طلبہ کی نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی تربیت ۔ ایک فکری نشست کی روئیداد

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

از قلم: حافظ عبد الغنی محمدی / مولانا امیر حمزہ


فی زمانہ جہاں طلباء کی ہمتیں پست اور ارادے شکست وریخت کا شکار ہیں، وہیں اساتذہ بھی پہلے جیسے اہل نہیں رہے ۔ اساتذہ طلباء کو پڑھانا تو شاید اپنا فرض سمجھتے ہیں، لیکن طلبہ کی نفسیات کو سمجھ کر ان کی اخلاقی و روحانی تربیت بالکل نہیں کرتے۔یہی غیر تربیت یافتہ طلباء جب فضلاء بنتے ہیں تو بجائے فائدہ کے نقصان کا باعث ہوتے ہیں، اپنی تربیت نہ ہونے کے سبب معاشرہ کی تربیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں ، نتیجتاً معاشرے کی صحیح خطوط پر تربیت کے فرض کو کماحقہ پو رانہیں کر پا تے ہیں۔ 

اس تناظر میں الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ۲؍اکتوبر کو علماء، فضلاء اور اساتذہ کے لیے ’’ طلبہ کی نفسیاتی، اخلاقی اور روحانی تربیت‘‘ کے عنوان سے ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں مولانا جہانگیر محمود، (ڈائریکٹر سوسائٹی فار ایجوکیشنل ریسرچ لاہور)، مولانا محمد یوسف خان صاحب استاذ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور اور پروفیسر عبد الماجد حمید المشرقی بطور مہمان خصوصی تشریف لائے ۔ نشست کا آغاز اکادمی کے طالب علم عاصم شبیر کی تلاوت سے ہوا ، اس کے بعد اکادمی کے ایک طالب علم عبداللہ ریاست نے نعت رسول مقبول ﷺ پڑھی اور پھر مولانا جہانگیر محمود صاحب کا انتہائی فکر انگیز بیان ہوا۔ 

مولانا جہانگیر محمود کی گفتگو

مولانا نے فرمایا کہ بندہ کوئی کام متواتر کر ے تو انسانی نفسیات کا حصہ ہے کہ قدر اور جذبہ ایک جیسا نہیں رہ سکتاہے۔ امام غزالی ؒ کافرمان ہے کہ انسان جب متواتر عبادت کرتا رہتا ہے تو عبادت، عادت بن جاتی ہے ، اس لیے انسان کی طبیعت کے لیے ضروری ہے کہ اعادہ اور تکرار سے اپنے جذبہ میں نیا پن پیدا کر ے۔ ایک مرتبہ مجھ پر پریشانی آگئی ۔ میں سخت پریشان تھا۔ ایک دوست کو دعا کا کہا تو اس نے کہا کہ خود کرو ۔ میں نے کہا کہ خود تو روز کرتے ہیں۔ تو وہ دوست فرمانے لگے کہ جیسے کرنی چاہیے، ویسے کرو ۔ صبح سے شام تک پڑھا پڑھا کر ہر چیز یاد ہوجاتی ہے، لیکن وہ جذبہ، جوش اور لگن نہیں رہتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کو دہرائیں ۔ تدریس سے بڑاکام کوئی نہیں ہے۔ 

بہت ملکوں کا سفر کیا، ہر جگہ پر اس پیشے کے منسلک لوگوں کے حالات بہت اچھے نہیں ہوتے۔ مدرسین کا انتخاب اللہ پاک کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے مخلص بندے ہوتے ہیں اور یہ سب سے بڑی ذمہ داری بھی ہے، اس کی تکمیل میں حساس ہونا پڑے گا۔ منصب کے ساتھ ذمہ داری اور جواب دہی بھی ہوتی ہے ۔ اترانے کی بجائے جھکاؤپیدا کرنا ذمہ داری کا احساس ہے ۔ عادت میں تجدید کس طرح پیدا کی جائے ؟ اس کا ایک مستقل جز تزکیہ ہے ۔ ہمارے دین ، تہذیب اور تربیت کا جز ہے ۔ 

تدریس رسول میں سب سے نمایاں چیز محبت تھی۔ صحابہ کا عشق ، محبت ، ایثار اور لگن اصل میں حضور ﷺکی شفقت کا رد عمل تھا۔ حضور کی محبت کا بدلہ محبت کے سوا کیا ہوسکتاہے؟ پیار مجبوری اور زبردستی میں نہیں ہو سکتا۔ عبادات : نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰ ۃ وغیرہ تو زبردستی ممکن ہے، لیکن محبت ممکن نہیں ہے ۔ 

فتح مکہ میں جو سب جھک گئے تھے تو اس کی وجہ بھی حضور کی شفقت اور محبت تھی ، تلوار کے زور پر ان لوگوں کو جھکانا ممکن نہ تھا ۔ حضور کیسے شفیق تھے، یہ بات حضرت جابر کے واقعہ سے سمجھ آتی ہے ۔ حضرت جابر کی شادی سے قبل ان سے اونٹ خریدا ، رقم دے دی۔ بعد میں رخصت کرتے ہوئے اونٹ بھی تحفہ میں دے دیا۔ ایسا مدد کرنے کے لیے کیا ، ویسے قیمت نہیں دی تاکہ عزت نفس مجروح نہ ہو ۔حضور کس قدر حساس ہیں ۔ عبدا للہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضور مسکراکر ملتے تھے، لیکن آج نہ مسکرانے کو تقویٰ کے قریب سمجھ لیا گیا ہے ۔ حضور نہ صرف خود محبت کرتے تھے بلکہ صحابہ کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے ۔ ابن مسعود کو فرمایا کہ تمہارے پاس دور دور سے طلباء آئیں گے، تم ان کا خیال رکھنا ۔ حضرت ابن مسعود طلباء کا ستقبال کرتے تھے ۔ 

محبت رد عمل کا نام ہے ، تدریس کے نظام میں اس عمل کی وہ اہمیت نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔ حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ رات کو اٹھ کر طلباء کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک کمرے میں لائٹ چل رہی ہے اور ایک طالب علم جاگ رہا ہے ۔ استفسار پر معلوم ہو ا کہ وہ طالب علم حقہ کاعادی ہے اور حقہ کے بغیر نیند نہیں آرہی ہے۔ حضرت نے خود حقہ لا کر دیا کہ ابھی پی کر سو جاؤ۔ مولانا کفیل بخاری نے حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری کا یہ واقعہ سنایا۔ شاہ صاحب ؒ قاری رحیم بخش ؒ کے شاگر تھے۔ ایک مرتبہ شاہ صاحب کی جب حضرت قاری رحیم بخش ؒ سے ملاقات ہوئی تو قاری صاحب معافی مانگنے لگے اور فرمایا کہ میں نے تمہاری پٹائی کی، لیکن اصلاح کے علاوہ کوئی جذبہ نہ تھا ۔ قاری صاحب ؒ کا یہ مشہور قول ہے کہ استاد کوہاتھ اٹھانے کا کوئی حق نہیں جب تک چالیس روز تک اس بچے کی اصلاح کے لیے تہجد میں اٹھ کر مانگ نہ چکا ہو ۔ مارا تب جائے جب مار کے علاوہ دوسرے تمام طریقے استعمال کرچکے اور اس کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تو یہ حالت تھی کہ کفار کے ایمان کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگا کرتے تھے۔ فلعک باخع نفسک اسی لیے نازل ہوئی تھی ۔ غم اور غصہ میں فرق ہے ، حضور کو غم تھا، غصہ نہیں ۔ طلباء کے لیے دعا کریں اور دعا سب سے پہلے ہے، آخری چیز نہیں ہے ، مزید برآں زبان میں نرمی پیدا کریں ۔ 

جس طرح کے استاد سے پڑھنا چاہتے ہیں، اس طرح کے بن جائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ’’لایؤمن احدکم حتی ٰ یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ‘‘ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتاہے۔ 

مولانا محمد یوسف خان کا بیان

مولانا جہانگیر محمود کے بعد مولانا محمد یوسف خان صاحب کا بیان ہو ا۔ مولانا نے اپنے بیان میں دیگر قیمتی باتوں کے ساتھ اساتذہ کے لیے اکیس رہنما اصول بیان فرمائے ۔ مولانا نے فرمایا کہ شاگرد استاد سے زیادہ نفسیات سے واقف ہوتے ہیں۔ نفسیات کتابوں یا فن کانام نہیں ہے ۔ایک جگہ چند بچے تھے جو ریاضی پڑھنا پسند نہیں کرتے تھے ، بہت سے استاذ ان کے لیے بدلے گئے، لیکن نتیجہ وہی رہا ۔ بالآ خر ایک ماہر نفسیات کو بلایا گیا ، ماہر نفسیات نے کتابوں کو بند کر کے شاگردوں کوخرگوش ، مرغیاں اور بطخوں وغیرہ سے کھلانا شروع کردیا ۔ کافی دن جب یونہی گزر گئے تو استاد نے سوچا، اب مانوس ہوچکے ہیں تو اس نے ایک دن کہا کہ دیکھو ڈربے میں کتنی مرغیا ں اور باہر کتنی ہیں ۔ تو ایک بھائی دوسرے سے کہنے لگا، لگتاہے ریاضی پڑھانے آیاہے ۔

ایک استاد کو اپنے اندر چند خصوصیات پیدا کرنی چاہیے، تبھی وہ ایک کامیاب استاد بن سکتاہے ۔ یہ خصوصیات اور اصول ہمارے بزرگ سکھاتے ہیں اور اخلاقیات میں بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ 

اخلاص

اچھا استاذ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوتاہے ۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ جس قدر بے لوث ہوگا، اس کی دلچسپی اسی قدر بڑھتی جائے گی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں اتنی ہی کم ہوتی چلی جائیں گی ۔ اخلاص وہ جوہر ہے جس سے عمل میں لذت ، تبدیلی اور احساس پیدا ہوتاہے ۔

تقویٰ

علم اور تقویٰ کاک باہم گہرا تعلق ہے ، اسی وجہ سے قرآن پاک میں خشیت الہٰی کا مدار ’’ علم ‘‘ کو قرار دیا گیاہے ۔ تقویٰ کمال کا ہو ، تقویٰ سے طلباء کے دل میں عزت وا حترام پیدا ہوتا ہے اور مدرس کی زبان میں تاثیر پیدا ہوتی ہے ۔ 

عملی نمونہ

طلبہ اپنے استاذ کو دیکھ کر اپنی عادات تبدیل کریں گے، کہنا نہیں پڑے گا ۔ طلبہ استاذ کی ایک ایک بات باریک بینی سے نوٹ کرتے ہیں ۔ ایک دن میری گھڑی خراب ہوگئی ، بیوی کی گھڑی پہن کر چلاگیا ۔ دوران درس میری پوری کوشش رہی کہ گھڑی کپڑوں میں چھپی رہے ۔ دن گزر گیا، بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ مدت بعد ایک طالب علم سے بات ہورہی تھی۔ وہ درسگاہ میں میری کسی بات کا حوالہ دے رہا تھا اور مجھے یاد نہیں آرہا تھا ۔ میں نے مزید استفسار کیا تو اس نے کہا ’’ استاد جی جس دن آپ لیڈیز گھڑی پہن کر آئے تھے‘‘۔ مجھے سخت حیرت ہوئی کہ طلبہ کتنی گہرائی سے استاد کو پڑھتے ہیں ، بلکہ پڑھنے کے بعد اسے یاد رکھتے ہیں اور دوسروں سے اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ 

تلاوت کا معمول

قرآ ن مجید کی تلاوت روزانہ کی جائے ۔ قرآن کریم بہترین ذکر ہے اس لیے روزانہ اس کی اونچی آوازمیں تلاوت کرے ۔ 

ذکر اللہ

مسنون اذکا ر کیے جائیں کیونکہ خود بھی دل کو زندہ رکھنا ہوگا تب ہی تربیت ممکن ہے ۔ 

شکر

شکر کی کیفیت پائی جائے ۔ قلبی ، لسانی اور عملی تینوں طرح کا شکر ہونا چاہیے ۔ قلبی شکر میں دو چیزیں شامل ہیں: احترام منعم اور محبت منعم ۔ ادارے کا احترام کرتاہے تو کامیاب مدرس ہے، شاگردوں کے دلوں میں بھی احترام پیدا ہوگا۔ اور اگر مہتمم یا ناظم پر تنقید کرتاہے تو ناکام ترین مدرس ہے ۔ لسانی شکر بھی ہوناچاہیے ، قرآ ن کریم میں اس کا حکم ہے۔ ’’واما بنعمۃ ربک فحدث‘‘۔ اسی طرح دوسری آیت میں ہے ’’ان اشکر لی ولوالدیک‘‘ اور حدیث میں ہے ’’من لم یشکر النا س لم یشکر اللہ‘‘ ۔ شکریہ میں جزاک اللہ اور الحمد للہ کا استعما ل کرے ۔ اور عملی شکر یہ ہے کہ نعمتوں کو ڈھنگ سے استعمال کرے ، جو استاذ نعمتوں کا درست استعمال نہیں کرتا، وہ ناشکرا اور ناکام ترین مدرس ہے ۔ 

حیاء

مدرس کو باحیاء ہونا چاہیے ۔ حیاء کہتے ہیں ’’انقباض النفس عن القبیح‘‘ ناپسندیدہ باتوں سے دل کا تنگ پڑ جانا۔ شاگرد استاد کے چہرے سے حیاء کو محسو س کرے جیساکہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہر ے سے محسوس کر لیتے تھے جب آپ کو کوئی چیز ناگوار ہوتی تھی۔ سوشل میڈیا نے حیاء کوکم کردیا ہے ، غیر شرعی باتوں کو قبیح نہیں سمجھا جا رہا ہے ۔ استاد میں حیاء ہوگی تو طلباء میں بھی یہ وصف منتقل ہوگا ۔ 

ذمہ دار ی کا احساس

مدرس کو ایک ذمہ دار انسان ہونا چاہیے ، غیر ذمہ دار کا مظاہر کیا جائے تو یہ طلباء میں بھی منتقل ہوتی ہے۔ 

اچھی صحبت

اچھا استاذ وہ ہوتا ہے جس کامزاج اچھا ہو ، اس کی بیٹھک اچھے لوگوں کے ساتھ ہو ، اس کی پہچان اچھی سوسائٹی ہو۔ اچھی اور بری صحبت کی مثال حدیث شریف میں عطار اور لوہار کی مانند دی گئی ہے جن کے پاس جانے والاکوئی چیز نہ بھی لے اثرات ضرور پہنچتے ہیں ۔ اچھی صحبت کا احسا س ہونا چاہیے اور پھر اس کی قدر بھی ہونی چاہیے ۔ لوگوں سے خیرخواہی اور اصلاح کا تعلق تو ضرور رکھے مگر دوستی نہیں ۔

صبر و تحمل

صبر کا مادہ کما ل کا ہونا چاہیے ۔ جتنا صبر کمال کا ہوگا اتنا ہی کمال کا استاد ہوگا ۔ انبیاء کرام کو اللہ رب العزت نے دعوت اور لوگوں کی اصلاح کے دوران باربار صبر کی تلقین فرمائی ہے ۔ 

زہد

استاد میں زہد کما ل کا ہونا چاہیے ، شاگرد کے مال پر اگر استاذ کی رال ٹپک رہی ہو تو شاگر د کی نظر میں ایسا استاذ ٹکے کا نہیں رہتا ۔ حدیث میں جو آیا ہے ’’ازھد فی الدنیا یحبک اللہ وازھد فیما عند الناس یحبک الناس‘‘ اس میں الناس کی جگہ طلبہ کو رکھ کر عملی مشاہدہ کیجیے، پھر ادراک ہوگا کہ کتنی بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے ۔ 

عفو و درگزر اور وسعت قلبی

ہر معمولی بات پر پکڑ کرنے والاکبھی کامیاب مدرس نہیں بن سکتا ، استاد کو اپنے اندر وسعت قلبی پیدا کرنی چاہیے ۔ اللہ رب العزت بھی اکثر معاملات میں معاف کر دیتے ہیں ’’ویعفو عن کثیر‘‘ ۔ 

خدمت خلق کا جذبہ

افسوس ہے کہ اس اہم ترین عبادت کوہم نے شعبوں میں تقسیم کر دیا ہے ، روز مرہ زندگی میں بطور عبادت اس اصول کا اطلا ق ہمارے ہاں نادر ہے۔ تبلیغ میں جانے والے احباب سفر دعوت میں ہر طرح کی خدمت اکرامِ مسلم سمجھ کر کر تے ہیں، مگر گھر آتے ہی خدمت انہیں ذلت محسوس ہوتی ہے ۔ استاذ اگر اپنے طلبہ کے سامنے خدمت خلق کا عملی نمونہ پیش کرے گا تو ان کے دل میں عظمت بڑھے گی اور وہ خود کا م بڑھ چڑھ کر کریں گے۔

اس سلسلے میں اپنا ایک واقعہ بیان کروں گا کہ ضعف اور نقاہت کی وجہ سے چونکہ طبیعت مستعد نہیں رہی ، ایک مرتبہ میں نے کھانا تناول کرنے کے بعد بچوں سے کہا کہ بیٹا دستر خوان اٹھا لو، اتنے میں کیا سنتا ہوں کہ میرا چھوٹا نواسا دروازے سے نکلتے ہوئے کہہ رہاہے ’’ خود تو بڑے بیٹھے رہتے ہیں اور ہمیں کام پر لگایا ہواہے‘‘۔ ایسے موقع پر اگر بچوں ڈانٹ دیاجائے تو زیادہ سے زیادہ یہ فرق پڑے گا کہ یہ یہی بات آپ کے سامنے کہنے سے باز رہیں گے، مگر ان کے ذہنوں کو آپ صرف اور صرف اپنے کردار سے کھرچ سکتے ہیں ۔ 

قوت و امانت

اچھا پیشہ وہ ہوتا ہے جس میں قوت اور امانت کا وصف بخوبی موجود ہو ۔ استاد کی قوت اور طاقت اس کا مطالعہ ، علمی رسوخ اور اپنے فن پر دستر س ہے۔ نالائق سے نالائق طالبعلم بھی استاذ کی علمی قابلیت کو اچھی طرح بھانپ لیتاہے ۔ استاذ کی امانت کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ علم کو آگے منتقل کرنے میں کس قدر محتاط اور سخی ہے ۔ 

اخلاقی جراءت

اخلاقی جرات کے بغیر ناکام مدر س ہے ۔ اخلاقی جرات اخلاقی اوصاف سے پیدا ہوتی ہے ۔

قول و فعل میں مطابقت

استاد کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے ۔ جس استاذ کے قول و فعل میں تضاد ہو وہ ایک بدنام اور ناکام مدرس ہے ۔ 

رجائیت

اچھا استاد کبھی مایوس نہیں ہو تا، اس کی مثال اس پھل بیچنے والے کی سی ہے جو اپنے گاہک کے سامنے پھل کی ایسے تعریف ایسی تعریف کرے کہ وہ تھوڑے کی بجائے زیادہ لینے پر مجبور ہو جائے اور اگر وہ خود مایوس ہو تو اس سے کوئی پھل نہ لے گا ۔ اسی طرح تعلیم کامعاملہ ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم جس علم کو بیچ رہے ہیں، اس کی قدر خود ہمارے دل میں بھی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ استاد کے ذریعے شاگردوں میں مایوسی منتقل ہو رہی ہے ۔ 

وضع قطع

استاد کو چاہیے کہ اپنے باطن کی طرح ظاہر کو بھی اللہ کے رنگ میں رنگ دے ۔ شریعت کے مطابق وضع قطع نہ صرف سنت نبوی کی اتباع ہے بلکہ اس سے آپ با وقار تشخص کی تعمیر کر سکیں گے ۔ 

اخلاص

دینی خدمات محض تنخواہ کے لیے سرا نجام نہ دے ۔ اس سے چاشنی اور لذت جاتی رہتی ہے ۔ اپنے کسی قول و فعل کے ذریعے شاگردوں کے سامنے بھی ایسا تاثر دینے سے باز رہے ۔ 

شاگردوں کے حق میں دعا

اپنے شاگردوں کے لیے ہمیشہ دعاگو رہے ۔ یہ عمل اجر اور اخلاص بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ 

ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی کی گفتگو

اس کے بعد گوجرانوالہ کی مشہور شخصیت ’’ مشر ق سائنس کالج ‘‘ کے بانی و ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر عبد الماجد المشرقی نے خطاب کیا اور درج ذیل معروضات پیش کیں :

تدریس کے بارے میں کہتا ہوں کہ اگر احساس نہ ہو تو دنیا میں اس سے زیادہآسان کام کوئی نہیں ۔ اگر احساس ہو تو دنیا کا سب سے مشکل کام ہے ۔ تعلیم کو عام کرنا چاہیے، برائے نام نہیں کرنا چاہیے۔ جس کو کوئی جگہ نہیں ملتی ،وہ اسکو ل یا مدرسہ بنا لیتا ہے ۔ تعلیم کی اہمیت یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔

پچھلے سال دسمبر کی بات ہے، فرانس کی لائبریری میں ہم نے ایک نوجوان کو دیکھا جو مطالعہ میں منہمک تھا ۔ تعارف کے بعد پتہ لگا کہ وہ یہودی ہے ۔ ہم نے اس کے دائیں بائیں ۵ کتابیں دیکھیں۔ درمیان میں قرآ ن کریم بھی تھا ۔ ہم بہت حیران ہوئے ۔ اس نے کہا کہ میں فزکس پڑھا تاہوں۔ میں نے کہا، سرجانس !آپ امریکن ہیں ، یہودی ہیں ، درمیان میں قرآ ن کریم کیسے رکھاہے ؟یہ تو ہماری کتاب ہے۔ اس نے کہا کہ آپ نے غلط کہاکہ قرآ ن کریم صرف آپ کی کتاب ہے۔ قرآ ن کریم ساری انسانیت کی کتاب ہے ۔ میں نے پوچھا : اس میں آپ تلا ش کیا کررہے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں اپنا لیکچر تیار کر رہاہوں۔ 

قرآ ن کریم پڑھانے والے اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھیں ۔ مجھے تدریس کرتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہو ا، صرف ۳۸ سال ہوئے ہیں ۔ میں نے کبھی اپنے کسی شاگرد سے ایک ٹافی بھی نہیں کھائی ہے اور نہ ہی کبھی کسی سے یہ پوچھا کہ آپ کے ابو کیا کرتے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ شاید باپ نہ ہو، یا ڈاکو ہو ۔ اور میر ے ذہن میں اس کے ابو سے کوئی مفاد لینے کا خیال نہ آجائے۔ جس ڈنڈے کے متعلق کہا جاتاہے کہ ’’ ڈنڈا وگڑے تگڑوں کا پیر ہے ‘‘وہ حسن اخلاق کا ڈنڈا ہے۔ کلاس میں ۲۵شاگرد ہیں ۔ کلاس کو واچ کرنے کے لیے استاد کی دو آنکھیں ہیں، لیکن استاد کو واچ کرنے کے لیے پچاس آنکھیں ہیں ۔ 

میں نے ملکہ برطانیہ سے پوچھا ، آپ بھی کبھی کسی عام شہری کے گھر ملنے گئیں ؟ انھوں نے کہا کہ جی، سا ل میں چند لوگوں کو ملنے جاتی ہوں ۔ میرے پرائمری اور ہائی اسکو ل کے جتنے اساتذہ ہیں، سب کے گھروں میں سلام کرنے جاتی ہوں ۔ پوچھا کہ کیا سارے زندہ ہیں؟ ملکہ نے کہا کہ نہیں، جو فوت ہوچکے ہیں، ان کے بچوں کو سلام کرنے جاتی ہوں۔ 

میں اپنے ٹیچر کی طرف پشت نہیں کر تا۔ میرے استاذ کے نام سے ملتاجلتا نام بھی اگر کہیں گراہوا دیکھ لوں تومیں اٹھالیتاہوں۔ 

آخر میں ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی مولانا زاہد الراشدی نے تما م حا ضرین کا شکریہ ادا کیا اور مولانا یوسف خان نے اختتامی دعا کروائی۔

الشریعہ اکادمی

(نومبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter