مولانا عمار خان ناصر صاحب حفظہ اللہ کی کتاب ’’براہین‘‘ (استفسارات، داڑھی کامسئلہ، ص: ۷۰۱-۷۰۳، دارالکتاب) میں داڑھی کے حکمِ شرعی کے بارے میں ایک سوال وجواب موجود ہے، جس میں مولانا عمار خان ناصر صاحب فرماتے ہیں: ’’میری طالب علمانہ رائے میں داڑھی کو ایک امرِ فطرت کے طور پر دینی مطلوبات میں شمار کرنے کے حوالے سے استاذِ گرامی کا قولِ قدیم اَقرب الی الصواب ہے۔ البتہ اس میں داڑھی کو ’’شعار‘‘ مقرر کیے جانے کی جو بات کہی گئی ہے، اس پر یہ اِشکال ہوتا ہے‘‘۔یعنی: مسئلہ داڑھی کے بارے میں مولانا عمار خان ناصر صاحب جمہور فقہاء کرام کی طرح حکمِ شرعی ہونے کے قائل ہیں، تاہم! انہیں داڑھی کو شعار قرار دئیے جانے پر اشکال ہے، داڑھی کا شعائرِ اسلام، فطرتِ انسانی، فطرتِ اسلامی سے ہونااور داڑھی کا وجوب یا شرعی حکم ہونا قرآن وسنت سے پوری طرح واضح اور صاف ہے،چنانچہ! زیرِ نظر تحریر میں مولانا عمار خان ناصر صاحب کا اشکال حل کرنے کی ایک طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے۔ امید ہے کہ بنظرِ انصاف اسے دیکھا جائے گا۔
ذیل میں اوّلا: مولاناعمار خان ناصر صاحب سے کیا گیا سوال اور اس کا جواب اور اس کے بعد اس کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔
سوال: میں نے غامدی صاحب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ داڑھی کا دینی احکام سے کوئی تعلق نہیں اور داڑھی رکھنا واجب نہیں، لیکن علامہ راشدی صاحب نے اپنے خطاب میں ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ ’’مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں داڑھی بڑھاؤں اور مونچھوں کو گھٹاؤں۔‘‘ اس ضمن میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: دین میں داڑھی کی حیثیت کے بارے میں استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے دو قول ہیں: قولِ جدید کے مطابق یہ اُن کے نزدیک کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں ، جب کہ قولِ قدیم یہ ہے کہ اسے دین کے ایک شعار اور انبیاء کی سنت کی حیثیت حاصل ہے۔ ۱۹۸۶ء میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ:’’داڑھی نبیوں کی سنت ہے۔ ملتِ اسلامی میں یہ ایک سنتِ متواترہ کی حیثیت سے ثابت ہے۔ نبی ﷺ نے اسے اُن دس چیزوں میں شُمار کیا ہے جو آپ کے ارشاد کے مطابق اس فطرت کا تقاضہ ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت میں کوئی تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: (لا تبدیل لخلق اللہ ذٰلک الدین القیم ولٰکن أکثر الناس لا یعلمون) ’’اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
بنی آدم کی قدیم ترین روایت ہے کہ مختلف اقوام وملل اپنی شناخت کے لیے کچھ علامات مقرر کرتی ہیں۔ یہ علامات اُن کے لیے ہمیشہ قابلِ احترام ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں اپنی کسی علامت کو ترک کر تی ہیں، نہ اس کی اہانت گوارا کرتی ہیں۔ اس زمانے میں جھنڈے اور ترانے اور اس طرح کی دوسری چیزوں کو ہر قوم میں یہی حیثیت حاصل ہے، دین کی بنیاد پر جو ملت وجود میں آتی ہے، اس کی علامات میں سے ایک یہ داڑھی ہے۔ نبی ﷺ نے جن دس چیزوں کو فطرت میں سے قرار دیا ہے، ان میں سے ایک ختنہ بھی ہے۔ ختنہ ملتِ ابراہیمی کی علامت یا شعار ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ داڑھی کی حیثیت بھی اس ملت کے شعار کی ہے، چنانچہ کوئی شخص اگر داڑھی نہیں رکھتا تو گویا وہ اپنے اس عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ملتِ اسلامی میں شامل نہیں ہے۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر اس ملک کے عَلَم اور ترانے کو غیر ضروری قرار دے تو ہمارے یہ دانش ور امید نہیں ہے کہ اُسے یہاں جینے کی اجازت دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ دین کے ایک شعار سے بے پروائی اور بعض مواقع پر اس کی اہانت اب ان لوگوں کا شعار بن چکا ہے۔ ہمیں ان کے مقابلے میں بہر حال اپنے شعار پر قائم رہنا چاہیے۔‘‘ (اشراق، ستمبر: ۱۹۸۶ء)
میری طالب علمانہ رائے میں داڑھی کو ایک امرِ فطرت کے طور پر دینی مطلوبات میں شمار کرنے کے حوالے سے استاذِ گرامی کا قولِ قدیم اَقرب الی الصواب ہے۔ البتہ اس میں داڑھی کو ’’شعار‘‘ مقرر کیے جانے کی جو بات کہی گئی ہے، اس پر یہ اِشکال ہوتا ہے کہ روایات کے مطابق صحابہ کرام وتابعین کے عہدمیں بعض مقدمات میں مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی داڑھی مونڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس نوعیت کے فیصلے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم الحدیث: ۳۳۵۲۸۔ اخبار القضاۃ لوکیع: ۱/۱۵۹)اگر یہ حضرات داڑھی کو کوئی باقاعدہ شعار سمجھتے تو یقیناًمذکورہ فیصلہ نہ کرتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے: کسی علاقے کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی جرم کریں اور سزا کے طور پر ان کی کسی مسجد کو منہدم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔ اسی طرح داڑھی کو دینی شعار سمجھتے ہوئے اسے تعزیراً مونڈ دینے کا فیصلہ بھی ناقابلِ فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے فقہاء کے ہاں عام طور پر یہی مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ تعزیر کے طور پر کسی مسلمان کی داڑھی نہیں مونڈی جا سکتی۔ واللہ اعلم۔‘‘ (براہین، استفسارات، داڑھی کامسئلہ، ص: ۷۰۱-۷۰۳، دارالکتاب)
جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے داڑھی سے متعلق خیالات پر تو کسی اور مجلس میں روشنی ڈالیں گے، فی الحال تو جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب کے مذکورہ جواب کا جائزہ لینا پیش نظر ہے۔ مولاناعمار خان ناصر صاحب کے وسعت مطالعہ کی گواہی شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدہ کے قلم سے سامنے آ چکنے کے بعد مذکورہ جواب کو دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض کسی جگہ مولاناعمار خان ناصر صاحب کی نظر سے گذرا ہو گا، وہاں سے ہی بلا تحقیق ، اصل کی طرف مراجعت کیے بغیر ہی نقل کر دیا، اس لیے کہ ’’المصنف ‘‘ میں موجود اس اثر پر ’’شیخ عوامہ ‘‘کی تحقیق پر ہی ایک نظر ڈال لینا جناب عمار خان ناصر صاحب کے اِشکال کا قلع قمع کر دیتا ہے تو پھر ایک اہم ترین امرِ شرعی سے متعلق تشکیک پیدا کرنے والے انداز تحریر کو اپنانا کسی طرح بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا،اس لیے کہ کسی بھی بات کا کسی اثر یا حدیث میں محض موجود ہونا، مسئلہ شرعی کے اثبات کا ذریعہ نہیں بن سکتا ہے۔ اِس کے لیے اُس اثر یا حدیث کی اِسنادی حیثیت، اُس کے ناسخ ومنسوخ، راجح ومرجوح یا شاذ ومنکر وغیرہ دیکھنے کی بہت بڑی حیثیت ہے۔
دینیات کا ایک مبتدی طالب علم ، یا منتہی (جو از خود تحقیق وغیرہ سے دور محض شخصیات پر ہی اعتماد کا عادی ہو) یا عصری علوم وفنون سے متعلق کوئی فرد اس جواب اور بالخصوص خط کشیدہ تعبیرات (اس پر یہ اِشکال ہوتا ہے کہ روایات کے مطابق صحابہ کرام وتابعین کے عہدمیں بعض مقدمات میں مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی داڑھی مونڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس نوعیت کے فیصلے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم: ۳۳۵۲۸۔ اخبار القضاۃ لوکیع: ۱/۱۵۹)اگر یہ حضرات داڑھی کو کوئی باقاعدہ شعار سمجھتے تو یقیناًمذکورہ فیصلہ نہ کرتے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح داڑھی کو دینی شعار سمجھتے ہوئے اسے تعزیراً مونڈ دینے کا فیصلہ بھی ناقابلِ فہم ہے۔) کو پڑھے گا، تو داڑھی سے متعلق اُس کا ذہن سلامت نہیں رہے گا، بلکہ وہ ذہنی طور پر اس مسئلہ داڑھی سے متعلق متزلزل ہو کر دوسروں کے سامنے یہ مسئلہ کھل کر واضح طور بیان بھی نہیں کر سکے گا، اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خطرہ ہو گا کہ کہیں وہ خود بھی اس امر شرعی کا تارک ہی نہ ہو جائے۔
مذکورہ تمہید کے بعد آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا فیصلہ کرنے والے حضرات کون کون ہیں ، اُن کے یہ فیصلے ایک بار ہوئے یا متعدد بار، ان فیصلوں کی سند یا مأخذ کیا ہے؟
مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی داڑھی مونڈ دینے کے فیصلہ سے متعلق ایک اثر ’’المصنف لابن ابی شیبہ‘‘ میں دو مقامات پر حضرت عمرو بن شعیب سے منقول ہے: ایک کتاب الحدود میں اور دوسرا کتاب السیر میں ، دونوں جگہ سند ایک ہی ہے۔ مکمل اثر ملاحظہ فرمائیں:
حدثنا عبد الوھاب الثقفي، عن المثنی، عن عمرو بن شعیب قال: إذا وُجِد الغلول عند الرجل أُخذ وجُلد ماءۃ وحُلق رأسُہ ولِحیتُہ، وأُخذ ما کان في رِحلہ من شیئ إلا الحیوان، وأُحرق رحلُہ، ولم یأخذ سھما في المسلمین أبدا، قال: وبلغني أنّ أبا بکر وعمر کانا یفعلانہ‘‘۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الحدود، باب في الرجل یؤخذ وقد غل، رقم الحدیث: ۲۹۲۷۹، ۱۴/۵۰۴، ۵۰۵، وکذا في کتاب السیر، الرجل یوجد عندہ الغلول، رقم الحدیث: ۳۴۲۲۵، ۱۸/۱۶۶،۱۶۷، إدارۃ القرآن بکراتشي)
اسی اثر کو علامہ سیوطیؒ نے ’’جمع الجوامع‘‘ میں اور علامہ علی متقی الھندی ؒ نے ’’کنز العمال‘‘ میں ’’المصنف ‘‘کے ہی حوالے سے نقل کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(جمع الجوامع، مسند أبي بکر الصدیق رضي اللہ عنہ، رقم الحدیث: ۸۴۱، ۱۱/ ۱۶۹، دار الکتب العلمیۃ)
(کنز العمال، کتاب الجہاد، باب الغلول، رقم الحدیث: ۱۱۵۹۳، ۴/ ۲۳۱، دار الکتب العلمیۃ)
مذکورہ اثر سے تعزیراً حلقِ لحیہ کے اثبات پر استدلال کرنا بوجوہ درست نہیں ہے:
(۱) مذکورہ اثر کی سند میں ایک راوی ’’المثنیٰ‘‘ ہیں،ان کا پورا نام ’’المثنیٰ بن الصباح الیمانی‘‘ ہے، یہ اکثر ائمۂ رجال (امام احمد بن حنبل، یحیٰ بن معین، امام ترمذی، امام نسائی، ابن عدی، امام دارقطنی، الجوزجانی رحمہم اللہ وغیرہ )کی تصریحات کے مطابق ضعیف راوی ہیں، (کتبِ رجال میں ان کے بارے میں ’’لا یسوی حدیثہ شیئا، مضطرب الحدیث، لیس بثقۃ، متروک الحدیث، ضعیف اختلط بأخرۃ، والضعف علیٰ حدیثہ بیّن، لیّن الحدیث‘‘، جیسے اقوالِ جرح منقول ہیں)چنانچہ! تعزیراً حلقِ لحیہ کا حکم مذکورہ اثر سے ثابت نہیں ہو گا۔ (ملاحظہ ہو: تہذیب الکمال، رقم الترجمہ: ۵۷۷۳، ۲۷/۲۰۳، الجرح والتعدیل، رقم الترجمہ: ۱۴۰۴، الکامل لابن عدي: ۳/ ۱۵۰، الکاشف، رقم الترجمہ: ۵۲۸۰، ۴/ ۲۴۰، تقریب التہذیب، رقم الترجمہ: ۶۴۷۱، ص: ۵۱۹)
(۲) مذکورہ اثر کے راوی ’’حضرت عمرو بن شعیب‘‘ ہیں، یہ صحابئ رسول نہیں ہیں، اور ان کے تابعی ہونے میں بھی ائمۂ رجال کا اختلاف ہے، امام دارقطنیؒ نے ان کے تابعی ہونے کا انکار کیا ہے، البتہ امام مزیؒ نے انہیں تابعین میں شمار کیا ہے، کہ ان کا دو صحابیات (ربیع بنت معوذ بن عفراء اور زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہما) سے سماع ثابت ہے، لہٰذا امام مزیؒ کی تصریح کے مطابق ان کا تابعی ہونا ثابت ہو تو بھی ان کا شمار صغار تابعین میں ہو گا۔ (تہذیب الکمال، ترجمہ: عمرو بن شعیب، رقم: ۴۹۶۹، ۱۴/ ۲۴۴، دار الفکر)لہٰذا ان کی ذکر کردہ روایت کا درجہ مرفوع روایات کے برابر نہیں ہو گا،بالخصوص جب کہ راویِ حدیث غلول (یعنی: خیانت )کی سزا میں (’’حلقِ لحیہ‘‘ کی) ایسی زیادتی ثابت کر رہا ہو، جو مذکورہ حدیث کے علاوہ اس موضوع کی دیگر روایات میں نہیں پائی جاتی۔
(۳) علاوہ ازیں مذکورہ اثر میں منقول الفاظ (کانا یفعلانہ) سے اس عمل کی مداومت معلوم ہوتی ہے، جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ اس حال میں کہ یہ امر (حلقِ لحیہ) سوائے اس اثر کے جو ’’المصنف لابن ابی شیبہ ‘‘میں موجود ہے، کہیں بھی اصحابِ سنن و اربابِ روایات سے نقل نہیں کیا گیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ اس اثر کے دوسرے اجزاء میں سے ’’احراق متاعِ الغالّ‘‘ پر بھی فقہاءِ احناف اور دیگر کبار محدثین کرام رحمہم اللہ نے تنقیدی وتحقیقی کلام کر کے غیر معتبر اور ناقابلِ عمل قرار دیا ہے،چنانچہ! جس حدیث میں خیانت کرنے والے کے سامان کو جلا دینے کا حکم منقول ہے، اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے امام ترمذی، امام بخاری، امام دارقطنی، امام محمد، علامہ سرخسی ، حافظ ابن حجر اور ملا علی قاری وغیرہ رحمہم اللہ نے اسے ناقابلِ استدلال اور شاذ قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: نیل الاوطار، کتاب الجہاد والسیر، باب: التشدید في الغلول، تحریق رحل الغالّ، رقم الحدیث: ۳۴۱۳، ۳۴۱۴، ۷/ ۳۵۲۔عون المعبود، کتاب الجہاد، باب: في عقوبۃ الغلول: رقم الحدیث: ۲۷۱۳، ۷/۲۷۳۔ تحفۃ الأحوذی، ابواب الحدود، باب: ما جاء في الغال ما یصنع بہٖ، رقم الحدیث: ۱۴۶۱، ۵/۲۴۔ شرح کتاب السیر الکبیر، ما جاء في الغلول، ۴/۵۹، ۶۰۔ فتح الباری،کتاب الجہاد والسیر، باب: القلیل من الغلول، رقم الحدیث: ۳۰۷۴، ۶/ ۲۳۰۔ مرقاۃ المفاتیح، کتاب الجہاد، باب: قسمۃ الغنائم والغلول فیھا، رقم الحدیث: ۳۹۹۷، ۱۲/ ۱۹۷) چنانچہ! جس طرح جمہور ائمہ کرام رحمہم اللہ کے نزدیک خیانت کرنے والے کے سامان کو تعزیراً جلا دینا قابلِ قبول نہیں، اسی طرح تعزیراً اس کی داڑھی کو مونڈ دینا بھی قابلِ قبول نہیں ہو گا۔
واضح رہے اس حدیث پر امام احمد، اوزاعی اور حسن رحمہم اللہ کا عمل بھی ہے، اس کے باوجود اس پر بے شمار ائمہ کا کلام ہے تو اس کے برعکس جس اثر کو نہ کسی نے نقل کیا اور نہ ہی اس پر کسی کا عمل رہا، اس کا کیا حال ہو گا؟!
(۴) مذکورہ اثر ؛ انقطاع کی وجہ سے بھی ضعیف ہے، وہ اس طرح کہ حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی طرف نسبت کرتے ہوئے ذکر کیا: ’’وبلغني أنّ أبا بکر وعمر کانا یفعلانہ‘‘ (یعنی: حضرت عمرو بن شعیب فرما رہے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما بھی ایسا کیا کرتے تھے۔) حالانکہ ! ان کا حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما سے سماع تو درکنار، رؤیت بھی ثابت نہیں ہے اور حضرت عمرو بن شعیب رحمہ اللہ کے علاوہ کسی سے بھی حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کا یہ عمل منقول نہیں ہے، شیخ عوامہ ’’المصنف ‘‘کی تعلیقات میں مذکورہ اثر کے تحت لکھتے ہیں: ’’ونسبۃ عمرو بن شعیب ھٰذا الفعل إلی أبي بکر وعمر ضعیفۃ السند أیضاً، للانقطاع بینہ وبینھما‘‘.(المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الحدود، باب في الرجل یؤخذ وقد غل، رقم الحدیث: ۲۹۲۷۹، ۱۴/۵۰۴) لہٰذا اس جہت سے بھی اس اثر کا غیر مقبول ہونا ثابت ہو رہا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ اثر کی حیثیت ایسی نہیں ہے کہ اس سے استدلال کرتے ہوئے داڑھی کے شعار ہونے کی نفی کی جائے، یہ استدلال درست اور قابلِ تسلیم نہیں ہے۔
مذکورہ اثر کی اسنادی حیثیت واضح ہو جانے کے بعد جناب عمار خان صاحب کے اس جملے کہ ’’اس نوعیت کے فیصلے سیدنا ابو بکر، سیدنا عمر، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔‘‘ پر بھی غور کر لیا جائے کہ مذکورہ اثر کے صحیح ہونے کی صورت میں اِسے لفظِ ’’فیصلے‘‘ کی بجائے لفظِ ’’فیصلہ‘‘ سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
نیز اس فیصلہ کا صدور (قطع نظر اس بات کے کہ اس کی حیثیت کیسی ہے) اس اثر کے مطابق حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما سے ہوا یا عمار خان صاحب کے ذکر کردہ چار اَفراد سے؟ مذکورہ اثر میں تو صرف حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کا ذکر ہے، ثانی الذکر دو افرادکے فیصلوں کا ذکر ہمیں نہیں ملا، اگر وہ بھی سامنے آ جائے تو ان کی اسنادی حیثیت پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں! مذکور الذکر چار افراد میں سے ’’عمرو بن شعیب ‘‘فیصلے کو نقل کرنے والے راوی ہیں(جیسا کہ المصنف کی روایت سے معلوم ہو رہا ہے) یا خود فیصلہ کرنے والے (جیسا کہ عمار خان ناصر صاحب کی تحریر سے معلوم ہو رہا ہے)؟ یہ قضیہ بھی حل طلب ہے۔
آخر میں جناب عمار خان صاحب کا یہ نتیجہ نکالنا کہ ’’اگر یہ حضرات داڑھی کو کوئی باقاعدہ شعار سمجھتے تو یقیناًمذکورہ فیصلہ نہ کرتے۔ ‘‘ اور اپنے اس نتیجے کی دلیل کے لیے ایک عقلی نظیر (اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے: کسی علاقے کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی جرم کریں اور سزا کے طور پر ان کی کسی مسجد کو منہدم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔ )پیش کرنا بھی درست نہیں ، اس لیے کہ مسجد کے شعار ہونے میں اور داڑھی کے شعار ہونے میں فرق ہے، وہ اس طرح کہ اول الذکر کا تعلق مسلمانوں کی اجتماعی زندگی اور اجتماعی مفاد سے ہے، اس لیے کسی جرم کی بنا پر اس کو منہدم کرنا یقیناًجائز نہیں ہو گا، لیکن اس کے برخلاف داڑھی کا تعلق ایک شخصی زندگی سے ہے ، لہٰذا بر تقدیر صحتِ اثر اگر داڑھی کا حلق کیا بھی گیا تو تعزیر کے مقاصد کے عین مطابق ہے، کیوں کہ تعزیر سے مقصود زجر ہوتا ہے، جس کا (ایک ایسے معاشرے میں جہاں کوئی بھی داڑھی منڈا نہیں ہوتا تھا، لہٰذا وہاں حلقِ لحیہ کی صورت میں بدرجہ اتم )حاصل ہو جانا عین قرینِ قیاس ہے۔
اور بالفرض جناب عمار خان ناصر صاحب کے قضیے کے مطابق مسجد کے شعار ہونے اور داڑھی کے شعار ہونے میں کوئی فرق نہ بھی ہو تو بھی عمار خان ناصر صاحب کا یہ کہنا ’’ کسی علاقے کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی جرم کریں اور سزا کے طور پر ان کی کسی مسجد کو منہدم کر دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔ ‘‘ٹھیک نہیں ہو گا، اس لیے کہ جب کسی مسجد کی بنیاد شر وفتنہ کے لیے رکھی گئی ہو تو اسے منہدم کر دینا جائز ہے، جیسا کہ مسجدِ ضرار کو جناب رسول اکرم ﷺ نے منہدم کروا دیاتھا۔
الغرض! اگر تعزیراً حلقِ لحیہ ثابت بھی ہو تو اس سے داڑھی کا عدمِ شعار ہوناثابت نہیں ہوتا۔ اللہم أرنا الحق حقاً، وألھمنا اتباعہ، وأرنا الباطل باطلًا، وألھمنا اجتنابہ.