فرقہ وارانہ اور مسلکی ہم آہنگی: علماء کے مختلف متفقہ نکات و سفارشات پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد شہباز منج

برصغیر پاک و ہند میں فرقہ وارانہ اور مسلکی ہم آہنگی کے لیے متعدد علماے کرام نے یقیناًقابلِ قدر کوششیں کی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے، جس کو ایک عام صاحبِ فہم بھی آسانی سے دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے ، کہ ان کو ششوں کے باوجود مسئلہ حل ہونے کی بجائے گھمبیر ہوا ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق، متعدد دیگر پہلوؤں کے ساتھ ساتھ، مسئلے کا اہم اور قابل توجہ پہلویہ ہے کہ علما کی اس حوالے سے کی گئی کاوشوں میں بہت سطحیت پائی جاتی ہے۔ یہ سطحیت مختلف علمی و عملی ، سماجی وتحریکی اور نظری و دستاویزی وغیرہ رویوں میں سامنے آتی رہتی ہے۔ راقم الحروف نے ان رویوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ان سطور میں البتہ میرے پیش نگاہ زیر نظر مسئلے کے حوالے سے علما کے مختلف مشہور متفقہ نکات وسفارشات کاتجزیاتی مطالعہ ہے۔ان نکات و سفارشات میں سے ، جن کا بہت کریڈٹ لینے کی سعی کی جاتی اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مسلکی ہم آہنگی کے لیے علما کی بہت بڑی کاوشیں ہیں ،وہ 31 علما کے بائیس نکات،مجلسِ دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی سفارشات پر علما کے تبصرے اور 55 علما کے 15نکات ہیں۔ان نکات و سفارشات اور تبصروں میں سے ہم نے صرف ان نکات کو لیا ہے ،جن کا نفیاً یا اثباتاً کوئی تعلق فرقہ وارانہ و مسلکی ہم آہنگی کے تصورسے بنتا ہے۔ ان نکات کی متعلقہ شقوں کے جائزے سے یہ بات سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ فرقہ وارایت اور اس کی تباہ کاریاں ہمارے یہاں سے کیوں ختم نہیں ہورہیں! ہمارے علما کی اس ضمن میں کاوشیں کس قدر حقیقی اور معاملے کو حل کی طرف لے جانے والی ہیں! اور کس قدر اسی گھمبیرتا میں پھنسائے رکھنے والی!:

31 علما کے 22 نکات

31 جنوری 1951ء کو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے 31 علما نے متفقہ طور پر 22 نکات پیش کیے، جن میں واضح کیا گیا کہ ایک پاکستانی ریاست کو اصولِ شریعت اسلامیہ کے مطابق چلانے کے لیے کن کن امور کو مد نظر رکھنا چاہیے!مختلف مسالک کے 31 علما کے ان 22 نکات کا، مسلکی ہم آہنگی اور علما کے اتحاد و اتفاق کے ضمن میں بڑا شہرہ چلا آتا ہے۔ ان بائیس نکات میں سے نکات نمبر 4 ،5 ،7 ،8اور 9 ہمارے زیرِ بحث موضوع سے کچھ علاقہ رکھتے ہیں، ہماری ناقدانہ گفت گو سے قبل ذرا ان نکات کو ملاحظہ کر لیجیے:

4۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرکے، منکرات کو مٹائے اور شعائرِ اسلامی کے احیا و اعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کاانتظام کرے۔

5۔ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگاکہ وہ مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد و اخوّت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیتِ جاہلیہ کی بنیادوں پرنسلی و لسانی ،علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔

7۔ باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے، جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں۔ یعنی حدودِ قانون کے اندر تحفظِ جان و مال و آبرو، آزادیِ مذہب و مسلک، آزادیِ عبادت ، آزایِ ذات، آزایِ اظہارِرائے، آزادیِ نقل و حرکت، آزادئِ اجتماع، آزادیِ اکتسابِ رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادے کا حق۔

8۔ مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سندِ جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔

9۔ مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے ،اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔ (ماہ نامہ، "الشریعہ" جولائی 2015، ص4۔5)

آئیے اب ذرا ان نکات پر تنقیدی نظر ڈالیں:

شق نمبر 4 کے حوالے سے عرض ہے کہ اس میں قرار دیے گئے مسلمہ اسلامی فرقے کون سے ہیں ؟ انھیں ان کے کون سے مذاہب کے مطابق کون سی ضروری اسلامی تعلیم دینا، مملکت کا فرض ہو گا؟اگر مسلمہ اسلامی فرقوں سے شیعہ اور سنی مراد ہیں تو ان کی وضاحت ہونی چاہیے تھی، نیز یہ بھی واضح ہونا چاہیے تھا کہ ان کی اپنے مذہب کے مطابق تعلیم میں فقہی مذاہب کی تعلیم ہی شامل ہے یا عقیدہ وکلام کے مذاہب کی بھی؟ اگر مسلمہ اسلامی فرقوں میں بریلوی ، دیوبندی اور اہلِ حدیث وغیرہ بھی شامل ہیں ، تو انھیں ان کے کس مذہب کی کون سی تعلیم دینی ہوگی؟اگر یہ مسلمہ فرقے نہیں ہیں ، تو ان کے اندر مساجد ، مدارس اور وفاقوں کی تقسیم، اس اصول کی صریح خلاف ورزی ہے!ان انھیں ان نکات کی رو سے اس تقسیم و علاحدگی اور الگ شناخت و پہچان سے روکا جانا چاہیے۔ اگر یہ مسلمہ فرقے ہیں، تو دیوبندیوں اور بریلویوں کا فقہی مذہب ایک ہی ہے، وہ کس بنیاد پر الگ الگ مسلمہ اسلامی فرقے بنے ہیں؟ واضح ہے کہ ان کی تقسیم عقیدے و کلام کے اختلافات کی بنیاد پر ہوئی ہے۔تو کیا اہل نکات علما ریاست سے فرما رہے ہیں کہ وہ انھیں ان کے مذاہبِ عقیدہ و کلام کی تعلیم کا انتظام کرے؟ اس تعلیم نے پہلے ہی تباہی مچا رکھی ہے، آپ اس کا سرکاری انتظام کرانا چاہتے ہیں! حضور! آپ کی تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی!

یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ میرے مہربان علما محض فقہی مذاہب کی بات کر کے میری گذارش سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے، اس لیے کہ مسلمانوں میں اصل فرقہ بندی اور تباہی کا باعث کلامی مذاہب رہے ہیں ، فقہی مذاہب نہیں۔ فقہا کے مذاہب نے کبھی بھی وہ قیامت نہیں ڈھائی ، جو کلامی مذاہب نے ڈھائی ہے۔ برصغیر میں فرقہ ورارنہ تباہی بھی کلامی اختلافات کی دین ہے،یہ انھی اختلافات کا شاخسانہ ہے کہ ہندوستان کے ایک فقہی ہی مذہب کے حامل دو بڑے فرقے اپنے فتاویٰ میں کثرت سے ایک دوسرے کو کافر، مشرک ،بدعتی ، مرتد اور گستاخِ رسول قرار دیتے آ رہے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ آپ کے اس نکتے کی رو سے یا تو بریلوی دیوبندی وغیرہ مسلمہ اسلامی فرقے نہیں ہیں، اس صورت میں ان کا کوئی جواز ہی نہیں، اور اگر مسلمہ اسلامی فرقے ہیں، تو آپ صرف ان کے کلامی مذاہب کے حوالے سے ہی انھیں فرقے تسلیم کر رہے ہیں، اور یہ کلامی مذاہب پہلے ہی تباہی مچاتے آ رہے ہیں۔ ان کی تعلیم کی آزادی ہی نہیں، سرکاری انتظام کی خواہش اصلاح کی کوشش کیسے قرار پا سکتی ہے! اس سے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے حوالے سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی، اگر ہو سکتی تو کوئی نہ کوئی نظر آ رہی ہوتی ، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ، کہ سوسائٹی میں فرقہ وارانہ حوالے سے خیر کی بجائے شر ہی بڑھا ہے۔ 

نکتہ نمبر 5میں مسلمانانِ عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے کی اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیتِ جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ، لسانی ،علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کی تجویز دی گئی ہے،لیکن اس میں اس تجویز کو قابلِ التفات نہیں سمجھا گیا کہ مسلمانانِ پاکستان کے رشتہ اخوت کو بھی قوی تر کر لیا جائے، نیز کیا ریاست کے مسلم باشندوں کی عصبیتِ جاہلیہ صرف نسلی ، لسانی ، علاقائی یا مادی امتیازات ہی سے عبارت ہے؟ یا اس عصبیتِ جاہلیہ میں مذہبی اور فرقہ وارانہ عصبیت کا بھی کوئی دخل ہے؟ میرے خیال میں تو عصبیتِ جاہلیہ کے مظاہر اس فرقہ وارانہ عصبیت میں زیادہ ہیں ، مگر اس عصبیت کا تذکرہ ہی نہیں کیا گیا،پھر ذکر کردہ عصبیتوں کے خاتمے کے ذریعے بھی ملتِ اسلامیہ کا وسیع تر مفادہی پیش نظر رکھا گیا ہے، جیسے ملت اسلامیہ پاکستان کی وحدت کا تحفظ و استحکام تو کوئی حل طلب مسئلہ ہی نہیں۔یعنی گھر کے مسئلے کی فکر نہیں اور چلے ہیں پوری ملت اسلامیہ کو تحفظ و استحکام دینے:

تو کارِ زمیں را نکو ساختی 

کہ باآسماں نیز پرداختی؟

نکتہ نمبر 7اور 8میں باشندگانِ ریاست کے مختلف شہری حقوق کا ذکر ہے، نکتہ نمبر آٹھ کا آخری جملہ نہایت اہم ہے، اورعدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے دوراندیشانہ طریق مقدمہ یاعدالتی پروسیجر کا ایک رہنما اصول ہے کہ :" کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقعہ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔"لیکن علما کے طبقے میں اس اصول کے لحاظ کا عالم یہ ہے کہ جب کسی شخص کو توہین رسالت کے الزام میں بغیر فراہمی موقعہ صفائی اور فیصلہ عدالت ، ایک شخص قتل کر دیتا ہے، تو کہا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو نہ صرف یہ کہ سزائے موت نہیں دی جا سکتی ،بلکہ اس نے قابلِ تحسین اقدام کیا ہے ، جس پر وہ تعریف و توصیف کا مستحق ہے۔یہ نہ صرف اپنے تجویز کردہ شرعی اصول کی صریح خلاف ورزی ہے، بلکہ ملک و معاشرے کو انارکی اور فساد کے سپرد کرنا ہے۔

نکتہ نمبر 9تو گویا ملکی و ملی انتشار کے لیے سرٹیفکیٹ کی تجویز ہے۔مسلمہ اسلامی فرقوں کی بات میں جو ابہام ہے، اس کی حقیقت ہم نے نکتہ نمبر 5 کے جائزے میں بیان کر دی ہے۔یا یہ مانیں کہ مسلمہ اسلامی فرقے دو ہی ہیں، یعنی سنی اور شیعہ۔ اس صورت میں دیوبندی ، بریلوی اور اہلِ حدیث غیر مسلمہ فرقے ہیں ،جنھیں ان نکات کی رو سے اپنی الگ پہچان کا اختیار ہے اور نہ اپنے مسالک کی تعلیم و ترویج کا۔ اگر یہ مسلمہ فرقے ہیں، تو کم ازکم دو بڑے فرقے محض کلامی مذاہب ہیں، اور جن کلامی اختلافات کی بنیاد پریہ ایک دوسرے کو بدعتی اور کافر و گستاخ قرار دیتے آ رہے ہیں ، وہ لا یعنی اور مضحکہ خیز ہیں۔ ان کی تعلیم کی نہ صرف یہ کہ کسی مسلمان کو کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کا بھلاانھیں ان کی تعلیم سے محفوظ رکھنے میں ہے؛شریعت کا نہ صرف یہ کہ ان سے متعلق سرے سے کوئی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ مقاصد شریعت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں ؛یہ اپنی تحصیل کرنے والے کو سوائے باہمی نفرت و عداوت ، شدت پسندی اور قتل و خوں ریزی کی ذہنیت اور شخصیت کے کچھ نہیں دے سکتے۔

مجلسِ دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی تجاویز پر علماکے تبصرے

دسمبر 1952 ء میں مجلس دستو ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے بنیادی اصول پیش کیے، تو تمام مکاتب فکر کے علما کا11تا 18 جنوری 1953ء کو دوبارہ اجتماع ہوا، جس کا مقصد مجلس دستور ساز کی متعلقہ کمیٹی کے پیش کردہ اصولوں پر شرعی نقطہ نظر سے تبصرہ اور اس حوالے سے اہم اور ضروری سفارشات و ترمیمات پیش کرنا تھا۔مجلس دستور ساز کی بنیادی اصولوں کی کمیٹی پر 22 نکات والے علما کے تبصروں اور سفارشات کے متعدد نکات میں سے ایک شق ہمارے موضوع کے حوالے سے تنقیدی نظر کا تقاضا کرتی ہے:

باب 2 "مملکت کی پالیسی کے رہنما اصول" کے عنوان کے تحت پیراگراف 2شق 10 کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ :"اس شق میں رپورٹ کی موجودہ عبارت ناقص ہے،اور یہ نقص خصوصیت کے ساتھ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ لسانی تعصّبات کا ذکر نہیں کیا گیا،لہٰذا ہمارے نزدیک اس کو حسب ذیل عبارت سے بدلنا چاہیے: "مملکت کے لیے لازم ہونا چاہیے کہ وہ پاکستانی مسلمانوں میں سے جغرافیائی ،قبائلی، نسلی اور لسانی اور اسی قسم کے دوسرے غیر اسلامی جذبات دور کرنے اور ان میں یہ جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ وہ ملت اسلامیہ کی سالمیت، وحدت ، استحکام اور اس طرزِ فکر کے لوازمات اور اس مقصد کو سب سے مقدم رکھیں، جس کی تکمیل کے لیے پاکستان قائم ہوا۔"("الشریعہ "، جولائی 2015، ص 11)

اب دیکھیے! بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی عبارت کو اہلِ تبصرہ و سفارش علما نے جس عبارت سے بدلنے کی تجویز دی ہے، اس میں بھی جغرافیائی ، قبائلی ، نسلی اور لسانی اور دیگر غیر اسلامی جذبات کا ذکر ہے ،فرقہ وارانہ جذبات کا نام ہی نہیں۔ اگرچہ غیر اسلامی جذبات میں فرقہ وارانہ جذبات بھی آ سکتے ہیں ،لیکن دوسرے جذبات سے زیادہ فرقہ وارانہ جذبات کو ذکر کرنے کی ضرورت تھی ، ان جذبات کا ذکر ہی نہ کرنا صاف بتا رہا ہے کہ سفارشات پیش کرنے والے اور تبصرہ نگار ان جذبات کی ہولناکی کا یہ تو اندازہ ہی نہیں رکھتے یا انھیں کسی مصلحت کے تحت ذکر کرنے سے گریز کر رہے ہیں، حالانکہ ان کو ذکر کر کے باقی جذبات کو دیگر جذبات سے ظاہر کرنا چاہیے تھا،کہ دیگر میں کم اہم چیزیں ذکر کی جاتی ہیں۔

55 علما کے 15 نکات پر ایک نظر

ملی مجلسِ شرعی کی جانب سے اسلامی اصولِ ریاست و حکومت اور نفاذِ شریعت کے حوالے سے علما کی ایک متفقہ کوشش 24ستمبر 2011ء کو لاہور میں مذکورہ مجلس کے زیر اہتمام "اتحادِ امت کانفرنس" کے مشترکہ اعلامیے کے طور پر سامنے آنے والے" 55 علما کے 15 نکات" ہیں۔ان نکات کے نکات نمبر2، 3اور 7 میں مسلمانوں میں اتحاد واتفاق اور مسلکی ہم آہنگی اور اس کی ضرورت و اہمیت سے متعلق امور کا تذکرہ ہے۔نکات نمبر دواور تین میں نفاذِ شریعت اورسوسائٹی کی اسلامی اصولوں پر تعمیر و اصلاح کے لیے 1951ء میں علما کے پیش کردہ 22نکات کوپاکستان میں نفاذِ شریعت کی بنیاد قرار دیا گیا اورپیش نظر 15 نکات کو ان 22 نکات کی تفریع وتشریح سے تعبیر کیا گیا ہے، اور قرار دیا گیا ہے کہ ملک میں نفاذِ شریعت دینی مکاتب فکر کی طرف سے منظور شدہ متفقہ رہنما اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔نکتہ نمبر 7 ہمارے موضوع کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے، اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ: علاقائی ، نسلی ،لسانی اور مسلکی تعصبات کی بنیاد پر قائم ہونے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے ،اور قومی یک جہتی کے فروغ کے لیے مناسب پالیسیاں اور ادارے بنائے جائیں۔("الشریعہ"،جولائی 2015،ص25)

ََ55 علما کے ان 15نکات میں نکات نمبردو اور تین ، چونکہ 1951ء کے 31علما کے بائیس نکات اور دیگر سفارشات پر مبنی ہیں ، اس لیے ان پر ہمارے تحفظات وہی ہیں جو بائیس نکات اور دیگر سفارشات کے حوالے سے تنقید میں ہم عرض کر چکے ہیں۔نکتہ نمبر 7البتہ اس حوالے سے منفرد اور قابلِ داد ہے کہ اس میں بائیس نکات اور دیگر سفارشات میں رہ جانے والی اس کمزوری کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو مسلکی مسائل کے عدمِ ذکر کے حوالے سے تھی۔ نیز اس میں ایک اہم مطالبہ کیا گیا ہے کہ دیگر تعصبات کے ساتھ ساتھ مسلکی تعصبات کی بنا پر قائم سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔لیکن اگر آپ ان نکات اور ان کی توثیق کرنے والے 55علما کے ناموں کی فہرست پر نظر ڈالیں، توآپ کو اس قسم کے نکات اور ان کی نظریت و عملیت کے مختلف اطراف وجوانب کی معنویت کے حوالے سے ایک خوب صورت لطیفہ دیکھنے کو ملے گا۔مسلکی تعصبات کی بنا پر قائم جماعتوں پر پابندی کے مطالبے کی توثیق کرنے والے 55 علما ء کی فہرست میں جن لوگوں کے نام درج ہیں،ان میں سے چند ایک کہ اسماے گرامی بریکٹ میں درج گئے ،ان کے تعارف سمیت یوں ہیں :

سید منور حسن (امیر جماعتِ اسلامی ،منصورہ، لاہور)،مولانا ساجد میر(امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)، مولانا عبید اللہ عفیف (امیرجمعیت اہل حدیث پاکستان ، لاہور)، مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری (امیرِ متحدہ جمعیت اہلِ حدیث، پاکستان )، مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی (نائب امیر جماعت اہلِ حدیث، پاکستان)، مولانا قاری زوار بہادر (ناظمِ اعلیٰ جمعیت علماے پاکستان )، پیر عبدالخالق قادری ( صدر مرکزی جماعت اہلِ سنت پاکستان )، مولانا عبدالرؤف فاروقی (ناظم اعلیٰ جمعیت علماے اسلام، لاہور)، پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعۃ الدعوۃ پاکستان ، لاہور)،مولانا زاہد الراشدی(ڈائریکٹرالشریعہ اکیڈمی ، گوجرانوالہ) مولانا راغب حسین نعیمی (مہتمم جامعہ نعیمیہ، لاہور) ، مولانا خان محمد قادری(مہتمم جامعہ محمدیہ غوثیہ، داتا نگر، لاہور) وغیرہ وغیرہ۔

ان سارے علمائے کرام اور دیگر اہلِ علم ونظر سے میرا سوال ہے کہ جمعیت علماے اسلام، جمعیت علماے پاکستان، تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ،اسلامی تحریک ،جماعت اہلِ سنت، سنی تحریک ،مولانا مودودی کی جماعت اسلامی وغیرہ مختلف مسالک کی نمایندہ سیاسی جماعتیں ہیں یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ کوئی صاحبِ عقل ودانش اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ جماعتیں مختلف مسالک کی نمایندہ ہیں۔اب صورت یہ ہے کہ یا تو متذکرہ صدر قبیل کے علما، جن میں سے اکثر مختلف مسالک کی نمایندہ سیاسی جماعتوں کے عہدے داریا ان سے متعلق اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ہیں ، ان جماعتوں پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، یا انھوں نے ان نکات کو پڑھا ہی نہیں، یا ان کا خیال یہ ہے کہ اس پر کون عمل کرتا ہے!یا ان کا تصور یہ ہے کہ اس طرح کی قراردادوں کو کون غور سے دیکھتا ہے! جو بھی صورت ہے ،المیے سے کم نہیں ، یہ اہل مذہب کے نظری و عملی رویوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

مکاتب فکر

(نومبر ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter