مکاتیب

ادارہ

(۱) 

عزیز گرامی عمار خان ناصر، مدیر ’’الشریعہ‘‘

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گزارش ہے کہ غامدی صاحب کے تصور حدیث وسنت کے عنوان سے آپ کے والد گرامی حفظہ اللہ کے جو دو مضمون الشریعہ میں چھپے تھے، جس کے جواب میں غامدی صاحب نے ایک وضاحتی مضمون تحریر کیا تھا جو الشریعہ ہی میں چھپا ہے، اس میں غامدی صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ:

’’اس بارے میں میرے اور ائمہ سلف کے موقف میں سرمو فرق نہیں ہے۔‘‘

راقم کے خیال میں موصوف کا یہ دعویٰ سراسر بے بنیاد ہے۔ ان کے اور ائمہ سلف کے موقف میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی دعوے کے تناظر میں راقم نے غامدی صاحب کے نظریات پر نقد ومحاکمہ کیا ہے۔ غامدی صاحب کا محولہ دعویٰ بھی ’’الشریعہ‘‘ میں چھپا ہے، اس لیے اصولی طور پر اس پر نقد ومحاکمہ والا مضمون بھی اسی میں چھپنا چاہیے۔ علاوہ ازیں مذہبی رسائل میں ’’الشریعہ‘‘ ہی وہ واحد پرچہ ہے جس کے مباحثہ ومکالمہ والے حصے میں مختلف آراء رکھنے والوں کے مضامین کو احقاق حق کے نقطہ نظر سے شائع کیا جاتا ہے۔ اس لیے راقم کی بجا طور پر یہ خواہش ہے کہ راقم کا یہ مضمون قسط وار ’’الشریعہ‘‘ ہی میں چھپے۔ اس کا جواب بھی بلاشبہ آپ شائع کریں، لیکن جواب کسی نمبر ۲ کا نہ ہو، خود غامدی صاحب کا ہو۔ مضمون قدرے طویل ہے، ۱۰۰ صفحات سے زیادہ۔

جواب آنے پر مضمون ارسال کردیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

صلاح الدین یوسف

گڑھی شاہو۔ لاہور

(۲)

گرامی قدر جناب مولانا حافظ صلاح الدین یوسف صاحب زید مجدہم

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

والد گرامی کے بدست آپ کا عنایت نامہ موصول ہوا تھا۔ جواب میں چند دن کی تاخیر ہوئی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔

غامدی صاحب کے موقف پر اپنا نقد ضرور ارسال فرما دیں۔ مضمون کی طوالت بعض پہلووں سے قارئین کے لیے مشکل کا باعث ہوگی، کیونکہ زیادہ اقساط کی صورت میں بحث کا سرا تلاش کرنا شاید عام قارئین کے لیے ممکن نہیں ہوتا، اس لیے اگر اہم نکات کی تلخیص ہو جائے جو دو تین اقساط میں مکمل ہو سکے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ بہرحال یہ آپ کی صواب دید ہے۔ اگر آپ مفصل صورت میں ہی اشاعت ضروری تصور کرتے ہیں تو ایسا ہی کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔

جہاں تک جوابی موقف کے، خود غامدی صاحب کے تحریر کردہ ہونے کی شرط کا تعلق ہے تو بطور مدیر ہم ایسی کوئی پابندی کسی بھی فریق بحث پر عائد نہیں کر سکتے۔ جب بحث چھیڑی جاتی ہے تو کوئی بھی صاحب قلم اس میں حصہ لے سکتا ہے، البتہ اسے قبول کرنا یا نہ کرنا اور وزن دینا یا نہ دینا آپ کا حق ہے۔

نیک دعاؤں میں یاد فرمائیے۔ والسلام

محمد عمار خان ناصر

(۳)

عزیز گرامی جناب عمار خان ناصر سلمک اللہ تعالیٰ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ آپ نے اس مقالے کی اشاعت کو منظور فرما لیا ہے۔ جزاک اللہ احسن الجزاء۔

اس سلسلے میں چند مزید گزارشات پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ ان کوبھی ضرور ملحوظ رکھیں گے۔

۱۔ اختصار اگر ممکن ہوتا تو ایسا کیا جا سکتا تھا، لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جتنے بھی صفحات آپ ہر ماہ اس کے لیے مختص کر سکتے ہیں، اسے قسط وار شائع فرما دیں۔ تاہم درمیان میں تعطل نہ ہو۔

۲۔ مضمون میں آپ کو متعدد جگہ تکرار بھی محسوس ہوگی۔ اسے آپ مولویوں والی سلیقہ گفتار کی کمی سمجھ لیں کیونکہ اس کا قلم کار بھی بہرحال فرزند تہذیب نہیں، ابلہ مسجد ہی ہے۔ راقم کے خیال میں یہ تکرار بھی ناگزیر ہے۔ بنا بریں گرانی طبع کے باوجود آپ اسے برداشت کر لیں تو مزید احسان ہوگا کہ اس تکرار میں بہتوں کا بھلا ہے۔ ان شاء اللہ

۳۔ یہ تنقیدی مضمون ہے، مدحت نگاری نہیں ہے۔ تنقید اور مدحت دونوں کا اسلوب اور لب ولہجہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ جن صاحب کے افکار وخیالات کو نقد ونظر کا موضوع بنایا گیا ہے، وہ آپ کے استاذ بھی ہیں اور ممدوح بھی اور اس پر مستزاد ان کے افکار سے متاثر اور ان کے وکیل صفائی بھی۔ اس لیے اگرچہ حتی الامکان حد ادب کو ملحوظ رکھا گیا ہے، تاہم بعض جگہ آپ اس میں کچھ تجاوز بھی محسوس کریں تو آپ سے گزارش ہے کہ آپ اسے بھی گوارا کریں کہ: زہر بھی کرتا ہے کبھی کار تریاقی۔

۴۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا موقف جیسا کچھ ہے، اس کی حیثیت ایک علمی اختلاف کی قطعاً نہیں ہے بلکہ وہ مسلمات اسلامیہ کے منکر ہیں اور ائمہ سلف کے موقف سے یکسر مختلف اور منحرف۔ اور اس پر دعویٰ یہ ہے کہ ان کے اور ائمہ سلف کے موقف میں سرمو فرق نہیں ہے، صرف الفاظ کا فرق ہے یا اصطلاحات کا۔

ائمہ سلف کے منہج وفکر کو سمجھنے والا اتنے بڑے جھوٹ اور ادعا کو کس طرح ہضم کر سکتا ہے؟ یہ قطعاً ناممکن ہے، اس لیے اس کے جذبات کا ارتعاش میں آنا ایک فطری امر ہے۔ اس لیے کہیں کہیں لب ولہجہ کی تندی ایک صحیح الفکر مسلمان کے جذبات کی آئینہ دار ہے، بالخصوص جب کہ اس کی صدائے احتجاج ہی فکر ونظر کی نامسلمانی کے خلاف ہو۔

والد گرامی قدر حفظہ اللہ کی خدمت میں نیاز مندانہ سلام۔

(حافظ) صلاح الدین یوسف

مدیر شعبہ تحقیق وتالیف، دار السلام لاہور

(۴)

الشریعہ ،نومبر ۲۰۱۴ء کے مکاتیب میں جناب مولانا زاہدالراشدی کے لیے جناب مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا یہ ارشاد دیکھ کر کہ ’’اوج صاحب قابل توجہ ہی نہ تھے جبکہ آپ کی تحریر سے پتہ چلا کہ وہ تو بڑی ذی علم ہستی تھی‘‘ راقم کی توجہ ادھر ادھر بھٹکنے لگی اور ایک ایسی وادی میں جا نکلی جو بڑی ہی حساس، پر خطر اور پْر خار ہے اور وہ ہے ’’اکابرین‘‘ سے اختلاف اور ان کی جناب میں لب کشائی کی وادی۔ خیر! میں اس وادی پر خار میں آنے والا پہلا آبلہ پا بھی نہیں اور اس وادی میں کانٹوں کی زبان اب اتنی سوکھی ہوئی بھی نہیں رہی۔

میرے ذہن سے کئی دنوں سے یہ خیال چپکا ہوا ہے کہ لوگوں کو قابلِ توجہ یا ناقابلِ توجہ ٹھہرانے سے متعلق ہمارے پیمانے کتنے عجیب ہیں !اکابر کا قصیدہ خواں ہو، اکابر سے منسوب کسی دارالعلوم کا مہتمم ہو، اپنے رسائل و جرائد میں اکابر کے ارشادات پر آمنا و صدقنا کہنے اور ان کو وحی آسمانی کی طرح quote کرنے والا ہو تو چاہے علمی دنیا میں کتنا ہی ناکردہ کار ہو، نہ صرف قابلِ توجہ ہے بلکہ خود اکابرین کی فہرست میں شامل ہونے کے لائق ہے، لیکن جس میں یہ ’’ اہلیت‘‘ نہیں، وہ کتنی ہی محنت کردے ،کتنی جان جوکھوں میں ڈال لے، قرآن و سنت اور سیرتِ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنا ہی تدبر کرکے کتنے ہی گوہر ہائے معانی نکال لائے، یکسر ناقابلِ توجہ ہے۔

اگر کسی صاحبِ جبہ و دستار کے سینکڑوں ہزاروں شاگرد ہوں تو خواہ حضرت نے تحقیق کی وادی میں قدم تک نہ رکھا ہو، شاگردوں کی عصبیت ہی اسے تاقیامت زندہ اور قابل توجہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔لیکن جو کسی دارالعلوم کی ملکیت اور بڑی پگڑی کی اہلیت سے محروم ہو، اس کے سینکڑوں ہزاروں شاگرد بھی ہوں اور وہ بساط بھر دادِ تحقیق بھی دیتا رہا ہو، ہرگز قابلِ توجہ نہیں۔ دراصل مسئلہ اس نفسیات کا ہے جو مخصوص حلقہ تعلیم و تدریس اور درس و مدرسے کی فضا سے باہر نہ کسی کو استاد ماننے کو تیار ہے نہ شاگرد اور نہ دین کا محقق و طالب علم۔مولانا زاہدالراشدی نے اس نفسیات کا تجزیہ کرتے اور اس کے شکار اربابِ مدرسہ کو اصلاحِ احوال کی دعوت دیتے ہوئے خوب لکھا تھا کہ : 

’’بد قسمتی سے ہم نے ایک بات کم وبیش حتمی سمجھ رکھی ہے کہ ہمارے روایتی حلقوں سے ہٹ کر کوئی بھی شخص یا ادارہ کوئی علمی یا دینی بات کرتا ہے تو وہ یقیناًگمراہی پھیلاتا ہے اور ہم نے اسے بہرحال مخالف کیمپ میں ہی دھکیلنا ہے۔۔۔ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے، غیر روایتی علمی حلقوں کے حوالے سے ترجیحات قائم کرنی چاہییں اور جہاں افہام وتفہیم سے کام لینا ممکن ہو، اسے موہوم گمراہی کی نذر کر دینے کے بجائے قابلِ قبول غیر روایتی حلقوں سے استفادہ کی صورتیں نکالنی چاہییں۔‘‘
’’تحقیق ومطالعہ کا جدید اسلوب، طریق کار، ذرائع اور بین الاقوامی سطح کے علمی وتحقیقی اداروں کے کام اور طرز سے استفادہ دینی مدارس کے نزدیک ابھی تک شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ صرف بین الاقوامی زبانوں سے ناواقفیت نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بھی اس کا باعث ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر تمام حلقوں پر علمی اور فکری برتری حاصل ہے اور ہمیں کسی دوسرے حلقہ کے علمی کام سے واقف ہونے اور اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’دینی مدارس میں عالم اسلام کے علمی حلقوں کی تحقیقات، دوسرے مسالک کے علمی کام اور غیر روایتی علمی مراکز کی تحقیقی مساعی سے استفادہ کو اپنی نفسیاتی برتری کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ بْعد اور فاصلہ قائم رکھنے کو بھی تحفظاتی حکمت عملی کا ایک ناگزیر حصہ بنا لیا گیا ہے۔‘‘

ستم ظریفی دیکھیے کہ وہ لوگ قابلِ توجہ ہیں جن کے افکار کا مطالعہ تحصیلِ حاصل سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو اور وہ ناقابلِ توجہ جنہوں نے قرآن و سنت میں تدبر کر کے دلیل کی بنیاد پر مختلف رائے اختیار کی ہو، حالانکہ فی الواقع قابلِ توجہ تو موخر الذکر ہیں۔ فرض کریں تحقیق کا ذوق آشنا ایک شخص نہ اوج صاحب سے نام کو واقف ہے اور نہ مولانا سنبھلی سے۔ اس کے سامنے ان دونوں کے جملہ افکار باندیوں سے متعلق ان کے مضامین ہیں ،جن میں سے مولانا سنبھلی کے مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ باندیوں سے بلا نکاح تمتع کا سلسلہ طلوعِ اسلام کے بعد بھی جاری رہا اور رہ سکتا ہے، اور یہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق ہے ،اور اوج صاحب کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ زن و شو کا تعلق ملکیت کی بنیاد پر درست نہیں، ملکِ یمین سے مراد فقط وہ عورتیں ہیں جن کو قبل از اسلام غلامی وراثت میں ملی تھی، اور دونوں اپنے اپنے موقف کے حق میں کتاب وسنت سے دلائل پیش کرتے ہیں ،تو اس کے نزدیک غور وفکر کو مہمیز دینے کے پہلو سے کون زیادہ قابلِ توجہ ہو گا؟ ظاہر ہے کہ موخر الذکر، اس لیے کہ اول الذکر نے جو بات کہی ہے، وہ ان کا حاصلِ مطالعہ وتدبر نہیں ،بیسیوں لوگ ان سے پہلے یہ بات کہہ چکے ہیں۔

قرآن و سنت کی دلیل کی بنیاد پرکہی گئی بات ناقابلِ توجہ کیسے ہو سکتی ہے! اوج صاحب کا استدلا ل ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام، جانور اور لونڈی بنانا قرآن حکیم کی تعلیمات سے میل نہیں کھاتا۔ یہ ارشاد خداوندی فَاِمَّا مَنَّا بَعدُ وَ اِمَّا فِدَآءًا کے خلاف ہے۔وہ قرآن کی متعدد آیات کا حوالہ دے کر واضح کرتے ہیں کہ لونڈیوں سے تمتع نہیں، نکاح چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ وَالمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ  میں ملکِ یمین سے مراد ملک نکاح ہے، نہ کہ وہ عورتیں جو جنگ میں قید ہو کر ملکِ یمین ہو جائیں۔ قرآن کریم کے مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ  کا تعلق ماضی کی باندیوں سے ہے، اسی لیے ہمیشہ اس ضمن میں صیغہ ماضی استعمال کیا گیا ہے۔ اس اسلوب سے قرآن نے موروثی غلامی کو ختم کیا ہے، نہ کہ اسے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔اگر محض ملکیت کی بنا پر مباشرت کا حق تسلیم کر لیا جائے تو مالک ہی نہیں، مالکہ کو بھی یہ حق دینا پڑے گا۔اوج صاحب کے مطابق یہ بات تاریخی حقائق کے خلاف ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ماریہ قبطیہ سے تمتع کیا۔حقیقت یہ ہے کہ وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کے نکاح میں آئی تھیں، جیسا کہ آپ نے ریحانہ، بریرہ اور صفیہ رضی اللہ عنہن کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا۔

اوج صاحب کے اس استدلال سے اختلاف ہو سکتا ہے اور اسے دلیل کی بنیاد پر رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے مقدمے کو کتاب و سنت کے دلائل پر استوار کیا ہے۔کتاب و سنت کے دلائل کی بنیاد پر کہی گئی منفرد بات تردید کے لیے ہی سہی، کم از کم قابل توجہ تو مانی جانی چاہیے۔ اگر کسی ایک مسئلے یا چند مسائل میں کسی کی منفرد رائے اسے نا قابلِ توجہ اور نا اہل ثابت کر دیتی ہے تو سلف میں کوئی ایک عالم بھی اہل اور قابل توجہ نہیں بچتا۔ ذرا کسی ایک نمایاں عالم کو نام تو لیجیے جس نے کسی بھی معاملے میں جمہور سے ہٹ کر رائے اختیار نہ کی ہو! علما کے تفردات ایک مسلمہ ہیں۔ لیکن کیا کیجیے کہ اس حقیقت کے باوجود کسی کے نئے یا شاذ نوعیت کے حاصل تدبر کو اجماعی موقف سے انحراف قرار دے کر یکسر ناقابل اعتنا قرار دے دیا جاتا ہے۔یہ اجماعی موقف ایک ایسا ’’ہوا ‘‘ ہے جس کے ذریعے لوگوں کو غور و تدبر سے ڈرایا جاتا اور ابوابِ فکر پر پہرہ بٹھا یا جاتا ہے۔ یہ بات بجائے خود بحث طلب ہے او ر علما کے ہاں اس پر بحث ہوتی آ رہی ہے کہ اجماعی موقف کیا ہوتا ہے؟ جن جن مسائل کو اجماعی کہا جاتا ہے، وہ کس حد تک اجماعی ہیں؟ کیا کوئی اجماعی مسئلہ کبھی غیر اجماعی بھی ہو سکتا ہے؟ایک زمانے کے اجماع کو دوسرے زمانے کا اجماع کا لعدم بھی کر سکتا ہے؟ جب اجماع سے متعلق اس قدر بنیادی امور زیرِ بحث یا بحث طلب ہوں تو یہ سوال کیوں نہ اٹھے کہ کون سے اور کس اجماع سے کیا انحراف؟

اکابر کا ڈر بھی کیا چیز کیا ہے، خود اکابرین کو بھی سہما دیتا ہے اور وہ اچھے بھلے ’’ بہادر ‘‘ ہونے کے باوجود معذرت خواہی پر اتر آتے ہیں۔مولانا سنبھلی کے زیر نظر خطوط کے بعد جناب مولانا زاہد الراشدی کا جو خط شائع ہوا ہے، اس کے بین السطور اس کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ صاف دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ اوج صاحب سے متعلق جناب کا یہ ارشاد کہ ’’ وہ دینی و عصری علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، آج کے دور کے تقاضوں کو سمجھتے تھے اور ان کی روشنی میں نئی نسل کی رہنمائی کے اسلوب سے بہرہ ور تھے‘‘ ان کو کوئی علم کا ہمالیہ دکھانے والی بات نہ تھی کہ ایسی عنایت تو علما کی جانب سے کئی انتہائی معمولی علم کے اربابِ دستارپر بھی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن وہ اس سے بھی پسپائی اختیار کر گئے ہیں جس کا ثبوت اجماعی موقف سے انحراف کو درست نہ سمجھنے اور اوج صاحب کو بریلوی مکتبِ فکر کا بندہ (حالانکہ وہ اپنی بہت سی تحریروں میں بریلوی مکتب فکر سے زیادہ دیوبندی مکتب فکر کا بندہ لگتے تھے) اور ان لوگوں میں سے ایک آدمی شمار کرنے ’’جن کا دم غنیمت ہے ‘‘ کے الفاظ میں ملتا ہے۔ 

بایں ہمہ ہم جناب مولانا زاہد الراشدی کو غنیمت جانتے ہیں اور ان کی اس ’’جرتِ رندانہ‘‘ پر انہیں داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ تفردات کے حامل ایسے لوگوں کی فکری بے راہ روی پر گمراہی کا فتوی دینے کی بجائے افہام و تفہیم کے ذریعے رجوع کی طرف توجہ دلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلکہ ان کی یہ جرات اس سے بہت آگے تک جاتی ہے کہ وہ اجماعی اور جمہور کے ہاں مسلمہ چلے آنے والے مسئلے میں بھی بعد کے اہلِ علم کو غور وخوض کا نہ صرف حق دیتے بلکہ جمہور کے اس کے موافق رائے اختیار کر لینے کے امکان کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ:

’’جو بات جمہور اہل علم کے ہاں قبولیت کا درجہ حاصل کر لے گی، ہمیں بھی اسے تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا۔‘‘

اگر آپ ڈاکٹر شکیل اوج مرحوم کو ناقابلِ توجہ سمجھنے پر ہی مصر ہوں تو سمجھتے رہیے، لیکن خدارااس حقیقت کو توقابلِ توجہ سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی صاحبِ علم کتاب وسنت کے دلائل کی بنیاد پر کوئی بات کرتا ہے تواسے علمی انداز میں لینا چاہیے اورعلمی بحث و نظر کو موضوع بنانا چاہیے۔ اسے محض اس وجہ سے ناقابلِ اعتنا قرار نہیں دے دینا چاہیے کہ اس سے پہلے کے زیادہ تر اہل علم اس کے قائل نہیں یا اس کا پیش کنندہ صاحبِ جبہ و دستار نہیں۔ مسلم تاریخ بتاتی ہے، بہت دفعہ یوں بھی ہوا ہے کہ ایک زمانے کے ایک یا چند اہل علم کا تفرد دوسرے زمانے کا مسلمہ بن گیا یا بعد کے زمانے میں پہلے زمانے کے اجماع کے بالکل خلاف اجماع ہو گیا یا مسلمانوں کے مجموعی تعامل نے ایک اجماعی سمجھے جانے والے مسئلے کے صریحاً خلاف فیصلہ دے دیا۔

قرآن وسنت پر براہ راست غور و تدبر، حیرت ہے ،کہ دلیلِ کم علمی و گمراہی کس بنیاد پر بنا دیا گیا ہے! حالانکہ بڑے بڑے علمائے سلف کا بڑا پن اسی غور وتدبر میں مضمر ہے۔یہ الگ بات کے ان کے نتائج فکر کی عظمت کا اقرار اکثر و بیشتر ان کے بعد کے زمانوں ہی میں ہوا ہے،ان کے اپنے زمانے والوں نے ان پر طعن و تشنیع کے تیر ہی چلائے ہیں۔اور کسی کا کیا نام لیں، امام اعظم ابو حنیفہ کا سابقہ بھی اسی صورت حال سے رہا۔ حق یہ ہے کہ صاحبِ عظمت ہوتا ہی وہ شخص ہے جو اپنے زمانے کی مروج مذہبی فکر سے بلند ہو کر سوچتا ہے۔اور بقول مولانا ابوالحسن علی ندوی :

’’وہ صاحب کمال اپنے معاصرین کی طرف سے ایک مسلسل ابتلا اور آزمائش میں رہتا ہے، اور وہ معاصرین اس صاحب کمال کی طرف سے زندگی بھر ایک مصیبت اور زحمت میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ اس کی تازگی فکر، بلندئ نظر، قوتِ اجتہاد کا ساتھ نہیں دے سکتے اور اس کے آفاقِ علم و فکر تک ان کی رسائی نہیں ہوتی اور وہ ان کے معین و محدود اصطلاحات اور مدرسی حدود میں مقید نہیں رہ سکتا۔ وہ علم و نظر کی آزاد فضاؤں اور قرآن و حدیث کے بلند اور وسیع آفاق میں آزادانہ پرواز کرتا ہے۔ اِن کا مبلغِ علم متقدمین اور اہل درس کی کتابوں کا سمجھ لینا ہوتا ہے، وہ واضع علوم اور بہت سے فنون کا مجتہد مجدد ہوتا ہے۔ غرض مدارک اور استعدادوں کا یہ تفاوت اس کے اور اس کے مخلص معاصرین کے درمیان ایسی کشمکش پیدا کر دیتا ہے کہ یہ گتھی کبھی سلجھتی نہیں اور وہ کبھی اپنے معاصرین کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ ہر زمانہ کے صاحب کمال اور مجتہد الفن علماء نے اس کی شکایت کی ہے کہ ان کی تحقیقات اور علوم و مضامین ان کے زمانہ کی علمی و نصابی سطح سے بلند اور ان اہل علم کی دسترس سے باہر ہیں جن کی پروازِ فکر متداول کتابوں سے آگے نہیں اور یہی بہت سے اہل علم کی مخالفت کا سبب اور محرک ہے۔ ‘‘

سو یہ محنت و انفرادیت آدمی کی خوبی و کمال اورحوصلہ مندی کا ثبوت ہے نہ کہ خامی و کمزوری اور کم علمی کا ۔ گویا:

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

ڈاکٹر محمد شہباز مَنج 

شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا

drshahbazuos@hotmail.com

مکاتیب

(جنوری ۲۰۱۵ء)

جنوری ۲۰۱۵ء

جلد ۲۶ ۔ شمارہ ۱

تلاش

Flag Counter