افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک دور مری میں مکمل ہوگیا ہے اور مذاکرات کو جاری رکھنے کے اعلان کے ساتھ دونوں وفد اپنے وطن واپس چلے گئے ہیں۔ حکومت پاکستان کا کردار اس میں واضح ہے کہ یہ مذاکرات مری میں ہوئے ہیں اور اس سے قبل پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کے کابل کے ساتھ مسلسل روابط بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ 

ان مذاکرات کے لیے ایک عرصہ سے تگ و دو کی جا رہی تھی اور امید و بیم کے کئی مراحل درمیان میں آئے۔ مگر یہ دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے محنت والوں کی کامیابی ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے میز پر آمنے سامنے بیٹھے ہیں اور دوبارہ گفتگو کی بات طے کر کے رخصت ہوگئے ہیں۔ مذاکرات میں کون سے امور زیر بحث آئے اور کیا امور طے ہوئے؟ اس سے قطع نظر مل بیٹھنا اور آئندہ مل بیٹھنے کا وعدہ کرنا ہی بہت بڑی کامیابی ہے جس پر دنیا بھر کے امن پسند حلقوں میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ 

اب سے کئی عشرے قبل جب افغانستان میں مذہبی اور سیکولر حلقوں کے درمیان کشمکش کا آغاز ہوا تھا اور افغان عوام کی دینی قیادت نے اسلامی اقدار و روایات اور افغان تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے عنوان سے سیکولر قوتوں کے خلاف صف آرائی کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت کا ظاہری منظر صرف اتنا تھا کہ افغانستان کی حدود میں سیکولر عناصر نے اپنے افکار و نظریات کے فروغ اور مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج کے لیے دینی حلقوں کی قائدانہ پوزیشن کو چیلنج کر دیا تھا۔ بقول اقبالؒ 

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

کے ایجنڈے پر عمل درآمد شروع ہوگیا تھا۔ چنانچہ ملا لوگوں نے بھی افغانستان کے کوہ و دمن کے ساتھ اپنا رشتہ باقی رکھنے کے لیے صف بندی کا پروگرام بنا لیا تھا اور دونوں فریق آمنے سامنے آگئے تھے۔ مگر جب سوویت یونین نے افغانستان میں سیکولر حلقوں کو سپورٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی تو یہ کشمکش بین الاقوامی رخ اختیار کرتی چلی گئی اور بہت سے مراحل سے گزر کر افغانستان میں سوویت یونین کی باقاعدہ ’’فوج کشی‘‘ تک جا پہنچی۔ سوویت یونین افغانستان کو وسطی ایشیا کی ان مسلم ریاستوں کے دائرے میں لانا چاہتا تھا جو کمیونسٹ انقلاب کے بعد اس کے زیر تسلط آگئی تھیں، یا افغانستان کو راستہ بنا کر گوادر کے ذریعہ گرم پانیوں تک پہنچنے کا ایجنڈا رکھتا تھا، یا دونوں باتیں بیک وقت ایک ایجنڈے کا حصہ تھیں۔ بہرصورت اس کی مزاحمت میں افغانستان کے دینی حلقوں کے ساتھ پاکستان کے دینی حلقے بھی شامل ہوگئے اور ’’جہاد افغانستان‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی جنگ چھڑ گئی جس میں سوویت یونین کے خلاف عالمی مورچہ رکھنے والا امریکی بلاک بھی شریک ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ جنگ ایک طرح کی بین الاقوامی جنگ بنتی چلی گئی۔ 

حضرت مولانا مفتی محمودؒ پاکستان کی قومی سیاست میں دینی حلقوں کی سب سے مؤثر اور توانا آواز تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ روس افغانستان کے ذریعہ بلوچستان میں آنا چاہتا ہے اور گوادر تک رسائی حاصل کر کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا ایجنڈا رکھتا ہے اس لیے یہ صرف افغانستان کا نہیں بلکہ پاکستان کی سا لمیت کا مسئلہ بھی ہے، اور اس کی مزاحمت میں ہم بھی افغان مجاہدین کے ساتھ ہیں۔ پھر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے مختلف حصوں سے جہاد کے جذبہ سے سرشار نوجوانوں کی افغانستان میں آمد شروع ہوئی اور طویل جنگ کے بعد روسی افواج کو افغانستان سے واپس جانا پڑا۔ 

یہاں ضمناً ایک بات جملہ معترضہ کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حالات کی گردش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ روس کو گوادر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے طویل جنگ لڑی گئی جبکہ چین کو گوادر تک رسائی دینے کے لیے ’’اقتصادی راہداری‘‘ ہم خود تعمیر کر رہے ہیں۔ شاید اسی کو قرآن کریم میں تلک الایام نداولھا بین الناس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 

افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے موقع پر ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کی صورت میں مغربی دنیا نے اپنے مقاصد تو حاصل کر لیے مگر افغان مجاہدین اور دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین کے بیسیوں گروپوں کو کسی مشترکہ ایجنڈے کے بغیر تنہا چھوڑ دیا گیا۔ جس کا نتیجہ افغانستان میں خانہ جنگی کے ایک نئے دور اور دنیا بھر میں عسکریت کے فروغ کی صورت میں سامنے آیا۔ آج پوری دنیا اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے جس کا اعتراف سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن خود ایک بیان میں کر چکی ہیں۔ 

’’جنیوا معاہدہ‘‘ کی کوکھ سے جنم لینے والی اس افراتفری کے دور میں افغانستان کی وحدت کو بچانے اور ’’جہاد افغانستان‘‘ کے نظریاتی مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے ’’طالبان‘‘ نمودار ہوئے اور اپنے اہداف کے حصول میں وقتی طور پر کامیاب بھی ہوئے۔ مگر افغانستان کی وحدت اور جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کی تکمیل جن طاقتوں کے مفاد میں نہیں تھی وہ طالبان حکومت کے خلاف سازشوں کا ایک نیا جال بننے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس کے نتیجے میں افغانستان میں سابقہ صورت حال صرف اس فرق کے ساتھ واپس آگئی کہ اب وہاں روسی فوجوں کا نہیں بلکہ امریکی اتحاد کی فوجوں کا تسلط تھا۔ چنانچہ حریت پسند افغان عوام ایک بار پھر اپنے ملک کو غیر ملکی فوجوں کے تسلط سے نجات دلانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔ 

اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی اتحاد بھی اپنی افواج کو افغانستان سے واپس لے جانا چاہتا ہے مگر جانے سے قبل ایک اور ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کا اہتمام کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کا مقصد پہلے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کی طرح افغان مجاہدین کو ان کی طویل جدوجہد کے نظریاتی اہداف سے دور رکھنا ہے اور اس خطہ میں اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ 

افغان طالبان نے میدان جنگ میں تو اپنا وجود بلکہ برتری منوالی ہے مگر اب مذاکرات کی میز پر وہ ایک نئے امتحان سے دوچار ہوگئے ہیں۔ ان کی فراست و بصیرت کو اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ خطرناک چیلنج کا سامنا ہے۔ ہماری دعائیں افغان طالبان کے ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں عسکری میدان کی طرح سیاست و تدبر اور فراست و بصیرت کے محاذ پر بھی کامیابی سے نوازیں۔ اور جہاد افغانستان کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل میں فیصلہ کن مدد سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حالات و واقعات

(اگست ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter