گذشتہ دو صدیوں میں امت مسلمہ کو فکر واعتقاد، تہذیب، سیاست ومعیشت اور تمدن ومعاشرت کی سطح پر جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ مغرب کا عالم انسانیت پر ہمہ جہتی غلبہ واستیلا ہے۔ ان دو صدیوں میں مسلمانوں کی بہترین فکری اور عملی کوششیں اسی مسئلے کے گرد گھومتی ہیں اور ان تمام تر مساعی کا نکتہ ارتکاز یہی ہے کہ اس صورت حال کے حوالے سے کیا زاویہ نظر متعین اور کس قسم کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔
دنیا پر مغرب کا غلبہ چونکہ مختلف ارتقائی ادوار سے گزرا ہے، اس لیے فطری طور پر اس کی نوعیت وماہیت کی تشخیص میں مختلف ادوار کے مسلمان مفکرین میں اختلاف بھی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ غلبہ ابتدا میں عسکری وسیاسی اور معاشی واقتصادی تسلط کا رنگ لیے ہوا تھا اور بیسویں صدی کے وسط تک مفکرین کا عمومی خیال یہی تھا کہ اس تسلط کے جلو میں جو فکری وتہذیب اثرات مسلم معاشروں پر مرتب ہو رہے ہیں، ان کی طاقت کا اصل منبع مغرب کا سیاسی غلبہ ہے او ریہ کہ مسلمان ریاستوں کی آزادی کے بعد اور خاص طور پر اسلامی ریاستوں کے قیام کے بعد مسلمانوں کے لیے خود اپنی تہذیبی اقدار پر مبنی معاشرے تشکیل دینا اور یوں ایک نظام حیات کے مقابلے میں ایک دوسرا نظام حیات اور ایک تہذیب کے مد مقابل ایک دوسری تہذیب کی تشکیل سے نظام عالم میں ایک توازن پیدا کرنا ممکن ہوگا۔ تاہم گزشتہ ساٹھ ستر سال کے تجربے اور سفر کے نتیجے میں اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ صورت حال اس سے مختلف ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی میں مغرب کے فکری واقداری غلبہ کا پہلو زیادہ مشخص اور نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے اور اب اس حقیقت کا ادراک کیا جا رہا ہے کہ دو مختلف تہذیبی پیرا ڈائمز کے دنیا میں متوازی طور پر موجود رہنے اور پرامن بقائے باہم کے اصول پر ایک دوسرے سے تعرض نہ کرنے کی بات کم سے کم موجودہ تناظر میں ایک غیر واقعی اور تخیلاتی بات ہے۔ اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ اس وقت ہم بنیادی طور پر مغرب کی بنائی ہوئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ سیاست ومعیشت، فکر وفلسفہ، معاشرتی اقدار اور بین الاقوامی قانون، ہر دائرے میں مغرب ہی کا سکہ رائج ہے اور دنیا کی قومیں مادی سطح پر مغرب ہی کے مقرر کردہ آئیڈیلز کے حصول کے لیے اجتماعی طور پر کوشاں ہیں۔ مغربی اجتماعی اقدار کے غلبہ وتسلط کی بات محض بالواسطہ اثرات تک محدود نہیں رہی، بلکہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کی صورت میں انھیں قانونی سطح پر دنیا پر نافذ کرنے کی علانیہ اور دانستہ کوشش کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ایک توانا تہذیبی اور اخلاقی جذبے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں غلبہ مغرب کے حوالے سے گذشتہ ڈیڑھ دو صدیوں سے جاری ڈسکورس کو ایک نیا رخ دینے کی ضرورت ہے اور بہت سے اہم اور بنیادی سوالات فکر تازہ کی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔
غلبہ مغرب: درست تفہیم کی ضرورت
اس حوالے سے یہاں ہم چند بنیادی حقائق کی طرف متوجہ کرنا چاہیں گے جن کا ادراک کسی بھی قسم کی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
پہلی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مسلم تہذیب کے مقابلے میں مغرب کا غلبہ بنیادی طور پر کسی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ قوموں کے عروج وزوال سے متعلق اٹل سنن الٰہیہ کا ظہور ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پورے عمل میں انسانی سطح پر سازشوں کا عنصر موجود یا کارفرما اور موثر نہیں رہا اور نہ یہ مراد ہے کہ مغرب نے اس غلبے کے حصول میں کسی قسم کی انسانی واخلاقی قدروں کو پامال نہیں کیا۔ یہ پہلو اپنی جگہ درست اور مسلم ہے۔ یہاں جس نکتے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ سنن الٰہیہ کے تحت اگر امت مسلمہ عالمی سیادت واقتدار سے محروم کی گئی ہے تو اس کا بنیادی سبب خود اس کی وہ داخلی کمزوریاں ہیں جن کے جڑ پکڑ جانے کے بعد قانون الٰہی کے تحت سربلندی وسرفرازی کا زوال ونکبت سے مبدل ہونا ناگزیر تھا۔ قانون الٰہی کے مطابق اس بنیادی شرط کے بغیر محض دشمن کی طرف سے کی جانے والی تدبیریں اور سازشیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھیں۔
دوسری چیز یہ ہے کہ مغرب کا غلبہ واقعاتی سطح پر رونما ہونے والی کوئی معمول کا اتار چڑھاؤ نہیں، بلکہ صفحہ تاریخ پر رونما ہونے والا ایک جوہری تغیر ہے جس کے اسباب ووجوہ اور پس پردہ تیاری کی تفہیم کے لیے سالوں اور دہائیوں کے نہیں بلکہ صدیوں اور ہزاریوں کے پیمانے درکار ہیں۔ دوسرے لفظوں میں غلبہ مغرب کی مثال سطح سمندر پر اٹھنے والی چھوٹی یا بڑی لہروں کی نہیں، بلکہ ایک سمندری طوفان کی ہے۔ یہ کسی ایک ملک کی دوسرے ملک پر فتح نہیں اور نہ ایک سیاسی قوت کے مقابلے میں دوسری سیاسی قوت کا غالب آجا نا ہے۔ یہ زمین کے ایک جغرافیائی خطے سے ابھرنے والی ایک پوری تہذیب کی بالادستی ہے جو فکر وفلسفہ کی طاقت، مادی وسائل کی فراوانی اور تیغ وتفنگ کی قوت سے مکمل طورپر لیس ہے اور اس نے دنیا کی تاریخ کا دھارا بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ مغرب کا غلبہ محض میدان جنگ کا غلبہ نہیں۔ اس میں سائنسی علوم وفنون اور ٹیکنالوجی کے ذریعے سے دنیا میں موجود مادی وسائل کی دریافت وتسخیر اور ان سے استفادہ کے دائرے میں قوت واستعداد کا وہ سرچشمہ دریافت کر لیا ہے جس نے دنیا کی دوسری ساری قوموں کو خود اپنے مملوکہ وسائل سے مستفید ہونے کے لیے بھی مغرب کی نظر کرم کی محتاج بنا دیا ہے۔
چوتھی اور آخری چیز یہ ہے کہ مغرب کا غلبہ محض مادی نہیں، بلکہ فکری اور اقداری بھی ہے اور یہی اس کا سب سے سنگین اور خطرناک پہلو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب محض زور بازو سے اقوام عالم کو اپنا تابع بنانے میں کامیاب نہیں، بلکہ فکر وفلسفہ اور تصور حیات کے میدان میں بھی انسانی ذہن کو شدید طور پر متاثر کرنے کی صلاحیت اور اس کے لیے درکار ہر قسم کے اسلحہ سے پوری طرح لیس ہے۔
یہ تمام نکات اگرچہ اب بدیہیات کا درجہ رکھتے ہیں جن کی طرف توجہ مبذول کروانا بظاہر تحصیل حاصل معلوم ہوتا ہے، لیکن اس یاد دہانی کی ضر ورت اس لیے ہے کہ اس صورت حال کے حوالے سے مسلم امہ کی قیادت کے زاویہ نظر اور تجویز کردہ حکمت عملی میں ان بدیہیات کے ادراک کی کوئی خاص جھلک نظر نہیں آتی۔ اگر ان کا ادراک ہے بھی تو غیر شعوری، بادل نخواستہ اور مجبورانہ ہے۔
اگر غلبہ مغرب سے متعلق مذکورہ حقائق سے اتفاق کیا جائے اور انھیں پیش نظر رکھ کر کوئی حکمت عملی وضع کی جائے تو بدیہی طو رپر اس حکمت عملی کا بنیادی نکتہ یہی قرار پائے گا کہ معروضی حالات میں طاقت کے میدان میں مغرب کے ساتھ تصادم سے گریز کیا جائے اور اسے اپنے خلاف زور بازو آزمانے کا موقع نہ دیا جائے۔ مغربی تہذیب اس وقت اپنے دورِ عروج میں ہے اور ان تمام مادی خصوصیات ولوازم سے متصف ہے جو تاریخ کے عمومی اور قابل مشاہدہ قوانین کی روشنی میں اسے اپنے عروج کو برقرار رکھنے کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کسی قوم سے اس کے دورِ عروج میں ٹکرا کر اسے شکست نہیں دی جا سکتی، خاص طور پر جبکہ شکست کا تصور یہ ہو کہ اس کے غلبہ وتسلط کو مغلوبیت میں بدل کر مغلوب وشکست خوردہ گروہ، اس کے مقابلے میں بالادست ہو جائے۔ تاریخ کا جبر، طاقت کا عدم توازن اور امت مسلمہ کی داخلی صورت حال، یہ تمام عوامل اس وقت تصادم سے گریز ہی کی طرف ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔ بنیادی طو رپر امت مسلمہ اس وقت دورِ اقدام میں نہیں، بلکہ دورِ دفاع میں ہے۔ اس وقت اصل ترجیح دنیا پر دین کا غلبہ قائم کرنا نہیں، بلکہ اسلامی فکر اور طرز معاشرت کی ناگزیر خصوصیات کا تحفظ اور دفاع ہے۔ اس نکتے سے صرف نظر کرتے ہوئے دورِ محکومی میں دورِ حاکمیت کی ترجیحات کو آئیڈیل بنا کر پیش کرنا خیالات اور جذبات میں ایک وقتی قسم کا ابال تو پیدا کر سکتا ہے، صورت حال کی حقیقی وعملی نوعیت میں تبدیلی کی طرف کسی بھی قسم کی پیش رفت کی راہ ہرگز ہموار نہیں کر سکتا۔
مفید تصورات وتجربات سے استفادہ
مغربی تہذیب نے گذشتہ کئی صدیوں میں فکری ارتقا کا جو سفر طے کیا ہے، اس نے متعدد اسباب سے اسے مذہب اور روحانیت سے دور کر دیا ہے اور وہ بلاشبہ اس وقت دنیا میں ایک لادینی تہذیب کا علم بردار ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی ذہن کو سیاست مدن اور تنظیم معاشرت کے ضمن میں عملی نوعیت کے جو بہت سے سوالات ہمیشہ سے درپیش رہے ہیں، ان کے حل کے لیے مغرب نے کئی مفید تصورات اور تجربات سے بھی دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ ان میں مثال کے طور پر حکومت سازی میں رائے عامہ کو بنیادی اہمیت دینے، حکومت کی سطح پر اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے تقسیم اختیارات کے اصول، دنیا کی مختلف اقوام کے لیے اپنے اپنے مخصوص جغرافیائی خطوں میں حق خود ارادیت تسلیم کرنے اور بین الاقوامی تنازعات کے پرامن تصفیے کے لیے عالمی برادری کی سطح پر مختلف اداروں اورتنظیموں کے قیام جیسے تصورات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تصورات پر عمل کے حوالے سے مغرب کا اپنا طرز عمل کیا ہے، اس پر یقیناًبات ہو سکتی ہے اور مذکورہ سیاسی تصورات کا جو ماڈل مغرب نے پیش کیا ہے، اس میں مزید بہتری کی ضرورت پر بھی بحث ومباحثہ کی پوری گنجائش موجود ہے۔ لیکن اصولی طور پر ان تصورات کی اہمیت اور اجتماعی انسانی تعلقات کی تنظیم کے ضمن میں ان کی افادی صلاحیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
مغربی غلبے کے رد عمل میں اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے بعض تاریخی تجربات کی فوقیت ثابت کرنے کے جذبے کے زیر اثر مسلم فکر میں ایک بڑا نمایاں رجحان سرے سے مذکورہ تصورات وتجربات کی نفی کر دینے کا دکھائی دیتا ہے جو ایک غیر متوازن رویہ ہے۔ کوئی بھی مفید اور اچھا تصور انسانیت کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے، چاہے اس کا ابتدائی تعارف کسی بھی گروہ کی طرف سے سامنے آئے۔ انسانی تمدن کا ارتقا اسی طرح باہم اخذ واستفادہ سے ہوتا ہے اور مسلم تہذیب نے بھی اپنے دور عروج میں کبھی دوسری قوموں، تہذیبوں اور معاشروں سے اچھے اور مفید تصورات کو لے لینے کبھی کوئی باک محسوس نہیں کیا۔
رائے عامہ کو حکومت سازی میں بنیادی اہمیت دینے کا اصول بنیادی طور پر خود اسلام کا اصول ہے جس سے مسلمان اپنی تاریخ کے بالکل ابتدائی دور میں ہی مختلف عملی اسباب سے دست بردار ہو گئے اور رفتہ رفتہ اس سے بالکل غیر مانوس ہوتے چلے گئے۔ امام ابوعبید نے کتاب الاموال میں لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کا لشکر دوران جنگ میں دشمن کے ساتھ صلح کا معاہدہ کرنا چاہے اور اس کی شرائط ایسی ہوں جن کا اثر دشمن کے زیر نگیں عوام الناس پر بھی پڑتا ہو تو ایسی کوئی بھی شرط اسی وقت معتبر سمجھی جائے گی جب براہ راست ان کے عوام سے رابطہ کر کے ان کی رضامندی معلوم کر لی جائے۔ اس کے بغیر محض ان کے سرداروں یا امراء کے اس شرط کو تسلیم کر لینے کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ امام ابوعبید نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چونکہ امرا اور سرداروں کو کوئی بھی اجتماعی فیصلہ کرنے کا اختیار عام لوگوں کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے جس سے لوگ متفق نہ ہوں۔ اس فقہی جزئیے سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب اسلام دشمن قوم کی رائے عامہ کو اتنی اہمیت دیتا ہے تو خود مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کی رائے عامہ اس کے نزدیک کتنی اہم ہوگی۔
آج مغرب نے حکمرانوں کے عزل ونصب میں رائے عامہ کو بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کر کے اقتدار کے پرامن انتقال کا ایک ایسا طریقہ اختیار کر لیا ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے اسلامی تاریخ میں ہمیں ایک طرف تو موروثی بادشاہت اور بزور بازور اقتدار پر قبضے جیسے طریقوں کو جواز فراہم کرنا پڑا اور دوسری طرف عملی طور پر پرامن انتقال اقتدار کا کوئی طریقہ باقی نہ رہا۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس سے کھلے دل سے استفادہ کرنا چاہیے، نہ کہ مغرب کی ہر بات کے رد کر دینے کو اسلامیت کا اظہار سمجھ کر ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی تحریک برپا کرنی چاہیے۔
(بشکریہ ماہنامہ ’’تجزیات‘‘ اسلام آباد)