ایک سفر اور مولانا طارق جمیل سے ملاقات

محمد بلال فاروقی

۲۹ مارچ ۲۰۱۶ء کو العصر تعلیمی مرکز پیر محل میں اختتام بخاری شریف کی تقریب میں شرکت کی غرض سے استاذ محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ہمراہ براستہ فیصل آباد پیر محل کے لیے رخت سفر باندھا ۔ پہلا پڑاو فیصل آباد تھا جہاں جامعہ مدینۃ العلم کے سرپرست اور استاد گرامی کے قدیم رفیق مولانا قاری محمد الیاس سے ملاقات طے تھی۔ مولانا موصوف جمعیت علمائے اسلام کے پرانے راہ نما تھے، لیکن ۹۰ کی دہائی میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہو کر امریکہ منتقل ہوگئے۔ وہاں ڈیٹرائٹ میں ایک تعلیمی ادارہ کی بنیاد رکھی جہاں حفظ و ناظرہ اور درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔نماز ظہر کے بعد استاذ محترم نے معروف ٹی وی چینل بزنسپلس کے لیے انٹرویو ریکارڈ کروایا جس میں روزنامہ اسلام کے سنئیر رپورٹر جناب ذکر اللہ حسنی بھی موجود تھے ۔ دونوں نمائندوں کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے استاد محترم نے کہا کہ لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والا قومی سانحہ انتہائی تکلیف دہ ہے ۔اس قسم کے سانحات پوری قوم کو کرب کی کیفیت میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ استاذ محترم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس قسم کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونا کیا ہماری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہیں؟ ریاستی اداروں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی اور ہر معاملے پر بیرونی عوامل کو نظر انداز کر کے دینی مدارس کی طرف الزامات دہراتے رہنے کی روش کو ترک کرنا ہوگا۔

حقوق نسواں بل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ کئی عشروں سے مسلسل مسلمانوں اور مشرق کے خاندانی نظام کو توڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مغرب آخر کیوں اپنے مسائل اور ماحول کی بنیاد پر بنائے جانے والے قوانین کو ہم پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ مغرب اور ہمارے لبرز کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب کا اور ہمارا پس منظر بالکل مختلف ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ پاکستان کے کسی مسلمان کو اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے خاندانی معاملات میں قرآن و حدیث کو مد نظر نہ رکھے ۔ یہ زمینی حقیقت ہے ۔جب تک آپ اس کو مدنظر رکھ کر قانون نہیں بنائیں گے، ہر قانون کا یہی حشر ہو گا اور اسی طرح کی بے چینی پھیلے گی۔

انٹرویو کے بعد پیر محل کے لیے روانہ ہوئے جہاں حضرت مولانا منیر احمد منور اور حضرت مولانا ارشاد احمد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مولانا منیر احمد کی خدمت میں استاذ گرامی مولانا عمار خان ناصر صاحب کی کتاب فقہائے احناف پیش کی اور تبصرہ فرمانے کی گذارش کی جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا۔

رات کو ختم بخاری شریف کی تقریب کے بعد قیام وہیں رہا جبکہ دوسرے روز صبح کو فیصل آباد سے پیر محل جاتے ہوئے راستے میں علم ہوا کہ مولانا طارق جمیل اپنے گاؤں تلمبہ میں ہیں جو ہمارے راستہ میں ہے۔ چونکہ مولانا طارق جمیل پہلے اطلاع نہیں دے رکھی تھی، اس لیے ارادہ تھا کہ اگر ملاقات ہوگئی تو ٹھیک، ورنہ اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اگلی منزل ملتان روانہ ہو جائیں گے۔ مولانا طارق جمیل کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہاں متعین خدام نے بھرپور ناشتے کا اہتمام کیا۔ کچھ ہی دیر بعد مولانا تشریف لائے اور آتے ہی فرمایا کہ آج تو ہماری عید ہوگئی۔ استاذ محترم نے بتایا کہ ملتان جارہے تھے تو سوچا آپ کی زیارت کرتے ہوئے جائیں ۔ 

مولانا طارق جمیل نے پوچھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم میں بخاری شریف آپ ہی کے ذمہ ہے؟ تو استاذ محترم نے فرمایا کہ بس بڑوں نے ذمہ داری ڈال دی ہے۔اس پر مولانا نے فرمایا کہ جامعہ بغداد کے میں ایک صاحب کو شیخ الحدیث مقرر کیا گیا تو وہ چھپ گئے ۔جب انہیں ڈھونڈ کر مسند پر بٹھایا گیا تو انہوں نے شعر پڑھا:

خلت الدیارفسدت غیر مسود
ومن الشقاء تفردی بالسؤدد

اس پر استاد جی نے فرمایا کہ مولانا عبد اللہ درخواستی اس جملے کو کہ ’’کبرنی موت الکبراء‘‘ ( بڑوں کی موت نے ہم کو بڑا بنا دیا) کو اضافہ کے ساتھ یوں پڑھا کرتے تھے کہ ’’بڑوں کی موت نے ’ہم جیسوں‘  کو بڑا بنا دیا‘‘۔

مولانا طارق جمیل نے پوچھا کہ آپ کا الشریعہ کیسا چل رہا ہے تو استاذ محترم نے فرمایا کہ حسب معمول او ر حسب دستور اپنے مدو جزر کے ساتھ۔ استاذ محترم نے مولانا کی خدمت میں ’’ خطبات راشدی‘‘ جلد دوم اور ’’فقہائے احناف اور فہم حدیث‘‘ پیش کی تو مولانا نے بڑی حسرت سے فرمایا کہ مولانا ! مجھے تو اسفار اور ملاقاتوں نے بے حال کر رکھا ہے۔ اپنے لیے کوئی وقت ہی نہیں بچتا۔کہنے لگے، ۸۹ ء میں میرا پہلا حج تھا۔ اس سے پہلے میں رائیونڈ میں مقیم ہوتا تھا اور میرے سفر کوئی نہیں ہوتے تھے۔جب حج پر گیا توبیت اللہ میں مولانا فاروق صاحب( وہ چھوٹے حاجی عبدالوہاب صاحب ہیں ) سے ملاقات ہوئی ۔ان کے بڑے سفر ہوتے تھے ۔میں نے ان سے کہا کہ آپ تو بڑے خوش نصیب ہیں ۔آپ کے اتنے سفر ہوتے ہیں، میں تو رائیونڈ میں ہی پڑا رہتا ہوں ۔یہ عشاء کے بعد کا وقت تھا ۔انہوں نے مجھے کہا کہ طواف کرو اس کے دو نفل پڑو اور پھر اللہ سے دعا مانگوکہ یا اللہ! مجھے اپنے دین کے لیے سیار بنا دے ۔میں اٹھا ،طواف کیا دو نفل پڑھے اور دعا مانگی کہ یا اللہ ! مجھے اپنے دین کا سیار بنا دے ۔ بس وہ دعا ایسی قبول ہوئی کہ کبھی سفر سے پاؤں نکلا ہی نہیں۔ ایک ایک سال میں تیس تیس ملکوں کا سفر اللہ نے کروایا ۔اب وہ ہمت نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے پوری دنیا میں پھرنا لکھا تھا اور شکر ہے کہ اس نے اپنے دین کی خدمت میں پھرایا ۔

مولانا طارق جمیل صاحب نے فرمایا کہ زمانے کے ساتھ ساتھ تجدید کی ضرورت تو ہوتی ہے ۔ استاذ محترم نے فرمایا کہتجدید رکتی نہیں، ہوتی رہتی ہے ۔کہہ کر کریں، تب اور نہ مان کر کریں، تب بھی۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم بغیر مانے تجدید کرتے رہتے ہیں۔ اجتہاد چلتا رہتا ہے، زمانے کے بدلنے سے احکامات بدلتے رہتے ہیں ۔ہمارا موقف یہ ہے کہ بھئی، یہ تجدید و اجتہا د بتا کر اور سمجھا کر کرو گے تو بہت سی الجھنوں سے بچ جاؤ گے، مگر یہ بات بہت سے حضرات کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔

مولانا طارق جمیل سے رخصت ہو کر ہم جامعہ قادریہ حنفیہ ملتان پہنچے جہاں ادارے کے سربراہ مولانا محمد نواز اور مولانا عبد الجبار طاہر نے استقبال کیا ۔جامعہ میں ایک ہی دن میں دو تقریبات تھیں، جامعہ کے قدیم فضلاء کا کنونشن اور اختتام بخاری کی تقریب۔ مولانا زاہد الراشدی نے فضلاء سے اپنے خطاب کا آغاز ایک لطیفہ سے کیا کہ ’’ رشدی ‘‘ اور ’’ راشدی ‘‘ میں فرق ملحوظ رکھا جائے اور بتایا کہ ایک دفعہ میں اور مولانا سمیع الحق صاحب ملتان آئے تو کارکنان نے بھرپور استقبال کیا ۔ان دنوں سلمان رشدی کا قصہ چل رہا تھا۔ ہم آگے گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے اور پیچھے بہت سے کارکن زور زور سے نعرے لگا رہے تھے ’’راشدی کو پھانسی دو، راشدی کو پھانسی دو۔‘‘ جلوس جب منزل پر پہنچا تو میں اسٹیج پر گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ بھئی ! میر ا کیا قصور ہے کہ تم لوگ دو گھنٹے یہ نعرے لگاتے رہے ؟ مجمع سے آواز آئی کہ وہ آپ کو نہیں، سلمان راشدی کو کہہ رہے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ بھائیو! وہ راشدی نہیں، رشدی ہے۔

ماحول، حالات، اور زمانہ کے مطابق اسباب کو اختیار کرنا بہت اہم ہے، لیکن میں اس سے پہلے کی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ ان سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ زمانہ، ماحول اور حالات کو سمجھا جائے۔

ہماری بہت سی الجھنوں اور پریشانیوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں حالات کا ادراک نہیں ہوتا، ہم حالات کو پوری طرح سمجھتے نہیں۔ سطحی، ادھوری باتیں ہمارے ذہن میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک مسئلہ ہمیں درپیش ہے کہ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ آپ اجتہاد کریں۔ ہم اس بات کو سمجھے بغیر کہ ان کے ہاں اجتہاد کا تصور کیا ہے، نور الانوار اور حسامی لے کر فقہی جزئیات سے جواب دینے لگتے ہیں جس سے بات سلجھنے کے بجائے مزید الجھ جاتی ہے۔ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کے ذہن میں اجتہاد کے دو مختلف تصور ہیں۔ ایک یہ کہ جیسا کہ عیسائیوں کے ہاں پاپائے روم کو دین عیسوی میں حلال و حرام کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے، ایسے ہی شاید ہمارے علماء کو بھی اس طرح کا صوابدیدی اختیار حاصل ہے، لیکن یہ استعمال نہیں کرتے ۔اس پر وہ پریشان ہوتے ہیں کہ اختیار حاصل ہونے کے باوجود اس کو استعمال نہیں کرتے۔ تیس پینتیس قبل رمضان سخت گرمیوں میں تھا تو اس زمانہ میں ایک دانشور کا کالم ’’ اجتہاد ‘‘ کے عنوان سے شائع ہو ا۔اس کالم میں علماء سے درخواست کی گئی کہ رمضان سخت گرمی میں آرہا ہے اور اس شدید گرمی میں بھٹے پر کام کرنے والے مزدور اور مونجی کاشت کرنے مزدور کے لیے روزہ رکھنا انتہائی مشکل ہے، لہٰذا علماء مشورہ کرکے اجتہاد کریں اور رمضان کو کسی ایک مہینہ میں خاص کر دیں اور ساتھ ہی تجویز دی کہ اگر رمضان کو فروری کے مہینے میں مقرر کر دیا جائے تو دو فائدے ہوں گے۔ایک یہ کہ رمضان معتدل موسم میں آجائے گا اور دوسرا عید کے چاند کا جھگڑا ختم ہو جائے گا۔یہ ان کے ہاں اجتہا د کا تصور ہے۔ میں نے جواب میں کالم لکھا کہ بھئی، آپ تیسرا فائدہ بھول گئے ہیں کہ تیسویں روزہ کی بات ہی ختم ہو جائے گی۔تین سال اٹھائیس اور ایک سال انتیس روزے رکھنے پڑیں گے۔

میں ایسے دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ بھیا، ہمیں پاپائے روم کی طرح اس قسم کو کوئی صوبدیدی اختیار نہیں ہے۔ ہم تو نصوص کے پابند ہیں اورنصوص صریحہ وقطعیہ میں کسی قسم کے رد وبدل کا اختیار نہیں رکھتے۔ 

بہت سے لوگوں کے ذہن میں اجتہاد کا دوسرا تصور بھی ہے اور وہ بھی عیسائیوں سے مستعار لیا گیا ہے۔ مارٹن لوتھر کنگ نے پاپائے روم کے اس صوابدیدی اختیار کو چیلنج کیا اور اس بات کا نعرہ لگایاکہ ’’ کامن سینس‘‘ پر فیصلے ہوں گے، بائبل کی تشریح میں پوپ کی اتھارٹی حتمی نہیں ہے۔ اب چونکہ سوسائٹی کی کامن سینس کی نمائندگی پارلیمنٹ کرتی ہے، لہٰذا یہ موقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ کو مذہب کی تشریح کی اجازت ہونی چاہیے۔جب شریعت بل کی تحریک چل رہی تھی تو نوائے وقت کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں مختلف حضرات کا کہنا تھا کہ ہم قرآن و سنت کو سپریم لا مان لیتے ہیں، لیکن اس کی تشریح کا اختیار پارلیمنٹ کو ہونا چاہیے۔ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ بالکل درست ہے۔ پارلیمنٹ کو مذہب کی تشریح کا اختیار دے دینا چاہیے۔ بس میری ایک شرط ہے، وہ یہ کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی اہلیت کے لیے وہ شرائط مقرر کی جائیں جو قرآن وسنت کی تعبیر اور اجتہاد کے لیے ضروری ہیں ۔ ہم سے اجتہاد کا مطالبہ کرنے والوں کا ایک تصور اجتہاد یہ ہے اور ہمیں اجتہاد کے اس مطالبہ کا ان امور کو سامنے رکھ کر جواب دینا ہوگا۔

رات کو جامعہ قادریہ کا سالانہ عمومی جلسہ تھا جس میں استاذ محترم نے ملک کی عمومی صورت حال اور عالمی فکری وتہذیبی کشمکش کے حوالے سے مفصل خطاب کیا اور اس کے بعد ہم گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہو گئے۔

اخبار و آثار

(مئی ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter