اے عاشقانِ رسول، تم پر سلام !

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

لیکن یہ عشق اپنے خاص آداب رکھتا ہے ؂

عشق ہے پیارے کھیل نہیں ہے
عشق ہے کارِ شیشہ وآہن

مؤمن آزاد نہیں ،کہ جو جی میں سمائے اس پر عمل پیرا ہو جائے۔ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں اُسوۂ و طرزِ عمل چھوڑا ہے۔ اہانت کے معاملے بھی پے بہ پے آپ کی زندگی آئے۔ مکی زندگی ہی میں نہیں ،مدنی زندگی میں بھی، اور آپ ؐکے اور آپ کے اصحابؓ کے لیے بنیادی طور پر یہ ہدایتِ ربانی رہنما رہی:

’’تم بالضرور آزمائے جاؤگے اپنے مالوں اور اپنی جانوں میں، اور کتنی ہی دل آزار باتیں بھی تمہیں سننی پڑیں گی اہلِ کتاب اور مشرکین سے ، اور اس کے مقابلہ میں اگر تم نے صبر اور تقوے کی روش سے کام لیا تو یہ یقیناًعزم و ہمت کی بات ہے۔‘‘ (سورہ اٰلِ عمران ۳؍۱۸۶) 

امکان ہو تو بدلہ لینے اور سزا دینے کا جواز اس آیت سے بھی نکل رہا ہے۔ لیکن ترجیح اسی کو مل رہی ہے کہ نظر اندازکیا جائے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ مبارکہ اسی کے مطابق رہا۔ اور یہ اس لیے کہ آپ کے لائے ہوئے دین کی مصلحت وہاںیہی تھی۔اوراس مصلحت سے بڑھ کر کو کوئی چیز ظاہر ہے کہ آپ کو عزیز نہیں ہو سکتی تھی۔اس معاملہ میں مصلحت بینی کی حد یہ ہے کہ سردارِ منافقین عبداللہ بن اُبیّ جس کی شرارتوں اور سازشوں سے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شاید ہی مدنی زندگی کے کسی دن میں چین رہا ہو ،مگر اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت آپ اس کے ساتھ حسنِ سلوک میں دیکھتے تھے تو اپنی ذاتِ پاک کے احساس سے بلند و بالاتر ہونے کا حال یہ رہا کہ اس کی موت پر آپ نے قمیصِ مبارک اس کے کفن کے لیے دی، اس کے منہ میں اپنا لعابِ دہن برائے برکت ٹپکایا اور نمازِ جنازہ ،جو دعائے مغفرت کے ہم معنیٰ ہے ، اس کے باوجود پڑھائی کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا ارشاد نازل ہو چکا تھا کہ ’’ ان منافقین کے لیے تم اے نبی مغفرت مانگو یا نہ مانگو، اگر تم ستر(۷۰)بار بھی ان کے لیے مغفرت مانگو بھی تب اللہ انھیں ہرگز نہ بخشے گا ۔‘‘(التّوبہ ۹؍۸۰) حضرت عمرؓ نے، جو شدت کے مزاج میں معروف تھے، قرآن کی آیت آپؐ کو یاد بھی دلائی، تو فرمادیا کہ مجھے اللہ نے منع نہیں کیا ہے مجھ پر چھوڑ دیا ہے کہ کروں یا نہ کروں۔ اوراگر مجھے یقین ہوتا کہ ستر دفعہ سے زیادہ میں مغفرت ہو جائے گی تب میں زیادہ بھی کرتا۔ (گویا جانتے تھے کہ مغفرت نہیں ہونی )یہ ہے اس ذاتِ گرامی کا اسوۂ مبارکہ جس کے عشق کی بات یہاں گفتگو میں ہے۔اس شخص نے کئی بار واجب القتل ہونے کے کام کیے، بعض مرتبہ تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ قتل کا حکم صادر ہوگا۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور امتِ مسلمہ کی مصلحت اسی میں دیکھی کہ درگذر سے کام لیا جائے۔کیا شان اس پیغمبرِ اعظم کی رفعت و عظمت کی ہے۔ اللّٰھُم صلِّ و سلِّمْ علیٰ عبدکِ و نبِیِّکَ صلوٰۃً وّسلامًا دائمینِ متلازمَینِ الیٰ یومِ الدین۔

پس جب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے تو دشمنانِ انسانیت کی طرف سے جب بھی آپ کی اہانت کی کوئی صورت رونما ہو، جیسا کہ ادھر چند سال سے فرزندانِ مغرب نے اس ملعون عمل کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے، تو ہمارا غم و غصہ تو ایمان کی علامت ہے ۔لیکن ردِ عمل میں ہمیں اسلام اور ملتِ اسلام کی مصلحت دیکھنی ہے اگر ہم مؤمن اور واقعی ’’عاشقِ رسول‘‘ ہیں۔نہیں تو ہم صرف اپنے نفس کو تسکین دینے والے ہوں گے، اورنامِ عشق کو رسوا کرنے والے۔ 

ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ایک نوجوان نے ڈنمارک میں حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے اپنی جان کو کھلے خطرہ میں ڈال کر وہاں کے ایک ملعون فلم ڈائریکٹر ؐکا کام تمام کردیا۔ لیکن اس کا بھی کوئی اثر شیطان کے لشکر پر نہیں ہوا ہے، چہ جائیکہ ہمارے محض مظاہرے اور نعرے۔ آئے دن کسی مغربی ملک میں ایک ملعون اُٹھ رہا ہے اور اپنے سے پہلے والے سے بڑھ کر خباثت کی داد اپنے ہم وطنوں سے چاہ رہا ہے۔تو کیا اپنے ردِ عمل کی یہ بے اثری دیکھتے ہوئے بھی یہ بجا ہوگا کہ اپنے غم و غصہ کے اظہار کے لیے یہ بے اثر طریقے مسلسل آزما تے رہنے کو ہم تقاضائے عشقِ رسول سمجھتے رہیں؟یہ تو ملتِ اسلام کی بے بسی کا اظہار اور شیاطین کی ہمت افزائی ہے کہ وہ کچھ بھی کریں یہ چاردانگِ عالم میں پھیلی ہوئی امت اپنا سینہ پیٹ کر رہ جانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔

آخر ہمیں کیوں کر اپنی اس شرمناک کمزوری کا رہ رہ کر اظہار کرناپسند ہے؟ کہیں ہم اپنے اس احتجاجی عمل کو اس کے مؤثر ہونے نہ ہونے سے قطعِ نظر بجائے خود ایک کارِثواب تو نہیں سمجھ رہے ہیں ؟ خدا نخواستہ اگرایسا ہے، تو پھرہم نے نہ حضور سید الرُسل کے مرتبہ و منزلت کو سمجھا اور نہ آپ کی غلامی میں پوشیدہ عزت کو جانا۔ ہم آپ کے نام پربے بسی کا اظہار کرتے مظاہروں اور جلوسوں کو کارِ ثواب سمجھ رہے ہیں! تفو برتو اے چرخِ گرداں تفو! 

تو پھر ہم کیا کریں؟ یہ ایک مشکل سوال ہے،راقم اپنی سمجھ کے مطابق جواب عرض کرتا ہے جو ایک تجربہ کا نتیجہ ہے ،دوسرے حضرات بھی غور کریں۔ بر طانیہ میں کم لوگ ہوں گے جنھیں رشدی کی کتاب کے خلاف ’’اسلامک ڈیفنس کونسل‘‘ کی سرگرم جد و جہد یاد نہ ہو ۔ راقم نے بھی اس کونسل کے کنوینر کی حیثیت سے اس سلسلہ میں اپنی پوری استطاعت بھر حصہ لینے کو عزت و سعادت سمجھا۔ کونسل نے اپنی جدو جہد کے سلسہ میں کتاب کے پبلیشر پینگوئن کے آفس کو نشانہ بنا کر ایک عوامی مارچ بھی طے کیا تھا ۔۲۸؍جنوری ۱۹۸۹ءء کایہ مارچ، جس میں پورے ملک سے ۲۰۔۲۵ہزار فرزندانِ اسلام نے آپ سے آپ شرکت کی، اس کی شکل اپنے روایتی احتجاج کی بے ثمری کو یاد کرتے ہوئے نیز مغرب کی ایک نئی دنیا کاخیال کرکے اپنے برّصغیر کے روایتی مظاہروں سے بالکل مختلف تجویز کی گئی تھی ۔ اس میں نعرہ زنی اور اظہارِ غیظ و غضب کے بجائے پلے کارڈز کے ذریعہ اپنی جذباتی تکلیف کا اظہار کر کے گویا برطانوی پبلک سے ہمنوائی کی اخلاقی اپیل تھی۔خیال تھا کہ شاید کچھ شریف روحیں ہماری ہم نوائی کو سامنے آئیں اور کتاب کے ناشر اور حکومت پر کچھ دباؤ پڑ سکے۔

ہمارے اس طرزِ احتجاج کی تحسین تو بیشک ہوئی ،(خاص کر اس لیے کہ دوہفتے پہلے انگلینڈ کے ایک شہر میں اس کے بالکل برعکس کتاب سوزی کی صورت میں احتجاج کا آتشیں واقعہ ہو چکا تھا) لیکن جو مقصود تھا وہ حاصل نہیں ہوا۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔اور پھر دوہفتہ بعد آیت اللہ خمینی صاحب نے جو مصنف اور ناشرین کے قتل کا فتویٰ صادر کیا تو وہی حکومت جو انسانیت اور تہذیب و اخلاق کے ناتے ہماری اخلاقی اپیل سے کوئی اثر لینے کو تیار نہ ہوئی وہ رشدی کے تحفظ میں ایسی سرگرم ہوئی جیسے اس ملعون تصنیف میں وہ اس کا ایجنٹ ہو۔ا س تجربہ کے بعد سے ذہن بن گیا کہ یہ مغربی دنیا بالکل الگ ذہن و مزاج کی حامل ہے۔ اسے تو ہم بس کبھی طاقت نصیب ہو تب ہی اپنے احساسات کا احساس کراسکتے ہیں۔چنانچہ اس ایک واقعہ کے بعد اب امریکہ ،اسامہ اور طالبان کے قضئے سے تواس شرارت کی لائن ہی لگ گئی ہے۔ اور ہر شرارت پہلی والی کو پیچھے چھوڑ ے جارہی ہے۔ چنانچہ یہ تازہ فلم والی خباثت ،جیسا کہ لوگ بتاتے ہیں ،خباثت کی ساری ہی حدوں کو پار کرگئی ہے۔اور کہیں کی بھی حکومت ہماری شکایت اور آہ و فغاں پر نوٹس لینے کو تیار نہیں ہے ۔مسلم حکومتوں کے اتحاد(او۔آئی۔سی) کی جانب سے۱۹۹۹ء سے اقوامِ متحدہ میں کوشش ہورہی ہے کہ ’’آزادئ اظہار‘‘ کے اس ننگِ انسانیت مغربی کلچر کو کچھ حدود و قیود کا پابند کیا جائے۔لیکن مغربی حکومتیں کسی طرح اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دے رہیں(اس المیہ کا بڑا تفصیلی بیان ۲۵؍ ستمبر کے ’’دی نیوز‘‘ میں سابق پاکستانی سفیر محترمہ ملیحہ لودھی کے قلم سے نکلا ہوا موجود ہے)۔

یہ بالکل ایک صاف پاگل پن کیا مغرب میں حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین سے نفرت پیدا کرنے کے لائحۂ عمل کے طور پر اختیار کیاگیاہے؟ جی نہیں۔ اس کام کے لیے پاگل پن کی ضرورت نہیں تھی نہ وہ مفیدہے۔ یہ ’’پاگل پن‘‘ اگر کوئی مقصد رکھتا ہے ۔اور یقینًا رکھتا ہے۔تو وہ عالمِ اسلام میں نشأۃِ ثانیہ کے اٹھتے ہوئے آثار سے خوف زدہ ہوکر اس کا راستہ روکنا ہے۔اس کا آغاز امریکہ نے 9/11 کے حوالہ سے ’’دہشت پسندی کے خلاف جنگ‘‘ (War on Terrerism) کا نام دے کر کیا ، جسے بارہواں سال چل رہا ہے،اور جس کے ذریعہ وہ تمام قوتیں جنگی اسلحہ سے تباہ کردینے کی مہم جاری ہے جنھیں امریکہ اس نشأتی لہر کا بازوئے شمشیر زن سمجھ رہاہے۔پھر اس آغاز کے چند سال بعد یہ اشتعال انگیز فلموں اور کارٹونوں کا سلسلہ اسی مہم کا دوسرا پارٹ ہے جس نے مسلم دنیا میں اشتعال انگیزی کا ایک مستقل سلسلہ قائم کردیا ہے ۔ ایک حرکت پر بات ٹھنڈی پڑتی ہے تو دووسری برآمد ۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے یہاں وہ تک ہو رہا ہے جو جمعۃ المبارک ۲۰ ؍ستمبر کو پاکستان کے شہروں میں بصد رنج و قلق دیکھا گیا۔یعنی ایک طرف اپنے ہاتھوں سے ملک کو ملینوں بلینوں کا نقصان ، دوسری طرف اپنی پولیس کے ہاتھوں اپنی ہی بیسیوں لاشیں گرنا۔اورپھر حکومت اور عوام کے درمیان جو دوری و بے اعتمادی ہمارے یہاں یونہی عام ہے، اس میں مزید تناؤ کا اضافہ ۔ ایسے حالات میں نشأۃِ ثانیہ کا کہاں گذر؟ مزید ایک نتیجہ اس اشتعال انگیزی کا یہ ہے کہ نوجوانوں میں مغرب ،بالخصوص امریکہ ،کے خلاف جو کچھ بھی ممکن ہو کر گزرنے کا جذبہ بالکل قدرتی طور سے پیدا ہو تا ہے۔ اور امریکہ کی نظر میں گویا نئے ’’دہشت گرد‘‘ پیدا ہوتے ہیں جن کا تعاقب اس کی ذمہ داری۔

کیا اس صورتِ حال کا تقاضہ یہ نہیں کہ ہم شدید جذباتی اذیّت کے باوجود مغرب کی ان اشتعال انگیزیوں کانوٹس لینا اسی طرح بند کردیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی اُسوۂ مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں؟جب ہم ان شیاطین کا کچھ کر نہ سکیں توکیا اسلام اور ملت کے نقطۂ نظر سے یہ بات زیادہ آبرومندانہ نہیں ہے کہ سورۂ اٰلِ عمران کی اوپر گزری آیت( ’’اور بالضرور تمہاری آزمائش اپنے مالوں اور جانوں میں ہونی ہے اور ضرور ایسا ہو گا کہ تم کو اہلِ کتاب اور مشرکین سے بڑی اذیَّتیں پہنچیں۔اور اس کا مقابلہ تم نے ا گر صبر اور تقوے کی روش سے کیا تو یقیناًیہ عزم و ہمت کی بات ہوگی۔‘‘ ) پر عمل کیا جائے؟ اورغور کیجیے تویہ قرآنی ہدایت دراصل ایسے ہی حالات کے لیے ہے جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ یہی واحد صور ت ان حالات میں ہے کہ اس شیطانی سلسلہ کا تار ٹوٹے۔مغربی حکومتوں سے اس با ت کی توقع کہ وہ آپ کے درد کو سمجھیں، بدقماشوں کو لگام دینے کے لیے کسی عالمی قانون کی منظوری پر راضی ہوں، جس کے لیے او۔آئی ۔سی کی طرف سے کوششیں ہیں،اس توقع کی کیا گنجائش اس صورتِ حال میں ہے کہ یہ حکومتیں تو پاکستان کے قانونِ تحفظِ حرمتِ رسولؐ کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ جو لوگ آپ کے اپنے ملکوں میں بھی آپ کے حُرُمات و مقدّسات کی بے حرمتی کی آزادی کے لیے بضد ہیں، کیا ان سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنے یہاں تحفظ نافذکریں گے؟

اس دن کے لیے انتظار اس دن کا کیجیے جب ہم آپ اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضیات پر ڈھال کر اسلام کا گزراہوا دور واپس دیکھنے کے لائق ہو جائیں ۔اور وہ دور عشقِ رسول کے جھنڈے اُٹھانے اور حتجاج کرنے سے نہیں ،اللہ و رسول ؐ کی مرضیات کے آگے بصد شوق سر جھکانے سے آئے گا۔ جو بلاشبہ اس وقت ہمارا حال نہیں ہے۔اِلّا یہ کہ ہم جانتے نہ ہوں یا اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہوں۔۔۔اور اگر اس بات کی شرح درکار ہو توایک پیرِ دانا کی حکایت سن لیجیے:

گذشتہ صدی کے ہمارے نا مور علماء میں سے مولانا سید مناظر احسن گیلانی (م۔۱۹۷۵ء) جن کو علم کے ساتھ اللہ نے عشقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی دولت سے بھی خوب خوب نوازا تھا، دارالعلوم دیوبند میں اپنی طالبعلمی کے احوال لکھتے ہوئے اپنے استاذ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ (م ۱۹۲۰ء) کے درس کا ایک واقعہ سناتے ہیں:

’’بخار ی شر یف کا سبق ہو رہا تھا۔ مشہور حدیث گذری کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے مال، بال بچے اور سارے انسانوں سے زیادہ میں اس کے لیے محبوب نہ ہو جاؤں۔ فقیر نے عرض کیا کہ’’ بحمد اللہ عام مسلمان بھی سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق محبت کی اس دولت سے سرفراز ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کی توہین کوتو ایک حد تک مسلمان برداشت کر لیتا ہے۔۔۔۔۔لیکن رسالتمأب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہلکی سی سبکی بھی مسلمانوں کو اس حد تک مشتعل کردیتی ہے کہ ہوش حواس کھو بیٹھتے ہیں آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جان پر لوگ کھیل گئے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت نے فرمایا:ہوتا بے شک یہی ہے جو تم نے کہا۔ لیکن کیوں ہوتا ہے؟ تہ تک تمھاری نظر نہیں پہونچی، محبت کا اقتضا ء یہ ہے کہ محبوب کی مرضی کے آگے ہر چیز قربان کی جائے ،لیکن عام مسلمانوں کا جو برتاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضئ مبارک کے ساتھ ہے وہ بھی ہمارے تمھارے سامنے ہے۔پیغمبرؐ نے ہم سے کیا چاہا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں، اس سے کون ناواقف ہے،پھر سبکی آپ کی جو مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے اس کی وجہ محبت تو نہیں ہو سکتی۔ ‘‘ 

خاکسار نے عرض کیا کہ تو آپ ہی فرمائیں، اس کی صحیح وجہ کیا ہے؟نفسیاتِ انسانی کے اس مبصرِ حاذق نے فرمایاکہ’’ سوچوگے تو درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سبکی میں اپنی سبکی کا غیر شعوری احساس پوشیدہ ہو تا ہے۔ مسلمانوں کی خودی اور انا مجروح ہوتی ہے۔ہم جسے اپنا پیغمبر اور رسول مانتے ہیں تم اس کی اہانت نہیں کر سکتے۔چوٹ درحقیقت اپنی اسی ’’انانیت‘‘ پر پڑتی ہے لیکن مغالطہ ہو تا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نے ان کو انتقام پر آمادہ کیا ہے۔ نفس کا یہ دھوکہ ہے۔۔۔۔۔۔محبوب کی مرضی کی جسے پرواہ نہ ہو،اذان ہورہی ہے اور لایعنی اور لاحاصل گپوں سے بھی جو اپنے آپ کو جدا کرکے مؤذن کی پکار پر نہیں دوڑتا،اسے انصاف سے کام لینا چاہئے کہ محبت کا دعویٰ اس کے منہ پہ کس حد تک پھبتا ہے۔ ‘‘ (احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن ، صفحہ۱۵۳۔۱۵۴)

اللٰھُمّ اِھْدِنَا الصِّراطَ المستقیم صراطَ الَّذینَ اَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضّالین۔ اٰمین۔

دین و حکمت

(نومبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter