محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ستمبر ۲۰۱۶ء کے ماہنامہ الشر یعۃ میں مفتی محمد رضوان صاحب کی تالیف ’’مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار اور تنظیمِ فکرِ ولی اللّٰہی کے نظریات کا تحقیقی جائزہ ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن پر مولانا سیّد متین احمد شاہ صاحب کا فاضلانہ تبصرہ پڑھا۔ تبصرہ نگار ممکن حد تک غیر جا نبد ار رہے ہیں اور تبصرے کو کسی طور یک رخا نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال غالباً عجلت کے سبب چند غلطیاں تبصرے میں راہ پاگئی ہیں ۔ ریکارڈ کی درستی کے لیے انہیں ذیل میں درج کیا جاتا ہے :
۱۔مولانا سندھی مرحوم کے سب سے بڑے راوی پروفیسر محمد سرور ہیں۔ کمیت کے اعتبار سے مولانا سندھی کے افکار و ملفوظات کو مرتب کرکے پیش کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ پروفیسر صاحب کی مرتبہ کتابوں کی اشاعت کے بعد مولانا سندھی شدید تنقید کا نشانہ بنے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ محترم متین شاہ صاحب نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’ افادات و ملفوظاتِ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ کتاب مولانا کی زندگی میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ ایک تسامح ہے ۔ یہ کتاب مولانا کے انتقال کے بعد ۱۹۷۳ء میں شائع ہوئی ۔ یاد رہے کہ مولانا سندھی کا انتقال ۲۲ اگست ۱۹۴۴ء کو ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ کتاب مولانا کی زندگی میں شائع ہوئی ہوتی تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ۔ مولانا کی زندگی میں شائع ہونے والی پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار‘‘ ہے۔ یہ کتاب ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی اور مولانا نے اسے ownکیا ۔ (ملاحظہ ہو پروفیسر محمد سرور کی وفات پر مولانا عبید اللہ انور کا تعزیتی مضمون جو ہفت روزہ خدام الدین میں شائع ہوا۔ یہ مضمون محولہ بالاکتاب کے حالیہ ایڈیشن میں بھی شامل ہے )
۲۔ فاضل مبصر لکھتے ہیں ’’مولانا عبد الحق خان بشیر نے اپنی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی اور تنظیم فکر ولی اللّٰہی ‘‘ میں پروفیسر محمد سرور کا نام مولانا سندھی کے ناقابل اعتماد تلامذہ کی فہرست میں شامل نہیں کیا، حالاں کہ مولانا سندھی کے افکار پر جو تنقید ہوئی ہے وہ زیادہ تر ان تحریروں کی روشنی میں ہوئی ہے ، جو پروفیسر صاحب کی مرتب کی ہوئی ہیں ‘‘۔ غالباً شاہ صاحب کی نظروں سے مولانا عبد الحق خان بشیر کی کتاب کی درج ذیل سطور اوجھل ہوگئیں:
’’ فکری اعتبار سے مولانا سندھی کے تلامذہ کو دو ٹیموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ پہلی ٹیم حضرت [احمد علی] لاہوری ؒ اور حضرت خواجہ عبد الحی فاروقی ؒ پر مشتمل ہے ۔ دوسری ٹیم میں علامہ موسیٰ جار اللہ ، مولانا عبد اللہ لغاری ، پروفیسر محمد سرور اور شیخ بشیر احمد لدھیانوی شامل ہیں ۔ ان میں سے حضرت سندھی کے افکار کی حقیقی ترجمان تو صرف پہلی ٹیم ہے ۔ اس کے برعکس دوسری ٹیم سے تفسیرِ قرآن کے سلسلے میں بیشتر مقامات پر سنگین نوعیت کی خطرناک نظریاتی اغلاط کا صدور ہوا ہے ۔۔۔ اس [ٹیم ] میں پروفیسر محمد سرور کے پیش کردہ سیاسی و معاشی افکار میں متعدد کمزوریاں موجود ہیں اور ان کی بعض عبارات حضرت سندھی کے بارے میں بے شمار شکوک کو جنم دیتی ہیں ‘‘ (ص ۷۹، ۸۰)
مولانا عبد الحق خان بشیر اس کتاب کے صفحہ نمبر ۹۵ میں لکھتے ہیں :
’’ ۔۔۔باقی رہی بات پروفیسر محمد سرور مرحوم کی تو حضرت سندھی کی نسبت سے پیش کردہ ان کے بعض افکار ، ناقابل قبول اور قابل گرفت ہیں ۔ چنانچہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی تحریر فرماتے ہیں :۔
پروفیسر محمد سرور نے ایک مجموعہ ’’ مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ مرتب کیا ہے ۔ اور دوسرا مجموعہ ’’افادات و ملفوظاتِ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی‘‘ ہے ۔ یہ دونوں مجموعات بڑے اہم ہیں اور دونوں قابلِ تنقید ہیں ۔ ان مجموعات میں مولانا سندھی کے بارے میں صحیح ، قابل وثوق ، ضعیف ، موضوع ، غیر قابل اعتماد ہر قسم کی باتیں موجود ہیں ‘‘۔ ( مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم و افکار ، ص ۱۰۷)
حیرت ہے کہ مولانا سندھی کے بارے میں مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کو پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ میں قابلِ تنقید باتیں اور موضوع روایتیں نظر آگئیں ، لیکن خود مولانا سندھی کو نظر نہیں آئیں اور انہوں نے اس کتاب کو ownکرلیا۔
۳۔محترم متین شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پروفیسر محمد سرور کی کتاب ’’ مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ پر اپنے تبصرے میں مولانا سندھی کی فکر کے قابل تنقید امور کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
’’مولانا [سندھی] مرحوم کی یہ بڑی خوش قسمتی تھی کہ ان کا تعلق علمائے کرام کے اس طبقے سے تھا جو اپنی گروہی عصبیت میں حدِ کمال پر پہنچا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا یہ سب کچھ فرما گئے اور لکھوا اور چھپوا بھی گئے اور پھر بھی تنقید کی زبانیں بند اور تعریف کی زبانیں تر رہیں ۔ ورنہ اگر انہوں نے اس طبقۂ خاص سے باہر جگہ پائی ہوتی تو ان کا استقبال سرسید اور علامہ مشرقی سے کچھ کم شا ندار نہ ہوا ہو تا ‘‘۔ (ترجمان القرآن ، جولائی ، اگست ، ستمبر ۱۹۴۴ء)
محترم شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ مفتی محمد رضوان صاحب کی زیر نظر کتاب مولانا مودودی کی اس بات کی تردید کرتی ہے کیونکہ اس میں شامل تقریباً تمام مقالات علمائے دیو بند کے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ محترم شاہ صاحب نے یہ بات عجلت اور رواروی میں لکھی ہے۔ مفتی رضوان صاحب نے اپنی کتاب میں شامل تقریباً تمام مضامین کی تاریخِ اشاعت دے دی ہے۔ مولانا مودودی نے محولہ بالا تبصرہ ستمبر ۱۹۴۴ء کے ترجمان القرآن میں لکھا ، جب کہ علمائے دیوبند کے مضامین اس کے بعد شائع ہوئے۔ اس میں بہر حال ایک استثنا مولانا ظفر احمد عثمانی کا مضمون ’’طلوعِ اسلام ‘‘ مولانا سندھی اور شاہ ولی اللہ ہے۔ یہ مضمون ۱۹۴۲ء میں شائع ہوا۔ فاضل مبصر نوٹ فرمائیں کہ مولانا سندھی کے بارے میں دیوبندی مکتبِ فکر کے زعیم مولانا حسین احمد مدنی کا مضمون اخبارِ مدینہ بجنور کی ۱۷ مارچ ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں شائع ہوا ۔ اسی طرح مولانا مناظر احسن گیلانی کا مضمون ’’فکرِ سندھی ‘‘ کسی دینی یا علمی مجلے میں نہیں ٗ بلکہ مسلم لیگ کے ترجمان روزنامہ منشور دہلی میں ۱۹۴۵ شائع ہوا ۔ وہاں سے liftکر کے ا سے ہفت روزہ صدق لکھنو کی ۱۳ جون تا ۱۴ جولائی ، ۱۹۴۵ ء کی اشاعتوں میں شائع کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ مضمون مولانا سندھی کی زندگی میں ۱۹۴۳ء میں لکھا گیا تھا اور اکابر علما کی توثیق کے حصول کے پیش نظر اسے فوری طور پر شائع نہیں کیا گیا ۔ یہ بات بھی ۲۰۱۱ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’مجموعہ خطوطِ گیلانی ‘‘ مرتبہ محمد راشد شیخ کے ذریعے سامنے آئی ۔
مولانا سندھی کے حوالے سے اُن کی زندگی میں شائع ہونے والی سب سے زیادہ اختلافی کتاب پروفیسر محمد سرور کی ’’مولانا عبید اللہ سندھی : حالاتِ زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار ‘‘ ہے۔ میں شاہ صاحب سے بصد احترام دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مولانا کی زندگی میں کس ممتاز دیوبندی عالم نے اس کتاب پر نقد و تبصرہ لکھا؟ دیو بندی اکابر کی اسی خاموشی پر مولانا مناظر احسن گیلانی نے مولانا عبد الماجد دریا بادی کے نام درد اور کرب سے بھرا ہوا ایک خط لکھا جو ۲۳ جون ۱۹۴۵ء کی صدق کی اشاعت میں شائع ہوا۔ یہ خط مفتی رضوان صاحب کی کتاب میں شامل ہے ۔ اس کے برعکس دارالعلوم دیو بند کے ایک فاضل کی زیر ادارت شائع ہونے والے ماہنامہ برہان دہلی نے مولانا سندھی کی بھر پور تائید کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ہفت روزہ صدق میں ۱۹۳۹ء ہی سے مولانا سندھی کے افکار کی تردید شروع ہو گئی تھی، لیکن مجھے اس پر تحفظات ہیں کہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت ہوجانے کی بنیاد پر مولانا عبد الماجد دریابادی کا شمار علمائے دیوبند میں کیا جاسکتا ہے ۔
اگر اس عریضے میں کوئی بات محترم متین شاہ صاحب کے لئے گرانی طبع کا باعث ہو تو آپ کی وساطت سے ان سے پیشگی معذرت ۔
محمد سفیر الاسلام
safeerjanjua@gmail.com