ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۲)

محمد عمار خان ناصر

فرقہ وارانہ کشیدگی اور شدت پسندی کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ بھی زیر بحث آیا کہ جب سبھی مذہبی مکاتب فکر کے اکابر اور سنجیدہ علما اس کو پسند نہیں کرتے تو پھر وہ اپنے اپنے حلقہ فکر میں شدت پسندانہ رجحانات کو روکنے کے لیے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو وہ موثر کیوں نہیں ہو پاتا؟ جناب ثاقب اکبر کی فرمائش تھی کہ اس سوال کے جواب میں، میں کچھ گزارشات پیش کروں۔ میں نے عرض کیا کہ دراصل عوامی سطح پر حلقہ ہاے فکر کے مزاج کی تشکیل کے لیے مسلسل محنت، لوگوں کے ساتھ مستقل رابطہ اور روز مرہ معاملات میں ان کو عملاً ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سنجیدہ اہل علم اپنی افتاد طبع اور علمی وتدریسی مصروفیات کی بنا پر اس کے لیے فارغ نہیں ہوتے اور یہ خلا مختلف سطحوں پر دوسرے، تیسرے اور چوتھے درجے کے لوگوں کو پر کرنا پڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کا علم وفہم، بصیرت وفراست اور اخلاقی کمٹ منٹ اس درجے کی نہیں ہوتی، جبکہ گروہی عصبیت کو انفرادی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کے محرکات زیادہ قوی ہوتے ہیں۔ حلقہ ہاے فکر کے عوامی مزاج کی تشکیل اسی سطح کے لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہے اور ان پر عملاً اثر انداز بھی وہی ہوتے ہیں۔ جہاں تک اکابر اہل علم کا تعلق ہے تو ان کی حیثیت عام طور پر علم وتقویٰ کے ایک symbol کی ہوتی ہے جن کے علم وتحقیق پر فخر اور ان کی سرپرستی کی خواہش بھی کی جاتی ہے، لیکن عملی دائرے میں ان کے طرز عمل، مزاج اور ہدایات کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ (مثلاً تکفیر شیعہ کے حوالے سے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کو تو اپنے موقف کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جائے گا، لیکن انھوں نے ’’کافر کافر‘‘ کی عوامی مہم کے ذریعے منافرت پھیلانے کے طریقے پر جو تنقید کی اور اسی طرح اجتماعی مصالح کے تناظر میں ’’متحدہ مجلس عمل‘‘جیسے پلیٹ فارمز پر شیعہ سنی اشتراک کی جس حکمت عملی کی تائید اور حمایت کی، اسے کوئی وقعت نہیں دی جائے گی۔) میں نے مثال کے طور پر جامعہ حفصہ کے سانحے کاحوالہ دیا کہ اس موقع پر دیوبندی حلقے کے چوٹی کے علما اور اکابر نے غازی برادران کو اپنا طرز عمل بدلنے پر آمادہ کرنے کی آخر دم تک پوری کوشش کی، لیکن اس میں انھیں ناکامی ہوئی بلکہ آپریشن کے بعد یہ تمام حضرات خود دیوبندی حلقے کے غم وغصہ اور تنقید کا نشانہ بن گئے۔ اس وجہ سے مختلف مذہبی گروہوں کے عمومی مزاج کو بدلنے کے لیے ان کے اکابر سے کسی موثر کردار کی توقع رکھنا فضول ہے اور یہ مقصد مذہبی حلقوں کے مجموعی معاشرتی وژن اور خاص طور پر ان کی تعلیم وتدریس اور فکری تربیت کے موجودہ سانچے میں جوہری تبدیلیاں پیدا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اظہر حسین نے میری تائید کرتے ہوئے کہا کہ یہی غلط فہمی مغرب کے پالیسی سازوں کے ہاں بھی پائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علما مل کر خود کش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کر دیں تو اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا جس پر مجھے انھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے اور اس طرح کا کوئی فتویٰ سامنے آ جانے سے بھی عملی صورت حال میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔

اس سفر کی بعض مجلسوں میں اکابر اہل علم اور ان کے مقابلے میں مقبول عام واعظوں اور خطیبوں کے سماجی اثر ورسوخ کے ضمن میں بعض دلچسپ واقعات بھی سننے سنانے کا موقع ملا۔ ایک نشست میں، میں نے خطیب بغدادی کی ’’تاریخ بغداد‘‘ (۱۳/۳۶۶) کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا کہ امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں کوفہ کی ایک مسجد میں زرعہ نامی ایک قصہ گو وعظ کہا کرتا تھا اور اپنے مواعظ کی بدولت عوام میں بڑا معروف ومقبول تھا۔ ایک موقع پر امام ابوحنیفہؒ کی والدہ کو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت پیش آئی تو امام صاحب نے انھیں مسئلہ بتایا، لیکن وہ مطمئن نہ ہوئیں اور کہا کہ میں تو زرعہ سے دریافت کر کے عمل کروں گی ۔ اس پر امام صاحب اپنی والدہ کو لے کر زرعہ کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ میری والدہ تم سے فلاں مسئلے کے بارے میں فتویٰ لینا چاہتی ہیں۔ اس نے کہا کہ آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے اور فتویٰ دینے کے اہل ہیں۔ امام صاحب نے کہا کہ میں نے تو انھیں یہ فتویٰ دیا ہے ، لیکن یہ تمہارے فتوے پر عمل کرنا چاہتی ہیں۔ زرعہ نے کہا کہ میرا فتویٰ بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ اس پر امام ابوحنیفہ کی والدہ مطمئن ہو کر وہاں سے تشریف لے گئیں۔ نیپال کے سفرکے متصل بعد بنگلہ دیش کے سفر کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا تو میں نے برادرم خورشید احمد ندیم صاحب کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کا فیصلہ کیا اور ان کی رہائش گاہ پر ایک طویل نشست میں مختلف مسائل پر ان سے تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ اتفاق سے وہاں بھی یہی بات چل نکلی تو میں نے انھیں ایک دوست کا بیان کردہ یہ واقعہ سنایا کہ کسی موقع پر ایک صاحب کے سامنے، جو ملک کے ایک معروف خطیب کی خطابت سے بے حد متاثر اور ان کے شیدائی تھے، حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور ان کے علم وفضل کا ذکر ہوا تو انھوں نے پوچھا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ ایک بہت بڑے عالم، محقق اور محدث ہیں تو انھوں نے اپنے ممدوح خطیب صاحب کا نام لے کر تعجب سے پوچھا کہ اچھا، وہ ان سے بھی بڑے عالم ہیں؟ اس کے جواب میں خورشید ندیم صاحب نے مجھے اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ امریکہ گئے تو ان کے مداحوں اور عقیدت مندوں نے کسی ہال میں ان کے ساتھ ایک شام منانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وسائل جمع کرنے کی غرض سے مختلف اہل ثروت سے رابطہ کیا گیا تو ایک صاحب نے پوچھا کہ جن صاحب کے لیے یہ اہتمام کیا جا رہا ہے، ان کا تعارف کیا ہے؟ انھیں بتایا گیا کہ یہ اردو کے بہت بڑے مزاح نگار ہیں تو انھوں نے دریافت کیا کہ کیا وہ معین اختر (معروف ٹی وی کامیڈین) سے بھی بڑے مزاح نگار ہیں؟

جناب ثاقب اکبر نے اس صورت حال کے ایک دوسرے پہلو کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایسے اہل فکر جو اپنے اپنے حلقے کے گروہی ومسلکی تعصبات سے بلند ہو کر وسیع تر فکری دائرے میں سوچتے اور اپنی فکری وعملی ترجیحات اپنے خاص زاویہ نگاہ سے متعین کرنا چاہتے ہیں، ان کی ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ خود ان کا اپنا حلقہ فکر انھیں قبول کرنے اور بعض اوقات گوارا تک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور ایسے حضرات اپنے حلقہ فکر میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار جناب ارشاد محمود نے، جو مسئلہ کشمیر کے متخصص سمجھے جاتے ہیں، اس ضمن میں اپنا تجربہ بھی بیان کیا۔ انھوں نے کہا کہ ابتدا میں وہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے وہی نقطہ نظر رکھتے تھے جس کی نمائندگی مثال کے طور پر جناب مجید نظامی اور جنرل حمید گل کرتے ہیں، چنانچہ وہ ایک عرصے تک اسی زاویے سے تحریریں لکھتے رہے جس سے قارئین کا ایک بڑا حلقہ ان سے وابستہ ہو گیا، لیکن پھر رفتہ رفتہ ان کے فکر وخیال میں تبدیلی آتی گئی اور ان پر واضح ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے مسلمانوں کی بہتری اس خطے کی مجموعی بہتری کے ساتھ وابستہ ہے اور خطے کے مجموعی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ یہ دونوں ملک پرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کریں اور حکمت اور دانش کے ساتھ آپس کے تنازعات کا حل نکالیں، اس لیے محدود دائرے میں عسکری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے زیادہ توجہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ارشاد محمودنے کہا کہ نقطہ نظر میں اس تبدیلی کے نتیجے میں انھیں اپنے حلقہ قارئین کی طرف سے سخت منفی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ جب آپ کا زاویہ نگاہ اپنے حلقہ فکر سے کسی معاملے میں بنیادی طور پر مختلف ہو جائے تو یقیناًآپ کو اس حلقے کی ہمدردی اور تعاون وتائید حاصل نہیں رہتی، لیکن اگر آپ اخلاص اور استقلال واستدلال کے ساتھ اپنی بات کہتے رہیں تو اس کی بنیاد پر ایک نئے حلقہ فکر کی تائید آپ کو حاصل ہو جاتی ہے۔ 

یہ صورت حال، ظاہر ہے کہ کسی ایک خاص مکتب فکر یا دائرے کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ گروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر آزادی کے ساتھ غور وفکر کرنے والے لوگوں کو ہر جگہ اسی صورت حال سے سابقہ ہے اور یہ کوئی ناقابل فہم بات نہیں بلکہ سماجی نفسیات کے اصولوں کے مطابق ایک ناگزیر امر ہے۔ جہاں تک اس صورت حال میں کوئی مخصوص لائحہ عمل اختیار کرنے یا عملی ترجیحات متعین کرنے کا سوال ہے تو اس میں افتاد طبع بڑی حد تک فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ میرا مسلک اس ضمن میں یہ ہے کہ ایک دیانت دار صاحب فکر کو اپنی ترجیحات وسیع تر اور دیرپا مصالح اور مقاصد کی روشنی میں متعین کرنی چاہییں اور فکر ونظر کے جن زاویوں کو وہ اپنے فہم اور ضمیر کے مطابق زیادہ قابل اطمینان سمجھتا ہے، بلا خوف لومۃ لائم پوری وضاحت سے انھی کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ کسی خاص حلقہ فکر کی نظر میں شخصی اعتبار اور وقعت حاصل کرنے کو اگر فی نفسہ مطمح نظر بنایا جائے تو یہ اخلاقی لحاظ سے کوئی مستحسن چیز نہیں اور اگر اسے حکمت عملی کے طور پر اختیار کیا جائے تو ایسی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں جس میں کوئی شخصیت ایک خاص درجے کا اعتبار اور استناد حاصل کرنے کے بعد اپنے شخصی وزن کی بنا پر کسی مخصوص حلقہ فکر کے مجموعی مزاج میں کوئی فوری یا بنیادی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی ہو۔ (مولانا محمد تقی عثمانی کو ہی دیکھ لیجیے جو اپنے تمام تر علم وفضل اور علمی وجاہت کے باوجود علما کے ایک ’’متفقہ فتوے‘‘ کا نشانہ بن گئے ہیں جس کے اسباب میں ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ انھوں نے بعض فقہی معاملات میں حنفی دائرۂ اسلام سے خروج کا ارتکاب کیا ہے۔) حلقہ ہائے فکر جب ایک خاص ذہنی سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان میں فکری تبدیلی افراد اور شخصیات سے نہیں بلکہ بے شمار عوامل کے اشتراک سے رفتہ رفتہ اور تدریجاً ہی آ سکتی ہے اور ان میں اہم ترین عامل خود داخلی سطح پر غور وفکر، نظر ثانی اور اصلاح احوال کا جذبہ نہیں، بلکہ ارد گرد کے ماحول میں لوگوں کے عمومی فہم اور تصورات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا خارجی جبر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر برصغیر میں احناف کے ہاں فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ حدیث سے اعتنا اور دوسرے فقہی رجحانات کو گوارا کرنے کے حوالے سے جتنی کچھ وسعت ظرفی اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے، ارباب نظر بجا طور پر اسے تحریک اہل حدیث کی مساعی کا ایک ثمر قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس داخلی سطح پر اصلاح احوال کی کوششوں کی صورت یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس کے تعلیمی منہج اور ترجیحات اور اسی طرح فقہ وافتا کے دائرے میں جمود کا رونا بڑے بڑے معتبراکابر اب سے نہیں، بلکہ ایک طویل عرصے سے رو رہے ہیں، لیکن ان دونوں دائروں میں جو ’’بہتری‘‘ پیدا ہو سکی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ اس لیے میرے نزدیک تبدیلی اور اصلاح کے خواہاں اہل فکر کو ساری توجہ اپنے پیغام اور استدلال کو زیادہ محکم اور موثر بنانے اور اسے پوری وضاحت کے ساتھ مسلسل پیش کرتے رہنے پر مرکوز رکھنی چاہیے اور ایسا کرتے ہوئے نہ تو اپنے فکر وفہم پر اثر انداز ہونے والے عوامل کے حوالے سے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اپنانا چاہیے، نہ اپنی فکری وابستگیوں کو چھپانا چاہیے اور نہ کسی خاص ذہنی سانچے کی حساسیت سے خوف زدہ ہو کر اپنے نتائج فکر کو صاف لفظوں میں پیش کرنے سے گھبرانا چاہیے۔ ویسے بھی اللہ نے چند روزہ زندگی کی یہ امانت اس لیے دی ہے کہ آدمی اپنے ضمیر کے مطابق اپنی دلچسپی کے دائرے میں معاشرے کی کوئی خدمت انجام دینے کی کوشش کرے۔ اسے اگر لوگوں کے چہروں کا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں گزار دیا جائے تو شاید یہ اس کا کوئی اچھا مصرف نہیں ہوگا۔

شیعہ سنی کشیدگی کے حوالے سے مذکورہ نشست کے اختتام پر اظہر حسین نے قائد اعظم محمد علی جناح کے اس مشہور قول کا حوالہ دیا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی تو انھوں نے جواب میں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم شیعہ تھے یا سنی؟ میں نے اس پر فوراً لقمہ دیا کہ آپ کے سنی ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں۔ اظہر حسین نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ میں نے کہا، اس لیے کہ شیعہ تو تاریخی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس پر مجلس میں ایک اجتماعی قہقہہ بلند ہوا اور ایک نازک اور سنجیدہ بحث خوش گوار انداز میں اختتام کو پہنچی۔

عالم اسلام کے حوالے سے مغربی دنیا کے طرز عمل اور پالیسیوں سے متعلق بھی کئی نوعیت کے سوالات ورک شاپ کے دوران میں مختلف مراحل پر زیر بحث آتے رہے۔ 

اظہر حسین نے بتایا کہ امریکہ میں تھنک ٹینکس کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا کے مختلف خطوں میں ہونے والی متوقع پیش رفت کی پیش بینی کریں اور امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کو امریکی مفادات کے تناظر میں راہ نمائی اور تجاویز فراہم کریں۔ یہ رپورٹس باقاعدہ شائع کی جاتی ہیں اور اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے نقطہ ہائے نظر کو ان پر تنقید پر موقع مل جاتا ہے۔ کانگریس کے پاس تجزیے کا وقت نہیں ہوتا، چنانچہ مختلف تھنک ٹینکس کی تیار کردہ رپورٹس کی روشنی میں تجزیے کا کام CSIS (یعنی سنٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز) نام کا ایک ادارہ کرتا ہے جو مختلف ماہرین کو جمع کرتا ہے اور ان کے بحث ومباحثہ کے نتیجے میں سامنے آنے والی تجاویز مرتب کر کے کانگریس اور دوسرے پالیسی ساز اداروں کو بھیج دیتا ہے۔ مختلف تھنک ٹینکس کی رپورٹس کے حوالے سے مختلف حکومتوں کی ترجیحات بھی الگ الگ ہوتی ہیں۔ مثلاً رینڈ کارپوریشن کی تجاویز Conservative رجحانات کی حامل ہوتی ہیں جنھیں بش انتظامیہ بہت اہمیت دیتی تھی لیکن اوباما کی حکومت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ اظہر حسین نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے اسی قسم کی ایک رپورٹ میں مستقبل کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر پاکستان کی موجودہ صورت حال اسی طرح آگے بڑھتی رہی اور تنازعات کو حل نہ کیا گیا تو فاٹا یا بلوچستان کے علاقے پاکستان سے الگ ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا نے سنسنی خیزی پھیلانے کے لیے ایسی رپورٹس کو ’’امریکی منصوبے‘‘ کی صورت میں پیش کیا، حالانکہ یہ کوئی خواہش یا منصوبہ نہیں تھا بلکہ ایک تجزیہ تھا اور اسی رپورٹ میں اس نتیجے سے بچنے کے لیے کئی تجاویز بھی دی گئی تھیں اور کہا گیا تھا کہ اگر حکومت اور سول سوسائٹی مل کر کوشش کریں تو اس انجام سے بچا جا سکتا ہے۔ 

(میرے ذہن میں آیا کہ اگر امریکہ یا دوسری عالمی طاقتیں اپنے اہداف اور عزائم کے تناظر میں اس طرح کے منصوبے فی الواقع بناتی ہوں، بلکہ یقیناًبناتی ہوں گی، تو اس پرشکوے کے کیا معنی؟ یہ تو وہ حمام ہے جس میں دنیا کی تمام عالمی اور علاقائی طاقتیں ننگی ہیں اور سبھی اپنے اپنے مفادات کے لحاظ سے دوسرے ملکوں کی داخلی سیاست کا نقشہ ترتیب دینے کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ امریکہ اور بھارت تو خیر ’’کفار‘‘ ہیں، ہمارے بہت سے برادر مسلم ممالک کی مہربانیاں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اظہر حسین نے بتایا کہ انھوں نے ایک موقع پر دوستانہ ماحول میں سعودی وزیر داخلہ شہزادہ ترکی الفیصل سے کہا کہ آپ لوگوں نے ۸۰ء کی دہائی میں ہمارے ساتھ کیا کیا؟ اس کے جواب میں ترکی الفیصل نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف کہا کہ جو لوگ پیسے کے لیے سب کچھ کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اظہر حسین کے بقول ترکی الفیصل نے اس ضمن میں مذہبی طبقوں کا بطور خاص ذکر کیا۔ خود ہمارے عسکری منصوبہ ساز نہ صرف انڈیا کو تقسیم کرنے کے لیے خالصتان جیسی علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی کرتے رہے ہیں،بلکہ افغان مجاہدین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیے رکھنے اور پاکستان کے سٹریٹجک مفادات کے لحاظ سے اپنی پسند کے گروہوں کی تائید وامدادکا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حال ہی میں مغربی طاقتوں نے طالبان کے ساتھ سیاسی مصالحت کے لیے گفت وشنید کا ڈول ڈالا تو طالبان کی اعلیٰ سطحی قیادت کو گرفتار کر کے دنیا کو یہ صاف پیغام دیا گیا کہ افغانستان کی سیاسی نقشہ گری کی کوئی کوشش پاکستان کے تعاون اور اس کی ترجیحات کو مدنظر رکھے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔)

اظہر حسین نے کہا کہ سماجی اور سیاسی شعور کے فقدان کی وجہ سے پاکستان میں بہت سے لوگ اپنے مسائل کا حل یہ سمجھتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر ’’صفایا‘‘ کیے بغیر تبدیلی نہیں آئے گی، بلکہ ایک سابق آرمی جنرل نے CSIS کی ایک میٹنگ میں امریکی پالیسی سازوں سے یہ کہا کہ پاکستان کے تیس پینتیس بڑے خاندانوں کو ختم کرنے میں آپ ہماری مدد کریں، اس سے ہمارے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ پاکستان کی باقی ساری آبادی کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہے ہیں۔ 

اظہر حسین نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کو تجزیہ کرنااور ابہام کے موقع پر اپنی تجزیاتی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ سلیم علی نامی ایک مصنف کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مصنف نے سترہ مدرسوں کے طلبہ سے انٹرویو کے بعد اپنا تجزیہ مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ مدارس کے کلچر میں ہر مسئلے کا تجزیہ ’’نظریہ سازش‘‘ کی روشنی میں کیا جاتا ہے اور بالکل نوعمر بچے کسی قسم کی معلومات کے بغیر پو ری حتمیت سے رائے زنی کر دیتے ہیں کہ فلاں بات میں سازش پائی جاتی ہے۔ اظہر نے کہا کہ ان کی رائے میں یہ رویہ ذہنی کاہلی اور ناکارہ پن کی علامت ہے اور اس نظریے کے اس قدر عام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معروضیت کے بجائے جہالت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اظہر نے کہا کہ ہر معاملے میں دوسروں کو اپنے نقصان کا ذمہ دار ٹھہرانا کسی مثبت وژن کے فقدان کی علامت ہے اور یہ رویہ آپ کو کوئی نتیجہ خیز حکمت عملی اپنانے سے روک دیتا ہے۔ اظہر حسین نے کہا کہ ان کا عام مشاہدہ ہے کہ جب مسلمانوں کو ان کی اندرونی کمزوریوں اور خامیوں پر توجہ دلائی جائے تو وہ دفاع کے طور پر دوسری قوموں کے ظلم اور نا انصافی کی مثالیں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اظہر حسین کا تجزیہ یہ تھا کہ مغرب کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی سخت بنیاد پرست تحریکیں دراصل مغرب سے شدید مرعوب ہیں، کیونکہ گہرے نفسیاتی تجزیے کی رو سے غصے اور نفرت کا معمول سے بڑھا ہوا اظہار درحقیقت لاشعور میں پیوست شدید مرعوبیت کی علامت ہوتا ہے۔ اظہر حسین نے کہا کہ اپنے مخالفین کے ظلم وستم کی نشان دہی اور اس پر احتجاج کرنا آسان ہے، لیکن ہمارے مذہبی اور سیاسی گروہ عام طور پر اپنے ہاں کی نا انصافی اور ظلم وستم کو نظر انداز کر دیتے یا ان کی پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس پر پورا ملک سراپا احتجاج ہے لیکن بلوچستان میں بے شمار خواتین اسی طرح کے ظلم وستم کا شکار ہیں اور اس پر کبھی کسی کے ضمیر کو احساس نہیں ہوتا۔ 

نیپال میں منعقد ہونے والی تربیتی ورک شاپ کے اخراجات اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے الائنس آف سولائزیشنز نے برداشت کیے جبکہ بنگلہ دیش کے تین روزہ پروگرام کے انعقاد کے لیے USAID اور ایشیا فاؤنڈیشن نے وسائل فراہم کیے جو دونوں امریکی تنظیمیں ہیں۔ اس تناظر میں ان دونوں اسفار کے دوران میں یہ سوال کسی نہ کسی حوالے سے زیر بحث آتا رہا کہ مغربی حکومتوں اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر دی جانے والی مختلف نوعیت کی مالی امداد کے محرکات اورمقاصد کیا ہیں، ان کا اصل ایجنڈا کیا ہے اور اس امداد پر مبنی پروگراموں اور سرگرمیوں میں شرکت، مقاصد میں تعاون اور مغربی وسائل سے استفادہ کا دائرۂ کار اور حدود کیا ہونے چاہییں۔ یہ سوال اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھوربن میں منعقد ہونے والی ورک شاپ میں بھی ذرا دبے لفظوں میں زیر بحث آیا تھا، لیکن نیپال کی ورک شاپ میں منتظمین اور مدعوین کے باہمی حجابات خاصی حد تک اٹھ جانے اور بے تکلفی کی فضا پیدا ہو جانے کے باعث اس پر زیادہ کھلے انداز میں گفتگو ہوئی اور ایک پوری نشست اسی سوال کے مختلف پہلووں پر مرکوز رہی۔ ورک شاپ میں ٹرینر کی ذمہ داری انجام دینے والے اظہر حسین نے، جو اس سارے عمل سے بہت قریبی واقفیت رکھتے ہیں اور خود ایک تھنک ٹینک کے قیام اور انتظام وانصرام کا تجربہ رکھتے ہیں، اس ضمن میں مغربی زاویہ نگاہ کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ مغربی ممالک کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والے امداد کے محرکات عام طور پر دو ہوتے ہیں: ایک یہ کہ جن سماجی اقدار مثلاً جمہوریت، آزادی رائے اور خواتین کے حقوق وغیرہ پر ان کا اعتقاد ہے، انھیں دنیا میں فروغ دیا جائے اور دوسرا یہ کہ دنیا کے لوگوں میں اپنے بارے میں اچھے اور مثبت جذبات پیدا کیے جائیں۔ 

جہاں تک کسی منصوبے کی عملی تشکیل کے لیے اپنے مخصوص تصورات کو ٹھونسنے کا تعلق ہے تو اظہر حسین کی رائے میں اس کا تقاضا امداد دہندگان کی طرف سے کم ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں کے مرعوب ذہنیت رکھنے والے امداد خواہ انھیں مطمئن کرنے کے لیے اس کی کوشش زیادہ کرتے ہیں۔ مثلاً انھوں نے بتایا کہ ایک این جی او کو فاٹا کے پس ماندہ علاقے میں اسکول قائم کرنے کے لیے فنڈ دیا گیا تو اس نے اچھی خاصی رقم اسکول میں جدید طرز کا ایک خوب صورت آرٹ سنٹر بنانے پر صرف کر دی، حالانکہ نہ تو وہاں کے ماحول میں اس کی کوئی ضرورت تھی اور نہ فنڈ دینے والوں کا ایسا کوئی تقاضا تھا، لیکن اس این جی اوز کے منتظمین نے امداد دہندگان کو اپنا ’’لبرل پن‘‘ دکھانے کے لیے ایسا کرناضروری سمجھا۔ اسی طرح ایک صاحب کو ایسے ڈرامے تیار کرنے کے لیے فنڈ ملا جو پاکستان میں خواتین کی معاشرتی حیثیت کو بہتر بنانے میں مدد دیں تو انھوں نے سمجھا کہ بعض علاقوں میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے منفی طرز عمل کو زیادہ اجاگر کرنے اور اس کی انتہائی شکلوں کو پیش کرنے سے امداد دہندگان زیادہ مطمئن ہوں گے، حالانکہ ان کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں تھا اور مثبت نوعیت کے ڈرامے بنا کر بھی مطلوبہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اظہر حسین نے یہی شکایت سرکاری سطح پر ترقیاتی منصوبوں کے لیے دی جانے والی امداد کے حوالے سے کی اور کہا کہ مغربی ادارے عام طور پر کسی منصوبے کی بنیادی تفصیلات اور اس کے قابل عمل ہونے کا اطمینان حاصل کرنے کے بعد عملی تفصیلات میں الجھنا پسند نہیں کرتے، لیکن ہمارے یہاں کے متعلقہ حضرات خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ان سے ہدایات طلب کرنے لگتے ہیں۔ البتہ کسی منصوبے کی تکمیل کے لیے مدت کی تعیین اور پھر اس مدت کے اندر اسے عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانا، یہ مغربی مزاج اور کلچر کا حصہ ہے اور وہ اسی کے مطابق امدادی منصوبوں کے ذمہ دار حضرات سے رپورٹ طلب کرتے ہیں جسے ہمارے ہاں ’’مداخلت‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ڈھاکا میں یو ایس آئی ڈی کے نمائندے رسل پے پے نے بھی مجھ سے یہی بات کہی۔ مغربی اداروں کی طرف سے ڈکٹیشن دیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ That is not the western way of doing things. (اہل مغرب کا کام کرنے کا طریقہ یہ نہیں ہے)۔ رسل نے کہا کہ اگر ہم ایسا کرنے لگیں تو کام نہیں ہو سکتا۔ مثال کے طور پر انھوں نے بتایا کہ انھوں نے حال ہی میں یو ایس آئی ڈی کے زیر اہتمام پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے اہل علم سے اسلام میں خواتین کے حقوق کے موضوع پر ایک کتاب کا مسودہ مرتب کروایا ہے جس کا طریق کار یہ رہا ہے کہ ابتدائی طور پر ہر ملک کی ایک تین رکنی ٹیم نے اپنا اپنا مسودہ تیار کیا۔ (ہمارے وفدکے رکن اور بہاؤ الدین زکریا یونی ورسٹی، ملتان کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد اکرم رانا بھی اس میں شریک تھے۔) پھر تینوں ٹیموں نے اکٹھے ہو کر اپنے مسودات کا تقابلی جائزہ لیا اور اس کی روشنی میں ایک متفقہ مسودہ تیار کیا گیا۔ اس کے بعد یہ مسودہ پچاس اہل علم کو بھیجا گیا تاکہ وہ اس کا تنقیدی جائزہ لے کر اصلاح وترمیم کے حوالے سے اپنی تجاویز دیں۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں ایک متفقہ مسودہ کی تیاری آخری مراحل میں ہے جسے ان تینوں ممالک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تعلیمی وتربیتی پروگراموں کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ رسل نے کہا کہ اس پورے پراسس میں ہم نے سوائے سہولیات فراہم کرنے کے اور کوئی کردار ادا نہیں کیا، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی ایسی دستاویز موجود ہو جسے مسلمان اہل علم نے اسلامی تصورات کے مطابق مرتب کیا ہو اور اسے ان کا پورا پورا اعتماد حاصل ہو تاکہ اس کی بنیاد پر معاشرے میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا جا سکے۔ اگر ہم اس مسودے کی تیاری میں مغربی تصورات اور معیارات مسلط کرنے کی کوشش کرتے تو یہ کام سرے سے ہو ہی نہ پاتا۔

میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ کچھ عرصہ پہلے جب ہم نے افغانستان میں روس کے خلاف جہادی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کے لیے امریکی تعاون کو قبول کیا تو مذہبی ذہن نے اس پر کوئی تحفظات محسوس نہیں کیے۔ اسی طرح ۲۰۰۷ء میں کشمیر اور بالاکوٹ میں زلزلے کی تباہیوں کے بعد بحالی کے لیے پوری دنیا سے امداد آئی اور ہم نے اسے بلا تردد قبول کیا۔ اس کے برعکس جب مغربی ممالک مدارس کے نظام کی اصلاح کے لیے یا انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے فروغ یا معاشرتی بہبود کے عنوان پر امداد دینا چاہتے ہیں تو مذہبی ذہن اس پر شدید تحفظات اور خدشات کا شکار ہو جاتا ہے اور ایسے کسی کام میں تعاون یا اشتراک کو آلہ کار بننے کے مترادف سمجھتا ہے، کیونکہ وہ مخصوص مفہوم میں مدارس کی اصلاح یا انسانی حقوق یا مخصوص سماجی مسائل کو دراصل ’’اپنا‘‘ مسئلہ نہیں سمجھتا یا ان مقاصد کی عملی صورت کے حوالے سے مغربی تصورات سے اتفاق نہیں رکھتا اور بعض صورتوں میں خود اپنے رجحان اور زاویہ نظر کی تعیین میں دو ذہنی اور ابہام کا شکار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ مقصد کی واضح تعیین اور اس پر فریقین کے اتفاق رائے کے بغیر عملاً کوئی تعاون لینے کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ 

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے مختلف کھلے اور چھپے مقاصد کے تحت خطیر قسم کی مالی امداد ترقی پذیر ممالک کو دی جاتی ہے اور معاشرتی ترقی کے بعض مخصوص میدانوں مثلاً تعلیم اور صحت میں نسبتاً کم تحفظات کے ساتھ اس امداد کا اچھا اور موثر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری مذہبی قیادت نے اپنے کارکنوں کو جذباتی اور غیر عملی نعرے رٹانے اور کسی بھی عملی دائرے میں معاشرے کی خدمت کے امکانات، مواقع اور تربیت سے انھیں محروم رکھنے کا جو وطیرہ اپنائے رکھا ہے، وہ نئی نسل میں انتہا پسندی، تشدد اور معمول کی دینی جدوجہد سے مایوسی پیدا کرنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب ہے۔ اس تناظر میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی نئی اور تازہ دم مذہبی تنظیم تعلیم اورصحت کے خالصتاً سماجی مقاصد پر ارتکاز کرتے ہوئے مذہبی کارکنوں کی فکری وعملی تربیت کر کے انھیں ان میدانوں میں کھپانے کا اہتمام کر سکے اور اس مقصد کے لیے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر میسر وسائل کو پاکستانی معاشرے کی دیانت دارانہ اور موثر خدمت کے لیے استعمال کرنے کا کوئی اچھا اور مثالی نمونہ پیش کر سکے تو شاید یہ ملک، قوم، معاشرے اور خود مذہبی طبقات کی ایک خدمت ہی ہوگی۔ اگر محدود سیاسی مفادات یا فرقہ وارانہ مقاصد کے اشتراک کی بنیاد پر ہماری مذہبی تنظیموں کو سعودیہ، عراق اور ایران بلکہ امریکہ تک سے تعاون حاصل کر کے ملک میں فرقہ وارانہ فساد پھیلانے کی اجازت ہے تو پاکستان کے عوام کو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں تھوڑا سا ریلیف فراہم کر دینے سے بھی کوئی گناہ کبیرہ سرزد نہیں ہو جائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نوعیت کی سرگرمیوں کے اہداف ومقاصد کے حوالے سے تحفظات اور کسی خفیہ ایجنڈے کی موجودگی پر اطمینان رکھنے کے باوجود ورک شاپ کے شرکا میں سے کسی کے ہاں بھی عملاً ایسے اسفار میں شرکت کے حوالے سے کوئی تردد یا ہچکچاہٹ دیکھنے میں نہیں آئی، بلکہ مختلف حضرات کی طرف سے آئندہ ورکشاپ کے انعقاد کے لیے دوبئی، دوحہ اور امریکہ وغیرہ کے انتخاب کی تجاویز بھی بے تکلف سامنے آ رہی تھیں۔ 

مذکورہ دونوں ورک شاپس کے شرکا کا عمومی تاثر یہ تھا کہ منتظمین کے کچھ خفیہ مقاصد (Hidden Agenda) بھی ہیں جن میں ایک مثلاً یہ ہے کہ دینی صحافت سے وابستہ لوگوں میں مغرب یا امریکہ کے حوالے سے نرم گوشہ پیدا کیا جائے۔ میرے ذاتی تجزیے میں، جہاں تک مغربی ممالک یا بین الاقوامی اداروں کا اس نوعیت کے پروگراموں کے لیے وسائل مہیا کرنے کا تعلق ہے تو یقیناًاس کے محرکات میں سے ایک محرک یہ بھی ہوگا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے اہم عنصر کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عنصر مختلف مسلمان معاشروں سے تعلق رکھنے والے ان بے شمار افراد کا ہے جو ایک طرف دنیوی ترقی کے مختلف معیارات کے لحاظ سے مغربی معاشروں کے مقابلے میں اپنے معاشروں کو بہت پس ماندہ دیکھتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مغرب کے سیاسی وسماجی نظام اور وہاں کے پالیسی ساز اداروں کا قریبی مطالعہ کرنے اور ان مواقع اور امکانات کو جانچنے کا موقع ملا ہے جو اس نظام میں موجود ہیں اور جنھیں مثبت طور پر مسلم دنیا کے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس مخصوص اکسپوژر کی بدولت ایسے لوگ مسلم معاشروں کو درپیش مسائل اور مشکلات کا تجزیہ صرف ’’نظریہ سازش‘‘ (Conspiracy Theory) کی روشنی میں کرنے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں پاتے، بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان معاشروں کے تنزل وانحطاط کا اصل سبب ان کی داخلی کمزوریاں اور تضادات ہیں ۔ چنانچہ عالم اسلام کی عام سیاسی اور مذہبی قیادت کے برعکس، جو مغرب کے سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی استیلا کو مشکلات ومسائل کا اصل منبع اور اس کے خاتمے کو مسائل کے حل کے لیے کلید سمجھتی ہے، یہ عنصر مذکورہ میدانوں میں اہل مغرب کو حاصل فوقیت کو بالفعل تسلیم کرتے ہوئے اس پر شکایت اور ردعمل کی نفسیات ظاہر کرنے کے بجائے عالم اسلام کے مسائل کے حل کے لیے مثبت ذہن کے ساتھ ان کے سماجی تجربات، سیاسی اثر ورسوخ اور معاشی وسائل سے استفادے کی راہ کو زیادہ قابل عمل اور بہتر تصور کرتا ہے اور اس کا زاویہ نظر یہ ہے کہ اگر مسلم معاشرے داخلی طور پر استحکام حاصل کر لیں تو خارجی مشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ حکمت ودانش اور بصیرت سے کیا جا سکتا ہے۔ میں ذاتی طور پر مسلمان معاشروں سے تعلق رکھنے والے اس عنصر کے زاویہ نگاہ کو ہمدردی کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میرے نزدیک اس حلقے کے تجزیوں اور ذہنی وفکری اور عملی ترجیحات سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کا زاویہ نگاہ بہرحال ایک مخصوص اکسپوژر کی پیداوار ہے جس سے مسلم معاشروں کے راہ نما بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 

ورک شاپ کی باقاعدہ نشستوں کے علاوہ بعض انفرادی نشستوں میں بھی اظہر حسین کے تبصرے اور تجزیے سننے اور باہمی دلچسپی کے معاملات میں ان سے تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہا۔ ایک نجی نشست میں اظہر حسین کے ساتھ افغانستان اور طالبان کے معاملے پر بھی گفتگو ہوئی۔ اظہر حسین نے بتایا کہ انھوں نے پشین میں طالبان کے وزرا کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ وہ بہت اچھے اور سادہ لوگ ہیں اور اپنے موقف کے بارے میں اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اظہر نے بتایا کہ ان کی ملا شبیر سے ذاتی دوستی بھی ہے جو ملا محمد عمر کے مشیر تھے۔ میں نے اظہر حسین سے پوچھا کہ کافی عرصے سے وقتاً فوقتاً ایسی چھوٹی چھوٹی خبریں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں طالبان کے ساتھ کوئی سیاسی معاملہ کرنے کے امکان پر غور کر رہا ہے اور شاید اس سلسلے میں درون خانہ کوئی گفت وشنید بھی ہو رہی ہے، اس سلسلے میں ان کی معلومات کیا ہیں؟ (یہ جنوری ۲۰۱۰ء کے آغاز کی بات ہے، جبکہ اس کے بعد طالبان کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں ہونے والی باقاعدہ پیش رفت میڈیا میں رپورٹ ہو چکی ہے۔) اظہر حسین نے کہا کہ یہ بات درست ہے اور یہ رجحان امریکی انتظامیہ میں کافی عرصہ قبل پیدا ہو چکا تھا، البتہ امریکی اداروں میں داخلی طور پر اس حوالے سے ایک اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ امریکہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہ کرے، بلکہ طالبان سے کہا جائے کہ وہ القاعدہ اور اس کے اہداف سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی شرط پر کرزئی حکومت کے ساتھ مصالحت کر کے افغانستان کے موجودہ دستوری ڈھانچے کے دائرے میں شریک اقتدار ہو جائیں، لیکن اب اوباما کی حکومت میں اس بات پر بھی آمادگی پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ، طالبان اور کرزئی حکومت کی صورت میں ایک سہ فریقی مذاکراتی عمل کا آغاز کیا جائے۔ اظہر حسین نے بتایا کہ بہت سے صلح پسند عام طالبان کرزئی حکومت کی طرف سے معافی کے اعلان سے فائدہ اٹھا چکے ہیں اور افغانستان کے سابق صدر صبغت اللہ مجددی کی زیر سرپرستی قائم کیے گئے Amnesty Reconciliation Centre میں چھ سات ہزار طالبان ایمنسٹی لے چکے ہیں، تاہم فنڈز کم ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ اظہر نے یہ بھی بتایا کہ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے دی جانے والی رقم کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ پائپ لائن میں مزید رقم ڈالنے کی گنجائش نہیں، لیکن امن نہ ہونے کی وجہ سے ۸۰ کے قریب تعمیری منصوبے معطل ہیں اور ان پر کام شروع نہیں ہو سکتا۔

جہاں تک پاکستانی طالبان کا تعلق ہے تو اظہر حسین نے کہا کہ وہ مذہبی راہ نما جو پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں میں طالبان کا کوئی کردار تسلیم نہیں کرتے اور اسے بیرونی سازش قرار دیتے ہیں، حقائق کی پردہ پوشی کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے ۲۰۰۹ء میں وزیرستان کا دورہ کیا اور ایک رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں، بذات خود طالبان کے پاس اسلحہ کے غیر محدود ذخائر دیکھے اور ایک سو سترہ خود کش بمباروں سے انٹرویو کیا جن کی عمر ۱۳ سے ۱۷ سال کے درمیان تھی۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ چاندنی چوک میں جا کر خود کش حملہ کرے گا۔ جب اس سے کہا گیا کہ اس سے تو مسلمان مریں گے تو اس نے کہا کہ نہیں، اس حملے سے اول تو کسی مسلمان کو نقصان ہی نہیں پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھیں گے اور اگر کچھ مسلمان مر بھی گئے تو وہ سیدھے جنت میں جائیں گے۔ اظہر حسین نے بتایا کہ جب لال مسجد کا ڈرامہ چل رہا تھا تو وہ خود وہاں گئے تھے اور وہاں کے طلبہ سے گفتگو کی تھی۔ ان طلبہ کی ذہنی تربیت ایسی کی گئی تھی کہ انھوں نے کہا کہ جب ہم باہر کے ماحول میں جاتے ہیں تو ہمارا دم گھٹتا ہے۔

دینی صحافت کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ اسی ورک شاپ کے منتظمین کی طرف سے مین اسٹریم میڈیا کے ایک گروپ کے لیے بھی تربیتی ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا تھا جس کا آغاز ہماری ورک شاپ کے آخری روز ہوا، چنانچہ ۵ جنوری کو دونوں گروپوں کا ایک مشترکہ سیشن منعقد کیا گیا اور دونوں طرف کے حضرات کو مختلف ٹولیوں کی شکل میں مخلوط کر کے باہمی تعارف اور تبادلہ خیال کا موقع دیا گیا۔ یہ تجربہ دلچسپ رہا اور دونوں طرف کے حضرات نے خاصی بے تکلفی اور کھلے دل سے ایک دوسرے کی سرگرمیوں اور خیالات سے آگاہی حاصل کی۔ اس سیشن میں مختلف افراد کو اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کی دعوت دی گئی تو طرفین کے نمائندوں نے خوش گوار حیرت کا مظاہرہ کیا۔ ایک صحافی نے کہا کہ ہم مولوی صاحبان کو خاصا سخت مزاج سمجھتے ہیں، لیکن ان سے گفتگو کر کے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ کئی باتوں میں ہم سے زیادہ ’’کھلے ڈلے‘‘ ہیں۔ مولانا محمد ازہر نے کہا کہ اسی قسم کا تاثر ہم نے بھی لیا ہے اور ہمیں محسوس ہوا ہے کہ ظاہری وضع قطع جو بھی ہو، اندر سے یہ حضرات بھی ’’مسلمان‘‘ ہیں۔ سنجیدہ اور خشک موضوعات کے درمیان یہ نشست سب سے زیادہ دلچسپ محسوس کی گئی اور بعد میں بھی اس حوالے سے خوش گوار تاثرات کا اظہار کیا جاتا رہا۔

ورک شاپ کے اختتام پر شرکا سے تجاویز طلب کی گئیں تو میں نے عرض کیا کہ اگر پاکستانی معاشرے میں تصادم اور تنازعات کو حل کرنا مقصود ہے تو اس نوعیت کی ورک شاپس میں بطور خاص ان لوگوں کو دعوت دے کر باہمی مکالمہ کے مواقع فراہم کرنے چاہییں جو کسی بھی نوعیت کے تنازعات میں عملاً فریق اور شریک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب تک جن لوگوں کو بلایا گیا ہے، وہ پہلے سے ہی اعتدال پسندانہ رجحانات رکھتے ہیں اور اپنے اپنے دائرۂ اثر میں اس کی آواز بھی بلند کرتے رہتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ عملاً شدت پسندانہ رجحانات کے ترجمان اور نقیب ہیں، ان کے ذہنی افق کو وسیع کیا جائے اور ان میں اس بات کی صلاحیت اور حوصلہ پیدا کیا جائے کہ وہ مذہبی وسماجی تنازعات کو محدود گروہی زاویے سے دیکھنے کے بجائے وسیع تر معاشرتی وقومی اور فکری وتہذیبی تناظر میں دیکھیں اور اپنے اثر ورسوخ کو تفریق او ر تصادم کو بڑھانے کے بجائے اسے کم کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اظہر حسین نے اس سے اتفاق کیا، لیکن کہا کہ وہ پہلے ہی مرحلے پر براہ راست ایسے عناصر کو اکٹھے ایک میز پر نہیں بٹھا سکتے۔ 

میری دوسری تجویز یہ تھی کہ اگر آئندہ اس نوعیت کی کوئی ورک شاپ منعقد کی جائے تو درج ذیل دو موضوعات پر تفصیلی بریفنگ اس کا حصہ ہونی چاہیے: ایک یہ کہ مغرب کا سیاسی اور سماجی نظام کیا ہے، دنیا کے دوسرے معاشروں اور ثقافتوں کے بارے میں اہل مغرب کا زاویہ نگاہ کیا ہے اور خاص طور پر سیاسی اور معاشی سطح پر پالیسی ساز ی کا عمل کیسے طے پاتا ہے اور اس میں کون کون سے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ (اس کی ضرورت میری نظر میں اس پہلو سے ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر مغربی حکومتوں کے سیاسی اقدامات، اہل مغرب کی عمومی سیاسی سوچ اور وہاں کی سول سوسائٹی کے رجحانات، ان تینوں دائروں کو باہم گڈمڈ کر کے ’’مغرب‘‘ کو ایک کل کی شکل میں دیکھا جاتا ہے اور ناقص اور سطحی معلومات پر بڑے بڑے سیاسی، معاشی اور تہذیبی تجزیوں کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔) دوسرے یہ کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں رنگ، نسل اور مذہب وغیرہ کی بنیاد پر جو تنازعات موجود ہیں، مغرب میں سماجی اصولوں کی روشنی میں ان کے سنجیدہ مطالعہ اور تجزیہ کی ایک اچھی اور قابل قدر روایت موجود ہے۔ اگر تصفیہ تنازعات کے نظری اصولوں کے ساتھ ساتھ اس ضمن میں کیے جانے والے بعض عملی تجربات او ر کوششوں کا بھی تعارف کروایا جائے تو شرکا کو اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا اور وہ ان سے راہنمائی لے کر اپنے اپنے دائرے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کر سکیں گے۔

بہرحال ایک بے حد سنجیدہ موضوع پر منعقد کی جانے والی یہ ورک شاپ بہت مفید اور فکر انگیز رہی اور دینی صحافت کے وابستگان کو اپنی ذمہ داریوں اور کردار کے حوالے سے ایک مختلف زاویہ نگاہ سے واقفیت حاصل کرنے کے علاوہ خود آپس میں بھی ایک دوسرے کے خیالات سے استفادہ کرنے اور شخصی سطح پر روابط قائم کرنے کا موقع ملا۔ ذہنی وفکری پس منظر اور زاویہ نگاہ کے ممکنہ اختلاف کے باوجود اس میں شبہ نہیں کہ منتظمین نے اس ورک شاپ کے ذریعے سے دینی صحافت کے نمائندوں کو تنازعات اور تصادم کے تناظر میں زیادہ موثر اور فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی مخلصانہ کوشش کی جس کے لیے یہ سب حضرات یقیناًتحسین اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔

اس سفر کے بعض ضمنی مشاہدات اور تجربات کا ذکر بھی یہاں دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

کھٹمنڈو میں ہمارے قیام کا انتظام ریڈی سن ہوٹل (Raddison Hotel) میں کیا گیا تھا جو بہت خوب صورت اور اعلیٰ معیار کا تھا اور اس میں ہوٹلنگ کے جدید معیار کے مطابق تمام سہولتیں میسر تھیں، لیکن پاکستانی وفد کے لیے یہ مسئلہ خاصا پریشان کن رہا کہ رہائشی کمروں کے باتھ رومز میں پانی سے استنجا کی سہولت موجود نہیں تھی اور صرف ٹشو پیپر رکھا گیا تھا۔ اس صورت حال سے سبھی دوست خاصے نالاں تھے اور باہم اس کا تذکرہ بھی ہوتا رہا، لیکن کوئی حل بظاہر سمجھ میں نہ آیا، تا آنکہ ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ کے ڈاکٹر علی اکبر الازہری صاحب نے، جو ورک شاپ کے دوسرے روز شام کو پہنچے تھے، تیسرے دن ایک نشست میں ساتھیوں کو بتایا کہ کمرے میں رکھا ہوا ایک مخصوص ڈیکوریشن پیس ایسی طرز پر بنا ہوا ہے کہ اس سے بآسانی لوٹے کا کام لیا جا سکتا ہے اور انھوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ یہ انکشاف دلچسپ تھا، البتہ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان کے تجربے سے باقی حضرات نے بھی کوئی فائدہ اٹھایا یا نہیں۔ ہوٹل کی انتظامیہ نے چیک ان کے وقت ایک فارم پر ہم سے ہمارا نام پتہ اور ای میل ایڈریس لے لیا تھا، چنانچہ جب ہم پاکستان واپس پہنچے تو ہوٹل کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ہم ایک مہمان کے طور پر ہوٹل کے انتظامات اور سہولیات کے حوالے سے اپنے تاثرات ہوٹل کی ویب سائٹ پر درج کر دیں تاکہ اس کی روشنی میں ہوٹل کے انتظامات کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دو تجاویز تحریر کر دیں۔ ایک یہ کہ مسلمان وزیٹرز کے لیے باتھ رومز میں استنجا کے لیے پانی کی سہولت فراہم کی جائے اور دوسری یہ کہ ہر کمرے میں نماز کی ادائیگی کے لیے قبلہ کی سمت بتانے کے ساتھ ساتھ ایک جائے نماز بھی مہیا کی جائے۔ 

۴؍ جنوری کو مغرب کے بعد ہمیں کھٹمنڈو کے کسی نواحی علاقے میں واقع بدھ مذہب کی ایک عبادت گاہ میں لے جایا گیا۔ یہاں انتظامیہ کی طرف سے سیاحوں کے لیے پچاس روپے کا ٹکٹ مقرر گیا تھا۔ ہم سولہ آدمی تھے، لیکن اتفاق سے ثاقب اکبر کے علاوہ کسی کے پاس نیپالی کرنسی نہیں تھی۔ انھوں نے آٹھ سو روپے ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر ادا کیے، لیکن اس کے عوض میں انھیں صرف دس ٹکٹ دیے گئے۔ انھوں نے پلٹ کر گنتی درست کرنے کی کوشش کی تو ٹکٹ گھر سے جواب ملا کہ اس وقت بجلی گئی ہوئی ہے اور کوئی آپ کی تعداد نہیں گنے گا، اس لیے آپ اتنے ہی ٹکٹ لے جائیں۔ تاہم ثاقب اکبر ان غریبوں کی اس اضافی کمائی پر راضی نہیں ہوئے اور وہاں سے پورے سولہ ٹکٹ لے کر ہی ٹلے۔ پہاڑ کے اوپر تعمیرکی گئی یہ عبادت گاہ خاصی وسیع وعریض تھی اور اس میں جگہ جگہ گوتم بدھ کے چھوٹے بڑے بہت سے مجسمے نصب تھے۔ یہاں جو چیز میرے لیے خاص طور پر تعجب کا باعث بنی، وہ درجنوں کی تعداد میں مختلف نسلوں کے کتے تھے جو وسیع وعریض عبادت گاہ کے ہر کونے میں دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے گائیڈ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا کہ یہ چوروں سے حفاظت کے لیے ہیں، لیکن یہ جواب میرے لیے تسلی بخش نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید بدھ مذہب میں کتے کو کوئی خاص تقدس حاصل ہے جس کی وجہ سے اسے عبادت گاہ میں بطور خاص اس کثرت سے رکھا گیا ہے۔ عبادت گاہ میں ایک جگہ قوالی کی طرز کی کوئی عبادت بھی انجام دی جا رہی تھی۔ دو تین سازندے ساز بجا رہے تھے جبکہ ایک لامہ صاحب (بدھ مذہب میں روحانی ریاضت ومجاہدہ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے والوں کو ’’لامہ‘‘ کہا جاتا ہے) کسی کتاب کو کھول کر اس میں سے کچھ کلمات سریلے انداز میں پڑھ رہے تھے۔ کلام تو ہماری سمجھ سے بالاتر تھا، تاہم تھوڑی دیر کے لیے ہم ساز سے ضرور لطف اندوز ہوتے رہے۔ مولانامحمد ازہر نے یہ دیکھ کر کہا کہ ہمارے ہاں جس قسم کا اسلام معاشرتی سطح پر رائج ہے، وہ تو بہت کچھ انھی رسومات سے ملتا جلتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ بات بالکل بجا ہے اور ہمارا کمال یہ ہے کہ ہم تحقیق کرتے کرتے یہاں اس کے اصل ماخذتک آپہنچے ہیں۔ مولانا ازہر اس نکتہ آفرینی پر بہت محظوظ ہوئے۔

ریڈی سن ہوٹل کے ساتھ ہی ہوٹل کی انتظامیہ نے ہوٹل کے تہہ خانے میں ایک جوا خانہ (Casino) بھی قائم کر رکھا ہے۔ مولانامحمد ازہر نے خواہش ظاہر کی کہ جوا خانے کے ماحول اور سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے اندر جا کر ایک نظر ڈالنی چاہیے۔ میں نے اتفاق کیا اور ہم دونوں جوا خانے کی طر ف گئے، لیکن راستہ تلاش نہ کر سکے اور بھٹک کر دوسری طرف جا نکلے۔ اگلے دن مولانا عبد القدوس محمدی نے اسی تجسس کا اظہار کیا۔ انھیں راستہ معلوم تھا، چنانچہ ہم دونوں اندر چلے گئے، لیکن اندازہ نہیں تھا کہ وہاں صرف جوا خانہ نہیں بلکہ نائٹ کلب کی رونقیں بھی سجائی گئی ہیں۔ ہم نے اندر داخل ہو کر دیکھا تو اسٹیج پر نیم برہنہ رقاصائیں اپنے فن اور جسم، دونوں کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ حاضرین پر نظر ڈالی تو بعض رفقاے سفر وہاں پہلے سے موجود تھے اور ٹکٹکی باندھے اس منظر سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے، لیکن قوت ایمانی کمزور ہونے کی وجہ سے ہماری نگاہیں اس منظر کی تاب نہ لا سکیں۔ میں نے مولانا محمدی کا ہاتھ پکڑا اور ہم وہاں سے ہٹ کر اس حصے کی طرف چلے گئے جہاں لوگ مختلف میزوں پر مشینی جوا کھیل رہے تھے۔ ہم نے تھوڑی دیر یہ روکھا پھیکا منظر دیکھا اور پھر وہاں سے واپس آ گئے۔ ہماری ورک شاپ کے آخری روز جب پاکستان سے مین اسٹریم میڈیا کا ایک گروپ اسی نوعیت کی ایک ورک شاپ میں شرکت کے لیے ہوٹل پہنچا تو یہ خبر گرم تھی کہ کچھ صحافی حضرات نے آتے ہی کیسینو کا رخ کیا ہے اور پینے پلانے کی سہولیات سے مستفید ہوئے ہیں۔

ایک دن ہمارا ارادہ ہوا کہ مغرب یا عشا کی نماز کسی مسجد میں جا کر پڑھی جائے اور گھوم پھر کر شہر کا جائزہ لیا جائے۔ مختلف حضرات الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں نکلے۔ مجھے مولانا محمد ازہر کی رفاقت میسر ہوئی اور ہم نے مغرب کی نماز شہر کی ایک خاصی بڑی جامع مسجد میں ادا کی جس کا نام اب ذہن میں نہیں۔ مسجد خاصی وسیع تھی اور اس کے ساتھ غالباً کسی اسکول یا مدرسے کی ایک بڑی عمارت ملحق تھی جبکہ صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ سبز رنگ سے ڈھکا ہوا کسی بزرگ کا مزار تھا۔ ہم نے وہاں سے نکل کر کسی دیوبندی مسجد کی جستجو کی جو اتفاق سے تھوڑے ہی فاصلے پر مل گئی۔ ہم نے نائب امام صاحب کے حجرے میں ان سے ملاقات کی اور کھٹمنڈو شہر میں مسلمانوں کے حالات سے متعلق چند معلومات حاصل کیں۔ امام صاحب کی میز پر انگریزی کی کچھ کتابیں رکھی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ انڈیا کے ایک معروف دینی ادارے (جس کا نام افسوس ہے کہ ذہن سے نکل گیا) کے فارغ التحصیل ہیں اور کسی سرکاری امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔ اتفاق سے اسی مسجد میں پاکستان سے آئی ہوئی ایک تبلیغی جماعت بھی ٹھہری ہوئی تھی اور اس کے قیام کا وہ آخری دن تھا۔ ہم ان حضرات سے ملنے کے لیے مسجد کے اندر چلے گئے۔ جماعت کے ساتھیوں نے بڑی محبت اور اپنائیت کا اظہار کیا اور ہمارے دریافت کرنے پر بتایا کہ وہ چار ماہ کاعرصہ نیپال کے سرحد ی علاقوں میں گزارنے کے بعد اگلے روز واپس جا رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جس علاقے میں ان کی تشکیل ہوئی تھی، وہاں کے مسلمان غریب اور سادہ لیکن بہت ملنسار اور مروت والے لوگ ہیں۔ اس حوالے سے چند ایک ایمان افروز واقعات بھی انھوں نے سنائے۔ پردیس میں اپنے وطن کے لوگوں اور خاص طورپر تبلیغ کی غرض سے نکلے ہوئے مخلص مسلمانوں سے مل کر فی الواقع بہت اطمینان محسوس ہوا۔ 

۶ جنوری کو ہمیں پی آئی اے کی پرواز سے کراچی اور پھر وہاں سے اسلام آباد آنا تھا۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر دھند کی وجہ سے فلائٹ اسلام آباد کے بجائے لاہور جا اتری۔ لاؤنج میں پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے مسافر ایک کاؤنٹرکے گرد جمع ہیں اور ہلچل کی سی کیفیت ہے۔ معلوم ہوا کہ ہم سے پہلے بھی ایک دو جہازوں کے مسافروں کے ساتھ یہی معاملہ ہو چکا ہے۔ رات کا پچھلا پہر تھا اور کوئی بااختیار اور ذمہ دار آفیسر وہاں موجود نہیں تھا، چنانچہ کچھ سیکورٹی گارڈ اور کاؤنٹر پر کھڑی عملے کی ایک دو خواتین مسافروں کے تیز وتند تبصروں اور سوالات کی زد میں تھیں۔ مسافروں میں سے اکثر اپنی وضع قطع سے تعلیم یافتہ دکھائی دے رہے تھے، لیکن کسی کے طرز عمل سے اس کا شبہ تک نہیں ہو رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ موسم کی خرابی کو دور کرنا انسانوں کے بس میں نہیں اور یہ کہ ان کے سامنے کوئی با اختیار آفیسر نہیں بلکہ محض معمول کے احکام بجا لانے والا عملہ کھڑا ہے، بے شمار افراد اپنے اپنے انداز میں اور کچھ لوگ فرفر انگریزی جملوں میں اپنی قابلیت کا اظہار کرتے ہوئے سخت توہین آمیز لہجے میں ان بے چاروں پر اپنا غصہ نکال رہے تھے، جبکہ کچھ حضرات احتجاجاً لاؤنج کے شیشے توڑ دینے کی دھمکیاں تک دے رہے تھے۔ میرا تجزیہ ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ اور سیاسی وسماجی قیادت نے حکومتی اور انتظامی اداروں پر تنقید کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اس بے دردی سے استعمال کیا ہے کہ موقع ومحل اور صورت حال کی مناسبت کا لحاظ کیے بغیر اس طرح کی جائز یا ناجائز تنقیدیں ہمارے مزاج اور نفسیات کا ایک حصہ بن گئی ہیں اور اس سے زیادہ بدبختی یہ ہے کہ ایسے کسی موقع پر جوشیلے پن کا اظہار کر کے اپنے حقوق مانگنا اور متعلقہ حکام کے خلاف ’’کلمہ حق‘‘ بلند کرنا پڑھا لکھا، باشعور اور دبنگ ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔ مجھے اس صورت حال پر سخت کوفت ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ کسی بہتر سماجی تربیت کا مظہر نہیں، بلکہ اخلاقی اتھلے پن اور انسانی وسماجی آداب سے بے بہرہ ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ پڑھا لکھا ہونا اگر کسی کو مہذب نہیں بناتا تو وہ نری جہالت ہے اور تنقید میں اگر موقع ومحل کی مناسبت ملحوظ نہ رہے تو اسے نفسیاتی ناہمواری کی پیداوار سمجھا جانا چاہیے۔ کاش ہمارے سماجی راہنما اور ذرائع ابلاغ مسائل ومشکلات کو سیاسی زاویے سے exploit کرنے کے بجائے سماجی آداب کے حوالے سے قوم کی شعوری واخلاقی تربیت کو اپنا ہدف بنا لیں۔

اخبار و آثار

(مئی ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter