علمی و فکری رویوں میں اصلاح کے چند اہم پہلو

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(یہ مقالہ 6-7 اپریل 2015 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مرکز برائے فروغ تعلیم و ثقافت مسلمانان ہند کی جانب سے منعقدہ ایک عالمی کانفرنس بعنوان ’’امت مسلمہ کا فکری بحران‘‘ میں پیش کیا گیا تھا۔ جو خیالات اس میں پیش کیے گئے ہیں، ان کی حیثیت کسی حتمی مطالعہ کی نہیں بلکہ وہ غور و فکر کے لیے پیش کیے جارہے ہیں۔)


جب ہم اِس سوال پر غور کرتے ہیں کہ ’’ کیااسلام کسی اصلاح کا طالب ہے یااُسے بس شارحین کی ضرورت ہے ؟‘‘ تو اس کے ساتھ ہی ایک دوسراسوال کھڑاہوجاتاہے کہ کیااسلام کا متن as it is محفوظ ہے؟ اس سوال کا جواب ظاہر ہے کہ اثبات میں ہے ۔اس لیے یہ تو صاف ہوجاتاہے کہ اسلام کسی اصلاح کا طالب نہیں، البتہ اصل اسلام اورتاریخی اسلام میں فرق ضرور کرنا پڑے گا۔ اسلام اصل میں خداکے لیے ایک والہانہ خودسپردگی کا رویہ ( دین )ہے۔ اس رویہ سے اس کی ایک مکمل ومستقل تہذیب تشکیل پاتی ہے۔ تاہم آج مرورزمانہ سے مختلف اسباب کے تحت اسلام کی تہذیبی وکلچرل حیثیت ہی دین ومذہب کی قرارپاگئی ہے، خداکے لیے عبودیت کا رویہ زائل ہوکررہ گیاہے اور اس زوال فکرونظر کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔ (۱) اب چونکہ اسلام کے مصدراول قرآن کریم کا متن پورے طورپرمحفوظ ہے، اس لیے یقینی طورپر کہاجاسکتاہے کہ ا سلام بھی محفوظ ہے اورکسی اصلاح کا طالب نہیں ۔اصلاح تودراصل ہمارے رویہ میں مطلوب ہے جو دین کی انسانی تشریحات کی تقدیس کرتاہے جوکہ تاریخی اسلام سے عبارت ہیں۔ سابقہ امتوں میں اصلاح وتبدیلی کی ضرورت اس وقت پیش آتی تھی جب یاتوان کا مقدس والوہی صحیفہ محفوظ نہیں رہ جاتاتھایازمانہ عقلی طورپر زیادہ ترقی کر جاتا تھا۔ آج یہ دونوں محرکات نہیں ہیں لیکن موجودہ دورمیں دوچیزیں ضروری ہیں:ایک ضرورت تواسلام کی عصری تشریح وتعبیرکی ہے اور دوسری فکراسلامی (تاریخی اسلام )کے ذخیرہ میں جورطب ویابس پایاجاتاہے اورجوغث وسمین اکٹھا ہو گیا ہے، اس کوچھانٹنے اوراسلام کی purityکی طرف یعنی صدراول کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے جس کے لیے نئے موازین کی ضرورت بھی پڑسکتی ہے۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیاپرانے اصولوں اورضابطوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے ؟اس پرسوچنااہل دانش اورارباب علم ونظرکاکام ہے۔ عام طورپر چار چیزوں کو مصادر دین یا مذہبی فکرکے اصل sourcesکی حیثیت سے پیش کیاجاتاہے یعنی قرآن ،حدیث ،اجماع وقیاس (اجتہاد)کو۔ ان مصادردین سے ہم کس طرح استفادہ کرتے ہیں اوران کی واقعی صورت حال کیاہے ،یہاں اس سوال کے پیش نظربعض طالب علمانہ خیالات واشکالات پیش کیے جارہے ہیں:

★ کتاب اللہ دین کا اصل مصدرہے ،کوئی دوسری چیز اس کے ساتھ اس وصف میں شریک نہیں ۔اس لیے کسی چیز کے ردوقبول کے لیے کتاب اللہ کوہی اصل بنیادبنایاجائے گا۔بلاشبہ حدیث اگرصحیح وثابت ہو،سنداًاوردرایتاًدرست ہو اور قرآن سے کسی معنی میں بھی متعارض نہ ہوتووہ اس کی بہترین شرح وتفسیرہوگی۔ صحیح روایات وآثارآیات کریمہ کے شان نزول سے اُس زمانہ کا بیک گراؤنڈہمیں سمجھاتے ہیں جیساکہ زرکشی برہان میں لکھتے ہیں:صحابہؓ وتابعین کایہ معروف طریقہ ہے کہ جب وہ کہتے ہیں کہ فلاںآیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تواس کا مطلب یہ ہواکرتاہے کہ وہ آیت اس حکم پر بھی مشتمل ہے ،یہ مطلب نہیں ہوتاکہ بعینہ وہ بات اس آیت کے نزول کا سبب ہے‘‘۔(۲)مطلب یہ ہے کہ یہ روایات وآثارہمیں آیات الٰہی کے عملی انطباق کی صورتوں کے فہم میں مدددیتے ہیں نہ یہ کہ وہ قرآن کے معانی کی حدبندی کردیتے ہیں۔ا س لیے کہ کتاب اللہ کتابِ خالد(زندہ وجاوید)ہے جورہتی دنیاتک انسانیت کے لیے آفاقی دستور ہے اور اسی وجہ سے درست طورپر علماء تفسیرکہتے ہیں کہ: لاتنقضی عجائبہ  (قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے ) ۔

یہیں سے راقم خاکسارکا طالب علمانہ اشکال علماء تفسیرکے اس قاعدہ پرہے کہ السنۃ قاضیۃ علی القرآن (قرآن پر سنت فیصلہ کن ہوگی)۔ یہ قول امام یحییٰ بن کثیرکی طرف منسوب ہے، اسی کوامام اوزاعی نے دوسرے الفاظ میں یوں کہاہے کہ :قرآن کوسنت کی اُس سے زیادہ ضرورت ہے جتنی سنت کوقرآن کی۔ سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہے اوراس کی دلیل کیاہے ؟قرآن تواپنے آپ میں کتاب محکم، کتاب فصلت آیاتہ (ایسی کتاب جس کی آیات کھول کھول کربیان کردی گئی ہیں) اور تبیان لکل شیء ہے،وہ حجۃ من بعد الرسل ہے، موعظۃ وتفصیلا لکل شیء (ہرچیز کی تفصیل اورنصیحت کی کتاب )ہے ا ورنورمبین اور ہدی للناس ہے۔ پھرجہاں ضرورت بھی نہیں، وہاں بھی اُس کوخارج سے کسی شرح وتفسیرکا محتاج وپابندکیوں بنایاجاتاہے؟ جبکہ تمام مفسرین کے نزدیک بھی قرآن کی تفسیرکا اشرف طریقہ تفسیرالقرآن بالقرآن ہے کہ اگر ایک چیز کوقرآن ایک جگہ مبہم رکھتاہے تودوسری جگہ اس کی تفسیروتوضیح کردیتاہے۔ یقیناصحیح حدیث قرآن کریم کی شرح وتفسیرمیں بڑی مدددیتی ہے، خاص کراحکامی آیات کی شرح وتفصیل میں تواس کے بغیرچارہ ہی نہیں۔ تفسیری روایات، احکامی آیات کے ساتھ ہی خاص نہیں ہیں، وہ توپورے قرآن پر حاوی ہوگئی ہیں۔ 

جب ہم اپنے ہاں رائج اصول فقہ کی روشنی میں غورکرتے ہیں توسوال پیداہوتا ہے کہ کیا کوئی تفسیریاشرح متن (text) سے آگے بڑھ سکتی ہے؟ یااُس پر غالب آسکتی ہے ؟یااُس کے ظاہرومتبادرمعنی سے اُسے پھیرسکتی ہے؟ کیا متن شر ح وتفسیرکی بیڑیوں کا پابندہواکرتاہے؟

اسی طرح کہاجاتاہے کہ: متی وقع التعارض بین القرآن والسنۃ وجب تقدیم الحدیث لان القرآن مجمل والحدیث مبین: یعنی قرآن وسنت میں تعارض ہوتوقرآن پر حدیث کومقدم رکھناچاہیے۔ کیونکہ قرآن مجمل ہے اورحدیث اس کوبیان کرنے والی ہے(ملاحظہ ہوتفسیرفتح البیان ج 5ص 422)پہلی بات تویہ ہے کہ اگرحدیث صحیح ہوگی تووہ قرآن سے متعارض ہی نہیں ہوگی۔برسبیل تنزل اگرکہیں تعارض ہوتاہے توقرآن کومقدم رکھیں گے جیساکہ حنفیہ اورمالکیہ کا تعامل بھی ہے، لیکن مذکورہ قاعدہ میں اس حقیقت کوالٹ دیاگیاہے ۔ یہ سوال اس لیے پیداہوتے ہیں کہ قرآن کے متن کوروایات واحادیث کا پابندبنادیاجاتاہے تویہ نتائج نکلتے ہیں:

۱۔بہتیری آیات شان نزول کی روایتوں کی محتاج ہوجاتی ہیں، حالانکہ ان روایتوں کی صحت وثقاہت میں ہی کلام ہے۔

۲۔روایات وآثارکومتن قرآن پر حاکم بنانے کا نتیجہ یہ ہے کہ بہتیری آیات ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں۔

۳۔بلاضرورت یہ مانناپڑتاہے کہ مدنی سورتوں کے بیچ مکی اورمکی سورتوں کے بیچ میں مدنی آیات آگئی ہیں۔ ایسا ماننے کا نتیجہ سورتوں کے نظم وترتیب اورتناسق آیات میں خلل ماننے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

۴۔بلاضرورت یہ تکلف کرناپڑتاہے کہ ایک ہی آیت کئی بارنازل ہوسکتی ہے ۔

۵۔ بلادلیل یہ مانناپڑتاہے کہ ایک آیت مختلف فقروں،مختلف زمانوں اورمجلسوں میں نازل ہوسکتی ہے۔

۶۔بعض اوقات یہ مانناپڑتاہے کہ آیت کریمہ کے الفاظ میں تقدیم وتاخیرہوگئی ہے،جوایک خطرناک بات ہے ۔

۷۔بلادلیل یہ مانناپڑتاہے کہ آیات قرآنیہ مختلف شان نزول کی وجہ سے اورمختلف سوالوں کا جواب ہونے کی وجہ سے ماسبق ومابعدسے مربوط نہیں ہیں اس لیے قرآن ایک منظم کلام نہیں غیرمربوط کلام ہے، جیساکہ اہل تفسیرکے ایک طبقہ کا واقعتا یہی خیال ہے جس کی ترجمانی شیخ عزالدین عبدالسلام کرتے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ بھلاآدھی آیت، آیت کا کوئی فقرہ جس پر حرف عطف’’ و‘‘ داخل ہے یافائے عطف داخل ہے، آگے پیچھے سے کٹاہوا کس طرح نازل ہو سکتا ہے؟ اللہ کے کلام معجز نظام کی سب سے بڑی خوبی اورجمال وخوبصورتی نیز اس کی حیرت انگیز تاثیراس کے نظم اورصوتی نظام میں ہی توپنہاں ہے اوریہی تواس کی بلاغت کی جان ہے ۔اوراس کے نظم وبلاغت ہی میں توتحدی ہے جس کے آگے سارے فصحاء وبلغائے عرب ڈھیرہوگئے تھے ۔اب اگراُس کانزول ٹوٹے ٹکڑوں، آدھے فقروں، ناقص آیتوں کی شکل میں مان لیاجائے توبڑے سوال پیداہوں گے جن کا جواب دینے سے ہماراتفسیری ذخیرہ عاجزہے۔ (۴)

قرآ ن کریم کتاب ہدی ہے ۔قرآن کی عظمت،ر فعت نزاکت،لطافت اورملاحت تک پور ا بار پانا لفظی ومعنوی ہراعتبارسے انسانی حدود سے ماوراء ہے۔اس کا مرتبۂ بلاغت اعلی ،بے نظیراورحد بشری سے مافوق ہے ۔اس کی ایک ایک آیت میں جس شدت کا زور اورایک ایک ترکیب میں جس غضب کی تاثیرہے، اسی سے یہ ممکن ہوسکاکہ عربوں کے پتھردل موم ہوکررہ گئے ۔ان کے دل ودماغ میں ایک انقلاب برپاہوگیا،اوربڑے سے بڑامخالف عربی ادیب وشاعر پکاراٹھا کہ: ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ، ان اعلاہ لمثمروان اسفلہ لمغدق، انہ یعلو ولایعلی علیہ، مااتی علی شیء الاحطمہ۔ (۵ )

قرآن کی شرح وتفسیر میں تفسیربالماثورکوبڑی بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے جوتفسیری روایات اوراحادیث وآثارپر مبنی ہے، حالانکہ چوٹی کے اہل علم کے نزدیک بھی تفسیری روایات کا بیشترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے ،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے ۔یہاں تک صحیح بخاری میں، جوکتب حدیث میں صحیح ترین مجموعہ ہے، تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثار،تفسیری اقوال ولغوی تحقیقات جمع کی گئی ہیں ،ان میں امام بخاری ؒ نے تقریباً مکمل طورپرامام ابوعبیدہ کے لغوی بیانات اور علی بن ابی طلحہ جیسے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتمادکرلیاہے۔اس علی بن ابی طلحہ نے اپنی تفسیرکوحضرت ابن عباس کی طرف منسوب کیاہے، مگراس کا ابن عباس سے سماع ثابت ہی نہیں۔اس پر رفض کا الزام بھی ہے۔ (۵؍۱) ۔

امام احمدکا مشہورقول ہے کہ : تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں: ثلاثۃ لااصل لھا: المغازی والملاحم والتفسیر۔ابن تیمیہؒ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے: ای لا اسناد لھا، اوراس کے بعد لکھاہے: لان الغالب علیھا المراسیل: کہ تفسیری روایات کا بیشترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے ۔(۶) لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور یہاں تک کہ بخاری ومسلم میں بھی، جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں، ان میں سے بھی اکثروبیشترغلط سلط روایتیں ہیں جیساکہ علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے اوراپنی کتاب ’بخاری کا مطالعہ‘(تین حصے) میں ثابت ومحقق کردیاہے۔ تفسیری روایات کے تحقیقی مطالعہ وتجزیہ کے اس کام کو مزیدآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

*حدیث حجت ہے، اس میں دورائے نہیں،مگرجب متوارث فکراسلامی اِس سے اورآگے بڑھ کراس پر اصرارکرتی ہے کہ حدیث کے بعض مخصوص مجموعے بالکلیہ صحیح ہیں،ان میں ایک شوشہ بھی غلط نہیں ہوسکتا،وہ تنقیدسے بالکل مبراہیں اوراگرکوئی یہ جسارت کرتاہے تووہ منکرِحدیث ہے،تومسئلہ پیداہوتاہے ۔اوربعض علماء وفرقے توصحیحین میں مندرج احادیث کی قطعی صحت کے قائل ہیں اوراگرکوئی محقق ومحدث روایت ودرایت کے اعتبارسے ان پر ذرابھی کلام کی جرأت کرتاہے تواُس کومنکرحدیث ،متجدد،بدعتی اورنہ جانے کیاکیاقراردے ڈالتے ہیں۔اوربعض ستم ظریف تو حد ہی کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ صحیح بخاری کی کسی حدیث پر نقدکا معنی ہواکہ وہ انکارِقرآن کا مجرم ہے!!حالانکہ دونوں میں جوفرق ہے، وہ بالکل واضح ہے کہ قرآن کریم خداکی کتاب ہے اوراس کی حفاظت کی خوداللہ تعالی ٰ نے ذمہ داری لی ہے۔ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون، ہم نے ہی قرآن کونازل کیاہے اورہم ہی اس کے محافظ ہیں( الحجر:9 ) چنانچہ قرآن کے کسی شوشہ اورحرف کے بارے میں بھی کسی غلطی ،خطایاوہم کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ راجح قول کے مطابق قرآن کی تدوین وترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی تکمیل پاچکی تھی جیساکہ خودقرآن کی داخلی شہادتیں بھی یہی کہتی ہیں۔ 

عام خیال یہ ہے کہ عہدنبوی میں ترتیب نہیں دیاگیاتھابلکہ عہدصدیقی میں مرتب ہوا،مگربہت سی تحقیقات منظرعام پرآچکی ہیں جن کی روسے کم ازکم یہ توصاف معلوم ہوتاہے کہ پوراقرآن لخف، چمڑے کے ٹکڑوں اورپتھرکی باریک سلوں پر مکمل لکھا جا چکا تھا اور ترتیب سے لکھاگیاتھا،عہدصدیقی میں اس کوکاغذکے اندرمنتقل کیاگیا اورمصحف (بین الدفتین) کی شکل دی گئی کہ کاغذیااس کا متبادل اس عہدمیں پایاجاتاتھا۔یہ ایک مستنداورباضابطہ سرکاری نسخہ ہوگیا۔ جبکہ عہدعثمانی میں اس کی مختلف نقول بنوائی گئیں اورپوری قلمرومیں ان کی توسیع واشاعت کردی گئی۔ یہ برسبیل تنزل اورمختلف روایات واقوال کے مابین ترجیح کے طورپر راقم کاخیال ہے جبکہ ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پوراقرآن مصحف کی شکل میں عہدنبوی میں ہی مرتب ہوچکا تھا۔ اس خیال کے حامل مفتی عبداللطیف رحمانی اورتمناعمادی اوربہت سے اہل علم ہیں اوران کے پاس مضبوط دلائل ہیں۔(۷) 

جہاں تک حدیث کا مسئلہ ہے تواس سلسلہ میں ایسی کوئی کوشش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یااجلۂ صحابہ کی جانب سے نہیں کی گئی، بلکہ وہ اس سلسلہ میں غایت درجہ احتیاط سے کام لیتے تھے ۔بعض صحابہ نے فرداًفرداًحدیث کو لکھا، اور اس کی ترتیب وتدوین کا کام بہت بعدمیں عہدعمربن عبدالعزیز ؒ میں شروع ہوا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ خداورسول کویہ منظورنہ تھاکہ خداکی کتاب میں کسی انسانی کلام کی آمیزش ہو۔ تقدس صرف اسی کتاب کا حق تھا کسی اورکتاب کا نہیں۔ اور امام شافعی تویہاں تک کہتے ہیں کہ کتاب اللہ کے علاوہ کسی اورچیز کو’’نص ‘‘نہیں کہاجاسکتا ۔ الام میں امام صاحب نے اس بات کومختلف انداز سے اوربارباردہرایاہے ۔ ( ۸)ظاہرہے کہ قرآن کتاب منزل ہے ۔اس کے حروف اور معانی سب اللہ کی طرف سے ہیں جبکہ حدیث کا معاملہ ایسانہیں ہے۔ حدیث کومن حیث المجموع وحی غیرمتلوکہاجاتاہے۔ حدیث کی کسی ایک متعین کتاب (مثلاً بخاری ومسلم ) کووحی متلوکا کامل مجموعہ نہیں کہاجاسکتاہے ۔(وحی کی متلووغیرمتلوکے درمیان تقسیم خودقابل غورہے ) 

پھریہ ہے کہ حدیث کابہت چھوٹاساحصہ ہے جس کوباللفظ بھی روایت کیاگیاہے۔ زیادہ ترحدیثیں بالمعنی ہیں۔ متواترحدیثوں کی بات الگ ہے جوبہت کم ہیں اور وہ بھی کسی ایک کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہیں۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ قرآن کتاب منزل من اللہ ہے، حدیث کی کوئی کتاب بعینہ منزل من اللہ نہیں ہے۔ بحیثیت مجموعی حدیث کتاب اللہ کی شرح یقیناہے، مگرکسی شرح کواصل متن پرفوقیت حاصل نہیں ہوتی ۔امام شافعی کے نزدیک حدیث سراسرکتا ب اللہ ہی سے مستنبط وماخوذہے لہٰذاوہ کتاب اللہ ہی کے تابع ہوگی، اس پر حاکم نہیں۔یہ تواصولی بات ہوئی۔ اب رہی یہ مشہور بات کہ بخاری کے حرف بہ حرف صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے توپہلی بات تویہ ہے کہ صحیح قول کے مطابق جیساکہ امام شافعی ؒ کہتے ہیں، اجماع صرف صحابہ کا معتبرہے (یہی امام ابن تیمیہ کا بھی موقف ہے)، بعدوالوں کا نہیں۔(۹) اور پھر اجماع شرعیات میں ہوتاہے، اخبار ووقائع میں نہیں۔اس لیے یہ کہنااصولی طورپربالکل غلط ہے کہ کہ بخاری ومسلم کی مطلق عصمت وصحت پر اجماع امت ہوچکاہے ۔کیونکہ بخاری ومسلم عہدصحابہ توکجا، عہد تابعین وتبع تابعین کے بھی بعد کے ہیں، یعنی قرون مشہود لہا بالخیر کے بعد کے۔ لہٰذااجماع کا دعویٰ توبالکل ہی درست نہیں۔(اجماع پر مزیدبحث آگے آتی ہے)۔ بخاری کی جلالت شان کے پیش نظرکسی نے یہ بات کہہ دی تھی کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں، اسی کولوگ نقل درنقل کرتے چلے گئے ۔خودبخاری کے سلسلہ میں کبارمحدثین اورامام بخاری کے معاصرین کا رویہ اس کی تقدیس کا نہ تھاجیساکہ آج کے علماء کا ہے ۔اس کی سب سے بڑی مثال خودامام مسلم بن الحجاج القشیری ہیں جو ایک جلیل القدرامام ہیں اورامام بخاری کے مایۂ ناز شاگرداوران سے شدیدمحبت رکھنے والے۔ مگراس کے باوجودانہوں نے استادکے کام کو آخری اورحتمی نہیں سمجھا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کرخودایک اورمجموعۂ حدیث مرتب کیاجوصحیح مسلم کے نام سے مشہورہے۔اگروہ بخاری کوتقدیس کی نظرسے دیکھ رہے ہوتے توبس اس کی شرح کرتے خودصحیح مسلم مرتب کرنے کا نہ سوچتے۔ (۱۰) 

 اسی طرح ہم نے فقہ کے چارمسالک کی تقدیس کررکھی ہے، ان سے باہرجانے کو ایک جرم خیال کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ائمہ وعلماء یہی دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ محققین کا مسلک کبھی یہ نہیں رہا۔پھربھی کوئی فقیہ ومحقق آزادانہ اجتہادکی کوشش کرتاہے تواس کوگردن زدنی خیال کیاجاتاہے۔ مثال کے طورپر حال ہی میں یمن کے ایک عالم شیخ دکتور محمد فضل اللہ مرادنے ایک فقہی موسوعہ ترتیب دیناشروع کیاہے جس کامقدمہ المقدمۃ فی فقہ العصر  کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوگیاہے ۔کتاب کا اصل موضوع موجودہ دورکے عصری مسائل اوراسلام کا موقف ہے۔ اس میں فقہ الدولہ یافقہ السیاسۃ الشرعیہ پربھی خاصاکلام کیاگیاہے ۔ساتھ ہی فقہ المال یافقہ الاقتصادکے بہت سارے پہلوبھی بیان کیے گئے ہیں۔ شیخ مرادیمن کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسرہیں۔کتاب پر شیخ محمدبن علی عجلان،شیخ یوسف القرضاوی، شیخ عبدالمجیدزندانی اورشیخ محمدبن اسماعیل العمرانی جیسے کبارعرب علماوشیوخ کی تقریظات ہیں۔ کتاب 24 ابواب پر مشتمل ہے۔ ائمہ فقہ اورمعاصرعلماء سے ربا،بیوع ،تامین ،سودوانشورنیس وغیرہ مسائل میں مصنف الگ رائے رکھتے ہیں۔ امام الحرمین الجوینی نے البرہان میں 5 مقاصد شریعت گنوائے ہیں جن کوامام غزالی نے المستصفیٰ میں مزیدشرح وبسط سے بیان کیاہے ۔شیخ فضل اللہ مرادنے ان میں ایک چھٹے مقصدشرعی کا اضافہ کیاہے اوروہ ہے :حفظ الجماعۃ العامہ، یعنی انسانی سماج کی حفاظت۔ (دوسرے مقاصدشرعیہ میں حفظ دین، نفس، عقل، مال اور حفظ عرض (آبرو) شامل ہیں) ۔ (۱۱)

کتاب کے شروع میں مصنف نے وضاحت سے بیان کردیاہے کہ اصول وفروع میں وہ کسی کی تقلیدنہیں کرتے، بلکہ ائمہ اربعہ کی یہ نصیحت سامنے رکھتے ہیں کہ ہم ان کی تقلیدنہ کریں بلکہ وہیں سے لیں جہاں سے انہوں نے لیا ہے۔ مصنف کے الفاظ میں: وقد التزمت فی کتابی ھذا الزام الائمۃ الاربعۃ ونصیحتھم لی ولنا جمیعا وھی: ان لانقلدھم بل ناخذ من حیث اخذوا۔ اس کتاب پر شدیدنقداورمخالفت اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیاکے نائب صدرمولاناڈاکٹربدرالحسن قاسمی (مقیم کویت )نے کی ہے اورشیخ فضل اللہ کو مجتہد عشوائی  (آوارہ) قراردیاہے ۔ان کا تنقیدی مضمون عربی واردودونوں میں شائع ہواہے ،اردومیں اس کا عنوان ہے :ایک اچھی لیکن خطرناک کتاب ۔(۱۲) تنقیدکا لب لباب یہ ہے کہ انہوں نے عدم تقلیدکا منہج کیوں اختیار کیا، یہی مصنف کا سب سے بڑاجرم ہے۔

ہماری اس سوچ کا مقابلہ صدراول کی حریت فکری کی اس فضا سے کیجیے جب ایک فقیہ کو یہ کہنے کا یاراتھاکہ’’صحیح حدیث اورآراء صحابہؓ کے توہم پابندہوں گے، مگرجب بات ہمارے جیسے معاصرعلماء وفقہاء کی ہو تو ھم رجال ونحن رجال‘‘۔ (وہ بھی انسان ہیں ہم بھی انسان)، جب فقہ میں حنفی ،مالکی ،شافعی اورحنبلی فقہ کے پہلوبہ پہلوفقہ اوزاعی ،فقہ داؤد ظاہری اورفقہ جعفری اورفقہ اباضی بھی پھل پھول رہی تھیں اوربہت سے مکاتب فکرموجودہواکرتے، جب اسحاق بن راہویہؒ ، امام شعبیؒ ، امام سفیان ثوریؒ ،امام حسن بصریؒ امام اوزاعی ؒ اورامام لیث بن سعدؒ اورابن جریر طبریؒ جیسے ائمہ فکروفقہ کے حلقہ ہائے درس قائم تھے اورکسی کو نہ برسرباطل سمجھاجاتانہ حق کو بس کسی ایک فقہ میں محصورخیال کیاجاتا۔ خلیفہ منصورکے عہدمیں امام مالک ؒ نے اپنی کتاب مؤطاکو پوری امت کے لیے دائمی قانون اوردستورالعمل بنانے سے منع کردیاتھاکیونکہ انہیں خوب اندازہ تھاکہ ایساکرنے سے علم وفکراورتحقیق کے رواں دواں قافلہ کو بریک لگ سکتاہے ۔ (۱۳)

اسی طرح ہمارے اس جمودفکری کا تقابل اس حدیث سے کیجیے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب حاکم فیصلہ کرے اوراجتہادکرے اوراس کا فیصلہ درست ہوتواُسے دواجرملیں گے اوراگرفیصلہ میں غلطی کرجائے تواس کے لیے ایک اجرہوگا۔ اذا حکم الحاکم فاجتھد ثم اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتھد ثم اخطأ فلہ اجر  (بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ اورمسلم کتاب الاقضیہ بروایت عمروبن العاص)حافظ ابن حجرنے اس کی شرح میں لکھاہے کہ :پہلے کودواجرملیں گے ایک اس کے اجتہادکا اورایک اس کے صواب ہونے کااوردوسرے کوفقط اجتہادکااجرملے گا:(۱۴)اس قبیل کی اوربھی احادیث ہیں۔ان نصوص سے یہ معلوم ہوتاہے کہ اجتہاد اتنامطلوب ہے کہ اس میں غلطی کرنے والے کے لیے بھی ثواب ہے اوریہ بھی کہ اجتہادکا عمل جاری رہناچاہیے بلکہ اس کے لیے غلطی کا رسک لیاجائے گا۔

★ اجتہادکے سلسلہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہماری طالب علمانہ رائے میں اجماع کا غلط استعمال ہے۔ محققین کے قول کے مطابق اجماع صحابہ توایک شرعی حجت ہے، بعدکے زمانوں کا اجماع مختلف فیہ ہے۔بعض ائمہ کے نزدیک حجت ہے، بعض کے نزدیک نہیں۔ (۱۵) )علامہ مصطفی الزرقاء اپنی کتاب المدخل الفقھی العام میں لکھتے ہیں: عہد فاروقی تک کسی مسئلہ پر اجماع کا ہوجاناآسان تھا،کیونکہ حضرت عمرؓ نے اپنے عہدکے ممتازصحابہ کو(کسی شدیدضرورت کے بغیر)مدینہ باہرجانے سے روک دیاتھا تاکہ کوئی نیاعلمی ،سیاسی مسئلہ پیش آئے تواس میں آسانی کے ساتھ مشورہ کیاجاسکے لیکن حضرت عثمانؓ کے عہدخلافت کے آخری دورمیں صحابہ کرام مختلف شہروں اورملکوں میں پھیل گئے ۔۔۔اس لیے اب یہ ناممکن ہوگیاکہ ان تمام مجتہدین کی رائے سے کسی مسئلہ میں اجماع ہوسکے کیونکہ کسی عام علمی مشاورت کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیاتھا۔(۱۶)

ہماری علمی صورت حال یہ ہے کہ چوتھی صدی (یعنی فکری زوال کے بعد)کے فکراسلامی کے ذخیرہ کوبالعموم اور متاخرین کی آراء واجتہادات کوبالخصوص اجماع کا درجہ دے کران پر کسی بھی قسم کی تنقیدواختلاف کوگوارانہیں کیا جاتا۔ کیا صحیحین کی صحت، قرآن کی جمع وتدوین،قرأآت سبعہ ،نزول مسیح،خروج دجال وظہورمہدی وغیرہ کے سلسلہ کے آثار واقوال کواجماع کا درجہ دے کران پر غوروفکراورتحقیق کا راستہ بندکیاجاسکتاہے ؟جب اس طرح کے سوالوں پر اسلاف میں ابن حزم کے ہاں بحث ہوسکتی ہے توآج کیوں نہیں ہوسکتی ؟آج اجماع کا استعمال علماء ،سیرت وتاریخ، اور روایتِ حدیث اورکتب حدیث کے سلسلہ میں بے جااستعمال کرتے ہیں۔ کسی بھی نئی تحقیق اوراجتہادکا راستہ روکنے کے لیے اُسے ایک ہتھیاراورآلہ کے طورپر استعمال کیاجاتاہے کہ فلاں مسئلہ پر امت کا اجماع ہے، فلاں بات اجماعی ہے وغیرہ۔ حالانکہ اجماع کے سلسلہ میں اصول فقہ کی کتابوں میں جوبحث آتی ہے، وہ یوں ہوتی ہے کہ گویایہ متفق علیہ مسئلہ ہے، جبکہ اجماع کے بارے میں ہماری درسیات جوکچھ کہتی ہیں، بحیثیت ادارہ اس کا عملاً وقوع تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا۔ 

امام شافعی جن کا کردار اصول فقہ کی تدوین وتشریح میں بہت بنیادی ہے، وہ اس کے بانی ہیں ۔ان کے زمانہ میں بھی صورت حال یہی تھی کہ ہرفریق اپنی اپنی رائے پر اجماع کا دعوی کررہاتھا۔ایسے میں امام شافعی نے اصولی طور پر اجماع کو شرعی حجت تسلیم کیا، کتا ب وسنت میں اس کی بنیاددریافت کی، اس کے مبادی منضبط کیے، تاہم ان کی تحریریں بتاتی ہیں کہ اجماع سے ان کی مرادبھی صحابہ کا اجماع ہے اوراس کے بعدکا اجماع ان کے نزدیک معتبر نہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہرمسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کرناغلط ہے کیونکہ اس کے عملاً وقوع کی کوئی دلیل نہیں۔اس سلسلہ میں انہوں نے یہاں تک کہ دیاکہ : دعوی الاجماع خلاف الاجماع : (اجماع کا دعویٰ کرناخوداجماع کے خلاف ہے۔ (۱۷) مزید کہا :اجماع کے عیب کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدلوگوں کی زبانوں پر تمہارے اس زمانہ کے علاوہ کبھی اس کا نام نہیں آیا۔ (۱۸ ) یوں شافعی بعض اجماع کے قائل ہیں اوربالکل اس کا انکارنہیں کرتے، لیکن علی الاطلاق اس کوقبول بھی نہیں کرتے۔

حال کے زمانہ میں ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے اجماع کے عملاً وقوع پر سوال کھڑاکرتے ہوئے کہا: ’’اس سلسلہ میں اتفاق رائے یاکثرتِ رائے سے فیصلہ کرنے کے لیے اجماع کی اصطلاح کا ذکربہت کیاجاتاہے، لیکن علماء کرام مجھے معاف فرمائیں تومیں عرض کرناچاہتاہوں کہ اجماع فقط ایک مفروضہ اورافسانہ ہے۔ اس کا کوئی وجودنہیں اورچودہ سوبرس میں اجماع کے ذریعے فیصلہ کا کوئی طریقہ مقررنہیں کیاگیا۔‘‘(۱۹) جب صورت حال یہ ہوتوکیایہ ضروری نہیں کہ اجماع کے سلسلہ میں اہل علم مروجہ طرزفکرپر نظرثانی کریں؟

اجماع ہی سے متعلق یہ بحث ہے کہ ہمارے علما عام طور پر کہتے ہیں کہ جوبھی فکری وعلمی بحثیں ہوں، جو بھی علمی تحقیقات کی جائیں، ان میں جمہورامت کی رائے کی پابندی ضروری ہے۔ مبادئ دین میں تویہ اصول مسلمہ ہے لیکن فروعی مسائل، علمی مباحث وتاریخی بحث وتحقیق میں بھی اگراس مفروضہ کومان کرچلتے ہیں توپھرکسی نئی تحقیق اورنئے اجتہادکی ضرورت یاگنجائش ہی کہاں رہ جاتی ہے؟ شیخ ناصرالدین البانی اہل علم کے لیے تقلیدکوجائزنہیں سمجھتے۔ وہ علمی و عملی طور پر خود بھی سختی سے اس اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

أن العلم لا یقبل الجمود فھو فی تقدم مستمر من خطأ إلی صواب و من صحیح إلی أصح۔ (۲۰) ’’علم جمودکوگوارانہیں کرتا،وہ ہمہ وقت غلط سے صحیح اورصحیح سے صحیح ترکی طرف گامزن رہتاہے‘‘ ۔

اسلام کی علمی وفکری تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ جمہورکی رائے کی پابندی محض ایک مفروضہ ہے اوراسلام میں ائمہ کبار، مصلحین ومجددین اس مفروضہ کا شکارکبھی نہیں ہوئے۔ ائمہ اربعہ(۲۱)، ابن حزم، ابن خلدون، ابن تیمیہ، ابن القیم، شاہ ولی اللہ دہلوی وغیرہم جتنے بھی بڑے نام ہیں، کیا یہ سب جمہورکی رائے کے پابندتھے؟ یا انہوں نے اپنی راہیں الگ نکالیں؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب یہی ہے کہ انہوں نے جمہورکی رائے کی پابندی نہیں کی اور اپنا الگ طریق رکھا۔ اس لیے آپ کسی رائے یاتحقیق کوکتاب وسنت کی میزان میں ضرورتولیں گے مگراُس کا جمہورکے اور مقبول عام تصورکے مطابق ہوناہرحال میں ضروری نہ ہوگا۔ مشہوردنیامیں بہت سی چیزیں ہوجایاکرتی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی اوریہ بھی ہوتاہے کہ لوگ مدتوں ان کومتواترتک مانتے رہتے ہیں،ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو لوگ متواتر یا اجماعی مانتے آئے ہیں مگر جدید تحقیقات سے وہ غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ علامہ محدث حبیب الرحمن اعظمی کے الفاظ میں ’’ہر افواہ جوپھیل جائے، اُس کو خبر متواترکہناتواترکی سخت توہین ہے‘‘۔(۲۲)خلاصہ یہ ہے کہ فہم سلف کے نام پر یاتقلید ائمہ کے نام پر ہم نے جس جمودعقلی وفکری کودانتوں سے پکڑ رکھا ہے، ہمارا یہی رویہ اصلاح کا طالب ہے۔


حواشی وحوالہ جات

۱۔تفصیلی مطالعہ کے لیے دیکھیے :ابوالحسن علی ندوی ماذاخسرالعالم بانحطاط المسلمین، دارعرفات رائے بریلی، ڈاکٹرراشدشاز،ادراک زوال امت دوجلد،،شکیب ارسلان ،اسباب زوال امت ،شائع کردہ دعوہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد، ڈاکٹرمحمدعمرچھاپرا:اسلامی تہذیب زوال کے اسبا ب،اصلاح کیونکر،،سیدابوالاعلی مودودی، تجدیدواحیاء دین ۔

۲۔ امام حمیدالدین فراہی،تفسیرنظام القرآن دائرہ حمیدیہ ،فروری 2009ص۴۱۔

۳۔ ملاحظہ ہو:محمداسلم جیراجپوری ،علم حدیث،طبع امرتسرص۱۰،راشدشاز،ادراک زوالِ امت جلداول ملی پبلی کیشنز 2013 ص208۔

۴۔ یہ مفروضے نہیں ہیں بلکہ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے ملاحظہ کریں:علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن میں تنبیہات کے تحت تفسیری روایات پر کلام ،نیزانہیں کی صحیح بخاری کا مطالعہ پہلا،دوسرااورتیسراحصہ شائع کردہ فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی ،خاص کرتیسرے حصہ میں امام بخاری کی کتاب التفسیرپر مفصل کلام ہے۔

(۵)یہ ولیدبن مغیرہ کاقول ہے جو ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیاتوآپ نے اسے قرآن پڑھ کرسنایا۔وہ بڑامتاثرہوااورچپ چاپ چلاگیا۔قریش کوجب یہ خبر ملی تو لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ ابوجہل ولیدکے پاس آیااوربولا: یاعم! محمدکے بارے میں کچھ ایسی بات کہہ دیجئے جس سے لوگ مطمئن ہوجائیں کہ آپ اس کے دعوے کوسچ نہیں سمجھتے، ولیدنے کہا: آخرکیاکہوں؟ بخدا شعر،رجز ،قصائد ،جنوں کاکلام، یعنی کلام عرب کی ان سب صنفوں کومیں سب سے زیادہ جانتاہوں لیکن خدا کی قسم یہ شخص جوکلام پیش کررہاہے،وہ ان میں سے کسی بھی چیز کے مشابہ نہیں۔ بخدا اس کلام میں عجیب حلاوت ہے، اورایک خاص طرح کا حسن ہے۔اس کی شاخیں پھلوں سے لدی ہوئی اوراس کی جڑیں بالکل شاداب ہیں۔یقیناًوہ ہرکلام سے بلندہے اورکوئی دوسراکلام اسے نیچانہیں دکھاسکتا۔بے شک وہ ہراس چیز کو توڑکررکھ دے گاجس پر وہ آئے گا۔ (الحاکم النیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، جلددوم صفحہ ۵۰۶ طبع دائرۃ المعارف دکن ۱۳۳۴ء )

(۵؍۱) دیکھیے علی بن ابی طلحہ کا ترجمہ :حافظ ابن حجرعسقلانی ،تہذیب التہذیب المجلدالسابع ،طبع دارالفکر، الطبعۃ الاولی 1984 ص298۔

(۶) ملاحظہ ہو:ابن تیمیہ الحرانی ،مقدمہ فی اصول التفسیرلابن تیمیہ ؒ صفحہ ۷۰۔

(۷)اس سلسلہ میں مزیدمطالعہ کے لیے دیکھیے :عبداللطیف رحمانی، تاریخ القرآن ،صدیق حسن ،رسالہ جمع وتدوین قرآن ،طبع دارالمصنفین اعظم گڑھ ،راشدشاز ادراک زوال امت جلداول ص۱۵۶تا۱۵۹۔

(۸)ملاحظہ ہو: طٰہٰ جابرعلوانی کی کتاب، مفاھیم محوریہ فی المنھج والمنھجیہ، دوسراباب: مفہوم النص، دارالسلام ،القاہرہ، الطبعۃالاولی ،2009 ۔

(۹)غطریف شہبازندوی ،عالم اسلام کے مشاہیر،فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز ،مارچ 2014ص22۔

۱۰۔بخاری پر نقدکرنے والے علما بہت ہیں،تفصیل کے لیے دیکھیں: راقم کا مقالہ :علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی حدیث کے ایک اسکالر،جوذیل کی ویب سائٹ پر موجودہے: http://pak.net ۔

۱۱۔کتاب کے مفصل تعارف کے لیے دیکھے :البعث الاسلامی : العدد السادس، المجلد الستون دیسمبر 2014 اورماہنامہ ترجمان دارالعلوم اکتوبر2013تامارچ2014تنظیم ابناء قدیم دارالعلوم دیوبند۔

۱۲۔ایضاً۔

۱۳۔ملاحظہ ہوشاہ ولی اللہ دہلوی،حجۃ اللہ البالغہ ہندی ایڈیشن ،صفحہ 307۔

۱۴۔حافظ ابن حجرالعسقلانی ،فتح الباری شرح صحیح البخاری ،ج۱۳ص۳۳۱)المطبعۃ البہیہ المصریہ 1348ھجریہ 

۱۵۔صباح الدین ملک فلاحی :اجماع ایک تحققی بحث ،مجلہ فکرونظر،جلد37شمارہ ۳ جنوری ۔مارچ2000ادارۂ تحقیقات اسلامی اسلام آبادپاکستان۔

۱۶۔مجیب اللہ ندوی،مولانا،فقہ اسلامی اوردورجدیدکے مسائل ، ،ص۴۸شائع کردہ دارالتصنیف والترجمہ جامعۃ الرشاداعظم گڑھ۔

۱۷۔غطریف شہبازندوی ڈاکٹر ،عالم اسلام کے مشاہیر،فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز ،مارچ 2014ص22

۱۸۔ایضاً

۱۹۔غطریف شہبازندوی ڈاکٹر،ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،مجددعلوم سیرت ،فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیزنئی دہلی 2013صفحہ78۔

۲۰۔ ناصر الدین البانی ،محدث شیخ ،سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، المکتب الاسلامی بیروت، ص۴۴۔

۲۱۔ امام اعظم ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں: اذا جاء عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فعلی الراس والعین (احیاء العلوم للغزالی 1/79) (جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قول آجائے توسرآنکھوں پر )۔ امام دارالہجرت مالک ؒ نے فرمایا: ما من احد الا یوخذ من قولہ ویترک الا صاحب ھذا القبر واشار الی قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم (اس قبروالے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم)کوچھوڑکوئی بھی ایسانہیں جس کے کسی قول کولیانہ جائے اورکسی کوچھوڑانہ جائے ) (حجۃ اللہ البالغۃ 1/157) امام شافعیؒ کا قول ہے : کل ما قلت وکان قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف قولی مما یصح فحدیث النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولی ولا تقلدونی۔ اگرمیرے کسی قول کے خلاف صحیح حدیث نبوی آجائے تواسی کولینااولی ہے اورمیری تقلیدنہ کرنا۔ (ایضا) اما م احمدؒ سے منقول ہے: لا تکتبوا عنی شیئا ولا تقلدونی ولا تقلدوا فلانا وفلانا، وخذوا من حیث اخذوا  (نہ مجھ سے کچھ لکھو،نہ فلاں وفلاں وفلاں کی تقلیدکرو،بلکہ وہیں سے لوجہاں سے انہوں نے لیاہے)۔ (ابن القیمؒ ،اعلام الموقعین عن رب العالمین2/201۔

۲۲۔علامہ محدث حبیب الرحمن اعظمی ،تبصرہ بر شہید کربلا و یزید، ص 50 دارالثقافہ الاسلامیہ مؤ 2014۔

آراء و افکار

(اگست ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter