۱۶ دسمبر کے سانحۂ پشاور نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور پاکستان کی سیاسی و دینی جماعتیں اپنے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی بلکہ درندگی کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔ ملک کے اخبارات اور میڈیا کے بہت سے مراکز نے اس دن سانحہ سقوط ڈھاکہ اور اس کے اسباب و اثرات کے حوالہ سے مضامین اور پروگراموں کا اہتمام کیا تھا، مگر پشاور کے اس المناک سانحہ نے قوم کے غم کو ہلکا کرنے کی بجائے ایک اور قومی سانحہ کے صدمہ سے اسے دو چار کر دیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اس دہشت گردی کے لیے درندگی سے بڑھ کر کوئی تعبیر ممکن ہو تو وہ بھی ایک مسلمان اور پاکستانی کے جذبات کے اظہار کے لیے کم ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد یاد آرہا ہے کہ ایک دور آئے گا جب لوگ بھیڑیے بن جائیں گے، اور جو شخص بھیڑیا بننے سے گریز کرے گا اسے دوسرے بھیڑیے کھا جائیں گے۔ یہ بات بھی بھیڑیا پن ہی ہے کہ کوئی گروہ اپنی بات کہنے کے لیے یا کسی بھی حوالہ سے اپنا غصہ نکالنے کے لیے تعلیمی اداروں میں گھس کر اس کے اساتذہ اور طلبہ کو گولیوں سے بھون ڈالے۔
پاکستان میں اسلحہ برداری اور کلاشنکوف کے ذریعہ مسائل کا حل نکالنے کی یہ افسوس ناک مہم ربع صدی سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ کراچی میں لسانی بنیادوں پر، بلوچستان میں نسل و قومیت کے عنوان سے، ملک بھر کے مذہبی ماحول میں سنی شیعہ کشمکش کے نام پر، اور کے پی کے اور اس کے ملحقہ علاقوں میں نفاذ شریعت کے نعرہ کے ساتھ آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے عنوانات الگ الگ ہیں۔ مگر ایجنڈا ایک ہے اور ’’ماسٹر مائنڈ‘‘ بھی ایک ہی ہے جس کا مقصد پاکستان کو خلفشار اور بد اَمنی سے دو چار کر کے خطہ میں اپنی موجودگی اور تسلط کا جواز باقی رکھنا ہے۔ مگر بد قسمتی سے اس سارے کام کیلئے ایندھن یہیں سے مہیا ہو رہا ہے۔ اور پاکستان کی سا لمیت و وحدت پر کی جانے والی اس خوفناک فائرنگ میں کندھا ہمارا ہی استعمال ہو رہا ہے۔
قارئین کو اگر یاد ہو تو ہم نے افغانستان سے روس کی واپسی کے بعد متعدد ذرائع سے یہ چیخ و پکار کی تھی کہ جن ہزاروں نوجوانوں نے جہاد افغانستان میں شرکت کر کے جدید ترین اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کر رکھی ہے ان کے مستقبل کا ایجنڈا انہیں اعتماد میں لے کر قومی و دینی راہ نماؤں کو طے کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر انہیں اپنا ایجنڈا خود طے کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا تو اس کے تلخ نتائج سب کو بھگتنا پڑیں گے۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے ہمارے سامنے اس وقت بھی تھا، اور ہم نے اپنے کالموں کے ساتھ ساتھ بہت سے سربر آوردہ دینی و سیاسی راہ نماؤں کو ذاتی ملاقاتوں میں بھی توجہ دلائی تھی۔ مگر غریب شخص کی کون سنتا ہے؟
آج ہم جس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اس سے نکلنے کے لیے قومی سیاسی کانفرنس کا انعقاد اور مشترکہ پلان طے کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ اور بعد از خرابئ بسیار ہونے کے باوجود امید کا پہلو اس میں بہرحال موجود ہے۔ اس لیے ہم شہداء کے خاندانوں کے رنج و غم بلکہ پوری قوم کے اس مشترکہ صدمہ میں برابر کے شریک ہیں۔ اور قومی کانفرنس کے فیصلوں اور عزائم میں مثبت پیش رفت کے لیے دعاگو ہیں۔ اللہ تعالیٰ ملک و قوم کو اس خوفناک اور المناک بحران سے نجات دلائیں، آمین یا رب العالمین۔
اس حوالہ سے ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے کہ میڈیا کے بعض اہل کاروں اور کچھ مسلکی طور پر متعصب راہ نماؤں نے اس سارے سلسلہ کا تعلق دیوبندیت کے ساتھ جوڑنے کیلئے مخصوص پلاننگ کے ساتھ مہم شروع کر رکھی ہے اور اپنی تمام تر حب الوطنی، امن دوستی اور قربانیوں کے باوجود بعض دیوبندی دانش ور بھی دفاعی پوزیشن پر کھڑے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ہمارے خیال میں یہ بھی ہے کہ ہم نے چند سال قبل جامعہ اشرفیہ لاہور میں تمام دیوبندی جماعتوں، مراکز اور حلقوں کو مجتمع کر کے ایک متفقہ موقف طے کیا تھا، مگر اس کے بعد اسے ’’داخل دفتر‘‘ کر کے پھر سے اپنا الگ الگ راگ الاپنا شروع کردیا تھا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقف کی فائلوں کی گرد جھاڑ کر اسے ایک بار پھر ہر سطح پر قوم کے سامنے لایا جائے اور واضح کیا جائے کہ ہم نے اپنا متفقہ موقف اتنے سال قبل واضح کر دیا تھا، اس میں کوئی ابہام نہیں ہے، اور ہم آج بھی قومی وحدت، ملکی سا لمیت و خود مختاری، نفاذ شریعت اور دہشت گردی کے حوالہ سے قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آخر ہمیں اس موقف کے اظہار میں ’’حجاب‘‘ کیوں محسوس ہو رہا ہے؟