عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور مقامی نظام

حافظ محمد زبیر

حافظ محمد زبیر / ندیم غفور چوہدری


اس وقت عالم اسلام ہو یا غیر مسلم ممالک، ایشیا ہو یورپ ہو یا افریقہ، اگرچہ نچلی سطح پر لوگوں کے عقائد اور عبادات میں تو فرق موجود ہے لیکن اوپر کی سطح پر سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام کے طور پر ساری دنیا اس وقت ایک ہی نظام کی چھتری کے نیچے کھڑی ہے۔ سیاسی سطح پر ڈیموکریسی، معاشی میدان میں سرمایہ داری (capitalism) اور معاشرت میں مغربی کلچر نے جس تیزی سے دنیا میں رواج اور غلبہ حاصل کیا ہے اس سے اجتماعیت کے میدان میں ساری دنیا ایک ہی عالمی مذہب کی حامل نظر آتی ہے۔ البتہ فرد کی سطح پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ عقائد اور عبادات میں کوئی عالمیت (globalism) نہ ہونے کی وجہ سے ہندو، مسلم، مشرقی اور مغربی معاشروں میں فرق نظر آتا ہے لیکن معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر اب ہندو مسلم یا مشرقی مغربی معاشروں کا فرق بہت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ نہ ہندومت میں کوئی سیاسی نظام ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے پاس ڈیموکریسی کا کوئی متبادل موجود ہے۔ سرحد کے اس پار اور اس پار عقائد اور عبادات کا فرق تو نمایاں ہے لیکن سیاسی اور معاشی نظام ایک ہی رائج ہے۔مشرق ومغرب میں سیاسی میدان میں ڈیموکریسی اور معاشی میدان میں سرمایہ دارانہ نظام کو ایک الہامی مذہب کے طور قبول کر لیا گیا ہے۔ جن نظاموں کی جگہ ڈیموکریسی، سرمایہ دارانہ نظام یا مغربی کلچر نے لی، انہیں ہم مقامی نظاموں کا نام دے رہے ہیں، چاہے وہ مشرق وسطی کے ہوں یا جنوبی ایشیا کے، افریقہ کے ہوں یا مشرق بعید کے۔

جس معاشی نظام نے ساری دنیا کے مقامی معاشی نظاموں کو ختم کر کے ایک گلوبل نظام قائم کر لیا ہے، وہ سرمایہ دارانہ نظام کہلاتا ہے۔ مقامی معاشی نظام وہ نظام تھے جو مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے فطری طور وجود میں آئے تھے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام وہ ہے جو مقامی نظاموں کو ختم کرکے سرمایہ دار کے مفادات کے تحفظ اور اس کے سرمایے میں لامتناہی قسم کے اضافے کے لیے دھکے سے وجود میں لایا گیا۔ ذیل میں ہم اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور مقامی نظاموں کا ایک تقابلی جائزہ پیش کر رہے ہیں تا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی پہلووں پر روشنی ڈالی جا سکے۔

وال مارٹ ایک ایسا سپر سٹور ہے کہ جس کی تقریبا ۰۰۳۴ شاخیں امریکہ اور ۸ہزار سے زائد ساری دنیا میں ہیں۔والٹن فیملی جو کہ اس سپر سٹور (retailer)کی مالک ہے وہ امریکہ کی چالیس فی صد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت کی حامل ہے۔امریکہ میں وال مارٹ کے معاشی اثرات پر کافی تحقیقی کام ہوا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق شکاگو میں ۶۰۰۲ء میں وال مارٹ کی ایک شاخ کھلنے سیاگلے دو سالوں میں ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے ۸۸ بزنس ختم ہو گئے کیونکہ آٹھ سے دس کلومیٹر کے نصف قطر(radius) میں لوگوں کا رجوع چھوٹے سپر سٹورز کی بجائے اس بڑے سپر سٹور کی طرف بہت بڑھ گیا تھا کہ جس کے بارے ان کا گمان یہ تھا کہ وہاں سے انہیں چیزیں سستی اور ایک ہی جگہ اکھٹی مل جاتی ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے سب کچھ بکتا ہے، کا دعویٰ تو شاید درست ہو اور اس میں سہولت اور آسانی کے پہلو کے پیش نظر لوگوں کا رخ ایسے مقامات کی طرح زیادہ ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن دوسری بات کہ وال مارٹ سے چیز سستی مل جاتی ہے، ایک محدود مدت تک کے لیے ہی درست ہو سکتا ہے۔ کیونکہ انتہائی بھاری سرمایہ کاری (investment) کے ساتھ شروع کیے جانے والے کاروبار کی وجہ سے جب ارد گرد کے چھوٹے چھوٹے کاروبار خود ہی بند ہو جائیں گے تو اب لوگوں کے لیے کوئی زیادہ آپشن باقی نہ رہے گا۔ اورمارکیٹ میں مقابلہ (competition) نہ ہونے کی وجہ سے دو چار سپر سٹورز کو یہ اجازت ہو گی کہ ملی بھگت سے جو چاہیں، اشیاء کی قیمت مقرر کر لیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے ثمرات میں سے یہ بھی ہے کہ افراد کا ہنر اور معاش دونوں ختم ہو تے جا رہے ہیں۔ کتنے ہی ہنر یا پیشے ایسے ہیں جو ہمارے ہاں قصہ ماضی بن چکے ہیں۔کبھی وہ زمانہ تھا کہ ہر محلے میں ایک عدد موچی ہوتا تھاجس کا کام لوگوں کے جوتے بنانا ، گاٹھنا اور سینا ہوتا تھا۔ یہ اپنے کام میں اس قدر ماہر ہوتا تھا کہ ایسا جوتا بناتا جو دس سال بڑے سکون سے گزار جاتا تھا۔ راقم (حافظ محمد زبیر) نے اپنے والد صاحب کو اپنا جوتا پندرہ سال تک پہنتے دیکھا کہ جسے نیا کرنے کے لیے صرف اس پر سوکھا کپڑا پھیرنے کی دیر ہوتی تھی۔ پھر جب سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ ہوا تو شہروں سے یہ ہنرمند افراد رخصت ہو تے چلے گئے اور اب دیہی علاقوں میں بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ جوتوں کی ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں وجود میں آئیں تو موچی کا پیشہ ، ہنر اور معاش سب ختم ہوتا چلا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کمپنیوں نے کافی لوگوں کو روزگار فراہم کیا لیکن جتنوں کو ملازمت دی، اس سے کئی گنا زیادہ افراد ان کی وجہ سے معاش سے محروم ہو گئے۔

اب یہ بھی ایک امر واقعہ تھا کہ ملکی اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جوتوں کی پیداوار لوگوں کی ضرورت سے زائد تھی۔ اب اس کا ایک حل تو یہ تھا کہ وہ جوتوں کی پیداوار (production)کم کر لیتے، لیکن انہوں نے اس کے برعکس اس کا ایک عجیب حل نکالا کہ جوتوں کی پیداوار کم کرنے کی بجائے لوگوں میں یہ خواہش پیدا کرنے یا بڑھانے کی مہم چلائی کہ وہ ہر سال نیا جوتا خریدیں، چاہے ان کا پہلا جوتا موجود بھی ہو۔ خواہش پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے میڈیا کی اشتہار بازی ( media advertisement) سے کام لیا گیا۔ اب جوتا ضرورت نہ رہا بلکہ فیشن بن گیا۔پائیداری سے زیادہ اسٹائل اور برانڈ(brand) اہم ہو گئے اور کمپنیاں اپنے جوتوں کے منہ مانگے دام وصول کرنے لگیں۔لاکھوں افراد نہ صرف بے روزگار ہو گئے بلکہ اپنے باپ دادا کے ہنر سے بھی گئے۔

یہ معاملہ صرف ہمارے موچی کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ ہر قیمتی ہنر مند شخص اس المیے سے دوچار ہوچکا ہے یا ہونے جا رہا ہے۔ مثلا گوالا ہمارے کلچر کا ایک نمایاں فرد ہے جو آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ وہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو گوالے سے اس کا دودھ اس کے گھر پر خرید کر اسے ڈبے میں بند کر کے گوالے سے مہنگا فروخت کرتی ہیں۔ اب اس میں بھی بحث ہے کہ وہ کیا کچھ اس میں ملا کر فروخت کرتی ہیں لیکن ہم اس میں نہیں جا رہے البتہ یہ تو ذاتی تجربہ ہے کہ گوالے کا ستر روپے لٹر والا دودھ اور نیسلے کے ایک سو دس روپے لٹر والے دودھ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ گوالے کے بارے تو یہ بہت معروف ہو چکا کہ وہ دودھ میں پانی ملاتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملاتے ہیں لیکن ان کی اکثریت نے دودھ کی کئی قسمیں بنا رکھی ہیں اور ہر ایک کا ریٹ علیحدہ ہے۔ وہ اپنے گاہک پر یہ واضح کرتے ہیں کہ یہ پچاس روپے والا دودھ ہے اور یہ ساٹھ اور یہ ستر والا ہے۔ اس کے برعکس ڈبہ پیک دودھ پی کر کسی خارجی گواہی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اس میں کتنے فی صد خالص دودھ ہے لیکن اس کے باوجود لوگ خریدتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو ان کمپنیوں کی اشتہار بازی ہے اوردوسرا اس دودھ کے حصول میں آسانی اور سہولت کا پہلو ہے۔

اسی طرح قصاب کو دیکھ لیں۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم ہنر ہے کہ جس کے خاتمے کا آغاز ان کمپنیوں کے قیام سے شروع ہو گیا ہے جو مارکیٹ میں موجود ہیں اور نہ صرف آپ کو ہر قسم کا چھوٹا بڑا صاف گوشت فراہم کرتی ہیں بلکہ عید الاضحی کے موقع پر آپ کے قربانی کے جانور کو خود ہی سے ذبح کر کے آپ کے گھر میں صاف گوشت بھی پہنچا دیتی ہیں۔ کہاں قربانی کا جانور خریدنا، اسے گھر میں دو چار دن رکھنا، اس جانور سے مانوسیت کا پیدا ہونا، اسے اپنے ہاتھ سیذبح کرنا یا اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھنا، چھوٹے بچوں کا ذبح کے وقت موجود ہونا اور اپنے والدین سے اس بارے سوال کرنا وغیرہ اور کہاں یہ کلچر کہ عام دنوں میں آپ بازار سے ایک شاپر گوشت کا لاتے تھے اور عید الاضحی کے موقع پر کمپنی والے دس شاپر آپ کے گھر پہنچا دیتے ہیں۔

کبھی ہمارے ہاں پکوتے ہوتے تھے جو شادی بیاہ کے موقع پر کھانا پکاتے تھے، لیکن آج یہ لوگ ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ اعلیٰ ہوٹلوں میں کام کرنے والے باورچی پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے لوگ شادی بیاہ کے موقع پر گھر میں کھانے پکانے اور کھلانے کا انتظام کر لیتے تھے۔ محلے کے بچے کھانا لگانے اور کھلانے کے انتظام وانصرام میں شریک ہو جایا کرتے تھے۔ پھر میرج ہالز کا رواج آ گیاکہ جس میں سہولت کا پہلو تھا لہٰذا مڈل اور ہائر کلاس کے لوگوں نے اسے ترجیح دی لیکن لوئر کلاس میں اس قدر خرچے کی استطاعت نہ تھی تو ان کے مسائل اور بڑھ گئے۔ پھر کچھ لوگوں نے اس میں کسی قدر تخلیقی کام کیا کہ مسجد میں نکاح کو رواج دیاکہ جس سے بارات اور اس کے کھانے کے اضافی خرچوں سے جان چھوٹ گئی۔اسی طرح درزی ہی کے پیشے کو لے لیں۔ پینٹ شرٹ، تھری پیس سوٹ اور ریڈی میڈ کپڑوں کے رواج کے علاوہ لوگوں کا کپڑوں کی سلائی میں برانڈ کو مقصود بنا لینے( brand conscious) نے بھی عام درزی کے پیشے کو بہت متاثر کیا ہے۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں محلے گلیوں سے درزی تقریبا ختم ہو جائیں اور لوگ مشینوں پر تیار شدہ صرف ریڈی میڈ کپڑے ہی استعمال کریں۔ کبھی ہم اپنی والدہ کو اپنے لیے اونی سویٹر بنتے دیکھتے تھے لیکن اب اگلی نسل میں کتنے بچے اپنی والدہ کو یہ کام کرتے دیکھیں گے؟ کبھی لوگ اس بات پر حیران ہوتے تھے کہ اچھا کیا یہ پانی بھی بکا کرے گا اور آج لوگ منرل واٹر کے علاوہ پانی پینے کو صحت کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ آج ہمیں یہ عجیب محسوس ہوتا ہے کہ چین میں تازہ ہوا (fresh air ) ڈبوں میں بکتی ہے، لیکن کل ہمارے معاشرے بھی میڈیا کی اشتہاری مہم سے اس کے قائل ہو جائیں گے کہ شہر کی آلودہ فضا میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی تیارہ کردہ ڈبہ پیک تازہ ہوا ان کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی کا دارومدار تین چیزوں پر ہے : انسان میں دبی ہوئی جبلتوں اور خواہشات کو بھڑکانا، سہولت اور خالص ہونے کا پہلو اور قانون کا جبر اور احترام۔اسلام نے انسان کے تزکیہ نفس کے عمل میں جن جبلتوں کے دبانے یا انہیں کنٹرول کرنے کا حکم دیا تا کہ شخصیت میں توازن اور اعتدال پیدا ہو، سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دار انہی جبلتوں کو بھڑکا کر انسانی شخصیت میں ایک عدم توازن پیدا کرتا ہے تا کہ اپنے سرمایے کو زیادہ سے زیادہ بڑھا سکے۔مثلاً انسان میں ایک فطری کمزوری کہ جس کی طرف قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ وہ جلد باز واقع ہوا ہے یعنی عجلت پسند ہے۔ تزکیہ نفس کا تصور یہ ہے کہ انسان اپنی اس فطری کمزوری کو دبائے اور اسے کنٹرول میں رکھے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کا تصور یہ ہے کہ انسان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی جیب سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ نکال کر اپنے بینک بیلنس میں منتقل کیاجائے۔ جدید دور کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں مارکیٹنگ کے موضوع نے عجلت کی کمزوری کو اسی طرح بھڑکا دیا ہے کہ جیسے سلگتا ہوا کوئلہ پٹرول کے چھڑکنے سے بھڑک اٹھتاہے۔ نیا موبائل، نیا آئی فون، نیا ٹیبلٹ نیا لیپ ٹاپ، نئی گاڑی اورنیا گھران میں سے کیا کچھ انسان کی ضرورت میں داخل ہے؟ لیکن اس کے باوجود انسانوں کی اکثریت ٹیلی ویڑن ایڈز، اخباری اشتہارات اور شاہراہوں پر لگے بل بورڈز سے متاثر ہو کر وہ سب کچھ خرید لینے میں عجلت سے کام لیتے ہیں کہ جو نہ تو ان کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ان میں اس کی خرید کی استطاعت (purchasing power )ہوتی ہے۔ جن کے پاس قوت خرید ہوتی ہے لیکن ان کی ضرورت نہیں ہوتی تو ان کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی اس چیز سے اکتا جاتے ہیں اور نئے ماڈل کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور جن کی قوت خرید نہیں ہوتی وہ مہینے کے شروع میں خرید تو لیتے ہیں لیکن مہینے کے آخر میں قرض ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کا دوسرا پہلو اس میں سہولت اور خالص ہونے کا پہلو ہے۔ جہاں تک سہولت کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان سہولت پسند واقع ہوا ہے اور سرمایہ دار ایک ایسا نظام قائم کرتاہے کہ جس سے انسان کے لیے اپنی ضروریات یا خواہشات کی تکمیل میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلا روزانہ گوالے سے دودھ لینا یا کسی سپر سٹور سے مہینے بھر کا نیسلے کا دودھ پکڑ لینے میں فرق یہ ہے کہ دوسری صورت میں سہولت کا عنصر بہتر طور شامل ہے۔ گوالے سے دودھ لینے کے لیے دروازے تک جانا ہو گا اور یہ جانا گوالے کے وقت کے مطابق ہو گا نہ کہ ہمارے اپنے وقت کی سہولت اس میں مدنظر ہو گی۔ پھر گوالے کے لیے روزانہ برتن دھو کر رکھنا ہو گا۔ علاوہ ازیں اس کے دودھ کوروزانہ ابالنا بھی پڑے گا وغیر ذلک۔انسان چونکہ طبعاً سہولت پسند واقع ہوا ہے لہٰذا وہ اس چیز کو ترجیح دیتا ہے کہ جس کے حصول میں اسے سہولت ہو، چاہے اسے اس کے لیے معیار سے کچھ نیچے بھی آنا پڑ جائے۔ خود گھر میں قربانی کرنے اور زینتھ (zenith)سے قربانی کروانے میں بھی یہی فرق ہے کہ زینتھ والے شاپروں میں ڈال کر صاف گوشت آپ کے گھر پہنچا دیتے ہیں جبکہ خود قربانی کرنے کی صورت میں پہلے تو ایک دو دن جانور گھر رکھنے کی ٹینشن لینی ہو گی۔ پھر اس جانور کو ذبح کرنے کے لیے قصائی تلاش کرنا ہو گا۔ پھر اس جانور کے ذبح کرنے سے گھر میں جو گند وغیرہ پڑے گا، اس کی صفائی کا معاملہ ہے، وغیر ذالک۔ تو سرمایہ دارانہ نظام میں سہولت کا پہلو تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ 

جہاں تک اس کے دوسرے پہلو کا تعلق ہے کہ چیز آپ کو خالص ملتی ہے تو اس میں بحث کی گنجائش ہے۔ اس کے خالص ہونے کی بنیاد صرف یہی ہے کہ لوگوں کا اس کے خالص ہونے پر اعتماد قائم ہوگیا ہے ورنہ تو کتنے لوگ نیسلے کی پانی یا کوک کی بوتل کے غلاف (wrapper) پر لکھے گئے اجزاء (ingredients)کی تصدیق کے لیے لیبارٹری کی طرف رجوع کرتے ہیں؟ کہ اس میں واقعتا یہ اجزاء شامل ہیں بھی یا نہیں۔ اور لوگوں کیاس اعتماد کی بنیاد ان کمپنیوں کی میڈیا اشتہار بازی ہے۔ اورسرمایہ دارانہ نظام اس اعتبار سے بھی کامیاب ہے کہ اس نے لوگوں کا اعتماد(trust) حاصل کر لیا اور مقامی نظام کے خاتمے کی وجہ بھی یہ ہے کہ لوگوں کا باہمی اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور اس اعتماد کے ختم ہونے کی ایک وجہ تو میڈیا بھی ہی ہے۔ مثلاً کسی مقامی فوڈ ریسٹورنٹ کے بارے یہ خبر تو شاید کسی ٹیلی ویڑن چینل پر نشر کر دی جائے کہ وہ اپنے ریسٹورنٹ میں غیر معیاری کھانا فراہم کرتے ہیں لیکن کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے بارے ایسی خبر کا جاری ہونا بہت مشکل ہے۔ گوالے سے لوگوں کا دودھ نہ لینے کی وجہ اس پر عدم اعتماد ہے اور اس عدم اعتماد کی اگرچہ کچھ ٹھوس بنیادیں ہیں کہ وہ دودھ میں پانی ملاتے ہیں لیکن اس عدم اعتماد کو بڑھانے میں سرمایہ دارکا بھی اہم کردار ہے۔ اور سرمایہ دار کی مصنوعات(products) پر اعتماد کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کی مصنوعات کے اشتہارات ٹیلی ویڑن پر چلتے ہیں۔ آج اگر ہماریہاں صرف ایک پی ایچ ڈی اس موضوع پر ہو جائے کہ گوالے کے دودھ اور نیسلے کے دودھ میں باعتبار دودھ کے معیاری کون سا ہے؟ تو شاید اس کے نتائج کو شائع کرنا مشکل ہو جائے گا۔

تیسرا پہلو قانون کا جبر اور اس کااحترام ہے۔ قانون کے جبر یاصحیح معنوں میں نفاذ کا معاملہ صرف مغربی ممالک تک محدود ہے۔ ہمارے لوگوں کا تصور یہ ہے کہ اہل مغرب اپنی اخلاقیات میں اہل مشرق سے بہتر ہیں سوائے بے حیائی کے، حالانکہ یہ تصور سراسر غلط مشاہدے اور تجزیے پر مبنی ہے۔ اول تو اخلاقیات دو قسم کی ہیں: فطری اور دینی۔ فطری اخلاقیات کا مادہ اور جوہر حیاء ہے اور جس میں حیاء نہیں ہے، اس سے کسی قسم کے بھی اخلاق کی توقع نہیں کی جا سکتی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب حیاء نہ رہے تو پھر جو چاہے مرضی کرتا پھرے۔ یہ منطقی بات ہے کہ حیاء کے خاتمے سے بقیہ اخلاق بھی رخصت ہو جاتے ہیں۔ البتہ ظاہر میں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ مغرب میں ایک چیز مشرق کی نسبت خالص ملتی ہے، اس میں ملاوٹ نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔ تو اس بہتری کی وجہ خارجی ہے یعنی قانون کا جبر ہے نہ کہ داخلی یعنی خیر خواہی۔ امریکہ میں یا کسی اور یورپی ملک میں چند گھنٹوں کے لیے بجلی کے منقطع ہونے یعنی بلیک آوٹ کی صورت میں جنم لینے والے فتنہ وفساد اور لوٹ مار کی کسی قریبی تاریخ کا مطالعہ کر لیں تو اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کے کتنے خیرخواہ ہیں؟ پھر اہل مغرب کا المیہ صرف بے حیائی نہیں ہے کہ وہ بے حیائی میں اہل مشرق سے آگے ہیں بلکہ جرائم (crimes)میں بھی وہ ہم سے آگے ہیں اور معاصر شماریاتی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ مغرب میں جرائم کی جو شرح یا نوعیت ہے، مشرق میں وہ بالکل بھی نہیں ہے۔ اگر اس پر یقین نہ آئے تو وہی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو یورپ میں ہیں تو ان کی یورپی مصنوعات کا افریقہ اور ایشیا کے لیے تیار کی جانے والی مصنوعات سے تقابل پر کوئی تحقیق کروا لیں تو حقیقت مبرہن ہو جائے گی۔ قانون کا جبر یا احترام سرمایہ دارانہ نظام کا یہ وہ پہلو ہے جو ابھی تک ہمارے غیر ترقی یافتہ معاشروں نے نہیں دیکھا ہیاوریہ ہم پر اللہ کا کوئی خاص فضل یا احسان ہے۔ مغرب میں ملاوٹ یا ناقص چیز فروخت کرنے پر جو سزا ہے یا اس بنیاد پر دعویٰ دائر کرنے (sue) کی جو روایت ہے یاناقص چیز واپس لے لینے کا جو اعتماد قائم ہے، اگر ہمارے معاشرے اس کو دیکھ لیں تو اندھے بہرے ہو کر اس نظام پر گر نہ پڑیں گے؟ 

نظام بینکاری کی مثال لے لیں، سرمایہ دارانہ نظام نے کیا کیاہے؟ اس نے مقامی نظام کو ختم کر کے روایتی بینکاری (conventional banking )کے نظام کو رائج کیا۔ مقامی نظام کیا تھا؟کم از کم مشرق کے مسلم معاشروں کے تناظر میں ہم اسے فقہ اسلامی کی دو معروف اصطلاحات مضاربہ اور مشارکہ سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جب تک نظام بینکاری نہیں تھا، لوگ باہمی اعتماد کی بنیاد پر مل جل کر چھوٹا موٹا کاروبار کر لیتے تھے۔ ایک کا کاروبار ہے، دوسرے نیاس میں اپنی رقم لگا لی اور منافع کسی نسبت سے تقسیم ہونے لگا۔ایک کے پاس رقم ہے ، دوسرے کے پاس ہنر تو دونوں نے باہمی رضامندی سے ایک کاروبار شروع کر لیا وغیرہ۔ یہ نظام چھوٹے پیمانے پر رشتہ داروں، گلی محلوں، گاوں اورحلقہ احباب وغیرہ کی سطح پر قائم تھا اور بہت مفید تھا۔ اس سے سرمایہ نچلی سطح میں ایسے ہی گردش کر رہا تھا جیسا کہ مقامی حکومت (local government ) کی صورت میں اختیارات کسی حد تک نچلی سطح تک منتقل ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ لوگوں میں باہمی اعتماد کا رشتہ ختم ہوتا چلا گیا۔ کچھ تو اس باہمی بے اعتمادی کی ٹھوس بنیاد تھی کہ معاشرے مجموعی طور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہوتے چلے گئے تھے لیکن اس اخلاقی بگاڑ یا کمزوری کی وجہ بھی در اصل سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ حرص اور لالچ تھی۔ اوردوسرا یہ کہ اس بے اعتمادی کے بیان میں بھی کچھ مبالغہ ہوا ہے۔ جہاں تک لوگوں کے باہمی اعتماد میں کمی کا معاملہ ہے تو اس میں سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے یہ اعتماد فرد سے ادارے کی طرف منتقل کر دیا ہے یعنی اب اعتماد ادارہ جاتی (institutionalize)ہو گیا ہے۔ 

یہ تو ایک بات ہوئی جو شاید اتنی منفی نہ تھی لیکن دوسری بات جس سے اصل بگاڑ نے جنم لیا ہے ، یہ ہوئی کہ صرف انہی اداروں کوعوام میں اعتماد حاصل ہوا جو سرمایہ دارانہ نظام کے مقاصدکسی بھی درجے میں پورے کر رہے تھے۔ اعتماد کا کلیتاً کسی معاشرے سے اٹھ جانا تو ناممکن امر ہے۔ باہمی کاروبار کی بنیاد ہی اعتماد ہے لہٰذا اس کا ختم ہونا کیسے ممکن ہے؟ اگر اعتماد ختم ہو جائے تو کاروبار زندگی ہی ختم ہو جائے۔ یہ اعتماد اصل میں منتقل ہوا ہے، فرد سے ان اداروں کی طرف جنہیں سرمایہ دارانہ نظام اعتماد دینا چاہتا ہے۔ لوگ آج بھی اعتماد کرتے ہیں، بلکہ اندھا اعتماد کرتے ہیں لیکن اپنوں پر نہیں بلکہ اداروں پر۔ ایک حکیم کی حکمت پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہے، چاہے وہ اپنے فن یا میدان میں کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو لیکن ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر پر اعتماد ہے، چاہے وہ کتنا ہی نااہل کیوں نہ ہو کیونکہ اس ڈاکٹر پر اعتماد در اصل ایک فرد پر اعتماد نہیں بلکہ اس ادارے پر اعتماد ہوتا ہے جس نے اس فرد کو سند عطا کی ہے۔ حکیموں نے بھی اپنے ادارے بنا لیے لیکن ان کے اداروں کو اعتماد حاصل نہ ہو سکا حالانکہ ہزاروں سال تک صحت کا شعبہ انہی لوگوں کے پاس تھا اور کروڑوں افراد انہی کی ادویہ اور طریقہ علاج سے صحت حاصل کرتے چلے آئے تھے۔ ایشیا ہو یا یورپ، بادشاہوں کا علاج بھی یہی حکیم کیا کرتے تھے اور اتنا عظیم تاریخی ادارہ کس قدر تھوڑے وقت میں اپنا اعتماد کھو بیٹھا ہے۔ ایک یونیورسٹی کی سند کو جو اعتماد حاصل ہے، وہ مدرسے کی سند کو حاصل نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کہ یونیورسٹی اس نظام کا حصہ ہے جسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ آج پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کے پروفیسرز سے سروے کروا لیں کہ کیا یونیورسٹی تعلیم ایک بزنس ہے اور طالب علم ایک کسٹمر ہے ؟ تو جواب شایدہ وہی ہو جو ہمارے اپنے دل کی آواز ہے۔اس بحث میں ہماری خواہش یہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر کو اعتماد حاصل نہ ہو بلکہ جذبہ یہ ہے کہ حکیم کا بھی اعتماد بحال ہو۔ اسی طرح مقصود یہ ہے کہ ڈاکٹر ہو یا حکیم دونوں کا اعتماد سرمایے یا پیسے کی بنیاد پر قائم نہ ہو بلکہ صاحب فن کی صلاحیت وقابلیت، عوام کے لیے خیر خواہی اورافادیت اور اعلی اخلاقی قدروں کی بنیاد پر قائم ہو۔ ڈاکٹر پر اعتماد میں اگر سرمایہ دارانہ نظام ملوث نہ ہوتا تو آج سوسائٹی میں یہ سوال اتنی شدت سے کیوں جنم لیتا کہ ہر دوسری حاملہ عورت یہ سوچتی ہے کہ اس کی ڈیلوری کا کیس محض سرمایے کے حصول کے لیے سی سیکشن میں لے جایا جائے گا۔ تو آج ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار نے عوام کا اعتماد حاصل کرلیا ہے جبکہ عوام نے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی اعتماد کھو دیا ہے۔ 

ہمیں یہ بھی دعویٰ نہیں ہے کہ جن اداروں کو سرمایہ دارانہ نظام نے اعتماد دیا ہے، وہ سارے نااہل ادارے ہیں۔ ہمیں تو اعتماد دینے اور حاصل کرنے کے اس سارے نظام سے اختلاف ہے کہ جس کی بنیاد نہ تو فرد کی خیرخواہی ہے اور نہ ہی اہلیت وقابلیت اور نہ ہی کوئی اعلی اخلاقی قدر۔ اس کی بنیاد صرف ایک ہے اور وہ سرمایہ یعنی پیسہ ہے۔ ہر شعبہ میں سرمایہ دار کی اجارہ داری (monopoly) قائم ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے اعتماد دیتا ہے اور جس سیچاہتا چھین لیتا ہے اور عوام اس معاملے میں گویا کہ ان کی ذہنی غلام ہے۔ علم کے علاوہ تحقیق جیسے مقدس فن پر ہی نظر دوڑا لیں۔ راقم (حافظ محمد زبیر) ایک کتاب ‘‘تحقیق کا المیہ’’ کے نام سے مرتب کر رہا ہے جس میں عالمی سطح پر تحقیق کی قبولیت اور اشاعت (Recognition and publication )میں سرمایہ داروں کی کیسی اجارہ داری قائم ہے،اس کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے گا۔

روایتی بینک لوگوں کو وہ منافع نہیں دیتے جو مقامی سطح پر مضاربہ یا مشارکہ کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو تھوڑا بہت روایتی مضاربہ یا مشارکہ اعتماد اور امانت داری کے دو اصولوں پر ہو رہا ہے ، وہاں ایک شخص کو ایک لاکھ کے پیچھے تین سے چار ہزار تک فائدہ ہو جاتا ہے جبکہ بینک اتنا فائدہ کبھی بھی نہیں دیتا۔روایتی بینکاری کا متبادل ہر گز اسلامی بینکاری نہیں ہے بلکہ مقامی سطح کا مضاربہ اور مشارکہ ہے کہ لوگ مقامی سطح پر اپنا باہمی اعتماد بحال کریں اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچائیں۔ اسلامی بینکاری ہو یا غیر سودی بینکاری، یہ بھی عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی چھتری کے نیچے داخل ہے۔ اور اب تواسلامی بینکاری ایک مذاق بنتا جا رہا ہے۔ پہلے تو کچھ ایسے بینک تھے جو صرف اسلامی بینکاری ہی کر رہے تھے لیکن اس کے بعد کچھ روایتی بینکوں نے بھی اسلامی بینک کھول لیے۔ اور تو اور جن روایتی بینکوں نے علیحدہ اسلامی شاخیں نہ کھولیں، انہوں نے کم ازکم اسلامی بینکاری کے لیے ونڈوز(windows) کھول لیں۔ اب اس سب سرگرمی (activity)میں سرمایہ کی اپنے اکاونٹ میں کھینچ تان کی دوڑ میں شامل ہونے کے علاوہ کچھ اور مقصد نظر آتا ہے؟ اور اب شنید یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے آڈر کے تحت یہ سب روایتی بینک چند ایک سالوں میں اسی طرح اسلامی بننے والے ہیں جیسا کہ پوری سلطنت روما ایک وقت میں عیسائی بن گئی تھی۔ٹھیک ہے، اپنے مقاصد (objectives)کہ غیر سودی تجارت کو فروغ دیا جائے، کے اعتبار سے اسلامی بینکاری قابل قدر کام تھا لیکن اس کے معمولات (practices) پرسنجیدہ سوالات آج بھی قائم ہیں؟ اوراس کاماضی، حال اور مستقبل معاشرے کے پس ماندہ طبقات کے معاشی مسائل یا غربت کا حل نہ رہا ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کے مقاصد میں پس ماندہ طبقے کے ساتھ خیر خواہی کا جذبہ شامل ہے، چاہے وہ ان کی مادی یا دنیاوی خیر خواہی ہی کیوں نہ ہو، سوائے اس کے کہ مڈل کلاس کے چند ایک لوگوں کی کچھ خواہشات پوری ہو جائیں اور اس کے بدلے معتد بہ سرمایہ (capital)، سرمایہ کار (capitalist)کے اکاونٹ میں منتقل ہو جائے۔ 

یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جو لوگ اپنے نظام سے تنگ آ چکے ہیں،مغربی ماہرین معاشیات کی ایک جماعت جو کمیونزم کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کا متبادل چاہتی ہے اور اس کی تلاش میں ہے، وہ اسلامی ماڈل کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ بات دل سے سمجھتے ہیں کہ جس سے اہل مغرب بھاگنا چاہ رہے ہیں یعنی سرمایہ دارانہ نظام، مشرق اسی پر سبز چادر ڈال کر اس کا ایک اسلامی ورڑن پیش کررہا ہے۔ ہم فطرت کے بھگوڑے ہیں۔ چلیں فطری اور مقامی نظام سے بھاگے تھے تو کوئی تخلیق (creativity)ہی دنیا کے سامنے لے آتے۔ کیا روایتی بینکاری کا ایک ادنی طالب علم بھی اسلامی بینکاری کے مروجہ نظام کو ایک تخلیقی ماڈل کہنے کی جرات کرسکتا ہے؟ مسئلے کاحل فطرت کی طرف واپسی ہے یاپھر تخلیق ہے۔ اسی طرح ہم اپنے معاشروں کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں اور دنیا کو بھی اپنی طرف اس معنی میں متوجہ کر سکتے ہیں کہ اسلام کے پاس جملہ مسائل کا حل موجود ہے۔ مقامی نظام کی طرف واپسی کا رستہ تو یہ ہے کہ افراد میں باہمی اعتماد کی فضا کو واپس لایا جائے اور تخلیق کے لیے بڑے ذہن کی ضرورت ہے اور بڑا ذہن کسی معاشرے کے نمائندہ اہل علم کے عاجزی اور انکساری کے احوال میں رہنے سے پیدا ہوتا ہے۔

یہ چند ایک معروضات ہیں جو معاصر نظام کے بارے ایک تجزیہ پر مبنی ہیں۔ اس مضمون میں مصنفین کا ہر گز یہ اصرار نہیں ہے کہ ان کا تجزیہ یا تبصرہ ہی صد فی صد حق ہے۔یہ بات اس لیے کر دی ہے کہ اگر کسی شخص کی طبیعت پر یہ مضمون گراں گزرے تو اسے یہ سوچ کر اپنے لیے اطمینان کا سامان پیدا کر لینا چاہیے کہ اس کے برعکس مضامین اور افکار بھی نہ صرف موجود ہیں بلکہ شائع ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنے مزاج، پس منظر، علمی معیار، مشاہدے اور تجزیہ کی صلاحیت کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے لہٰذا ان کے فکری وتحقیقی نتائج میں فرق ہوتا ہے اور یہ فرق ہی بعض اوقات کسی مسئلے میں حسن پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ اس حقیقت کو اب قبول کر لینا چاہیے۔ اس سے ایک تو غیر ضروری تنقید معاشرے سے ختم ہو جائے گی اور دوسرا ہم ایک دوسرے کے بارے غم وغصہ کے جذبات اور کیفیات سے نکل کر گفتگو کرنے کے بھی اہل ہو سکیں گے۔ ہر شخص کی رائے، تجزیے اور مشاہدے میں صحت اور خطا کا امکان ہوتا ہے۔ مکالمہ اسی کا نام ہے کہ ایک مسئلے کو مختلف زاویوں، جہات اور مناہج سے دیکھنے اور اس پر بحث کرنے کی کوشش کی جائے تا کہ اس میں نکھار پیدا ہو اور معاشرہ کسی معتدل موقف کی طرف پیش قدمی کرے۔ اللہ تعالی نے ہمیں چند ایک کلمات کو جوڑ کر ایک بات کہنے کی توفیق دی، سو ہم نے کر دی۔

آراء و افکار

(جنوری ۲۰۱۵ء)

جنوری ۲۰۱۵ء

جلد ۲۶ ۔ شمارہ ۱

تلاش

Flag Counter