ہماری خوراک اور دن بدن بڑھتے امراض

حکیم محمد عمران مغل

مشرقی تہذیب وتمدن میں جو امراض آج کل دیکھنے سننے میں آ رہے ہیں، طبی کتب میں ان کا تفصیل سے ذکر ہے، مگر عوامی سطح پر اکثر لوگ ان سے واقف نہیں تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحت اور اخلاق کی بلندی تھی ، مگر اب مشرقی معاشرے بھی پستی اور زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔آج ہر مشرقی انگوٹھی پر مغربی نگینہ دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہماری بود وباش، خور ونوش سب مغربی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگی جا چکی ہے۔ صبح اٹھتے ہی آب حیات یعنی چائے نہ ملے تو ہمارے ہوش وحواس بحال نہیں ہو پاتے۔ میں نے وہ حضرات بھی دیکھے ہیں جنھیں چائے کی خوشبو سونگھتے ہی قے ہونی لگتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں رات کی باسی لسی اور باسی دہی نہ ملے تو دن بھر کام کاج کے قابل نہیں ہوتے۔ پھر انھی حضرات کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے نئی نسل باریک آٹے اور میدے سے بنی اشیا کھا کھا کر طرح طرح کے امراض کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور ہم بے بس ہیں۔ باریک آٹے نے ہی شوگر کا پہاڑ کھڑا کر دیا ہے اور چھوٹا بڑا ہر کوئی شوگر کی بیماری میں جکڑا جا رہا ہے۔ امریکن شوگر سنٹر کے صدر اور امراض بچگان کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر فرانسس نے کہا ہے کہ پیزا، سینڈوچ یا میدہ کی بنی اشیا کے شوقین بچے میرے علاج سے تندرست نہ ہوئے تو تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ سب باریک آٹے کی کارستانی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بچے بھی درجہ دوم کی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

موٹاپے کا عذاب بھی شروع ہو چکا ہے۔ بند بوتلوں کے پانی، بند ڈبوں کی خوراک پر کافی تحقیق ہو چکی ہے۔ بزرگ اطبا نے صدیوں پہلے بتا دیا تھا کہ یہ زہر ہے۔ اس سے دل، دماغ، گردہ اور جگر تباہ ہو جائیں گے۔ آج جو لنگڑے لولے، اپاہج اور پولیو زدہ بچے پیدا ہو رہے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ بچوں کی پیدائش کے کیس بھی خراب ہو رہے ہیں۔ ماؤں میں بچے جنم دینے کی طاقت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کی مایہ ناز ڈاکٹر خالدہ عثمانی بھی بارہا کہہ چکی ہیں کہ میدے کی اشیا سے بچیں اور مشرقی کھانوں کو رواج دیں۔

امراض و علاج

(فروری ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter