لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے 16 اکتوبر کو یہ خبر شائع کی ہے کہ عرب ٹی وی کے مطابق امریکی فوج کے ایک عہدہ دار نے کہا ہے کہ ایران دنیا بھر میں شیعہ ملیشیاؤں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ ایران نہ صرف یمن میں حکومت کے خلاف سرگرم شیعہ باغیوں کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے بلکہ وہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی بھاری جنگی ہتھیار مہیا کرتا ہے۔ یہ خبر چونکہ امریکی فوج کے ایک عہدہ دار کے حوالہ سے سامنے آئی ہے اس لیے اسے امریکی الزام یا پروپیگنڈا کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے ایک روز قبل عرب ممالک کی خلیجی تعاون کونسل اور ترکی کی کابینہ کے ارکان کے مشترکہ اجلاس کے بعد ان کی طرف سے یہ مشترکہ مطالبہ شائع ہوچکا ہے کہ ایران خطے میں مداخلت کی پالیسی ترک کر دے۔ جبکہ اس مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شام اور عراق کی سا لمیت اور وحدت کا تحفظ ضروری ہے۔
مشرق وسطیٰ کی صورتحال دن بدن جو گھمبیر صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے اس نے پورے عالم اسلام کو مضطرب کر رکھا ہے اور پاکستان کے عوام بطور خاص اس اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حالات جو بھی رخ اختیار کریں پاکستان اس سے براہ راست متاثر ہوتا ہے اور پاکستانی معاشرہ اور ماحول میں اس کے منفی اثرات کئی حوالوں سے سامنے آنے لگتے ہیں۔
اس مسئلہ کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اب سے ایک صدی قبل برطانوی استعمار نے دیگر مغربی ممالک کی ملی بھگت سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر کے مشرق وسطیٰ کے جغرافیہ اور بین الاقوامی سرحدات کا جو نیا نقشہ تشکیل دیا تھا اس کے مطلوبہ نتائج پورے ہو جانے کے بعد اب مغربی قوتوں کے قائد امریکہ کو اپنے مستقبل کے عزائم کی تکمیل کے لیے اس جغرافیائی نقشے اور بین الاقوامی سرحدات میں ازسرنو تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے اور اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ ساری افراتفری پھیلائی گئی ہے۔ ایک نظر اس صورتحال پر اس پہلو سے بھی ڈال لیں کہ امریکہ اور روس سمیت تمام عالمی قوتوں کا ہر قدم اس سمت اٹھ رہا ہے جس سے اس افراتفری میں اضافہ اور جنگی ماحول برقرار رکھنے کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ عراق و شام کے لاکھوں شہریوں کے قتل عام اور لاکھوں کی جلاوطنی کے بعد بھی سینوں کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی اور جنگ کو رکوانے کی بجائے نئے نئے محاذ کھولنے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔
اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سنی شیعہ اختلاف جو اس سے قبل طویل عرصہ سے علمی مباحث، مناظروں، مذہبی گروہ بندی، اور زیادہ سے زیادہ پراکسی وار تک محدود تھا اب کھلی خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہماری اس بارے میں ہمیشہ سے یہی رائے رہی ہے کہ مذہبی دائروں میں یہ اختلافات صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور انہیں سرے سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان اختلافات کو مناسب دائرے میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور مشترکہ قومی و ملی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہی اس سلسلہ میں صحیح راستہ ہے۔ ان اختلافات کا شدت پسندانہ اظہار اور ان کی بنیاد پر گروہی محاذ آرائی کا اسلام دشمن استعماری قوتوں کے سوا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اور جو بھی ایسا کرتا ہے وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام دشمن قوتوں کو ہی فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس سے ہرممکن گریز کی ضرورت ہے بالخصوص مشرق وسطیٰ میں یہ فرقہ وارانہ محاذ آرائی استعماری قوتوں کے ان عزائم میں تقویت کا باعث بن رہی ہے جن کا ہم سطور بالا میں تذکرہ کر چکے ہیں۔
اس زمینی حقیقت سے کسی صاحب شعور کے لیے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ جو سنی شیعہ اختلافات موجود ہیں وہ اصولی اور بنیادی ہیں اور صدیوں سے چلے آرہے ہیں، نہ ان سے انکار کیا جا سکتا ہے، نہ دونوں میں سے کوئی فریق دوسرے کو مغلوب کر سکتا ہے، اور نہ ہی ان اختلافات کو ختم کرنا ممکن ہے۔ ان اختلافات کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایک دوسرے کے وجود کا اعتراف کرتے ہوئے باہمی معاملات کو ازسرنو طے کرنے کی ضرورت بہرحال موجود ہے جس کے لیے آبادی کے تناسب اور دیگر مسلمہ معروضی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی توازن کا صحیح راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
جبکہ اس مسئلہ کا تیسرا پہلو مشرق وسطیٰ کے موجودہ حالات میں ایران کا مسلسل کردار ہے جو سراسر واقعاتی ہے اور اسے واقعاتی ترتیب کے ساتھ ہی دیکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ایرانی انقلاب سے پہلے اور بعد کے ماحول کا تقابلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی انقلاب کو ابتداء میں ایک کامیاب مذہبی انقلاب سمجھا گیا تھا اور ایسا سمجھنے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ہمیں توقع تھی کہ عالمی سیکولر قوتوں کے ایجنڈے کے علی الرغم ایران کا یہ کامیاب مذہبی انقلاب دنیا بھر کی اسلامی تحریکات کی تقویت کا ذریعہ بنے گا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ بلکہ ایرانی انقلاب کے نتیجے میں اکثر مسلم ممالک بشمول پاکستان کی اسلامی تحریکات کو نئی اور متوازی فرقہ وارانہ تحریکات کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے تلخ ثمرات آج پورے عالم اسلام کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ چنانچہ خلیجی کونسل اور ترکی کا مشترکہ اعلامیہ اس معاملہ کی سنگینی کی انتہائی حدوں کی نشاندہی کر رہا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں عراق، شام، لبنان، یمن، اور بحرین میں سنی شیعہ کشیدگی نے جو نیا رخ اختیار کیا ہے وہ سب ایرانی انقلاب کے بعد کی پیداوار ہے اور بعض حلقوں کا یہ خدشہ بے جا نہیں ہے کہ اس سے سعودی عرب کے گرد حصار تنگ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جبکہ بعض ذمہ دار ایرانی راہنماؤں کی طرف سے ایسی باتیں عالمی پریس کے ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں حرمین شریفین کے حوالہ سے سعودی عرب کے انتظامات اور کنٹرول کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ دیکھے بغیر کہ اگر ایرانی مطالبہ پر حرمین شریفین کو سعودی کنٹرول سے نکالنے کی بات خدانخواستہ مان لی جائے تو اس کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا اور اس ممکنہ مرحلہ میں عالم اسلام کی غالب اکثریت کا ردعمل اور جذبات کیا ہو سکتے ہیں؟
مشرق وسطیٰ کی موجودہ سنگین صورتحال کے بعض اہم پہلوؤں کی طرف توجہ دلانے سے ہمارا مقصد ایران کو مطعون کرنا نہیں بلکہ ایرانی قیادت کو توجہ دلانا ہے کہ ان حالات کا بہرحال دوطرفہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس کے سوا اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا کہ ایران اور خلیجی ممالک کی اس کشمکش کے واقعاتی اسباب کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے، دونوں طرف کی شکایات کو سامنے لا کر ان کا تجزیہ کیا جائے، اور انہیں دور کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی طے کی جائے۔ لیکن کیا ایران خلیجی تعاون کونسل اور ترکی کے اس مشترکہ مطالبہ کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے ان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کی کوئی صورت نکالنے کے لیے تیار ہو جائے گا؟