مکاتب فقہیہ میں سے اولین مکتب کا شرف پانے والا مکتب حنفی متنوع خصوصیات و امتیازات کے باوجود اصول فقہ کے میدان میں ایک خلا کا حامل ہے کہ اس عظیم فقہ کے اصول اس کے بانی ائمہ امام ابوحنیفہ ،امام ابویوسف اور امام محمد سے براہ راست منقول نہیں ہیں۔ اس پر مستزاد یہ ،ائمہ ثلاثہ سے فیض یاب ہونے والے اولین فقہائے حنفیہ جیسے امام عیسیٰ بن ابان(المتوفی ۲۲۰ھ)، امام محمد بن سماعہ (المتوفی ۲۳۳ھ) اور صدر اول کے دیگر فقہائے احناف کی اصول فقہ کی کوئی کتاب محفوظ نہیں رہ سکی ،اگرچہ ان کے تراجم اور فہارس الکتب میں ان حضرات کی اصولی کتب کا تذکرہ ملتا ہے ۔ اس مکتب کی محفوظ شدہ اصولی کتب میں اولین کتب، چوتھی صدی ہجری کے علمائے حنفیہ ،ابو الحسن الکرخی (۳۴۰ھ)اور امام جصاص الرازی (۳۷۰ھ)کی کتب ہیں، اگرچہ ان حضرات کے بعد عصر حاضر تک فقہ حنفی کے اصولی ذخیرے میں اضافہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
فقہائے حنفیہ نے امام ابوحنیفہ و صاحبین سے منقول فروعات کو سامنے رکھ کر ان حضرات کے پیش نظر اصول و قواعد کا استخراج کیا۔ اس طرز کے فوائد اور اس کی اہمیت اگرچہ اصول فقہ میں مسلم ہے اور فقہائے حنفیہ کے اس اسلوب نے اصول فقہ کو نئی جہات اور نئے فنون سے مالا مال کیا۔ لیکن اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فروعات سے اصول کی تخریج اور خود مکتب حنفی کے بانیوں کی اصولی تصریحات اور اصولی مباحث میں قطعیت، اہمیت، تعبیر اور طرزو اسلوب کے اعتبار سے بہت فرق ہے۔ کسی کے کلام سے مستنبط کردہ اور متکلم کی صراحت میں فرق ایک بدیہی بات ہے۔
عصر حاضر میں فقہ اسلامی پر جن نئی جہات سے کام کی صدائیں بلند ہورہی ہیں، ان میں خاص طور پر فقہ حنفی کے حوالے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ فقہ حنفی کی امہات الکتب، کتب ظاہر الروایہ اور امام محمد کی دیگر کتب کے ساتھ امام ابویوسف کی کتب میں بکھرے اصولی مباحث کو اکٹھا کیا جائے ،تاکہ فقہ حنفی کے بانیوں کا نظریہ استنباط و اجتہاد خود ان کی تصریحات کی روشنی میں سامنے آئے، چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر ۲۰۲۲ میں دار ابن حزم سے امام محمد کی کتاب الاصل جدید تحقیق کے ساتھ چھپی تو کتاب کے محقق الدکتور محمد بوینو کالن نے اس کے مقدمے میں کتاب الاصل کے اصولی مباحث کا ایک مبسوط جائزہ لیا۔
اس مضمون میں امام محمد کی ایک مہتم بالشان کتاب "الحجۃ علی اہل المدینہ" کے اصولی مباحث کا ایک طائرانہ جائزہ اس مقصد کے پیش نظر لیا جائے گا کہ کوئی محقق اس کی روشنی میں کتاب کے اصولی مباحث کو دقت و بسط کے ساتھ جمع کرے تو یقیناً فقہ حنفی کی ایک تاریخی خدمت ہوگی۔
کتاب الحجۃ کا تعارف
کتاب الحجۃ کا شمار امام محمد کی نوادر الروایہ کتب میں ہوتا ہے۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ امام محمد نے حصول علم کی غرض سے مدینہ منورہ کا سفر کیا، اور امام دار الہجرۃ امام مالک رحمہ اللہ سے تقریباً تین سال تک حدیث و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں امام مالک سے حاصل کردہ روایات کو موطا امام محمد میں جمع کیا اور دوران تعلیم فقہی مناقشوں کو کتاب الحجۃ میں جمع کیا۔اس کتاب میں مصنف کا طرز یہ ہے کہ عنوان باندھنے کے بعد پہلے امام ابوحنیفہ کا مسلک ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد وقال اھل المدینۃ کہہ کر امام مالک اور مدینہ کے دیگر فقہاء کی رائے سامنے لاتے ہیں اور اس کے بعد وقال محمد سے اہل مدینہ کے مسلک پر مناقشہ ذکر کرکے امام ابوحنیفہ کے قول کو احادیث و آثار سے مبرہن کرتے ہیں۔ چونکہ کتاب بنیادی طور پر فقہی مناقشوں پر مشتمل ہے، اس لیے امام محمد کی شان اجتہاد، وسعت علم، احادیث و آثار پر نظر اور اپنے مسلک کی نقلی و عقلی تائید ات کا انمول خزانہ ہے۔ اس کتاب کے راوی امام محمد کے معروف شاگرد امام عیسیٰ بن ابان ہیں۔ اب ہم اس کتاب میں ذکر کردہ اصولی مباحث و قواعد اصولیہ بغیر کسی خاص ترتیب کے ذکر کرتے ہیں۔
غیر منصوص مسائل کے بارے میں ضابطہ
اما م محمد نے کئی مقامات پر اس بنیادی اصول کی تصریح کی ہے کہ غیر منصوص مسائل کا حل منصوص مسائل پر قیاس ہے، چنانچہ بیع قبل القبض کے بارے میں فرماتے ہیں :
علی الناس ان یقیسوا ما لم یات فیہ اثر بما جاء من الاثار۔
’’لوگوں کے ذمے ہے کہ غیر منصوص مسائل کو منصوص مسائل پر قیاس کریں۔‘‘
ایک دوسری جگہ سے اس ضابطے کی مزید وضاحت معلوم ہوتی ہے کہ قیاس صرف ان منصوص مسائل پر کیا جائے گا جن کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہو، یعنی علت مشترکہ کی بنیاد پر قیاس ہوگا۔چنانچہ مسح الراس والے مسئلے میں لکھتے ہیں :
انما ینبغی ان یقاس ما لم یات فیہ اثر بما یشبھہ مما جاء فیہ الاثر۔
’’مناسب یہ ہے کہ جن مسائل میں روایات نہیں ہیں، انہیں ان ان کے مشابہ منصوص مسائل پر قیاس کیا جائے۔‘‘
نصوص کی موجودگی میں قیاس مردود ہے
امام محمد نے اس کی بھی کئی مقامات پر تصریح کی ہے کہ نصوص کے ہوتے ہوئے قیاس مردود اور ناقابل قبول ہے۔
قعدہ استراحت کے مسئلے میں فرماتے ہیں:
السنۃ و الآثار فی ھذا معروفۃ مشھورۃ لا یحتاج معھا الی نظر و قیاس۔
’’روایات اس مسئلے میں مشہور و معروف ہیں ،ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس کے علاوہ درجہ ذیل مقامات پر بھی اسی ضابطے کو بیان کیا ہے۔
نصوص قیاس پر مقدم ہیں
امام محمد نے قیاس کے حوالے سے ایک اہم ترین اصول یہ بیان کیا ہے کہ نصوص قیاس پر مقدم ہیں، لہٰذا اگر کسی مسئلے میں حدیث اور روایت کا تعارض ہو تو روایت کو ترجیح ہوگی۔
قہقہہ سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کے مسئلے میں ارشاد فرماتے ہیں :
لولا جا ء من الاثار کان القیاس علی ما قال اھل المدینہ و لکن لا قیاس مع اثر، ولیس ینبغی الا ان ینقاد للاثار۔
’’اگر قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے مذکورہ روایات نہ ہوتیں ،تو قیاس تقاضا یہی تھا جو اہل مدینہ کا مسلک ہے، لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ہوتا اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘
قیاس کے بارے میں ان تین ضابطوں کو اگر باب القیاس کا خلاصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ نیز ان سے یہ بات بھی ثابت ہورہی ہے کہ ائمہ حنفیہ کی نظر میں نصوص و روایات کا کیا مقام تھا۔ امام محمد کی ان تصریحات کے بعد بھی کوئی حنفیہ پر قیاس کو ترجیح دینے کا الزام لگائے گا تو علمی دنیا میں اس سے بڑی غلط فہمی نہیں ہوگی۔
شریعت کے عمومی قواعد اور نصوص کے خلاف روایت کا حکم
امام محمد نے جا بجا اس اہم اصو ل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی روایت اگر شریعت کے عمومی قواعد و ضوابط کے خلاف ہو ،تو وہ روایت نہیں لی جائے گی۔
صلاۃ الکسوف میں دو رکوع والی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
السنۃ المعروفۃ فی غیر الکسوف علی رکعۃ وسجدتین فی کل رکعۃ وکیف صارت صلاۃ الکسوف مخالفۃ لغیرھا من جمیع الصلوات، فانما ذلک شیء یقرب بہ الی اللہ تعالی، فالصلاۃ واحدۃ وفی کل رکعۃ قراء ۃ ورکعۃ واحدۃ وسجدتان، فاما الرکعتان فی رکعۃ فھذا امر لم یکن فی شیء من الصلوات لا فی صلاۃ عید ولا فی جمعۃ ولا فی تطوع ولا فی فریضۃ، فکیف ذالک فی صلاۃ الکسوف؟
’’کسوف کے علاوہ نماز کے بارے میں معروف طریقہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ہیں ،تو نماز کسوف باقی تمام نمازوں کے کیسے مخالف ہوگی؟حالانکہ یہ نماز بھی دیگر نمازوں کی طرح تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہے ،تو نماز ہونے میں سب نمازیں ایک جیسی ہیں، اور باقی نمازوں میں ہر رکعت میں قراء ت،ایک رکوع اور دو سجدے ہیں، لیکن ایک رکعت میں دو رکوع ایسا حکم ہے جو کسی بھی نماز میں ثابت نہیں ہے، خواہ وہ جمعہ کی نماز ہو ،نفل ہو یا فرض،تو یہ حکم کسوف کی نماز میں کیسے ہوسکتا ہے ؟‘‘
اس عبارت میں امام محمد نے نمازوں کے بارے میں شریعت کے عمومی قاعدے (نمازوں میں ایک ہی رکوع ہے) کی وجہ سے کسوف میں دو رکوع والی روایت کو ظاہر پر رکھنے کی بجائے اس کی تاویل کی ہے۔
ایک اور جگہ مختلف احادیث میں ترجیح کا اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اذا جاء الحدیثان المختلفان ان ینظر الی اشبھھما بالحق، فیوخذ بہ و یترک ما سوا ذلک۔
’’جب دو مختلف احادیث آجائیں تو حق کے موافق روایت کو لیا جائے گا اور دوسری روایت کو ترک کیا جائے گا۔‘‘
یہی اصطلاح اما م محمد نے ایک اور جگہ بھی استعمال کی ہے ،چنانچہ سواری پر وتر پڑھنے سے متعلق مختلف احادیث روایت کر کے لکھتے ہیں:
فروی ان ابن عمر رضی اللہ عنھما کان ینزل بالارض فیوتر علیھا ویروی ذلک عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاخذنا باوثقھا واشبھھا بالحق وبما جاء ت بہ الآثار من التشدید فی الوتر۔
’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ زمین پر اتر کر وتر پڑھتے تھے ،اور اسی طرح خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے ،تو ہم نے ان میں سے قابل اعتماد ،حق کے موافق اور ان روایات کے مطابق روایت لی ،جن میں وتر کے مسئلے میں سختی منقول ہیں۔‘‘
ایک جگہ قصاص کے مسئلے میں مزید وضاحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
فلیس ینبغی ان یترک ما یوافق السنۃ و الکتاب۔
’’مناسب نہیں ہے کہ اس روایت کو چھوڑ دیا جائے جو کتاب و سنت کے موافق ہو۔‘‘
ایک اور مقام پر اسے ’’اشبہ بالکتاب و السنۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
سجدہ سہو کے مسئلے میں اہل مدینہ کی دلیل حضرت عبد اللہ ابن بحینہ کی حدیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
قیل لھم افنقبل ھذا بترک السنۃ والآثار المعروفۃ بقول رجل لا یروی عنہ غیر حدیث واحد؟
’’اہل مدینہ سے کہا جائے گا کہ کیا اس مسئلے میں سنت اور معروف احادیث کو ایک آدمی کی حدیث کی وجہ سے چھوڑا جاسکتا ہے جن سے اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث مروی نہیں ہے۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد اپنی تائید میں کافی آثار پیش کیے ہیں۔
صلوۃ الخوف کے مسئلے میں اہل مدینہ کے مسلک پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقال محمد بن الحسن وکیف یستقیم ھذا وانما جعل الامام لیؤتم بہ فی ما جاء عن رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فی ما لا اختلاف فیھا فاذا صلت الطائفۃ الاولی الرکعۃ الثانیۃ قبل ان یصلیھا الامام فلم یاتموا بالامام فیھا۔
’’محمد بن حسن کہتے ہیں کہ کہ یہ طریقہ کیسے درست ہوسکتا ہے ،حالانکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا کسی اختلاف کے منقول ہے کہ امام اقتداء کے لیے ہوتا ہے، لہٰذا جب پہلے گروہ نے دوسری رکعت امام کے پڑھنے سے پہلے مکمل کر لی ،تو اس میں امام کی اقتداء انہوں نے نہیں کی۔‘‘
یہاں بھی امام محمد رحمہ اللہ نے امامت کے بارے میں شریعت کے عمومی قاعدے سے استدلال کیا ہے ،کہ شریعت کا متفقہ اصول ہے کہ مقتدی امام کی اقتدا کرتے ہیں ،جبکہ اس صورت میں مقتدی اقتدا کرنے کی بجائے امام کی مخالفت کے مرتکب ہورہے ہیں۔
امام محمد کی مذکورہ کتاب میں جا بجا اس اصول کی اصل ملتی ہے کہ شریعت کے قواعد عامہ اور نصوص متواترہ کے خلاف روایت قبول نہیں ہوگی۔ اسی اصول کو بعد میں امام محمد کے شاگرد رشید امام عیسیٰ بن ابان نے زیادہ تنقیح کے ساتھ اس طرح پیش کیا کہ اگر راوی غیر فقیہ ہو ،توقواعد عامہ کے خلاف ہونے کی صورت میں اس کی روایت قبول نہیں ہوگی ۔ (راوی کی فقاہت کے حوالے سے بھی کتاب الحجۃ میں بحث ہے جسے ان شاء اللہ آگے ذکر کریں گے)۔ امام عیسیٰ بن ابان کے بیان کردہ اصول پر دیگر مسالک اور خود بعض ائمہ حنفیہ کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا اور اسے امام عیسیٰ بن ابان اور چند فقہاء کاتفرد کہا جانے لگا،اور خاص طور پر یہ بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا کہ حنفیہ کے نزدیک قیاس روایت پر مقدم ہے اور اس اصول کو سمجھے بغیر اس کی بنیاد پر حنفیہ کو رائے اور قیاس کی وجہ سے احادیث و آثار چھوڑنے کا بے بنیاد الزام دیا جانے لگا۔ذیل میں ہم اس کی اہمیت کی وجہ سے اس پر کچھ مختصر بحث کرتے ہیں :
تقدیم القیاس علی الخبر کی بحث
سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ قیاس و خبر کے تعارض کی صورت میں ترجیح کا معاملہ روز اول سے فقہاء میں معرکۃ الآراء رہا ہے۔ مجلہ جامعہ اسلامیہ کے ۲۰۱۱ کے شمارے میں ڈاکٹر سعید منصور کا "رفع الالتباس اذا تعارض خبر الواحد القیاس" کے عنوان سے ایک ضخیم مقالہ چھپا ہے ۔ اس میں محقق نے اس مسئلے کے بارے میں فقہاء کے دس مذاہب بیان کے ہیں۔ یہاں ان مذاہب کی تفصیل اور ان میں راجح مذہب سے قطع نظر یہ بتانا مقصود ہے کہ اس مسئلے میں فقہائے کرام میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، لہٰذا صرف حنفیہ نے بقیہ ائمہ مجتہدین سے الگ مسلک نہیں اپنایا، بلکہ اس میں ان کے ہم نوا دیگر فقہاء بھی ہیں ،اور خاص طور پر راوی کی فقاہت کی شرط میں بھی بعض ائمہ حنفیہ کے ساتھ بعض مالکیہ بھی ہیں، لہٰذا ایسا مسئلہ جس میں شروع ہی سے متعدد آراء موجود ہوں، ان میں اگر حنفیہ یا بعض حنفیہ نے ایک مسلک اختیار کیا ، جن میں ان کے ساتھ دیگر فقہاء بھی ہیں، تو صرف حنفیہ کو مورد الزام ٹھہرانا پروپیگنڈے یا تعصب کا نتیجہ ہے۔
دوسری بات اس بحث میں یہ اہم ہے کہ جب قیاس پر خبر کی تقدیم کی بحث کی جاتی ہے ،تو اس میں قیاس سے کیا مراد ہوتا ہے؟ لفظ قیاس کی صحیح مراد متعین نہ ہونے کی بنیاد پر بھی اس مسئلے کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔ قیاس کا ایک عام مفہوم تو قیاس اصطلاحی ہے، یعنی علت مشترکہ کی بنیاد پر منصو ص مسئلے کا حکم غیر منصوص مسئلے پر لگانا۔ اسے قیاس اصولی بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ قیاس کا اطلاق قواعد عامہ اور اصول ثابتہ پر بھی ہوتا ہے۔ کتب فقہ خصوصاً ہدایہ میں جس مسئلے میں "خلاف القیاس" کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس میں عام طور پر قیاس سے مراد اصل، ضابطہ اور قاعدہ عامہ ہوتا ہے۔بطور نمونے کے صرف ایک مثال پر اکتفاء کرنا چاہوں گا :
حائضہ عورت کے ذمے نماز کی قضاء اور روزے کی قضا نہ ہونے کے حوالے سے علامہ عینی رحمہ اللہ ایک اشکال کی صورت میں فرماتے ہیں:
فان قلت وجوب القضاء یبنی علی وجود الاداء فی الاحکام، فکیف تخلف ھذا الحکم ھاھنا؟ قلت الاصل ھذا، ولکنہ ثبت علی خلاف القیاس۔
’’اگر تم کہو کہ قضاء کا وجوب ادا کے وجود پر مبنی ہوتا ہے ،تو یہ حکم اس (روزے )مسئلے میں کیسے نہیں لگا ،تو میں کہوں گا کہ اصول یہی ہے ،لیکن یہاں حکم قیاس (اصول ) کے خلاف ثابت ہے۔ ‘‘
تقدیم القیاس علی خبر الواحد کے مسئلے میں لفظ قیاس سے مراد قیاس اصولی نہیں ،بلکہ قیاس بمعنی ضابطہ ،قاعدہ اور اصول ہے، کیونکہ قیاس اصولی خود امام محمد رحمہ اللہ کی تصریحات کی بنا پر خبر واحد سے موخر ہے۔چنانچہ قہقہہ والے مسئلے میں امام محمد رحمہ اللہ کی تصریح ما قبل میں گزر چکی ہے ، جسے دوربارہ ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا :
لولا جا ء من الاثار کان القیاس علی ما قال اھل المدینۃ ولکن لا قیاس مع اثر، ولیس ینبغی الا ان ینقاد للاثار۔
’’اگر قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے مذکورہ روایات نہ ہوتیں ،تو قیاس تقاضا یہی تھا جو اہل مدینہ کا مسلک ہے۔لیکن حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس نہیں ہوتا اور نصوص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘
عبارت کا مطلب واضح ہے کہ قہقہہ سے وضو ٹوٹنے کے حوالے سے قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ وضو نہ ٹوٹتا، کیونکہ نصوص کی رو سے وضو خروج نجاست سے ٹوٹتا ہے، اور قہقہہ میں خروج نجاست نہیں ہے تو علت مشترکہ نہ ہونے کی صورت میں قہقہہ کو نواقض وضو والے نصوص پر قیاس نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا قیاساً تو وضو نہیں ٹوٹتا، لیکن چونکہ قہقہہ کے بارے میں خود نص آگئی کہ ناقض وضو ہے، تو قیاس کی بجائے اس نص کو ترجیح ہوگی۔ لا قیاس مع اثر سے یہی مراد ہے کہ علت مشترکہ کی بنیاد پر منصوص مسائل کا حکم صرف غیر منصوص مسائل پر لگتا ہے ۔ جب خود نص آجائے تو پھر اس مسئلے میں قیاس نہیں چل سکتا۔
لہٰذا خود کتاب الحجۃ کی روشنی میں یہ مسئلہ بخوبی حل ہوگیا کہ حنفیہ نص کے ہوتے ہوئے تو قیاس (اصطلاحی ) نہیں کرتے، اور نہ ہی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں، کما فی القہقہہ، البتہ اگر روایت قیاس بمعنی اصول عامہ کے خلاف ہو تو حنفیہ اس صورت میں اس شاذ روایت کی بجائے نصوص متواترہ سے ثابت شدہ قاعدے اور ضابطے کو ترجیح دیتے ہیں ،کما مر۔
کتاب الحجۃ کی روشنی میں یہ معرکۃ الآراء مسئلہ حل ہونے کے بعد اگرچہ اس بارے میں دیگر کتب کے حوالہ جات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن تکمیل بحث کے لیے چنددیگر علماء کی تصریحات پیش کرتے ہیں ،تاکہ مسئلہ مکمل طور پر واضح ہوجائے۔
الموافقات میں امام شاطبی، ابن عربی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اذا جاء خبر الواحد معارضا لقاعدۃ من قواعد الشرع ھل یجوز العمل بہ ام لا؟ فقال ابو حنیفۃ لا یجوز العمل بہ، و قال الشافعی یجوز۔
’’جب خبر واحد شریعت کے قواعد میں سے کسی قاعدے کے خلاف آجائے ،تو اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے،جبکہ امام شافعی کے نزدیک اس پر عمل کر سکتے ہیں۔‘‘
امام ابن عبد البر الانتقاء میں فرماتے ہیں:
کثیر من اھل الحدیث استجازوا الطعن علی ابی حنیفۃ لردہ کثیرا من اخبار الآحاد العدول لانہ کان یذھب فی ذلک الی عرضھا علی ما اجتمع علیہ من الاحادیث ومعانی القرآن فما شذا عن ذالک ردہ وسماہ شاذا۔
’’محدثین میں سے بہت سارے حضرات نے امام ابوحنیفہ پر طعن کا جواز یہ تراشا ہے کہ امام صاحب نے عادل راویوں سے مروی اخبار احاد چھوڑدی ہیں۔کیونکہ امام صاحب کا اس سلسلے میں طرز یہ ہے کہ ان اخبار آحاد کو دیگر احادیث اور قرانی مفاہیم سے حاصل شدہ اصولوں پر پیش کرتے ہیں۔ جو خبر واحد ان عمومات کے خلاف ہو، اسے شاذ کانام دے کر رد کرتے ہیں۔‘‘
پانچویں صدی ہجری کے معروف شافعی فقیہ ابو اسحاق شیرازی اپنی کتاب ’’اللمع‘‘ میں لکھتے ہیں:
ویقبل وان خالف القیاس ویقدم علیہ، وقال اصحاب مالک رحمہ اللہ اذا خالف القیاس لم یقبل، وقال اصحاب ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ اذا خالف قیاس الاصول لم یقبل۔
’’خبر واحد قبول کی جائے گی، اگرچہ قیاس کے خلاف ہو اور قیاس پر مقدم ہوگی۔مالکیہ کے نزدیک خلاف قیاس روایت قبول نہیں ہوگی، جبکہ حنفیہ نے کہا ہے کہ جب وہ قیاس اصول (قواعد ) کے خلاف ہوتو قبول نہیں ہوگی۔‘‘
آخر میں اس مسئلے میں پانچویں صدی ہجری کے معروف حنفی فقیہ و اصولی ابو زید الدبوسی کی عبارت پیش کرنا چاہوں گا جو اس مسئلے میں اصولیین حنفیہ کی طرف سے نص کا درجہ رکھتی ہے۔ سب سے پہلے حنفیہ و مالکیہ کے درمیان اختلافی اصول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الاصل عند علماء الثلاثۃ ان الخبر المروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم من طریق الآحاد مقدم علی القیاس الصحیح، و عند مالک رضی اللہ عنہ القیاس الصحیح مقدم علی خبر الآحاد۔
’’ہمارے تینوں علماء کے نزدیک اصول یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بطریق آحاد منقول روایت کو قیاس صحیح پر ترجیح دی جائے گی، جبکہ امام مالک رضی اللہ عنہ کے نزدیک قیاس صحیح، اخبار آحاد کے مقابلے میں قابل ترجیح ہے۔‘‘
آگے جا کر حنفیہ کے کچھ اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الاصل عند اصحابنا ان خبر الاحاد متی ورد مخالفا لنفس الاصول مثل ما روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اوجب الوضوء من مس الذکر لم یقبل اصحابنا ھذا الخبر لانہ ورد مخالفا للاصول۔
’’ہمارے اصحاب کے نزدیک اصول یہ ہے کہ جب خبر واحد نفس اصول (قواعد عامہ ) کے مخالف ہو جائے ،جیسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مس ذکر سے وضو کو واجب ٹھہرایا ہے ،تو ہمارے اصحاب نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا ہے ،کیونکہ یہ اصول کے مخالف ہے ۔‘‘
اختصار کی خاطر چند عبارات پیش کیں ۔ اس سلسلے میں متاخرین و متقدمین فقہاء کے اقوال دیکھنے کے لیے محترم عبدالمجید الترکمانی کا مایہ ناز مقالہ "دراسات فی اصول الحدیث علی منھج الحنفیۃ" ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے اس بحث میں حوالہ جات کا خوب استقصاء کیا ہے۔
روایات میں تعارض اور امام محمد کا طرز عمل
امام محمد رحمہ اللہ روایات متعارضہ میں تطبیق و ترجیح دونوں سے کام لیتے ہیں۔ تطبیق کے وقت مخالف روایت میں دلنشین تاویل کر کے اسے ایسے معنی پر محمول کرتے ہیں جس سے تعارض ختم ہوجاتا ہے، جبکہ ترجیح کے سلسلے میں متنوع مرجحات سے کام لیتے ہیں۔
تطبیق کی پہلی صور ت: دو متعارض روایات کو مختلف اوقات پر محمول کرنا
اذان قبل الفجر کے سلسلے میں حنفیہ و دیگر فقہاء کا اختلاف معروف ہے ۔ائمہ ثلاثہ کا مستدل یہ روایت ہے:
ان بلالا ینادی بلیل فکلو ا و اشربوا حتی ینادی ابن ام مکتوم۔
’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، تو تم کھاتے پیتے رہو حتی کہ عبد اللہ بن مکتوم اذان دے دیں۔‘‘
لیکن ایک دوسری روایت اس کے معارض ہے جس میں ذکر ہے کہ حضرت بلال نے ایک دفعہ وقت سے پہلے اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ مدینہ میں جگہ جگہ اعلان کرو کہ میں سو گیا تھا اور سونے کی حالت میں وقت سے پہلے اذان دی ۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تھا کہ حضرت بلال وقت سے پہلے اذان دیا کریں گے تو پھر وقت سے پہلے اذان دینے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اعادہ کا حکم کیوں دیا؟
اس تعارض کا حل امام محمد نے یہ پیش کیا ہے:
الامر الذی رویتم کان فی شھر رمضان، والامر الاخر من کراھۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاذانہ بلیل کان فی غیر شھر رمضان۔
’’وقت سے پہلے اذان کے سلسلے میں جو روایت تم نے لی ہے اس کا تعلق رمضان سے ہے ،اور دوسری حدیث ،جس میں رات کو اذان دینے پر آپ صلی للہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی مروی ہے ،وہ رمضان کے علاوہ کا واقعہ ہے۔‘‘
تطبیق کی دوسری صورت : نسخ پر محمول کرنا
نماز میں سلام کا جواب دینے یا نہ دینے کے حوالے سے مختلف روایات منقول ہیں ۔یہ مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد ان میں تطبیق دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
و قال محمد بن الحسن :کانو ا یسلمون فی الصلاۃ حتی نزلت "وقوموا للہ قانتین"۔
’’(امام )محمد کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نماز میں سلام کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ پھر قرآن پا ک کی آیت "وقوموا للہ قانتین" نازل ہوئی۔(یعنی اس آیت سے سلام منسوخ ہوا )‘‘
تطبیق کی تیسری صورت: خصوصیت پر محمول کرنا
یعنی متعارض روایات میں ایک کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرنا ۔ مثلاً امام عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہو تو اس کی اقتداء حنفیہ کے نزدیک درست جبکہ مالکیہ کے نزدیک درست نہیں ہے۔ امام محمد فریقین کے دلائل بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں :
قول اھل المدینۃ فی ھذا احب الی من قول ابی حنیفہ۔
’’اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ کے قول سے مجھے اہل مدینہ کا مسلک پسند ہے۔‘‘
اس کے بعد اپنے مسلک کی تائید میں فرماتے ہیں:
بلغنا عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال :لا یومن الناس بعدی جالسا، و لم یبلغنا ان احدا من ائمۃ الھدی ابی بکر ولا عمر وعثمان ولا علی و لا غیرھم اموا جالسا فاخذنا بھذا لانہ اوثق۔
’’ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ روایت پہنچی ہے کہ کوئی آدمی میرے بعد بیٹھ کر نماز کی امامت نہ کروائے۔ اور ائمہ رشد و ہدایت حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور ان کے علاوہ کسی کے متعلق بھی ہمیں خبر نہیں پہنچی کہ انہوں نے بیٹھ کر امامت کروائی ہو ،تو ہم نے اسی کو قول کو لیا کہ یہ زیادہ معتمد ہے۔‘‘
اس کے بعد مرض الوفاۃ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھ کر امامت کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولیس الصلاۃ فی فضلھا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالصلاۃ خلف غیرہ۔
’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے میں جو فضیلت ہے وہ کسی اور کی اقتداء میں پڑھنے میں نہیں ہے۔‘‘
گویا مرض وفات میں صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا، جبکہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے ، آپ کی خصوصیت اور آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی فضیلت کی وجہ سے تھا۔
اس سے اس اصول کی طرف بھی اشارہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ امور مختصہ جاننے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ اس فعل کو صحابہ نے لیا ہے یا نہیں ؟اگر اجلہ صحابہ نے اس کو ترک کر دیا ہو تو یہ بھی دلیل ہے کہ وہ فعل خاصہ نبوت تھا۔
تطبیق کی چوتھی صورت: متعارض روایات میں سے کسی ایک کے مفہوم میں تاویل کرنا
مالکیہ کے نزدیک مقتدی اگر امام کو رکوع میں پائیں ،تو دور سے اقتداء کی نیت باندھ کر وہیں سے رکوع میں جھک جائے، اور بعد میں آہستہ چلتے ہوئے صف میں شامل ہوجائے ،تاکہ رکعت نہ چھوٹے ،تو یہ جائز ہے ، جبکہ احناف کے نزدیک درست نہیں ہے۔ مالکیہ حضرت ابن مسعود کے فعل سے استدلال کرتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا۔ جبکہ احناف حضرت ابوبکرہ کی اس معروف روایت سے استدلال کرتے ہیں ،جن میں اس طرح کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا ،امام محمد مالکیہ کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ما اسرعکم الی حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ اذا کانت لکم منہ حجۃ،و ما ابطاکم عنہ اذا خالفکم، انا نحن اعلم با مر ابن مسعود ،کیف دب حتی وصل الی الصف ،انہ خرج من دارہ و معہ اصحابہ فکبر و کبروا معہ فصاروا صفا ثم دبوا حتی لحقو ا الصفوف ،و لم یخرج عبد اللہ من دارہ و حدہ و لم یبلغنا انہ دب وحدہ۔
’’حضرت ابن مسعود کی روایت میں اپنی دلیل پا کر کتنی جلدی سے تم اس کی طرف لپکے ،اور جب ان کی روایت تمہارے خلاف ہو ،تو اس سے کتنے دور رہتے ہو ،ہمیں حضرت ابن مسعود کا واقعہ آپ سے زیادہ معلوم ہے ،کہ وہ کس طرح سرکے ،کہ صف تک پہنچے ،(واقعہ یہ ہے )کہ وہ اور ان کے ساتھی گھر سے نکلے ،ان سب نے اکٹھے تکبیر کہی ،تو صف بن گئی ،پھر وہ آہستہ چلے یہاں تک کہ صفوں میں مل گئے ،حضرت ابن مسعود اکیلے گھر سے نہیں نکلے ،اور نہ ہی یہ بات ہمیں پہنچی ہے کہ وہ اکیلے صفوں کی طرف حالت رکوع میں چلے۔‘‘
اس عبارت میں اما م محمد کی مالکیہ پر خوشگوار علمی چوٹ کے ساتھ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ کے فعل میں تاویل کی ،کہ انہوں نے اکیلے ایسا نہیں کیا تھا،بلکہ صف بنا کر ایسا کیا۔
تطبیق کی پانچویں صورت (حمل علی الافراد المختلفۃ)
یعنی دو متعارض روایات کو دو قسم کے افراد پر محمول کر کے تطبیق دینا
فجر کی نماز میں اسفار اور غلس دونوں قسم کی روایات ہیں ،اما م محمد رحمہ اللہ دونوں قسم کی روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قد جاء فی ذلک آثار مختلفۃ من التغلیس والاسفار بالفجر، الاسفار بالفجر احب الینا، لان القوم کانو ا یغلسون، فیطیلون القراء ۃ فینصرفون کما ینصرف اصحاب الاسفار و یدرک النائم و غیر ہ الصلاۃ، وقد بلغنا عن ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ انہ قرا سورۃ البقرۃ فی صلاۃ الصبح، فانما کانو ا یغلسون لذلک، فاما من خفف وصلی بسورۃ المفصل ونحوھا فانہ ینبغی لہ ان یسفر۔
’’تغلیس و اسفار کے سلسلے میں مختلف روایات آئی ہیں۔ روشنی میں نماز پڑھنا ہمیں زیادہ پسند ہے ،کیونکہ صحابہ اندھیرے میں نماز پڑھتے تھے ،تو قراء ت لمبی کرتے تھے ،اور اسی وقت لوٹتے تھے جس وقت اسفار والے فارغ ہوکر لوٹتے ہیں۔ اس طرح سونے والے اور دیگر حوائج والے بھی نماز کو پالیتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فجر کی نماز میں سورہ بقرہ پڑھتے تھے ۔تو یہ حضرات اسی طول قراء ت کی وجہ سے اندھیرے میں نماز شروع کیا کرتے تھے۔ البتہ جو مختصر نماز پڑھنا چاہتا ہو،اور مفصلات کی سورتوں سے نماز پڑھنے کا ارادہ ہ ،تو اس کے لیے روشنی میں نماز پڑھنا مناسب ہے۔‘‘
تطبیق کا خلاصہ یہ ہے کہ تغلیس کا حکم ان افراد کے لیے ہے جو طول قراء ت کے خواہاں ہیں ،جبکہ اسفار ان حضرات کے لیے جو نماز میں مختصر قراءت کرتے ہوں۔
متعارض روایات میں ترجیح
امام محمد رحمہ اللہ متعارض روایات میں ترجیح کا طرز بھی اختیار کرتے ہیں ،اور مختلف وجوہ ترجیح سے کام لیتے ہیں۔
ترجیح بالاحتیاط
امام محمد رحمہ اللہ بسا اوقات مختلف روایات میں احتیاط کی بنا پر ترجیح دیتے ہیں ،یعنی اس روایت کو لیتے ہیں ،جس میں احتیاط زیادہ ہو۔
مسافت قصر کے بارے میں مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قد جاء فی ھذا آثار مختلفۃ فاخذنا فی ذلک بالثقۃ، وجعلنا ہ مسیرۃ ثلاثۃ ایام و لیالیھا، فلان یتم الرجل فیما لا یجب علیہ احب الینا من ان یقصر فیما یجب فیہ التمام۔
’’اس سلسلے میں مختلف روایات آئی ہیں۔ ہم نے زیادہ قابل اعتماد روایت کو لیا ہے ،اور تین دن تین راتوں کو مسافت ٹھہرایا ہے،کیونکہ آدمی مکمل نماز واجب نہ ہونے کی صورت میں مکمل نماز پڑھ لیں ،یہ ہمیں اس سے زیادہ پسند ہے کہ آدمی مکمل نماز پڑھنے کی صورت میں قصر نماز پڑھیں۔‘‘
خلاصہ یہ کہ احتیاط کی بنا پر زیادہ مسافت قصر والی روایت کو لیا ،کیونکہ قصر کی صورت میں پوری نماز پڑھنا تو کسی نہ کسی طرح قابل قبول ہے ،لیکن پوری نماز واجب ہونے کی صورت میں قصر پڑھنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔اس لیے جب مسافت قصر کے بارے میں کم اور زیادہ مدت کی روایتیں جمع ہوئیں ،تو احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ زیادہ مدت والی روایت کو لیا جائے۔
ترجیح بصحۃ المتن
اما م محمد رحمہ اللہ متعارض روایات میں بسا اوقات اس روایت کو ترجیح دیتے ہیں ،جس کا متن سب سے زیادہ محفوظ اور صحیح ہو۔چنانچہ تشہد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ کے تشہد کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ولیس فی التشھد شیء اوثق من حدیث عبد اللہ بن مسعود لانہ رواہ عن النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم وکان یکرہ ان یزید فیہ حرفا (او ینقص منہ حرفا) وکان یعلمھم التشھد کما یعلمھم السورۃ من القرآن۔
’’تشہد میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول تشہد سے زیادہ معتمد حدیث نہیں ہے ،کیونکہ وہ اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح روایت کرتے ہیں کہ اس میں ایک حرف کی کمی بیشی بھی ناپسند کرتے تھے، اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو قرآن مجید کی طرح اہتمام کے ساتھ تشہد سکھلایا کرتے تھے۔‘‘
ترجیح بفقہ الراوی
متعارض روایات میں بسا اوقات صحابی کی فقاہت اور ا س کے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی ترجیح دیتے ہیں، چنانچہ افلاس کے مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وعلی اوثق فی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من ابی ھریر ۃ واعلم۔
’’حضرت علی حدیث میں حضرت ابو ہریرہ سے (فہم کے اعتبار سے )زیادہ با اعتماد اور اور حدیث کا زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
چونکہ یہ بات مسلم ہے کہ احادیث حضرت ابو ہریرہ کی زیادہ ہیں ،اس لیے یہاں حدیث میں اعلم ہونے کا مطلب کثرت حدیث نہیں ،بلکہ حدیث کی سمجھ اور حدیث میں تفقہ مراد ہے۔کما لا یخفی
اسی طرح رفع یدین کے مسئلے میں بھی حضرت علی و حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایات کو حضرت ابن عمر کی روایت پر ان کی "اعلمیت"کی بنا پر ترجیح دیتے ہیں۔
ترجیح بالقرائن و الشواہد
امام محمد رحمہ اللہ بسا اوقات مختلف روایات میں اس روایت کو ترجیح دیتے ہیں جس کی تائید دوسری روایات یا متنوع قرائن سے ہو رہی ہو، چنانچہ وتر زمین پر پڑھنے یا سوار ی پر پڑھنے کے حوالے سے مختلف روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
فاخذنا باوثقھا واشبھھا با لحق وبما جاء ت بہ الآثار من التشدید فی الوتر۔
’’ہم نے ان روایات میں متعمد روایت کو لیا ،اور اس روایت کو جوحق کے موافق ہے (یہ قرائن کی طرف اشارہ ہے )اور وتر کے سلسلے میں تشدید والی دیگر روایات کے مطابق ہے۔‘‘
شاذ کے مقابلے میں معروف روایات کو ترجیح
متعارض روایات میں اگر کوئی روایت دیگر معروف روایا ت کے خلاف ہو ،تو اما م محمد رحمہ اللہ اس کو بھی رد کرتے ہیں۔ سجدہ سہو قبل السلام یا بعد السلام کے سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن بحینہ کی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قیل لھم:ا فنقبل ھذا بترک السنۃ والاثار المعروفۃ بقول رجل لا یروی عنہ غیر حدیث واحد۔
’’اہل مدینہ سے کہا جائے گا کہ کیا ہم اس روایت کو قبول کر کے سنت اور دیگر معروف روایات ایک ایسے آدمی کی روایت کی بنا پر چھوڑ دیں جس سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی روایت منقول نہیں ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن بحینہ کی واقعی کتب حدیث میں یہی ایک روایت ہے ، اس کی صحت و عدم صحت سے قطع نظر اس سے اما م محمد رحمہ اللہ سے ترجیح کا ایک اہم اصول ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح مس ذکر کے مسئلے میں بھی حضرت بسرہ کی روایت کو یہ کہہ کر رد کرتے ہیں کہ یہ روایت دیگر اجلہ صحابہ کی معروف روایات کے خلاف ہیں۔
صحابی کے قول کو لینے والے پر نکیر درست نہیں
اما م محمد نے اس اہم اصول کو بھی جا بجا ذکر کیا ہے کہ صحابہ کے اختلافات کے وقت جس کے قول کو لیا جائے ،وہ درست ہے ،اس سے مخالف فریق پر نکیر درست نہیں ہے۔
میراث الجد کے سلسلے میں مختلف آثار ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قول العامۃ علی قول زید بن ثابت، وکل ان شاء اللہ حسن جمیل۔
’’جمہور نے حضرت زید بن ثابت کا قول لیا ہے ،اور ہر قول ان شاء اللہ اچھا اور خوب ہے۔‘‘
بیع بالبراء ۃ کے مسئلے میں صحابہ کے مختلف اقوا ل ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
قلنا لھم اجل، قد رای ما قلتم و رای عبد اللہ بن عمر ما قلنا، فمن اخذ بقول عبد اللہ بن عمر لم یسیء فھو امام من ائمہ المسلمین۔
’’اہل مدینہ کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ،حضرت عثمان کی رائے وہی جو تم نے کہا ہے ،اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی رائے وہی ہے جو ہم نے کہا ہے ،تو جس نے حضرت ابن عمر کی رائے کو لیا ،اس نے برا نہیں کیا ،کیونکہ وہ مسلمانوں کے ائمہ میں سے ایک بڑے امام ہیں۔‘‘
فعل کی بہ نسبت قول قوی ہوتا ہے
مقام ابطح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزول فرمایا تھا ،اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
و لو کان ھذا من الواجب لقال فیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ قولا ابین من الفعل حتی یعرفہ الناس بالقول دون الفعل۔
’’اگر یہ نزول واجب ہوتا ،تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کچھ ضرور فرماتے ،درانحالیکہ قول فعل سے زیادہ واضح ہوتا ہے ،تاکہ لوگ فعل کی بجائے قول سے اس حکم کو پہچان لیتے۔‘‘
نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ محض فعل وجوب کے لیے کافی نہیں ہوتا ،جب تک کہ کوئی قرینہ نہ ہو۔ لفظ کا حقیقی معنی اولیٰ ہے۔
امام محمد رحمہ اللہ کے کلام سے اس اصول کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے کہ نصوص میں حقیقی معنی مراد لیا جائے گا۔ چنانچہ نکاح الصغیر کے جواز پر قران پاک کی درجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قد اجاز اللہ تعالی فی کتابہ نکاح الیتیمۃ و الیتیم اللذان لم یبلغا،لانہ لا یتم بعد بلوغ ولا یکون ایضا یتیمہ و لھا والد۔
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یتیم و یتیمہ کے نکاح کی اجازت دی ہے ،جو بالغ نہ ہوئے ہوں، کیونکہ بلوغ کے بعد یتم نہیں رہتا ،اور نہ ہی اس کو یتیم کہتے ہیں جس کا والد ہو۔‘‘
یہاں نکاح یتیم والی آیت سے صغیر کے نکاح پر جواز حقیقی معنی کے واسطے سے ہے۔ اس سے آگے امام محمد رحمہ اللہ نے دو صفحات میں اس مسئلے پر دل نشیں بحث کی ہے ،اور آخر میں آیت میں صرف کبیرۃ مراد لینے پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فاما ان تخرجوا الصغیرۃ من الیتم و تجعلوہ الکبیرۃ خآصۃ یتیمۃ فھذا امر لا یکون لکم۔
’’البتہ یہ بات کہ صغیرہ کو یتم کے معنی سے نکال کر صرف کبیرہ کو یتیم کے تحت داخل کیا جائے ،یہ تمہارے لیے مناسب نہیں ہے۔‘‘
یقین، شک سے زائل نہیں ہوتا
ربا کے ایک مسئلے میں اصول فقہ کے اس اہم ترین قاعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
و کیف یبطل الیقین بموضع التھمۃ وقد قال اللہ تعالی ان الظن لا یغنی من الحق شیئا۔
’’اور یقین کیسے شک و تہمت سے زائل ہوسکتا ہے۔جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شک حق (یقین ) کے مقابلے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔‘‘
قضاء ادا کے مثل ہے
امام محمد رحمہ اللہ نے ایک جگہ اصول فقہ کے اس مشہور مبحث کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قضا ء کیفیت و ادا میں ادا کے مشابہ ہے۔مسافر کی حالت سفر میں قضاء کی گئی نمازوں کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لانہ انما یقضی مثل الذی کان علیہ۔
’’کیونکہ قضاء اس واجب کے مثل ہوتی ہے ،جو اس کے ذمے ہوتی ہے۔‘‘
مثبت نافی پر مقدم ہے
شفعہ للجار کے مسئلے میں اہل مدینہ کی حدیث "ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یقض لجار شفعۃ" نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
و ما اظن ان یکون بین الناس خلاف ان من شھد بکذا و کذا، قد کان احق ان تقبل شھادتہ من الذی یقول ان کذا وکذا لم یکن۔
’’میرا خیال نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان اس بات میں اختلاف ہو ،کہ جس نے کسی چیز کے ہونے کی گواہی دی ،وہ اس سے زیادہ حقدار ہے جس نے اس کے نہ ہونے کی گواہی دی ہو۔‘‘
خاتمہ
امام محمد رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب "الحجۃ علی اہل المدینہ "سے اصولی مباحث کا ایک اجمالی خاکہ ملاحظہ کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فقہ حنفی کی امہات الکتب اصولی مباحث کا انمول خزانہ ہیں۔ان اصولی مباحث سے جہاں ائمہ ثلاثہ کے طرز استنباط و استخراج کی جھلک سامنے آتی ہے ،وہاں اصولیین حنفیہ کے تخریج کردہ اصولوں کی بھی تائید ہوتی ہیکہ بعد میں آنے والے فقہائے حنفیہ نے ائمہ ثلاثہ سے منقول شدہ فروعات کو سامنے رکھ کر جن اصولوں کا استخراج کیا ہے ،ان کی حیثیت ائمہ ثلاثہ کی صراحت کے قریب قریب ہے۔
آخر میں اس بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ یہ کتاب الحجہ کے اصولی مباحث کا مکمل اسقصا نہیں ہے۔ نمونے کے طور پر صرف چند صریح اور اپنے مدعا پر واضح مباحث پیش کیے گئے، ورنہ کتاب میں اصول فقہ و اصول حدیث کے بے بہا موتی مستور ہیں۔