اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں اس وقت حکومت اور حکمرانوں کے حوالے سے بہت سے مقدمات زیر سماعت ہیں اور اس سلسلے میں عدالت میں پیشی سے صدر اور وزیر اعظم کی استثنا پر ملک بھر میں بحث وتمحیص جاری ہے۔ ایک جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلامی روایات وتعلیمات کے مطابق حاکم وقت بھی اسی طرح عدالت کے سامنے پیش ہونے کا پابند ہے جس طرح رعیت کے دوسرے لوگ پابند ہیں، جیساکہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مقدمے میں عدالت کے سامنے پیش ہو کر اس کا اظہار کیا تھا، جبکہ دوسری طرف سے اس بات پر دلائل دیے جا رہے ہیں کہ حاکم اعلیٰ کی عدالت میں پیشی سے استثنا ضروری اور مستحسن ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر اطلاعات محترمہ فوزیہ وہاب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عمرؓ عدالت میں اس لیے پیش ہو گئے تھے کہ اس وقت صرف قرآن تھا اور کوئی دستور موجود نہیں تھا۔ اب چونکہ دستور موجود ہے، اس لیے صدر اور وزیر اعظم عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ ہیں۔ اس پر اخبارات میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے جس میں دن بدن تیزی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔
ہم اس وقت اس مسئلے کے صرف ایک پہلو کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری خیال کر رہے ہیں کہ کیا قرآن کریم خود کسی اسلامی ریاست کے لیے دستور کی حیثیت نہیں رکھتا اور کیا قرآن کریم کو ریاست ومملکت کے تمام معاملات میں بالادستی حاصل نہیں ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی امت کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ ’’اپنے حکمران کی اطاعت کرو خواہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، جب تک وہ تمھارے معاملات کو قرآن کریم کے مطابق چلاتا رہے‘‘ (ما یقودکم بکتاب اللہ) تو یہ قرآن کریم کی اسی حیثیت کا اعلان تھا کہ وہ اسلامی ریاست کا دستور ہے اور ریاست وحکومت کے تمام معاملات کا اسی دستور کے دائرے میں رہنا ضروری ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ اول حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خطبے (پالیسی خطاب) میں فرمایا تھا کہ میں تم سے کتاب وسنت کے مطابق چلنے کا وعدہ کرتا ہوں۔ جب تک میں کتاب وسنت کے مطابق حکمرانی کروں، تم پر میری اطاعت واجب ہے اور اگر میں قرآن وسنت کی اطاعت سے ہٹ جاؤں تو تم پر میری ضروری نہیں ہے۔ خلیفہ اول نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں قرآن وسنت کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو اور اگر اس سے ٹیڑھا ہونے لگوں تو مجھے سیدھا کر دو۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق کا یہ اعلان قرآن وسنت کی دستوری حیثیت کا اعلان تھا اور خلافت راشدہ کا آغاز قرآن وسنت کو اپنا دستور اور بالاتر قانون تسلیم کرنے کے ساتھ ہوا تھا۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق نے بھی اپنے پہلے خطبے میں یہی اعلان کیا تھا اور اس میں یہ اضافہ فرمایا تھا کہ میں قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ اپنے پیش رو خلیفہ کی روایات بھی قائم رکھوں گا، جبکہ خلیفہ ثالث حضرت عثمان کی خلافت کا فیصلہ کرتے وقت اس کی مجاز اتھارٹی حضرت عبد الرحمن بن عوف نے امیر المومنین کی حیثیت سے حضرت عثمان بن عفان کی بیعت ہی اس شرط پر کی تھی کہ :
’’ابایعک علی سنۃ اللہ ورسولہ والخلیفتین من بعدہ‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام)
یعنی میں آپ کی بیعت اس شرط پر کرتا ہوں کہ آپ کتاب وسنت کی پیروی کریں گے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو خلفا حضرت ابوبکر وعمر کی روایات کی پاس داری کریں گے۔ ان کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بھی اپنی حکومت کی بنیاد اسی اصول کو قرار دیا تھا جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن وسنت اور خلفاے راشدین کے فیصلوں کو اسلامی ریاست میں صرف راہ نما اصول یا Source of Law (ماخذ قانون) کا درجہ حاصل نہیں ہے بلکہ یہ خود قانون اور دستور کی حیثیت رکھتے ہیں اور قرآن وسنت کی اسی اصولی حیثیت سے انکار آج کے دستور سازوں اور قانون سازوں کے ہاتھ میں قرآن وسنت سے انحراف کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے ہی یہ بحث جاری ہے کہ قرآن وسنت خود قانون ہیں یا انھیں صرف ’’سورس آف لا‘‘ کی حیثیت حاصل ہے؟ اور محترمہ فوزیہ وہاب کے اس بیان کے پس منظر میں بھی ہمیں اسی تردد اور ابہام کی جھلک دکھائی دے رہی ہے، لیکن جب ہم بانی پاکستان قائد اعظم جناب محمد علی جناح کے ان بیانات واعلانات کی طرف رجوع کرتے ہیں جو انھوں نے قیام پاکستان کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمائے تھے تو ان میں ہمیں اس قسم کا کوئی ابہام نظرنہیں آتا۔ چنانچہ انھوں نے اگست ۴۴ء میں کانگرسی راہ نما گاندھی کو جو تفصیلی خط تحریر کیا، اس میں کہا کہ:
’’قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ ا س میں مذہبی اور مجلسی، دیوانی اور فوج داری، عسکری اور تعزیری، معاشی اور معاشرتی غرضیکہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ وہ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ امور حیات تک، روح کی نجات سے جسم کی صحت تک، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق وفرائض تک، اخلاق سے لے کر انسداد جرم تک، زندگی میں سزا وجزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا وسزا تک ہر ایک فعل، قول، حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔‘‘
جبکہ اس سے قبل ۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم یہ فرما چکے تھے کہ:
’’مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کا طرز حکومت متعین کرنے والا میں کون؟ یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو قبل قرآن حکیم نے فیصل کر دیا تھا۔‘‘
قائد اعظم کے بیان کردہ دونوں نکتوں پر غور کر لیجیے:
۱۔ مسلمانوں کا طرز حکومت تیرہ سو قبل قرآن کریم نے طے کر دیا تھا۔
۲۔ پاکستان کا طرز حکومت طے کرنا پاکستان میں رہنے والوں کا کام ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ دستوری حیثیت قائد اعظم کے ذہن میں بے غبار اور واضح تھی اور پاکستان کے رہنے والوں نے بھی طویل دستوری جدوجہد کے بعد ۱۹۷۳ء کے دستور کی صورت میں یہ بات طے کر دی تھی کہ قرآن و سنت کو ملک میں بالاتر حیثیت حاصل ہوگی اور دستور وقانون دونوں کو ان کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ اس لیے محترمہ فوزیہ وہاب اور ان کے ہم نواؤں سے ہماری گزارش ہے کہ وقتی اور گروہی سیاسی مفادات کے لیے قرآن وسنت کی بالاتر اور دستوری حیثیت کو زیربحث لانے سے گریز کریں۔ قرآن وسنت کو خلافت راشدہ میں بالاتر درجہ حاصل تھا اور پاکستان کا دستور بھی انھیں بالاتر تسلیم کرتا ہے، اس لیے قرآن وسنت کی اس اصولی حیثیت کے بارے میں تردد اور ابہام پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان، دونوں سے انحراف کے مترادف تصور ہوگی۔