ایک تربیتی ورک شاپ کی روداد (۱)

محمد عمار خان ناصر

جنوری ۲۰۱۰ء کے آغاز میں مجھے پاکستان کے دینی جرائد کے مدیران اور نمائندوں کے ایک گروپ کے ہمراہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ’’میڈیا کے چیلنج اور پیغام کی اثر انگیزی‘‘کے زیر عنوان منعقد کی جانے والی ایک سہ روزہ تربیتی ورک شاپ (۳ تا ۵ جنوری ۲۰۱۰ء) میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس ورک شاپ کا اہتمام اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے الائنس آف سویلائزیشنز (AoC) نے کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کی تجویز ۲۰۰۵ء میں اقوام متحدہ کی ۵۹ ویں جنرل اسمبلی میں اسپین کے صدر Jos233 Luis Rodrguez Zapatero نے ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی تائید کے ساتھ دی تھی۔ اس کے پس منظر میں بنیادی طو رپر یہ سوچ کارفرما ہے کہ دنیا میں مختلف تہذیبوں کے مابین تصادم کا نظریہ درست نہیں اور انسانی حیثیت سے تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کی اقدار اور ضروریات آپس میں ملتی جلتی ہیں، اس لیے تہذیبوں کے مابین اختلافات کے بجائے مشترکات کو اجاگر کرنا چاہیے اور اختلاف اور تنوع کو ایک منفی چیز سمجھنے کے بجائے انسانوں کے باہمی استفادہ اور ذہنی وعملی ترقی کا ایک ذریعہ سمجھنا چاہیے۔ الائنس آف سولائزیشنز کے ساتھ اس ورک شاپ کے انتظام وانصرام میں ایک دوسری بین الاقوامی تنظیم سرچ فار کامن گراؤنڈ (SFCG) شریک تھی جو مذکورہ مقاصد ہی کے لیے سرگرم ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر بلجیم میں ہے اور بہت سی دوسری سرگرمیوں کے علاوہ یہ ’’انسانیت میں شریک کار‘‘ (Partners in Humanity) کے عنوان سے ایک ہفتہ وار نیوز سروس بھی جاری کرتی ہے جس میں تہذیبی، مذہبی اور سیاسی اختلافات کے حوالے سے ایسے تجزیاتی مضامین شائع کیے جاتے ہیں جو مسئلے کے پرامن حل کے لیے مفید ہوں۔ یہ نیوز سروس پانچ زبانوں میں شائع ہوتی ہے اور http://www.commongroundnews.org/ پر اس کے مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ ورک شاپ میں الائنس آف سولائیزیشنز کی نمائندگی دانش مسعود جبکہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کی نمائندگی راشد بخاری اور ان کے معاون مظہر حسین کر رہے تھے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک آئی سی آر ڈی کے نمائندے اظہر حسین اور اسلام آباد کے کہنہ مشق صحافی اور روزنامہ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار ارشاد محمود اس سفر میں بطور ٹرینر ہمارے ساتھ رہے۔ 

ورک شاپ میں پاکستان کے بہت سے نمایاں جرائد کے نمائندے شامل تھے، مثلاً ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر طاہر سعید کاظمی، ماہنامہ ’’عرفات‘‘ لاہور کے مدیر راغب حسین نعیمی، ماہنامہ ’’منہاج القرآن‘‘ لاہور کے مدیر ڈاکٹر علی اکبر الازہری، ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد کے مدیر ثاقب اکبر، ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان کے مدیر مولانا محمد ازہر، ماہنامہ ’’العصر‘‘ پشاور کے نمائندہ مولانا حسین احمد، ماہنامہ ’’ضیاے حرم‘‘ کے نائب مدیر محبوب الرحمن، روزنامہ اوصاف اور روزنامہ اسلام کے کالم نگار مولانا عبد القدوس محمدی، ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر حافظ احمد شاکر، ماہنامہ ’’وائس آف پیس‘‘ کے ایڈیٹر قاضی عبدالقدیر خاموش، ماہنامہ ’’نداء الاسلام‘‘ پشاور کے مقصود احمد سلفی، ہفت روزہ ’’حدیبیہ‘‘ کراچی کے سید عامر نجیب، ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کے وسیم احمد، ’’ندائے خلافت‘‘ کے مرزا محمد ایوب بیگ، ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ اور ماہنامہ ’’آئین‘‘ لاہور کے مرزا محمد الیاس، پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی کے عبد الخالق آفریدی اور ماہنامہ ’’اذان فجر‘‘ لاہور کے مولانا محمد عزیر روحانی بازی۔ اس کے علاوہ بلوچستان کے مختلف قومی ومقامی اخبارات وجرائد کی نمائندگی کرتے ہوئے قاضی عبد الصمد، عبد الواحد شہوانی اور عبد القادر قریشی نے بھی اس ورک شاپ میں شرکت کی۔ ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نائب مدیر امجد عباسی اور ماہنامہ ’’محدث‘‘ کے مدیر حافظ حسن مدنی کسی وجہ سے اس ورک شاپ کے لیے نیپال کا سفر نہ کر سکے، البتہ وہ اس ورک شاپ کے پہلے حصے میں، جو اکتوبر ۲۰۰۹ء میں بھوربن کے پی سی ہوٹل میں منعقد کیا گیا تھا، شریک تھے اور اس حوالے سے حسن مدنی صاحب کے تفصیلی تاثرات ’’محدث‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں شائع ہو چکے ہیں۔ 

پروگرام کے اصل شیڈول کے مطابق ان سب حضرات کو ۲ جنوری کو اسلام آباد سے کھٹمنڈو کی فلائٹ پر اکٹھے سفر کرنا تھا، لیکن دھند کی وجہ سے لاہور سے تعلق رکھنے والے حضرات بروقت اسلام آباد نہ پہنچ سکے، چنانچہ وہ بعد میں ۴ جنوری کو نیپال پہنچے۔ باقی سب حضرات ایک ہی فلائٹ سے سفر کر رہے تھے۔ اتنی نمایاں تعداد میں ڈاڑھی اور ٹوپی سے مزین مذہبی لوگوں کا ایک جگہ جمع ہونا لوگوں کے لیے اچنبھے کا باعث بنا رہا۔ ہم اسلام آباد سے پی آئی اے کے جس جہاز پر بیٹھے، اس کے عملے کے ایک آفیسر خاصی معلومات رکھنے والے اور باتونی قسم کے تھے۔ وہ اڑان کے آغاز میں ہی میرے اور وفاقی وزیر مذہبی امور جناب حامد سعید کاظمی کے چھوٹے بھائی اور ماہنامہ ’’السعید‘‘ ملتان کے مدیر برادرم طاہر سعید کاظمی کے سامنے اپنے لیے مخصوص نشست پر بیٹھ گئے اور سارا راستہ دلچسپ باتیں کرتے رہے۔ بیٹھتے ہی گفتگو کا آغاز انھوں نے ذرا تحیر آمیز انداز میں اس سوال سے کیا کہ اتنے سارے مولوی حضرات اکٹھے ہو کر نیپال کس غرض سے جا رہے ہیں؟ مجھے مذاق سوجھا اور میں نے ان سے کہا کہ ہم اپنا پروگرام وقت سے پہلے نہیں بتایا کرتے۔ میرے جواب سے ان کے چہرے پر کچھ پریشانی کے آثار دکھائی دینے لگے تو میں نے فوراً وضاحت کی کہ آپ بے فکر رہیں، یہ صرف ایک مذاق تھا۔ نیپال میں بھی ہمارا گروپ اپنی مخصوص مذہبی شناخت کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا، بلکہ اپنی والدہ کے ہمراہ غالباً سیاحت کی غرض سے آئی ہوئی ایک نوجوان انگریز لڑکی نے، جو اسی ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی، ہمارے منتظم دوست مظہر حسین سے باقاعدہ دریافت کیا کہ یہ اتنے سارے مولوی صاحبان یہاں کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ اتنے سارے باریش لوگوں کو دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی ہے اور اس نے اپنی والدہ سے کہا ہے کہ وہ صورت حال پر غور کریں۔ مظہر حسین نے اسے اس گروپ کی آمد کا پس منظر بتایا تو اسے کچھ اطمینان محسوس ہوا اور اس نے کہا کہ اچھا، آپ ان لوگوں کو اعتدال پسند بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔

ورک شاپ کا بنیادی موضوع، جیسا کہ اس کے عنوان سے ظاہر ہے، یہ تھا کہ ابلاغ عامہ کے دائرے میں کیا چیلنجز درپیش ہیں اور مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اس میں کیا کردار ادا کر سکتے اور اپنے پیغام کو کیسے موثر طریقے سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ عنوان اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصا وسیع تھا، تاہم ورک شاپ میں عملاً جس نکتے پر زیادہ ارتکاز رہا، وہ یہ تھا کہ نفسیاتی اور سماجی اعتبار سے ’’شناخت‘‘ کی اہمیت کیا ہے، کسی گروہ کا سماجی رویہ اور کردار متعین کرنے میں اس کا کس قدر دخل ہے، شناخت کے قائم رہنے یا کسی خطرے کی زد میں آنے کا سوال کیسے سماجی سطح پر مختلف گروہوں کے مابین تنازعات کو جنم دیتا ہے اور ایسے تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں۔ ورک شاپ کے پہلے حصے (اکتوبر ۲۰۰۹ء) میں اظہر حسین کے علاوہ سرچ فار کامن گراؤنڈ کے راشد بخاری اور ایف سی کالج یونیورسٹی لاہور کے حافظ عبد الغنی اور سلیم قیصر عباس نے الگ الگ نشستوں میں متعلقہ عنوانات پر گفتگو کی تھی، تاہم کھٹمنڈو کی ورک شاپ میں گفتگو کی ذمہ داری زیادہ تر اظہر حسین نے انجام دی، جبکہ راشد بخاری اور دانش مسعود وقتاً فوقتاً ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب ارشاد محمود نے ایک مستقل نشست میں اس موضوع پر تفصیلی اور معلومات افزا گفتگو کی کہ مذہبی صحافت سے وابستہ لوگ اگر عمومی صحافت میں اپنی جگہ بنانا چاہیں تو اس کے لیے انھیں کون سے راہ نما اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ 

اظہر حسین پاکستانی ہیں۔ ان کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم وتربیت کراچی میں ہوئی۔ تقریباً چار دہائیاں قبل وہ اپنے والد کے مشورے پر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ چالیس سال قبل یہاں کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے والد نے اپنی بصیرت کی بنا پر اس بات کی پیش بینی کر لی تھی کہ پاکستانی معاشرہ جن خطوط پر آگے بڑھ رہا ہے، اس کا نتیجہ شدید نسلی ولسانی منافرتوں کی صورت میں نکلے گا، چنانچہ انھوں نے ایک تفصیلی خط لکھ کر انھیں آنے والے منظر کی ایک جھلک دکھائی اور انھیںآمادہ کیا کہ وہ امریکہ منتقل ہو جائیں، البتہ انھوں نے انھیں اس بات کا بھی پابند کیا کہ وہ دنیا میں جہاں بھی رہیں، پاکستان اور پاکستانی معاشرے کی بہتری کے لیے کوشش کرتے رہیں اور جس قدر ممکن ہو، اس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں۔ 

اظہر حسین اس وقت امریکہ میں قائم ایک تھنک ٹینک انٹر نیشنل سنٹر فار ریلجن اینڈ ڈپلومیسی (ICRD) کے نائب صدر ہیں۔ مغرب کے سماجی علوم میں تنازعات کے تصفیے (Conflict Resolution) کے موضوع سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور اس موضوع سے متعلق نظری وعلمی بحثوں کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے لسانی، مذہبی اور نسلی تنازعات کی نوعیت اور صورت حال پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ جس ادارے سے وابستہ ہیں، اس کی بنیاد اس تصور پر ہے کہ دنیا میں موجود مختلف تنازعات کے حل کے لیے مذہب اور مذہبی راہ نماؤں کا کردار بہت اہم ہے اور ان تنازعات کے حل کے عمل میں مذہبی عناصر کو شریک کرنا اور ان کے اثر ورسوخ سے مدد لینا بہت مفید، معاون اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے۔ ان کی سرگرمیوں اور تعلقات کا دائرہ پاکستان کے مذہبی وسیاسی راہ نماؤں سے لے کر سعودی عرب کے شاہی خاندان اور امریکی سینٹ اور ہیئت مقتدر ہ کے کارپردازوں تک وسیع ہے اور وہ اپنے موضوع سے متعلق ان سب دائروں میں راہ نماؤں اور سماجی کارکنوں کی تربیت اور راہ نمائی کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اظہر حسین کی دلچسپی اور کاوشوں کا مرکز ومحور یہ نکتہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ نسلی، لسانی، علاقائی اور مذہبی بنیادوں پر جس تقسیم اور تشتت کا شکار ہے، اسے اس سے نکالا جائے اور مختلف گروہوں کے مابین تناؤ کو دور اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے مکالمہ اور برداشت کی فضا پیدا کی جائے۔ 

اظہر حسین نے شناخت اور تنازعات کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے کہا کہ کسی نہ کسی مذہبی، تاریخی اور سماجی حوالے اپنی شناخت متعین کرنا افراد اور گروہوں کی شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ ہے، لیکن جب شناخت میں یہ چیز شامل ہو جائے کہ ہم دوسروں سے برتر ہیں تو یہ تباہ کن بن جاتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی گروہ اپنی شناخت کو خطرے میں محسوس کرتا ہے تو اس میں تشدد پیدا ہوتا ہے جو تنازع کو جنم دیتا ہے۔ جو سیاسی یا سماجی تنازعات مفادات کے ٹکراؤ پر مبنی ہوں، ان کا حل نسبتاً آسان ہوتا ہے جبکہ نظریہ اور اقدار پر مبنی تصادم صدیوں چلتے ہیں۔ اس لحاظ سے تصادم کے اسباب میں سے ایک بہت بڑا سبب مذہب رہا ہے، کیونکہ مذہب اپنی اصل تعلیمات کے لحاظ سے پرامن اور ایثار اور اخلاص پر مبنی ہوتا ہے، لیکن انسانوں کو مختلف شناختوں میں تقسیم کرنے کی وجہ سے یہ نزاع اور تصادم کا باعث بنتا ہے۔ مزید برآں مذہبی قیادت طاقت اور اقتدارکے حصول کے لیے جبر سے کام لیتی ہے اور لوگوں کی غلط راہنمائی اور تعصبات کو فروغ دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی اور اس طرح مذہب سیاسی اور معاشرتی سطح پر منافرت، تشدد اور تقسیم پیدا کرنے کا ایک آلہ بن جاتا ہے۔

اظہر حسین نے کہا کہیورپ میں کئی سو سال تک کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحی مذہبی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے اور مجموعی طور پر ان لڑائیوں میں ساٹھ ملین (چھ کروڑ) افراد تہہ تیغ کیے گئے۔ ہر چرچ میں مخالف فرقوں کے افراد کو قتل کرنے اور عبرت کا نشانہ بنانے کے لیے باقاعدہ انتظام موجود تھا۔ ۱۷۷۹ء میں انقلاب فرانس سے پہلے تک یہ کیفیت بہت زیادہ تھی جبکہ دوسری جنگ عظیم تک بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی حد تک چلتا رہا۔ آئر لینڈ میں دس بارہ سال پہلے تک پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ایک محلے میں نہیں رہ سکتے تھے، لیکن اہل مغرب نے اس صورت حال پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ بلجیم سے جرمنی کا ویزا نہیں ملتا تھا، لیکن اب یورپی ممالک نے اپنے آپ کو متحد کر کے یورپی یونین کی شکل میں ڈھال لیا ہے۔ اس وقت دنیا میں ۶۳سیاسی وسماجی تنازعات موجود ہیں جن میں اچھی خاصی تعداد مذہبی تشخص پر مبنی تنازعات کی ہے اور یہ زیادہ تر مسلم معاشروں اور دنیا کے ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً فلپائن کے ایک جزیرے میں، جہاں مسلمانوں کے تین ہزار مدارس ہیں، عیسائیوں کا وجود برداشت نہیں کیا جا رہا اور چند ماہ قبل پچاس سے زائد مسیحیوں کے سر کاٹ دیے گئے ہیں اور انھیںیہ دھمکی دی گئی ہے کہ اگر مسیحی اس علاقے سے نہ گئے تو ان کا صفایا کر دیا جائے گا۔ (حال ہی میں ملائشیا میں ایک عدالتی فیصلے پر، جس میں غیر مسلموں کو لفظ ’’اللہ‘‘ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے، احتجاج کرتے ہوئے بہت سے گرجوں کی توڑ پھوڑ اور جلانے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔) 

اظہر حسین نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے تک مغرب میں کوئی تنازعہ اس وقت تک حل نہیں ہوتا تھا جب تک دونوں فریق تھک نہ جائیں، جبکہ مسلم معاشروں میں زیادہ سمجھ داری کا رویہ پایا جاتا ہے اور اس بات کو مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی نوٹ کیا ہے۔ گویا ہماری اجتماعی بصیرت اور تحمل وبرداشت کی صفت مغرب سے بہتر ہے۔ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک آئی ڈی ایف اے (Institute of Defence Analysis) کی ایک رپورٹ میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ چونکہ مسلم معاشرے وسیع پیمانے پر قتل وغارت کے تجربے سے نہیں گزرے، اس لیے وہ اپنے داخلی تنازعات کے حل کے بارے میں زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، اس لیے ان کے معاملات میں زیادہ مداخلت کرنے کے بجائے انھیں اس مرحلے تک جانے دینا چاہیے تاکہ یہ تجربے سے گزر کر خود سیکھیں۔ اس کے برعکس ایک دوسرے تھنک ٹینک USIP (یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس) کا موقف یہ ہے کہ مغرب کو وسائل صرف کر کے مسلم معاشروں کی سول سوسائٹی کو تربیت دینی چاہیے اور ان میں شعور پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ معاشرے کو مثبت رخ پر لے جائیں۔ روزنامہ ’’آج کل‘‘ کے کالم نگار جناب ارشاد محمود نے، جو اس ورک شاپ میں بطور ٹرینر شریک ہوئے تھے، اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشروں میں غصہ نکالنے کے لیے Safety Valve لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تھوڑا بہت غصہ نکال کر لوگوں کا کتھارسس ہو جاتا ہے اور اجتماعی قتل وغارت کے مرحلے تک بات نہیں پہنچتی۔ انھوں نے مثال کے طور پر پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں سخت فرقہ وارانہ کشیدگی کے ماحول میں ایم ایم اے بنی اور اس نے فرقہ وارانہ تناؤ کو کم از کم بالائی سطح پر کنٹرول کیا۔ اسی طرح موجودہ دہشت گردی کے حوالے سے رائے عامہ ابتدا میں کافی کنفیوزڈ تھی، لیکن آہستہ آہستہ یکسوئی پیدا ہوتی گئی کہ ہم تشدد کو بہرحال گوارا نہیں کریں گے اور تمام بڑے گروپ اس کو جواز فراہم کرنے کا راستہ ترک کر چکے ہیں۔ مرزا محمد الیاس نے اس پر مزید اضافہ کیا کہ کسی بھی تشدد پسند گر وہ کو اس کے اپنے حلقہ فکر کے لوگ بھی own نہیں کرتے اور نہ ان کے ساتھ اپنی شناخت کو وابستہ کرتے ہیں۔ 

سید عامر نجیب نے تبصرہ کیا کہ ہمارے ہاں دکھ، تکلیف اور آزمائش کو نظریاتی اور اعتقادی بنیاد پر جواز مہیا کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور اس سے ہم اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا کام لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں فرد بھی اس وقت تک اپنی تکلیف یا بیماری کی طرف سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہوتا جب تک کہ مسئلہ خاصا سنگین نہ ہو جائے۔ اصلاح کے لیے محض وقتی قسم کی کوششیں کی جاتی ہیں اور کنویں کو کتے سے پاک کرنے کے بجائے پانی نکالنے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ عامر نجیب نے کہا کہ تشدد پسند عناصر کو ان کے سرپرست گروہوں نے نظر انداز کیااور ان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے انھیں تنہا چھوڑ دیا۔ عامر نجیب نے کہا کہ مذہبی صحافت آزاد نہیں ہے اور مذہبی جرائد پر اداروں، جماعتوں اور حلقہ ہائے فکر کی پالیسیوں کا جبر بہت سخت ہے جس کی وجہ سے مذہبی صحافت میں معروضی تجزیے اور خود تنقیدی کا فقدان ہے، جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی جذباتی قوم کو مزید جذباتی بنانے کے بجائے حالات کا ہر پہلو سے درست اور غیر جانب دارانہ تجزیہ کرنے کی روایت کو فروغ دیں۔

سماجی سطح پر مختلف حوالوں سے پائے جانے تعصب آمیز رویے بھی اس گفتگو میں زیر بحث آئے۔ مولانا عبد القدوس محمدی نے صحافت کے میدان میں اپنے ذاتی تجربے کا ذکر کیا اور بتایا کہ جب انھوں نے اپنے صحافتی سفر کے آغاز میں مختلف اخبارات سے رابطہ قائم کیا تو ان کی مولویانہ وضع قطع اور دینی تعلیم کا پس منظر دیکھتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، البتہ ان کی تحریروں کے نمونے دیکھ کر آزمائشی موقع دیا گیا۔ تاہم بعد میں ان کی اچھی کارکردگی سامنے آنے پر بعض مدیران نے اپنے سابقہ رویے پر معذرت کی اور ان کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے اخبار کے میگزین کا انچارج تک بنا دیا گیا۔ جناب ارشاد محمود نے دنیاے صحافت کے تعصبات کے ایک اور پہلو کی نشان دہی کی۔ انھوں نے کہا کہ اگرکوئی پاکستانی لکھاری کسی بین الاقوامی ویب سائٹ پر یا اخبار میں پاکستان کے حوالے سے کوئی مثبت بات لکھنا چاہے تو اسے کئی طرح کے سوالات اور تحفظات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنی پڑتی ہے کہ وہ انتہا پسند نہیں ہے، لیکن اگر آپ منفی اندازمیں لکھنا چاہیں تو اس کی فوراً پذیرائی ہوتی ہے۔ اظہر حسین نے اس کی تائید کی اور کہا کہ دراصل اخبارات تجارتی بنیادوں پر چلتے ہیں اور انھیں فوری نوعیت کی اور سنسنی آمیز خبریں چاہیے ہوتی ہیں، کیونکہ اخبارکے عام قارئین کو سنجیدہ تجزیوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ دانش مسعود نے ایک اور اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے کہا کہ مغرب میں مسلمان معاشروں کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ یہاں انتہا پسندی کا دور دورہ ہے اور اسی وجہ سے وہی اخبار زیادہ بکتا ہے جو اس تاثرکی موافقت کرتا ہو اور اس کو مزید بڑھاتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ مغرب کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشروں میں صرف انتہا پسندی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے مسائل ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔مزید یہ کہ اس انتہا پسندی کے اسباب کو متعین کرنے اور ان کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، ورنہ اس صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ 

مولانا محمد ازہر نے اس مرحلے پر یہ سوال اٹھایا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کس چیز کو کہا جاتا ہے ؟ دانش مسعود نے اس سوال کی اہمیت کااعتراف کیا اورکہا کہ عام طور پر بعض بڑے بڑ ے الفاظ بول دیے جاتے ہیں لیکن ذہنوں میں ان کا کوئی متعین اور واضح مصداق نہیں ہوتا۔ انھوں نے اس ضمن میں دہشت گردی، شدت پسندی اور عدم رواداری جیسے الفاظ کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ سب رویے افراد، گروہوں اور حکومتوں میں یکساں پائے جاتے ہیں۔ تاہم اظہر حسین نے کہا کہ ان اصطلاحات کے بعض مصداقات یقیناًایسے ہیں جن پر اتفاق رائے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی گروہ اپنے مذہبی تصورات یا کسی سیاسی مطالبے کو منوانے کے لیے حکومت یا کسی سماجی گروہ کے خلاف تشدد اور طاقت کا استعمال کرے یا بعض سماجی مقاصد یا مفادات کے حصول کے لیے ایک گروہ کے جذبات کو دوسرے گروہ کے خلاف انگیخت کرے تو اسے دہشت گردی یا انتہا پسندی قرار دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔ 

سماجی شناخت کے سوال ہی کے ضمن میں ’’سید‘‘ ہونے اور اس سے متعلقہ معاشرتی تصورات پر بھی گفتگو ہوئی۔ جناب طاہر سعید کاظمی نے کہا کہ ان کا تعلق سادات سے ہے اور وہ اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس پرمولانا محمد ازہر نے معارضہ کیا کہ فخر تو ایسی چیز پر کیا جاتا ہے جو اختیاری ہو جبکہ غیر اختیاری چیزوں پر شکر کرنا چاہیے، لیکن کاظمی صاحب نے کہا کہ انھیں جس طرح اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے، اسی طرح سید ہونے پر بھی فخر ہے۔ نداء الاسلام پشاور کے نمائندے مقصود احمد سلفی نے کہا کہ سید ہونے کے ساتھ بعض ایسے تصورات وابستہ ہو گئے ہیں جو معاشرتی سطح پر مشکلات کا باعث ہیں اور جنھیں اسلامی تعلیمات کا عکاس نہیں کہا جا سکتا، مثلاً سادات اپنی خواتین کا نکاح غیر سادات سے کرنے کو اپنی تحقیر سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے شادی کے قابل بہت سی خواتین طویل عرصے تک کنواری بیٹھی رہتی ہیں۔ طاہر سعید کاظمی نے اس پر وضاحت کی کہ ان کے خاندان میں ایسا نہیں ہے اور ان کی زیادہ تر ہمشیرگان کا نکاح غیر سادات خاندانوں میں ہی ہوا ہے، البتہ انھوں نے اعتراف کیا کہ بعض سید خاندانوں میں اس حوالے سے اس قدرشدت پائی جاتی ہے کہ وہ کسی شیعہ سید کو تو رشتہ دے سکتے ہیں لیکن کسی غیر سید سنی سے اپنی خواتین کا نکاح کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ماہنامہ ’’افکار محسن‘‘ حیدر آباد کے مدیر سید ارشد رضا بخاری نے کہا کہ اب زیادہ تر پڑھے لکھے شیعہ حضرات اپنی لڑکیاں غیر سید خاندانوں میں دینے لگے ہیں۔ انھوں نے عراق کے شیعہ مرجع آیت اللہ سیستانی کے اس فتوے کا بھی حوالہ دیا کہ غیر سید مومن (یعنی شیعہ) کے ساتھ سید لڑکی کا نکاح کیا جا سکتا ہے۔

ورک شاپ کی ایک نشست میں اتفاق سے پاکستان میں شیعہ سنی کشمکش کا موضوع چھڑ گیا اور پھر موضوع کی اہمیت اور شرکاے مجلس کے اشتیاق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے یہ نشست اسی موضوع پر باہمی تبادلہ خیال کے لیے مخصوص کر دی۔ یہ ایک مفید اور فکر انگیز نشست تھی، اس لیے یہاں ذرا تفصیل سے اس کی روداد درج کی جا رہی ہے۔

ماہنامہ ’’پیام‘‘ اسلام آباد کے مدیر جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین اختلاف اور اتفاق کا تناسب یہ ہے کہ اختلافی چیزیں گنی جا سکتی ہیں جبکہ اتفاقی امور شمار سے باہر ہیں، اس لیے اختلافات کو اجاگر کرنے کے بجائے اتفاقات کو نمایاں کرنا چاہیے۔ (میرے خیال میں اہل تشیع اور اہل سنت کے مابین اختلافات اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایسے بنیادی اور اصولی ہیں کہ ان کے سامنے اتفاقات اپنی اہمیت کھوبیٹھتے ہیں، کیونکہ دو گروہوں کے مابین اتحاد واشتراک یا افتراق کا سوال مختلف فیہ امور کی تعداد یا تناسب سے نہیں بلکہ اختلافات کی نوعیت اور سنگینی سے طے پاتا ہے۔)

مولانا محمد ازہر نے یہ سوال اٹھایا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے باہمی اختلافات میں جارحیت کا رویہ کس طرف سے اپنایا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اہل سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت رضوان اللہ علیہم سے نفرت نہیں کرتے بلکہ محبت رکھتے ہیں۔ جہاں تک سیدنا علیؓ سے دوسرے اصحاب کے مقابلے میں زیادہ محبت رکھنے کی بات ہے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں، لیکن اہل تشیع کی مجالس او ر تحریروں میں خلفاے ثلاثہ کے بارے میں جو زبان استعمال کی جاتی ہے، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، حالانکہ وہ ان بزرگوں سے عقیدت نہ رکھتے ہوں تو بھی اہل سنت کے جذبات کے احترام میں انھیں چاہیے کہ وہ ان کے بارے میں نازیبا زبان استعمال نہ کریں۔ مولانا نے کہا کہ اس حوالے سے اسلام کی اخلاقی تعلیم تو یہ ہے کہ ایک مسلمان تو کیا، کسی غیر مسلم کو برا بھلا کہنے سے بھی اگر کسی مسلمان کے احساسات کو ٹھیس پہنچتی ہو تو اس سے گریز کرنا چاہیے۔ مولانا نے سیرت نبوی سے یہ مثال پیش کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ بن ابی جہل کے اسلام قبول کرنے کے بعد مسلمانوں کو عکرمہ کے سامنے ابوجہل کو برا بھلا کہنے سے منع کر دیا اور فرمایا کہ لا تسبوا الاموات فتؤذوا الاحیاء، یعنی مرنے والوں کو برا مت کہو کیونکہ اس سے ان کے زندہ عزیزوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ (کتب حدیث وسیرت میں آپ کا یہ ارشاد مختلف مواقع پر مختلف افراد کے حوالے سے نقل ہوا ہے۔ ایک موقع پر ایک شخص نے عبد المطلب کو جہنمی کہا تو سیدنا عباس نے اسے تھپڑ رسید کر دیا۔ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا۔ ایک دوسرے موقع پر سیدنا صدیق اکبر نے ایک مشرک کی قبر دیکھ کر اس پر لعنت کی تو اس کے بیٹے نے، جو وہاں موجود تھا، جواب میں سیدنا صدیق کے والد جناب ابوقحافہ پر لعنت کر دی۔ اس موقع پر بھی آپ نے یہی بات ارشاد فرمائی۔ اسی طرح ایک موقع پر ابوجہل کے بارے میں اورایک دوسرے موقع پر عمومی طور پر غزوۂ بدر میں قتل ہونے والے تمام مشرکین کے بارے میں یہی ہدایت فرمائی کہ ان کو برا بھلانہ کہا جائے کہ اس سے ان کے مسلمان عزیزوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ یہ سب روایات علامہ ابراہیم بن محمد الحسینی نے اپنی کتاب ’’البیان والتعریف‘‘ ۲/۲۷۷ میں جمع کر دی ہیں۔)

اس پر اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے جناب اعجاز حسین نے کہا کہ اہل سنت کے علماء بھی جناب ابو طالب کے کفر وایمان کی بحث چھیڑتے ہیں اور ان کا کفر پر مرنا ثابت کرنے کے لیے مضامین اور کتابیں لکھی جاتی ہیں جس سے شیعہ حضرات کو تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر مولانامحمد ازہر نے کہا کہ یہ ایک بالکل مختلف معاملہ ہے اور اہل سنت کے علما علمی طور پر اور تاریخی روایات کی روشنی میں جناب ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے موقف کو ترجیح دینے کے باوجود کبھی ان کی توہین وتنقیص کا رویہ اختیار نہیں کرتے، بلکہ اکابر علماء اہل سنت کے ہاں اس کی تصریح ملتی ہے کہ اس مسئلے کو زیادہ زیر بحث نہ لایا جائے کیونکہ اس سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچتی ہے۔ (خود اپنے مذہبی جذبات کے حوالے سے شیعہ کمیونٹی کی نازک مزاجی کی کیفیت یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک درس میں ڈاکٹر اسراراحمد صاحب نے محض ضمنی طور پر وہ معروف روایت بیان کی جس میں تحریم خمر سے پہلے کے دور میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شراب پی کر نماز پڑھانے اور نتیجتاً قرآن مجید کی غلط قراء ت کرنے کا ذکر ہوا ہے تو شیعہ حضرات نے اسے سیدنا علی کی توہین کا رنگ دے کر اس پر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اسی طرح برادرم حافظ طاہر اسلام نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہہ دیا کہ امام حسین کی جدوجہد حالات کی عدم موافقت کی وجہ سے بظاہر ناکام رہی تو ان پر توہین امام کا الزام لگا کر احتجاجی جلوس نکالے گئے اور انھیں جان کی دھمکیاں دی گئیں۔)

مولانا محمد ازہرکے اصل سوال پر بات کرتے ہوئے اظہر حسین نے کہا کہ اہل سنت کی یہ شکایت بجا ہے اور میں نے اکابر شیعہ علما سے اس مسئلے پر بات کی ہے اور وہ سب اس طرز عمل کی مذمت کرتے ہیں، بلکہ عراق کے بزرگ شیعہ عالم جناب آیت اللہ سیستانی نے تو ایسے لوگوں کو برادری باہر (ex-communicate) کرنے کی سفارش کی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ شیعہ حلقوں میں عوامی سطح پر یہ طرز عمل نہ صرف رائج بلکہ بے حد مقبول ہے۔ اظہر حسین نے، جو خود خاندانی طور پر شیعہ پس منظر رکھتے ہیں، کہا کہ شیعہ مجالس میں کسی مقرر کی تقریر کا لطف ہی اس وقت آتا ہے جب ذاکر کسی کو گالی دے، لیکن ہم نے امریکہ میں ایسے لوگوں پر پابندی لگا رکھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ شیعہ گھرانوں میں بھی نئی نسل آزادی سے سوچنے کا حق مانگتی ہے، چنانچہ ان کے ایک خاندانی عزیز نے سلفی فکر کو سمجھنے کے لیے سعودی عرب میں جا کر تعلیم حاصل کی جبکہ ایک عزیزہ نے پی ایچ ڈی کے لیے ملائشیا کا انتخاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سنی اسلام کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 

جناب ثاقب اکبر نے کہا کہ خلفاے ثلاثہ کی توہین وتنقیص کا مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے اور میں اپنے شیعہ پس منظر کی وجہ سے اہل سنت کی اس شکایت کو قبول کرتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے پاس حقیقت میں یہی دلیل اور ہتھیار ہے اور ملک کے اکابر سنی اور شیعہ علما کو اکٹھے ہوکر اس پر سوچ بچار کرنی چاہیے۔ ثاقب اکبر نے کہا کہ اہل تشیع کے پڑھے لکھے لوگ شیعہ ذاکرین اور خطبا سے تنگ ہیں کیونکہ وہ نفرت پھیلاتے ہیں اور تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ سنجیدہ شیعہ علما اپنی نجی مجالس میں ان حضرات سے یہ توکہتے ہیں کہ وہ سرعام ایسے خیالات کا اظہار نہ کیا کریں جس سے اہل سنت کے جذبات مجروح ہوں، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ عوامی سطح پر بھی اس رویے سے براء ت کا اعلان کریں۔ انھوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسے عناصر کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے اور ہم لوگوں کے سامنے اتحاد اتحاد کی ظاہری باتیں کر نے کے بعد اپنے گھر میں جا کر وضاحتیں پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ 

میر ے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ اہل سنت کے اکابر کی توہین وتنقیص کو عام واعظوں اور ذاکروں کا طرز عمل کہہ کر اس سے کیسے بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے جبکہ توہین وتنقیص کی بے حد ناگوار مثالیں اہل تشیع کے بڑے بڑے علما اور مراجع کے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ چیز امامت کے بارے شیعہ حضرات کے مخصوص نظریے کے مطابق ان کے عقیدہ وایمان کا تقاضا ہے؟ خود ایرانی انقلاب کے پیشوا جناب خمینی کی بعض عبارتیں بھی اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں۔ (ثاقب اکبر نے مجھے بتایا کہ خمینی صاحب کی ابتدائی دور کی لکھی ہوئی صرف ایک کتاب ہے جس میں ایسی باتیں موجود ہیں۔ بعد میں جب ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہوئی تو وہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے اتحاد اور باہمی احترام کے داعی بن گئے تھے۔ میرے لیے خمینی صاحب کی تحریروں سے براہ راست کوئی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی رائے دینا مشکل ہے)۔ یہ سوال غالباً ثاقب اکبر کے ذہن میں بھی موجود تھا، چنانچہ انھوں نے بات کو بڑھاتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی رائے میں اہل تشیع کو نہ صرف خلفاے ثلاثہ کی توہین وتنقیص کا رویہ ترک کرنا چاہیے بلکہ اصولی طور پر بھی خلفاے ثلاثہ کی خلافت کے جواز وعدم جواز کے سوال پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی بحث ہے اور تاریخی طور پر پہلی خلافت حضرت ابوبکر اور چوتھی حضرت علی کو ملی تھی۔ آج ہم اس ترتیب کو بدل نہیں سکتے، اس لیے آج اس تاریخی بحث کے تصفیے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم خلافت اسلامیہ کے تحت اسلامی معاشرے کے اوصاف حمیدہ سے آج کی نسل کو روشناس کرائیں۔ ثاقب اکبر نے کہا کہ وہ اس حوالے سے درج ذیل تین سوالات غور وفکر کے لیے اہل تشیع کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں:

۱۔ کیا حضرت علی نے خلافت کے مسئلے پر اختلاف کیا؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، کیا۔

۲۔ کیا اختلاف کے باوجود انھوں نے خلفاے ثلاثہ کی تائید اور حمایت کی؟ جواب یہ ہے کہ ہاں، کی۔

۳۔ کیا انھوں نے اختلاف کی بنیاد پر خلفاے کے خلاف جتھہ بندی کی؟ جواب یہ ہے کہ نہیں کی۔

یہ تینوں چیزیں تاریخ سے ثابت ہیں۔ اس بنیاد پر میں اہل تشیع سے کہتا ہوں کہ اگر آپ شیعان علی ہیں تو آپ کو اس مسئلے میں حضرت علی سے بازی لے جانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب سیدنا علی کے اختلاف کو اس وقت کے مسلم معاشرے نے قبول نہیں کیا تو انھوں نے مسلمانوں کی مرکزیت کو قائم رکھنے کے لیے خلفا سے تعاون کیا، چنانچہ اہل تشیع کو بھی خلفاے ثلاثہ کے پیروکاروں سے تعاون کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔ اسی طرح اہل سنت کو چاہیے کہ وہ جیسے سیدنا علی سے محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں، اسی طرح ان کے ماننے والوں سے بھی محبت رکھیں۔

ثاقب اکبر نے مزید کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں عہد صحابہ کے باہمی اختلافات ومشاجرات کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور قدیم الاسلام صحابہ اور ان کے بالمقابل طلقا کے مابین فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور سیدنا علی اور خلفاے ثلاثہ کے اختلاف اور اسی طرح سیدہ عائشہ اور حضرت زبیر کے ساتھ حضرت علی کی جنگ کے معاملے میں فریقین کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اجتہادی اختلاف کا درجہ دینا چاہیے، البتہ طلقا اور صحابہ کو ایک درجے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ (اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی کے باہمی اختلاف میں سیدنا معاویہ کو ’’اجتہادی اختلاف‘‘ کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ میرے خیال میں اگر صرف شخصیات کے فرق مراتب کو سامنے رکھنے کے بجائے سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد رونما ہونے والی اس معروضی صورت حال کو بھی سامنے رکھا جائے جس میں سیدنا عثمان کے قاتلین نے سیدنا علی کے کیمپ میں پناہ لے رکھی تھی تو سیدنا معاویہ کے لیے، جن کا مطالبہ اصلاً قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا تھا، اجتہادی اختلاف کی گنجائش تسلیم کیے ہی بنتی ہے، چنانچہ سیدنا علی کا مصالحت کی غرض سے حکمین کے تقرر پر راضی ہونا دوسرے فریق کے موقف میں صحت کا امکان تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیدنا حسن نے بھی ان کی امارت کو بالفعل یوں قبول کیا کہ ان کے مطالبے پر سیدنا معاویہ نے انھیں ایک لاکھ کی رقم بھیجی۔ سیدنا علی نے اس پر اعتراض کیا تو سیدنا حسن نے ان سے کہا کہ ’بل حرمتنا انت وجاد ہو لنا‘ (البدایہ والنہایہ ۸/۱۳۷) یعنی آپ تو ہمیں محروم رکھتے ہیں، جبکہ انھوں نے فیاضی سے کام لیا ہے۔) 

مولانا عبد القدوس محمدی نے کہا کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلے میں ایک اچھی مثال کے طور پر اتحاد تنظیمات مدارس کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے باہمی اتحاد کی وجہ سے مدارس کے کردار اور ان کے مفاد کا تحفظ اور دفاع ممکن ہوا۔ انھوں نے کہا کہ باہمی روابط کے اس سلسلے کو نیچے تک پھیلانا چاہیے اور جس طرح قائدین اور راہ نماؤں کی سطح پر شخصی اور ذاتی تعلقات کا سلسلہ قائم ہے، اسی طرح مختلف مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے مابین بھی ملاقاتوں اور باہمی نشستوں کے ذریعے تفاعل (Interaction) پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسی بھی مکتب فکر کے واعظین اور عوامی مقررین سے شدت کا ہتھیار چھین لینا چاہیے۔ مزید یہ کہ محرم کے تعزیتی جلوسوں کو ایک مخصوص مکتب فکر کی عبادت کی حیثیت سے محدود جگہوں پر منعقد کرنا چاہیے، عوامی مقامات تک ان کو پھیلانے کا کوئی جواز نہیں۔

ماہنامہ ’’العصر‘‘ کے مولانا حسین احمد نے کہا کہ مذہبی اختلافات دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہیں، لیکن ہمارے ہاں مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے بری طرح استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ ایرانی انقلاب کے بعد عراقی سفیر نے دینی مدارس میں آنا جانا شروع کر دیا اور ایران کے خلاف فضا بنانے کی کوشش کی۔ اس کے مقابلے میں ایرانی سفیر بھی مدارس میں آنے جانے لگے۔ شیعہ سنی مسئلے کا پس منظر سیاسی ہے اور اس آگ کو بھڑکانے کے لیے عرب ممالک نے بھی پیسہ دیا اور امریکہ نے بھی شیعہ سنی منافرت پھیلانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ شدت پسندی کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اب حالات اتنے گھمبیر ہو چکے ہیں کہ بظاہر ان سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا اور اکابر اور سنجیدہ علما کے لیے بھی کوئی عملی کردار ادا کرنا اس لیے مشکل ہے کہ مولانا حسن جان شہید کی مثال سب کے سامنے ہے۔ مزید یہ کہ قربانی دینے سے بھی کوئی مثبت نتیجہ یا فائدہ حاصل ہونے کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ (ایک نشست میں جناب ثاقب اکبر نے بھی شیعہ سنی کشیدگی کے اس تجزیے سے اتفاق کیا اور کہا کہ یہ دراصل خلیج کی سیاسی کشمکش کے اثرات ہیں جو ہمارے ہاں نمودار ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں انقلاب ایران کے اثرات کو وسیع تر کرنے کی پالیسی کا بھی دخل ہے اور انقلابی قیادت کو اس معاملے میں زیادہ محتاط اور دانش مندانہ راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔)

بلوچستان کے قاضی عبد الصمد نے فرقہ وارانہ اختلافات کی نفسیات پر تبصرہ کرتے ہوئے بلتستان میں نور بخشی اہل تشیع کے راہ نما علامہ موسوی کا یہ دلچسپ قول سنایا کہ ’’یہ عجیب بات ہے کہ ہاتھ چھوڑ کر اور ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں، لیکن جو لوگ بالکل نماز نہیں پڑھتے، انھیں کوئی کافر نہیں کہتا۔‘‘ 

(جاری)

اخبار و آثار

(اپریل ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter