خاطرات

محمد عمار خان ناصر

برصغیر کی ماضی قریب اور معاصر تاریخ میں دیوبندی مکتب فکر نے دین کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور علمی وفکری ترجیحات سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، بحیثیت مجموعی اس مکتب فکر میں راستی اور توازن فکر نمایاں نظر آتا ہے۔ دینی تعبیر کے علاوہ دیوبندی تحریک کا تعارف اس خطے میں اپنے مخصوص سیاسی کردار کے حوالے سے بھی ہے۔ اس ضمن میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں اکابر دیوبند کے کردار کو دیوبندی تحریک کے سیاسی تعارف کے ایک بنیادی حوالے کی حیثیت حاصل ہے۔ 

معاصر تناظر میں، دیوبندی مسلک سے نسبت رکھنے والے جو عناصر افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے جلو میں بعض غیر مقامی عناصر کے زیر اثر جنم لینے والی جہادی فکر سے متاثر ہوئے ہیں، وہ بسا اوقات اس طرز جدوجہد کا تاریخی وفکری رشتہ ۱۸۵۷ء میں علماء دیوبند کی جدوجہد سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسی گمراہ کن غلطی ہے جسے تاریخ اور دیوبندی فکر کا معروضی مطالعہ کرنے والا کوئی صاحب فکر قبول نہیں کر سکتا، اس لیے کہ انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اکابر دیوبند نے جس مسلح جدوجہد میں حصہ لیا، اس کی نوعیت، فکری بنیاد اور خصوصیات بالکل اور تھیں، جبکہ القاعدہ کی فکر کے زیر اثر موجودہ جہادی لہر جوہری طور پر اس سے مختلف ہے اور اس کا فکری شجرۂ نسب دیوبندی فکر کے ساتھ ہرگز نہیں ملایا جا سکتا۔

علماء دیوبند کی اس جدوجہد کی پانچ نمایاں اخلاقی خصوصیات تھیں:

۱۔ اس کا محرک طفلانہ جذباتیت نہیں، بلکہ آزادئ وطن کے لیے عملی کردار ادا کرنے کا ذمہ دارانہ احساس تھا۔

۲۔ عملی طو رپر اسلام کی جنگی اخلاقیات کی پاس داری کی گئی تھی۔ (میرے علم کی حد تک اس تحریک میں بعض دوسرے مقامات پر تو ناجائز قتل وغارت اور لوٹ مار ہوئی، لیکن شاملی کے محاذ پر ایسے کسی واقعے کا رونما ہونا ثابت نہیں)۔

۳۔ ان حضرات نے اپنے اس فیصلے کو ایک اجتہادی فیصلہ سمجھا اور اسی روح کے ساتھ اس پر عمل کیا۔ ساتھ نہ دینے والوں یا مخالفت کرنے والوں پر کسی قسم کے کفر ونفاق کے فتوے نہیں لگائے گئے، بلکہ ان کے لیے حق اختلاف تسلیم کیا گیا۔

۴۔ قائدین میں خلوص وللہیت کے اوصاف نمایاں تھے۔ لیڈر شپ اور قیادت وسیادت کے حصول کے محرکات دکھائی نہیں دیتے اور نہ اپنی شخصی عقیدت کے گرد گھومنے والے جہادی جتھے تیار کیے گئے۔

۵۔ جدوجہد ناکام ہونے کے بعد علیٰ وجہ البصیرت طرز جدوجہد تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور عسکری جدوجہد کا طریقہ ترک کر کے آزادئ وطن کے لیے متبادل حکمت عملی اختیار کی گئی۔ (اس ضمن میں مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمود حسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا عبید اللہ سندھی رحمہم اللہ کی واضح تصریحات موجود ہیں)۔

معاصر جہادی فکر بدقسمتی سے ان تمام خصوصیات سے یکسر محروم اور اس کے بالکل برعکس اوصاف سے متصف ہے:

۱۔ اس کی قوت محرکہ، سنجیدہ احساس ذمہ داری نہیں بلکہ غصے اور جذبہ انتقام سے پیدا ہونے والی فرسٹریشن ہے۔ 

۲۔ اس کی عملی اخلاقیات حدود شریعت کی پاسداری سے نہیں، بلکہ جاہلانہ استدلالات کی بنیاد پر غیر شرعی اقدامات کو جواز فراہم کرنے سے عبارت ہے۔ 

۳۔ یہ اپنے اختیار کردہ طرز عمل کو ایک اجتہادی رائے نہیں سمجھتی او رنہ اجتہادی اختلاف کے آداب کو ملحوظ رکھتی ہے۔ اس کے برعکس، یہ خود کو اسلام اور امت مسلمہ کی ٹھیکے دار سمجھتی اور اپنے اختیار کردہ طریقے سے گریز کرنے والوں کو غیر معیاری (بلکہ منافق ومداہن) مسلمان تصور کرتی ہے۔ 

۴۔ اس کی عملی تنظیم اجتماعیت اور قائدانہ بے نفسی کے اصول پر نہیں، بلکہ جہادی لیڈروں کی شخصیت پرستی اور گروہی حزبیت کے اصول پر ہوئی ہے۔ 

۵۔ یہ کہ اپنی اختیار کردہ حکمت عملی پر پے درپے مرتب ہونے والے تباہ کن نتائج کے باوجود یہ اس پر نظر ثانی کے لیے تیار نہیں، بلکہ اسی قسم کے مزید احمقانہ اقدامات پر آمادہ نظر آتی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی آئیڈیالوجی ہرگز وہ نہیں تھی جو اس وقت خاص طو رپر القاعدہ کے زیر اثر جہادی تحریکوں نے اپنا رکھی ہے۔ اس کے اہداف ومقاصد بالکل مقامی اور قومی تھے اور یہ جنگ ہندوؤں کی شراکت سے لڑی گئی تھی، کسی نام نہاد عالمی خلافت کا قیام ہرگز اس کا مقصد نہیں تھا اور نہ دنیا بھر سے بھانت بھانت کی جہادی بولیوں کو یہاں لا کر ٹھکانا فراہم کرنا اور اس خطے کو عالمی فساد کا مرکز بنا دینا ان حضرات کے پیش نظر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی اقتدار کے خاتمے کی صورت میں ان حضرات کی ایک بہت بڑی اکثریت نے اس خطے کا جو سیاسی نقشہ پیش کیا، اس میں اسلامی ریاست کا کوئی ذکر اذکار نہیں تھا، بلکہ مسلم لیگ نے قیام پاکستان کے لیے ’’شرعی ریاست‘‘ کی ضرورت کو بطور دلیل پیش کیا تو جمعیۃ علماء ہند کے اکابر نے یہ کہہ کر اس کا جواب دیا کہ شرعی ریاست کے قیام کا تعلق حالات وامکانات سے ہے اور یہ کہ ہر جگہ اس کا قیام کوئی شرعی مطالبہ نہیں۔

مجھے ذرہ برابر شبہ نہیں کہ یہ طرز فکر دور جدید میں خارجیت کی نئی پیدائش ہے۔ قرن اول کی خارجی تحریک اور معاصر جہادی فکر، بالکل ہم شکل جڑواں بھائی (یا شاید بہنیں) ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ ایک کی ولادت صدیوں پہلے ہوئی تھی اور ایک کی آج صدیوں بعد۔ صدر اول میں علمی بحث کے میدان میں اس فتنے کی سرکوبی حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے کی تھی اور اس کے بعد بھی ضد پر اڑے رہنے والے ہٹ دھرموں کی کمر سیدنا علیؓ نے جنگ نہروان میں توڑ دی تھی، لیکن آج حالات ضلالۃ ولا ابن عباس لہا اور فتنۃ ولا ابا حسن لہا کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی۔


دہشت گردی کے خلاف پاکستانی ریاست کی جنگ کے متعلق ہمارے ہاں عمومی طور پر دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں:

پہلا رویہ یہ ہے کہ چونکہ اس کے پس منظر اور اسباب وعوامل کے لحاظ سے خود ریاست بڑی حد تک ذمہ دار ہے اور اس خطے میں امریکی فوجوں کی موجودگی اور اہداف کے حولے سے باغی اصولاً درست جگہ پر جبکہ ریاست غلط جگہ پر کھڑی ہے، اس لیے ہمدردی (یا تائید) کی مستحق بھی ریاست نہیں، بلکہ باغی ہیں اور یہ کہ ان کے خلاف چھیڑی جانے والی جنگ اصل میں صرف ’’امریکہ کی جنگ‘‘ ہے۔

اس کے بالمقابل دوسرا رویہ یہ ہے کہ چونکہ باغی ریاست کے وجود کو مٹانے کے لیے پرعزم ہیں اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام ان کا ہدف ہے، اس لیے سارا زور بیان اور استدلال صرف ان کی مخالفت پر صرف کیا جائے اور ریاست کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ’’الا اللمم‘‘ کی سطح سے زیادہ موضوع بحث نہ بنایا جائے۔

میری نظر میں دونوں رویے نادرست ہیں۔ پہلے رویے کی غلطی یہ ہے کہ اگرچہ اس ساری صورت حال کے پیدا کرنے میں ریاستی نظم کی سنگین غلطیاں بھی شامل ہیں، لیکن ان کے رد عمل میں باغیوں نے اپنا جو ہدف متعین کیا ہے، یعنی ریاستی نظم کا خاتمہ اور ملک میں خوف ودہشت کی فضا عام کر دینا، اس کی تائید تو کجا، کسی بھی درجے میں اس سے ہم دردی بھی محسوس نہیں کی جا سکتی۔ صورت حال کی ذمہ داری یک طرفہ طور پر صرف ریاست پر ڈال دینا بھی ہرگز منصفانہ نہیں۔ اس کے ذمہ دار بہت سے دوسرے عناصر بھی ہیں اور صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ ریاست نے بڑی حد تک حالات کے جبر کے تحت ایک راستہ اختیار کیا ہے اور تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود اس کا یہ بنیادی فیصلہ سو فی صد درست ہے کہ ریاست کی رٹ کو ہر حال میں قائم کرنا اور ملک میں انارکی پھیلانے اور لوگوں کا بے دریغ خون بہانے والے عناصر کی سرکوبی ضروری ہے۔ چنانچہ درپیش صورت حال میں شریعت وحکمت اور اخلاقیات کے تمام اصول یہی راہ نمائی کرتے ہیں کہ اس جنگ میں ریاست ہی کا ساتھ دیا جائے اور اس کی طرف سے کیے جانے والے بہت سے غلط فیصلوں کو باغی گروہوں کے اہداف ومقاصد کی وجہ جواز ہرگز تسلیم نہ کیا جائے۔ 

دوسرا رویہ اس اعتبار سے غلط ہے کہ ایک بنیادی فیصلے میں ریاست کی تائید کرنے کا تقاضا کسی بھی اعتبار سے یہ نہیں بنتا کہ ریاست کی غلطیوں سے بھی صرف نظر کیا جائے۔ ریاست نے پچھلی تین چار دہائیوں میں جو پالیسیاں اختیار کیے رکھی ہیں، ان کا قومی سطح پر بے لاگ جائزہ لینے اور غلطیوں کومتعین کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی اس پر مسلسل نظر رکھنا لازم ہے کہ ریاستی ادارے کوئی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی قدم نہ اٹھائیں۔ اہل علم ودانش اور اہل قلم کا ذمہ دارانہ منصب انھیں کسی دھڑے بندی کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ ان کی وابستگی اصولوں اور اخلاقیات اور ملک وملت کے مفاد سے ہونی چاہیے اور کسی بھی گروہ کی غلطیوں کی نشان دہی اورمحاسبہ اسی احساس ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہیے۔

بہرحال اس صورت حال میں پاکستان کے مذہب پسند طبقے کی اکثریت ایک مخمصے سے دوچار ہے۔ ایک طرف انتہا پسندی نے دہشت گردی کا روپ اختیار کر کے ایک ایسی پوزیشن لے لی ہے جس کا دفاع کرنا مخمصہ زدہ طبقے کے لیے ممکن نہیں۔ دوسری طرف اس صورت حال سے لبرل انتہا پسند جو نتائج نکالنا چاہتے ہیں، وہ بھی اس درمیانی طبقے کے لیے قابل قبول نہیں۔ سو اس کی مجبوری ہے کہ وہ انتہا پسندوں سے اپنا فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے بھی کوئی ایسا موقف اختیار نہ کرے جس سے اس کا وزن لبرل انتہا پسندی کے پلڑے میں پڑ جائے۔ مزید یہ کہ یہ درمیانی طبقہ، سماجی تقسیم کے اعتبار سے، اپنی شناخت میں اس گروہ سے قریب تر ہے جو انتہا پسندی کی طرف مائل ہے اور اس کے اہداف ومقاصد اورمطالبات سے بھی اسے اصولاً ہمدردی اور اتفاق ہے۔ یہ چیز ان کی اختیار کردہ پوزیشن میں فیصلہ کن عامل کا درجہ رکھتی ہے، چنانچہ صورت حال کی کوئی سنگینی اور انتہا پسندوں کی طرف سے ظاہر کی جانے والی کسی بھی درجے کی جارحیت اس طبقے کو وقتی طور پر، دباؤ کے تحت تو لبرل انتہا پسندی کی جزوی تائید پر آمادہ کر سکتی ہے، لیکن اس کی مستقل پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی، بلکہ اگر دباؤ ایک حد سے زیادہ بڑھے گا تو خود اس درمیانی طبقے میں موجود تقسیم ابھر کر سامنے آئے گی اور انتہا پسندی کی طرف جھکاؤ رکھنے والے، اعتدال پسندوں کی بہ نسبت زیادہ بلند آہنگ (vocal) ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ چیز کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کوئی بھی طبقہ جب سماج میں کوئی پوزیشن اختیار کرتا ہے تو اس میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار اس سماجی نظام کے ساتھ وابستہ اس کے مفادات (Stakes) ادا کرتے ہیں۔ یہ مفادات اگر خطرے میں ڈال دیے جائیں اور سماج کے کسی موثر طبقے کو سماج کے مرکزی دھارے سے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کا وزن دوسرے پلڑے کی طرف منتقل ہوتے چلے جانا ایک ناگزیر نتیجہ ہوتا ہے۔

گویا یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے اور ملکی قیادت اور سیاسی وعسکری مدبرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں موجود تقسیم کو اس طرح سے handle کرے کہ انتہا پسندی کو تقویت اور حمایت ملنے کے بجائے اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ اجتماعی یکسوئی پیدا ہو سکے۔ 


پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں ، حملے کے ذمہ داران کی طرف یہ استدلال بھی منسوب کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے نابالغ بچوں کو چھوڑ کر پورے قبیلے کو تہہ تیغ کروا دیا تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس گروہ کے ساتھ جنگ ہو، اس کے مقاتلین کے علاوہ عام افراد کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔ معلوم نہیں، ذمہ داروں نے واقعی یہ استدلال کیا ہے یا نہیں، لیکن اگر کیا ہے تو یہ افلاس علم کے باوجود تحکم اور خود اعتمادی کے اسی رویے کی ایک مثال ہے جو اس پورے طبقے میں علی العموم دکھائی دیتا ہے۔ بنو قریظہ کے جن مردان جنگی کے قتل کا فیصلہ، خود انھی کے مطالبے پر مقرر کردہ حکم نے کیا اور جو خود تورات کی شریعت کے مطابق تھا، وہ یہودیوں کے کسی مدرسے میں بیٹھ کر تعلیم حاصل نہیں کر رہے تھے جن پر اچانک جا کر دھاوا بول دیا گیا اور کہا گیا کہ زیر ناف بال دیکھ کر بالغوں اور نابالغوں کو الگ کر دیا جائے اور بالغوں کو قتل کر دیا جائے۔ بنو قریظہ نے مسلمانوں کے ساتھ عہد شکنی کی تھی اور ایک نہایت نازک موقع پر مدینہ پر حملہ آور مشرکین کے ساتھ ساز باز کر کے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی سازش کی تھی۔ ان کا باقاعدہ جنگی قوانین کے مطابق محاصرہ کیا گیا اور پھر انھی کے مطالبے پر انھیں اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی اجازت دی گئی کہ ان کے متعلق فیصلہ ان کے اپنے منتخب کردہ حکم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کروایا جائے گا۔ چونکہ بنو قریظہ کی پوری آبادی اس جنگی جرم میں ملوث تھی، اس لیے ان کے عورتوں اور بچوں کوچھوڑ کر تمام مردان جنگی کو یہ سزا دیا جانا کسی بھی لحاظ سے جنگی اخلاقیات کے منافی نہیں تھا۔ اس سے یہ استدلال کرنا کہ دشمن کے کیمپ سے متعلق غیر مقاتلین پر اور وہ بھی ایک تعلیمی ادارے میں جمع ہونے والے معصوم بچوں پر حملہ آور ہو کر انھیں قتل کر دینا، سنت نبوی کی پیروی ہے، جہالت اور سفاہت کی ایک عبرت ناک مثال ہے۔ 

بنو قریظہ کے مذکورہ واقعے کی نوعیت سے متعلق جدید ذہن میں عمومی طور پر چند اشکالات پیدا ہوتے ہیں جن میں سے بنیادی اشکالات دو ہیں:

۱۔ کیا بنو قریظہ کے سارے قبیلے کو یوں تہہ تیغ کرنا جنگی اخلاقیات کی رو سے درست تھا؟ کیونکہ عہد شکنی کا فیصلہ تو ان کے سرداروں نے کیا ہوگا جس کا ذمہ دار ہر ہر فرد کو قرار دے کر پر سارے قبیلے کو گردن زدنی قرار دینا درست نہیں ہو سکتا۔

۲۔ اگر اس کا کسی درجے میں کوئی جواز تھا بھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام طور پر اپنے دشمنوں کے ساتھ عفو وودرگزر کا جو رویہ دیکھنے کو ملتا ہے، وہ اس معاملے میں کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟

پہلے اشکال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ فیصلہ ان کے سرداروں نے کیا تھا، لیکن اگر سرداروں کے فیصلے کے بعد پوری قوم اس کی تائید کرے اور عہد شکنی کے عمل میں شریک ہو جائے تو پھر ساری قوم ذمہ داری ہوتی ہے، سوائے ان افراد کے جو خود کو کسی واضح عمل کے ذریعے سے اس سے الگ کر لیں۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی ہے کہ اگر کوئی گروہ اپنی قوم کے ساتھ مجبوراً ان کے خلاف میدان جنگ میں آ جائے لیکن عملاً لڑنے سے گریز کرے تو ایسے لوگوں کے خلاف اقدام نہ کیا جائے، بشرطیکہ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف خلاف اقدام نہ کریں۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر وغیرہ میں مشرکین کے کیمپ کے متعدد افراد کو قتل کرنے سے اس بنیاد پر منع فرما دیا تھا کہ وہ دل سے لڑنا نہیں چاہتے، لیکن اپنی قوم کے دباؤ کے تحت میدان میں آ گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر بنو قریظہ کے سب بالغ افراد کو قتل کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کے نزدیک وہ سب عہد شکنی کے مجرم تھے۔ اگر ان میں سے کچھ افراد اپنا استثنا ثابت کر دیتے تو ان کے ساتھ یقیناًالگ معاملہ کیا جاتا۔ 

دوسرے سوال کے جواب میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ پیغمبر کے ساتھ محاربہ کرنے والے گروہوں کے لیے ان کے جرم کی نوعیت اور سرکشی کے لحاظ سے براہ راست عرش بریں سے سزا اور عذاب کے فیصلے بھی نازل ہو رہے تھے۔ اس سے پہلے بنو نضیر کو جب جلا وطن کیا گیا تو قرآن نے وہاں بھی یہ تنبیہ فرمائی تھی کہ ’ولولا ان کتب اللہ علیھم الجلاء لعذبھم فی الدنیا‘، یعنی اگر اللہ کی حکمت کا تقاضا نہ ہوتا کہ انھیں بس مدینہ سے جلا وطن کر دیا جائے تو وہ انھیں اس دنیا میں ہی عذاب دے سکتا تھا۔ بنو قریظہ کے معاملے میں، جرم کی سنگینی کے باعث، منشائے الٰہی یہی تھا کہ ان کا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پیغمبر نے رحم دلی سے کام لے کر انھیں معاف نہیں کیا۔ بعض جگہ معافی اور درگزر منشائے الٰہی ہوتا ہے اور بعض دفعہ عذاب کا نفاذ اور سیرت نبوی میں موقع بہ موقع ان دونوں اصولوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ پوری سیرت میں رحم دلی کا اصول، عذاب الٰہی کے اصول کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتا، لیکن ہر ایک کا موقع اپنا اپنا ہے۔


سورۂ ہود کی آیات ۳۶ تا ۴۷ میں حضرت نوح علیہ السلام کے واقعے کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ جب قوم پر طوفان آ گیا اور کشتی نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو لے کر چل پڑی تو اس موقع پر حضرت نوح نے اپنے ایک بیٹے کو دیکھا جو الگ تھلگ کھڑا تھا۔ آپ نے اسے اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی جسے اس نے قبول نہیں کیا اور نتیجتاً غرق ہو گیا۔ نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے سامنے شکوہ پیش کیا کہ جب مجھے اپنے اہل خانہ کو کشتی میں سوار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی تو پھر بیٹے کو کیوں غرق کر دیا گیا۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبیہ فرمائی اور کہا کہ یہ آپ کے اہل خانہ کے ان افراد میں سے نہیں تھا جن کے لیے نجات کا وعدہ تھا۔ چنانچہ نوح علیہ السلام نے اس پر استغفار کیا اور اپنی اس شکایت پر ندامت ظاہر کی۔

مفسرین نے حضرت نوح علیہ السلام کے یوں شکوہ کناں ہونے کی متعدد توجیہات پیش کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اسے اپنا حقیقی بیٹا سمجھتے تھے، لیکن اس واقعے کے ذریعے سے اللہ نے ان پر واضح فرما دیا کہ وہ درحقیقت ان کا بیٹا نہیں، یا یہ کہ وہ ’’اہل خانہ‘‘ کو کشتی میں سوار کرنے کی اجازت سے یہ سمجھے کہ ان کے تمام افراد خانہ کے لیے نجات کا وعدہ ہے، چاہے وہ مومن ہوں یا کافر، یا یہ کہ بیٹے کو ڈوبتا دیکھ کر محض شفقت پدری کے زیر اثر انھوں نے بارگاہ الٰہی میں شکوہ پیش کر دیا۔ 

قرآن مجید کا یہ مقام کئی سال سے راقم کے زیر غور ہے اور ہر دفعہ پڑھنے پر مفسرین کی مذکورہ توجیہات غیر تشفی بخش محسوس ہوتی ہیں۔ طالب علمانہ غور وفکر سے ایک متبادل توجیہ سامنے آتی ہے جس پر بڑی حد تک دل جم جاتا ہے۔ چنانچہ راہ نمائی اور تنقید کے لیے اسے اہل علم کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان یکن صوابا فمن اللہ وان یکن خطا فمنی ومن الشیطان۔ 

وہ توجیہ یہ ہے کہ حضرت نوح کا مذکورہ بیٹا درحقیقت کافر اور منکر نہیں تھا، بلکہ اپنے والد پر ایمان رکھتا تھا، البتہ وہ عذاب الٰہی کے آجا نے کے بعد قوم کو چھوڑ دینے اور کشتی میں سوار ہو کر اس علاقے سے ہجرت کرنے کے لیے تیار نہیں تھا جو کہ عذاب سے نجات کی بنیادی شرائط میں سے تھا۔ نوح علیہ السلام نے اسی پہلو سے آخری وقت میں اسے اپنے ساتھ کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دی جسے اس نے ٹھکرا دیا اور قوم کے ساتھ ہی غرقاب ہو گیا۔ چونکہ نجات کی ایک بنیادی شرط یعنی ایمان موجود تھی، اس لیے نوح علیہ السلام کو رنج ہوا اور انھوں نے اللہ کے سامنے شکوہ پیش کر دیا جس پر انھیں تنبیہ کی گئی اور گویا یہ واضح کر دیا گیا کہ ایمان کے تقاضوں پر عمل کیے بغیر اور خاص طور پر عذاب الٰہی کا فیصلہ ہو جا نے کے بعد نجات کی شرائط پوری کیے بغیر اللہ تعالیٰ کسی کے لیے نجات مقدر نہیں فرماتے۔

سیاق کلام میں اس توجیہ کے حق میں بظاہر جو قرائن ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:

۱۔ نوح علیہ السلام پر ابتدا ہی سے یہ بات بار بار واضح کی گئی تھی کہ نجات انھی کو ملے گی جو ایمان لے آئیں گے۔ چنانچہ کشتی بنانے کے حکم کے ساتھ یہ فرمایا گیا کہ : وَلاَ تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوا إِنَّہُم مُّغْرَقُونَ (آیت ۳۷)پھر جب انھیں کشتی میں اپنے اہل خانہ اور دیگر اہل ایمان کو سوار کرنے کا حکم دیا گیا تو بھی یہ یاد دہانی کرائی گئی کہ: احْمِلْ فِیْہَا مِن کُلٍّ زَوْجَیْْنِ اثْنَیْْنِ وَأَہْلَکَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَیْْہِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ (آیت ۴۰) 

ان واضح تصریحات کے باوجود یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے پیغمبر محض شفقت پدری سے مغلوب ہو کر اپنے ایک کافر بیٹے کے ڈوب جانے پر اللہ کے سامنے شکوہ کناں ہونے کا جواز محسوس کریں۔

۲۔ نوح علیہ السلام نے اپنے اہل خانہ میں سے صرف اسی بیٹے کی غرقابی پر شکایت کی، حالانکہ سورۂ تحریم کی آیت ۱۰ کے بیان کے مطابق آپ کی اہلیہ بھی ایمان نہیں لائی تھیں اور اسی وجہ سے قوم کے ساتھ عذاب کا شکار ہو گئی تھیں۔ اگر نوح علیہ السلام کی شکایت کی وجہ محض اپنے بیٹے کا، اپنے ’’اہل‘‘ میں سے ہونا سمجھی جائے تو پھر اس کے ضمن میں انھیں اپنی بیوی کا (اور دیگر اولاد کا) بھی ذکر کرنا چاہیے، جبکہ قرآن کے مطابق انھوں نے صرف اپنے ایک ہی بیٹے کا ذکر کیا جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

۳۔ نوح علیہ السلام نے بیٹے کو طوفان کی زد میں دیکھ کر جو دعوت دی، اس کے الفاظ بھی قابل توجہ ہیں۔ آپ نے فرمایا: یَا بُنَیَّ ارْکَب مَّعَنَا وَلاَ تَکُن مَّعَ الْکَافِرِیْنَ (آیت ۴۲) یعنی ہمارے ساتھ کشتی پر سوار ہو جاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو۔ اگر بیٹا صریحاً کافر اور منکر ہوتا تو اسے دعوت ایمان دی جانی چاہیے تھی، کیونکہ اس شرط کے بغیر اسے کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دینے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اسی طرح ’مع الکافرین‘ کی جگہ غالباً ’من الکافرین‘ ہوتا جو زمرۂ کفار میں شامل ہونے کے مفہوم میں زیادہ صریح ہے۔ ’مع الکافرین‘ کی تعبیر سے بھی اس طرف اشارہ نکلتا ہے کہ دراصل بیٹے کو (ایمان لانے کے باوجود) عملاً کافروں کا ساتھ دینے اور ان سے اظہار براء ت کر کے اہل ایمان کا ساتھ اختیار نہ کرنے پر تنبیہ کی گئی تھی۔ 

واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔


مستشرقین نے جب علوم اسلامیہ کا گہرائی کے ساتھ نیا نیا مطالعہ شروع کیا تو مغربی ذہن کی برتری کے نفسیاتی احساس کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ، یہ باور نہ کر پائے کہ عرب کے صحرا سے اٹھنے والی ایک سادہ ذہن قوم انسانی تہذیب کو اتنا منظم اور اعلیٰ فکری ورثہ دے سکتی ہے۔ چنانچہ اس کی توجیہ یہ کی گئی کہ مسلمانوں نے دراصل پہلے سے موجود مختلف فکری اور قانونی نظام کو مستعار لے کر انھیں اسلامی اصطلاحات کا جامہ پہنا دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اور علمی بحث ومباحثہ کے آگے بڑھنے سے اس طرز فکر میں کچھ تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ کافی حد تک اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ دو سال قبل مجھے لیسٹر کے مشہور جریدہ مسلم بک ریویو کی طرف سے ایک کتاب تبصرہ کے لیے بھیجی گئی۔ اپنی نالائقی اور مصروفیات کی وجہ سے تبصرہ تو لکھ کر نہ بھیج سکا، لیکن کتاب کو بہرحال اطمینان سے پڑھ لینے اور تجزیہ کرنے کا موقع مل گیا۔ 

یہ کتاب عراق کی ایک مسیحی مصنفہ Amal. E. Marogy کی تصنیف ہے اور Kitab Sibawayhi: Syntax and Pragmatics کے نام سے مشہور اشاعتی ادارے Brill نے شائع کی ہے۔ بنیادی موضوع یہ ہے کہ کسی بھی زبان کی گریمر کی تشکیل سے متعلق مغربی علم لسانیات میں جو جدید ترین نظریات پیش کیے گئے ہیں، ان میں بہت سے تصورات بڑی واضح شکل میں عربی علم نحو کی ام الکتاب یعنی سیبویہ کی ’’الکتاب‘‘ میں بھی ملتے ہیں۔ ان میں سے بعض اہم نظریات کا کتاب سیبویہ کے مختلف اقتباسات کی روشنی میں عملی مثالوں کی مدد سے مطالعہ کیا گیا ہے اور کام، مصنفہ کی محنت کا عکاس ہے۔

کتاب کے مقدمے میں، مصنفہ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ بظاہر علم نحو پر اتنی جامع اور واضح تصورات پر مشتمل کتاب کا، کسی پیشگی علمی نمونے کے بغیر، ایک دم سامنے آجانا کیونکر ممکن ہے؟ اس کے جواب میں مصنفہ نے ایسے عجیب وغریب قیاسات کی مدد سے مسلمان علماء نحو کے فکری استفادہ کا تعلق عراق وغیرہ میں موجود مسیحی مدارس ومکاتب اور ان کے ہاں رائج مباحث سے جوڑا ہے کہ سچ مچ ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ کا محاورہ صادق آتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر کتاب سیبویہ کی عبارت کا مفہوم سمجھنے اور اس کا انگریزی ترجمہ کرنے میں بھی مصنفہ نے غلطیاں کی ہیں۔ 

بہرحال کتاب کافی محنت سے لکھی گئی ہے اور اگرچہ انگریزی میں ہونے اور جدید علم لسانیات کی اصطلاحات کی وجہ سے شاید مدارس عربیہ کے لیے استفادہ کافی مشکل ہو، لیکن بہرحال یہ ہمارے لیے اپنے علمی ورثے پر ایک نئے زاویے سے غور کرنے اور اس کی علمی قدر وقیمت متعین کرنے کے کئی دروازے کھولتی ہے۔ اللہ کرے، جدید لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے کوئی ماہر نحوی عالم اس طرف متوجہ ہوں اور مسلمان علمائے نحو نے لسانیات کے میدان میں جو گہری اور عمیق تحقیقات کی ہیں، انھیں علمی سطح پر اجاگر کرنے کی سبیل پیدا ہو۔

آراء و افکار

(جنوری ۲۰۱۵ء)

جنوری ۲۰۱۵ء

جلد ۲۶ ۔ شمارہ ۱

تلاش

Flag Counter