موجودہ صورتحال میں علمائے دیوبند کا اجتماعی موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک مدت کے بعد دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے سرکردہ علماے کرام کا ایک نمائندہ اجتماع جامعہ اشرفیہ لاہور میں ۱۵؍ اپریل جمعرات کو منعقد ہوا جس کی صدارت وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم نے فرمائی اور ملک بھر سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ علماے کرام نے شرکت کی۔ اس سے قبل پندرہ بیس کے لگ بھگ سرکردہ اہل علم نے جامعہ اشرفیہ میں ہی مسلسل مشاورت کی جو دو روز تک جاری رہی۔ اس میں ملک کی موجودہ صورت حال اور خاص طور پر علماے دیوبند کو مختلف جہات سے درپیش مسائل اور چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ایک مشترکہ موقف اعلامیہ کی صورت میں مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کے تحفظ، بیرونی مداخلت کے سدباب، ملک میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے حوالے سے عملی پیش رفت اور دینی حلقوں کے درمیان مفاہمت کے فروغ کے سلسلے میں آئندہ حکمت عملی کے خدوخال طے کیے گئے۔ اس طویل مشاورت میں شریک ہونے والے حضرات میں حضرت مولانا سلیم اللہ خان، مولانا عبیداللہ اشرفی، مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالرحمن اشرفی، مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا مفتی عبدالرحیم، مولانا مفتی غلام الرحمن، مولانا فضل الرحمن ، مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالحفیظ مکی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، مولانا سید عبدالمجید ندیم، مولانا انوارالحق حقانی، مولانا مفتی کفایت اللہ، مولانا امداداللہ ، مولانا عبیداللہ خالد، مولانا محمد امجد خان اور راقم الحروف بھی شامل تھے۔ 

دو روزہ طویل مشاورت کے نتیجے میں مشترکہ اعلامیہ طے پایا جو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مرتب فرمایا اور اس کے مختلف نکات پر تفصیلی بات چیت کے بعد اس کی منظوری دی گئی اور پھر اسے ۱۵؍ اپریل کو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ سرکردہ علماے کرام کے ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا اور اس پر بیسیوں علماے کرام نے اظہار خیال فرمایا جس کی روشنی میں اس میں متعدد ترامیم کے بعد اسے آخری شکل میں منظور کیا گیا جبکہ راقم الحروف کی مرتب کردہ قراردادیں بھی انہی مراحل سے گزر کر متفقہ طورپر منظور ہوئیں۔ اس موقع پر یہ بھی طے پایا کہ نفاذِ شریعت، ملکی سا لمیت و خودمختاری کے تحفظ، دینی مدارس کی جدوجہد کو موثر بنانے اور ان کے تحفظ اور اسلامی ثقافت و روایات کے دفاع کے لیے مشترکہ طو ر پر جدوجہد کی جائے گی اور اس کی خاطر مشترکہ مشاورتی اجتماعات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 

مذکورہ اجتماع کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ موجودہ ملکی اور علاقائی صورت حال میں دیوبندی مکتب فکر کے علماے کرام کے متفقہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے اسے یہاں ’کلمہ حق‘ کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔ 

رئیس التحریر


بعد الحمد والصلوٰۃ!

ملک بھر کے علما کا یہ اجتماع عام مسلمانوں کے اس احساس میں برابر کا شریک ہے کہ ہمارا ملک جن گوناگوں مسائل سے دو چار ہے اور اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کے جس عظیم مقصد کے لیے یہ مملکت خداداد حاصل کی گئی تھی، اس کی طرف سے مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے اور عملاً اسلامی نظام زندگی اور اسلامی نظام عدل کی طرف پیش قدمی کی بجائے ہم اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام ہمہ جہتی مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں، دولت کی تقسیم کا نظام اس قدر مہیب ہے کہ ایک طرف دولتوں کے ڈھیر ہیں اور دوسری طرف لوگ فقر و افلاس سے مجبور ہو کر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں کسی کی جان و مال کو تحفظ نہیں ہے، قتل وغارت گری اور دہشت گردی سے ہر شخص سہما ہوا ہے اور مجرم دندناتے پھرتے ہیں، سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور بدعنوانی کا عفریت ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور عوام کے لیے اپنا جائز حق حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا ہے۔ جو شخصیتیں ملک کا عظیم اثاثہ تھیں، وہ برملا قتل کی جاتی ہیں اور قاتلوں کو سزا نہیں دی جاتی۔ بے گناہ بچوں کو دھڑلے سے اغوا کیاجاتا ہے اور ملوث افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی۔ ناقص منصوبہ بندی کے نتیجے میں مہنگائی اور بجلی کی قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کیا ہوا ہے جس سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ 

دوسری طرف ہمارے ملک کے بہترین وسائل ان عوامی امنگوں کو دور کرنے اور ان کے اسباب کا ازالہ کرنے کی بجائے امریکہ کی مسلط کی ہوئی جنگ میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے خرچ ہو رہے ہیں جبکہ امریکہ کی طرف سے ہماری سرحدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر کے ان ڈرون حملوں کا سلسلہ برابر جاری ہے جن میں ہمارے بے گناہ شہریوں، عورتوں او ر بچوں کی بہت بڑی تعداد شہید ہو کر بستیاں اجڑ چکی ہیں اوریہ بات واضح ہے کہ امریکہ نے اپنی بالادستی قائم کرنے اور عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے اور اسلام اور امت مسلمہ کے تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کی کاروائیوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جگہ جگہ مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور خود ہمارے شہریوں کے ساتھ امریکہ میں بدترین ذلت آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور امریکہ مسلسل ہمارے بجائے بھارت کو نوازتے رہنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ 

اس سب کے باوجود حکومت کی پالیسیوں میں امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملکی مفادات کو بے دھڑک قربان کیا جا رہا ہے۔ جب اجتماعی سطح پر مسلمانوں کو اس قسم کے مسائل در پیش ہوں تو اس وقت بطور خاص اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اس کی نافرمانیوں سے بچا جائے، لیکن ان حالات میں بھی ملک میں بددینی کو فروغ مل رہا ہے، عریانی و فحاشی پر کوئی روک نہیں، نفاذ شریعت کی پرامن کوششوں کو درخوراعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا اور سود ، قمار اور دوسری محرمات کو شیر مادر سمجھ لیا گیا ہے۔ ان تمام حالات میں ملک کے درد مند مسلمان سخت بے چینی کا شکار ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا دین عطا فرمایا ہے جس میں نہ مایوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بے عملی کی۔ لہٰذا یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ملک کے ارباب حل وعقد اور عوام ایک دوسرے کو نشانہ ملامت بنانے کی بجائے مل جل کر اپنے طرزعمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، اسی طرح ملک کی کشتی گرداب سے نکل سکتی ہے۔ اسی غرض کے لیے علماے کرام کایہ اجتماع بلایا گیا تھا کہ وہ اس صورت حال پر غور کر کے قرآن و سنت کی روشنی میں وہ طریقے تجویز کریں جو ملک کو اس صورت حال سے نکالنے کے لیے ضروری ہیں۔ چنانچہ یہ اجتماع متفقہ طو ر پر سمجھتا ہے کہ مندر جہ ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:

۱۔ اس بات پر ہمارا ایمان غیر متزلزل ہے کہ اسلام ہی نے یہ ملک بنایا تھا اور اسلام ہی اسے بچا سکتا ہے، لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں اسلامی تعلیمات اور قوانین کو نافذ کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور ملک کے آئین کا اہم ترین تقاضا بھی اور اسی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ملک میں انتہاپسندی کی تحریکیں اٹھی ہیں۔ اگر ملک نے اپنے مقصد وجود کی طرف واضح پیش قدمی کی ہوتی تو ملک اس وقت انتہا پسندی کی گرفت میں نہ ہوتا، لہٰذا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ پرامن ذرائع سے پوری نیک نیتی کے ساتھ ملک میں نفاذ شریعت کے اقدامات کیے جائیں۔ اس غرض کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور فیڈرل شریعت کورٹ کو فعال بنا کر ان کی سفارشات اور فیصلوں کے مطابق اپنے قانونی اور سرکاری نظام میں تبدیلیاں بلا تاخیر لائی جائیں اورملک سے کرپشن، بے راہ روی او ر فحاشی و عریانی ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ 

۲۔ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے دوسرے مقاصد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو اولیت دے کر حکومت پردباؤ ڈالیں اور اس غرض کے لیے موثر مگر پر امن طور پر جدوجہد کا اہتما م کریں اور عوام کا فرض ہے کہ جو جماعتیں اور ادارے اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ، ان کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ 

۳۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کو قرار دیا جا رہا ہے اوراس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ جگہ جگہ خود کش حملوں اور تخریبی کاروائیوں نے ملک کو بدامنی کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ ان تخریبی کاروائیوں کی تمام محب وطن حلقوں کی طرف سے بار بار مذمت کی گئی ہے اور انہیں سراسرناجائز قرار دیا گیا ہے، لیکن اس تمام مذمت کے باوجود یہ کاروائیاں مستقل جاری ہیں۔ لہٰذا اس صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر ملک بھر کی متفقہ مذمت اور فوجی طاقت کے استعمال کے باوجود یہ کاروائیاں کیوں جاری ہیں اور اس کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟ ہماری نظر میں اس صورت حال کا بہت بڑا سبب وہ افغان پالیسی ہے جو جنرل پرویز مشرف صاحب نے غلامانہ ذہنیت کے تحت کسی تحفظ کے بغیر شروع کر دی تھی اور آج تک اسی پر عمل ہوتا چلا آ رہا ہے جب کہ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اس نے ہمارے ملک کو زخمی کرنے کے سوا کوئی خدمت انجام نہیں دی۔ لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت امریکہ نوازی کی اس پالیسی کو ترک کر کے افغانستان کی جنگ سے اپنے آپ کو بالکل الگ کرے اور امریکی افواج کو مدد پہنچانے کے تمام اقدامات سے دستبردار ہو۔ 

۴۔ لیکن یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا مطلب یہ نہیں ہم خود اپنے گھر کو آگ لگا بیٹھیں، لہٰذا ہم پورے اعتماد اور دیانت کے ساتھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر ملکی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے پرامن جدوجہد ہی بہترین حکمت عملی ہے اور مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لیے بھی سخت مضر ہے اور اس کا براہ راست فائدہ ہمارے دشمنوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکہ اسے اس علاقے میں اثر و رسوخ کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضا سمجھتا ہے تو یہ اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضو ں اور ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے ناصحا نہ اور خیرخواہانہ روش اختیار کی جائے۔ 

۵۔ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اس بات کا احساس کرے کہ اندرونی شورشوں کاپائیدار حل بالآخر پر امن مذاکرات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ چنا نچہ ملک کی پارلیمنٹ نے اس موضوع پر اپنی متفقہ قرار داد میں ایک طرف سابق حکمرانوں کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنے اور ڈرون حملوں اورغیر ملکی مداخلت کے بارے میں قومی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیا تھا اور دوسری طرف اندرونی شورش کے لیے مذاکرات کا ہی طریقہ تجویز کیا تھا، لیکن پارلیمنٹ کی اس قرار داد کوعملاً بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے، لہٰذا حکومت کافرض ہے کہ وہ اس قرارداد کے مطابق اپنی حکمت عملی کو تبدیل کر کے خانہ جنگی کا خاتمہ کرے۔

۶۔ دینی مدارس کا فرض یہ ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے متعلق اپنے اصل مقاصد تک ا پنی توجہ مرکوز رکھیں اور اس نظام کوزیادہ موثر بنانے کی پوری کوشش کریں جس سے اپنے زیر تربیت افراد میں تدین، امانت اور سچائی کی اس طرح روش پیدا کریں کہ وہ اسلام کے زریں اصولوں کی صحیح عملی تصویر اور آئینہ دار ہوں اور مجسم دعوت و تبلیغ کاذریعہ بنیں۔ 

۷۔ عام مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مشکلات اور مصائب کا اصل حل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ اس کی رحمتیں حاصل نہیں کی جا سکتیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور ہر طرح کے گناہوں سے توبہ کر کے رشوت ستانی اور ہر طرح کی حرام آمدنی، بے حیائی اور فحاشی، جھوٹ اور دنیوی اغر اض کے لیے باہمی جھگڑوں سے پرہیز کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے رجوع کی طرف متوجہ ہوں ، شرعی فرائض کو بجا لائیں اور اتباع سنت کا اہتمام کریں۔ 

ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا انتقال

گزشتہ ماہ کے دوران ملک کے معروف مذہبی دانش ور محترم ڈاکٹر اسراراحمد صاحب کا رات انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی وفات سے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد ،جس کا میں خود بھی ایک کارکن ہوں، ایک باشعور اور حوصلہ مند رہنما سے محروم ہوگئی۔ میری ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس جدوجہد کے حوالے سے طویل رفاقت رہی ہے اور بہت سی تحریکات میں اکٹھے کام کرنے کا موقع ملا۔ 

انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز جمعیت طلبہ سے کیا اور پھر جماعت اسلامی کے قافلے کا حصہ بنے، مگر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بعض افکار اور طریق کار سے اختلاف کے باعث الگ ہو گئے۔ جماعت اسلامی سے اپنا راستہ الگ کیا، لیکن نفاذ اسلام کی جدوجہد سے دست برداری اختیار نہیں کی اور آخر وقت تک مصروف عمل رہے۔ اس بڑھاپے میں نفاذ شریعت کے لیے ان کی تڑپ اور محنت قابل رشک تھی جسے دیکھ کر جوانوں کو بھی حوصلہ ملتا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ نے برطانوی استعمار کے خلاف آزادی وطن کی جدوجہد میں مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال کی قید و بند کے بعد واپسی پر اپنی جدوجہد کا جو راستہ اختیار کیاتھا، وہی اس محنت کا صحیح راستہ ہے اور وہ خود کو شیخ الہند ؒ کی اس تحریک کا تسلسل قرار دیتے ہوئے آخر عمر تک اس پر گامزن رہے۔ 

مالٹا جزیرے میں ساڑھے تین سال گزارنے کے بعد شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی ؒ واپس ہندوستان پہنچے تو انھوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کر کے پر امن جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اپنے پیروکاروں کو تلقین کی کہ وہ اب ہتھیار اٹھانے کی بجائے آزادی وطن کے لیے سیاسی جدوجہد کریں اور پرامن عوامی جدوجہد کے ذریعے آزادی کی منزل کی طرف پیش رفت کریں۔ اس موقع پر شیخ الہند ؒ نے، جو نہ صرف اس وقت دیوبندی فکر اور تحریک کے سب سے بڑے قائد تھے بلکہ اب بھی انہیں دیوبند ی مسلک کے تمام داخلی مکاتب فکر میں متفقہ قائد کی حیثیت حاصل ہے، آئندہ جدوجہدکے لیے تین نکات کا ایجنڈا پیش کیا:

* مسلمان باہمی اختلافات سے گریز کرتے ہوئے متحدہ کردار ادا کریں۔ 

* قرآن کریم کی تعلیمات کے فروغ اور عام مسلمان کو قرآن کریم سے شعوری طور پر وابستہ کرنے کے لیے ہر سطح پر دروس قرآن کا اہتمام کیا جائے۔ 

* مسلمان اپنے شرعی معاملات طے کرنے کے لیے امارت شرعیہ کا قیام عمل میں لائیں اور ایک باقاعدہ امیر منتخب کر کے اس کی اطاعت میں کام کریں۔ 

ڈاکٹر اسرا ر احمد کا موقف تھا کہ وہ شیخ الہند ؒ کے اسی تین نکاتی پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں جبکہ ان کے بقول شیخ الہند ؒ کے تلامذہ اور ان کے حلقے کے لوگ اس ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کے اس موقف سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ وہ خود اسی ایجنڈے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے اس مقصد کے لیے ملک بھر میں احباب اور رفقا کاایک پورا حلقہ تیار کیا تھا جو اب ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کے فرزند جناب حافظ محمد عاکف سعید کی امارت میں متحرک اور سرگرم عمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے قرآن فہمی کے ذوق کو فروغ دیااور ہر سطح پر اس کے حلقے قائم کیے۔ انہوں نے قرآن کالج کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق قائم کرایا۔ لاہور میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ذوق اور رہنمائی کے مطابق قرآن کریم کے دروس کے آغاز کا اعزاز شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اوران کے تلامذہ کو حاصل ہے، مگر ان کے حلقہ سے باہر اس ذوق کو بڑھانے میں اگر میری اس بات کو مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے تو ڈاکٹر اسرار احمد کی جدوجہد سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔

وہ نفاذ شریعت کی ہر جدوجہد اور تحریک کاحصہ رہے اور انہوں نے اسلامی تحریکات میں ہمیشہ ہر اول دستہ کاکردار ادا کیا۔ انہوں نے نفاذ اسلام کے لیے مسلسل جدوجہد ہی نہیں کی بلکہ اسلامی نظام کی اصل اصطلاح خلافت کو زندہ رکھنے اور نئی نسل کو خلافت کی اصطلاح سے مانوس کرنے کے لیے بھی اہم کردار ادا کیا۔ وہ ایک امیر کی بیعت اور اس کی اطاعت میں کام کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور ان کا زندگی بھر اصرار رہا کہ ایک امیر اور اس کے ساتھ سمع و طاعت کا تعلق دینی تقاضوں میں سے ہے۔ وہ خلافت، امام مہدی کے ظہور اور ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے حوالہ سے بعض تعبیرات میں تفرد بھی رکھتے تھے جس سے بہت سے علمائے کرام کو اتفاق نہیں تھا۔ خود راقم الحروف نے بھی ان متعدد ملاقاتوں میں ان کی بعض تعبیرات پر تحفظات کا اظہار کیا، لیکن ان کا خلوص اور اپنے مشن کے ساتھ ان کی بے لچک اور جذباتی وابستگی ہمیشہ قابل احترام اور قابل رشک رہی۔ وہ میرے بزرگ دوست تھے ، تحریک نفاذ اسلام کے فکری رہنما تھے اور شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے ایک ایسے عقیدت مند تھے جو آج کے دور میں بھی شیخ الہند ؒ کانام لینے اور انہیں رہنما قرار دینے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔ 

مکاتیب

(مئی ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter