’’مشاہیر بنام مولانا سمیع الحق‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا سمیع الحق صاحب باہمت اور صاحبِ عزیمت بزرگ ہیں کہ اس بڑھاپے میں مختلف امراض وعوارض کے باجود چومکھی جنگ لڑ رہے ہیں اور مختلف شعبوں میں اس انداز سے دینی وقومی خدمات میں مصروف ہیں کہ کسی شعبہ میں بھی انہیں صفِ اول میں جگہ نہ دینا ناانصافی ہوگی۔ دارالعلوم حقانیہ کے اہتمام وتدریس کے ساتھ ساتھ امریکی ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی کی ممکنہ بحالی کے خلاف عوامی محاذ کی عملی قیادت کررہے ہیں جس میں انہیں ملک کے طول وعرض میں مسلسل عوامی جلسوں اور دوروں کا سامنا ہے، جبکہ قلمی محاذ پر رائے عامہ کی راہ نمائی اور دینی جدوجہد کی تاریخ کو نئی نسل کے لیے محفوظ کرنے میں بھی وہ اسی درجہ میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اور خود اپنے نام مشاہیر کے خطوط کو آٹھ ضخیم جلدوں میں جمع کرکے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے، اسے دیکھ کر میں خود تحیر وتعجب کے ساتھ خوشیوں کے سمندر کی گہرائی میں ڈبکیاں کھا رہا ہوں۔ بحمداللہ تعالیٰ میرا شمار بھی بے ہمت لوگوں میں نہیں ہوتا، مگر مولانا سمیع الحق کی ہمت کی بلندی پر نظر ڈالنے کے لیے باربار ٹوپی سنبھالنا پڑرہی ہے۔

گزشتہ روز میں نے جب اس کتاب پر بلکہ کتابوں کے اس مجموعہ پر نظر ڈالی تو میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ سارے کام کاج چھوڑکر اسی کے سامنے دوزانو بیٹھ جانا چاہیے۔ تاریخ میرے مطالعے کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس میں سے اہل حق کی جدوجہد اور خدمات کی تاریخ کے دائرے میں کچھ نہ کچھ کارروائی میں بھی وقتاً فوقتاً ڈالتا رہتا ہوں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق اور ان کے فرزند دل بند مولانا سمیع الحق کے نام وقت کے مشاہیر کے خطوط جن میں سیاست دان، حکمران، علمائے کرام، مشایخ عظام، اربابِ فکر ودانش، مفکرین ومدبرین، وکلاء، صحافی اور دیگر طبقات کی سرکردہ شخصیات شامل ہیں، تاریخ کا ذوق رکھنے والے اسکالروں اور میرے جیسے طلبہ کے لیے اتنا قیمتی اثاثہ ہیں کہ اس کی قدر وقیمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

خدا جانے اس کے تفصیلی مطالعہ کا وقت کب ملتا ہے، جو بظاہر شوال المکرم کی تعطیلات سے پہلے بہت مشکل دکھائی دے رہا ہے، مگر اس کے سرسری تعارف کے لیے میں نے سردست اس کی پہلی جلد کا انتخاب کیا ہے جو شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے خطوط پر مشتمل ہے اور دینی جدوجہد کے ایک پورے دور کا احاطہ کرتی ہے۔’’مشاہیر‘‘ کے عنوان سے آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب کی عمومی ترتیب یہ ہے کہ پہلی جلد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے نام خطوط کے لیے مخصوص ہے، جلد دوم سے جلد پنجم تک حروف تہجی کے لحاظ سے مشاہیر کے مولانا سمیع الحق کے نام خطوط کی چار جلدیں ہیں، جلد ششم افغانستان کے جہاد کے دوران کی اہم رپورٹوں اور جہادی راہ نماؤں کے خطوط اور سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے، جلد ہفتم میں بیرونی ملکوں کے مشاہیر کے خطوط شامل کیے گئے ہیں، جبکہ جلد ہشتم ضمیمہ جات، اضافات اور توضیحات کو سمیٹے ہوئے ہے۔

حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کے نام مشاہیر کے خطوط کے لیے مخصوص پہلی جلد پونے سات سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہے۔ ان مشاہیر کی فہرست پر میں نے اس خیال سے نظرڈالی کہ اس کالم میں تذکرہ کے لیے ان میں سے چند زیادہ اہم بزرگوں کے ناموں کا انتخاب کرسکوں، مگر مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی کہ کوئی نام بھی ایسا نہیں ہے جسے اہمیت کے خانہ نمبر دو میں رکھا جاسکے، البتہ اس حوالے سے مولانا سمیع الحق کا بے حد شکرگزار ہوں کہ حضرت شیخ الحدیث کے نام راقم الحروف کے تین خطوط شامل کرکے ان کے اس نیازمند وعقیدت مند کو بھی ’’خریداران یوسف‘‘ کی اس فہرست میں شریک کرلیا ہے جو میرے لیے اعزاز وافتخار کی بات ہے۔

حضرت مولانا عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ کا شمار پاکستان ہی نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا کی ان عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ وسطی ایشیا میں علوم دینیہ کی ترویج واشاعت اور اسلامی اقدار وروایات کے تحفظ وفروغ کا ذریعہ بنیں۔ تعلیمی اور تہذیبی حوالے سے مولانا عبدالحق کی دینی، علمی، تدریسی اور فکری خدمات جنوبی ایشیا اور اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیا میں دینی جدوجہد کی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور افغانستان کو دیکھا جائے تو اس کی پشت پر مولانا عبدالحق کی شخصیت پوری آب وتاب کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے جو بظاہر ایک منحنی سا وجود رکھتے تھے، لیکن علم وفضل اور عزم وہمت کے اس کوہِ گراں کے ساتھ کمیونزم کے فلسفہ ونظام نے سر پٹخ پٹخ کر اپنا حلیہ بگاڑلیا اور آج کا مورخ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ جہاد افغانستان کی علمی، فکری اور دینی اساس مولانا عبدالحق کی شخصیت اور ان کی نگرانی میں کام کرنے والا تعلیمی ادارہ دارالعلوم حقانیہ ہے جس کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں۔

’’جہاد افغانستان‘‘ کی علمی وفکری آبیاری میں ہمارے بہت سے بزرگوں کا حصہ ہے، مگر میں تاریخ کے ایک طالب علم اور اس جدوجہد کے ایک شعوری کارکن کے طور پر تین شخصیات کو ان سب کا سرخیل سمجھتا ہوں، ان میں سے سب سے پہلا نام حضرت مولانا عبدالحق کا ہے اور ان کے بعد جہاد افغانستان کے علمی وفکری سرپرستوں میں میرے خیال میں حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی اور مولانا مفتی محمود کا نام آتا ہے جنہوں نے نہ صرف پاکستان کے علماء وطلبہ کو جہاد افغانستان کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا، افغان مجاہدین کی سیاسی واخلاقی پشت پناہی کی، جہاد افغانستان کے خلاف مختلف اطراف سے اٹھائے جانے والے شکوک واعتراضات کا جواب دیا اور جہاد افغانستان کی ہر لحاظ سے پشتیبانی کی۔

حضرت مولانا عبدالحق کی خدمات کو میں ایک اور حوالہ سے بھی تاریخ کا اہم حصہ شمار کرتا ہوں، وہ پاکستان میں نفاذاسلام کی دستوری جدوجہد کا باب ہے۔ پاکستان کی دستورساز اسمبلیوں میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد جس شخصیت نے دستور سازی میں سب سے زیادہ سنجیدہ کردار ادا کیا ہے اور دستورسازی کے تمام مراحل میں پوری توجہ اور تیاری کے ساتھ محنت کی ہے، وہ حضرت مولانا عبدالحق ہیں۔ 73ء کے دستور کی تیاری کے مرحلہ میں حضرت مولانا مفتی محمود قائدحزب اختلاف تھے اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا صدرالشہید، مولانا نعمت اللہ، مولانا عبدالحکیم، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا محمد ذاکر، مولانا ظفراحمد انصاری اور بہت سے دیگر بزرگوں نے اس دستور کو زیادہ سے زیادہ اسلامی بنانے کے لیے محنت کی، مگر دستورساز اسمبلی کی کارروائی کا مطالعہ کیا جائے اور دستورسازی کے مختلف مراحل پر نظرڈالی جائے تو حضرت مولانا عبدالحق کے جداگانہ اور امتیازی کردار کا تذکرہ بہرحال ضروری ہوجاتا ہے۔ حضرت مولانا عبدالحق ہمارے ملی اور قومی محسنین میں سے ہیں اور ان کے نام ان کے معاصر مشاہیر کے یہ خطوط ان کی جدوجہد اور خدمات کے مختلف پہلوؤں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ میں ان خطوط کی اشاعت پر مولانا سمیع الحق کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ دینی جدوجہد اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سے بھرپور استفادہ کریں گے۔

تعارف و تبصرہ

(جولائی ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter