تمام انسانی تہذیبیں اور ثقافتیں زندہ مخلوق (نامیاتی اجسام) کے مانند ہوتی ہیں۔ جس طرح ہر جاندار مخلوق زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتی ہے، بچپن، جوانی، بڑھاپا، پھر موت، یہی حال تمام انسانی تہذیبوں کا ہے۔ تہذیبیں پیدا ہوتی ہیں، عروج پاتی ہیں، پھر زوال کا شکار ہو کر مٹ جاتی ہیں۔
دنیا کی جتنی بھی تہذیبیں ہیں، وہ تین چیزوں کا ملغوبہ ہوتی ہیں (۱) وہ گزشتہ تہذیبوں کے کھنڈرات پر قائم ہوتی ہیں یعنی گزشتہ تہذیبوں کے بچے کھچے آثار و باقیات یا تلچھٹ۔ (۲) ہر تہذیب کسی آسمانی وحی یا کچھ مفکرین و دانشوروں کے تصورات و افکار پر مبنی ہوتی ہیں۔ (۳) ہر تہذیب پر خطہ و ملک کا ماحول، عقائد و رسوم اثر انداز ہوتے ہیں۔
موجودہ مغربی تہذیب یونانی فلاسفہ اور مفکرین کے تصورات و افکار اور یونان و روم کی بت پرستانہ عزائم اور رسوم اور وہاں کی گزشتہ تہذیبوں کے مابقی اثرات و باقیات کا ملغوبہ ہے۔ بدقسمتی سے مغرب کے فکر و فلسفہ اور عقائد و رسوم پر آسمانی تعلیمات کی پرچھائیں بہت کم پڑی ہیں۔ اگر کچھ آسمانی تعلیمات کسی طرح مغرب میں پہنچ بھی گئیں تو مغرب نے انہیں بدل کر اپنے رنگ میں رنگ لیا، جیسے مسیحیت جس پر حضرت مسیح کے عقائد و تعلیمات کا اثر بہت کم اور ایک مغربی رومی باشندے (سینٹ پال) کے نسل پرستانہ اور رومی دیومالائی عقائد و رسوم و قوانین کا اثر بہت زیادہ رہا ہے۔ اس طرح مسیحیت یا عیسائیت دائمی افادیت کی آسمانی تعلیمات سے کٹ کر انسانی فکر و فلسفہ اور عقائد و رسوم کا مذہب بن کر رہ گئی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ تمام تہذیبیں جغرافیائی حالات اور نسلی و قومی احتیاجات و ضروریات کی پیداوار ہوتی ہیں۔
البتہ اسلامی تہذیب، تہذیبوں کے ظہور اور ان کے عروج و زوال کے اس عمومی قانون سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ کوئی نسلی و قومی نامیاتی جسم نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظریہ و فکر کا نتیجہ ہے۔ اس کی اساس جغرافیائی، نسلی و قومی عوامل کے بجائے ایک ایسے دین اور فکر و عقیدے و تعلیمات پر ہے جس کی حیثیت دائمی و ابدی ہے۔ نزول قرآن کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جو قرآنی عقیدہ و تعلیمات سے پیدا ہوئی۔ قرآن کریم خالق کا کلام اور خالق کی صفت ہے۔ جس طرح خالق کی ذات و صفات دائمی و ابدی ہے، اس پر زمانہ اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ وہ زمانہ پر حاوی و غالب ہے، یہی حال خالق کے عطا کردہ عقیدہ و فکر اور تعلیمات کا ہے۔ یہ زمانہ سے ماورا ہے اور اس کی افادیت ہر ہر دور کے لیے ہے، یعنی دنیا کی تمام تہذیبوں کی طرح اسلامی تہذیب نہ کسی سابقہ تہذیب کے کھنڈرات و تلچھٹ پر ہے، نہ اس پر کسی مفکر و دانشور کے فکر و فلسفہ کا ذرہ برابر اثر ہے، نہ عرب کے سابقہ عقائد و رسوم، عادات و طرز زندگی کا۔ وہ اس قدر حساس ہے کہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو ایک خاص درجہ دینے کے باوجود عبادات تک پر ان کی تحریک شدہ آسمانی تعلیمات کا بھی ذرہ برابر اثر قبول نہیں کرتی۔ حالت نماز میں آپؐ کو علم ہوتا ہے کہ یہود کا امام محراب کے اندر کھڑا ہوتا ہے، آپؐ ایک لمحہ توقف کے بغیر اسی وقت محراب کے باہر ہو جاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو اگر وہ بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں تو تم مخالفت کر کے اس کے آگے یا پیچھے ایک روزہ اور بڑھالو‘‘۔ وہ معاشرت کے معمولی سے معمولی عمل کے لیے الگ ضابطہ رکھتی ہے، معاشرتی امور، کھانا پینا، لباس، حجامت بنوانا، جوتا پہننا، اور استنجا کرنے میں بھی گزشتہ کسی تہذیب کا کوئی اثر قبول نہیں کرتی بلکہ اس میں بھی قرآن و سنت مستقل رہنمائی دیتی ہے۔
ہمیں یہ حقیقت نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب مسلمان فقہا و متکلمین کے اذہان پر قرآن کے بجائے مغرب (یونان) کے فلاسفہ کے انسانی علوم و افکار نے غلبہ پا لیا اور ان کی بنیاد پر قرون وسطیٰ کے فقہا و متکلمین نے اپنی فقہی و کلامی تعبیرات کو اپنے اپنے عہد کے سیاسی، سماجی و تمدنی حالات اور احتیاجات کے رنگ میں بیان کرنا شروع کیا، جس کی وجہ سے وہ قرآن کے عطا کردہ تفکر سے جو تخلیقیت و ابداعیت سے مملو ہے (یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے اور اس کی ہر تخلیق بغیر کسی سابقہ نمونہ کے ہے) اس تفکر سے دور ہوگئے۔ ابتدائی صدیوں میں جب مسلمان اللہ کی ان صفات سے متصف تھے، تب سینکڑوں نئے علوم جن کا دنیا میں وجود نہ تھا اور ہر علوم اور شعبہ میں ہزارہا نئی نئی چیزیں ایجاد کر کے پوری انسانیت کے محسن اور نفع دینے والے بن گئے تھے۔ لیکن جب وہ یونانی علوم اور افکار کے اسیر ہوئے تو اس نے ان فقہا و متکلمین کے اذہان کے سوتوں کو خشک کر دیا۔ اس کی وجہ سے علوم میں پھیلاؤ اور نئی نئی ایجادات بند ہوگئیں اور دینی تفکر میں جدت اور ایج ختم ہوگئی جس کی وجہ سے اسلامی تہذیب و فکر تروتازہ اور زندہ و توانا رہتی تھی، یعنی مسلمانوں کی فکر و علوم میں تخلیقیت و ابداعیت نہ رہنے کی وجہ سے ان کی فکر و تہذیب فرسودہ اور کہنہ ہو کر بانجھ بن کر رہ گئی۔
متاخرین کی جس فکر کو آج شریعت قرار دیا جا رہا ہے، اگرچہ وہ قرآن و سنت سے مستنبط و ماخوذ ہے مگر زیادہ تر گزشتہ ادوار کے علماء و فقہاء کے اجتہادات و استنباطات پر مشتمل ہے جو اس دور (قرون وسطیٰ) کی ضروریات تھیں۔ مگر آج تہذیب و فکر کے ارتقاء کے ساتھ اس کی اکثر جزئیات بے جوڑ ہوگئی ہیں۔ قرون وسطیٰ کے فقہ و کلام پر ارسطا طالیسی اور نو فلاطونی منطق و فلسفہ کا گہرا اثر ہے اور قدیم فلسفہ و علم آج اپنی معنویت اور قدر و قیمت کھو چکا ہے۔ اس لیے قرون وسطی کے فکر و فلسفہ کی طرح ان سے متاثر کلام و فقہ بھی نئی نسل کے جدید ذہن کو اسلام کے بارے میں مطمئن کرنے میں ناکام ہے اور اس کا نتیجہ ہماری نئی نسل میں تجدید اور مغربیت کے فروغ اور غلبہ کی صورت میں نکلا ہے۔ جدید تعلیم یافتہ نسل نے اسلام کے احکام و تعلیمات اور اس کی تہذیب و تمدن کو عصر حاضر میں غیر متعلق کہنہ و فرسودہ سمجھ کر اس سے کنارہ کشی کر لی ہے اور مغربی تصورات، قانون، نظام، افکار و خیالات، اور معاشرت و تہذیب کو یہ سمجھ کر اپنا لیا ہے کہ اس سے موجودہ مسائل کا حل مل جائے گا۔
ایسے حالات میں علماء کرام کے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ اسلام کے اصلی و حقیقی سرچشموں کی طرف لوٹتے یعنی قرآن و سنت اور شروع دور کی تعبیرات و تشریحات کی طرف۔ اور ان دائمی و ابدی سرچشمۂ حیات میں ازسرنو غور و خوض کرتے، آج کے مسائل کا حل نکالتے اور فقہ و کلام دونوں کو قرون وسطیٰ کے یونانی علوم کی دبیز تہوں سے آزاد کرا کے دور حاضر کے مسائل کے حل کے لیے جدید علم کلام اور جدید فقہ کو سامنے لاتے جو براہ راست قرآن و سنت سے ماخوذ ہوتا، جس سے حقیقی اسلام اپنی فطری و سادہ حالت میں نگاہوں کے سامنے آتا اور فقہ و کلام جو درمیانی دور میں یونانی فکر و فلسفہ کے غلبہ کی وجہ سے اس دور کے شارحین فقہ و کلام کی تعبیرات و تشریحات کی دبیز تہوں کے نیچے دب کر رہ گیا تھا، اس سے آزاد ہو جاتا۔ کیونکہ اسلام کا اصل ماخذ تو قرآن حکیم اور سنت رسولؐ ہی ہے، تمام اسلامی علوم و فنون اور تصورات و افکار کو ان دونوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے مصالح و ضروریات اور تقاضوں کی رعایت بھی ضروری ہے جس طرح آج سے پانچ چھ سو سال پہلے کے علماء فقہاء و متکلمین نے اپنے دور کے مصالح و تقاضوں کی رعایت کی۔ ظاہر ہے آج کے علماء (فقہاء و متکلمین) کو آج کے مصالح و تقاضوں کی رعایت کرنی ہوگی۔ بدقسمتی سے گزشتہ چند صدیوں سے علماء نے اپنے پیشرو حضرات یعنی قرون وسطیٰ کے فقہاء و متکلمین کے افکار و خیالات اور نتائج فکر و استنباطات کو شریعت کے میدان میں دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ ان کے سامنے قرآن و سنت سے زیادہ متاخرین کے اقوال و افکار اور نتائج فکر رہے جبکہ ہر دور میں دینی فکر کی تازگی، احیاء و تجدید کے لیے اصلاً قرآن و سنت اور سیرت سامنے رہنا ضروری ہے۔
انسان کی فطرت ازل سے یکساں رہی ہے اور رہے گی۔ وہ اپنی جسمانی ضرورتوں کے ساتھ روحانی و وجدانی ضروریات بھی رکھتا ہے۔ عصر حاضر میں مذہب کے زوال کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ جدید انسان کی فطرت و جبلت میں کوئی جوہری تبدیلی واقع ہوگئی ہے اور وہ اپنے افعال اور دلچسپیوں کو روحانی مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کی جبلی و فطری خواہش سے محروم ہوگیا ہے۔ ہر انسان آج بھی مذہب کی احتیاج و ضرورت ویسے ہی محسوس کرتا ہے جیسے پچھلی نسلیں محسوس کرتی تھیں۔ کیونکہ مذہب ہی خیر و شر، نیکی و بدی، حق و باطل اور صحیح و غلط کے مابین فرق و امتیاز کا ایک مستند معیار و کسوٹی رہا ہے اور رہے گا۔ مذہب و عقیدہ کے بغیر کوئی قطعی و یقینی کسوٹی ایسی نہیں رہ جاتی جس پر انسانی زندگی کے اغراض و مقاصد اور اس کے اعمال و افعال کی اخلاقی حیثیت کو جانچا جا سکے، اور یہ وظیفہ اور میدان سائنس و ٹیکنالوجی یا سماجی علوم کا نہیں ہے۔
اول تو مغرب کے حصہ میں سینٹ پال کی تحریف کردہ خلاف فطرت و خلاف عقل مسیحیت آئی، دوسرے یورپ میں مذہب و سائنس کے مابین کشمکش میں مذہبی طبقہ (چرچ) کے ناعاقبت اندیش غلط رویہ کے باعث مذہب کے عملی زندگی سے اخراج کے سبب مغرب کا انسان اخلاقی نامرادی (Ethical Frustration) اور انارکی میں مبتلا ہو کر رہ گیا جس کی وجہ سے ساری اخلاقی حدود کو بالائے طاق رکھ کر ہر کمزور و ناتواں اقوام پر غلبہ و بالادستی اور ان کا ہر طرح سے استحصال اس کی جبلت و فطرت بن گئی ہے جس کے سبب دنیائے انسانیت میں سفاکی و سنگدلی کے مظاہرے ہیں۔ یہ سب اسی اخلاقی نامرادی کے مختلف مظاہر و علامات ہیں۔ انسانوں کے درمیان نفرت و خونریزی ہمیشہ سے مغرب کی جبلت و فطرت رہی ہے۔ گہرائی سے مغرب کا جائزہ بتاتا ہے کہ مغربی تمدن کی بنیاد استعمار پر ہے۔ استعمار کا مطلب ہے کمزور لوگوں کو اپنی طاقت کے شکنجے میں جکڑے رکھنا۔ اور استعمار کے ہاتھوں جکڑی ہوئی اقوام و ممالک کو اپنی آزادی کے لیے ہاتھ پیر مارنے کی بھی اجازت نہیں۔ استعمار مغرب کی پانچ ہزار سالہ تاریخ و تمدن کا خلاصہ ہے۔
گزشتہ صدیوں میں مغرب کے غلبہ کے بعد دنیا کا کونسا خطہ ہے جہاں لاکھوں کروڑوں لوگ مغربی استعمار کے ہاتھوں ہلاک نہیں ہوئے۔ دو پورے براعظم (آسٹریلیا اور امریکہ) کی اصلی آبادی کا صفایا کر دیا گیا۔ امریکہ کا سب سے بڑا دیوتا (جس کے امریکہ میں سب سے زیادہ مجسمے ہیں) کولمبس نے سترہویں صدی میں ۳۵ لاکھ ریڈ انڈین کا قتل عام کیا۔ ان بے چاروں کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کا قصور کیا ہے۔ دوسری طرف سوشلزم کے ہیرو اسٹالن نے اپنے غلط فلسفہ کی خاطر چھ کروڑ معصوم لوگوں کو قتل کیا۔ ہٹلر اگر جنگ جیت گیا ہوتا تو مغرب کا سب سے بڑا ہیرو اور دیوتا ہوتا۔ استعماری ذہنیت کی خاطر دو عظیم جنگوں میں آپسی تباہی کے بعد مغربی دجالوں نے ٹیبل پر طے کیا کہ اب ساری ہلاکتیں مغرب کے باہر ممالک میں کریں گے۔
مغرب کی سینٹ پالی مسیحیت میں شروع ہی سے دین و دنیا کی تقسیم کا غلط عقیدہ آیا تھا جب مغرب نے حضرت مسیح کے بجائے سینٹ پال کے افکار و نظریات پر اپنے مذہب کی بنیاد رکھی۔ اس نے دین و دنیا، روح و مادہ کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ گویا مغرب کے موجودہ سیکولرزم کی بنیاد پہلے ہی سینٹ پال کی مسیحیت نے فراہم کی تھی۔ شروع ہی سے اس کے معتقدات و اصول غیر عقلی، ناقابل فہم، اور ناقابل عمل تھے۔ جب تک چرچ اور پوپ کے پاس جبر و طاقت رہی لوگ جبراً و قہراً مانتے رہے، جیسے ہی چرچ و پوپ کی طاقت کو زوال ہوا انسانی فطرت اس کو برداشت نہ کر سکی۔
اس کے برخلاف اسلام کے عقائد و اصول سب کچھ فطری، عقلی اور قابل فہم ہیں۔ اس میں اور انسانی فطرت میں، اس میں اور عقل و سائنس میں کہیں بھی کوئی تصادم و کشمکش نہیں ہے۔ اس لیے مذہب کا ماضی کی ایک فرسودہ و ناکارہ متاع ہونا اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہونا سینٹ پال مسیحیت اور دیگر مذاہب کی حد تک تو واقعی درست ہے مگر یہ تصور اسلام کے حوالہ سے کوئی معنٰی نہیں رکھتا۔ اسلام تو طلب علم اور مشاہدہ کائنات کی تحریک ہے۔ وہ ہر وقت انسانوں کو تعقل، تدبر، اور تفکر کی تلقین کرتا ہے۔ مگر آج ہماری اصل بدنصیبی یہ ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء اسلام کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، وہ اصلی و حقیقی اسلام کی تصویر کم اور قرون وسطیٰ کے فقہاء و متکلمین جو مغربی (یونانی) افکار و تصورات سے متاثر و مرعوب ہوگئے تھے، ان کی ذہنی و فکری تعبیرات و تشریحات کا ملغوبہ زیادہ ہے۔ قرون وسطیٰ کے مصالح و تقاضوں سے متاثر تعبیرات موجودہ زندگی کے فکری و عملی مسائل کے حل میں بہت کم رہنمائی کرتی ہیں۔ صدیوں پرانی کلامی و فقہی تعبیرات جو حقیقتاً اپنے اپنے دور کی سیاسی، معاشی، سماجی و تہذیبی اور تمدنی حالات و مصالح اور ضروریات کی پیداوار تھیں، انہیں حالات حاضرہ کے مسائل و چیلنجز پر من و عن منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا افسوس ناک نتیجہ یہ نکلا کہ عالم اسلام کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذی اقتدار و اختیار طبقہ نے ان تعبیرت کو فرسودہ اور موجودہ حالات میں غیر منطبق دیکھ کر وہ اسلام ہی کی افادیت کے متعلق شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا اور وہ مغرب کے نظام و قانون، سیاست و طرز تعلیم اور تہذیبی و معاشرتی اقدار کو مسلم معاشروں پر مسلط کرتا جا رہا ہے۔
مغرب کی تمام سیاسی و قانونی تصورات و اصطلاحات جیسے ڈیموکریسی، سوشلزم، لبرل ازم، سیکولرزم، یہ سب مغرب کی صدیوں پر محیط مذہبی، تہذیبی، سماجی و تمدنی تصورات اور عقائد و رسوم سے وابستہ ہیں۔ یہ تمام مغربی تصورات مشرقی اقوام کے تصورات خصوصاً اسلامی نظریہ و فکر سے متصادم ہیں، ان کے اسلامی معاشروں پر اطلاق کا مطلب اسلامی معاشرے کو صرف مغرب کی تاریخی تہذیبی و فکری و سیاسی زاویہ نگاہ سے دیکھنا ہے جو مشرق کے کسی ایسے مذہب پر بھی فٹ نہیں بیٹھتی جس کا تعلق آسمانی تعلیمات و ہدایات سے کٹ گیا ہو جیسے ہندو معاشرہ یا بدھسٹ معاشرہ۔ اسلام جو اپنے وجود میں آنے سے ابتک ایک لمحہ کے لیے بھی آسمانی تعلیمات سے کٹ نہیں ہوا، اس پر ان تصورات و اصطلاحات کا انطباق کیسے ہو سکتا ہے۔ بقول علامہ سید سلمان ندوی کے اسلامی حقائق کو زمانہ کے ماحول کے مطابق مروجہ اصطلاحات میں ادا کرنا ہمیشہ تعبیر حقائق سے زیادہ تغییر حقائق کا باعث ہوا ہے۔ مثلاً بیسویں صدی میں جن مفکرین نے اسلام کو ایک تحریک قرار دیا وہ بلا ارادہ اسلام کی تغییر کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ Movement (تحریک) کا لفظ ایک تمدن و فکری پس منظر رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اسلام ہرگز کوئی نیا مذہب نہیں ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں وجود میں آیا بلکہ اس آسمانی پیغام کا تسلسل و استمرار ہے جو پیغمبر اسلام سے پہلے حضرت عیسٰیؑ ، حضرت موسٰیؑ ، حضرت داؤدؑ ، حضرت سلیمانؑ ، حضرت اسحاقؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، حضرت نوحؑ ، اور حضرت آدمؑ نے دیا، خالق و مخلوق کے درمیان اسی ارتباط کا نام مذہب ہے۔
آسمانی تعلیمات یا ربانی رشد و ہدایت کے بجائے محض انسانی عقل و فہم کے ذریعہ وضع کردہ قوانین و ضابطے اور معیارات خیر و شر عالم انسانی سے ظلم و نا انصافی اور استحصال کو ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی بنی نوع انسان کے اخلاقی روحانی اور مادی فلاح و کامیابی کا موجب بن سکتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی قوم یا طبقہ کے وضع کردہ قوانین و ضابطے ہوں یا خیر و شر کے معیارات، وہ ان کے ذاتی، نفسیاتی اثرات اور ملکی و قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں، اس میں ابدی استواری و معروضیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس لیے وہ اقوام عالم میں جاری آویزش و کشمکش مٹا کر ان کے درمیان اتحاد و یگانگت کا سبب و ذریعہ نہیں بن سکتے۔ خاص طور پر سیکولرزم یعنی دین و قانون اور سیاست کی علاحدگی کے تصور نے دنیا میں اخلاقی، روحانی، عمرانی، تہذیبی و سیاسی ابتری کو پروان چڑھایا اور اقوام کے مابین کشمکش و مخاصمت کو بڑھایا ہے اور انسانی معاشروں کو حقیقی راحت و شادمانی اور امن و سکون سے دور کر دیا ہے۔ اس کے برخلاف آسمانی تعلیمات پر انسان اور معاشرہ کی مادی، حیاتیاتی و روحانی تقاضوں کی تکمیل کرتی ہیں۔ کیونکہ اس کے قوانین اور ضابطوں میں ثبات کے پہلو بہ پہلو تغیر کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ خالق ہی مخلوق کے ہر طبقہ کے مصالح و مفادات کو ملحوظ رکھ سکتا ہے۔
یورپ کو انقلاب فرانس کے بعد سینٹ پال کے غیر فطری، غیر عقلی مذہب سے تو نجات حاصل ہوگئی جو ایک خبیث جن و بھوت کی طرح مغرب کے عقل و شعور پر مسلط تھا مگر مسیحؑ کے اصل دشمن یہود مغرب کی اقتصادیات، ذرائع ابلاغ و سیاست پر پوری طرح حاوی ہوگئے بلکہ مغرب کے فکر و فلسفہ کی باگ و ڈور بھی اپنے ہاتھوں میں لے کر مغرب کو ایک روبوٹ کی طرح اپنے اشاروں پر چلا رہے ہیں۔ پوپ کی تباہ کاریاں یورپ تک محدود تھیں مگر صیہونیوں کی پوری دنیا تک وسیع ہیں۔ تقریباً پینتیس سال پہلے ایک صیہونی اسکالر سمویل ہنٹنگٹن نے مغرب کو تہذیبوں کی جنگ کا فلسفہ دے کر مغرب کو عالم اسلام سے بھڑا دیا، یعنی مستقبل میں دنیا میں جنگیں تہذیبوں کی بنیاد پر ہوں گی اور مغربی تہذیب کو اصل خطرہ اسلامی تہذیب سے ہے۔ یہاں بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کا مقولہ یاد آتا ہے کہ تہذیبیں نہیں ٹکراتیں، وحشتیں ٹکراتی ہیں، علوم نہیں ٹکراتے، جہالتیں ٹکراتی ہیں۔ کیونکہ مہذب ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ انسان عقل و انصاف پر چلے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب نے صیہونیوں کے ایماء پر رقص کرتے ہوئے اسلام کے خلاف تہذیبی جنگ شروع کر دی ہے۔ اس جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کے لیے موساد اور امریکی صیہونی لابی نے نائن الیون کروا کر تہذیبی جنگ میں مزید شدت پیدا کر دی۔ مغرب نے کچھ عرصہ سے تہذیب کے لیے ایک نیا عنوان ’’مین اسٹریم‘‘ تراشا ہے۔ مین کا لفظی ترجمہ سب سے بڑا، اہم یا بنیادی اور اسٹریم ندی یا دریا کو کہتے ہیں۔ دوسرا لفظ تہذیب کے لیے ’’لائف اسٹائل‘‘ اختیار کیا ہے۔
دنیا میں پہلے انسان حضرت آدمؑ کے وقت سے یہ تہذیبی لائف اسٹائل یعنی طرز زندگی کی جنگ جاری ہے۔ ایک لائف اسٹائل وہ ہے جو خالق کائنات نے ہر دور میں پیغمبروں کے ذریعہ عطا کیا اور دوسرا لائف اسٹائل اللہ کے پیغمبروں کی ضد اور مخالفت میں انسانوں نے اپنے نفس کی خواہش کے مطابق اختیار کیا۔ مثلاً حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا لائف اسٹائل غیر فطری عمل (Gay) تھا اور یہ عین جمہوری مزاج کے مطابق ان کا مین اسٹریم یا قومی دھارا تھا۔ پوری قوم میں محض گنتی کے چند نفوس اس مین اسٹریم کے خلاف حضرت لوط کے ساتھ تھے۔ قوم شعیب کی تہذیب یا مین اسٹریم کم تولنا تھا، یہ بھی جمہوری یا اکثریتی قومی دھارا تھا، صرف چند لوگ حضرت شعیبؑ کے ساتھ تھے۔ ہر دور میں پیغمبروں کے مخالفین مین اسٹریم یا اکثریت (عین جمہوری) رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد مغربی تہذیب کے دو علمبرداروں امریکی صدر جارج بش اور برطانوی پرائم منسٹر ٹونی بلیئر نے اعلان کیا کہ ہم اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہمارے لائف اسٹائل (تہذیب) کے خلاف افغانستان و عراق میں جو بھی سامنے آئے گا، اسے تباہ کر دیا جائے گا۔ نائن الیون کے ایک ماہ بعد امریکی وزیردفاع رونالڈ رمز فیلڈ نے دو ارب ڈالر کی لاگت سے تیار شدہ B52 بمبار طیارے کے سامنے کھڑے ہو کر امریکی فضائیہ کے ان ہوابازوں سے جو افغانستان کے عوام کو تباہ کرنے کے لیے بمباری کے مشن پر روانہ ہو رہے تھے، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں (۱) ہم اپنے لائف اسٹائل کو یکسر بدل دیں اور ان مسلمانوں کا لائف اسٹائل اختیار کر لیں (۲) یا ہم ان کے لائف اسٹائل کو بدل دیں۔ ہم نے یہ دوسرا راستہ چنا ہے۔ اب آپ کا کام اس مشن کی تکمیل ہے۔
اب اس تہذیبی جنگ کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ افغانستان، عراق، الجزائر، لیبیا، تیونس، مصر، صومالیہ اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ اب تک مغرب اپنی تہذیب مسلط کرنے کے لیے تقریباً ایک لاکھ حملے کر چکا ہے اور یہ تہذیبی ہولی وار (مقدس جہاد) تیز تر ہوتی جا رہی ہے، اس میں بیس لاکھ کے قریب لوگ موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔ اس تہذیبی جنگ میں مغرب کی لائف اسٹائل یعنی تہذیب یا طرز زندگی کو حاوی کرنے یا تقویت پہنچانے میں تین اداروں کا بنیادی رول ہے۔ (۱) میڈیا (۲) نظام تعلیم (۳) ڈیمو کریسی، الیکشنی سیاست۔ دنیا کا میڈیا تو مکمل طور پر مغربی و صیہونی کنٹرول میں ہے، مسلم ممالک میں نظام تعلیم کو مغرب کی منشا و مزاج کے مطابق بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے، دینی مدرسہ اس کا خاص نشانہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کو دنیا میں ترقی و کامیابی کے لیے مغربی نظام تعلیم اور تمدن و اسلوب زندگی کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا عصری تعلیم گاہوں کے مسلمان اسٹوڈنٹس کو آخرت کی کامیابی و فلاح کے لیے کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں؟
تقریباً نصف صدی پہلے امریکہ کے معروف صیہونی ادارے ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے ایک رپورٹ مرتب کر کے مشورہ دیا تھا کہ مسلم ممالک کے عوام کو مین اسٹریم (مغربی تہذیب) میں لانے کا سب سے مؤثر نسخہ مغربی طرز سیاست یعنی انتخابی جمہوریت ہے۔ ہم اس کے ذریعہ مسلمانوں کو بہت سے گروپوں میں تقسیم کر کے ان میں سے اپنے کام کے لوگ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔ اول تو اسلام پسند جماعتیں الیکشن میں جیت نہیں سکیں گی۔ اگر کبھی (مصر، الجزائر کی طرح) جیت بھی گئیں تو ہم انہیں کی فوج کے ذریعہ با آسانی کچل دیں گے۔ چنانچہ مغرب پوری مسلم دنیا میں مغربی طرز سیاست یعنی ڈیموکریسی و جمہوریت کے لیے سرگرم عمل ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعہ مسلم دنیا میں مغربی لائف اسٹائل و تہذیب کا نفوذ بہت آسانی سے ہوتا ہے۔ مغرب کی اس تہذیبی یلغار کے مقابلہ کے لیے ہمارے پاس لے دے کر دینی مدارس ہیں مگر افسوس اس پر ہے کہ ہمارے علماء ماضی میں جس طرح یونانی علوم کے اسیر بن گئے تھے وہ اب مغربی فکر سیکولرزم (دین دنیا کی علاحدگی) کو عملاً قبول کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہمارا پورا دینی تعلیمی ڈھانچہ عقائد و عبادات کے گرد گھومتا ہے ، اس میں اجتماعی معاملات پر کوئی بحث و تحقیق تک نہیں ہے، اس کے نفاذ کے لیے افراد کاری کی تیاری تو دور کی بات ہے۔