محترم مولانا عمار خان ناصر صاحب
سلام مسنون۔ امید ہے مزاج بخیر ہوں گے!
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ [فروری ۲۰۱۰] میں سید مہر حسین بخاری صاحب کا جوابی مکتوب پڑھا۔ موصوف نے خوامخواہ بحث کو طول دینے اور اپنے پلڑے میں وزن ڈالنے کے لیے حضرت صوفی صاحب نوراللہ مرقدہ کے شیعہ کے بارے میں نظریہ سے متعلق بحث میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی اول صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ بھی نقل کردیا، حالانکہ اس عاجز نے تو فقط حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے نظریہ سے متعلق چند گزارشات کی تھیں۔ اب جبکہ وہ خود میدان میں اتر آئے ہیں تو مجبوراً ہمیں بھی چند گزارشات کرنا پڑیں۔خدا تعالیٰ حق سچ کہنے اور لکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین۔
چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
[۱] ’’روافض میں تفصیل ہے۔ جو قطعیات کا منکر ہے اور سب شیخینؓ کرتا ہے اور حضرت عائشہؓ پر تہمت لگاتا ہے اور صحابہ کرام کی تکفیر کرتا ہے، وہ کافر اور مرتد ہے۔ ان سے مناکحت اور مجالست حرام ہے اور واضح ہو کہ روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں، اگر چہ بوجہ تقیہ کے (جو ان کے نزدیک شرائطِ ایمان میں سے ہے) اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور اپنے عقائد مخفی رکھتے ہیں، لہٰذا ان کے قول وفعل کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ان کے اصول مذہب کو دیکھا جائے۔‘‘ [فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ۸ ص ۴۵۵]
[۲] ’’جوتمام صحابہؓ کو برا کہتا ہے، وہ پورے دین کا انکار کرتا ہے، ہم قطعی فیصلہ رکھتے ہیں ایسے آدمی کے بارے میں جو ایسا قول کرے جس سے تمام امت گمراہ ہوتی ہو کہ وہ کافر ہے۔‘‘ [فتاویٰ سیوطیؒ ، ج ۲ ص ۵۷۷]
[۳] ’’من انکر امامۃ ابی بکر الصدیقؓ فہو کافر، وقال بعضہم ھو مبتدعٌ ولیس بکافرٍ، والصحیح انہ کافر، وکذالک من انکر خلافۃ عمرؓ فی اصح الاقوال، کذا فی الظہیریۃ ویجب اکفارہم بانکار عثمانؓ و علیؓ وطلحہؓ وزبیرؓ وعائشہؓ ‘‘ [فتاویٰ عالمگیری ج۲ ص۲۳۹، الباب التاسع فی احکام المرتدین]
[۴] ’’من سبَّ شیخین او طعن فیہما فقد کفر ویجب قتلہ ثم ان رجع وتاب وجدد الاسلام ھل تقبل توبتہ ام لا؟ قال صدر الشہید لاتقبل توبتہ واسلامہ، وھو المختارللفتویٰ ای عندی‘‘ [البحرالرائق ج۵ ص۱۲۶]
[۵] ’’وفی الروافض ان فضل علیاً بالثلاثۃ فھو مبتدعٌ وان من انکر خلافۃ الصدیق او عمر فھو کافر‘‘ [فتح القدیر ج۷ ص ۳۶۰]
[۶]’’در مذہب حنفی موافق روایت معنی براست حکم فرقہ شیعان حکم مرتدان است‘‘ [فتاویٰ عزیزی ج۱ ص۱۲]
[۷]’’حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے تکفیر شیعہ کے تین اسباب بیان کیے ہیں۔۔۔ [۱]تحریف قرآن۔۔۔ [۲]نظریہ امامت۔۔۔ [۳]سبِّ صحابہؓ جو شیعہ یہ تینوں یا ان میں سے کوئی ایک نظریہ رکھتا ہے وہ بالاتفاق کافر ہے اور اس کے کفر میں اہل سنت کے ہاں کوئی اختلاف نہیں، حضرت عمی مکرم رحمہ اللہ(حضرت صوفی صاحب ؒ ) بھی مذکورہ عقائد کے ساتھ شیعہ پر فتویٰ کفر سے کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔‘‘ (از مضمون : مولانا عبدالحق خان بشیرؔ مدظلہ ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ مفسر قرآن نمبر ص۲۳۶)
[۸]اہل تشیع کا یہی وہ عقیدہ (تحریفِ قرآن ) ہے جس کی بناء پر حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے علی الاعلان شیعہ کی تکفیر کا فتویٰ دیا۔ اور پھر اس فتویٰ کو[۱] حضرت مدنی رحمہ اللہ، [۲]حافظ عبدالرحمن امروہی رحمہ اللہ، [۳]مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمہ اللہ، [۴]مولانا مفتی مہدی حسن رحمہ اللہ، [۵]مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ، [۶]مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ،[۷] مولانا اصغر حسین رحمہ اللہ، [۸]مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ،[۹] قاری محمد طیب رحمہ اللہ وغیرہم جیسے اکابرومشائخ اور اصحابِ فتویٰ کی تصدیقات کے ساتھ شائع کیا۔ واضح رہے کہ مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ نے جو فتویٰ دیاتھا اس میں انہوں نے شیعہ کے عقائد پر فتویٰ نہیں لگایا بلکہ شیعہ کو انہوں نے بحیثیت فرقہ کے خارج از اسلام قرار دیا، چنانچہ لکھتے ہیں کہ شیعہ اثناعشری قطعاً خارج از اسلام ہیں۔[ماہنامہ بینات خصوصی اشاعت ص۱۷۰]
[۱۰]’’ شیعہ کی نمازِ جنازہ پڑھانا جائز نہیں آج کل کے شیعہ حضراتِ شیخین (ابوبکرؓوعمرؓ)وصحابہ کرامؓ کو سبّ(گالی)بکنا ثواب خیال کرتے ہیں اور حضرت عائشہؓ کے متعلق افتراء باندھتے ہیں اس لیے ان کے کفر پر ائمہ کا اتفاق ہے حضرت عائشہؓ کی براء ت قرآن میں منصوص ہے اس لیے ان کا قائل ہونا قرآن کریم کی آیات کا انکار ہے جو بالا تفاق کفر ہے ............ باقی شیعہ صاحبان کے ساتھ مودت دوستی نہیں رکھنی چاہیے صحابہ کرامؓ اور حضرت عائشہؓ کے دشمنوں کے ساتھ کیا دوستی ہوسکتی ہے ؟واللہ اعلم ‘‘[فتاویٰ مفتی محمودؒ جلد۳ص۶۶]
[۱۱] ’’تنبیہ الولاۃ الحکام علیٰ احکامِ شاتمِ خیر الانام لمولٰنا محمد امین الشہیر با بن عابدین الشامی رحمہ اللہ کے صفحہ ۲۶۷میں ہے: واما من سبّ احدا من الصحابۃ فھو فاسقٌو مبتدعٌ بالاجماع الااذا اعتقد انہ مباحٌاو یترتب علیہ الثواب کما علیہ بعض الشیعۃ او اعتقد کفر الصحابۃ فانہ کافرٌ بالاجماعِ ۔
موجودہ وقت میں پاکستان کے شیعہ صحابہ کرامؓ کے سبّ(گالی )کو حلال موجبِ ثواب سمجھتے ہیں اس لیے اسلام سے خارج ہیں ۔‘‘(ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود جلد سوم ص۶۶،۶۷)
[۱۲]’’دین کے بارے میں ہم کسی کا پاس نہیں رکھتے ۔الحمد للہ کہ یہ ورثہ ہمیں اپنے اکابر سے حاصل ہوا ہے۔ لیکن قطعی اور واضح ثبوت کے بغیر ہم کسی کی تکفیر کرنے کے لیے بھی ہر گز تیار نہیں ہیں، اختلاف کا مقام اور ہوتا ہے اور تکفیر کا اور ،دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔‘‘ (بابِ جنت ص۲۷۱)
اس قدراحتیاط کے باوجود حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمائیں اور اس کی نگرانی اپنے ذمہ لیں اور کھلے کافر بھی اس کی اصلی صورت میں محفوظ رہنے کا اقرار کریں مگر شیعہ شنیعہ یہ کہیں کہ ہمارے علما اور مجتہدین کی تحقیق سے تواتر کے ساتھ اس میں تحریف اور کمی بیشی ثابت ہے اور شیعہ کے چار علما کے بغیر ان کے باقی تمام متقدمین اور متأخرین کا اس پر اتفاق و اجماع ہے کہ موجودہ قرآن محرف اور مبدل ہے کیا شیعہ شنیعہ کی تکفیر کے لیے یہی ایک نص قطعی کا فی نہیں ہے؟ الغرض دیگر بے بنیاد اور باطل عقائد شیعہ کے اپنے مقام پر ہیں جو سبب کفر ہیں اور قرآن کریم کی تحریف کا دعویٰ اپنی جگہ قطعاً اور یقیناًان کی تکفیر کا موجب ہے جس میں ایک رتی بھر بھی شک و شبہ نہیں۔’’لاریب فیہ‘‘
یہی وجہ ہے کہ جملہ اہل حق کھلے طور پر شیعہ کی تکفیر کرتے ہیں اور یہ ان کا اسلامی اور قانونی حق ہے مگر بایں ہمہ وہ امن عامہ کو بگاڑنے اور خراب کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں ہیں کیونکہ وہ مسئلہ کے ساتھ مصلحت کو نظر انداز نہیں کرتے ۔‘‘ (ارشادالشیعہ ص ۳۸)
[۱۳]’’ہمارے ایک ساتھی کہتے تھے کہ شیعہ اثنا عشریہ امامیہ کو کافر نہیں کہنا چاہیے کیونکہ ازہر یونیورسٹی کے پرنسپل ان کو کافر نہیں کہتے۔ حالانکہ حضرت امام اہل السنۃ رحمہ اللہ تو سبق کے اندر بھی فرماتے تھے کہ شیعہ اثنا عشریہ امامیہ جو کہ تحریف قرآن کے قائل ہیں اور امام کے مرتبہ کو نبوت سے افضل سمجھتے ہیں اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ایمان تک کے منکر ہیں (معاذاللہ)، ان کو کافر کہنا فرض ہے۔ اس پر حضرت رحمہ اللہ نے مستقل کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ نامی تحریر فرمائی ہے ۔اس لیے میں نے اس ساتھی کو کہا کہ آؤ حضرت شیخ رحمہ اللہ کی خدمت میں گکھڑ جاکر پوچھ لیتے ہیں۔ جب ہم نے سوال کیا تو حضرت نے فرمایا کہ ’’ان کو کافر کہنا فرض ہے‘‘۔ ہمارے اس ساتھی نے اعتراض کیا کہ ازہر یونیورسٹی کے پرنسپل ان کو کافر نہیں کہتے تو حضرت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ ان کے عقائد جانتے ہیں اور ان کو کافر نہیں کہتے تو خود کافر ہیں اوراگر ان کو ان کے عقائد معلوم نہیں تو پرنسپل کس بات کے ہیں؟‘‘ (مجلہ ’’المصطفیٰ‘‘ امام اہل سنت نمبر، ازمضمون مولانا نور محمد آصف)
[۱۴]’’راقم اثیم دیانۃً اس کا قائل ہے کہ اسلام کو جتنا نقصان روافض نے پہنچایا ہے، وہ مجموعی لحاظ سے کسی کلمہ گو فرقے سے نہیں پہنچا۔ ‘‘(ارشاد الشیعہ ص ۳۰)
دیکھئے! حضرت امام اہل سنتؒ شیعہ پر فتواے کفر کے باوجود ان کو’’ کلمہ گو فرقہ‘‘ فرما رہے ہیں۔ نیز ایک اور مقام پر بھی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ نے ان کو اہل السنۃ والجماعۃ سے متصادم گروہ میں شمار کیا ہے نہ کہ اسلام کے مقابل مذاہب باطلہ میں۔ [ ملاحظہ ہو عقائد اہل السنۃ والجماعۃاز: مولانا مفتی محمدطاہر مسعود، ص ۳۶] کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی کو کلمہ گو اور اسلامی فرقہ کہنے سے اس کی تکفیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نیز اس کی وجہ مولانا عبدالقدوس قارن مدظلہ یوں لکھتے ہیں:
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ حضرات خود کو اسلام کی جانب منسوب کرتے ہیں تو منسوب الی الاسلام ہونے کی وجہ سے ظاہر کے اعتبار سے ان کو مسلمان کہہ دیا گیا، جیسا کہ حضرات علماء کرام نے معتزلہ وغیرہ فرقوں کو کافر کہا اور اس کے باوجود ان کو اسلامی فرقہ کہنے کے اعتراض کے جواب میں کہا کہ ان کو اسلامی فرقے اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو اسلام کی جانب منسوب کرتے ہیں۔ اسی سے ملتا جلتا نظریہ حضرت صوفی صاحب نے خوارج اور روافض کے بارے میں پیش کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’خوارج اور روافض وغیرہ ایسے ہیں کہ آخرت میں ان کا حکم کفار جیسا ہوگاتاہم دنیا میں وہ جماعت المسلمین کے افراد شمار ہوں گے۔‘‘ [ترجمہ سنن ابن ماجہ ص۵۷۶] اور ایک مقام پر حضرت صوفی صاحبؒ خوارج کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’حالانکہ بظاہر وہ لوگ کلمہ گو، نمازی اور روزہ دار بھی ہوں گے مگر فاسد العقیدہ ہونے کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہی ہوں گے۔‘‘ [ترجمہ سنن ابن ماجہ ص ۵۷۱،بحوالہ رافضی کیا ہیں؟ ص ۳۰])
[۱۵] ’’وفی کتاب السنۃ للآجری من طریق الولید بن مسلم عن معاذ بن جبل قال.....الخ [کتاب الاعتصام ص ۵۲ للشاطبی]
ترجمہ:’’ امام آجری رحمہ اللہ کی کتاب السنۃ میں ولید بن مسلم کے طریق سے حضرت معاذ بن جبل کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میری امت میں بدعات ظاہر ہوں اور میرے صحابہ کو برا کہا جائے تو عالم پر لازم ہے کہ اپنا علم ظاہر کرے، جس نے ایسا نہ کیا تو اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی۔‘‘
یہ حدیث مبارکہ بمع ترجمہ پیش کرنے کے بعد حضرت امام اہل السنۃ فرماتے ہیں:
’’عقلی اور عرفی قاعدہ ہے کہ جب کسی خزانہ اور دولت پر چور اور ڈاکو آپڑتے ہیں تو چوکیدار اور پہرہ دارہی اصحاب دولت کو آ گاہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو یہ سمجھا جا تا ہے کہ یہ بھی چوروں اور ڈاکوؤں سے ملے ہوئے ہیں اور جس سزا کے چور اور ڈاکو مستحق ہیں، اس کے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سزا کے چوکیدار حقدار ہیں ۔ ایسے دور میں جس میں بدعات ورسوم کا خوب زور ہو اور وہ نقطۂ عروج پر ہوں اور حضرات صحابہ کرام کو بر ملا برا کہا جاتا ہو تو علما کا شرعی اور علمی فریضہ ہے کہ وہ باطل کی تردید کریں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کریں کیونکہ علما دین کے چوکیدار اور پہرہ دار ہیں۔ اگر علما خاموشی اختیار کریں گے تو وہ اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں انسانوں کی لعنت کے مستحق ہوں گے کیونکہ انہوں نے اپنی ڈیوٹی ادانہیں کی اور وہ لالچ یاڈر کے اسیر ہو گئے۔‘‘ ( ارشاد الشیعہ ص ۷۶، ۷۷)
[۱۶] شیعہ کے عقائد ظاہر نہ ہونے اور ان کے تقیہ کرنے کی وجہ سے ہمارے بعض اکابر احتیاطاًیہی کہا کرتے تھے کہ شیعہ کی تکفیر نہ کی جائے، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا ’’مَن لَّم یُکَفِّرھُم لَم یَدرِ عَقَاءِدَہُم‘‘ (فیض الباری ص ۱۳۰ج۱)’’جس نے انہیں کافر نہیں کہا تو اس وجہ سے کہ اسے ان کے عقائد معلوم نہیں۔‘‘
ماضی قریب کے حضرت مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ کا بھی ابتداءً یہی رویہ تھا، لیکن خمینی انقلاب کے بعد جب ان کی کتابیں منظر عام پر آئیں تو مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ نے نہ یہ کہ خود علی الاعلان شیعہ کی تکفیر کی بلکہ اس فرقہ کی تکفیر کو اسلام کے دفاع کے لیے ضروری اور وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے پاکستان ،ہندوستان ،برطانیہ ،بنگلہ دیش ودیگر ممالک کے علماءِ کرام ومفتیانِ عظام سے اس فرقہ کے متعلق فتویٰ طلب کیا اور پھر ان فتاویٰ جات کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہوئے اپنے رسالہ الفرقان میں ’’خمینی اور اثنا عشریہ کے بارہ میں علماءِ کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ کے عنوان سے خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا۔ پھر اسی متفقہ فیصلہ کو (جس میں سینکڑوں ہزاروں علماءِ ومفتیانِ کے مطلق شیعہ اثناعشریہ کی تکفیر کے فتاویٰ وتصدیقات ہیں) حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ نے بھی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی پاکستان کے ماہنامہ ’’بینات‘‘ کی طرف سے اسی عنوان کے ساتھ شائع کیا۔
[۱۷]’’تیسری وجہ یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک ان کے دین کے دس حصوں میں سے نوحصے تقیہ میں مضمر ہیں ‘‘۔
آگے چل کر حضرت امام اہل سنتؒ تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’ وہ مسلمانوں جیسے نام بھی رکھتے ہیں اوراسلام کے دعوے داربھی ہیں تو عوام بے چارے کیا خواص بھی ان کی تکفیر میں تامل کرسکتے ہیں۔یہ وہ اہم وجوہ ہیں جنکی وجہ سے شیعہ کی تکفیر عیاں نہیں ہو ئی جیسا کہ ہونی چاہیے تھی۔‘‘ (ارشاد الشیعہ ص۲۸، ۲۹)
[۱۸]بلکہ خود مذہب شیعہ میں تقیہ کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چنانچہ اصولِ کافی (جو شیعہ مذہب کی بنیادی کتاب ہے) میں امام جعفر صادق کی طرف یہ منسوب ہے :
’’قَالَ الِامَامُ جَعفَر الصَّادِق عَلَیہِ السَّلامُ لا اِیمَانَ لِمَن لَّا تَقِیَّۃَ لَہٗ‘‘ [اصول کافی ص۴۸۲]
’’اِنَّ تِسعَۃَ اَعشَارِ الدِّینِ فِی التَّقِیَّۃِ وَلادِینَ لِمَن لَّا تَقِیَّۃَ لَہٗ‘‘ [اصول کافی ج۲ص۲۱۷طبع تہران](بحوالہ شمشیر حق)
ترجمہ :دین کے نو حصے (نوے فیصد )تقیہ میں ہیں اور جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ۔
[۱۹] یہی اشکالات جو موجودہ دور کے چند علماء کو پیش آئے ہیں، کچھ عرصہ قبل حضرت مولانا عبدالماجد دریا آبادیؒ کو بھی پیش آئے تھے جس کا پس منظر یہ ہے کہ جب مولانا عبدالشکور لکھنوی فاروقی رحمہ اللہ نے شیعہ اثنا عشریہ کے خارج از اسلام ہونے کے بارے میں فتویٰ مرتب کرکے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ اور دیگر اکابرعلماء واصحابِ فتویٰ کی تصدیقات کے ساتھ شائع کیاتو مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس بارے میں اپنے اشکالات وشبہات تحریراً عرض کیے۔ حضرت تھانویؒ نے اپنے معمول کے مطابق مولانا دریابادی ؒ کے خط کے ہر جز کا الگ الگ جواب تحریر فرمایا تھا۔ وہ خط اور حضرت تھانویؒ کا جواب ملاحظہ ہو! (نوٹ: ’’السوال‘‘ اور ’’تتمۃ السوال‘‘ کے زیر عنوان مولانا دریابادیؒ کے خط کی عبارت ہے اور ’’الجوب‘‘ اور ’’تتمۃ الجواب‘‘ کے زیرعنوان حضرت حکیم الامتؒ کا جواب ہے۔)
’’السوال:ایک فتوے کی نقل مرسل خدمت ہے۔ اس پر علاوہ دوسرے مستند علماء حضرت مولانا[حسین احمد] مدنی تک کے دستخط ثبت ہیں، لیکن میں عرض کروں کہ مجھے شرحِ صدر اب بھی نہیں۔ شیعوں کو ’’مبتدع‘‘، ’’فاسق‘‘ اور ’’فاسد العقیدہ‘‘ وغیرہ اور جو کچھ کہہ لیا جائے، اس کا میں بھی پوری طرح قائل ہوں، لیکن کافر اور خارج ازاسلام کہنے سے جی لرز اٹھتاہے۔
الجوب: یہ علامت ہے آپ کی قوتِ ایمانیہ کی، مگر جنہوں نے فتویٰ دیاہے، اس کا منشأ بھی وہی قوتِ ایمان ہے کہ جس کو ایمانیات کا منکر دیکھا، بے ایمان کہہ دیا۔
تتمۃ السوال:اگر ہر گمراہ فرقہ یوں ہی خارج از اسلام ہوتا رہا تو مسلمان رہ ہی کتنے جائیں گے؟
تتمۃ الجواب: اس کا کون ذمہ دار ہے؟ خدا نہ کردہ اگر کسی مقام میں کثرت سے لوگ مرتد ہوجائیں اورتھوڑے ہی مسلمان رہ جائیں تو کیااس مصلحت سے ان کو بھی کافر نہ کہا جاوے گا؟
تتمۃ السوال: شیعوں سے مناکحت اگر تجربہ سے مضر ثابت ہوئی ہے تو بس ’’تہدیداً‘‘ اس کا روک دینا کافی ہے....؟
تتمۃ الجواب: اس تہدید کا عنوان بجز اس کے کوئی اور ہے ہی نہیں، غور فرمایا جائے۔
تتمۃ السوال: میرا دل تو قادیانیوں کی طرف سے ہمیشہ تاویل ہی تلاش کرتا رہتا ہے....۔
تتمۃ الجواب: یہ غایت شفقت ہے، لیکن اس شفقت کا انجام سیدھے سادے مسلمانوں کے حق میں ’’عدمِ شفقت‘‘ ہے، وہ اچھی طرح ان کا شکار ہوا کریں گے۔
تتمۃ السوال:جو بناءِ تکفیر قرار دی گئی ہے یعنی تحریف قرآن، مجھے اس میں تأمل ہے۔ اگر یہ عقیدہ ان کے مذہب کا جزو ہوتا تو حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ وغیرہ سے مخفی نہ رہتا....۔
تتمۃ الجواب:جب ان کی مسلم کتابوں سے جزئیت ثابت ہے، پھر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا اگر سکوت ثابت ہو جس کی مجھ کو تحقیق نہیں تو ان کے سکوت میں کچھ تاویل ہوگی نہ کہ جزئیت میں۔‘‘
(ضروری وضاحت :حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ ‘‘ غالباًمولوی عبد الماجد صاحب رحمہ اللہ کی نظر سے نہیں گزری ور نہ اشکال کی نوبت نہ آتی، کیونکہ اس کے تتمۃ الباب چہارم میں جوتقریباً بیس صفحے ’’دلائل شیعہ ‘‘ پر ہیں، ان میں متعدد جگہ شیعوں کے عقیدۂ تحریفِ قرآن کا ذکر ہے ۔حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کی ان عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ صاحب پر ان کا عقیدۂ تحریف قرآن مخفی نہیں تھا ۔)
’’تتمۃالسوال :بہت زائد خلش مجھے اس امر سے ہورہی ہے کہ اب تک ہم آریوں اور عیسائیوں کے سامنے کلام مجید کے غیر محرف ہونے کو بطور ایک بالکل مسلّم اور غیر مختلف فیہ عقیدہ کے پیش کرتے رہے ہیں،اب لوگوں کے ہاتھ میں ایک نیا حربہ آجائے گا کہ دیکھو خود تمہارا ہی کلمہ پڑھنے والے اور تمہارے قبلہ کو ماننے والے لاکھوں کروڑوں افراد قرآن کو ناقص اور محرّف مان رہے ہیں ۔
تتمۃ الجواب :اس سے تو اور زیادہ ضرورت ثابت ہوگئی ان کی تکفیر کی۔ پھر ہمارے پاس صاف جواب ہوگا کہ وہ مسلمان ہی نہیں۔ (اب سے قریباًایک ہزار سال پہلے عیسائیوں کی طرف سے یہی اعتراض کیا گیا تھا۔ اس وقت علامہ ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب ’’الفصل‘‘ میں اس کا یہی جواب دیا تھا کہ شیعہ مسلمان ہی نہیں، لہٰذا ان کے عقیدۂ تحریف قرآن سے کوئی اثر ہمارے عقیدۂ محفوظیت قرآن پر نہیں پڑتا۔)
تتمۃ السوال :حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کا جو مکتوب سرسید احمد کے نام تھا، مجھے اس قدر پسند آیاتھا کہ میں نے اہتمام کے ساتھ اسے ’’سچ‘‘میں شائع کیا تھا۔ پس میری فہمِ ناقص میں اسی کو معیار بنا لینا چاہیے اور اسی کے مطابق معاملہ تمام گمراہ فرقوں سے رکھنا چاہیے، یعنی نہ مداہنت نہ اتنی مخالفت کہ ان میں اور آریوں، عیسائیوں وغیرہ میں کوئی فرق ہی نہ رکھا جائے۔
تتمۃ الجواب: لیکن اگر وہ خود ہی اپنے کو کافر بنائیں (بالنون )تو کیا ہم اس وقت بھی ان کو کافر نہ بتائیں (بالتاء)؟ دنیا میں اپنے کو آج تک کسی نے کافر نہیں کہا بلکہ کوئی عیسائی کہتا ہے کوئی یہودی ۔مگر چونکہ ان کے عقائد کفریہ دلائل سے ثابت ہیں، اس لیے ان کو کافر ہی کہا جاوے گا ۔تو مدارِاس حکم کا عقائد کفریہ پر ٹھہرا ۔تو اگر ایک شخص اپنے کو فرقہ شیعہ سے کہتا ہے اور کوئی عقیدہ کفریہ اس مذہب کے اجزا یا لوازم سے ہے تو اپنے کو اس فرقہ میں بتلانا بدلالتِ التزامی اس عقیدہ کو اپنا عقیدہ بتلانا ہے تو عدمِ تکفیر کی کیا وجہ؟ اور اگر ان کے یہاں یہ عقیدہ مختلف فیہ ہوتا، تب بھی کسی کی تکفیر میں تردد رہتا ،لیکن یہ بھی نہیں۔ اور جو اختلاف ہے، وہ غیر معتد بہٖ ہے جس کو خود ان کے جمہور رد کرتے ہیں۔ اس حالت میں اصل تو کفر ہوگا۔ البتہ کوئی صراحۃًکہے کہ یہ عقیدہ میرا نہیں ہے یاکوئی فرقہ اپنا لقب جدا رکھ لے، مثلاًجو علما ان کے تحریف کے نافی ہیں ،ان کی طرف اپنے آپ کومنسوب کیا کریں، مثلاً اپنے کو صدوقی یا قمی یا مرتضوی یا طبرسی کہا کریں، مطلق شیعی نہ کہیں تو خاص اس شخص کو یا اس فرقہ کو اس عموم سے مستثنیٰ کہہ دیں گے، لیکن ایسے استثناؤں سے قانونی حکم نہیں بدلتاہے۔ حرمت نکاح اور حرمت ذبیحہ احکام قانونی ہیں۔اس پر بھی جاری ہوں گے،جب تک وہ فرقہ متمیّز ومشہور نہ ہوجائے۔ خصوص جب تقیہ کا بھی شبہ ہو تو خواہ سوءِ ظن نہ کریں، مگر احتیاطاًعمل تو سوءِ ظن ہی ایسا (جیسا )ہوگا،البتہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا معاملہ وہ اس کے عقیدہ کے مطابق ہوگا۔ اگر کوئی ہندو توحید کا بھی قائل ہو او رسالت کا بھی، لیکن اپنے کو ہندو ہی کہتا ہو ،گو کچھ تأویل ہی کرتا ہو تو اس کے ساتھ آخر کیا معاملہ ہوگا؟ یہی حالت یہاں کی ہے ۔ضلع فتح پور میں ہندووں کی ایک جماعت ہے جو قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں ،اور نماز روزہ کرتے ہیں ،مگر اپنے کو ہند و کہتے ہیں۔ لباس اور نام سب ہندو جیسا رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے کو ہندو کہیں اور اپنا مشرب ظاہر نہ کریں تو کیا سامع کے ذمہ تفصیل واجب ہوگی کہ اگر ایسے عقیدہ کا ہے تو مسلمان ؟
تتمۃ السوال : آپ کو ہر معاملہ میں اپنا کچا چٹھا لکھ بھیجتا ہوں ،خدا کرے اس باب میں بھی آپ کا جواب بالصواب میرے حق میں ذریعہ تشفی ہو ۔
تتمۃ الجواب : تشفی کا ذمہ تو مشکل ہے، خصوصی اسی خشیت کا غلبہ خود مجھ پر بھی ہے، مگر حضرت جنید رحمہ اللہ نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے حسین ابن منصور کے خلاف فتویٰ لکھا تھا محض حفاظت شرع کے لیے ۔ہم لوگ بھی انہی کے متبع ہیں اور راز اس کا وہی ہے کہ اس رعایت میں سادہ لوح مسلمانوں کی ہلاکت ہے۔‘‘ [امداد الفتایٰ ج ۴ ص ۵۸۴ تا ص۵۸۷ طبع دیوبند]
ویسے تو ہمارے تمام اکابر ہمیشہ دینی ودنیوی امور میں نہایت احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے تقویٰ وطہارت سے ہر خاص وعام بخوبی واقف ہے، کہ امورِ دینیہ ودنیویہ میں کس قدر احتیاط ان کے پیش نظر رہتی ۔اس احتیاط کے باوجود حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے اس فرقہ کے متعلق جو رویہ اختیار کیا، وہ قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد اس فرقہ کے کفر میں کسی قسم کے شک وتردد کی گنجائش نہیں رہتی۔
[۱۹]شیعہ اور روافض کے بارہ میں دروس القرآن اور (حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ) کی دیگر کتب میں مذکور حوالجات کی روشنی میں برملا کہا جاسکتا ہے کہ جس فرد یا گروہ میں ایسے عقائد ونظریات پائے جاتے ہیں ان کو حضرت صوفی صاحب کافر، منافق، ملحد، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتے ہیں، جیسا کہ ان کی پیش کردہ عبارات سے واضح ہے، البتہ بعض عبارات جن میں حضرت صوفی صاحب نے شیعہ کو مسلمان کہا، ان سے اشکال ہوتا ہے اور یہی بعض ساتھیوں کی پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے یہ ملحوظ رہے کہ حضرت صوفی صاحب نے شیعہ کو مسلمان کہا ہے اور اس سے مراد وہ شیعہ ہیں جن میں کفریہ عقائد نہ پائے جاتے ہوں ، اسی لیے جن میں کفریہ عقائد پائے جاتے ہیں ان کو حضرت صوفی صاحب نے ’’رافضی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (چنانچہ فرماتے ہیں خمینی انقلاب کے بعد وہ اپنے لٹریچر میں اپنے آپ کو اسلامی نمائندہ کے طور پر پیش کرتے ہیں حالانکہ وہ رافضی ہیں۔ (معالم العرفان ج۱۰ ص۸۸۴) اس لیے جہاں شیعہ کو مسلمان کہا گیا ہے اس سے وہ مراد ہیں جو روافض یعنی کفریہ عقائد والے نہ ہوں یا ان پر مسلمان کا اطلاق ظاہر کے اعتبار سے ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے کفریہ عقائد والے شیعہ کافر ہی ہیں۔
نیز یہ عبارات اس وقت کی ہیں جب ابھی شیعہ کے عقائد پر مشتمل کتب منظر عام پر نہ آئی تھیں، مگر جب شیعہ کے خفیہ عقائد منظر عام پر آئے تو علماء کرام نے اپنے لچکدار نظریہ پر نظرِثانی کی اور شیعہ کو علی الاعلان کافر کہا۔ چنانچہ حضرت صوفی صاحب فرماتے ہیں کہ آج کے پریس کے زمانہ میں لوگ شیعوں کے اس قسم کے عقائد پڑھ کر حیران ہوتے ہیں۔ اب تک تو یہ حضرات اپنے بعض عقائد کو چھپاتے رہے ہیں، مگر اب ظاہر ہوئے تو معلوم ہوا کہ ان کے عقائد حق سے کسی قدر دور ہیں۔ (معالم العرفان ص ۳۰۲ ج ۱۵) [ملخص از رافضی کیا ہیں؟ افادات مولانا صوفی عبدالحمید سواتیؒ ، مرتب: مولانا عبدالقدوس خان قارن مدظلہ ص۲۸ تا ۳۱]
محترم بخاری صاحب! مذکورہ بالا حوالہ جات سے درج ذیل امور خوب واضح ہوجا تے ہیں:
[۱]جمہور اہل السنۃ والجماعۃ اکابرین دیوبند سبّ صحابہؓیا تکفیر صحابہؓ کے مرتکب، حضرت عائشہؓ پر افترا باندھنے والے اور انکار خلافت شیخین، تحریف قرآن، عقیدہ امامت، وغیرہ عقائد یا ان میں سے ایک عقیدہ رکھنے والے افراد وگروہ کوقطعی کافر، منافق، ملحد، بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں اور حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ ان اکابر سے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔
[۲]شیعہ اثنا عشریہ کو بطور فرقہ خارج از اسلام قرار دیتے ہیں۔نیز پاکستان کے تمام شیعہ کافر ہیں۔
[۳]تکفیر شیعہ میں احتیاط برتنے والے اکابرین کے بارے مں یہ فرماتے ہیں کہ وہ شیعہ کے تقیہ کی وجہ سے ان کے عقائد سے کما حقہ واقف نہیں تھے۔
[۴] جو شیعہ اثنا عشریہ امامیہ کے عقائد سے پوری واقفیت کے باوجود ان کو مسلمان سمجھتا ہے، وہ خود کافر ہے۔
[۵]شیعہ پر فتویٰ کفر کے باوجود ان کو ’’کلمہ گو‘‘، ’’اسلامی فرقہ‘‘یا ’’مسلمان‘‘ کہنے کا یہ معنی ہے کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اسلام کا نام لیتے ہیں،لیکن عقائد کے فساد کی وجہ سے وہ کافر ہی ہیں۔
[۶]روافض تبرا گو ہی ہوتے ہیں۔
[۷]تقیہ کی وجہ سے ان کے اپنی اصولی کتب میں مذکور عقائد سے ظاہری انکار کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
[۸]ان کو مسلمان کہنے میں سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان کو شدید خطرہ لاحق ہے بلکہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔
[۹] علی الاعلان تکفیر شیعہ جملہ اہل حق کا اسلامی اور قانونی حق ہے۔
[۱۰]حضرات صحابہ کرام کو بر ملا برا کہا جاتا ہو تو علما کا شرعی اور علمی فریضہ ہے کہ وہ باطل کی تردید کریں اور تبلیغ کا فریضہ ادا کریں، کیونکہ علما دین کے چوکیدار اور پہرہ دار ہیں۔ اگر علما خاموشی اختیار کریں گے تو وہ حدیث نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور تمام فرشتوں انسانوں کی لعنت کے مستحق ہوں گے۔ ’’تلک عشرۃ کاملۃ‘‘
حسین احمد مدنی
متعلم دارالعلوم مدنیہ
ماڈل ٹاؤن بی، بہاولپور