اسلامی ریاست اور سیکولرزم کی بحث

محمد عمار خان ناصر

(گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پاکستان کی نظریاتی اساس کے حوالے سے جاری بحث میں راقم الحروف نے وقتاً فوقتاً جو مختصر تبصرے لکھے، انھیں یہاں ایک ترتیب کے ساتھ یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)


منطقی مغالطوں میں ایک عامۃ الورود مغالطہ کو اصطلاح میں argumentum ad hominem  کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نفس دلیل کی کمزوری پر بات کرنے کے بجائے، دلیل یا موقف پیش کرنے والے کی نیت اور کردار وغیرہ کی خرابی نمایاں کی جائے اور اس سے یہ تاثر پیدا کیا جائے کہ چونکہ کہنے والا ایسا اور ایسا ہے، اس لیے اس کی بات غلط ہے۔

مذہبی اور سیاسی اختلاف رائے میں اس مغالطے کا استعمال ہمارے ہاں ایک معمول کی بات ہے۔ سنی وہابی، شیعہ سنی، علی گڑھ دیوبندی، حنفی اہل حدیث، دیوبندی مودودی وغیرہ، تمام اختلافات میں مخالف شخصیات پر کیچڑ اچھالنے کی تاب ناک روایت چلی آ رہی ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر قوم پرستوں اور مسلم لیگیوں نے ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر اس طرز استدلال کے نمونے پیش کیے۔ مسلم لیگیوں نے جمعیۃ علماء اور کانگریس کے زعما کی کردار کشی اور تحقیر وتوہین میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جمعیۃ علماء کے حضرات نے یہی سلوک مسلم لیگی قیادت کے ساتھ کیا۔

پاکستان بن جانے کے بعد یہاں اہل مذہب اور لبرلز کی کشمکش شروع ہو گئی۔ بالکل ابتدائی دور میں ہی جن مذہبی شخصیات (مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مودودی وغیرہ) نے لبرلز کے مقدمے کے خلاف آئینی جنگ جیتنے میں بنیادی کردار ادا کیا، وہ آج تک لبرلز کی نظر میں ناقابل معافی اور مطعون ہیں اور ان کی شخصیات کو ہدف بنا کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ چونکہ قرارداد مقاصد اِن حضرات نے پیش کی تھی، اس لیے وہ غلط تھی۔ اتفاق سے مسلم لیگی قیادت، خاص طور پر حضرت جناح کے متعلق یہی طرز استدلال ان کے قوم پرست مخالفین اختیار کیا کرتے تھے۔ یہ سارا مواد تاریخ میں محفوظ ہے اور اب بعض اہل قلم نے اس ضمن میں ’’جراتِ رندانہ’’ کا اظہار بھی شروع کر دیا ہے، البتہ جناح صاحب کو ریاستی تحفظ حاصل ہے اور ان کے بارے میں اگر کوئی ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے کی جسارت کرے تو قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔ ایسا کوئی تحفظ مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کو حاصل نہیں۔ سو ان کے متعلق ’’تاریخی حقائق’’ بے خوف وخطر کریدے جا سکتے ہیں۔


۱۱؍اگست کی تقریر میں قائد اعظم نے دراصل اس ملک کی غیر مسلم اقلیتوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ ان کے مذہبی وسیاسی حقوق پوری طرح محفوظ ہوں گے اور ریاست پاکستان اس ضمن میں کوئی جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی۔ ۱۵؍اگست کے بیان میں انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ مسلمانوں کے لیے ملکی نظام اور قانون کے دائرے میں راہ نمائی کا سرچشمہ اسلام کی ابدی تعلیمات ہیں جن کا بہترین نمونہ حصرت عمر کے عہد میں ملتا ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں اور دونوں اپنی اپنی جگہ بالکل درست ہیں۔ اسلام چونکہ دین ومذہب کے معاملے میں کسی قسم کے جبر کا قائل نہیں، اس لیے وہ مسلمان مملکت میں بسنے والے غیر مسلم گروہوں کو مکمل مذہبی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ غیر مسلم اپنے مذہب پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہر قسم کی معاشرتی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں اور ملکی فلاح وبہبود میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی شریعت کے مخصوص قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے اور وہ اپنے معاملات اپنی مذہبی تعلیمات کے مطابق انجام دینے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔

یہی حق ملک کی مسلمان اکثریت کو بھی حاصل ہے۔ چنانچہ جب اکثریت ملک کے نظام اور قانون کی تشکیل کرے گی تو ملک کی اکثریتی آبادی کے لیے ان کے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہی کرے گی۔ نہ اکثریت کو یہ حق ہے کہ وہ اقلیت پر اپنے مذہبی خیالات کی پابندی مسلط کرے اور نہ اقلیتوں کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اکثریت سے اپنے مذہبی حقوق اور اختیارات سے دست برداری کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے یہی دونوں پہلو اپنی مذکورہ تقریروں میں واضح کیے ہیں۔ گیارہ اگست کی تقریر اقلیتوں کے مذہبی وسیاسی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے اور پندرہ اگست کا بیان یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اکثریت جب اپنی سیاست ومعاشرت اور معیشت کی تشکیل کرے گی تو اپنے مذہب سے صرف نظر یا اس سے دست بردار ہو کر نہیں کریں گی۔

گیارہ اگست کی تقریر کے بعد فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام جاری کردہ ایک ریڈیو پیغام میں قائد اعظم نے جو کچھ کہا، وہ خود ان کی اپنی زبان سے گیارہ اگست کی تقریر کی مستند تشریح کا درجہ رکھتا ہے۔انھوں نے فرمایا:

’’پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ابھی دستور بنانا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ اس کی حتمی شکل وصورت کیا ہوگی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری قسم کا ہوگا جسے اسلام کے بنیادی اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی عملی زندگی پر اسی طرح لاگو ہوتے ہیں جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوتے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور مساوات اور انصاف کا سبق دیا ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے امین اور وارث ہیں اور دستور سازی میں انھی سے راہنمائی حاصل کی جائے گی۔ بہرحال پاکستان ایک تھیو کریٹ (مذہبی) ریاست نہیں ہوگی اور یہاں تمام اقلیتوں، ہندو، عیسائی، پارسی کو بحیثیت شہری وہی حقوق حاصل ہوں گے جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہوں گے۔’’ (یہ اقتباس ڈاکٹر صفدر محمود نے ایس ایم برک کی کتاب کے صفحہ ۵۲۱ کے حوالے سے نقل کیا ہے)

اقتباس سے واضح ہے کہ جناح صاحب کے ذہن میں کسی لا مذہبی یعنی سیکولر ریاست کا تصور نہیں، البتہ وہ ’’مذہبی ریاست’’ کے اس تصور کو قطعاً قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں شہریت دراصل کسی خاص مذہب کے ماننے والوں کی ہوتی ہے، جبکہ مذہبی اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا اور مساوی سیاسی حقوق کا حق دار نہیں سمجھا جاتا۔

ہمارے لبرل دوستوں میں فکر کی جدت اور تازگی کا حال اسی سے واضح ہے کہ سیکولرزم کے مقدمے کے لیے آج بھی ان کے تاریخی استدلال کا واحد قابل ذکر سہارا یہی گیارہ اگست کی تقریر ہے، حالانکہ اب وہ تقریر بھی ہاتھ جوڑتی ہے کہ مجھے خلاصی دے دی جائے۔ چنانچہ ممتاز دانش ور ڈاکٹر مبارک علی نے ایک مطبوعہ انٹرویو میں اس استدلال کی کمزوری تسلیم کی اور کہا کہ ہمیں سیکولر ریاست کے آپشن پر خود اس تصور ریاست کی افادیت نیز اپنے سابقہ تجربات کے حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ لبرل دوست اگر ان کی روشنی میں کچھ نئے استدلالات مرتب کرنے پر توجہ مبذول فرمائیں تو زیادہ اچھا مکالمہ ہو سکے گا۔ 


’’مولانا شبیر احمد عثمانی، پاکستان بنانے کے لیے تو قائد اعظم کی قائدانہ صلاحیتوں کے قائل تھے، لیکن نئی ریاست کیسی ہونی چاہیے، اس کے متعلق ان کا زاویہ نظر قائد اعظم سے مختلف تھا۔’’

یہ سادہ سا نکتہ ہے جسے مولانا عثمانی کی شخصیت پر جرح کی بنیاد بناتے ہوئے انکشافِ سازش کے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آخر کس اصول کی رو سے اعتراض بنتا ہے؟ تحریک پاکستان میں شامل مختلف طبقوں کے اپنے اپنے تصورات اور مقاصد تھے۔ تحریک میں شرکت صرف اس نکتے کے حوالے سے تھی کہ مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے۔ اگر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قیام وطن کے بعد کے اہداف میں بھی سب کا اتفاق ہونا چاہیے تو یہی اعتراض پلٹ کر خود قائد اعظم پر بھی وارد ہوتا ہے۔ کیا انھیں نہیں معلوم تھا کہ مذہبی علما ومشائخ کس جذبے اور تصور کے تحت تحریک کا حصہ بنے ہیں؟ پھر بھی انھوں نے مشترک مقصد کے حصول کے لیے انھیں ساتھ رکھا اور ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ آں محترم نے حصول مقصد سے پہلے اپنی پوزیشن غیر واضح رکھی۔ علما کے سامنے ان کی پسند کی باتیں کیں اور دوسری جگہوں پر اپنی پسند کی، لیکن ملک بن جانے کے بعد اپنا اصل تصور گیارہ اگست کی تقریر میں واضح کر دیا۔ اگر جناح صاحب کے طرز سیاست کی یہ تعبیر درست ہے تو یہ ’’بلند اخلاقی‘‘ کم سے کم علما نے تو نہیں دکھائی۔ وہ تو شروع سے آخر تک اپنے موقف میں واضح تھے اور قیام وطن کے بعد بھی وہی بات کہی جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے تھے۔

باقی رہی یہ بات کہ جناح صاحب کا تصور ریاست فلاں اور فلاں تھا اور شبیر احمد عثمانی کا ان سے مختلف تھا تو یہ کوئی جرم کی بات نہیں۔ بانی پاکستان کو نبوت کے منصب پر آخر کس نے فائز کیا ہے؟ کیا ملک کی نظریاتی اساس متعین کرنا آئینی ودستوری یا اخلاقی طور پر جناح صاحب کا بلا شرکت غیرے حق تھا؟ اگر یہ بات ہے تو اس کے لیے دستور ساز اسمبلی بنانے کا تکلف ہی کیوں کیا گیا؟ اور اگر یہ سوال دستور ساز اسمبلی نے طے کرنا تھا تو وہ آخر کس اصول کی رو سے جناح صاحب کے تصور ریاست کی پابند تھی؟ خود جناح صاحب کا بیان تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ نئے ملک کی دستوری حیثیت متعین کرنا میرا نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے۔ یہی بات اصولی اور آئینی طور پر درست ہے۔ جناح صاحب کا تصور ریاست کیا تھا، یہ بحث محض تاریخی اور نظری اہمیت رکھتی ہے۔ کسی اصول یا ضابطے کی رو سے ان کا رجحان، آئینی اداروں کو پابند نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اسی کو اختیار کریں۔

قائد اعظم نے گیارہ اگست کو دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا، اگر اس کی وہی تعبیر درست مانی جائے جو لبرل دوست کرتے ہیں تو بھی سوال یہ ہے کہ اس کی حیثیت راہ نما مشورے یا تجویز کی تھی یا دستور ساز اسمبلی کو ڈکٹیشن کی؟ اگر آن جناب ڈکٹیشن دے رہے تھے تو اپنے دائرۂ اختیار سے صریحاً تجاوز فرما رہے تھے جو انھیں زیب نہیں دیتا تھا۔ اور اگر ان کے ارشادات کی حیثیت راہ نما مشورے کی تھی تو بہت اچھا، انھوں نے دیانت داری سے جو مشورہ بہتر سمجھا، دے دیا، لیکن دستور ساز ادارے نے بصد احترام اسے قبول نہیں کیا۔ فرض کیجیے، قائد اعظم تھیو کریٹک ریاست کے قائل ہوتے تو کیا لبرل دوست آنکھیں بند کر کے ’’آمنا وصدقنا’’ کہہ دیتے کہ جب بانی پاکستان یہی چاہتے تھے تو ہماری اختلاف کی کیا مجال؟ اگر نہیں تو آخر ایمان مفصل کی یہ شق صرف اسلام پسندوں کے لیے کیوں ہے؟

اس بحث میں ہمارے دوستوں کا سہارا اسی طرح کے منطقی مغالطے ہیں۔ ان کا اصل دکھ یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کیوں علما کے موقف کی قائل ہو گئی اور جناح صاحب کا (مفروضہ) تصور کیوں قبول نہیں کیا گیا، لیکن اس کا غصہ اس طرح نکالا جا رہا ہے کہ اس آئینی فیصلے میں موثر کردار ادا کرنے والوں کی شخصیت کو مجروح کیا جائے اور اسے ایک ’’غیر اخلاقی سازش’’ دکھانے کے لیے ادھر ادھر سے تنکے جوڑ کر داستانیں رقم کی جائیں۔


اسلام پسند لکھاریوں کی ذمہ داری، ماضی کے برعکس، اب دوہری ہو گئی ہے۔ انھیں سیکولرسٹ بیانیے کا بھی جوابی بیانیہ پیش کرنا ہے اور خود اپنے بیانیے کی بھی نئی تشکیل کرنی ہے۔ جیسے سیکولرسٹ اسی پرانے بیانیے کو نئی بوتل میں پیش کر کے نئی نسل کو زیادہ متاثر نہیں کر سکتے، اسی طرح مذہبی بیانیہ بھی اپنے مقدمات اور استدلال کو re۔shape کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 

سابقہ بیانیے سے تاریخی طور پر کلی انقطاع ظاہر ہے ممکن نہیں، لیکن بحث کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کے ایک مرحلے کے ساتھ مقید بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ تحریک پاکستان کے مختلف کرداروں کا تصور اور عملی کردار کیا تھا، اس سوال کو بتدریج بحث کے ’’تاریخی’’ گوشے تک محدود کر دینا ضروری ہے۔ آج کی نسل کو، سوالات پر ان کے اپنے میرٹ پر بحث کرنے کی جرات کرنی ہوگی۔ دونوں طرف کے نوجوان ذہنوں کو بات اس سے آگے بڑھانی چاہیے جہاں تک ان کے بڑوں نے پہنچائی ہے۔ مثال کے طور پر جدید مسلم ریاست کو کلاسیکی دار الاسلام کے ہم معنی سمجھنا خلط مبحث بھی ہے اور نئی نسل کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام تر فکری ابہامات کی جڑ بھی۔ ڈاکٹر حمید اللہ سے لے کر ڈاکٹر محمود غازی اور مولانا تقی عثمانی تک، سبھی مسلم مفکرین اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں، لیکن بطور ایک اساسی مقدمے کے، اسے بیان کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ چنانچہ اصطلاحات اور تصورات کی تطبیق کی ساری کوششیں فکری وضوح پیدا کرنے کے بجائے فکری ابہامات میں ہی اضافہ کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔ دو الگ الگ تصورات ریاست کو تلفیق کے طریقے پر گڈ مڈ کر کے نقشہ بنایا جا رہا ہے جو کسی بھی تصور ریاست میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ عسکری رجحان رکھنے والے عناصر کی فکری بے اطمینانی کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے۔


ہمارے ہاں بحث ومباحثہ کی ساری گرمی اور باہمی تبادلہ الزامات صرف اس وجہ سے ہے کہ ہر سیاسی مکتب فکر خود کو ملک وملت کا بلا شرکت غیرے ٹھیکے دار سمجھتا اور دوسروں کے نقطہ نظر کو محض ’’دخل در معقولات’’ کی نظر سے دیکھتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی موجودہ نظریاتی اساس کی تشکیل کسی ایک فکر کی روشنی میں نہیں ہوئی اور نہ قوم نے اب تک کا فکری سفر کسی ایک راہ نما کے دکھائے ہوئے راستے پر اندھا دھند چل کر طے کیا ہے۔ ہمارا اجتماعی فکری سفر متنوع اصحاب فکر کے افکار کا مرہون منت ہے اور ہمارے اجتماعی شعور نے اس معاملے میں کوئی تعصب نہیں برتا۔ اس نے پوری دیانت داری نیز دانش مندی سے مختلف فکری دھاروں سے وہ اجزا وعناصر چھانٹ لیے ہیں جو اسے مفید محسوس ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس نظریے کو عملی شکل دینے کے قابل نہیں ہو سکے یا اپنی نسلوں کو اس کی دانش ورانہ تفہیم میں تقصیر کے مرتکب ہوئے ہیں یا کم حوصلہ دانش اس اخذ واستفادہ کے اعتراف میں مسلسل بخل سے کام لے رہی ہے۔ یہ فکری عناصر حسب ذیل ہیں:

  • علامہ محمد اقبال کا، مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کے حامل ایک الگ خطہ زمین کا تصور
  • مولانا حسین احمد مدنی کی یہ اجتہادی فکر کہ موجودہ دور میں قومیت کی بنیاد ’’وطن’’ پر ہے
  • قائد اعظم کا، ایک فلاحی جمہوری ریاست کا تصور جس میں اقلیتوں کو یکساں شہری وسیاسی حقوق حاصل ہوں اور تھیا کریسی کی کسی صورت کو گوارا نہ کیا جائے
  • جدید ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کے عملی وآئینی میکنزم کے ضمن میں نامور مذہبی اسکالرز (مولانا مودودی، علامہ اسد، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دیگر بہت سے علماء) کی اجتہادی کاوشیں

اجتماعی شعور نہ پہلے کسی ایک فکری دھارے کا غلام بنا ہے اور نہ آئندہ اسے بنایا جا سکے گا۔ ہر ہر نقطہ خیال کے اصحاب فکر کو پورا حق ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کو ان کے دلائل کے ساتھ سامنے لاتے رہیں۔ اجتماعی شعور ان سب سے استفادہ کرے گا اور ان شاء اللہ پورے توازن کے ساتھ جس بات کا جتنا وزن محسوس کرے گا، اسے قبول کرتا رہے گا۔ اگر سب اصحاب فکر اس بنیادی نکتے کا ادراک کر لیں تو معاشرہ وریاست کو اپنی محدود سوچ کے مطابق تشکیل دینے کی حد سے بڑھی ہوئی خواہش خود بخود اعتدال پر آ جائے گی۔ (عمار ناصر)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(مئی ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter