مادرِ علمی جامعہ نصرۃ العلوم

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا آغاز 1952ء میں ہوا تھا جب چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے اس کی بنیاد رکھی۔ تھوڑے عرصہ کے بعد حضرت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی ساتھ شامل ہوگئے۔ اہل علم اور اہل خیر میں سے بہت سے سرکردہ حضرات ان کے شریک کار بنے اور یہ قافلہ چلتے چلتے ایک ایسے علمی، مسلکی اور فکری مرکز کی صورت اختیار کر گیا جس کا تعارف اور فیض صرف پاکستان اور جنوبی ایشیا تک محدود نہیں ہے بلکہ مشرق بعید، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا، یورپ، امریکہ اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں اس کے تعلیم یافتہ اور خوشہ چین حضرات ہزاروں کی تعداد میں مختلف دینی شعبوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 

میں گکھڑ میں حفظ قرآن کریم اور فارسی کی ابتدائی تعلیم کے بعد 1962ء کے دوران ایک طالب علم کے طور پر مدرسہ میں داخل ہوا اور 1969ء میں سند فراغت حاصل کر کے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ کی خدمت و نیابت کی ذمہ داری پر مامور ہوگیا۔ اور بحمد اللہ تعالیٰ اب تک اس سلسلۂ خیر کو جاری رکھنے کی سعادت سے بہرہ ور ہوں۔ دونوں بھائی دار العلوم دیوبند کے فاضل اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ حضرت والد محترمؒ پر ان کے شیخ و استاذ رئیس المؤحدین حضرت مولانا حسین علی قدس اللہ سرہ العزیز کا رنگ غالب تھا، جبکہ حضرت صوفی صاحبؒ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے خوشہ چین اور حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے افکار و تعلیمات کے امین تھے۔ ان دونوں اعلیٰ ذوقوں کے امتزاج نے جامعہ نصرۃ العلوم کو ایک ایسے امتیاز سے متعارف کرایا جو علمی حلقوں میں اس کی پہچان بن چکا ہے۔ اس کی ایک جھلک یہ ہے کہ اس دور میں جب درس نظامی کے باقاعدہ نصاب میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ و تفسیر شامل نہیں تھا۔ حضرت والد محترمؒ نے ترجمہ و تفسیر کو مدرسہ کے نصاب کا لازمی حصہ بنایا، بلکہ مدرسہ کے آغاز سے اب تک روزانہ اسباق کا آغاز ہی ترجمہ و تفسیر کی کلاس سے ہوتا ہے، جس میں دورۂ حدیث، موقوف علیہ اور اس کے بعد کے اعلیٰ درجات کے طلبہ کی شرکت لازمی ہوتی ہے۔ ہمارے طالب علم کے دور میں تو غیر حاضری پر جرمانہ بھی ہوتا تھا اور میری کئی غیر حاضریوں پر حضرت والد محترمؒ کو اپنی جیب سے جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ ترجمہ و تفسیر دو سال میں مکمل ہوتا تھا اور حضرت والد محترمؒ خود پڑھاتے تھے۔ 

عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ نے اپنے ذوق کا اظہار دورۂ حدیث کے نصاب میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کو شامل کر کے کیا جسے وہ خود پڑھاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ دوسرے اسباق کے دوران بھی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے علوم و افکار کا تذکرہ ان کی نوک زبان پر ہمیشہ رہتا تھا۔ اب یہ دونوں خدمتیں یعنی صبح کا ترجمہ و تفسیر اور ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کی تدریس میرے سپرد ہیں۔ مگر ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ پوری نہیں بلکہ اسباق کے گھنٹے کم ہونے کی وجہ سے اس کے منتخب ابواب کی تعلیم ہوتی ہے اور اس کے بیشتر حصوں کی تدریس کی حسرت دل میں ہی رہ جاتی ہے۔ بلکہ اس سے بڑی ایک حسرت ابھی تک دل میں لیے پھرتا ہوں کہ باذوق فضلاء کی کوئی کلاس مل جائے تو (۱) حجۃ اللہ البالغہ (۲) طحاوی شریف (۳) احکام القرآن عصری تناظر میں اور (۴) تاریخ اسلام کے اہم حصوں کی تدریس کا شوق پورا کر سکوں۔ مگر ان باتوں کا ذوق نایاب ہوتا جا رہا ہے اور اپنی عمر کے ساتویں عشرہ کے اختتامی مرحلہ میں یہ حسرت اب یاس میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعَدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔ 

حضرت والد محترمؒ کا ایک خاص ذوق تدریس و تعلیم کے دوران حنفیت اور دیوبندیت کے مسلکی تعارف و دفاع میں ان کا ممتاز اسلوب بھی تھا جس سے ہزاروں علماء کرام نے استفادہ کیا ہے۔ ان کے بعد جامعہ نصرۃ العلوم کی تدریس و تعلیم کے ماحول میں اس ذوق کو برادرم مولانا عبد القدوس خان قارن اور عزیزم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے بحسن و خوبی سنبھال رکھا ہے۔ اور وہ بحمد اللہ تعالیٰ ترمذی شریف کی خصوصی تدریس کے اس تسلسل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

شیخین کریمینؒ کے متنوع ذوق اور اس کے اظہار کا تذکرہ کیا ہے تو ’’تحدیث نعمت‘‘ کے طور پر اپنے ایک ذوق کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا کہ آیات قرآنی اور احادیث نبویہؓ کی آج کے دور میں عملی تطبیق کی صورتیں کیا ہو سکتی ہیں اور اسلامی احکام و قوانین کے باب میں آج کی دنیا کے ساتھ ہمارے اختلافات کیا ہیں؟ اس کا اظہار اسباق کے دوران تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے لیے دورۂ حدیث میں جمعرات کے روز ایک مستقل پیریڈ بھی ہوتا ہے جس میں اس طرح کی باتیں ہلکے پھلکے انداز میں کرتا رہتا ہوں اور بہت سے طلبہ کا کہنا ہے کہ اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

جامعہ نصرۃ العلوم کا شعبہ تجوید و قراء ت بھی ماشاء اللہ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ مولانا قاری سعید احمد (فاضل نصرۃ العلوم) کی محنت اور راہ نمائی سے اس شعبہ کے متعدد طلبہ بین الاقوامی اور ملکی سطح پر اب تک بہت سی نمایاں پوزیشنیں حاصل کر چکے ہیں جو ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔ اللہ تعالیٰ نظر بد سے محفوظ رکھے، آمین یا رب العالمین۔ 

جامعہ کے شعبہ بنات کی صدر معلمہ میری بیٹی ہے جو حضرت والد محترم ؒ کی پوتی اور حضرت صوفی صاحبؒ کی بہو ہے اور تیسری نسل میں دورہ حدیث کی تدریس کا تسلسل قائم رکھنے کا اعزاز اسے حاصل ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے دوسرے اسباق کے علاوہ مسلم شریف بھی پڑھا رہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ اس سال شعبہ بنات کی ثانویہ عامہ کی دو طالبات نے جو سگی بہنیں ہیں، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحان میں صوبائی سطح پر دوم اور سوم پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔ 

قارئین سے درخواست ہے کہ جامعہ نصرۃ العلوم کی ترقیات و قبولیت کے لیے بارگاہ ایزدی میں دعا کرتے رہیں۔ 

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(اگست ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter