’’سیرت سیدنا عمرؓ ‘‘ / ’’سیرت سیدنا ابو ہریرہؓ ‘‘
مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی ہمارے دور کے ان فاضل علماء کرام میں سے ہیں جو دینی وعلمی محاذ پر ہر وقت متحرک و چوکنا رہتے ہیں اور دینی و مسلکی حوالہ سے جہاں بھی کوئی خطرہ یا خدشہ محسوس کرتے ہیں، ان کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔ ان کے والد محترم مولانا ابراہیم یوسف باوا ؒ برطانیہ میں دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کی محنت کرنے والے سرکردہ حضرات میں سے تھے اور ان کے بھائی مولانا بلال احمد مظاہری شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ کے خلیفہ مجاز اور دارالعلوم بری کے استاذِحدیث ہیں۔ اس علمی خاندان کی خدمات کا دائرہ متنوع اور وسیع ہے اور مولانا حافظ محمد اقبال رنگونی بطور خاص اس سلسلہ میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک اسلامک اکیڈمی مانچسٹر میں مفکر اسلام حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود دامت برکاتہم کی سرپرستی میں کام کرتے رہے ہیں اور انہیں برس ہا برس تک حضرت علامہ خالد محمود صاحب کے دست راست اور معاون خاص کی حیثیت حاصل رہی ہے، اس لیے ان پر حضرت علامہ صاحب کے متکلمانہ ذوق کا رنگ غالب ہے اور وہ انہی کے لہجے میں لکھتے اور بات کرتے ہیں۔ اب کچھ عرصہ سے انہوں نے ادارہ اشاعت الاسلام اور مسجد امدادیہ کے نام سے ایک مستقل مرکز قائم کر کے اپنی سرگرمیاں وہاں منتقل کر لی ہیں اور مجھے کم و بیش ہر سال وہاں جانے اور ایک دو نشستوں میں شرکت کا موقع ملتا ہے۔
حافظ صاحب میرے انتہائی قریبی دوستوں اور معاونین میں سے ہیں اور ان کے ساتھ مختلف علمی و فکری مسائل پر باہمی مشاورت و معاونت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ حافظ محمد اقبال رنگونی نے اب تک مختلف عنوانات پر جو چھوٹے بڑے مضامین تحریر کیے ہیں، ان کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہو گی جب کہ ان کی باقاعدہ تصانیف بھی ایک درجن سے زائد ہیں۔ اس وقت ان کی دو ضخیم کتابیں میرے سامنے ہیں۔ ایک سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سوانح، ان کی خدمات کا تعارف، ان پر مختلف حوالوں سے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات اور ان کو خراج عقیدت پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔ پہلی جلد ساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات اور دوسری جلد سوا چار سو کے لگ بھگ صفحات پر محیط ہے۔ یہ کتاب حضرت عمرؓ کی حیات و خدمات اور ان کے بارے میں علمی مباحثات کے کم و بیش تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے اور اعتراضات و جوابات کے حوالہ سے بہت بڑے علمی ذخیرے کو اس میں سمو دیا گیا ہے جو دفاع صحابہؓ کے محاذ پر کام کرنے والے علماء کرام اور کارکنوں کے لیے یقیناًایک بڑا تحفہ ہے۔
دوسری کتاب سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کی حیات وخدمات پر ہے، حضرت ابوہریرہؓ جناب نبی کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی احادیث و ارشادات کے سب سے بڑے راوی ہیں اور اسی وجہ سے منکرین حدیث کے اعتراضات کا سب سے بڑا ہدف بھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے جس ذوق و شوق، محنت و جستجو اور ایثار و استقامت کے ساتھ ارشادات نبوی کو جمع و محفوظ کیا اور اگلی نسلوں تک پہنچایا، وہ ان کی حوصلہ و عزیمت کا ایک مستقل اور روشن باب ہے جو بجائے خود علم و فضل کے متلاشیوں کے لیے مشعل راہ ہے اور احادیث نبویہ کے ایک بڑے ذخیرہ کو امت تک منتقل کرنے کے لیے ان کی یہ محنت جہاں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے، وہاں یقیناًحضرت ابوہریرہؓ کی کرامت بھی شمار ہو گی۔ حافظ محمد اقبال رنگونی نے اسی داستان عشق و محبت کو دل چسپ پیرایے میں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کا علمی جدوجہد کے مراحل و مظاہر کے بارے میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ جمع کیا ہے اور استفادہ وافادہ کے باب میں حضرت ابوہریرہؓ کے ذوق و اسلوب سے اپنے قارئین کا آگاہ کرنے کے علاوہ ان پر کیے جانے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی شامل کتاب کر دیے ہیں۔
حدیث و سنت کی اہمیت اور حجیت پر کام کرنے والے علماء کرام اور طلبہ کے لیے یہ کتاب بطور خاص استفادہ کی چیز ہے۔ یہ کتابیں ادارہ اشاعت الاسلام پوسٹ بکس ۳۶ مانچسٹر M167AN(UK) نے شائع کی ہیں اور پاکستان میں صدیقی ٹرسٹ المنظر اپارٹمنٹ ۴۵۸ گارڈن ایسٹ نزد بس بیلہ چوک کراچی ۷۴۸۰۰ سے طلب کی جا سکتی ہیں۔
(ابو عمار زاہد الراشدی)
’’جماعت اسلامی پاکستان: ایک حاصل مطالعہ‘‘
مولف: ثاقب اکبر
ناشرا ن : البصیرہ، گلی نمبر ۲۹۹، جی نائن تھری، اسلام آباد
صفحات : ۱۵۲۔ قیمت: ڈیڑھ صد روپے
یہ ایک مختصر کتاب ہے۔ مولف نے خود اسے کتابچہ کہا ہے۔ مولف کے مطالعے کا واقعی حاصل ہے۔ مولف نے دیباچے کو ’’پہلی بات‘‘کا عنوان دیا ہے۔ اس میں مولف نے لکھا ہے کہ ’’اس تحریر میں اصولی اور اجمالی طور پر جماعت کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ دیگر مصروفیات اور وقت کی قلت بھی موضوع کو محدود رکھنے کی متقاضی تھی، لہٰذا زیرنظر کتابچے کو اسی پس منظر میں پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ مولف کے مطابق اہم پہلوؤں کا ذکر اور موضوع کو محدود رکھنے کا تقاضا، دو متضاد سمتوں کو اختیار کرنے کا کام ہے۔ ہم اس کا لحاظ رکھ کرکتابچے کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
کتاب کی تالیف کا فوری محرک ایرانی انقلاب کا پس منظر ہے۔ جماعت کی قیادت کی جانب سے انقلاب کا خیر مقدم ہوا تو مولف نے جماعت پر لکھنے کی ضرورت محسوس کی۔ یہ شوق و جذب، انقلاب کی وہ مشترک خواہش ہے جو جماعتی حلقوں میں پون صدی سے پرورش پا رہی ہے اور ایران میں یہ انقلاب عملی صورت میں موثر ہوا۔ جماعتی حلقوں میں اس انقلاب کا مطالعہ بھی اسی جذبِ مشترک کے تحت ہوا۔ مولف نے اس مطالعے کے حوالے بھی تفصیل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ کتاب میں سب سے زیادہ سیر حاصل بحث بھی اسی حوالے سے کی گئی ہے۔ یہ بحث کافی معلومات افزا اور دلچسپ ہے۔ اس میں جماعتی قیادت کی انقلاب کے بارے میں مختلف مراحل میں بدلتی ہوئی روش کا بھی اچھا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کا یہ حصہ کتاب کا حاصل ہے۔ مولف نے خوب جم کر لکھا ہے۔ اس سے مولف کے ذہنی رجحان کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
کتاب کے بعض دیگر حصوں سے واضح ہوتا ہے کہ مولف نے کافی محنت اور جستجو سے کام لیا ہے۔ موصوف کا مطالعہ اور مشاہدہ کافی وسیع ہے ۔ مولانا مودودی اور بعض زعما سے ملاقاتوں کو بھی اپنے پیش کردہ نتائج کی تائید میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود کتاب کا معیار صحافیانہ معیار سے کسی طرح اونچا نہیں۔ بعض پہلوؤں سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولف کا مطالعہ بہت سرسری، ناقص اور ادھورا ہے۔ موضوع کے پھیلاؤ نے اسے اور بھی اجمالی بنا دیا ہے۔ اس سے مدعا کی معنویت بھی کافی مجروح ہوئی ہے۔ زیادہ اچھا ہوتا کہ کسی ایک پہلو کو سیر حاصل مطالعے کے طور پر پیش کیا جاتا۔ موضوع کے پھیلاؤ کا اندازہ کرنے کے لیے فہرست مضامین جسے مولف نے ’’اجمال مطالب ‘‘ کے عنوان کے تحت درج کیا ہے، دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک خاص بات جو مجھے بہت کھٹک رہی ہے، یہ ہے کہ حاصل مطالعہ تو جماعت کا پیش کیا جا رہا ہے مگر ساتھ ہی بانی جماعت کے عقائد اور افکار کو جماعت کے عقائد و افکار کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ جماعت کے عقائد، نصب العین اور مقاصد کی تفصیل جماعت کے دستور میں پوری شرح و بسط کے ساتھ درج کر دی گئی ہے۔ مولف نے کتاب میں اس کا بہت اچھا خلاصہ دیا ہے۔ مولانا مودودی کے عقائد اورافکار کو دستور جماعت کی سطح پر کسی طرح متعلقہ بنانا درست معلوم نہیں ہوتا۔ مولانا مودودی نے اس بارے میں کئی بار خود بھی وضاحت کی ہے۔ اس طرح کتاب کے بنیادی عنوان سے بھی تجاوز ہوا ہے۔ اس لحاظ سے مولف نے جماعت کے بارے میں فرقہ واریت کا تاثر پیش کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ اسی کا شاخسانہ نظر آتی ہے۔
کتابچے کے بعض حصے مولف کی معلومات کے ادھورے پن کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صفحہ نمبر ۱۸ پر لکھا ہے کہ ’’جماعت کی رکنیت کے تین درجے میں، متفق، امیدوار رکنیت اور رکن‘‘۔ مولف سے یہ امر صرف نظر ہو گیا ہے کہ قاضی حسین احمد کے دورِ امارت میں ایک چوتھا درجہ ممبر کا بھی شامل کیا گیا۔ اس کو دستور اور تنظیم کا حصہ تو نہیں بنایا گیا تھا مگر اس کے لیے بڑی مہمات چلائی گئیں اور ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اس سب کچھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہہ جماعت کو عوامی بنانے کا یہ اجتہاد قاضی صاحب کے ذہن کی اختراع تھا۔ اسے بعد میں، قاضی صاحب کے دور میں بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ وقتی ہونے کے باوجود یہ پیش رفت اہم رہے گی۔ اس موقع پر تو یہ استدلال بھی کیا گیا کہ ممبر ہونے کے لیے مسلمان ہونا بھی شرط نہیں۔
مولف نے صفحہ ۱۸ پر لکھا ہے کہ ’’رکن جماعت کے لیے علم و عمل کی انتہائی سخت شرائط جماعت کے دستور میں درج کی گئی ہیں۔ مثلاً دستور کے مطابق وہ فرائض شرعی کا پابند ہو، دین کے بارے میں ضروری علم رکھتا ہو جماعت کے عقیدے کو اس کی تشریح کے ساتھ قبول کرے، جماعت کے نظم کی پابندی کا عہد کرے اور کسی ایسے ادارے کارکن نہ ہو جو جماعت کے عقیدے سے مختلف عقیدہ رکھتا ہو۔‘‘ ایسی شرائط کو انتہائی سخت قرار دینا ہجوم اور جماعت کے فرق کو نظر انداز کیے بغیر ممکن نہیں۔ اعلیٰ مقاصد کی جانب جد و جہد کے لیے انتہائی مضبوط اور مستحکم تنظیم لازم ہے۔ تنظیم کے لیے شرائط جتنی سخت ہو ں گی، اتنی ہی وہ مضبوط ہو گی۔ جماعت میں رکنیت کی شرائط کم سے کم ہیں ۔ تنظیمی استحکام کے لیے ان شرائط کو اور بھی سخت ہونا چاہیے تھا۔ تنظیمی قوت کا راز تعداد پر نہیں، ذہنی صلاحیت اور معیار کردار پر ہے۔ تحریکوں اور انقلابوں کی تاریخ میں کبھی کثرتِ تعداد کی بنا پر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انسانی ذہن خدا کے بعد سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو قلیل سے قلیل تعداد کی مدد سے بڑے سے بڑے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ بہرصورت اس پہلو سے مولف کا نقطہ نظر گہرائی سے خالی معلوم ہوتا ہے۔ یہ شرائط رکنیت پر روایتی اعتراض ہے جو مولف نے شاید روا روی میں دہرا دیا ہے۔
مولف نے صفحہ نمبر ۲۳، ۲۴ پر جماعت کے عقائد کے بارے میں لکھا ہے کہ جماعت کے عقائد و افکار بر صغیر کے فرقہ وارانہ ماحول کے پیش نظر مرتب کیے گئے ہیں۔ اس میں بریلوی اور اہل تشیع کے لیے کچھ کشش نہیں۔ وہ جماعت کے قریب کم ہی آئے ہیں۔ جماعت دیوبندی مکتب فکر کی ایک شاخ سمجھی جاتی ہے۔ مولف کا یہ قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔ جماعت نے فرقہ وارانہ بنیادوں سے بلند ہو کر اپنے عقیدے اور نصب العین کو پیش کیا ہے۔ جس نے بھی فرقہ وارانہ تصورات سے بلند ہو کر جماعت کے عقیدے کو قبول کیا ،وہ جماعت میں شامل ہوا۔ شمولیت کے بعد، اس کی اپنے مسلک سے وابستگی ذیلی نوعیت کی ہو گئی۔ جماعت میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر وابستگی کا کوئی سروے نہیں ہوا۔ اہل حدیث مسلک سے وابستہ لوگوں کی خاصی تعداد جماعت میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ گوجرانوالہ میں تو جماعت کی اولین پناہ ہی مولانا محمد عبداللہ مرحوم کی مسجد دال بازار تھی۔ مولانا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر رہ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مقامی سطح پر سیاسی اختلافات کی وجہ سے مولانا عبد اللہ جماعت سے نالاں ہوئے تو دور ہی ہوتے گئے۔ اہل تشیع اور بریلوی مکتب کے نمایاں لوگوں میں سے تو یقیناًجماعت سے کوئی وابستہ نہ ہوا۔ کسی مسلک کے نمایاں لوگ کم ہی کبھی متاثر ہو کر کسی تنظیم کا جزو بنتے ہیں۔ عام لوگوں میں سے اہل تشیع کی مثالیں کافی موجود ہیں۔ بریلوی مکتب سے متعلقہ لوگوں کی بھی کافی تعداد جماعت میں موجود ہے۔ ان میں سے نمایاں خود پروفیسر غفور احمد کی مثال تو خوب معلوم ومعروف ہے۔
مولف نے صفحہ نمبر ۱۰۹ پر قاضی حسین احمد کے ذکر میں لکھا کہ وہ قیم جماعت منتخب ہوئے، حالانکہ قیم جماعت کا انتخاب نہیں، تقرر ہوتا ہے۔ جماعت کے دستور اور تنظیمی ڈھانچہ کا اگر مولف نے بغور جائزہ لیا ہوتا تو یہ آسانی سے واضح ہو جاتا کہ جماعت کا تمام تر نظم نامزدگیوں پر مبنی ہے۔ امیر جماعت کا ارکان براہ راست انتخاب کرتے ہیں۔ بقایا جملہ امرا کا عزل و نصب بالائی نظم کی صوابدید پر ہے۔ استصواب کا ذکر موجود ہے مگر استصواب کی عملی اہمیت برائے نام رہ گئی ہے۔ البتہ شوریٰ ہر سطح پر منتخب کی جاتی ہے۔ لیکن اگر جماعت کے پورے نظام قیادت و شوریٰ کا اعداد و شمار اور ریکارڈ کی رو سے جائزہ لیا جائے تو اس نظام کا انتخابی پہلو محض نمائشی ہے۔ یہ نظام تسلسل و تواتر پر مبنی ہے۔ امیدواری اور کنونسنگ کے بغیر کوئی انتخاب انتخابی نہیں ہو سکتا۔ بہر حال یہ ایک مستقل موضوع ہے۔
مولف نے صفحہ ۶۳ پر پروفیسر غفور احمد اور قاضی حسین احمد کے بارے میں تحریر کیا کہ انتخابی مہم میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے خلاف اشتعال انگیز، جارحانہ اور بعض اوقات غیر شائستہ زبان استعمال کی۔ میرے نزدیک ان کا یہ لکھنا بالکل بے جا ہے۔ ہر دود عمائدین جماعت کے بارے میں اس طرح بات کہنا غلط ہے۔ اس کی شہادت پیش نہیں کی جا سکتی۔ مولف کا یہ لکھ دینا ناقابل فہم ہے۔ کتاب میں ایک آدھ مقام پر طلبہ اور ذیلی تنظیموں کے حوالے سے غیر معیاری طرز عمل کے حوالے سے مولف نے بہت کچھ لکھا ہے۔مگر یہ سب کچھ نہیں۔
کتاب میں جماعتی لٹریچر کے حوالے موجود ہیں، مگر جماعت کی دو جلدوں پر مشتمل تاریخ مرتبہ آباد شاہ پوری کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مولف اس کتاب سے شناسا نہیں۔ آباد شاہ پوری نے جس بھر پور انداز سے جماعت کی تاریخ کو پیش کیا ہے، وہ حرفِ آخر ہوتی اگر اس کی تکمیل ہو جاتی۔ دونوں ضخیم جلدیں ۱۹۴۷ء تک پہنچتی ہیں۔ اس کی ترتیب کا اہتمام جماعتی ادارے معارف اسلامی نے کیا ہے۔ مابعد جماعت کے دور کو مرتب کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ معلوم نہیں جماعت کے اندر اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا نہیں۔ علاوہ ازیں کتاب میں تنقیدی رجحان خاص قوی ہے۔ اس کے لیے تازہ او مستند ترین مواد میاں طفیل محمد کا طفیل نامہ ہے۔ اسے پروفیسر وقار احمد نے ترتیب دیا اور میاں طفیل صاحب نے اس پر نظر ثانی کی۔ فیصل بک سیلرز اردو بازار لاہور سے مل جاتی ہے۔ مولف کی نظر سے یہ کتاب بھی شاید نہیں گزری۔
آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مولف کی نظر اس پہلو پر نہیں گئی کہ اگر سید مودودی جماعت میں مجتمع دینی ٹیلنٹ کو ساتھ رکھ کر اپنی جد و جہد کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتے اور ایسی حکمت عملی مرتب کرتے جو اقتدار میں جلد آنے کے شوق میں تنہا پرواز کے بجائے ساتھیوں کے ساتھ زمینی حقائق کے شعور اور ادراک پر مبنی ہوتی تو نہ جماعت اپنا کردار اور ساکھ برباد کرتی اور نہ ہی منزل کھوٹی ہوتی۔ یقینی طور پر جماعت اپنی منزل پا لیتی۔ یہ جماعت سید مودودی کا شاہکار ہے۔ یہ شاہکار، کامل شاہکار بن جاتا۔ اس سلسلے میں امیر جماعت کے طور پر ساتھیوں کے بچھڑنے کی ذمہ داری سید مودودی پر ہی عائد ہو گی۔ اس میں قصور وار کون تھا اور کون نہیں تھا، اس کا فیصلہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ البتہ تاسیس جماعت کے بعد ابتدائی دو تین سال میں جماعت چھوڑنے والے اکابرین جماعت اور ذمہ داران جماعت کی خط و کتابت سے اختلافات کی نوعیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس کے پیش نظر یہ آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ ان اختلافات کی بنا پر جماعت چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہاں اس خط و کتابت میں ذمہ داران جماعت بشمول سید مودودی کے انداز کلام سے مایوسی ضرور ہوتی ہے۔ خطوط کے جواب میں ذمہ داران کا لہجہ بے نیازی، گریز اور فرار کا رہا۔ یہ رویہ مخاطب کے لیے اشتعال کا باعث ہو سکتا ہے۔ سید مودودی نے یہ محسوس نہ کیا کہ اگر تاسیس کے وقت اتفاق رائے سے منزل تک کا عہد سفر کرنے والے ان کے برابر کے لوگ ساتھ نہ رہے، وہ ان کو چھوڑ گئے تو منزل کھوٹی ہوگی، تحریک کبھی راہ پر محو سفر نہ رہے گی۔ چنانچہ بعد میں دوسری صف کے لوگوں کے ہاتھ میں قیادت آئی تو ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ آج کی قیادت، ہر سطح پر تحریک کے مقاصد کو ثانوی ترجیح میں رکھے ہوئے ہے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ معاشی مقاصد پورے ہو رہے ہیں اور تحریک اپنے حقیقی مقاصد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
در اصل سید مودودی کے ذہن میں شروع ہی سے جو مقاصد تھے، تاسیس کے وقت ایک سمجھوتے کے تحت ان کو موخر کرکے سفر شروع کیا گیا۔ سید مودودی کا تنہا پرواز کا شوق وقتی طور پر ترک کیاگیا۔ یہ سمجھوتہ کبھی باقی نہیں رہ سکتا تھا۔ ایک چیز سید مودودی نے میزبان اور موسس کے طور منوالی کہ وہ پانچ سال کے لیے امیر منتخب ہوئے۔ بار بار کے انتخاب پر کوئی پابندی نہ تھی۔ اس طرح نظام انتخاب بھی ایسا رہا کہ متبادل قیادت رائے دہندگان کی نظر سے اوجھل رہے۔ اوپر کی ٹیم میں برابری کی سطح کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہو لیکن اعلیٰ ترین مناصب پر بدل بدل کر ، ہر ایک کے لیے اپنی متنوع صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم نہ کیے جائیں توتنہا پرواز کے شوق کو پورے کرنے کے مواٰقع پیدا ہو جاتے ہیں اور ساتھی ساتھ چھوڑ ہی جایا کرتے ہیں۔ تنظیم بھی متنوع سمتوں میں سفر کے بجائے ایک ہی مزاج اور سمت کی آئینہ دار بن کر ادھورے پن کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس میں اجتماعی فکر کے بجائے ایک شخصیت کا پرتو غالب آ جاتا ہے۔ یہی کچھ ہوا اور جماعت موجودہ پوزیشن پر پہنچ گئی۔ ایک بار یہی سوال میں نے جناب جاوید غامدی سے کیا تو انہوں نے کہا کہ جماعت کے نظام میں اتنا حبس تھا کہ کسی ذہین آدمی کے لیے کھپ جانے کا کوئی موقع ہی نہیں ہوسکتا۔ جو لوگ ایک عرصہ تک جماعت میں ساتھ رہے، وہ بھی مولانا مودودی کے حسن طبع کی وجہ سے رہے۔ جماعت کے نظام میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ مولف کتاب نے اس پہلو پر بالکل توجہ نہیں دی، حالانکہ یہ پہلو سب سے اہم معلوم ہوتا ہے۔
بہرحال کتاب کے بارے میں، میں نے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے اس کے باوجود کتاب خاصی دلچسپ اور متوازن پیرایہ بیان رکھتی ہے۔ کافی معلومات افزا ہے۔ آزاد ذہن کے ساتھ پڑھنے والے کو اس میں کافی کچھ پڑھنے کو مل سکتا ہے۔
(چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)