیعۃ الرای (۴۲)

’’آپ امام حافظ ،فقیہ اور اجتہاد میں خوب بصیرت کے حامل تھے ،اسی وجہ آپ کو ربیعۃ الرای کہا جا تا تھا۔‘‘

۵۔مدینہ منور میں رائے و اجتہاد کے حوالے سے فقہائے سبعہ بھی کافی شہرت کے حامل تھے ۔فقہائے سبعہ سے مراد حضرت عروۃ بن الزبیر ،حضرت سعید بن مسیب،حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق،حضرت خارجۃ بن زید بن ثابت، حضرت عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبۃ، حضرت ابو بکر بن عبد الرحمن ،حضرت سلیمان بن یسار ہیں۔ 

عبد اللہ بن مبارک فقہائے سبعہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

کان فقھاء اھل المدینۃ الذین یصدرون عن رایھم سبعۃ (۴۳)

’’مدینہ کے وہ فقہاء جن کی رائے پر اہل مدینہ اعتماد کرتے تھے ،سات تھے۔‘‘

آگے ان کے طرز اجتہاد کے بارے میں فرماتے ہیں :

وکانوا اذاجاء تھم المسالۃ دخلوا فیھا جمیعا، فنظروا فیھا، ولا یقضی القاضی حتی یرفع الیھم (۴۴)

’’:جب ان کے پاس مسئلہ آتا،سب اس مسئلے کے بارے میں اکٹھے بیٹھ کر اس میں غور وفکر کرتے اور قاضی مسئلے کو ان کے پاس بھیجنے سے پہلے فیصلہ نہیں کرتے تھے۔‘‘

فقہائے سبعہ کی اجتہادی آراء اور خاص طور پر امام مالک کی فقہی آراء کے ساتھ تقابل اور امام مالک کی فقہ پر فقہائے سبعہ کے اثرات کے حوالے سے معاصر سطح پر مستقل کام ہوا ہے۔ چنانچہ شیخ ابو زہرہ مرحوم نے "حیاۃ مالک" میں اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر ریاض یونی ورسٹی سے معروف محقق الدکتور محمد مصطفی الاعظمی کی زیر نگرانی ایک مفصل مقالہ "فقہ الفقھاء السبعۃ واثرہ فی فقہ الامام مالک" کے نام سے شائع ہوچکا ہے جس میں فقہ کے جملہ ابواب میں فقہائے سبعہ کی فقہی آراء پر بحث کی گئی ہے۔اس سے مدینہ منور میں رائے و اجتہاد کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ فقہ اسلامی پر فقہائے سبعہ کے اثرات کے حوالے سے الدکتور عبد اللطیف الفرفور لکھتے ہیں :

ھولاء ھم الفقھاء السبعۃ الذین کونو ا المدرسۃ الفقھیۃ الاولی فی ھذا العصر،حتی سمی باسمھم، فقیل عصر الفقھاء السبعۃ، وکان عمل ھولاء الفقھاء الاولین تاسیس الفقہ الاسلامی، بوضعھم الخطوط الاولی للمنھج الفقھی، و بما رسموہ من الرای والنظر۔ (۴۵)

’’یہ وہ سات فقہاء ہیں ،جنہوں نے اپنے زمانے میں اولین فقہی مکتب کی تشکیل کی۔ان کی شہرت کی وجہ سے اس زمانے کو فقہائے سبعہ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ان فقہاء کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے فقہ اسلامی کی بنیادیں رکھیں ،فقہی منہج کے اولین خطوط وضع کیے اور قیاس اور رائے کا نمونہ پیش کیا۔‘‘

۶۔ حجاز کے فقہاء صحابہ وتابعین کے بعد اگر مذہب مالکی اور شافعی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے ،جن کو حجازی ہونے کی وجہ سے "اہل الحدیث "میں شمار کیا جاتا ہے، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان مذاہب میں بھی روز اول سے رائے و اجتہاد کو کلیدی حیثیت حاصل تھی ،اور رائے و اجتہاد کے استعمال ،نصوص میں تعلیل اور فقہ تقدیری کی تشکیل میں "اہل حدیث" کے نام سے مشہور کیے جانے والے یہ دو حجازی مذاہب فقہیہ فقہائے عراق سے بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور تھے۔ چنانچہ امام مالک کی فقہی و اجتہادی آراء پر مشتمل کتاب "المدونۃ الکبری"اور امام شافعی کے علم ریز قلم سے نکلی "کتاب الام" سے اس بات کی بخوبی تائید ہوتی ہے۔ان دونوں کتب میں فرضی مسائل کا معتد بہ حصہ موجود ہے اور مسائل کی فرضی صورتیں بنا کر اس پر احکام مرتب کیے گئے ہیں، بلکہ امام محمد کی کتب ظاہر الروایۃ کے ساتھ ان دو کتب کا تقابل کرنے سے حیرت انگیز مماثلت سامنے آتی ہے۔ ذیل میں ان تینوں کتب کے متفرق ابواب سے چند جزئیات دی جاتی ہیں جن کی صورتیں اگر چہ الگ الگ ہیں،لیکن مسئلے کی صورت فرض کرنے کا اسلوب اور طرز بالکل یکساں ہیں۔

المدونۃ الکبریٰ سے چند جزئیات 

۱۔ قال مالک: لو ان نصرانِیا اسلم یوم الفِطرِ رایت علیہ زکاۃ الفطر، ولو اسلم یوم النحر کان عندی بینا ان یضحی(۴۶)

۲۔ قال مالک: لو ان رجلا من اھل الحرب اتی مسلما او بامان فاسلم وخلف اھلہ علی النصرانیۃ فی دار الحرب فغزا اھل الاسلام تلک الدار فغنموھا غنموا اھلہ وولدہ، قال مالک: ھی وولدہ فی اھل الاسلام (۴۷)

۳۔ قال مالک: لو ان رجلا شھد علی رجل بانہ اعتق عبدا لہ او علی ابیہ بعد موتہ انہ اعتق عبدا لہ فی وصیتہ فصار العبد الیہ فی قسمۃ او اشتری الشاھد العبد انہ یعتق علیہ (۴۸)

۴۔ قال مالک: لو ان رجلا اشتری طعاما بقدح او بقصعۃ لیس بمکیال الناس رایت ذلک فاسدا ولم ارہ جائزا (۴۹)

۵۔ قال مالک: لو ان رجلا دفع الی رجل دابۃ فقال: اعمل علیھا ولک نصف ما تکسب علیھا کان الکسب للعامل وکان علی العامل اجارۃ الدابۃ فی ما تساوی (۵۰)

کتاب الام سے چند جزئیات 

۱۔ قال الشافعی: لو اکری رجلا رجلا دارا بماءۃ دینار اربع سنین فالکراء حال الا ان یشترطہ الی اجل (۵۱)

۲۔ قال الشافعی: لو باع رجل رجلا عبدا علی ان المشتری بالخیار فاھل ھلال شوال قبل ان یختار الرد او الاخذ کانت زکاۃ الفطر علی المشتری (۵۲)

۳۔ قال الشافعی: لو مات رجل لہ رقیق فورثہ ورثتہ قبل ھلال الشوال ثم اھل ھلال شوال ولم یخرج الرقیق من ایدیھم فعلیھم فیہ زکاۃ الفطر بقدر مواریثھم منہ (۵۳)

۴۔ قال الشافعی: لو اوصی برقبۃ عبد لرجل وخدمتہ لآخر حیاتہ، او وقتا فقبلا، کانت صدقۃ الفطر علی مالک الرقبۃ، لو لم یقبل کانت صدقۃ الفطر علی الورچۃ لانھم یملکون رقبتہ (۵۴)

۵۔ قال الشافعی: لو مات رجل وعلیہ دین وترک رقیقا فان زکاۃ الفطر فی مالہ عنھم، فان مات قبل شوال زکی عنھم الورثۃ (۵۵)

الجامع الصغیر سے چند جزئیات 

۱۔ لَو حلف لَا یدخل ھذہ الدَّار وھذا المنزل فَقَامَ علی السَّطح حنث (۵۶)

۲۔ لَو وطیء حرَّۃ بِشْبھَۃ النِّکاح ثمَّ تزوج امۃ فِی عدتھَا جَازَ (۵۷)

۳۔ لَو تزوج المَراَۃ علی ثوب قیمتہ خَمسَۃ دَرَاھِم لَا یجب مھر المثل وَاِنَّمَا یجب الثَّوب وَخَمسَۃ دَرَاھم حَتَّی یتم العشرَۃ (۵۸)

۴۔ لَو حفر بئراً فِی دَارہ فَوَقع فیھا انسان وَمَات حیث لَا یضمن (۵۹)

۵۔ لو رمی الی الصید وھو مسلم فارتد واصابہ السھم وھو مرتد فجرح الصید ومات حل اکلہ (۶۰)

امام مالک کی "المدونۃ الکبری"امام شافعی کی "الام" اور امام محمد کی "الجامع الصغیر "کے متفرق ابواب سے لئے گئے ان مسائل کا طرز،اسلوب اور حکم مرتب کرنے کا انداز بالکل یکساں ہیں، اور اگر کتب کے حوالے کے بغیر یہ مسائل اکٹھے ذکر کیے جائیں تو شاید یہ فرق کرنا بھی مشکل ہو کہ یہ الگ الگ کتب سے اخذ کردہ ہیں ،چہ جائیکہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ الگ الگ فقہی مسالک کے مسائل ہیں۔ا ن مسائل کے یکساں اسلوب سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عراق کی فقہی مجالس اور حجاز کے فقہی حلقوں میں اجتہاد اور رائے کے استعمال کے حوالے سے کوئی خاص جوہری فرق نہیں تھا اور نہ ہی رائے کی کمیت کے حوالے سے دونوں حلقوں میں کوئی تفاوت تھا۔بلکہ ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو حجازی فقہاء کی فقہی آراء و اجتہادات زیادہ معلوم ہوتے ہیں،کیونکہ امام محمد کی کتب ظاہر الروایۃ عراق کے تین بڑے فقہاء امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اور امام محمد کی فقہی آراء کا مجموعہ ہیں ،جبکہ المدونۃ الکبریٰ کی پانچ ضخیم جلدیں صرف اما م مالک کے اجتہادات اور الام کی دس ضخیم جلدیں اکیلے مام شافعی کی فقہی آراء پر مشتمل ہیں۔ شخصیات کی تعدادپر تقسیم کرنے سے تو حجازی مکتب کے بانیوں کے اجتہادات بہ نسبت عراقی مکتب کے زیادہ بنتے ہیں۔ اس تفصیل کے نتیجے میں معاصر محققین کی اس بات سے اتفاق کافی مشکل ہے کہ عراق میں رائے کی کثرت اور حجاز میں قلت تھی۔

۷۔حجازی مکتب کے معروف فقہاء اور ان کی اجتہادی آراء پر عصر حاضر میں مستقل کام ہوا ہے ،خصوصاً عبد المنعم الہاشمی کی کتاب "عصر التابعین"، مشہور فقیہ خلیفہ بابکر الحسن کی گرانقدر کتاب "الاجتھاد بالرای فی مدرسۃ الحجاز الفقھیۃ" اور ابوبکر اسماعیل محمد میقا کی کتاب "الرای و اثرہ فی مدرسۃ المدینۃ" اس حوالے سے بہترین کاوشیں ہیں۔نیز تاریخ فقہ اسلامی پر لکھنے والے بعض محققین نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حجاز میں رائے و اجتہاد کی قلت کا نظریہ تاریخی حقائق سے میل نہیں کھاتا ۔شیخ ابوزہرہ مرحوم "حیاۃ مالک"میں لکھتے ہیں :

انتھینا من ھذہ الدراسۃ الی ان الرای بالمدینۃ لم یکن قلیلا،کما توھم عبارات بعض الکتاب (۶۱)

’’مذکورہ بالاتحقیق و تفصیل سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مدینہ میں رائے کی مقدار کسی طرح سے کم نہیں تھی، جیسا کہ بعض مصنفین کی عبارات سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے۔‘‘

اسی طرح شیخ مصطفی الزرقاء نے "الفقہ الاسلامی و مدارسہ" میں بھی اس نظریے پر کڑی تنقید کی ہے ،اور اسے تاریخی حقائق کے منافی قرار دیا ہے ،ساتھ اس بات کا بھی اقرار کیا ہے کہ "المدخل الفقھی العام" میں بعض معاصرین کی اتباع میں یہ نظریہ میں نے اختیار کیا تھا ،لیکن غور و فکر کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اہل رائے اور اہل حدیث کی یہ تقسیم تاریخی حقائق کے منافی ہے۔ (۶۲)

اہل حدیث اور اہل رائے کی اصطلاح ،ایک تاریخی جائزہ

مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ حجازی و عراقی فقہاء کی اہل رائے اور اہل حدیث کے اعتبار سے تفریق کامعاصر نظریہ تاریخی اعتبار سے انتہائی کمزور ہے، نیز اس تفریق کے جو اسباب بیان کئے جاتے ہیں،وہ بھی محل نظر ہیں، اور ان اسباب میں بحث و تمحیص کی کافی گنجائش ہے۔ اب آخر میں اہل حدیث اور اہل رائے کی اصطلاح ،ان کے مصادیق اور مختلف استعمالات پر ایک نظر ڈالنا مقصود ہے،تا کہ بحث کی مزید تنقیح و توضیح کے ساتھ ان اصطلاحات کے حوالے سے رائج مغالطوں کی بھی نشاندہی ہو جائے ۔

اہل رائے کی اصطلاح اور اس کا مصداق 

رائے کا لفظ ایک وسیع الاستعمال لفظ ہے،آثار و اخبار میں مختلف معانی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے،لیکن جب فقہی مسائل کے سیاق میں بولا جائے تو اس سے مراد قیاس و اجتہادہوتا ہے۔ دوسرے لفظو ں میں کسی مسئلے کے بارے میں اپنے فہم دین کی روشنی میں فقہی فیصلہ صادر کرنے کو رائے کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی معروف روایت ہے کہ جب ان سے اس غیر مدخولہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جھ کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور اس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کو مہر کیا ملے گا ؟جب اس حوالے سے کوئی نص نہیں ملی تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

انی ساقول برایی، لھا صداق نساءھا ،لا وکس و لا شطط (۶۳)

’’اس کے بارے میں اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرتا ہوں کہ اس عورت کے لئے اس کے خاندان کی دیگر عورتوں والا مہر ہوگا ،نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔‘‘

اسی طرح معروف تابعی حضرت مسروق نے جب حضرت عبد اللہ بن عمر سے نقض وتر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

ھو شیء افعلہ برایی ولا ارویہ عن احد (۶۴)

’’یہ کام میں اپنے اجتہاد کی بنیاد پر کر رہا ہوں،کسی سے روایت کی بنیا د پر نہیں۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت زید بن ثابت کا میراث کے کسی مسئلے میں اختلاف ہوا تو حضرت ابن عباس نے ایک قاصد ان کے پاس بھیجا کہ کیا یہ مسئلہ آپ کو کتاب اللہ میں ملا ؟تو حضرت زید بن ثابت نے فرمایا:

انما انت رجل تقول برایک وانا رجل اقول برایی (۶۵)

’’آپ اپنے اجتہاد سے بات کررہے ہیں اور میں اپنے اجتہاد سے۔‘‘

آثار کی طرح فقہاء کی عبارات میں بھی رائے کا لفظ اجتہاد اور قیاس پر بولا جاتا ہے ۔اس پر کثرت سے فقہاء کی عبارات موجود ہیں،لیکن صرف نمونے کے طور پر ایک حوالہ دینا چاہوں گا ۔ شوافع کے اصول فقہ کے چار ستونوں میں سے ایک "المعتمدفی اصول الفقہ" میں مصنف "باب انا متعبدون بالقیاس" کے اندر قیاس کے دلائل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

دلیل آخر ظاھر عن الصحابۃ رضی اللہ عنھم انھم قالوا بالرای (۶۶)

’’:اگلی دلیل یہ ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ صحابہ نے رائے (قیاس و اجتہاد )کا استعمال کیا ہے۔‘‘

چونکہ قیاس و اجتہاد پر رائے کا اطلاق ہوتا ہے ،اس لئے "اہل الرای"اور "اصحاب الرای" سے مراد فقہاء ہوتے ہیں ،خواہ کسی مسلک کے بھی ہوں۔ آٹھویں صدی ہجری کے معروف حنبلی عالم سلیمان الطوفی اپنی کتاب شرح مختصر الروضۃ میں لکھتے ہیں:

اعلم ان اصحاب الرای بحسب الاضافۃ ھم کل من تصرف فی الاحکام بالرای، فیتناول جمیع علماء الاسلام لان کل واحد من المجتھدین لا یستغنی فی اجتھادہ عن نظر ورای (۶۷)

’’جان لو کہ باعتبار اضافت اصحاب الراے سے مراد ہر وہ عالم ہے جو شرعی احکام میں اجتہاد سے تصرف کرتا ہو،لہٰذا یہ تمام علمائے اسلام کو شامل ہے ،کیونکہ مجتہدین میں سے کوئی بھی رائے اور اجتہاد سے مستغنی نہیں ہے۔‘‘

اسی طرح علامہ انور شاہ کاشمیری العر ف الشذی میں فرماتے ہیں :

استعمل لفظ اھل الرای فی کل فقیہ (۶۸)

’’اہل رائے کا لفظ ہر فقیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔‘‘

ان دو جلیل القدر علماء کی عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل رائے اپنے حقیقی اور لغوی معنی کے اعتبار سے ہر فقیہ پر بولا جاتا ہے ،چنانچہ اما م ابن تیمیہ طلاق کے مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ثم ان کثیرا من اھل الرای الحجازی والعراقی وسعوا باب الطلاق (۶۹)

’’حجازی اور عراقی دونوں قسم کے فقہاء نے باب الطلاق میں توسع اختیار کیا ہے۔‘‘

اس میں امام ابن تیمیہ نے مطلقاً فقہاء کے لئے اہل رائے کا لفظ استعمال کیا ہے ،خواہ حجاز کے ہوں یا کوفہ کے۔

اسی طرح ابن قتیبہ نے "المعارف "میں اصحاب الرای کا عنوان کا باندھ کر امام ابن ابی لیلیٰ،اما م اوزاعی ،امام ربیعہ، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام سفیان ثوری اور دیگر معروف فقہاء کا تذکرہ کیا ہے ،اور اصحاب الحدیث کا عنوان باندھ کر معروف محدثین کا ذکر کیا ہے۔اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اہل رائے کا لفظ اپنے اصل کے اعتبار سے مطلقاً فقہاء کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (۷۰)

امام ابن حزم ایک جگہ "الا حکام"میں لکھتے ہیں:

روی عیسی بن دینار عن ابی القاسم قال سئل مالک قیل لہ لمن تجوز الفتیا؟ قال لا تجوز الفتیا الا لمن علم ما اختلف الناس فیہ، قیل لہ اختلاف اھل الرای؟ قال لا، اختلاف اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم (۷۱)

’’عیسیٰ بن دینا ر ابی القاسم سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک سے پوچھا گیا کہ فتوی دینا کس شخص کے لیے جائز ہے؟تو امام مالک نے فرمایا کہ فتوی اسی شخص کے لئے درست ہے جو لوگوں کے اختلافات کو جانتا ہو۔ پوچھا گیا کہ اہل رائے یعنی فقہاء کے اختلافات ؟تو امام مالک نے فرمایا،نہیں صحابہ کے اختلافات۔‘‘

لغوی معنی کے ساتھ اہل رائے کا لفظ احناف کے لیے بطور علم کے بھی استعمال ہوتا ہے ،اس لئے اس کا عمومی استعمال حنفیہ کے لئے ہوتا ہے ،حنبلی عالم سلیمان الطوفی لکھتے ہیں:

واما بحسب العلمیۃ فھو فی عرف السلف علم لاھل العراق وھم اھل الکوفۃ ابوحنیفۃ ومن تابعہ منھم (۷۲)

’’علمیت کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اہل رائے کا لفظ سلف کے عرف میں اہل عراق کا علم ہے، یعنی فقہائے کوفہ امام ابوحنیفہ اور ان کے متبعین۔‘‘

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اہل رائے کا لفظ لغوی اور اضافی معنی کے اعتبار سے مطلقاً فقہاء کے لیے استعمال ہوتا ہے ،البتہ علم ہونے کے اعتبار سے یہ فقہائے حنفیہ کا لقب ہے۔

اہل حدیث کی اصطلاح اور اس کا مصداق

اہل حدیث کا لفظ قرن اول سے ان لوگوں کے لئے استعمال ہونے لگا ،جن کا مشغلہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور تقریرات سے وابستگی تھا ،خواہ ان کا فقہی تعلق جس مسلک سے بھی ہو ،پھر یہ وابستگی درس و تدریس اور تعلیم و تعلم کی شکل میں ہو یا تصنیف و تالیف کی شکل میں ہو۔ائمہ اربعہ کے زمانے سے ہی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہونے لگا۔

امام شافعی الام میں ایک حدیث پر ایک ممکنہ اعتراض وارد کر کے لکھتے ہیں:

فان قال لک قائل اھل الحدیث یوھنون ھذا الحدیث (۷۳)

’’اگر کہنے والے نے کہا کہ اہل حدیث یعنی محدثین اس حدیث کی تضعیف کرتے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

واما الرجل من اھل الفقہ یسال عن الرجل من اھل الحدیث فیقول کفوا عن حدیثہ ولا تقبلوا حدیثہ (۷۴)

’’جب فقہاء میں سے کوئی اہل حدیث یعنی محدثین سے کسی آدمی کے بارے میں پوچھتا ہے ،تو وہ کہتا ہے کہ اس کی حدیث سے رک جاؤ ،اور اس کی حدیث قبول نہ کرو۔‘‘

اس عبارت میں اہل فقہ اور اہل حدیث کا تقابل کتنی صراحت کے ساتھ دلا لت کرتا ہے کہ اہل حدیث سے مراد یہاں محدثین ہیں۔اسی طرح حدیث ،تفسیر یا فقہ کی تمام معروف کتب میں محدثین کا ذکر "اہل الحدیث "کے لفظ کے ساتھ ہوا ہے۔نیزیہ لقب ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے ،جو حدیث کے تعلم و تعلیم سے متعلق ہو ،خواہ وہ حنفی ہو، شافعی، مالکی یا حنبلی۔

علامہ ذہبی معروف حنفی محدث اور امام بخاری کے استاد محمد بن یحییٰ الذہلی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

محمد بن یحیی بن عبد اللہ بن خالد بن فارس بن ذویب، الامام، العلامۃ، الحافظ، البارع، شیخ الاسلام، وعالم اھل الشرق، وامام اھل الحدیث بخراسان (۷۵)

اس میں حنفی ہونے کے باوجود امام ذہلی کو "اما م اہل لحدیث"کہا ،کیونکہ وہ معروف معنی میں محدثین میں سے تھے۔

معروف مالکی محدث اور اما م بخاری کے استاد محمد بن عبد ابراہیم البوشنجی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

الامام العلامۃ، الحافظ، ذو الفنون، شیخ الاسلام، ابو عبد اللہ، محمد بن ابراھیم بن سعید بن عبد الرحمن بن موسی العبدی، الفقیہ، المالکی، البوشنجی، شیخ اھل الحدیث فی عصرہ بنیسابور (۷۶)

معروف شافعی فقیہ اور خراسان کے معروف محدث ابو الولید شافعی کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

قال الحاکم: ھو ابو الولید القرشی الاموی الشافعی، امام اھل الحدیث بخراسان (۷۷)

کتب رجال میں اس کی مثالیں بکھری پڑی ہیں کہ محدثین پر اہل حدیث کا اطلاق کیا گیا ہے ،خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک اور مکتب سے ہو۔نمونے کے طور پر صرف تین مثالیں پیش کیں۔

اہل الحدیث بطور فقہی مسلک 

اس موقع پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اہل الحدیث کا لفظ محدثین کے لئے استعمال ہوتا ہے تو شروح حدیث اور کتب الخلافیات یعنی وہ کتب جن میں فقہی مسائل میں مختلف مذاہب کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں فقہی مسالک کے ساتھ اہل الحدیث کو ایک مستقل فقہی مسلک کے طور پر ذکر کیا گیا ہے،اس سے کیا مراد ہے اور اس کا مصداق کیا ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین میں سے چند معروف حضرات خصوصاً امام دادو ظاہری اور امام اسحاق بن راہویہ نے الگ الگ فقہی مکتب کی بنیاد رکھی ۔ اسی طرح مشہور محدثین جیسے اصحاب صحاح ستہ اور دیگر معروف محدثین،اگر چہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کی طرف نسبت کیا کرتے تھے ،لیکن بہت سارے مسائل میں انہوں نے اپنے فہم حدیث کی بنیاد پر مستقل موقف اپنا یا ،اور یہ موقف اکثر مسائل میں معروف محدثین کا ایک جیسا ہوتا ،اس لئے ان کی اہمیت،اور علمی مقام کی وجہ سے فقہی مسائل کے ذکر کے ضمن میں محدثین کی آرا مستقل ذکر کی جاتیں۔البتہ یہ بات ہے کہ یہ محدثین معروف معنی میں مجتہدین نہیں تھے کہ انہوں نے مستقل فقہی مکتب کی بنیاد رکھی ہو، اس کے حدود و جوانب طے کیے ہوں، اور ان کا حلقہ مقلدین ہو۔ کتب الخلافیات یا شروح حدیث میں اہل الحدیث کے لفظ سے مراد کبھی اما م دادو ظاہری، امام اسحاق بن راہویہ اور عموما محدثین کا گروہ ہوتا ہے جنہوں نے بہت سے مسائل میں مستقل موقف اپنا یا۔یہی وجہ ہے کہ فقہی آراء کے ذکر کے وقت ائمہ اربعہ کا ذکر الگ اوراہل الحدیث کا ذکر الگ کیا جاتا ہے ۔یہ بات بھی اس کی دلیل ہے کہ اہل الحدیث شوافع ،مالکیہ یا حنابلہ کی بجائے ان محدثین کے لئے استعمال ہوتاہے ،جنہوں نے مسائل میں مستقل موقف اپنایا۔ بلکہ خود شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کی کتب میں اختلافی مسائل میں اہل الحدیث کا مستقل ذکر کیا گیا ہے ۔اگر معاصر فقہاء کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ اہل الحدیث حنفیہ کے علاوہ بقیہ تین مسالک کا لقب ہے ،تو انہی مسالک کی کتب میں اہل الحدیث کے مستقل ذکر کی کیا توجیہ ہوگی؟ تخصیص بعد التعمیم والی بات اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کہ بسا اوقات محدثین کا مذہب شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کے خلاف ہوتا ہے ،تو ان کے بالمقابل اہل الحدیث کا ذکر کیا جاتا ہے۔جو ظاہر ہے کہ ان سے ایک الگ گروہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

امام نووی "المجموع "میں سعی قبل الطواف کے مسئلے میں لکھتے ہیں :

ولو سعی قبل الطواف لم یصح سعیہ عندنا وبہ قال جمھور العلماء وقدمنا عن الماوردی انہ نقل الاجماع فیہ وھو مذھب مالک وابی حنیفۃ واحمد وحکی ابن المنذر عن عطاء وبعض اھل الحدیث انہ یصح (۷۸)

اس مسئلے میں ائمہ اربعہ کا مسلک الگ ،جبکہ اہل حدیث یعنی محدثین کے ایک گروہ کا مسلک الگ نقل کیا ہے۔

ابن رشد مالکی بدایۃ المجتہد میں لکھتے ہیں :

اختلف الفقھاء فی الذی یاتی امراتہ وھی حائض، فقال مالک والشافعی وابو حنیفۃ: یستغفر اللہ ولا شیء علیہ، وقال احمد بن حنبل: یتصدق بدینار او بنصف دینار، وقالت فرقۃ من اھل الحدیث: ان وطیء فی الدم فعلیہ دینار (۷۹)

اس مسئلے میں مالکیہ ،شوافع اور حنفیہ کا مذہب الگ،حنابلہ کا الگ اور بعض اہل الحدیث یعنی بعض محدثین کا مسلک الگ نقل کیا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اہل الحدیث کا شمار بطور فقہی مسلک ائمہ اربعہ میں سے کسی میں نہیں ہوتا۔

معروف حنبلی فقیہ ابن قدامہ "المغنی "میں شہادت کے ایک مسئلے سے متعلق لکھتے ہیں :

قال احمد: ولا یقبل الا شاھدان، وقال طائفۃ من اھل الحدیث: یقبل شاھد ویمین (۸۰)

شوافع ،مالکیہ اور حنابلہ کی کتب کی ان عبارات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل الحدیث ان تین گروہوں میں سے کسی میں شامل نہیں ہے اور خود انہی مسالک کی کتب میں اہل الحدیث کو الگ اور ممتاز گروہ کے طو رپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ اہل الحدیث یعنی محدثین کی فقہی آراء پر عصر حاضر میں مستقل کام ہوا ہے ۔اس سلسلے میں خاص طور پر ڈاکٹر عبد المجید محمود کی مایہ ناز کتاب "الاتجاھات الفقھیۃ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الھجری" اس بارے میں اہم ترین کاوش ہے۔مصنف نے اس کتاب میں تفصیل سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ محدثین ائمہ اربعہ کی طرف نسبت کے باوجود فقہی اعتبار سے الگ آراء رکھتے تھے۔اس لئے فقہی اختلاف کے وقت ائمہ اربعہ کے ساتھ اہل الحدیث کا مستقل ذکر کیا جاتا تھا۔چنانچہ لکھتے ہیں :

لکن الفقھاء الذین یعنون بذکر المذاھب الفقھی و اختلاف العلماء یسوقون امثال مالک والثوری والاوزاعی کاصحاب مذاھب مستقلۃ، ثم یعطفون علیھا مذھب اھل الحدیث (۸۱)

’’البتہ وہ فقہاء جنہوں نے مذاہب فقہیہ اور علماء کے اختلافات کے ذکر کا اہتمام کیا ہے ،وہ ائمہ مجتہدین یعنی اما م مالک ،امام ثوری اور امام اوزاعی کا ذکر کرنے کے بعد اس پر اہل حدیث کے مذہب کا عطف کر کے الگ ذکر کرتے ہیں۔‘‘

بحث کا خلاصہ 

اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ فقہائے تابعین اور ائمہ اربعہ کی اہل رائے اور اہل حدیث میں تقسیم کرتے ہوئے احناف کو اہل رائے جبکہ بقیہ تینوں ائمہ کو اہل حدیث کے طبقے میں شامل کرنا محل نظر ہے۔ اس بارے میں جو اسباب اور وجوہات بیان کی جاتی ہیں، وہ تاریخی اعتبار سے مخدو ش ہیں ۔ اس غلط فہمی کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ چونکہ اہل رائے اضافی معنی کے ساتھ احناف کے لیے بطور لقب اور علم کے بھی استعمال ہوتا ہے، اس لیے مفہوم مخالف سے یہ سمجھ لیا گیا کہ اہل حدیث بقیہ تینوں مذاہب کا لقب ہے۔ حالانکہ اہل الحدیث کا لقب صرف ان حضرات کے لئے استعمال ہوتا ہے ،جنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ،افعال اور تقریرات کی حفاظت ،تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، جنہیں عرف میں محدثین کہا جاتا ہے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی فقہی مکتب سے ہو۔

حوالہ جات

۳۷۔مناع ،خلیل القطان ،تاریخ التشریع الاسلامی ،ریاض ،مکتبۃ المعارف للنشر و التوزیع ،ص ۲۹۱

۳۸۔ایضاً ،ص۲۹۳

۳۹۔ابن قیم الجوزیہ ،ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر ،اعلام الموقعین ،ریاض ،دار ابن الجوزی ، ۳۲۴۱ھ،ج۱ ،ص ۲۸

۴۰۔ ابو زہرہ ،محمد ،حیاۃ مالک ،دار الفکر العربی ،ص ۱۶۳

۴۱۔ ابن قیم الجوزیہ ،ابو عبد اللہ محمد بن ابی بکر ،اعلام الموقعین ،ریاض ،دار ابن الجوزی، ۱۴۲۳ھ،ج ۱ ص ۲۸

۴۲۔الذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد ،تذکرۃ الحفاظ ،بیروت ،دارلکتب العلمیہ ، ۱۴۱۹ ھ،ج۱ ،ص۱۱۸

۴۳۔ المزی ،جمال الدین ،ابو الحجاج ،تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ، بیروت ،موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۸، ھ،ج ۱۰، ص ۱۵۰

۴۴۔ ایضاً۔

۴۵۔ الفرفور ،صالح عبد اللطیف ،تاریخ الفقہ الا سلامی ،بیروت ،دار ابن کثیر، ۱۴۱۶ھ، ص ۳۶

۴۶۔ الامام ،مالک بن انس ،المدونہ الکبری ،بیروت دارلکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، ج ۱، ص ۴۰۵

۴۷۔ ایضاً ،ج۲، ص ۲۱۷

۴۸۔ ایضاً ،ج۲ ،ص ۵۶۹

۴۹۔ ایضاً ، ج ۳، ص ۸۹

۵۰۔ ایضاً ،ج ۳، ص ۴۲۱

۵۱۔ الشافعی ،محمد بن ادریس ،الام ،بیروت ،دارلمعرفۃ،ج۲ ،ص ۶۱

۵۲۔ ایضاً،ج۲ ،ص۶۳

۵۳۔ ایضاً ،ج۲ ،ص۶۴

۵۴۔ ایضاً۔

۵۵۔ ایضاً 

۵۶۔ الشیبانی ،ابو عبد اللہ محمد بن الحسن الجامع الصغیر ،کراتشی ،ادارۃ القران و العلوم الاسلامیہ ،۱۴۱۱ھ،ص ۱۲۱

۵۷۔ ایضاً،ص ۱۷۷

۵۸۔ ایضاً،ص ۱۸۰

۵۹۔ ایضاً،ص ۴۵۰

۶۰۔ ایضاً،ص ۴۹۸

۶۱۔ ابو زہرہ، محمد، حیاۃ مالک، دار الفکر العربی، ص ۱۷۹

۶۲۔ الزرقاء، مصطفی احمد ،الفقہ الاسلامی ومدارسہ ، بیرورت ،الدار الشامیہ ،۱۴۱۶ھ،ص ۵۹

۶۳۔ البیہقی ،ابو بکر احمد بن الحسین ،السنن الکبری،بیروت دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ،ج ۷ ، ص۴۰۰

۶۴۔ الجوہری ،ابو الحسن علی بن الجعد ،مسند ابن الجعد ،بیروت ،دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ھ،ص ۷۹

۶۵۔ الدارمی ،عبد اللہ بن عبد الرحمن ،سنن دارمی ، ریاض ،دارلمغنی ،۱۴۱۲ھ، رقم الحدیث۲۹۱۷

۶۶۔ البصری ،ابو الحسین محمد بن علی ،المتعمد فی اصول الفقہ ،المعہد العلمی ،دمشق، ۱۳۸۴ھ،ج۲ ،ص ۲۸۰

۶۷۔ الطوفی ،نجم الدین سلیمان بن عبد القوی ،شرح مختصر الروضۃ، ریاض ،وزارۃ الشوون الاسلامیہ، ۱۴۱۹ ،ج ۳، ص ۲۸۹

۶۸۔ الکشمیری، محمد انو رشاہ ،العرف الشذی ،بیروت ،دار احیا ء التراث العربی، ۱۳۲۵ھ،ج ۲، ص ۲۶۸

۶۹۔ ابن تیمیہ ،تقی الدین ،الفتاوی الکبری،بیروت ،دارلکتب العلمیہ، ۱۴۰۸ھ،ج۳،ص ۱۹۳

۷۰۔ ابن قتیبہ ،ابو عبد اللہ محمد بن مسلم ،المعارف ،قاہرہ ،دا ر المعارف ،ص ۴۹۴

۷۱۔ ابن حزم ،ابو محمد علی ابن احمد ،الاحکام فی اصول الاحکام ،بیروت ،دا ر الآفاق ،ج۶،ص ۱۷۷

۷۲۔ الطوفی ،نجم الدین سلیمان بن عبد القوی ،شرح مختصر الروضۃ، ریاض، وزارۃ الشوون، ۱۴۱۹ھ، ج ۳، ص ۲۸۹

۷۳۔ الشافعی ،محمد بن ادریس ،الام، بیروت ،دا ر المعرفۃ، ج۳ ،ص ۸

۷۴۔ ایضاً،ج۶، ص ۶۰۲

۷۵۔ الذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد ،سیر اعلام النبلاء،بیروت ، موسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۵ ھ،ج ۱۲ ،ص ۲۷۳

۷۶۔ ایضاً، ج ۱۳، ص ۵۸۱

۷۷۔ ایضاً،ج ۱۵، ص۴۹۵

۷۸۔ النووی، ابو زکریا محی الدین بن شرف، المجموع شرح المہذب، مصر، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ،ج ۸، ص ۷۸

۷۹۔ القرطبی ،ابن رشد،بدایۃ المجتہد،بیروت ،دارلفکر، ۱۴۲۴ھ،ج ۱، ص ۱۱۵

۸۰۔ ابن قدامہ ،موفق الدین ابو محمد عبد اللہ بن محمد،المغنی،ریاض ،دار عالم الکتب، ۱۴۱۷ھ،ج ۱۳، ص۷۴

۸۱۔ عبد المجید محمود ،الاتجاہات الفقہیہ عند اصحاب الحدیث فی القرن الثالث الھجری، ،مکتبۃ الخانجی، ۱۳۹۹ھ، ص ۱۳۶

آراء و افکار

(نومبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter