۱۹۶۲ء کی بات ہے جب صدر محمد ایوب خان مرحوم نے مارشل لا ختم کرتے وقت نئے دستور کی تشکیل وترتیب کے کام کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ حذف کر کے اسے صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ قرار دینے کی تجویز سامنے آئی تھی تو دینی وعوامی حلقوں نے اس پر شدید احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو یہ تجویز واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی اور میں نے بھی بحمد اللہ تعالیٰ اس جدوجہد میں اس طور پر حصہ لیا تھا کہ اپنے آبائی قصبہ گکھڑ میں نظام العلماء پاکستان کی دستوری تجاویز پر لوگوں سے دستخط کرائے تھے اور اس مہم میں شریک ہوا تھا۔ اس دوران اس حوالے سے ہونے والے عوامی جلسوں میں سعید علی ضیاء مرحوم کی ایک نظم بہت مقبول ہوئی تھی جس کا ایک شعر مجھے اب تک یاد ہے کہ
ملک سے نام اسلام کا غائب، مرکز ہے اسلام آباد
پاک حکمران زندہ باد، پاک حکمران زندہ باد
تب سے اب تک ملک میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کا کارکن چلا آ رہا ہوں، ہر تحریک میں کسی نہ کسی سطح پر شریک رہا ہوں اور اب بھی حسب موقع اور حتی الوسع اس کا حصہ ہوں۔ کسی دینی جدوجہد کے نتائج وثمرات تک پہنچنا ہر کارکن کے لیے ضروری نہیں ہوتا، البتہ صحیح رخ پر محنت کرتے رہنا اس کی تگ ودو کا محور ضرور رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مرتے دم تک اس جادۂ مستقیم پر قائم رہنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین
اس جدوجہد میں مجھے جن اکابر کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے، ان میں مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک، مولانا پیر محسن الدین احمدؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ ، مولانا مفتی ظفر علی نعمانیؒ ، مولانا معین الدین لکھویؒ ، قاضی حسین احمدؒ اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ عوامی جلسوں، جلوسوں، قید وبند کے مراحل اور احتجاجی مظاہروں میں شرکت کے ساتھ ساتھ قلم وقرطاس کا میدان بھی میری جولان گاہ رہا ہیاور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بیسیوں پہلوؤں پر اخبارات وجرائد میں سیکڑوں مضامین لکھنے کی سعادت مجھے حاصل ہوئی ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے موجودہ حالات کے تناظر میں میری ان تحریری گزارشات کا ایک جامع انتخاب ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے عنوان مرتب کیا ہے جو نفاذ اسلام کی جدوجہد کے معروضی تقاضوں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں میرا کوئی الگ فکری یا علمی تعارف نہیں ہے اور میں اس کے کم وبیش تمام پہلوؤں میں انھی بزرگوں اور جمہور علماء کی نمائندگی کرتا ہوں جن میں سے چند بزرگوں کا میں نے سطور بالا میں تذکرہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات جنت الفردوس میں بلند سے بلند فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین
اسلامی نظام اور موجودہ دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف پہلوؤں پر ایک نظر ڈال لی جائے تو غور و فکر کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی امور سامنے آتے ہیں اور ’’اسلام، جمہوریت اور پاکستان‘‘ کے زیر عنوان اس مجموعے میں انھی کو موضوع گفتگوبنایا گیا ہے:
۱۔ اسلام کا تصور ریاست وحکومت کیا ہے اور اسلام حاکمیت اور اقتدار کا سرچشمہ کس چیز کو قرار دیتا ہے؟
۲۔ حکومت کی تشکیل میں عوام کی نمائندگی اور عوامی رائے کی کیا اہمیت ہے؟
۳۔ تاریخی تناظر میں اسلام کا سیاسی نظا م کن کن مراحل سے گزرا ہے؟
۴۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے وجود، امیدواری اور بالغ رائے دہی سے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟
۵۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی کا طریق کار کیا ہے؟
۶۔ مغرب کے پیش کردہ جمہوری فلسفے اور نظام کا اسلام کی نظر میں کیا مقام ہے؟
۷۔ پاکستان میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کے بنیادی اصول کیا رہے ہیں اور اس ضمن میں اب تک کیا پیش رفت ہو چکی ہے؟
۸۔ پاکستان کے تناظر میں نفاذ شریعت کے لیے ریاست کے ساتھ تصادم اور مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
میں نے قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے مطالعہ کی روشنی میں، ان امور پر کچھ معروضات پیش کرنے کی جسارت کی ہے، اس امید کے ساتھ کہ اصحاب علم و دانش ان پر سنجیدہ توجہ دیں گے اور یہ گزارشات اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھانے میں مدد دیں گے۔
یہ مجموعہ اسلام آباد کے ایک تحقیقی ادارے پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے۔ میں اس کی اشاعت پر پاک انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے ان طالب علمانہ گزارشات کو لوگوں تک پہنچانے کو مناسب خیال کیا۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین