اسلامی نظریاتی کونسل اور جہاد سے متعلق عصری سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ ماہ کی انتیس تاریخ کو اسلام آباد میں اسلامی نظریاتی کونسل کے زیراہتمام منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس کا عنوان تھا ’’اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جہاد کی تعریف، قوت نافذہ اور اس کے بنیادی عناصر‘‘۔ کانفرنس کی دوسری نشست میں کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیرصدارت کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا خلاصہ نذر قارئین کرنے سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی سرگرمیوں کے حوالہ سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اسلامی نظریاتی کونسل ایک دستوری ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت اور پارلیمنٹ کو رائج الوقت اور مجوزہ قوانین کے حوالہ سے شرعی راہ نمائی فراہم کرنا ہے۔ چونکہ پارلیمنٹ دستوری طور پر اس بات کی پابند ہے کہ وہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنا سکتی اور اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ تمام رائج الوقت قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنائے۔ جبکہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے قرآن و سنت کے ضروری علوم سے آگاہی کی کوئی شرط دستور میں موجود نہیں ہے اس لیے دستور پاکستان میں ایک مستقل ادارہ کی ضرورت محسوس کی گئی اور اس مقصد کے لیے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ تشکیل دی گئی تاکہ پارلیمنٹ اور حکومت قوانین کے قرآن و سنت کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس سے راہنمائی حاصل کر سکیں۔ 

اس کونسل میں مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام کے ساتھ ساتھ ممتاز ماہرین قانون بھی شامل ہوتے ہیں اور اس ادارہ نے اس سلسلہ میں اب تک جو کام کیا ہے اس کے وقیع اور معتبر ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں نظام اسلام کے نفاذ کے خواہاں کم و بیش تمام حلقے اس امر پر متفق ہیں کہ ملکی قوانین کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اب تک کی جانے والی سفارشات کو دستور کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کر کے ان کی روشنی میں قانون سازی کر لی جائے تو پاکستان میں اسلامی قوانین کے نفاذ کا تقریباً نوے فیصد کام مکمل ہو جاتا ہے۔ مگر عملی صورت حال یہ ہے کہ کونسل کی بیشتر سفارشات حکومت کے سرد خانے میں پڑی ہیں اور انہیں متعلقہ اسمبلیوں میں زیربحث لانے سے مسلسل گریز کیا جا رہا ہے۔ بلکہ سیکولر حلقوں کی طرف سے سرے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی افادیت و ضرورت کو ہی مشکوک بنانے کی مہم جاری ہے اور اسے منفی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان حالات میں کونسل کے موجودہ چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اس بات کے لیے کوشاں دکھائی دیتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل متحرک رہے اور مختلف حوالوں سے حکومت کو نفاذ اسلام کے سلسلہ میں اس کی دستوری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتی رہے۔ مولانا شیرانی کی بعض آراء سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کا یہ جذبہ اور محنت بہرحال قابل قدر اور لائق تحسین ہے کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے دستوری کردار کے دائرہ میں متحرک رکھے ہوئے ہیں۔ 

آج کل مولانا شیرانی اس امر کے لیے کوشاں ہیں جس پر انہوں نے مذکورہ بالا کانفرنس میں بھی تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا کہ جہاد اور دہشت گردی کو جس طرح عالمی ماحول میں گڈمڈ کر دیا گیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلامی تعلیمات اور جہاد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اور اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاد کے اصل مفہوم اور دائرہ کار کے ساتھ ساتھ اس کی اتھارٹی اور قوت نافذہ کو دلائل کے ساتھ واضح کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے۔ اس عمل میں اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے آئین کے آرٹیکل 320 کی ذیلی دفعہ (الف) کا یہ پیرا پیش کیا کہ:

’’مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جس سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔‘‘

دستور پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کے اس کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی یہ خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل مسلسل متحرک رہے اور حکومت اور عوام دونوں کی علمی و عملی راہ نمائی کرے۔ اس پس منظر میں جہاد کی تعریف اور دیگر متعلقہ امور کے حوالہ سے مذکورہ بالا کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کی جس نشست میں مجھے اظہار خیال کی دعوت دی گئی اس میں مولانا مفتی محمد زاہد، ڈاکٹر محسن نقوی، ڈاکٹر خورشید احمد، مولانا شیرانی اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا۔

راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:

  • قرآن کریم نے قتال کا لفظ تو ہتھیار کی جنگ کے لیے ہی استعمال کیا ہے مگر جہاد کے لفظ میں عموم ہے۔ قرآن کریم نے جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالمال کا ذکر کیا ہے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جہاد باللسان‘‘ کو بھی اس کے ساتھ شامل کیا ہے۔ بلکہ غزوۂ احزاب کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح اعلان فرمایا تھا کہ اب قریش ہمارے مقابلہ میں ہتھیار لے کر نہیں آئیں گے بلکہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور شعر و خطابت کے میدان میں جوہر دکھائیں گے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت ثابت بن قیسؓ جیسے نامور خطباء اور شعراء نے جہاد باللسان کا یہ معرکہ سر کیا۔
  • جہاد کا ہدف کیا ہے؟ اس کے بارے میں بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ ارشاد ہماری راہ نمائی کرتا ہے کہ جہاد کا مقصد کسی کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں بلکہ اسلام کی پر امن دعوت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ چنانچہ جہاد اسلام قبول کروانے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے فروغ میں رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ہے۔ جبکہ میرا طالب علمانہ خیال یہ ہے کہ مغرب نے اپنے سسٹم اور کلچر کو درپیش خطرہ سے نمٹنے کے لیے پیشگی حملہ کا جو طریق کار اختیار کیا ہے اور جسے ’’کونڈولیزا رائس کی تھیوری‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ بھی شاید اسی نوعیت کا ہے۔
  • جہاد کا طریق کار اور ہتھیار وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں اس لیے جہاد کے بارے میں کتابوں میں موجود راہ نمائی سے استفادہ کرتے ہوئے ہر زمانہ میں اس دور کے تقاضوں کے مطابق جہاد کے ہتھیار اور حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال ’’صلوٰۃ الخوف‘‘ ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے لیکن آج کے جنگی ماحول میں اس کو عملاً اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آج کے حالات میں جہاد کی سطح، دائرہ، حکمت عملی اور ہتھیاروں کا انتخاب آج کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہی کیا جائے۔ 

آراء و افکار

(مئی ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter