عمل تدریس میں استاد کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد ایک آزاد، غیر سیاسی، علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو ملکی، بین الاقوامی اور اسلامی دنیا سے متعلق پالیسیوں پر تحقیق اور مکالمے کا اہتمام کرتا ہے۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۱۱ء کو آئی پی ایس میں ’’عمل تدریس میں استاد کا کردار‘‘ کے موضوع پر ایک علمی مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا زاہدالراشدی اور مولانا مفتی محمد زاہد نے اس موضوع پر گفتگو کی۔ مولانا راشدی کی گفتگو کا خلاصہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)


سب سے پہلے تو آئی پی ایس کا شکریہ ادا کروں گا کہ آج کی اس تقریب میں حاضری کا اور کچھ سننے سنانے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری حاضری قبول فرمائے، مقصد کی باتیں کہنے اور سننے کی توفیق عطا فرمائے، دین اور حق کی جو بات سمجھ میں آئے اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ اس کے بعد آئی پی ایس کو دو باتوں پر مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا۔ ایک تو کام کے تسلسل پر جو ہمارے ہاں عام طور پر نہیں ہوتا، بالخصوص فکری کاموں میں۔ ہمارا جو دائرہ ہے، اس میں فکر سازی اور ذہن سازی کے کام کی حیثیت ثانوی بھی نہیں بلکہ ثالثی درجے میں کہیں ہوتی ہے۔ حالانکہ جو کام فکری ادارے یا تھنک ٹینکس کرتے ہیں، یہ بنیادی کام ہے اور اسی پر قوموں کے مستقبل کے پروگرام استوار ہوتے ہیں۔ یہ تسلسل قابل مبارک باد ہے۔ یہ ایک عرصہ سے لگے ہوئے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں اور مجھے بھی ایک عرصہ سے ان کے ہاں حاضری کا موقع ملتا رہتا ہے۔ دوسرا اِس نئی جگہ پر آنے کی مبارک باد دینا چاہوں گا، اللہ تعالیٰ نے ایک اچھی اور کشادہ جگہ عطا فرمائی ہے جہاں کام زیادہ وسعت اور زیادہ تنوع کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ 

مجھ سے کہا یہ گیا ہے کہ اپنے تدریسی تجربات، مشاہدات اور تاثرات پیش کروں۔ پہلے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے بھی ایک چھوٹا سا مدرس ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور میرا تدریسی تجربہ تقریباً ۴۵ سال پر محیط ہے، الحمد للہ۔ چوں کہ میں نے ایک تدریسی گھرانے میں ہوش سنبھالا تھا، اس لیے معلمی میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ میں نے جس گھرانے میں ہو ش سنبھالا، میری والدہ صاحبہ خود استانی اور معلمہ تھیں۔ قرآن کریم پڑھاتی تھیں، ترجمہ، حفظ، تفسیر اور اس زمانے میں بہشتی زیور بھی پڑھاتی تھیں اور یہ بھی تحدیث نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ سابق صدر جناب رفیق تارڑ صاحب میری والدہ اور والد محترمؒ کے شاگرد ہیں۔ تدریسی ماحول مجھے گھر سے، ماں کی گود سے ملا ہے۔ والد محترم حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہی کیا! وہ تو برصغیر کی سطح کے بڑے مدرسین میں سے ہیں۔ ان کا اپنا تدریسی دورانیہ کوئی ساٹھ سال سے زائد رہا ہے، انھوں نے ساٹھ سال دینی علوم کی تدریس کی ہے۔ میرے لیے مشکل بات اس لیے نہیں تھی کہ ماحول ہی وہ تھا، تربیت ہی وہ تھی، ذوق ہی وہ تھا، ہر وقت اردگرد پڑھنے پڑھانے والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ 

میں نے تدریسی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے ہی میں کر دیا تھا، شاید موقوف علیہ سے بھی پہلے۔ اس زمانے میں درجات کی تقسیم یہ ثالثہ، رابعہ وغیرہ کے عنوان سے نہیں ہوتی تھی۔ موقوف علیہ ہوتا تھا، کافیہ کا سال ہوتا تھا، جامی کا سال ہوتا تھا، اس حوالے سے ہم متعارف ہوتے تھے۔ شاید موقوف علیہ سے بھی پہلے کا سال تھا کہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دو تین طلبہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمیں ’’مالا بدمنہ‘‘ پڑھائیں۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پڑھا دوں گا۔ تو سب سے پہلی کتاب جو میں نے پڑھائی، وہ ہے ’’مالا بد منہ‘‘۔ تین طلبہ تھے اور اسے ہم نے باقاعدہ کلاس کی صورت میں چلایا۔ یہ میری تدریسی زندگی کا آغاز تھا۔ میری تدریسی زندگی ۱۹۷۰ء میں باقاعدہ شروع ہوئی ہے۔ ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک بیس سال میں نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں پڑھایا جو کہ مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے ساتھ گوجرانوالہ کا سب سے قدیمی مدرسہ ہے۔ یہ ۱۹۲۶ء میں قائم ہوا تھا اور میرے والد محترم اور چچا محترم حضرت صوفی صاحب دونوں نے بنیادی تعلیم وہیں حاصل کی۔ یہاں بیس سال مجھے تدریس کا موقع ملا، لیکن وہ تدریس ایسی تھی کہ میں ایک طرف تو جمعیۃ علماء اسلام کے سرگرم ترین حضرات میں سے تھا، میری صبح کہیں ہوتی تھی، دوپہر کہیں، شام کہیں اور رات کہیں ہوتی تھی۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ سب سے زیادہ متحرک تھا، لیکن متحرک ترین لوگوں میں سے تھا، الحمد للہ۔ ملک کے بیشتر حصوں میں میرا آنا جانا ہوتا تھا۔ جماعتی سرگرمیاں، سیاسی، تنظیمی سرگرمیاں، معرکہ آرائی، تحریکیں، گرفتاریاں سب کچھ ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ تحریکی اور سیاسی سرگرمیوں کے لحاظ سے یہ میرا کلائمیکس کا دور تھا، یعنی ۱۹۷۰ء سے ۱۹۹۰ء تک۔ 

اس حوالے سے میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؓ میرے والد بھی تھے، شیخ بھی تھے، استاد بھی تھے، مربی بھی تھے، سب کچھ وہی تھے۔ ان کے ساتھ حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ میرے چچا تھے، استاد تھے، مربی تھے۔ اس دور میں اتنی متنوع اور وسیع سیاسی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ میرا ذوق شروع ہی سے یہ ہے کہ میں تقریباً تمام مکاتب فکر سے رابطہ رکھتا تھا اور رابطہ رکھتا ہوں، اس درجے کا کہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو ہم اکٹھے چل سکیں۔ یہ رابطہ میرا طالب علمی کے زمانے میں تھا کہ کسی دینی تحریک میں ہمیں اکٹھا چلنا پڑے تو حجاب نہ ہو کہ وہ کون ہے ، میں کون ہوں۔ اسے آپ میرا ذوق کہہ لیجیے، چالیس پینتالیس سال سے یہ میرا معمول ہے۔ 

نوجوانوں کی سرپرستی اور رہنمائی

مجھے یہ خدشہ ہوتا تھا کہ میرے والد محترم جس ماحول کے بزرگ ہیں، شاید میری یہ وسیع سرگرمیاں ان کے لیے قابل قبول نہ ہوں۔ لیکن انہوں نے جماعتی، اتحادی، تحریکی یا سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں، البتہ دو باتوں کی مجھ پر ہمیشہ پابندی رکھی اور ان باتوں پر وہ ڈانٹتے بھی تھے۔ ایک انہیں اس بات کی فکر ہوتی تھی کہ اس نے قرآن کریم حفظ کیا ہوا ہے، رمضان میں سنا رہا ہے یا نہیں سنا رہا؟ ماہ رجب میں ہی مجھ سے پوچھنا شروع کر دیتے تھے کہ کہاں سنا رہے ہو، کیا تیاری کر رہے ہو، کتنی منزل پڑھتے ہو؟ رمضان میں بلا کر پوچھتے تھے کہ کتنے پارے ہوگئے، کتنی غلطیاں روز آتی ہیں، سناتے کس کو ہو، دور کس سے کرتے ہو؟ دوسرا ان کا اصرار ہوتا تھا کہ تم جو مرضی کرو، لیکن دو چار کتابیں لازمی پڑھانی ہیں۔ سچی بات ہے کہ پہلے دس سال میں نے مجبوری سے پڑھایا۔ ڈر ہوتا تھا کہ والد صاحب ڈانٹیں گے، پوچھیں گے ۔رمضان کے بعد شوال میں ہی بلا لیا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کیا پڑھا رہے ہو، کتنے سبق ہیں، کیا مطالعہ کرتے ہو؟ وہ تو پرانے مدرس تھے، اس لیے سبق کے بارے میں پوچھتے تھے کہ فلاں جگہ کیسے حل کی تھی، فلاں موقع طلبہ کو کیسے سمجھایا تھا؟ الحمد للہ مجھے یہ نگرانی حاصل رہی ہے۔ 

ذوق پیدا کرنا

پہلے دس سال تک میں تقریباً یہ سمجھتا رہا کہ میں مجبوراً پڑھا رہا ہوں، لیکن آہستہ آہستہ ذوق بنتا گیا اور الحمد للہ آج یہ ذوق ہے کہ اگر دو چار سبق نہ پڑھاؤں تو دن گزرتا نہیں ہے۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔ پہلے پہلے غصہ آتا تھا کہ میں سیاسی لیڈر ہوں، اخبارات میں میرے مضامین چھپتے ہیں اور میرے بیانات آتے ہیں، جبکہ والد صاحب مجھ پر سختی کرتے ہیں کہ تم نے اصول الشاشی ضرور پڑھانی ہے، نور الانوار ضرور پڑھانی ہے اور ہدایہ ضرور پڑھانی ہے۔ میں اپنے مدرس دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ والد صاحب کا جبر کہہ لیجیے یا کچھ اور کہ آہستہ آہستہ اپنا ذوق بن گیا کہ میں نے ایک عرصہ اس طرح گزارا کہ دوسری سرگرمیوں کے باوجود تدریس ضرور کی۔ البتہ میں نے ایک سہولت یہ لے رکھی تھی کہ سبق اپنی مرضی کے لیتا تھا، تین یا چار، اور اپنی مرضی کے وقت پر پڑھاتا تھا۔ اپنی سرگرمیوں کے ساتھ مجھے اسباق کو ایڈجسٹ کرنا ہوتا تھا۔ بیس سال تک میرا یہ معمول رہا ہے کہ جامع مسجد میں فجر کی نماز پڑھاتا تھا (اب بھی پڑھاتا ہوں، درس دیتا ہوں) اور پھر مصلے پر تین چار سبق پڑھاتا تھا اور نماز کے ڈیڑھ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد فارغ ہو جاتا تھا۔ پھر میں آزاد ہوتا تھا کہ کبھی مردان جا رہا ہوں تو کبھی پشاور۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ ساری رات سفر کر کے سحری کے وقت واپس آتا تھا، نماز سے ایک گھنٹہ پہلے مطالعہ کرتا تھا، نماز کے بعد پڑھاتا تھا۔ پھر اگر سونا ہے تو سو گیا، ورنہ بس پر جا کر سوار ہوگیا اور وہیں سو گیا۔ یہ میرا تقریباً بیس سال تک معمول رہا، اس زمانے میں میری نیند اکثر بس میں ہی پوری ہوتی تھی۔

یہاں ایک لطیفے کی بات یاد آگئی۔ ایک دن حضرت والد صاحب پوچھتے ہیں کہ خدا کے بندے! تم سوتے کہاں ہو؟ آج اخبار میں پڑھتے ہیں کہ کوئٹہ بیٹھا ہوا ہے، کل پڑھتے ہیں کراچی میں ہے، پرسوں پشاور میں ہے، ترسوں میر پور میں ہے، اور سبق بھی پڑھاتے ہو، آخر سوتے کدھر ہو؟ میں نے کہا جی بس سو جاتا ہوں۔ اس زمانے میں میری حالت یہ تھی کہ تین چار گھنٹے بس میں سونا میرے لیے کوئی مشکل بات نہیں تھی، اب بس میں نیند نہیں آتی۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ والد صاحب کے ساتھ گوجرانوالہ سے ایک بارات پر جانا پڑ گیا۔ والد صاحب کے بہت قریبی تعلق والے دوست تھے اور انہوں نے مجبور کیا کہ آپ بیٹے کی بارات پر چلیں۔ چنیوٹ سے آگے لالیاں جانا تھا۔ بڑی ویگن تھی۔ ویگن میں باپ بیٹا دونوں کو ایک ساتھ سیٹ مل گئی۔ میں جب گوجرانوالہ سے نکلا تو مجھے اتنا یاد ہے کہ قلعہ دیدار سنگھ شاید گزرا تھا، اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں کہاں کہاں سے گزرے۔ تقریباً تین گھنٹے کے بعد جب چنیوٹ پہنچے تو ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ والد صاحب نے مجھے کندھے سے پکڑ کر کہا کہ ’’اٹھو! نماز پڑھو۔ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ کہاں سوتے ہو۔‘‘ تو بیس سال میرا یہ معمول تھا اور میرا اختیار ہوتا تھا کہ میں اپنی مرضی کے اسباق لوں گا اور دوسرا یہ کہ وقت میری مرضی کا ہوگا کہ کچھ بھی ہو، صبح کی نماز کے بعد ڈیڑھ دو گھنٹے میں، میں نے سبق پڑھا کر فارغ ہو جانا ہے، اور الحمد للہ میں نے اس کو نبھایا ہے۔ 

میرا زیادہ تر تدریسی ذوق تھا فقہ، اصول فقہ ، صرف اور ادب کا۔ میرے زیادہ تر اسباق جن کتابوں میں سے ہوتے تھے، ان میں نور الانوار، اصول الشاشی، حسامی، ہدایہ ، کنز اور صرف کی کتابیں شامل تھیں اور (عربی ادب کی کتاب) حماسہ تو میری پکی کتاب تھی۔ الحمد للہ آج بھی میرا ذوق یہ ہے کہ والد صاحب کی تربیت اور سختی کی وجہ سے میری دیگر سرگرمیوں کے باوجود پچھلے پورے سال میں میری صرف تین چھٹیاں تھیں، حالانکہ اٹھارہ چھٹیوں کی مدرسے کی طرف سے اجازت ہے۔ مدرسے کے قواعد و ضوابط میں ہے کہ اٹھارہ اتفاقی چھٹیاں استاد کا بنیادی حق ہے۔ پچھلے سال میں نے صرف تین استعمال کیں اور اس سال اللہ کرے وہ بھی نہ ہوں۔ تو والد صاحب کا سبق یہ ہوتا تھا کہ بھئی، ناغہ نہیں کرنا۔ وہ تو چھٹی کو گناہِ کبیرہ سے بھی آگے کی کوئی شے سمجھتے تھے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ والد صاحب کی چھٹی ہو۔ سوائے سخت بیماری کے کوئی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ ایک تو میں نے مشاہدات اور تجربات میں حضرت والد صاحب سے سیکھا اور پھر اپنا ذوق بن گیا ہے کہ چھٹی نہ ہو، تن آسانی نہ ہو۔ یہ میری کوشش ہوتی ہے اور میں الحمد للہ کامیاب بھی ہوتا ہوں اس کوشش میں۔ میرا خیال ہے کہ کوشش اور ارادہ ہو تو ہر کام ہو جاتا ہے، جب ارادہ ڈھیلا پڑ جائے تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ 

یہ تھا میرا تدریسی زندگی کا بیس سال کا معمول۔ پھر اس کے بعد کچھ مسائل اس نوعیت کے پیدا ہوگئے کہ تدریسی عمل میں ۱۹۹۰ء سے ۱۹۹۸ء تک آٹھ سال کا ناغہ پڑ گیا۔ پھر ۱۹۹۸ء میں حضرت صوفی صاحبؒ (چچا محترم) نے فرمایا کہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں ایک دو سبق پڑھا دیا کرو تو میں نے وہاں موطا امام مالک اور سنن نسائی پڑھانا شروع کی۔ اس طرح ۱۴ سال مجھے نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں دورۂ حدیث کے اسباق پڑھاتے ہوئے ہوگئے ہیں۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی معذوری کے بعد سے ترجمہ قرآن کریم، بخاری شریف، طحاوی شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے اسباق میرے پاس ہوتے تھے۔ 

سبق کے لیے خصوصی تیاری

اس دوران جو باتیں میں نے محسوس کی ہیں، وہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ والد محترم کو میں نے دیکھا کہ انہوں نے بخاری شریف میرے خیال سے چالیس بار سے زیادہ مرتبہ پڑھائی ہوگی، لیکن اس کے باوجود آخری دور میں بھی ان کو دیکھا ہے کہ رات کو مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دو چار مرتبہ پڑھا کر ایک کتاب سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ یار پڑھائی ہوئی ہے، کوئی مسئلہ نہیں، پڑھا لیں گے۔ صبح دیکھی جائے گی، کیا ہوتا ہے۔ لیکن والد محترم مطالعہ لازمی کیا کرتے تھے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم کا ترجمہ اور بخاری شریف کا حاشیہ دیکھ رہے ہیں ۔میں نے کہا کہ آپ کو مطالعے کی کیا ضرورت ہے؟ کہنے لگے کہ میں اپنا تجربہ بتاتا ہوں کہ جتنی دفعہ دیکھا ہے، کوئی نیا نکتہ سامنے آیا ہے، کوئی نہ کوئی نئی بات ذہن میں آئی ہے۔ الحمد للہ میرا ذوق بھی یہی ہے کہ حتی الوسع ان روایات کو نبھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں عرض کر رہا تھا کہ ایک تو وہ سبق کے ناغے کو گناہ سمجھتے تھے، دوسری بات مطالعے کے بغیر سبق پڑھانے کو بھی وہ تقریباً گناہ ہی سمجھتے تھے۔ اس معاملہ میں جتنا اہتمام میں نے ان کا دیکھا ہے، حیران کن ہے۔ 

تیسری بات جو ہم نے ان میں دیکھی، وہ ہے وقت کی پابندی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ چھ بجے کے بجائے چھ بج کر ایک منٹ پر آئیں۔ پانچ بج کر انسٹھ منٹ ہو سکتے ہیں لیکن، چھ بج کر ایک منٹ نہیں ہو سکتا۔ بارہا میں نے تجربہ کیا ہے۔ ہمارے علاقے میں دو آدمیوں کے بارے میں یہ محاورہ مشہور تھا کہ ان کو دیکھ کر لوگ گھڑیاں درست کرتے ہیں۔ ایک مولانا ظفر علی خانؒ جو کہ وزیر آباد کے تھے، ان کی وقت کی پابندی ضرب المثل تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ مولانا ظفر علی خان کی سرگرمیاں دیکھ کر ہم گھڑی درست کرتے ہیں اور کہتے تھے کہ گھڑی غلط ہو سکتی ہے لیکن ظفر علی خان غلط نہیں ہو سکتے۔ اور دوسرے ہیں والد مرحوم۔ جو وقت کہا ہے، اسی وقت پر پہنچنا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ خود وقت سے آگے پیچھے ہو جائیں یا کسی اور کو ہونے دیں۔ 

امانت اور دیانت کی مثال

میں ان کے تجربات اور اپنے مشاہدات و تاثرات عرض کر رہا ہوں۔ والد صاحب کا ایک معمول اور بھی تھا جو میں اپنے اساتذہ بھائیوں سے ذکر کرنا چاہوں گا۔ پرانے بزرگوں کی جو بات ہم نے دیکھی کہ کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مدرسے کی کوئی چیز مدرسے کے کام کے علاوہ کہیں اور استعمال ہو سکے۔ تقریباً ربع صدی تک ان کا معمول رہا ہے کہ گکھڑ سے گوجرانوالہ ٹرین یا بس پر آتے تھے۔ ایک میل چلنا، پھر گاڑی میں بیٹھنا، پھر گاڑی سے اتر کر آگے ایک میل پیدل چلنا، تقریباً تیس سال یہ معمول رہا۔ آخری عمر میں مدرسہ والوں نے فیصلہ کیا کہ گاڑی لے لیتے ہیں جو گھر سے لے آیا کرے اور شام کو گھر چھوڑ آیا کرے۔ گکھڑ سے گوجرانوالہ جاتے وقت گاڑی میں جگہ ہوتی تو ہم بھی ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ گاڑی جی ٹی روڈ پر گوندلانوالہ چوک سے گھنٹہ گھر کی طرف مڑ جاتی تھی، جبکہ میرا جی ٹی روڈ پر اس سے اگلا سٹاپ شیرانوالہ باغ ہوتا تھا، چنانچہ وہ مجھے چوک پر ہی اتار دیتے کہ یہاں اتر جاؤ۔ یہ آپ کے ابا کی نہیں، مدرسے کی گاڑی ہے۔ اہلیہ اور بچے ساتھ ہوتے، تب بھی اتار دیتے تھے کہ یہاں سے رکشے میں بیٹھ کر جائیں۔ 

تدریس میں سادگی اور ترتیب

ایک بات اور میں نے دیکھی والد صاحب کے طریق تدریس میں۔ والد صاحب سے زیادہ فقہی مباحث کون کرتا ہوگا، اعتقادی مباحث، فقہی مباحث اور شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور حنفیہ کی اختلافی بحثیں ان سے زیادہ کون کرتا ہوگا، لیکن ایسا وہ صرف ایک کتاب میں کرتے تھے۔ ساری بحثیں صرف ترمذی میں کرتے اور بخاری شریف اتنی سادہ پڑھاتے تھے کہ آپ اس سے زیادہ سادگی کا تصور نہیں کر سکتے۔ ترجمۃ الباب، ایک آدھ مسئلہ اور اگر کوئی متعلقہ بات ہو تو کہہ دیتے تھے، ورنہ آگے بڑھ جاتے اور کہتے تھے کہ حدیث کو حدیث کے طور پر پڑھو، بطور خاص بخاری شریف کو، مباحث کسی اور کتاب میں کر لیں۔ 

ان کا ایک دورانیہ طے ہوتا تھا، پورے سال کا ایک توازن ہوتا تھا، ایک ترتیب اور متعین مقدار کے حساب سے چلتے تھے۔ اور الحمد للہ میرا ذوق بھی کچھ تھوڑا بہت یہی ہے۔ میں تو ویسے بھی جھگڑے والا (یعنی فقہی اختلافی مسائل میں پڑنے والا) آدمی نہیں ہوں، تطبیق و توفیق کی دنیا کا آدمی ہوں، لیکن پھر بھی اختلافی بحثیں ضرورت کے مطابق کرتا ہوں۔ چونکہ بخاری شریف اور طحاوی دونوں میرے پاس ہوتی ہیں، اس لیے جب سال کے شروع میں اسباق کا آغاز ہوتا ہے تو میں طلبہ سے ایک بات کہہ دیا کرتا ہوں کہ جھگڑے سارے طحاوی میں کریں گے اور تسلی سے کریں گے۔ بخاری میں میری جانب سے آپ کو صرف تین باتیں ملیں گی: نفس حدیث، ترجمۃ الباب سے تعلق اور آج کا کوئی مسئلہ اس سے متعلق ہے تو وہ۔ بس اس سے زیادہ آپ کو بخاری میں کچھ نہیں ملے گا۔ یہ بات میں پہلے دن سے ہی بتا دیتا ہوں کہ میری کوشش یہ ہوگی کہ آپ نفس حدیث سمجھ جائیں اور حالات حاضرہ پر اس کی تطبیق سمجھ لیں۔ 

وقت کی منصوبہ بندی

ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ابتدا میں تو سارا وقت لگ جاتا ہے چند ابواب پر، پھر باقی کتاب سے ایسے گزرتے ہیں جیسے گزر ہی گئے ہیں۔ طلبہ کو اکثر ابواب کا نفس مضمون بھی سمجھ میں نہیں آتا اور اب اکثر جگہوں پر یہ عادت سی بن گئی ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ پہلی سہ ماہی تک استاد بھی سمجھتا ہے اور شاگرد بھی، دوسری سہ ماہی میں استاد سمجھتا ہے لیکن شاگرد نہیں سمجھتا، اور ششماہی کے بعد نہ استاد سمجھتا ہے اور نہ شاگرد۔ یعنی نہ استاد کو پتہ ہوتا کہ میں کیا پڑھا رہا ہوں اور نہ شاگرد کو پتہ ہوتا ہے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ والد صاحب اس پر ناراض ہوتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ غیر ضروری بحث میں نہ پڑیں، نصاب کی کتاب پوری پڑھائیں اور اچھے طریقے سے پڑھائیں۔ بحثیں دوسری کتابوں میں کر لیں، یہاں نفس حدیث پڑھا دیں اور اگر کوئی متعلقہ بات ہے تو وہ کر دیں۔ 

دین کا جامع تصور

ایک طالب علمانہ بات میں کہنا چاہوں گا کہ بخاری شریف کا جو مکمل نام ہے یعنی ’’الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و سننہ وایامہ‘‘ اس نام کے پہلے لفظ یعنی ’’الجامع‘‘ کا ترجمہ جو ہمارے متقدمین کرتے آئے ہیں، وہ درست ہے کہ یہ تمام علوم کی جامع کتاب ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہی لکھا ہے، لیکن ایک طالب علمانہ ترجمہ میں بھی کیا کرتا ہوں۔ الجامع کا ترجمہ آج کے حوالے سے یہ ہے کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام جامع مذہب ہے، مکمل نظام حیات اور دستوری زندگی ہے، زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ان کو آنکھوں سے دیکھنا ہو تو بخاری شریف کی فہرست پڑھ لیں۔ ایک نظر ڈالنے سے اسلام کی جامعیت آپ کے سامنے آجائے گی۔ ایک دفعہ نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ زندگی کا کون سا مسئلہ ایسا ہے جسے ٹچ نہیں کیا گیا، جس کے بارے میں حدیث یا قرآنی آیت نہ دی ہو۔ معاشرے کی عملی زندگی سے تعلق رکھنے والا کون سا مسئلہ ہے جو اس میں نہیں ہے۔ میں اس ’’الجامع‘‘ کا یہ ترجمہ کیا کرتا ہوں کہ اسلام کی جامعیت کا اظہار بخاری شریف میں ہے۔ طلبہ کو بخاری اس انداز سے پڑھانی چاہیے کہ طلبہ کے سامنے کم از کم اسلام کے اجتماعی نظام کا ایک تصور اور خاکہ آجائے اور انہیں معلوم ہو جائے کہ اسلام میں کیا کچھ ہے۔ معاملات اور زندگی کے متعلقہ شعبوں کے ابواب تو ہمارے سامنے سے ایسے ہی گزر جاتے ہیں، حالانکہ میری طالب علمانہ رائے کے مطابق آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم قرآن کریم اور احادیث نبویہؐ کو آج کے عالمی تناظر اور عالمی ماحول میں ایک سسٹم اور نظام زندگی کے طور پر طلبہ کو پڑھائیں تا کہ آنے والا دور جو کہ فکری لحاظ سے پریشان کن ہے، اس دور میں ہمارے طلبہ اسلام کی صحیح نمائندگی کر سکیں۔ 

لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو

ایک اور تجربہ آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں جس کے لیے ایک واقعہ عرض کروں گا جس میں سوچنے کا پہلو ہے۔ ہمارے زمانے میں تحریری امتحان نہیں ہوا کرتا تھا، زبانی امتحان ہوتا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں ہمارا بخاری شریف کا امتحان ہو رہا تھا۔ ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ ، بڑے عالم دین تھے، وہ امتحان لینے آئے۔ چودہ طلبہ کی کلاس تھی۔ ان کی ایک بات بہت پسند آئی۔ ہمیں بٹھایا اور کہا کہ فلاں صفحہ کھولیں اور یہ عبارت پڑھیں۔ بلوچستان کے مولانا شمس الدین شہید آپ کے ذہن میں ہوں گے ، وہ میرے دورے کے ساتھی تھے۔ انہوں نے ایک حدیث کی عبارت پڑھی۔ پھر مولانا پسروریؒ نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کے مباحث نہیں پوچھوں گا کہ اس میں مسئلہ کیا بیان ہوا ہے اور یہ کہ شوافع و حنابلہ اس مسئلہ پر کیا رائے رکھتے ہیں، اس لیے کہ یہ سب تم نے رٹا ہوا ہے۔ میرا سوال تم سے یہ ہے کہ یہ حدیث آپ کو پنجاب کے دور دراز گاؤں میں اَن پڑھ لوگوں کے سامنے بیان کرنی ہے، کیسے کرو گے، ان کو یہ حدیث کیسے سمجھاؤ گے؟ طلبہ میں مجھ سے سینئر لوگ موجود تھے، لیکن وہاں میرا داؤ لگ گیا۔ میں نے کہا، حضرت میں یہ کروں گا۔ پھر میں نے ٹھیٹھ پنجابی میں اس حدیث پر سات منٹ تقریر کی اور اعلیٰ نمبروں کا مستحق ٹھہرا، حالانکہ کلاس میں مجھ سے زیادہ لائق حضرات موجود تھے۔ 

یعنی یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ دیہاتی اور اَن پڑھ لوگوں کے سامنے ان کے لہجے اور ضرورت کے مطابق قرآن و حدیث پہنچانے کا فن آتا ہو، کیونکہ درس گاہ میں کیے جانے والے مباحث میں اور عوام کے سامنے قرآن و حدیث پیش کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس پر بھی مجھے ایک لطیفہ کی بات یاد آگئی۔ میرے بزرگ پھوپھی زاد بھائی تھے،فوت ہوگئے ہیں، اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین۔ میں چھوٹا طالب علم تھا، وہ ذرا سینئر تھے۔ وہ کہیں جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے ساتھ لے گئے اور جمعہ پڑھانے کے بعد مجھ سے کہتے ہیں کہ میں نے کیسی تقریر کی ہے؟ میں نے کہا، بیڑا غرق کر دیا ہے۔ کہتے ہیں میں ساری رات تقریر رٹتا رہا ہوں اور تم یہ کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کیا ہے کہ کل مولانا قاضی محمد اسلمؒ سے ملّا حسن کا جو سبق پڑھا تھا، وہ آج جمعہ کے خطبہ میں دہرا دیا ہے کہ یہ لا بشرط شئی ہے اور یہ بشرط شئی ہے، بشرط لا شئی ہے۔ یہ قضیہ شرطیہ ہے، اور یہ قضیہ سالبہ ہے۔ ان غریبوں کو کیا پتہ کہ قضیہ شرطیہ کیا ہوتا ہے اور بشرط شئی کیا ہوتا ہے؟ 

ہماری ذمہ داری ہے کہ طلبہ میں یہ ذوق پیدا کریں کہ وہ عام لوگوں سے بھی بات کر سکیں۔ اس کو فریکوینسی سیٹ کرنا کہتے ہیں۔ ہماری آپس کی فریکوینسی تو سیٹ ہوتی ہے، لیکن پبلک کے ساتھ ہماری فریکونسی سیٹ نہیں ہوتی۔ میں اپنا چالیس پینتالیس سال کا تجربہ آپ سے ذکر کرتا ہوں کہ ہم عام لوگوں کے ذہن کے مطابق بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی نمازیوں کے ساتھ، متعلقین کے ساتھ جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، ان میں سے پچانوے فیصد ایسے ہیں جو فریکوینسی سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ہم کسی اور لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور وہ کسی اور لہجے میں کر رہا ہوتا ہے، جبکہ بات دونوں ٹھیک کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ہم باہمی اتفاق نہیں کر پاتے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بھی استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں اور تلامذہ میں اس بات کا ذوق پیدا کریں کہ وہ عام آدمی سے ان کے لہجے میں بات کر سکیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے الفوز الکبیر میں یہ بحث کی ہے کہ عام انسان سے بات کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے عام انداز استعمال کیا ہے اور عام آدمی کی نفسیات کے مطابق بات کی ہے۔ مکھیوں، مچھروں اور مکڑی کی مثالوں سے بات کی ہے، یعنی عام آدمی کی ذہنی سطح کا لحاظ کر کے بات کی ہے۔ ہمیں بھی عام آدمی کے لیول پر آنا سیکھنا چاہیے اور اپنے شاگردوں کو سکھانا چاہیے۔ آج کے حالات میں یہ بہت زیادہ ضروری ہے، آج کی صورتحال کیا ہے، میں بطور ایک امام اور مدرس کے بات کر رہا ہوں کہ اس بات کی تبدیلی ہمیں محسوس کرنی چاہیے جو ہم نہیں کر رہے۔ 

حالات زمانہ سے آگاہی

آج سے پچاس سال پہلے لوگوں کے لیے دین کی معلومات کا ذریعہ صرف ہم ہوتے تھے۔ جو معلومات ہم نے دے دیں اور جو فیصلہ ہم نے کر دیا، وہی اس فرد کی معلومات اور فیصلہ ہے۔ اب عام آدمی کے پاس ہمارے علاوہ بھی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہیں۔ غلط ہیں یا صحیح، میں اس بحث میں نہیں پڑتا۔ جو نوجوان رات کو انٹرنیٹ پر بیٹھتا ہے، وہ صرف ہم پر انحصار نہیں کرتا کہ مولوی صاحب نے کیا بتایا ہے، بلکہ وہ تلاش کرتا ہے کہ متعلقہ آیتیں اور حدیثیں کون کون سی ہیں۔ آج اور آج سے چالیس پچاس سال پہلے کے عام آدمی میں جو فرق ہے، اسے نظر انداز نہ کیجیے۔ پہلے عام آدمی کے پاس دین کی معلومات کے لیے واحد ذریعہ ہم تھے، اب صورت حال یہ ہے کہ اس کے پاس ہمارے علاوہ بھی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع موجود ہیں، اخبارات ہیں، میگزین ہیں، ٹی وی چینل ہیں، انٹرنیٹ ہے۔ تو جب وہ ہم سے بات کرتا ہے تو وہ صرف ہماری معلومات پر بنیاد رکھ کر بات نہیں کرتا بلکہ وسیع معلومات کی بنیاد پر سوال کرتا ہے، اس لیے جب ہم اسے محدود دائرے میں رہ کر جواب دیتے ہیں تو اسے وہ جواب مطمئن نہیں کر پاتا۔ 

یہ تبدیلی ہمیں محسوس کرنی چاہیے۔ رات کو اس نے چینل دیکھا، پروگرام میں کسی دانش ور نے کوئی بات کر دی تو اس نے آکر مجھ سے پوچھنا ہے کہ مولوی صاحب، فلاں نے یہ بات کہی تھی۔ اس پر میرا رویہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو میں ڈانٹ دیتا ہوں کہ فضول پروگرام مت دیکھا کرو۔ اب وہ میرے کہنے سے تو باز نہیں آئے گا، دوسری رات وہ دو پروگرام مزید دیکھے گا اور پھر مجھ سے کوئی مسئلہ پوچھنے آجائے گا۔ اب جبکہ میرے پاس اس حوالے سے معلومات مکمل نہیں تو میں یہ کہنا توہین سمجھتا ہوں کہ بیٹا، کل میں تیاری کر کے بتاؤں گا۔ میں اسے ادھورا سا جواب دوں گا اور ساتھ ڈانٹ دوں گا، بہر صورت وہ کنفیوژ ہوگا۔ اس کا نتیجہ جو نکلے گا، وہ میرے نزدیک آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ مولوی کا علمی مقام اور اس کی دینی ثقاہت سوسائٹی میں مجروح ہوگی اور ہو رہی ہے ۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب کو تو دین کا کچھ پتہ نہیں ہے اور یہی حال عام معلومات کا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بطور خطیب یا مدرس ہمیں اپنا جنرل نالج اور عمومی مطالعہ اس قدر بڑھانا ہوگا کہ ہم تمام متعلقہ معلومات کا احاطہ کر کے بات کو صحیح تناظر میں پہچان سکیں۔ ہمیں اس قابل ہونا چاہیے کہ کلاس میں طلبہ کو بتا سکیں کہ یہ صورت حال آج یوں ہے، کل یوں تھی، حالات میں یا مسئلہ میں یہ تبدیلی واقع ہوئی ہے تاکہ انہیں یہ معلوم کرنے کے لیے کسی اور کے پاس نہ جانا پڑے۔ طالب علم کو وہ بتائیں جو اس کی ضرورت ہے، لیکن خود اپنے مطالعے میں وسعت اور تنوع پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ورنہ ہم نہ طالب علم کو مطمئن کر پائیں گے اور نہ بطور خطیب اپنے سننے والے کو۔ اور اگر ہم مطمئن نہ کر پائے تو ہماری ثقاہت مجروح ہوگی اور اگر یہ مجروح ہوگی تو دین کو نقصان ہوگا۔ 

نئی نسل کی تیاری

اور آخر میں ایک بات کہہ کر اپنی بات ختم کروں گا۔ میں جب اپنی برادری (اساتذہ) سے بات کرتا ہوں تو دیوان حماسہ کا ایک شعر ضرور سنایا کرتا ہوں۔ دیوان حماسہ میں ایک شاعر کا ذکر ہے کہ وہ جوان ہوا، قبیلے والوں نے کھلایا پلایا، لیکن لڑنا نہیں سکھایا۔ دشمن داری تھی، لڑائی ہوئی تو مار کھائی ۔ اس پر اب وہ قبیلے والوں کو کوس رہا ہے۔ کہتا ہے ؂

فھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
إذ الخصم أبزی مائل الرأس أنکب
وھلا أعدونی لمثلی تفاقدوا
وفی الأرض مبثوث شجاع وعقرب

اپنے قبیلے کو کوس رہا ہے کہ جب ان کو پتہ تھا کہ میری دشمن داری بڑے متکبر آدمی سے ہے تو انہوں نے مجھے تربیت کیوں نہیں دی؟ جب انہیں پتہ تھا کہ زمین پر بچھو اور سانپ بکھرے پڑے ہیں تو مجھے بتایا کیوں نہیں، ان سے بچنے کا طریقہ کیوں نہیں سکھایا؟ اس میں اساتذہ کے لیے پیغام ہے کہ آج دنیا میں نظریاتی، ثقافتی، علمی اور فکری لحاظ سے شکوک و شبہات کا جو جنگل آباد ہے اور فکری انتشار، تہذیبی خلفشار اور ثقافتی یلغار کا جو دائرہ پھیل رہا ہے، اس سے اپنے طالب علم کو آگاہ کرنا، اس کو مستقبل کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر میں بحیثیت استاد آج کے علمی ماحول اور اس کے خطرات کو محسوس نہیں کروں گا اور اپنے طلبہ کو مدرسہ سے باہر جانے کے بعد جو صورت حال پیش آئے گی، اس سے آگاہ نہیں کروں گا تو وہ پھر میرے بارے میں یہی شعر دہرائے گا اور اسی لہجے میں مجھے کوسے گا۔ 

بس یہی میرا پیغام ہے اپنے لیے بھی، آپ کے لیے بھی۔ دنیا کے حالات کو محسوس کریں، علمی، فکری، ایمانی اور تہذیبی دنیا میں مستقبل کے خطرات کو محسوس کریں اور اپنے طلبہ کو اپنے نصاب کے دائرے میں ان سے آگاہ کریں۔ استاد سب کچھ کر لیتا ہے، استاد کے لیے کتاب نہیں بلکہ اس کا ذوق اہم ہے۔ کوئی بھی کتاب ہو، استاد کا فہم اصل اہمیت رکھتا ہے۔ اس بات کو سامنے رکھیں کہ آج ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہمارے زیر تعلیم جو پود ہے، اس کو مستقبل میں کیا صورت حال پیش آنے والی ہے، اس کے لیے میں نے انہیں کیسے تیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(نومبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter