نشے کی طلاق اور طلاق کے لیے عقل و ہوش کا مطلوبہ معیار

مولانا مفتی محمد زاہد

ذیل کی سطور آج سے پانچ چھ سال قبل لکھ کر ملک متعدد اہلِ افتا کی خدمت میں بھیجی گئی تھیں ٗ تاکہ اس کے ذریعے اس مسئلے پر غور کی دعوت دی جائے۔ تاہم ایک دو کے علاوہ کسی جگہ سے اب تک جواب سے سرفرازی نہیں ہوسکی۔ اب ان گذارشات کو اس لیے شائع کیا جارہا ہے کہ وسیع پیمانے پر اہلِ علم تک پہنچا کر ان کی آراء سے استفادہ کیا جاسکے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: کل طلاق جائز الاطلاق المعتوہ المغلوب علی عقلہ (جامع الترمذی رقم : ۱۱۹۱)۔اگرچہ تکنیکی طور پر اس حدیث کی سند پر محدثانہ کلام ہوسکتی ہے اور خود امام ترمذی نے بھی اس حدیث کے ایک راوی عطاء بن عجلان جو اسے روایت کرنے میں متفرد ہیں بہت ضعیف ہیں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے ہاں اس مضمون کو قبولِ عام حاصل ہے ۔ امام ترمذی نے اسے حدیث کو ضعیف قرار دینے کے بعد کہا ہے کہ اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔ اس کے علاوہ یہی مضمون حضرت علیؓ سے موقوفا بھی نقل کیا گیا ہے اور وہ سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے تعلیقا ذکر کیا ہے۔

اس حدیث کی بنیاد پراس بات پرفقہاء کے درمیان اتفاق پایاجاتاہے کہ زوالِ عقل وقوعِ طلاق سے مانع ہے، یعنی جس کی عقل زائل ہوچکی ہو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔لیکن قابلِ غوربات یہ ہے کہ زوالِ عقل کاوہ کون سا درجہ ہے جوطلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے، آیااس کے لیے بالکلیہ عقل کازائل ہوجانایعنی جنون کی حدتک پہنچ جانا شرط ہے یااس سے کم درجہ بھی کافی ہے، نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم جاننے سے پہلے اس سوال کاجائزہ لے لینامناسب معلوم ہوتاہے۔

زیرِبحث مسئلے کے علاوہ متعدد مواقع ایسے ہیں جہاں فقہاء ، بالخصوص فقہائے حنفیہ نے زوالِ عقل کی وجہ سے طلاق نافذ نہ ہونے کاحکم لگایاہے،جوحسبِ ذیل ہیں۔

۱) معتوہ کی طلاق

جس طرح مجنون کی طلاق واقع نہیں ہوتی اسی طرح فقہاء بالخصوص فقہائے حنفیہ کی تصریح کے مطابق’’معتوہ‘‘کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی، (الدرالمختار ۳/۲۴۳ )۔ ’’عتہ‘‘ کی وضاحت کرتے صاحبِ درمختار نے لکھاہے: ’’ھو اختلال فی العقل‘‘۔ علامہ شامی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے البحرالرائق کے حوالے سے نقل کیاہے کہ مجنون اورمعتوہ کے درمیان فرق کے سلسلے میں سب سے بہتر بات یہ ہے کہ معتوہ وہ ہوتاہے جس کی سمجھ بوجھ کم ہو، اس کی گفتگو غیر مربوط ہو اوراس کی تدبیر فاسدہو، البتہ وہ گالی گلوچ اورمارپیٹ نہ کرتاہو، جبکہ مجنون کی علامات اس سے مختلف ہوتی ہیں۔شامی کے نقل کردہ الفاظ یہ ہیں:

وأحسن الاقوال فی الفرق بینہما أن المعتوہ ہوقلیل الفہم، المختلط الکلام ، الفاسد التدبیر،لکن لایضرب ولایشتم ،بخلاف المجنون ۔ (حاشیہ ابن عابدین علی الدرالمختار ج۳ص ۲۴۳)

۲) جائز نشے کی حالت میں طلاق

اگرنشہ کسی ایسے سبب سے جوگناہ کاموجب نہ ہو ،مثلاًبعض ادویہ جن میں نشے کی تاثیر بھی ہوتی ہے انہیں دواکی نیت سے استعمال کیا،لیکن اتفاقاً نشہ آگیا اوراسی حالت میں طلاق دے دی تواکثرفقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس نشے کی تعریف کیا ہے ، یا نشے کاکون سا درجہ مرادہے،توامام ابوحنیفہ سے نقل کیاگیاہے کہ’’سکران‘‘سے مراد وہ شخص ہے جس کی عقل اتنی زائل ہوچکی ہو کہ اسے زمین وآسمان اورمرد عورت کی تمییز باقی نہ رہے، جبکہ صاحبین کے نزدیک نشے کی حالت سے مراد ایسی کیفیت ہے جس میں آدمی بے ہودہ اوربے ربط سی باتیں کرتاہو۔یہاں اول تواکثرمشائخِ حنفیہ نے اس مسئلے میں صاحبین کے قول کو اختیار کیاہے، چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:

ومال أکثرالمشائخ الی قولہما ، وہو قول الأئمۃ الثلاثۃ، واختاروہ للفتوی،لأنہ المتعارف،وتأیّد بقول علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ : ’’اذاسکر ہذی ‘‘۔۔۔ وبہ ظہر أن المختار قولہما فی جمیع الأبواب فافہم (حاشیہ ابن عابدین علی الدر المختار ج ۳، ص ۲۳۹)

دوسرے علامہ شامی نے ابن الہمام سے نقل کیاہے کہ امام صاحب نے نشے کے لیے جوشرط لگائی ہے کہ اسے زمین وآسمان کی تمییز نہ رہے اس سے مرادوہ نشہ ہے جس کی وجہ سے حد واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرنشہ اس سے کم درجے کاہے توشبہ پیدا ہوجائے گا اورشبہ کی وجہ سے حدساقط ہوجاتی ہے۔جہاں تک حد کے علاوہ باقی احکام کاتعلق ہے مثلاًاس کے تصرفات کانافذ نہ ہونا تواس کے لیے امام صاحب کے نزدیک بھی نشے کی وہی تعریف ہے جوصاحبین کے نزدیک ہے، ابن الہمام کے الفاظ یہ ہیں:

’’وأما تعریفہ عندہ فی غیر وجوب الحد من الأحکام فالمعتبر فیہ عندہ اختلاط الکلام والہذیان کقولہما‘‘۔

پچھلی عبارت میں اکثرمشائخ کی دلیل میں جوکہاگیاتھا’’لأنہ المتعارف‘‘اس سے معلوم ہواکہ کسی شخص کے نشے میں ہونے یانہ ہونے کامدار عرف پر ہے ۔ عرفاً جس شخص کو نشے میں سمجھا جائے وہ شرعاًبھی سکران ہوگا،یہی بات شافعیہ میں سے نووی نے کافی بحث کے بعد نقل کی ہے اور اسے اقرب قرار دیا ہے۔(روضۃ الطالبین ۸/۶۳)

اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے زوالِ عقل کایہ درجہ شرط نہیں ہے کہ اسے اپنے آپ کا، اپنے اردگرد کا اوراپنی کہی ہوئی باتوں کاہی ہوش نہ ہو ،بلکہ اتناہی کافی ہے کہ اسے اپنی گفتگو پرکنٹرول نہ ہو۔ 

۳) نابالغ بچے کی طلاق

حنفیہ اوردیگر کئی فقہاء کے ہاں نابالغ کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ،اگرچہ وہ قریب البلوغ ہویاصبی ممیز ہویعنی اسے طلاق وغیرہ ایسے تصرفات کی سمجھ ہو، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ابن الہمام لکھتے ہیں :

معلوم من کلیات الشریعۃ أن التصرفاتِ لاتنفذ الاممن لہ أہلیۃ التصرف،وأدرنا ہا بالعقل والبلوغ ،خصوصاماہو دائر بین الضرر والنفع ، خصوصا مالا یحل الا لانتفاء مصلحۃ ضدہ القائم کالطلاق ، فانہ یستدعی تمام العقل ، لیحکم بہ التمییز فی ذلک الأمر ولم یکفِ عقلُ الصبی العاقل لأنہ لم یبلغ الاعتدال۔۔۔(فتح القدیر ج ۳ ص ۴۸۷)

اس سے معلوم ہواکہ طلاق کے نفاذکے لیے عقل یاہوش وحواس کا فی ا لجملہ موجود ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ’’تمام العقل ‘‘کاہونا یعنی ایسی ذہنی کیفیت کاہونا ضروری ہے جس میں وہ تصرف کرنے سے پہلے اورلفظ زبان سے نکالنے سے پہلے اس معاملے پر مرتب ہونے والے نفع ونقصان میں موازنہ کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ 

۴) غصے کی حالت میں طلاق 

علامہ شامیؒ نے رد المحتار میں ’’طلاق المدہوش ‘‘اور’’طلاق الغضبان‘‘پرتفصیلی بحث کی ہے،انہوں نے ابن القیم ؒ کے رسالہ ’’طلاق الغضبان ‘‘ سے نقل کیاہے کہ غصے کی تین حالتیں ہیں۔ایک ابتدائی حالت ہے، جس میں آدمی کوپتا ہوتاہے کہ میں کیا کہ رہاہوں اورجوکچھ کہ رہاہوتاہے قصداور ارادے سے کہ رہاہوتاہے اس حالت میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایک انتہائی حالت ہے کہ غصے کے غلبے کی وجہ سے اسے پتاہی نہ ہو کہ میں کیاکررہاہوں، اوربغیر قصدو ارادے کے اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہوں، اس حالت میں دی گئی طلاق کے بلاشک وشبہ واقع نہ ہونے کاحکم لگایاجائے گا ۔تیسری حالت وہ ہے جومذکورہ ان دوکیفیتوں کے بین بین ہے ، اس صورت میں دی گئی طلاق کاحکم قابلِ غور ہوسکتاہے، دلائل کامقتضا یہاں بھی یہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق واقع نہ ہو۔

ابن القیم کے حوالے سے مذکورہ بالاتفصیل نقل کرنے کے بعد علامہ شامیؒ نے اس پر وارد ہونے والے بعض اشکالات کاجواب دینے کے بعد ابن القیم کی رائے کی تائید کرتے ہوئے اس طرف رجحان ظاہر کیاہے کہ ’’مدہوش‘‘ اور ’’غضبان‘‘ کے بارے میں مذکورہ مثالوں میں فقہاء کی تصریحات اور تعلیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق کے واقع ہونے کے لیے طلاق دینے والے میں عقل کاجودرجہ ضروری ہے کہ اس میں صرف یہ شرط نہیں ہے کہ علم اورارادہ موجود ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تصرف سمجھ بوجھ کی حالت میں کیاہو۔ سمجھ بوجھ سے مرادیہ نہیں ہے کہ طلاق دینے والا بہت زیرک شخص ہو،نہ ہی یہ مراد ہے کہ وہ عملاًتمام عواقب ونتائج پراچھی طرح غورکرکے اس طرح کا قدم اٹھائے بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ اس کی ذہنی حالت ایسی ہوکہ اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال کرنا چاہے توکرسکتاہو ۔ اگر اس حوالے سے اس کی ذہنی حالت نارمل ہے توبغیر سوچے سمجھے طلاق دے دیتاہے تواس کی حماقت کے باوجود طلاق واقع ہو جائے گی۔ تاہم اگرکوئی ایسا عارضہ لاحق ہے جس کی وجہ سے اس کی ذہنی حالت غیر عادی اورابنا رمل ہوگئی ہے اوروہ سمجھ بوجھ کر بات نہیں کرسکتا جیسے سکران (بسبب جائز ) مدہوش،معتوہ، مجنون اورنائم وغیرہ میں ہوتاہے یااس کی سمجھ بوجھ شریعت کی نظر میں ابھی نشوونما کے مراحل میں ہے جیسے نابالغ میں ہوتاہے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

حاصل یہ کہ طلاق کے وقو ع کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق دینے والا شرعی طورپر اکتمالِ عقل (بلوغ)کے بعد اسے استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہو، خواہ عملاًاسے استعمال کرے یانہ کرے ۔دوسرے لفظوں میںیوں کہاجاسکتاہے کہ اس کی ذہنی حالت اس کے قابو میں ہو۔ حدیث کے الفاظ ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ ‘‘کا مقتضا بھی یہی ہے۔ کیونکہ حدیث میں جس کو وقوعِ طلاق سے مستثنیٰ کیا جارہا ہے وہ مفقود العقل نہیں بلکہ مغلوب العقل ہے۔ 

یہاں تک لکھنے کے بعد سرخسی کی ایک عبارت مل گئی جس میں وہ نشے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

لأن بالسکر لایزول عقلہ وانما یعجز عن استعمالہ لغلبۃ السرورعلیہ ۔
اس میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اوپر فقہا کے ذکر کردہ متفرق احکام سے مستنبط کی گئی تھی۔

اوریہ بات طے شدہ ہے کہ اگرنشہ حرام سبب سے نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی ، معلوم ہواکہ عدمِ وقوع طلاق کے لیے آخری درجے کازوالِ عقل ضروری نہیں ، بلکہ اس کے استعمال سے عاجز ہونا کافی ہے۔ مدہوش اور غضبان دونوں میں طلاق واقع نہ ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ بد حواسی اس حد تک پہنچ جائے کہ اسے معلوم ہی نہ ہوکہ وہ کیاکررہاہے،بلکہ غلبۂ ہذیان اورسنجیدہ وغیر سنجیدہ گفتگو کاملاجلاہونا کافی ہے، تائید میں انہوں نے ’’سکران‘‘(جبکہ نشہ حرام سبب سے نہ ہو) کی مثال پیش کی ہے کہ اس میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق نشے کااتنا درجہ ہی کافی ہے، آگے چل کرعلامہ شامیؒ نے مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھاہے کہ اگرمدہوش ،غضبان اورسکران وغیرہ جوکچھ کہ رہے ہیں وہ انہیں معلوم بھی ہے اورکہ بھی قصدا اورارادے سے رہے ہیں لیکن عمومی گفتگو سے عقل کااختلال واضح ہورہاہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لیے کہ سمجھ بوجھ کے صحیح نہ ہونے کی وجہ سے ان کاقصد اورارادہ غیرمعتبر ہے جیساکہ صبی ممیز میں ہوتاہے کہ وہ اگرطلاق دے تواپنے قصداورارادے سے دیتاہے لیکن سمجھ بوجھ کے مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی۔ 

علامہ شامی کی بحث کے چند اقتباسات یہاں پیش کیے جاتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں:

’’والذی یظہر لی أن کلامن المدہوش والغضبان لایلزم فیہ أن یکون بحیث لایعلم مایقول،بل یکتفی فیہ بغلبۃ الہذیان واختلاط الجد بالہزل کما ہو المفتی بہ فی السکران علی مامر‘‘۔

وہ مزید لکھتے ہیں:

والذی ینبغی التعویل علیہ فی المدہوش ونحوہ إناطۃ الحکم بغلبۃ الخلل فی أقوالہ وأفعالہ، الخارجۃ عن عادتہ، وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ ،فما دام فی حال غلبۃ الخلل فی الأفعال والأقوال لاتعتبر أقوالہ، وان کان یعلمہا ویرید ہا، لأن ہذہ المعرفۃ والإرداۃ غیرہ معتبرۃ لعدم حصولہا عن إدراک صحیح کما لا تعتبر من الصبی العاقل۔ (شامی ج۳ص ۲۴۴)

۵) ذہنی مریض کی طلاق

مذکورہ تفصیل سے ایسے لوگوں کی طلاق کاحکم بھی معلوم ہوگیا جوڈیپریشن وغیرہ نفسیانی بیماریوں کے دورے کے دوران طلاق دے دیتے ہیں ، آج کل اس طرح کے نفسیاتی امراض بہت عام ہیں اوربہت سے حالات میں تو ان کاسبب ہی ازدواجی اورخاندانی مسائل ہوتے ہیں ،اگر کوئی دوسر ا سبب بھی ہوتب بھی ان نفسیاتی کیفیات کی تان زیادہ ترگھریلومعاملات پرہی ٹوٹتی ہے اورمریض اپنی بھڑاس یہاں نکالنے کوشاید زیادہ آسان سمجھتاہے ،اس لیے اس طرح کے مریض کے گھریلو معاملات پر تکرار کے دوران اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ خاص اشتعالی یادورے کی کیفیت میں ہو، اگرکوئی شخص واقعتاایسی کیفیت میں طلاق دے دیتاہے تومذکورہ بالاتفصیل سے معلوم ہوتاہے کہ اس کی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ، اوپر ذکرکردہ علامہ شامی کی عبارت ’’وکذا یقال فیمن اختل عقلہ لکبر أو مرض أو لمصیبۃ فاجأتہ‘‘ سے یہی مستفاد ہوتاہے۔

آج کل دیکھا یہ گیاہے کہ بعض اوقات طلاق دینے والاواقعتانفسیاتی مریض اورنفسیاتی معالج کے زیرعلاج ہوتاہے۔ اس کے معالج کی اس بات پر تصدیق بھی ہوتی ہے کہ اس کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ ناگوار بات سننے یادیکھنے کی صورت میں اس کی ذہنی حالت قابو سے باہر ہوجاسکتی ہے اوروہ جو منہ میں آتاہے کہ ڈالتاہے ،اپنی سمجھ بوجھ کواستعمال کرنا اس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود طلاق کے واقع ہونے کافتوی دے دیا جاتاہے ،جوکہ مذکورہ تفصیل کے مطابق خلافِ اصول ہے۔ 

البتہ یہ الگ معاملہ ہے کہ طلاق دینے والا یہ دعوی کرتاہے کہ اس کے طلاق دینے کے وقت یہی کیفیت تھی توکب اس کی بات تسلیم کی جائے گی کب نہیں، بہرحال اگریہ بات ثابت ہوجائے کہ وہ پہلے سے اس طرح کامریض چلاآرہاہے تواس کی یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے۔ 

اس تفصیل کے بعد اب ہم آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف، یعنی نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کاحکم کیاہے، تواس سلسلے میں پہلے فقہاء کے مذاہب پر نظر ڈال لینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ 

حنفیہ کے ہاں معروف اورمفتی بہ قول کے مطابق نشہ اگر ایسے سبب سے ہوجومعصیت نہ ہو توسکران کی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر نشہ کسی ایسے سبب سے ہے جومعصیت ہے تو نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس دوسری قسم کے نشے میں خمر توبالاتفاق داخل ہے۔ دیگر ناجائز نشوں کے بارے میں متعدد مواقع پر اقوال کااختلاف بھی ہے ،بالخصوص غیرمائع نشہ آور چیزیں مثلاًبھنگ،افیون وغیرہ ، یاوہ مائع نشہ آورچیزیں جوانگور، کشمش ،کھجور اورچھوارے سے نہ بنی ہو۔، تاہم متأخرین کاعمومی رجحان ان چیزوں کے نشے میں بھی طلاق کے وقوع کی طرف ہے، الایہ کہ استعمال کرنے والے نے ان میں سے بطوردوااستعمال ہونے والی چیز بطور دواہی استعمال کی ہو۔ 

حنفیہ میں سے طحاوی اورکرخی نے ترجیح اس بات کو دی ہے کہ کسی بھی قسم کے نشے میں کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، امام زفر اور محمد بن سلمہ کا مذہب بھی یہی نقل کیاگیاہے ،علامہ علاؤ الدین شامی کی ایک عبارت (تکملہ ج ۸ص ۱۹۷)سے معلوم ہوتاہے کہ حسن بن زیاد کا مذہب بھی یہی ہے ،امام غزالی نے الوسیط(۵/۳۹۰) میں امام ابویوسف کامذہب بھی یہی نقل کیاہے ،تاتارخانیہ میں بعض کتب سے اس کا مفتی بہ قول ہونا بھی نقل کیاہے ،لیکن شامی نے اسے عام متون کے خلاف قراردیاہے ۔

مالکیہ میں سے بعض حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، لیکن مالکیہ کے ہاں معروف یہ ہے اورخودامام مالک کی تصریح بھی یہ ہے کہ یہ طلاق واقع ہوجائے گی، البتہ مالکیہ کے ہاں اس بارے میں اختلاف پایاجاتاہے کہ وقوعِ طلاق کی وجہ کیا ہے،ایک رائے یہ ہے کہ چونکہ نشے میں کی حالت میں عقل بالکل زائل نہیں ہوتی بلکہ کچھ نہ کچھ باقی رہتی ہے اس لیے اس کاتصرف نافذ ہوگا ۔اس قول کے مطابق اگرنشہ اپنی انتہاء کوپہنچ جائے اورعقل بالکلیہ زائل ہوجائے توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس وجہ کے مطابق مالکی اورحنفی مذہبوں میں اصولی اختلاف ہوجائے گا،کہ حنفیہ کے نزدیک طلاق کے عدمِ نفاذ کے لیے زوالِ عقل شرط نہیں بلکہ اس کامغلوب ہوناہی کافی ہے ، جبکہ مالکیہ کی اس توجیہ کے مطابق عدمِ وقوعِ طلاق کے لیے زوالِ عقل ضروی ہوگا۔ مالکیہ کے ہاں طلاق واقع ہونے کی دوسری توجیہ یہ ہے کہ چونکہ اس نے اپنی ذہنی کیفیت خوداپنے اختیار سے حرام سبب سے پیداکی ہے اس لیے اس کااعتبار نہیں کیاجائے گا ، اوراس پر ہوش وحواس والے شخص کے احکام جاری ہوں گے ۔اس توجیہ کے مطابق اگرنشا اپنی انتہاء کو بھی پہنچا ہواہو، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الشرح الکبیر ج ۲ص ۳۶۵ ٗ التاج والاکلیل ج ۴ ص ۴۳)

شافعیہ کے ہاں اگرتونشہ کسی ایسے سبب سے ہوجس میں اس شخص کی تعدّی اورغلطی نہ ہوتوبالاتفاق طلاق نہ ہوگی ، اوراگرنشہ کسی ناجائز سبب سے ہو تو امام شافعی کے اس مسئلے میں دوقول ہیں،ایک یہ کہ طلاق واقع نہیں ہوئی ،دوسرایہ کہ طلاق واقع ہوجائے گی۔ پہلے قول کوقولِ قدیم قرادیاگیا ہے، اورابوثور،مزنی ، ابوسہل ، ابوطاہر الزیادی نے اسے ہی اختیار کیاہے اورامام غزالی نے اسے اقیس قرار دیاہے (الوسیط ج ۵ص ۳۹۰ ، روضۃ الطالبین ج۸ص۶۲) جبکہ دوسرے قول کو قولِ جدید قرار دیاگیا ہے اوربیشتر شافعیہ نے اسی کوترجیح دی ہے۔ 

سکران کے حکم بارے میں مرداوی نے الانصاف میں امام احمد سے پانچ روایتیں ذکر کی ہیں، ان میں تین کے مطابق طلاق واقع نہیں گی اور دوکے مطابق واقع ہوجائے گی، ترجیح میں بھی حنابلہ کے اقوال مختلف ہیں۔

صحابہ وتابعین میں سے سعید بن المسیب ،حسن بصری،ابراہیم نخعی ،زہری اورشعبی وغیرہ وقوعِ طلاق کے قائل ہیں، حضرت عمررضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کافیصلہ نقل کیاجاتاہے ۔جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سندِ صحیح کے ساتھ ثابت ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوگی اوریہی مذہب منقول ہے القاسم بن محمد، طاؤس ،عکرمہ ،عطا اورابوالشعثاء وغیرہ سے ۔عمربن عبدالعزیز پہلے طلاق واقع ہونے کے قائل تھے،بعد میں رجوع کرلیاتھا اورواقع نہ ہونے کے قائل ہوگئے تھے۔ 

جوحضرات طلاق سمیت سکران کے اقوال کومعتبر اورنافذ مانتے ہیں انہوں نے اس مسئلے پرکوئی واضح نص پیش نہیں کی ،جن نصوص سے کسی درجے میں استدلال کیابھی ہے تووہ ان حضرات کے لیے مفید ثابت ہوسکتاہے جومطلقاًنشے کی حالت کومزیلِ اہلیت نہ مانتے ہوں اس لیے کہ اس میں عقل بالکلیہ زائل نہیں ہوتی خواہ نشہ جائز سبب سے ہومثلاً قرآنی آیت: یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَۃَ وَأَنتُمْ سُکَارَی [النساء ۴:۴۳] سے بعض فقہائے حنفیہ نے بھی استدلال کیاہے، قطع نظر اس امر کے کہ یہ استدلال کس حد تک واضح ہے اس پر یہ اشکال باقی رہتاہے کہ یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب شراب حرام نہیں ہوئی تھی اس لیے اس سے ثابت ہونے والے اصول کااطلاق جائز نشے کی حالت پربھی ہونا چاہیے جبکہ حنفیہ کے نزدیک ایسانہیں ہے ۔

دوسری طرف جن حضرات کے نزدیک نشے کی حالت میں اقوال نافذ اورمعتبر نہیں ہیں ان کاایک اہم استدلال ماعزسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے واقعات سے ہے کہ ان کے اقرار کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال یہ بھی کیاکہ اس نے کہیں شراب تونہیں پی ہوئی ۔ اس سے معلوم ہواکہ نشے کی حالت میں کیاگیا اقرار معتبر نہیں ہے، اگرچہ اس پریہ کہاجاسکتاہے کہ حدود چونکہ شبہات کی وجہ سے ساقط ہوجاتی ہیں اورنشے کی حالت میں اقرار بھی شبہ سے خالی نہیں اس لیے اس اقرارکااعتبارنہیں کیاگیا۔ البتہ حدیث کے الفاظ’’المعتوہ المغلوب علی عقلہ‘‘ کا عموم ان حضرات کی اہم دلیل ہے کہ اس میں اس بات کی وجہ سے فرق نہیں کیاگیاکہ یہ غلبہ عقل جائز سبب سے ہویاناجائز سے۔ 

بہرحال مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی کہ جوحضرات حرام نشے کی حالت میں وقوعِ طلاق کے قائل ہیں بالخصوص حنیفہ اور شافعیہ ان کا مذہب کسی نص صریح پر مبنی نہیں ہے، اسی طرح ان حضرات کی یہ رائے قیاس اوراصول پربھی مبنی نہیں ہے،اس لیے کہ شروع میں ثابت کیا جاچکاہے کہ ان کے نزدیک اہلیتِ طلاق کے زائل ہونے کے لیے جنون کی کیفیت کاہونا ضروری نہیں بلکہ عقل کامغلوب ہوناہی کافی ہے اور یہ بات نشے میں ہوتی ہے جس کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ اسی طرح کانشہ اگرجائز سبب سے ہو توان حضرات کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ اس لیے اگرچہ بعض حنفیہ نے حرام نشے کی حالت میں طلاق کے و قوع پر اصول سے استدلال کی کوشش کی ہے لیکن ان سب استدلالات پر ایک عمومی اعتراض یہی کیا جاسکتاہے کہ ان دلائل کے مطابق حلال نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے ۔

ناجائز نشے میں دی گئی طلاق کے وقع ہونے کی اصل وجہ وہی ہے جوتقریباًتمام فقہائے حنفیہ اورشافعیہ نے ذکر کی ہے ،جس کاحاصل یہ ہے کہ اگرچہ نشے کی حالت بذاتِ خود طلاق کے واقع ہونے سے مانع ہے لیکن یہاں یہ مانعیت اپنا اثر اس لیے نہیں دکھائے گی کہ اس نے یہ حالت خود معصیت کے راستے سے پیدا کی ہے۔ گویا نہ صرف یہ کہ وقوعِ طلاق کافتویٰ اصول کامقتضا نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ ایک اصول کی تاثیر کونظرانداز کرکے گویا خلافِ قیاس دیاگیاہے۔

نشے کی حالت زوالِ اہلیت طلاق کاایک سبب ہے،لیکن یہاں طریق کار کے معصیت ہونے کی وجہ سے اس سبب کااثر مرتب نہیں ہوگا، تو کیا یہ بھی کوئی اصول ہے کہ معصیت کسی سبب کی تاثیر میں مانع بن جاتی ہے۔ توکم ازکم حنفیہ کے ہاں عموماایسانہیں ہوتا، اس کی ایک واضح مثال سفرِمعصیت میں قصرٗحالتِ حیض کی طلاق، اکٹھی تین طلاقیں ، ارض مغصوبہ میں نماز وغیرہ ہیں ۔ اسی طرح غصب وغیرہ کے کئی احکام سے اس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔یہی اعتراض حافظ ابن حجر نے امام طحاوی کاوقوع طلاق کے قائلین پرنقل کیاہے۔(فتح الباری ۹/۱۹۳) اگربغوردیکھا جائے تووقوع طلاق کے قائلین کوامام طحاوی کی بات کی معقولیت سے بظاہر انکار نہیں ہوگا ۔ اس لیے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین پر یہ اعتراض تب ہوتا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے کہ وقوعِِ طلاق کافیصلہ اصول اورقواعد یاقیاس کی بنیاد پر ہے، جبکہ ان حضرات کامنشایہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ ان حضرات نے جولفظ استعمال کیے ہیں وہ عموماًدوہیں ایک تغلیظ کا دوسرے زجر۔تغلیظ کے معنی یہ ہیں کہ اگرچہ وہ اصولی طورپر اس ’’رعایت‘‘کامستحق تھاکہ اس کی طلاق واقع نہ ہو لیکن اس کے غلط طریقِ کار کی وجہ سے بطور سزایہ رعایت اسے نہیں دی جائے گی۔ اورزجر کے معنی یہ ہیں کہ جب نشے کی حالت میں دی گئی طلاق ہم نافذکردیں گے تویہ خودبھی اوردوسرے لوگ بھی آئندہ نشہ کرنے سے گریز کریں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ کم از کم حنفیہ کے ہاں وقوعِ طلاق کا حکم محض انتظامی ہے اصولی یا منصوص نہیں ہے۔ مذکورہ بالابحث کامقصد بھی دلائل کے اعتبارسے کسی قول کوراجح یامرجوح قراردینا نہیں ہے۔بلکہ یہی دیکھنا ہے کہ وقوعِ طلاق کے قائلین کااصل منشاکیاہے، حقیقت یہ ہے کہ اگراس کوحکم انتظامی قرار نہ دیاجائے تواشکالات کاایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اورظاہر ہے کہ انتظامی نوعیت کے حکم کاانحصار حالات پربھی ہوتاہے جیسے سدّذریعہ وغیرہ پر مبنی احکام میں ہوتاہے، اس لیے حالات کی تبدیلی کی صورت میں ایسے احکام میں بھی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ 

آج کے حالات کے پیشِ نظر نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کا فتوی کئی وجوہ سے نظر ثانی کامحتاج معلوم ہوتاہے، مثلاً: 

۱)جیساکہ اوپر بیان ہوابیشتر فقہا ء بالخصوص فقہائے حنفیہ نے سکران کی طلاق کو ’’تغلیظاً‘‘، ’’عقوبۃً‘‘ اور ’’تشدیداً‘‘ نافذ قرار دیا ہے۔ اس مسئلے میں فقہاء کی عبارات اتنی کثرت سے ہیں کہ ان کا احاطہ دشوار ہے ،ظاہر ہے کہ ’’تغلیظ‘‘، ’’تشدید‘‘ اور ’’عقوبت‘‘ اسی شخص پرہونی چاہیے جس سے معصیت کاصدور ہواہے، اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان فقہاء کے پیش نظر عموماًوہ صورتیں تھی جن میں وقوعِ طلاق کانقصان خاوند کوہوتا ہے ،جبکہ ہمارے زمانے میں بالخصوص برّصغیر کے سماجی حالات میں عموماً طلاق کے اثراتِ بد مرد سے کہیں زیادہ بیوی اوراس کے بچوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک کے کیے کی سزا دوسروں کودینا جبکہ جس حکم کے ذریعے سزادی جارہی وہ غیر منصوص ہو بلکہ نص (المغلوب علی عقلہ)کے عموم اورعام اصول کے بھی خلاف ہو،قرین مصلحت اورقرینِ انصاف نہیں ہے۔

۲)فقہاء نے وقوع طلاق کی ایک وجہ ’’زجر‘‘بیان کی ہے ،لیکن اول توہمارے زمانے میں یہ سوال اہم ہے کہ وقوع طلاق کے فتوے سے یہ مقصد حاصل ہوبھی رہاہے یانہیں، دوسرے اس کامطلب یہ ہواکہ یہ حکم ایک مصلحت کے حصول یاایک مفسدے کے ازالے کے لیے ہے، یعنی لوگ نشے سے بچ جائیں۔ نشہ بھی ایک مفسدہ ہے اورطلاق بھی ایک مفسدہ ہے ٗجسے ابغض الحلال قراردیاگیاہے اورحدیث شریف میں بتایا گیاہے کہ ابلیس اپنے اس چیلے کوزیادہ شاباش دیتاہے جو زوجین میں تفریق کراکے آیاہو، بالخصوص ہمارے ماحول میں اس کے مفاسد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،معاشی تنگی، مفادپرستی اور خود غرضی کے ماحول کی وجہ سے بیوی بچوں کی کفالت کے بے شمار پیدا ہوجاتے ہیں اور بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے پیداہونے والے مسائل اس سے بھی سنگین ہوتے ہیں۔ ان حالات میں وقوعِ طلاق اورعدم وقوع دونوں پرمرتب ہونے والے مفاسد کے توازن کومدنظر رکھ کر اس مسئلے پرازسرنو غورکی ضرورت ہے ۔بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ عموماً وقوعِ طلاق کے مفاسد اس متوقع فائدے(زجرعن السکر)سے زیادہ ہوتے ہیں۔نیززجرکافائدہ محتمل ہے اوروقوعِ طلاق کے مفاسد یقینی ، اس لیے ہمارے زمانے میں عدمِ وقوع طلاق کافتوی ہی انسب معلوم ہوتاہے ۔ 

۳)یوں لگتاہے کہ سکران کی طلاق واقع کرنے میں فقہاء کے پیش نظراحتیاط کاپہلو بھی تھا،چنانچہ شہد یااناج سے بنے ہوئے نبیذ مسکر پربحث کرتے ہوئے ابن نجیم بزازیہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :

’’المختار فی زماننا لزوم الحد، لأن الفساق یجتمعون علیہ، وکذا المختار وقوع الطلاق، لأن الحد یُحتال لدرۂ والطلاق یحتاط فیہ، فلما وجب مایحتال لأن یقع مایحتاط أولی‘‘۔

اس سے یہ قاعدہ معلوم ہوتاہے کہ طلاق ان احکام میں سے ہے جنہیں فقہاء بطور احتیاط بھی ثابت کردیتے ہیں،ظاہر ہے کہ احتیاط کو اسی صورت میں اختیار کیاجاتاہے جبکہ اس پر دیگر مفاسد ومضار مرتب نہ ہورہے ہوں۔

۴) جیسا کہ اوپر ذکر ہواسکران کی طلاق واقع ہونے کاحکم منصوص یااصولی نہیں انتظامی ہے۔ اول تو لزومِ مفاسد وغیرہ کی وجہ سے ویسے ہی دوسرے مذہب کواختیار کرنے کی بیسیوں مثالیں فقہاء کے ہاں ملتی ہیں ۔حکم کے انتظامی ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ اورآسان ہوجاتاہے ، اورپھر اس وجہ سے بھی کہ خودحنفیہ میں سے بھی امام زفر، حسن بن زیاد، طحاوی اورکرخی جیسی شخصیات کی آراء عدمِ وقوع کی موجود ہیں۔ مزید برآں یہ کہ ہمارے زمانے میں نشہ یاتوغیرمائع چیزوں سے ہوتاہے یاایسے مائعات سے جوانگور یاکھجور سے بنے ہوئے نہ ہونے کی وجہ سے اشربہ اربعہ سے خارج ہوتے ہیں۔ ان نشوں کی حالت میں طلاق کے بارے میں مشائخِ حنفیہ کے اندرمزید اختلاف موجود ہیں اورتصحیح میں بھی اختلاف ہے۔ مثلاصاحب بحر نے قاضی خان سے عدمِ وقوع کی تصحیح نقل کی ہے، اس لیے عدمِ وقوع طلاق کافتویٰ دینے میں کوئی زیادہ خروج عن المذہب بھی نہیں پایا جا رہا ہے ، اس لیے وقوعِ طلاق والے حکم کی اصل حیثیت وتعلیل کو اورہمارے زمانے اور علاقوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے رجحان اس طرف ہورہاہے کہ طلاق واقع نہ ہونے کافتویٰ دیاجائے۔ البتہ اس میں نشے کی نوعیت کی تفصیل میں جانے سے اورقاضی خان وغیرہ کے قول اختیار کرنے کی صورت میں چونکہ بعض نشوں کی شناعت کم ہونے کااندیشہ ہے، اس لیے درست یہ معلوم ہوتاہے کہ امام زفر ،حسن بن زیاد ،طحاوی اورکرخی جیسے حضرات کی رائے اختیار کرتے ہوئے کہاجائے کہ نشے کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی، قطع نظرنشے کی نوعیت سے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

فقہ / اصول فقہ

(فروری ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter