حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ
۵ مئی کو حضرت مولانا خواجہ خان محمد بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ سال اسی تاریخ کو والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا انتقال ہوا تھا۔ وہ دونوں دار العلوم دیوبند میں ہم سبق رہے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد تھے۔ ان کا روحانی سرچشمہ بھی ایک ہی تھاکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں موسیٰ زئی شریف کی خانقاہ کے فیض یافتہ تھے۔ نقشبندی سلسلے کی اس خانقاہ کے حضرت خواجہ سراج الدین سے حضرت مولانا احمد خان نے خلافت پائی جو خانقاہ سراجہ کے بانی تھے اور اسی خانقاہ کے مسند نشین کی حیثیت سے مولانا خواجہ خان محمد ساٹھ برس سے زیادہ عرصے تک لوگوں کی پیاس بجھاتے رہے، جبکہ خواجہ سراج الدین کے دوسرے خلیفہ حضرت مولانا حسین علی مولانا محمد سرفراز خان صفدر کے شیخ تھے۔
مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مولانا خواجہ خان محمد تعلیمی اور روحانی طور پر دار العلوم دیوبند اور خانقاہ موسیٰ زئی شریف سے مشترکہ طور پر فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی بھر ایک مشن اور پروگرام کے داعی رہے اور ایک سال کے وقفے کے ساتھ وفات بھی ایک ہی دن پائی۔ مولانا خواجہ خان محمد نے ۹۰ برس عمر پائی اور دینی جدوجہد کے مختلف میدانوں میں خدمات سرانجام دیں۔ وہ سلسلہ نقشبندیہ کے بلند پایہ شیخ تھے اور تصوف وسلوک کے ایسے مستند شارح بھی تھے جن کی خدمت میں بڑے بڑے علماے کرام حاضر ہو کر روح وقلب کی تسکین پاتے اور تصوف وسلوک کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے تھے۔ وہ صاحب علم صوفی تھے، تصوف کے رموز واسرار سے نہ صرف آشنا تھے بلکہ ان کے ثقہ شارح بھی تھے۔ ایک بار امریکہ سے ایک نومسلم خاتون ڈاکٹر ایم کے ہرمینسن گوجرانوالہ آئیں جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے علوم سے خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں۔ انھوں نے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے ملاقات کے دوران تصوف کے بعض حساس اور دقیق مسائل پر تبادلہ خیالات کیا اور دریافت کیا کہ تصوف کے علمی مسائل اور اشکالات پر مجھے کس بزرگ سے بات کرنی چاہیے؟ حضرت صوفی صاحب نے فرمایا کہ آپ حضرت مولانا عبید اللہ انور اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد میں سے جن بزرگ سے بھی ملیں گی، آپ کو اپنے اشکالات وسوالات کا تسلی بخش جواب ملے گا۔
مولانا خواجہ خان محمد کی تگ وتاز کا دوسرا بڑا میدان جمعیت علماے اسلام اور نفاذ شریعت کی جدوجہد رہی ہے۔ وہ مولانا عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی اور مولانا عبید اللہ انور کے قریبی رفقا میں سے تھے اور جمعیت علماے اسلام کی مرکزی قیادت میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک عرصے تک جمعیت کے مرکزی نائب امیر رہے اور انھیں جمعیت کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت حاصل تھی۔ ۱۹۷۷ء میں حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری کی وفات کے بعد انھیں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد وہ زندگی کے آخری لمحات تک تحریک ختم نبوت کی قیادت کرتے رہے۔ ۱۹۸۴ء میں انھیں تمام مکاتب فکر کی مشترکہ مرکزی مجلس عمل ختم نبوت کا سربراہ منتخب کیا گیا اور ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماے کرام اور دینی جماعتوں نے ان کی قیادت میں ختم نبوت کے محاذ پر کئی بار متحد ہو کر جدوجہد کی۔ وہ دیوبندی مکتب فکر کی مختلف جماعتوں اور حلقوں میں نکتہ اتحاد اور مرجع کا مقام رکھتے تھے۔ دیوبندی مکتب فکر کی داخلی گروہ بندیوں میں جب بھی کسی مسئلے پر سب کو اکٹھا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مولانا خواجہ خان محمد نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی شخصیت وجہ اتحاد بن گئی۔ انھیں دیوبندی مکتب فکر کے دائرے سے ہٹ کر مختلف مکاتب فکر کے درمیان بھی یہ حیثیت حاصل تھی اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ مکاتب فکر کے علماے کرام اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے متعدد بار ان کی قیادت میں تحریک ختم نبوت میں مشترکہ تحریکات کا اہتمام کیا۔
مجھے یوں یاد پڑتا ہے کہ میں نے پہلی بار ان کی زیارت ۱۹۶۷ء میں ڈیرہ اسماعیل خان میں جمعیت علماے اسلام کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی آئین شریعت کانفرنس کے موقع پر کی تھی۔ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی اور حضرت مولانا خواجہ خان محمد کا جلوس کی شکل میں استقبال کیا گیا تھا اور قبائلی عوام اپنے روایتی انداز میں ان دونوں بزرگوں کو جلوس کے ساتھ شہر کے مختلف بازاروں میں گھما رہے تھے۔ مجھے اس سفر کے دوران خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضر ی کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ حضرت خواجہ صاحب کی آخری زیارت میں نے گزشتہ سال رجب کے دوران ایک سفر میں خانقاہ سراجیہ شریف میں حاضری کے موقع پر کی۔ اس سفر میں مجھے خانقاہ سراجیہ میں حاضری کے علاوہ رئیس الموحدین حضرت مولانا حسین علی رحمہ اللہ کی قبر پر حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا۔
حضرت مولانا خواجہ خان محمد کے ساتھ میری نیازمندی کا عرصہ چار عشروں سے متجاوز ہے۔ سفر وحضر اور خلوت وجلوت کی سیکڑوں ملاقاتوں اور مختلف تحریکات میں ایک کارکن کے طور پر رفاقت کے شرف سے بہرہ ور رہا ہوں اور ان کی شفقتوں اور دعاؤں سے ہمیشہ فیض یاب ہوتا رہا ہوں۔ میں حضرت خواجہ صاحب کے خاندان، جماعت، مریدین، معتقدین اور متعلقین سے تعزیت کرتے ہوئے یہ سوچ رہا ہوں کہ تعزیت تو سب حضرات کو مجھ سے کرنی چاہیے کہ ایک کارکن سے اس کا امیر رخصت ہو گیا ہے، ایک گناہ گار سے دعاؤں کا سہارا چھن گیا ہے اور ایک راہ ر و سے اس کا رہبر جدا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت خواجہ صاحب کی حسنات کو قبول فرمائیں، کوتاہیوں سے درگزر فرمائیں اور تمام پس ماندگان اور متعلقین کو یہ عظیم صدمہ صبر او رحوصلے کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے حضرت خواجہ صاحب کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا قاضی عبد الحلیمؒ
گزشتہ ماہ حضرت مولانا قاضی عبد الحلیم کلاچوی بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ کلاچی کے اس علمی خاندان کی روایات کے امین تھے جو کئی نسلوں سے علمی ودینی خدمات میں مسلسل مصروف ہے۔ انھوں نے ساٹھ برس سے زیادہ عمر پائی۔ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل تھے۔ ایک عرصے سے اپنے والد مکرم حضرت مولانا قاضی عبد الکریم اور اپنے خاندان کی علمی ودینی روایات کو سنبھالے مصروف عمل تھے۔ میرے ساتھ ان کی اکثر خط و کتابت رہتی تھی۔ میرے مضامین اہتمام سے پڑھتے تھے۔ جو بات اچھی لگتی، اس پر داد دیتے اور جس سے اختلاف ہوتا، کھلے دل کے ساتھ اس سے اختلاف بھی کرتے۔ یہ توازن اب ہمارے اجتماعی مزاج سے نکلتا جا رہا ہے۔ وہ عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر صاحبان آپریشن پر زور دیتے رہے، مگر وہ مسلسل ٹالتے رہے کہ وقت اخیر آپہنچا اور وہ اپنے خاندان اور دوستوں کو سوگوار چھوڑکر مالک حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
مولانا قاضی بشیر احمدؒ
گزشتہ ماہ کے دوران میں ہی آزاد کشمیر کے معروف عالم دین مولانا قاضی بشیر احمد کا ہاڑی گہل ضلع باغ میں انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آزاد کشمیر میں حضرت مولانا محمد یوسف خان آف پلندری اور ان کے رفقا کی محنت سے سیشن کورٹ کی سطح پر جج صاحبان اور علماے کرام کی مشترکہ عدالتیں قائم ہوئیں جو اب بھی کام کر رہی ہیں اور سیشن جج صاحبان کے ساتھ علماے کرام بھی بطور ضلع قاضی فیصلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جن فاضل علما نے سیشن جج صاحبان کے ساتھ بیٹھ کر سالہا سال تک مقدمات کے فیصلے کیے، عدالتی صلاحیت اور کارکردگی کے حوالے سے علماے کرام کی ساکھ قائم کی اور عملاً یہ ثابت کیا کہ دینی مدارس کے فضلا بھی عدالتی نظام کو چلانے اور فیصلے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، ان میں مولانا قاضی بشیر احمد او رمولانا قاضی مقبول احمد سرفہرست ہیں۔ مولانا قاضی بشیر احمد دار العلوم کراچی کے فضلا میں سے تھے۔ کم وبیش ربع صدی تک آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ضلع قاضی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہاڑی گہل میں دار العلوم امدادیہ کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا اور تعلیمی خدمات سرانجام دیتے ہوئے گزشتہ ہفتے انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت میں بلند درجات سے نوازیں۔ آمین
میاں انعام الرحمن کی ہمشیرہ
گزشتہ ماہ کے دوران علامہ محمد احمد لدھیانوی مرحوم کی بیٹی اور پروفیسر میاں انعام الرحمن کی بڑی ہمشیرہ قضاے الٰہی سے گوجرانوالہ میں انتقال کر گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ مولانا قاری محمد اسرائیل کی زوجہ اور نیک اور صالح خاتون تھیں۔ ان کے جنازے میں اعزہ واقربا کے علاوہ شہر کے علماے کرام اور معززین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائیں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ آمین