ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اپریل ۲۰۰۸ء کے شمارے میں جناب سیف الحق صاحب کی طرف سے القاعدہ اوردوسری معاصرتحریکوں کے جہاد پر ایک تنقیدی تحریرشائع ہوئی ۔اس تحریر کے جواب میں جون ۲۰۰۸ء میں سید عرفان اللہ شاہ ہاشمی کا ایک خط شائع ہوا ۔مزید برآں اگست ۲۰۰۸ء کے شمارے میں سیف الحق صاحب کی تحریر پر شدید رد عمل کا اظہار دو خطوط کی صورت میں پڑھنے کو ملا ‘ جن میں سے ایک خط جناب مولانا محمد فاروق کشمیری صاحب کا تھا جبکہ دوسرا قاضی محمد حفیظ کا ‘۔جناب سید عرفان صاحب‘ مولانا فاروق کشمیری اور قاضی حفیظ صاحب کے شریعت اسلامیہ کے حکمِ جہاد کے حق میں جذبات قابل قدر ہیں لیکن ان میں سے بعض حضرات کا یہ کہنا کہ سیف الحق صاحب کی تحریر کو شائع ہی نہیں کرنا چاہیے تھا ‘ ایک بالکل غیر شرعی ‘ غیر اخلاقی اور غیر علمی رویہ ہے۔یہ واضح رہے کہ قرآن و سنت میں بیان شدہ جہادو قتال کے تصور اورمعاصر جہاد ی تحریکوں کے اعمال و افعال میں وہی فرق ہے جو کہ اسلام اور کسی مسلمان کے عمل میں ہوتا ہے۔کسی مسلمان کے اعمال و افعال پر تنقید کرنے کا مطلب اسلام پر نقد کرنا نہیں ہے۔ہاں اگر تو کوئی شخص قرآن وسنت میں بیان کیے گئے احکام جہاد کا انکار کر دے یا انہیں منسوخ سمجھے تو ایسے شخص کی تحریر واقعتاً قابل اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔جہادی تحریکوں میں عموماًجذباتی رویہ یہ پایا جاتا ہے کہ جب مجاہدین کے اخلاق ‘ رویوں ‘ کردار و اعمال اور ان کی ذاتی رائے پر مبنی بعض نظریات پر تنقید کی جاتی ہے تو اس کو جہادو قتال پر نقد سمجھتے ہیں۔کسی نظریے یا نکتہ نظر کی صحت کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ اپنے مخاطب کو اس کی دلیل کے طور پر قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر سنا دی جائے ۔قرآن کو اپنے نکتہ نظر کی دلیل کے طور پر تو غلام احمد قادیانی بھی نقل کرتا رہا ہے اور غلام احمد پرویز بھی۔جناب طاہر القادری صاحب بھی قرآن بیان کرتے ہیں اور علامہ طالب جوہری بھی۔غامدی صاحب بھی قرآن سے دلیل پکڑتے ہیں اور جہادی تحریکوں کے رہنما بھی ‘ڈاکٹر اسرار صاحب بھی اپنی تقاریرو مجالس میں کثرت سے قرآن پڑھتے ہیں اور مولانا طارق جمیل بھی‘ حالانکہ ان سب حضرات کے نظریات میں زمین و آسمان کا فر ق ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ قرآن کی جس آیت کو اپنے موقف کی دلیل کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے وہ ان اصول وضوابط کے مطابق کہ جنہیں علما کے ہاں اصول تفسیر و اصول فقہ کہتے ہیں‘ اس نکتہ نظر کی دلیل بن رہی ہے یانہیں۔ اگرتو علماے سلف صالحین کے منہج فہم کے مطابق قرآن کی آیت کو سمجھا جا رہا ہے اور بطور دلیل نقل کیا جا رہا ہے تو قرآن کی دلیل بہت ہی اعلیٰ دلیل ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر ہماری بات وہی ہے جو کہ حضرت علیؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو اس وقت کی تھی جبکہ ان کو خوارج کی طرف بھیج رہے تھے ۔حضرت علیؓ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو نصیحت کی تھی کہ خوارج کو سمجھاتے وقت قرآن سے دلیل نہ دینا کیونکہ قرآن میں اجمال ہے اور وہ اس کاغلط مفہوم نکال لیں گے۔
مولانا فاروق کشمیری اور قاضی حفیظ صاحب کی طرح جناب سیف الحق صاحب کے دین و ایمان کے بارے میں بھی حسن ظن رکھتے ہیں اور مناسب طرز عمل تو یہ تھا کہ سیف الحق صاحب نے مروجہ جہاد و قتال کے حوالے سے جن اعتراضات کا اظہار کیاتھا، ان کا علمی اسلوب میں جواب دیا جاتا‘ نہ کہ اس کے چھاپنے کو ہی ایک ایشو بنا لیا جانا چاہیے۔مسئلہ صرف سیف الحق صاحب کانہیں ہے بلکہ ہزاروں مسلمانوں ‘ علماء ‘ جہادی تحریکوں کے سابقہ کارکنان ‘ دوسری اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اور کارکنان کو مروجہ جہاد کے حوالے سے کچھ اشکالات لاحق ہیں اور وہ ان کا علمی اسلوب میں جواب چاہتے ہیں جبکہ جہادی تحریکوں کے پاس ہر سوال کا بس ایک ہی جواب ہوتاہے کہ ’یہ جہاد کے مخالفین ہیں‘۔ہم ایک مکالمے کی صورت میں اپنے کچھ سوالات و اشکالات جہادی تحریکوں کے سامنے رکھ رہے ہیں۔جہادی تحریکوں کے علماء یا امراء اس حوالے سے ہماری رہنما ئی کے لیے کچھ لکھیں گے تو دلیل کی روشنی میں اپنی رائے تبدیل کرنے میں ہمیں ہر گز پیچھے نہ پائیں گے۔
ہمارے ہاں طالبان کی تین قسمیں پائی جاتی ہیں۔پہلی قسم افغانستان کے طالبان کی ہے ۔دوسرے پاکستانی طالبان ہیں اور تیسرے جرائم پیشہ لوگ ہیں جو کہ طالبان کی آڑ میں ملکی نظام اور امن عامہ کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہیں۔ذیل میں ہم طالبان کی ان تما م جماعتوں کے وجود میں آنے کے اسباب و محرکات‘ تاریخ ‘ عقائد و نظریات اور عملی جدوجہد کا ایک تجزیاتی جائزہ لیں گے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان کا جہاد: تاریخ و أسباب
وزیرستان پاکستان کے شمال مغرب میں ایک پہاڑی علاقہ ہے کہ جس کی سرحد افغانستان سے بھی ملتی ہے۔ وزیرستان جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں’شمالی وزیرستان‘اور ’جنوبی وزیرستان‘ میں تقسیم ہے۔۱۹۹۸ء کے اندازے کے مطابق شمالی وزیرستان کی آبادی تقریباًتین لاکھ اکسٹھ ہزار اور جنوبی وزیرستان کی آبادی چار لاکھ انتیس ہزار تھی۔شمالی وزیرستان کا صدر مقام’ میران شاہ ‘ہے جبکہ جنوبی وزیرستان کا ہیڈ کوارٹر ’وانا‘ ہے۔
وزیرستان کے مقامی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جہاد افغانستان اور طالبان تحریک میں بھی شامل رہی تھی۔ نومبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے غیر ملکی اورمقامی مجاہدین نے وزیرستان کا رخ کیااور یہاں پناہ لی۔امریکہ نے ان مجاہدین کے حوالے سے حکومتِ پاکستان پر دباؤڈالا۔
حکومت پاکستان نے جولائی ۲۰۰۲ء میں مقامی قبائلیوں کی رضامندی سے علاقے کی ترقی کے بہانے ’وادی تیرہ ‘اور ’خیبر ایجنسی‘ میں اپنی فوجیں اتاریں۔ اور کچھ ہی عرصہ بعدحکومت نے اچانک ہی جنوبی وزیرستان پر ہلا بول دیا۔مقامی لوگوں نے حکومت پاکستان کے اس اقدام کو اپنی آزادی کے منافی سمجھا اور پاکستانی افواج و مقامی قبائلیوں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہو گیا۔مارچ ۲۰۰۴ء میں ’وانا‘ کے قریب ’أعظم وارسک‘ کے مقام پر حکومت اور قبائلیوں کے مابین ایک بڑی جھڑپ ہوئی۔
اپریل ۲۰۰۴ء میں پے در پے ناکامیوں کے بعدحکومت پاکستان نے ’نیک محمد‘ کی قیادت میں لڑنے والے قبائلیوں سے امن معاہدہ کر لیا۔جون ۲۰۰۴ء میں ’نیک محمد‘ کو ایک امریکی میزائل کے ذریعے شہید کر دیاگیا۔اکتوبر ۲۰۰۴ء میں جنوبی وزیرستان کے ایک بڑے رہائشی محسودقبیلے کے جنگجو عبد اللہ محسود مقامی قبائلیوں کے رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے ۔یہ حضرت تقریباً ڈیڑھ سال تک گوانتاناموبے جیل میں قید رہے تھے بعد ازاں امریکی حکام نے ا ن کو رہا کر دیا تھااور ان کی رہائی کی وجہ آج تک ایک سوالیہ نشان ہے۔مارچ ۲۰۰۳ء میں یہ رہا کیے گئے تھے۔درمیان میں ایک ڈیڑھ سال چھپے رہے اور اکتوبر ۲۰۰۴ء کے قریب ایک دم سے میڈیا میں ان کے بیانات آنے شروع ہو گئے ۔عبد اللہ محسود کو میڈیا میں آنے کا بہت شوق تھا یہاں تک کہ ان کانام ہی میڈیا فرینڈلی کمانڈر کے طور پر معروف ہو گیا تھا‘یہ حضرت خود سے ٹی وی چینلز کو فون کر کے اپنے انٹر ویو ریکارڈ کرواتے تھے۔دو چینی انجینیئرز کو اغواء کرنے کی وجہ سے ۲۰۰۷ء میں ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے شہید کر دیاگیا۔
عبد اللہ محسود کے علاوہ ایک اور جنگجو بیت اللہ محسود بھی مقامی طالبان کے رہنما کے طور پر سامنے آئے۔بیت اللہ محسود ایک سنجیدہ مزاج اور فہم و فراست رکھنے والے کمانڈر ہیں۔فروری ۲۰۰۵ء میں بیت اللہ محسود کی قیادت میں قبائلیوں کا حکومت پاکستان سے معاہدہ ہوا۔ بیت اللہ محسودنے عبد اللہ محسود کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنے کی درخواست کی لیکن حکومت پاکستان نے چینی انجینیئرز کے اغواء کے معاملے کی وجہ سے عبد اللہ کو اس معاہدے میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔
جولائی ۲۰۰۷ء میں حکومت پاکستان نے لال مسجد پر حملہ کر تے ہوئے بیسیوں طلباء اورسینکڑوں بچیوں کو شہید کر دیا‘ جس کے رد عمل میں بیت اللہ محسود نے افواج پاکستان پر خود کش حملوں کی دھمکیاں دیں اور معاہدہ توڑنے کا اعلان کیا۔
دسمبر ۲۰۰۷ء میں سات قبائلی ایجنسیوں شمالی وزیرستان ‘ جنوبی وزیرستان‘ کرم ایجنسی‘ باجوڑ ایجنسی‘ خیبر ایجنسی‘ أورکزئی ایجنسی اور مہمند ایجنسی کے علاوہ مالاکنڈ ڈویزن‘ سوات اور درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والے بیس کے قریب طالبان رہنماؤں کا اجلاس ہوااور بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان ‘ کا قیام عمل میں آیا۔چالیس رکنی شوری بھی مقرر کی گئی اور مولوی عمر کو تحریک کا ترجمان بنایا گیا۔
جنوری ۲۰۰۸ء میں حکومت پاکستان نے دوبارہ محسود قبائل کے خلاف آپریشن شروع کر دیاجس کی وجہ سے ہزاروں افراد نے وزیرستان علاقے سے نقل مکانی شروع کر دی۔۶فروری ۲۰۰۸ء کو ’تحریک طالبان پاکستان‘ نے سوات سے وزیرستان تک افواجِ پاکستان کے خلاف کاروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔
جنوبی وزیرستان کے مقامی جنگجو’نیک محمد‘ ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۴ء میں سینکڑوں غیر ملکیوں کو ’وانا‘ لے کر آئے تھے۔ یہ غیر ملکی یہاں آ کر آباد ہو گئے تھے اور قبائلیوں نے ان پر کوئی اعتراض نہ کیا۔۲۰۰۴ء میں ’نیک محمد‘ کی قیادت میں قبائلیوں نے افواج پاکستان کوبھاری نقصان پہنچایا جس کے نتیجے میں امن معاہدہ ہوا اور بعد ازاں نیک محمد ایک میزائل حملے میں شہید ہو گئے۔ان کی شہادت کے بعد ان کے کمانڈروں نے مختلف دھڑے بنا لیے اور اپنی اپنی اجارہ داریاں قائم کر لیں۔طالبان کی اعلی قیادت نے جنوبی وزیرستان میں ’ملا نذیر‘ کو طالبان کا لیڈر مقرر کردیا۔
جنوبی وزیرستان میں اسی عرصے میں مقامی طالبان کو غیر ملکی ازبک مجاہدین کے رویوں سے کچھ شکایات پیدا ہوئیں اور بہت سے مقامی سرداروں کے قتل کا الزام بھی ازبکوں پر لگایا جاتا رہا۔ازبک کسی بھی مقامی سردار پر جاسوسی کا الزام لگا کر اس کو قتل کر دیتے تھے۔انہوں نے زمین میں گڑھے کھود کر اپنی جیلیں بنائی ہو ئی تھیں جہاں وہ اپنے مخالفین کو قید رکھتے تھے۔صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہوئی جب القاعدہ سے متعلق ایک عرب مجاہد سیف العادل کو ازبکوں نے شہید کر دیا۔مقامی طالبان ملا نذیر کی قیادت میں ازبکوں کے خلاف اکھٹے ہو گئے اور مقامی و غیر ملکی مجاہدین میں آپس کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ازبک مجاہدین تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان کا ایک حصہ تومقامی طالبان سے مل گیا جب ایک حصہ میر علی کی قیادت میں شمالی وزیرستان چلا گیا اور تیسرا حصہ قاری طاہر یلداشیو کی قیادت میں مقامی طالبان سے جہاد کرتا رہا۔اس جہاد کے نتیجے سینکڑوں مجاہدین شہید ہوئے اوربالآخر مقامی طالبان نے ازبک مجاہدین کا کنٹرول علاقے سے ختم کر دیا۔
شمالی وزیرستان کی طرف پیش قدمی افواج پاکستان کی طرف سے ۲۰۰۲ء میں ہوئی تھی۔۲۰۰۴ء کے شروع سے ہی مقامی طالبان اور سیکورٹی فورسز کے مابین گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔حکومت پاکستان کا یہ دعوی تھا کہ اس علاقے میں وہ غیر ملکی اور القاعدہ کے مجاہدین موجود ہیں جو حکومت پاکستان اور امریکہ کو مطلوب ہیں۔شمالی وزیرستان کی صورت حال اس وقت زیادہ خراب ہو گئی جب مارچ ۲۰۰۶ء میں پاکستانی سیکورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام’ میران شاہ‘ پر حملہ کر دیا اور اس حملے میں فضائیہ کا بھرپور استعمال کیا گیا۔فضائی حملوں کے نتیجے میں شہر تباہ ہو کر رہ گیا اور تقریباً تمام آبادی پشاور‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع ٹانک کی طرف ہجرت کر گئی۔اڑھائی برس کی اس باہمی جنگ کے بعد ۴۵ قبائل کے گرینڈ جرگہ اور حکومت کے مابین امن معاہدہ ہو گیا۔یہ معاہدہ ۲۰جولائی ۲۰۰۶ء کو ہوا۔
سوات کا جہاد: تاریخ و اسباب
مالاکنڈ ڈویزن سے سے تعلق رکھنے والے عالم دین صوفی محمد نے مالاکنڈ میں شریعت کے نفاذ کے لیے ’تحریک نفاذ شریعت محمدی ‘ کی بنیاد رکھی۔۱۹۹۴ء میں اس تحریک نے بغاوت کی جو کہ ناکام ہوگئی ۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان حکومت پرامریکہ نے حملہ کیا تو صوفی محمد کی قیادت میں دس ہزار افراد کا لشکر مالاکنڈ سے طالبان کی نصرت کے لیے افغانستان گیا۔طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ افراد واپس پاکستان آ گئے اور امریکہ کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت پاکستان نے ان کی ایک بڑی تعداد کو القاعدہ کے ارکان کے طور پر پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرنا شروع کر دیا جس کہ وجہ سے مقامی لوگوں میں حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نفرت اور ردعمل میں اضافہ ہوا۔
۲۰۰۲ء میں پرویز مشرف نے تحریک پر پابندی لگا دی۔صوفی محمد کے داماد مولوی فضل اللہ کی قیادت میں مقامی مجاہدین اکٹھے ہو گئے۔مولوی فضل اللہ نے اپنے ایف ایم چینل کے ذریعے علاقے میں جہادی فکر پھیلانا شروع کر دیا۔’نفاذ شریعت محمدی‘ کے ضلع سوات کے امیر نے یہ بیان جاری کیا کہ مولوی فضل اللہ کا تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے اور صوفی محمد نے ان کو غیر قانونی ایف ایم چینل چلانے کی وجہ سے تحریک سے نکال دیا ہے۔
مولانا فضل اللہ نے ’امام ڈھیرئی ‘ کو اپنا صدر مقام بنایااور وہاں دو کروڑ کی لاگت کے تخمینے سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی۔انہوں نے ’شاہین فورس‘ کے نام سے ایک عسکری جماعت بھی قائم کی کہ جس میں پانچ ہزار کے قریب مسلح افرادشامل تھے ۔ ۲۰۰۶ء میں ان ا فراد نے مبینہ طور پر بازاروں میں مسلح ہو کر گشت کرنا شروع کر دیا‘تاہم علاقے کی صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب جولائی ۲۰۰۷ء میں لال مسجد پر حکومت کے آپریشن نے ان کو آگ بگولا کر دیا اور انہوں نے سیکورٹی فورسرز پر خود کش حملے شروع کر دیے۔مولانا فضل اللہ نے سوات کی کئی ایک تحصیلوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔حکومت نے ان کے خلاف آپریشن میں فضائیہ او ر آرٹلری کو بھی استعمال کیا جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری شہید ہوئے اور ہزاروں افراد نے دوسرے علاقوں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی ۔ڈاکوؤں اور پرانی قبائلی دشمنیاں رکھنے والوں نے طالبان کے روپ میں لوگوں کو لوٹنا اور قتل کرنا شروع کر دیا۔علاقے میں طوائف الملوکی عام ہو گئی ۔
۲۷ نومبر ۲۰۰۷ء کو طالبان اپنے مورچے خالی کرتے ہوئے نامعلوم مقامات کی طرف روپوش ہوگئے اور ۳ دسمبر کوافواج پاکستان نے امام ڈھیرئی کا کنٹرول سنبھال لیا۔بعد ازاں مولانا فضل اللہ بھی بیت اللہ محسود کی قیادت میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ میں شامل ہو گئے۔
لال مسجد کا جہاد: تاریخ و اسباب
اسلام آباد میں جامعہ حفصہ و لال مسجد اور حکومت پاکستان کی انتظامیہ کے مابین تنازع کی رپورٹیں۲۰ جنوری ۲۰۰۷ء کو حکومت پاکستان کی طرف سے مسجد امیر حمزہ اوراس سے ملحق مدرسے کو گرانے کے بعد میڈیا میں آنا شروع ہوئی۔ لال مسجد کے خطیب کے ایک مبینہ بیان کے مطابق سی ڈی اے اسلام آباد کی طرف سے کچھ عرصے کے وقفے کے ساتھ سات سے زائد مساجد کو گرایا گیا۔علاوہ ازیں اسلام آباد انتظامیہ نے جامعہ مسجد ضیاء الحق ‘جامعہ مسجد شکر لال ‘جامعہ مسجد منگرال ٹاؤن‘جامعہ مسجد راول چوک ‘مسجد شہداء‘جامعہ مسجد مدنی ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھی گرانے کے لیے نوٹس جاری کر دیے تھے ۔اسلام آباد انتظامیہ کی طرف سے مساجد و مدارس کوشہید کرنے کی اس مہم کی وجہ سے ملک بھر کے علماء ا ور مذہبی حلقوں میں اضطراب اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ۔علماء کے ایک اجلاس میں ’تحریک تحفظ مساجد ‘ کے قیام کا اعلان ہواجس میں جامعہ حفصہ کی طالبات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے عزم کا اظہارکیااورحکومت کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے جامعہ حفصہ سے ملحق دو بڑے کمروں پر مشتمل ایک چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر لیا۔
۲۷ جنوری کو لال مسجد کے مہتم مولانا عبد العزیز صاحب کی طرف سے اخبارات میں ایک بیان شائع ہوا کہ جس میں حکومت سے چند مطالبات کیے گئے تھے ‘ان مطالبات میں گرائی جانے والی مساجد کی تعمیر نو‘ملک میں فحاشی کلچرکا خاتمہ ‘جامعہ حفصہ اور جامعہ فریدیہ کو بھیجے گئے حکومتی نوٹس کی واپسی اور پرویز مشرف کامساجد گرانے کے حوالے سے اللہ اور قوم سے معافی مانگنا شامل تھا۔مولانا نے مزید یہ بھی کہا کہ طالبات کا چلڈرن لائبریری پر اس وقت تک قبضہ برقرار رہے گا جب تک ملک کے اندر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جاتا۔
۳ فروری کے اخباری بیانات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے کریک ڈاؤن کر کے مدارس کے ۱۲۵ اساتذہ اور طلباء کو گرفتار کر لیا۔نیزجامعہ حفصہ اور جامہ فریدیہ کو اپنے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ۲۴ گھنٹے کا نوٹس دے دیا۔
۱۲ فروری کی اخباری اطلاعات کے مطابق لائبریری سے طالبات کا قبضہ ختم کروانے کے لیے علماء اور حکومت کے مابین مذاکرات کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے ‘جس پر انتظامیہ نے ویمن پولیس ‘ایف سی اور رینجرز طلب کر لی‘جامعہ حفصہ نے بھی فارغ التحصیل طالبات کو بلوا لیا۔
درمیان میں کچھ دن فریقین کی طرف سے خاموشی رہی لیکن۲۵ مارچ کوجامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے طلباء کی طرف سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون اور اس کی بہو اور بیٹی کے جامعہ حفصہ منتقلی کا ایک واقعہ ایسا ہواکہ جس نے ا س تنازع کو ایک دفعہ پھر بھڑکادیا ۔
۲۹مارچ:مبینہ ذرائع کے مطابق پولیس نے جامعہ حفصہ کی دو معلمات ‘ان کے دو مرد ساتھوں اور ڈرائیور کو آنٹی شمیم اغوا کیس میں گرفتارکرلیا‘جبکہ جوابی کاروائی کرتے ہوئے لال مسجد کے طلباء نے دوپولیس اہلکاروں او ر دو پولیس کی گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا‘رات گئے تک ضلعی حکومت اور لال مسجد کی انتظامیہ میں مذاکرات ہوتے رہے‘مذاکرات کے نتیجے میں ضلعی حکومت نے ان دو معلمات ‘ان کے دو مرد ساتھیوں اور ڈرائیور کو رہاکر دیاجن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے جی سکس اسلام آباد سے آنٹی شمیم نامی ایک خاتون ‘ان کی بیٹی ‘بہو اورچھ ماہ کی پوتی کوجامعہ حفصہ پہنچا دیا تھا۔لال مسجد کے خطیب نے ان افراد کی رہائی کے بعد دو پولیس اہل کاروں اور موبائلز گاڑیوں کو چھوڑ دیا لیکن آنٹی شمیم اور ان کی رشتہ دار خواتین کوتاحال لال مسجدنے اپنی تحویل میں رکھا ۔
۳۰مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق بدکاری کا اڈا چلانے کے الزام میں محبوس شمیم اختر ‘اس کی بیٹی اور بہو کواڑھائی دن کی یرغمالی کے بعد لال مسجد کی انتظامیہ نے برقعے پہنا کررہا کر دیا۔
۳۱مارچ :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے کے خطیب نے اپنے خطاب جمعہ کے دوران درج ذیل مطالبات کیے:حکومت فوری طور پر نفاذ شریعت کا اعلان کرے ورنہ آئندہ جمعہ لال مسجد میں منعقدہ نفاذ شریعت کانفرنس میں ہم خود اس کا اعلان کریں گے۔حکومت عریانی ور فحاشی کے اڈے بند کرے اور اسلامی نظام نافذکر کے فحاشی کے مرتکب افراد کو بیس کوڑے لگائے‘ورنہ لال مسجد میں قاضی کی عدالت میں ان پر حد لاگو کی جائے گی۔ بہت صبر کیا ‘مر جائیں گے لیکن فحاشی کے ا ڈے نہیں چلنے دیں گے۔نائب خطیب جناب عبد الرشید غازی صاحب کا بیان آیا کہ آنٹی شمیم سے پورا محلہ تنگ تھاآنٹی شمیم کے خلاف تقریبا اڑھائی سو معززین محلہ نے میڈیا کو بیانات دیے ۔
۹ اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ نے ایک نجی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا:حکومت کا موقف ہے کہ معاملہ پر امن طریقے سے حل ہو‘جامعہ حفصہ کی طالبات کے والدین کو متنبہ کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے ایک اشتہاری مہم چلانے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔دوسری طرف سے لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی صاحب کی طرف سے اعلان ہوا :ہم نے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔
۱۱اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق جناب چوہدری شجاعت نے ایک دفعہ پھر منگل کی شب جامعہ حفصہ کا دورہ کیایہ مذاکرات تقریبا اڑھائی گھنٹے جاری رہے جن کے نتیجے میں حکومت نے سات شہید کی گئی مساجد کی دوبارہ تعمیر کی یقین دہانی کرائی ‘علاوہ ازیں دونوں بھائیوں نے اس وقت تک چلڈرن لائبریری پر قبضہ برقرار رکھنے کا اعلان کیا جب تک کہ حکومت شریعت کو نافذ نہیں کرنے کی یقین دہانی نہیں کراتی۔
۱۲اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم جناب شوکت عزیز کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس تقریبا پانچ گھنٹے تک جاری رہا۔وفاقی وزیر برائے بند گاہ و جہاز رانی جناب بابر غوری ‘وفاقی وزیر تعلیم جناب جاوید اشرف اور وزیر خارجہ جناب خورشید قصوری کا کہنا تھا کہ لال مسجد کے خلاف فورا ایسا ایکشن لیا جائے کہ جس سے یہ معاملہ ختم ہو جائے جبکہ بعض دوسرے وزراء جن میں وزیر مذہبی امورجناب اعجاز الحق ‘وزیر داخلہ جناب آفتاب احمد شیر پاؤ اور جناب ہمایوں اخترشامل ہیں‘کا بیان تھا کہ معاملہ مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے۔جبکہ دوسری طرف آئی این پی کو دیے گئے اپنے ایک انٹر ویو کے دوران مولاناعبد العزیزغازی صاحب نے کہا: ایم۔ ایم۔ اے‘ والے سرحد میں اپنی حکومت کے باوجود اسلامی نظام نافذ نہیں کر سکے وہ ہماری مدد کیا کریں گے۔ایم ۔ایم ۔اے ‘والے جمہوریت کے ذریعے اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہم جہاد کے ذریعے۔پانچ لاکھ کے قریب استحصالی ٹولے نے سترہ کروڑ عوام کو یر غمال بنا رکھا ہے۔جب تک اسلامی نظام نافذ نہیں ہوتا چلڈرن لائبریری پر اپنا قبضہ ختم نہیں کریں گے۔
۱۴اپریل :مبینہ ذرائع کے مطابق لال مسجد کے نائب خطیب مولاناعبد الرشید غازی صاحب نے کہا:چوہدری شجاعت سے مذاکرات کے اختتام تک شرعی عدالت غیر فعال رہے گی۔جبکہ مولانا عبد العزیز غازی صاحب نے اپنے جمعہ کے خطبے میں کہا:اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پرامن تحریک چلائیں گے۔اسلامی نظام کے نفاذ کے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ہماری جدوجہد باطل نظام کے خلاف ہے اگر پرویزمشرف اسلامی نظام نافذ کرتے ہیں تو ان کی جوتیاں اٹھانے کو تیار ہوں ۔ڈنڈے اور تیزاب کی بات ہم نے نہیں کی‘ ڈنڈا تو وہ استعمال کر رہے ہیں جنہوں نے وزیرستان میں تباہی پھیلائی۔انہوں نے مزید کہاکہ چوہدری شجاعت کا رویہ مثبت ہے لیکن اعجاز الحق آپریشن کی بات کرتے ہیں ۔
۲۰اپریل :وفاق المدارس العربیہ کی مجلس عاملہ کی دو روز ہ میٹنگ کے بعد ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے حکومت پاکستان درج ذیل مطالبات کیے گئے :حکومت جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے مطالبات کو منظور کرے ‘ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے ‘گرائی جانے والی مسجد کو دوبرہ تعمیر کروائے ‘بدکاری اور فحاشی کے اڈے ختم کرے ۔اس اعلامیہ کے مطابق مجلس عاملہ نے جامعہ حفصہ کے مطالبات کو درست قرار دیا لیکن انہوں نے کہا کہ جا معہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کی انتطامیہ کا طریق کار غلط ہے ۔
۲ مئی : امام کعبہ نے وفاقی وزیر اعجاز الحق سے سعودی عرب میں ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان میں خود کش حملے کرنے والے گمراہ ہیں ۔اسلام سرکاری یا کسی کی ذاتی زمین پر قبضہ کر کے مسجد یا مدرسہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا ۔حکومت کے ہوتے ہوئے کوئی فرد اپنی شرعی عدالت قائم نہیں کر سکتا یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے اگر وہ پورا نہیں کرتے تو اللہ کو جوابدہ ہوں گے۔
یہ تنازع بڑھتا ہی گیا اوربالآخر۱۰جولائی کو حکومت نے قدام کیا اور لال مسجد کو شہید کر دیا۔سینکڑوں طلبہ و طالبات نے سر نڈر کرتے ہوئے اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیاجبکہ باقی طلبہ و طالبات کو شہید کر دیاگیا۔لال مسجد کے نائب خطیب عبد الرشید غازی صاحب شہید کر دیے گئے جبکہ خطیب عبد العزیز صاحب کو گرفتار کر لیا گیا جو کہ تاحال حکومت کی قید میں ہیں۔
طالبان جہاد کا ایک تجزیاتی مطالعہ
وزیرستان کا جہاد ہمارے نزدیک دفاعی جہاد تھا جو کہ حکومت پاکستان نے قبائلیوں پر مسلط کیا تھا۔لیکن سوات اور لال مسجدکے جہاد کو ہم ایک بڑی غلطی سمجھتے ہیں کیونکہ یہ دونوں اقدامی جہاد تھے اور مسلمان حکومت کے خلاف تھے۔فقہی اصطلاح میں یہ’ خروج‘ کی بحث بنتی ہے ۔ہمیں اس بات سے بحث نہیں کرنی ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف خروج جائز ہے یا نہیں ۔ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ خروج اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس سے مسئلہ اور زیادہ بگڑے گا۔اس کی ہمارے نزدیک درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) امریکہ اور عالمی طاقتیں یہی چاہتی ہیں کہ پاکستانی افواج کو مجاہدین سے لڑا کر دونوں کو کمزور کر دیا جائے۔
۲) مجاہدین ‘ پاکستان میں عسکری رستوں سے کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے اور اس کی وجہ عسکری تنظیموں اور ریاست میں طاقت کا عدم توازن ہے۔
۳) صوفی محمد کی بغاوت‘ لال مسجد اور سوات کے واقعے نے مجاہدین کوکیا دیا؟ ہزاروں لوگوں کی شہادت ‘ نقل مکانی اور گھروں اور اموال کی تباہی ؟
۴) مذکورہ بالاتینوں تحریکوں کے رہنما اس نتیجے تک پہنچ گئے تھے کہ حکوت پاکستان کے خلاف عسکری کاروائیوں کا کوئی نتیجہ نہیں ہے ۔صوفی محمد صاحب نے عسکریت سے توبہ کر لی تھی اور یہاں تک کہ اپنے داماد مولانا فضل اللہ کو یہ طریقہ اختیار کرنے پر اپنی جماعت سے نکال دیا۔لال مسجد کے غازی برادران کے آخری بیانات اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ حکومت سے مفاہمت سے چاہتے تھے لیکن پرویز مشرف صاحب آپریشن پر ڈٹے ہوئے تھے۔مولانا فضل اللہ نے بھی تین ماہ بعد سوات خالی کر دیا اور روپوش ہوگئے ۔
۵) حال ہی میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے امیر بیت اللہ محسود نے یہ بیان دیا ہے کہ ہم پاکستان میں سیکورٹی فورسز کے خلاف کاروائیاں نہیں کریں گے اور ہمارے نزدیک یہ مجاہدین کی فہم و فراست‘ تجربات اور گہری بصیرت کا نتیجہ ہے کہ وہ یہ بات جان چکے ہیں کہ پاکستان حکمرانوں کے خلاف ان کے قتال کا فائدہ سراسر اسلام دشمنوں امریکہ اور انڈیا کوہو گا۔
۶) پاکستان کسی خلا میں نہیں ہے بلکہ اسی دنیا میں موجود ہے۔ہمیں کوئی بھی تحریک قائم کرنے سے پہلے پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہتے نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اپنی تحریک کواقوام عالم کا ایک حصہ سمجھتے ہوئے کوئی اقدام کرنا چاہیے۔مبینہ ذرائع کے مطابق اصل صورت حال یہ ہے کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کو حکومت پاکستان اور آئی ایس آئی نے اپنی پشت پناہی فراہم کی تھی اور پاکستانی ایجنسیوں ہی کی اجازت سے سرحد کے پاکستانی طالبان بھی امریکہ کے خلاف کاروائیوں میں اہم کردار ادا کر رہے تھے ۔امریکہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے ایک پلان بنایا جس کے مطابق سرحد کے قبائلی علاقوں میں ایک نئی طالبان تحریک کو حکومت پاکستان کے خلاف کھڑا کر کے ان کی چال کو انہی کے خلاف الٹ دیا مقصود تھا۔أمر واقعہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی چال میں کامیاب رہا اور اس نے ایک ایسی طالبان تحریک کو جنم دیا جو کہ حکومت پاکستان کو کمزور کر رہی تھی ۔اخبارات میں یہ بیانات واضح طور پر شائع ہوتے رہے ہیں کہ القاعدہ ‘ مولوی فضل اللہ کی قیادت میں سوات کے طالبان اور بیت اللہ محسود کی قیادت میں تمام طالبان نے کئی بار اس عزم کا ظہار کیا تھا کہ وہ حکومت پاکستان کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے اور ان اور حکومت پاکستان کے درمیان کئی معاہدے بھی ہوئے ۔بعد میں فریقین نے ایک دوسرے پر کئی دفعہ معاہدے توڑنے کا الزام بھی لگایا ہے ۔اس صلح کو ختم کرنے میں درحقیقت امریکہ اور اس کی سازش کا شکار ہونے والے بعض نام نہادطالبان عناصر کارفرما تھے اور امریکہ کا اس کاروائی سے ایک طرف تویہ مقصود ہے کہ پاکستانی حکومت اور آئی ایس آئی‘ امریکہ کے خلاف لڑنے والے طالبان کی خفیہ امداد بند کرے اور دوسرا وہ یہ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف لڑنے والے پاکستانی طالبان اپنے وطن واپس آ کر اپنی ہی حکومت کے خلاف بر سر پیکار ہو ں تاکہ امریکہ اپنے دو دشمنوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑا کر کمزور کر دیں۔کرم ایجنسی میں ہونے والے حالیہ سنی شیعہ فسادات بھی امریکہ کی اسی جنگی چال کا ایک حصہ ہے کہ ان کو باہم لڑا کر کمزور کرو اور ان پر حکومت کرو۔
ہماری رائے کے مطابق جہادی تحریکوں کو ایک خاص عرصے تک کے لیے ہر قسم کے جنگ و جدال سے علیحدہ رہتے ہوئے اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں سے خیر خواہی کے جذبے کے تحت اپنے روابط بڑھانے چاہئیں۔ حکمرانوں کے ساتھ اس اتحاد میں اصل بنیاد امریکہ کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کی روک تھام‘ پاکستان کی سا لمیت اور مسلمانوں پر ظلم کے خاتمے کو بنانا چاہیے نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ اور نفاذ شریعت جیسے نعروں کوکہ جس سے حکمرانوں کو پہلے ہی چڑ ہے ۔اور اسی قسم کی جنگی سیاست و تدابیر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’الحرب خدعۃ‘ کا نام دیا ہے ۔
جہادی تحریکوں کو یہ بھی چاہیئے کہ وہ ایسے نوجوانوں کو اکٹھا کریں جو کہ انجینئرنگ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلی تعلیم یافتہ ہوں ۔ ان نوجوانوں کومختلف اسلامی ریاستوں مثلا سعودیہ‘ ایران‘ مصر اور پاکستان وغیرہ میں حکومتی سطح پر ایک مشن کے طور پر کھپایا جائے اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔
اسلامی ممالک کی تنظیم أو آئی سی میں تحریک پیدا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں اورعالم اسلام کو متحد کیا جائے۔
دین دار تاجر طبقوں خصوصاعرب سرمایہ داروں کو اکٹھا کرتے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مقابلے میں اسلامی انڈسٹریز بنانی چاہیے تاکہ مسلمان اپنی معاشی ضرورتوں میں خود کفیل ہوں وغیر ذلک۔
مقصود یہ ہے کہ جہادی تحریکوں کو کچھ عرصے تک اپنی توانائیاں عالمی سطح پرمسلمانوں کی تعلیم‘ معیشت‘ ٹیکنالوجی اور سیاسی گٹھ جوڑ پر صرف کرنی چاہئیں تاکہ اسلامی ریاستیں اور جہادی تحریکیں مل کر ایک خاص عرصے میں سپر پاور نہ سہی ایک منی سپر پاور کے طور پر سامنے آئیں۔اس سلسلے میں پہلی جنگ عظیم میں امریکہ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد چین کی پالیسیوں سے رہنمائی لی جا سکتی ہے کہ دونوں نے ایک خاص وقت تک کے لیے اپنے ممالک کو ہر قسم کے جنگ و جدال سے دور رکھتے ہوئے معاشی و ٹیکنالوجی کی ترقی پر اپنی ساری توجہ مرکوز رکھی اور اس کے نتائج وہ آج حاصل کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں اسلامی ریاستوں کے حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کسی بھی عسکری طریقہ کار کی بجائے آئینی‘ دعوتی‘ تبلیغی‘ اصلاحی‘ انتخابی‘احتجاجی‘ پر امن مظاہروں‘ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا کے ذرائع وغیرہ کو استعمال کرنا چاہیے۔
چند شبہات اور ان کے جوابات
۱) طالبان تحریک سے بہت سے گروہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہو کر چھوٹے چھوٹے دھڑوں میں تقسیم ہو تے گئے۔ان دھڑوں میں سے بعض ایسے تھے جو کہ حکومت پاکستان کو کافر قرار دیتے تھے اور حکومت کی معاونت کی وجہ سے افواج پاکستان‘ رینجرز اور پولیس پر بھی کفر کا فتوی لگاتے ہیں لہذا یہ حضرات سیکورٹی فورسز پر پاکستان میں ہر جگہ خود کش حملوں کو جائز قرار دیتے ہیں۔ان مقاتلین میں سے ایک طبقہ تو اس قدرشدت پسند ہے کہ اس کے نزدیک حکومت پاکستان کے تمام ملازمین طاغوتی نظام کی اعانت کی وجہ سے کافر اور مباح الد م ہیں۔ہمارے نزدیک تکفیر کے اس فتنے کا نتیجہ مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت کے سواکچھ نہیں ہے ۔اس فتنے میں چند ایک ناسمجھ ‘جاہل اور جوشیلے نوجوان مبتلا ہیں اور اس تکفیر کے نتیجے میں مسلمان حکمرانوں اور پاکستانی سیکورٹی فورسز سے قتال کو ہر مسلمان پر فرض عین قرار دیتے ہیں۔یہ نوجوان عام طور پر قرآن کی آیات اور أئمہ سلف کے فتاوی کو اپنے موقف کے حق میں دلیل کے طور پرپیش کرتے ہیں۔
ہماری رائے کے مطابق یہ تکفیری ٹولہ امت مسلمہ کے مسائل حل کرنے کی بجائے بڑھا رہا ہے ۔یہ حضرات واضح طور پر کہتے ہیں کہ ہم پاکستان کو بھی عراق بنانا چاہتے ہیں۔ٹینشن ‘ فرسٹیشن اور ڈیپریشن میں مبتلا اس قتالی تحریک کو سوئی ہوئی امت مسلمہ کو جگانے کا بس ایک ہی طریقہ نظر آتا ہے کہ ان سب کو باہمی جنگ و جدال میں جھونک دو۔یہ حضرات مسلمانوں کو چولہے(حکومتی ظلم وستم) سے اٹھانے کی بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی تنور(باہمی قتل و غارت) میں جھونکنا چاہتے ہیں۔شریعت ہمارے مسائل حل کرنے کے آئی ہے نہ کہ پیدا کرنے کے لیے ۔اگر ان حضرات کے منہج کو اختیار کر لیا جائے تو شاید ایک مسئلہ حل ہو جائے لیکن اس سے جو آگے بیس مسائل پیدا ہوں گے‘ ان کی طرف ان کی نظر بالکل بھی نہیں جاتی۔یہ نوجوان طبقہ حکمرانوں پر کفر کے فتوے لگا کر ان سے قتال یا افواج پاکستان پر خود کش حملوں کا رستہ تو تجویز کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج سے بلی کی طرح آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔پاکستانی حکومت کے کمزور ہونے کا اصل فائدہ کس کو ہو گا؟امریکہ ‘ اسرائیل اور انڈیا کویا اس قتالی تحریک کو۔ہم پہلے ہی اسلام دشمنوں سے لڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور باہمی جنگ و جدال سے اپنے ملک کو اورزیادہ کمزور کر لیں۔پاکستانی حکومت کی شکست اور پاکستان کا بھی عراق جیسا حشر ہونے سے کیا امت مسلمہ کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؐ سے سناہے:
’’آخری زمانے میں ایک جماعت ایسی ہو گی جو کہ نوجوانوں اور جذباتی قسم کے احمقوں پر مشتمل ہو گی وہ قرآن سے بہت زیادہ استدلال کریں گے اور اسلام سے اس طرح نکل جائیں کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے پس یہ جہاں بھی تمہیں ملیں تم ان کوقتل کرو کیونکہ جس نے ان کو قتل کیا اس کے لیے قیامت کے دن اجر ہو گا۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب إثم من رأی بقراء ۃ القرآن أو تأکل بہ)
راہ اعتدال اور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران‘ افواج ‘ رینجرز‘ پولیس اور ملازمین کافر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض ظالم ہیں ‘ بعض فاسق ہیں اور بعض مؤمن صادق ہیں۔اہل سنت کی عقیدے کی معروف کتاب ’شرح عقیدہ طحاویہ‘ میں ’لا نکفر أحدا بذنب ما لم یستحلہ‘ کے تحت بڑی عمدہ بحث موجود ہے۔
سیکورٹی فورسز کے جن اہلکاروں نے وزیرستان میں قبائلیوں پر حملہ کیا تو قبائلیوں کے لیے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانا اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کو قتل کرنا جائز ہے لیکن اس قتل و غارت کی صورت میں دونوں طرف سے مرنے والے مسلمان ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی‘لیکن سیکورٹی فورسرز کی یہ قتل و غارت گناہ کبیرہ کے درجے میں آئے گی اور وہ ظالم و فاسق شمار ہوں گے۔
دوسری صورت میں اگر تو اقدام مجاہدین کی طرف سے ہوتا ہے تو دونوں طرف کے مسلمان شہید ہوں گے اور ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس صورت میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار ظالم و فاسق یا گناہ کبیرہ کے مرتکب نہیں ہوں گے کیونکہ وہ دفاعی قتال کر رہے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ مجاہدین اپنے دفاع میں کسی اہلکار کو ہلاک کر سکتے ہیں لیکن جو اہلکار مجاہدین سے لڑنے نہیں جاتے مثلا وہ کراچی ‘ لاہور یا دوسرے شہروں میں تعنیات ہیں تو ان اہلکاروں پر خود کش حملے کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور اس کا قصاص لینا واجب ہے اور یہ جہاد نہیں فساد ہے ۔ کیونکہ یہ اہلکار کلمہ پڑھتے ہیں‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے ہیں‘ اللہ کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں۔قرآن ‘ آخرت‘ فرشتوں‘ رسالت اور تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں لہذاو ہ مومن صادق ہیں۔
اگر بفرض محال تکفیری گروپ کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ حکمران اور سیکورٹی فورسز کے اہلکار فلال فلاں اسباب کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں تو ہمارا سوال یہ ہے کہ کسی مرتد کافر کے اسلام لانے کا کیا طریقہ کار ہے؟ظاہری بات ہے کہ یہی طریقہ ہے کہ وہ کلمہ شہادت کا اقرار کرے اور سیکورٹی فورسز کے اہلکارکلمہ شہادت کا اقرار بدستور کر رہے ہیں لہذا مسلمان ہیں۔
یہ بات بھی واضح ہے کہ پرویز مشرف اور اس کی کابینہ کے فیصلوں میں ایک عام سیکورٹی اہلکار کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو پرویز مشرف کو گالیاں دیتی ہے اور ان کو اگر کسی جگہ مجاہدین کے خلاف آپریشن کا حکم دیا بھی جاتا ہے تو وہ رضامندی کی بجائے جبراً ایسی کاروائی کرتے ہیں۔ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد توایسے افراد کی ہے جو معاشی مجبوریوں کے تحت حکومت کی بات ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں حکومت کی طرف سے قرآن وسنت کی روشنی میں ان اہلکارں کے سامنے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ مجاہدین ریاست کے باغی ہیں اور ان کے خلاف قتال واجب ہے ۔لہذا یہ حضرات مجاہدین کے خلاف جہاد ایک دینی فریضہ سمجھ کر ادا کر رہے ہوتے ہیں۔پس ان کا حکم متأولین کا ہو گا اورامت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تأویل کی غلطی کی وجہ سے کسی پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جائے گا۔ لہٰذ ا یہ مومن صادق ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جوکوئی بھی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تواس کا بدلہ جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب ہو گا اور اللہ کی لعنت ہو گی اور اللہ تعالی نے اس کے لیے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (النساء:۹۳)
اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے أبی بن کعب اور اس کے ساتھیوں کے کفر اکبر کے باوجود ان سے قتال نہیں کیا جبکہ ان کے کفر پر قرآن بھی شاہد تھا تو ان کلمہ گو مسلمان اہلکاروں کوکافر قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قتال کیسے جائز ہو جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں شاید حجاج بن یوسف جیسے سفاک اور ظالم حکمران کی کوئی مثال موجود ہو جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت کے خاتمے کے لیے مکہ کا محاصرہ کیا‘ ان کو شہید کروا کے سولی پر چڑھایا‘ بیت اللہ پر سنگ باری کروائی اور ہزاروں مسلمانوں کو صرف اپنے اور بنو امیہ کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے قتل کراویا۔اس شخص کے فتنوں سے تنگ آ کر جب دو صحابیؓ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کے پاس آئے تو کہنے لگے:
’’لوگوں نے امانت کو ضائع کر دیا( یعنی حقدار کو امارت و خلافت عطا نہ کی ) اور آپؐ ابن عمرؓ ہیں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیؓ بھی ہیں تو پھر بھی آپ ان ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کیوں نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا مجھے اللہ کا یہ حکم ان کے خلاف خروج سے روکتا ہے کہ اللہ تعالی نے مسلمان بھائی کے خون کو حرام کیا ہے تو اس شخص نے کہا : کیا اللہ تعالی نے یہ حکم نہیں دیا کہ ان سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو جائے(یعنی حضرت عبد اللہ بن زبیر کو بنو أمیہ کے فتنے سے نکالنے کے لیے قتال ہونا چاہیے) تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے جواب دیا: ہم نے قتال کیا تھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہو گیااور دین (یعنی اطاعت) اللہ ہی لیے ہو گیا اور تم یہ چاہتے ہوئے کہ تم قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ (مسلمانوں کی باہمی قتل و غارت)پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہوجائے۔(صحیح بخاری‘ کتاب التفسیر‘ باب و قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ)
صحیح بخاری ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عبد اللہ بن عمرؓؓ سے آکر کہاکہ آپ ہر سال حج و عمرہ تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے رستے میں جہاد نہیں کرتے تو حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا : ارکان اسلام پانچ ہی ہیں یعنی جہاد ان میں شامل نہیں ہے تو اس شخص نے کہا اللہ تعالی نے تو یہ حکم دیا کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر پھر ان میں کوئی ایک زیادتی کرے تو اس کے خلاف لڑو۔یہ شخص دراصل حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کو کہہ رہا تھا کہ ’فقاتلوا الیے تبغی‘ کی نص کے تحت آپ پر ظالم گروہ کے ساتھ قتال واجب ہے تو پھر حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے اسے وہ جواب دیا جو اوپر مذکور ہے۔
اسی طرح قرآن مجید نے مسلمانوں کے آپس میں لڑنے والے دونوں گروہوں کو مومن کہا ہے اگرچہ ان میں سے ایک ظالم بھی ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اگر اہل ایمان کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ‘ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرے تو اس ظلم کرنے والے کے خلاف لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم(یعنی صلح) کی طرف لوٹ آئے۔پس جب وہ ظلم کرنے والا گروہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان پھر عدل و انصاف سے صلح کرواؤ بے شک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الحجرات:۹)
عام مسلمانوں کے لیے ظالم اور باغی گروہ کے خلاف قتال اس صورت میں ہے جبکہ اس سے قتال کی صلاحیت و استطاعت موجود ہو لیکن عصر حاضر میں ریاست کو اس کے ظلم سے روکنے کے لیے احتجاجی و آئینی طریقہ تو اختیار کیا جا سکتا ہے لیکن قتال کا نہیں۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بھی اسی اندیشے سے حکومت کے باغی گروہ کے خلاف قتال کے طریقہ کو فتنہ قرار دیا تھا کہ اس سے مسئلہ سلجھنے کی بجائے باہمی قتل و غارت کے بڑھنے کے یقینی امکانات موجود تھے۔
جہاں تک أئمہ سلف کے ان فتاوی کا تعلق ہے جوکہ قتال کی فرضیت کے بارے میں مروی ہیں‘ تو وہ ایک خاص ماحول اور حالات کے تحت جاری کیے گئے تھے جو کہ آج موجود نہیں ہیں۔قرآن و سنت دائمی ہیں یعنی ان میں قیامت تک کے لیے رہنمائی موجود ہے لیکن أئمہ کے فتاوی کی شرعی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ ہر زمانے کے قابل عمل ہوں۔اسی لیے اصول فقہ کا یہ معروف قاعدہ ہے ’یتغیر الفتوی بتغیرا لزمان‘ یعنی عرف کے بدلنے سے فتاوی یا اجتہادبدل جاتے ہیں۔
۲) تکفیری گروپ کی طرف سے ایک شبہ یہ بھی پیش کیاجاتا ہے کہ یا تو ہم دار الحرب میں ہیں یا دار الاسلام میں ہیں ۔اب پاکستان دار الاسلام تو نہیں ہے کیونکہ یہاں طاغوتی نظام قائم ہے لہذا دار الحرب ہے۔جب پاکستان دار الحرب ہے تو قتال فرض عین ہے۔
دار الحرب و دار الاسلام کی تقسیم کون سی آسمان سے نازل شدہ ہے کہ جس کاخلاف جائز نہیں ہے۔حقیقت یہ ہے کہ فقہاء نے اپنے زمانوں میں مسلمانوں کو بعض مسائل سمجھانے کے لیے یہ تقسیم پیش کی تھی کہ جس کا شریعت سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آج ہم اپنے زمانے کے اعتبار سے مسلمانوں کے مختلف خطوں کو مختلف نام دیں گے۔آج جس دنیا میں مسلمان آباد ہیں وہ کئی داروں میں تقسیم ہے مثلا دارالحرب‘ دار الاسلام‘ دار الکفر‘دار المسلمین‘ دار العہد‘ دار الصبر‘ دار الأمن اوردار الہجرت وغیرہ۔دار الحرب سے مراد وہ مسلمان علاقے ہیں جہاں کافروں نے جبری قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمان ان کے خلاف جنگ کر رہے ہیں جیسا کہ عراق ‘افغانستان‘ کشمیر اور فلسطین ہیں۔دار الاسلام سے مراد وہ علاقے ہیں کہ جہاں اللہ کی حاکمیت بالفعل نافذ ہوجیسا کہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ریاست تھی یا پھر موجودہ سعودی عرب اور ایران کسی درجے میں اس کی مثال بن سکتا ہے کہ جہاں شیعہ اسلام نافذ ہے۔دار الکفر سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں کافروں کی اکثریت ہے اور حکومت بھی انہی کے کنٹرول میں ہے۔ دارلمسلمین سے مراد وہ مسلمان ریاستیں ہیں جہاں فاسق و فاجر حکمران قابض ہیں اور اسلامی نظام اپنی مکمل شکل میں بالفعل نافذ نہیں ہے جیسا کہ پاکستان‘ مصر وغیرہ ہیں۔دار العہد سے مراد وہ کافر ریاستیں ہیں کہ جہاں مسلمان ایک اقلیت کے طور پرآباد ہیں اور ان کا ریاست سے یہ عہد ہے کہ وہ اس کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے اور جواباً کافر ریاست بھی ان کے حقوق ٹھیک طرح سے اداکرے گی جیسا کہ انڈیا‘امریکہ ‘ برطانیہ اور یورپین ممالک میں بسنے والے مسلمان ہی۔اس سے مراد وہ کافر ریاستیں بھی ہیں کہ جن کے ساتھ مسلمان ریاستوں نے جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا ہو۔دار الصبر سے مراد مسلمانوں کے وہ علاقے ہیں کہ جن پر کفار نے قبضہ کر لیا ہو اور وہاں مسلمانوں پر ظلم و ستم جاری ہواور مسلمان اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ وہ کافر حکمرانوں سے جنگ کر سکیں جیسا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا حال تھا۔ان علاقوں میں کفار حکمرانوں سیجنگ کی بجائے پر امن ذرائع سے آزادی کی کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔دار الأمن سے مراد کفار کے وہ علاقے ہیں جو کہ پوری دنیا میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور کسی بھی قوم سے لڑائی نہیں چاہتے یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے اپنی فوج بھی نہیں بنائی مثلا سوئٹزر لینڈ اور جاپان وغیرہ۔دار الہجرت سے مسلمانوں کے وہ علاقے کہ جن کی طرف مسلمان اپنے علاقوں میں کفار کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کریں جیسا کہ انڈیا اور افغانستان سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی تھی وغیر ذلک۔
۳) تیسرا مغالطہ جو عام طور پر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی قتال فرض عین ہے۔افغانستان پر امریکہ کاحملہ ہوا‘اب افغانیوں پرقتال فرض عین ہے اگر وہ قتال کے لیے کافی نہ ہوں تو ساتھ والی ریاستوں کے باشندوں پر قتال فرض عین ہو جائے گااگر وہ بھی کفایت نہ کریں تو یہ فرض پھیلتے پھیلتے تمام امت مسلمہ پر فرض عین ہو جائے گا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دفاعی قتال بھی ہر حال میں فرض عین نہیں ہوتا یہ اس صورت میں فرض عین ہو گا جبکہ گمانِ غالب ہو کہ مسلمانوں کے اس دفاعی قتال کے نتیجے میں بالآخر ان کو فتح ہو گی یا دشمن کو بھاری نقصان پہنچے گا ۔اس بات کو ہم ایک سادہ سی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رستے میں جا رہا ہواور اس کو چار افراد گن پوائنٹ پر روک لیں اور یہ حکم جاری کریں کہ اپنا مال ہمارے حوالے کر دو یا چار مسلح افراد آپ کے سامنے کسی دوسرے شخص کو قتل کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں جبکہ آپ کے پاس حفاظت اور بچاؤ کا کوئی ہتھیار بھی نہیں ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ اگر آپ نے اپنا مال یا دوسرے شخص کی جان بچانے کے لیے مزاحمت کی تو آپ کی اپنی جان بھی ضائع ہو جائے گی تو ایسی صورت میں آپ پر ان ا فراد کے ساتھ لڑنا فرض عین تو کجا مستحب بھی قرار نہیں دیا جا سکتاہے۔اس لیے اگرتو مسلمانوں کی مقبوضہ سرزمین پر کسی کافر حکمران کے خلاف دفاعی قتال کے نتیجے میں مسلمانوں کی آزادی کا گمانِ غالب ہے اور کفر کو کوئی بڑا ضرر پہنچنے کے امکانات ہیں تو ایساقتال اس مقبوضہ سرزمین کے افراد پر فرض عین ہو گا لیکن اگر کسی جگہ مسلمانوں کے دفاعی قتال کا نتیجہ ان کی نسل کشی کی صورت میں نکل رہا ہو تو پھر یہ دفاعی قتال جائز نہیں ہو گا۔عام طور پر اس مسئلے میں ایک حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے۔حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر سوال کیا:
’’اے اللہ کے رسول ! آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ ایک شخص مجھ سے میرا مال زبردستی لینا چاہتا ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو اپنا مال مت دے۔تو اس شخص نے دوبارہ سوال کیا:آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ وہ میرا مال لینے کے لیے مجھ سے قتال تک کرنے کو تیار ہے تو آپؐ نے فرمایا:تو بھی اس سے قتال کر۔اس شخص نے کہا: آپؐ کا کیاخیال ہے اگر وہ شخص مجھے قتل کر دے توآپؐ نے فرمایا : تو شہید ہے۔اس شخص نے پھر سوال کیا اور آپؐ کی اس بارے میں کیا رائے ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں تو آپؐ نے فرمایا وہ جہنمی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی من قصد أخذ مال غیرہ بغیر حق کان)
یہ حدیث اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص گن پوائنٹ پر مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے جبکہ میں نہتا ہوں تو میں اس سے لڑائی کروں اور اپنی جان قربان کر دوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے’ قتال ‘ کا حکم دیا ہے اور قتال دو طرفہ ہوتا ہے اور اس وقت ہوتا ہے جب دونوں طرف طاقت کا کوئی توازن موجود ہو۔چار افراد کے پاس کلاشنکوفیں ہیں اور دوسری طرف خالی ہاتھ ایک آدمی ہے تو یقینی صورت ہے کہ اس نہتے آدمی کی موت قطعی ہے سوائے اس کے کہ وہ مارشل آرٹ کا ورلڈ چیمپیئن ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں طاقت کا توازن موجود تھا اور عرف میں یہ بات عام تھی کہ ہر شخص اپنا ہتھیار مثلا تلوار وغیرہ اپنے پاس رکھتا تھا لہذا اگر کوئی شخص کسی سے اس کا مال چھیننا چاہتا تو وہ جواباً اس کو بھی قتل کر سکتا ہے اسی لیے صحابیؓ نے اس بارے میں سوال بھی کیا کہ اگر میں اس کو قتل کردوں تو پھر اس کا حکم کیا ہو گا۔ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی درجے میں طاقت کا توازن قائم ہو جیسا کہ قبائلی علاقوں میںیہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ وہاں عرف یہ ہے کہ ہر شخص اپنا ہتھیار اپنے پاس رکھتا ہے‘لہذاایسے علاقوں اور صورت حال میں انسان کو اپنا دفاع لازما کرنا چاہیئے اور اس دفاع میں اگر وہ قتل بھی ہو جائے تو شہید ہے ۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں بھی دفاعی قتال کا منہج اختیار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ۵۰ سال تک قیادت سے محروم ہو گئے ۔انگریزوں نے ردعمل میں آ کر آزادی کی اس تحریک کو اس قدر کچلا کہ مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی لیڈر باقی نہ چھوڑا۔پھر پچاس سال کے بعد نئی نسل میں علامہ اقبال بھی پیدا ہورہے ہیں اور قائد اعظم بھی‘ مولانا ابو الکلام آزاد بھی اور شیخ الہند بھی‘اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس تحریک کے ذریعے انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل ہوئی وہ قتال کی تحریک نہیں تھی بلکہ ایک آئینی و سیاسی تحریک تھی۔کیا وہ مقصود یعنی ظلم کا خاتمہ کہ جس کے لیے قتال کو مشروع قرار دیا گیا ہے ‘ قتال کے علاوہ کسی اور منہج سے بہتر طور پر حاصل ہورہا ہو‘ تو کیا اس جدید ذریعے سے اس مقصود کا حصول حرام ہو گا؟
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی فرض کفایہ اگرچہ امت کے بعض طبقوں پر فرض عین ہو جاتا ہے لیکن تمام امت پر فرض عین کبھی بھی نہیں ہوتا ۔اس کی سادہ سی مثال نماز جنازہ ہے۔مثلا کسی بستی مثلا پشاورمیں کسی شخص کا انتقال ہو جاتا ہے اور اگر پشاور کے علماء یا مسلمان اس کا نماز جنازہ نہیں پڑھتے تواس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ افریقہ یا یورپ میں بیٹھا ہوا مسلمان بھی گناہ گار ہو گا اور یہ فرض عدم ادائیگی کی صورت میں پھیلتا پھیلتا امت کے تمام افراد پر فرض عین ہو جائے گا۔یہ بات بالکل درست ہے کہ فرض کفایہ کی عدم ادائیگی کی صورت میںیہ فرض الأقرب فالأقرب کے اصول کے تحت امت میں آگے منتقل ہو گا، لیکن اس منتقلی میں بنیادی شرط اس فرض کی ادائیگی کی اہلیت و أ سباب ذرائع ہیں، اس لیے اگر افغان باشندے امریکہ کے بالمقابل اپنے ملک کادفاع نہیں کر سکتے تو افغانستان کے ساتھ ملحقہ ریاستوں کے حکمرانوں اور سربراہان پر یہ قتال فرض عین ہو گا نہ کہ عامۃ الناس پر۔ ہم یہ بات پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ آج جہاد و قتال کی کامیابی کا دارومدار عددی قوت پر منحصر نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید آلات حرب وضرب پر ہے۔ جب عامۃ الناس کے پاس نہ تو قتال کی اہلیت ہے اور نہ اس کے اسباب و ذرائع ‘تو ان پر قتال کیسے فرض عین ہو سکتا ہے ؟سورۃ توبہ میں تو یہ ہے کہ اہلیت اور اسباب وذرائع نہ ہونے کی وجہ سے قتال غزوہ تبوک کے موقع پر بھی فرض نہیں ہوا جبکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کے لیے نفیر عام تھی۔ أسباب و ذرائع سے ہماری مراد افغانستان‘ عراق یا کشمیر جانے کا کرایہ‘ کلاشنکوف یاہینڈ گرنیڈ نہیں ہے بلکہ ہماری مراد وہ أسباب و ذرائع ہیں کہ جن کے ذریعے امریکہ ‘انڈیا یا اسرائیل کی شکست کا کم از کم امکان تو ہو۔ ہمارے خیال میں یہ أسباب و ذرائع اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس تو موجود ہیں لیکن کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں ۔
۳) عام طور پر جہادی تحریکیں کے رہنماؤں کی تقاریر اور علما کی تحریروں میں عوام الناس کو ایک مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد کے نتیجے میں کل ہی امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا،اس لیے ہمیں یہ قتال ضرور کرنا چاہیے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ معاصر جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں امت مسلمہ کومجموعی سطح پر کوئی فائدہ ہو رہا ہے یا ضرر پہنچ رہا ہے؟ ہمارے خیال میں اس کا تعین‘ماضی قریب کے واقعات‘ حالات حاضرہ اور مستقبل قریب کی تاریخ سے ہو سکتا ہے ۔حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک بندہ مؤمن کو نہ تو سی این این اور بی بی سی کی اخبار و اطلاعات پر اندھا اعتماد کرنا چاہیے اور نہ ہی جہادی تحریکوں کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہونا چاہیے کہ جس میں ہرفدائی کاروائی میں فرشتوں کے نزول کی کہانی بیان کی جاتی ہے یا روس کی طرح امریکہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے یاانڈیا کے فتح ہونے کی نوید ہوتی ہے۔ہمارے خیال میں ایسی تمام تقاریر اور تحریریں مبالغے پر مبنی اور حقائق کے خلاف ہوتی ہیں ۔راقم الحروف کو اسلام آباد کی ایک جامع مسجد میں ایک معروف جہادی تحریک کے مفتی صاحب کا خطاب سننے کو ملا کہ جس میں انہوں نے حاضرین مجلس کو یہ خوشخبری سنائی کہ مسلمان مجاہدین نے ایک ایسی گن ایجاد کر لی ہے جو کہ کئی کلو میٹر ز سے بھی دشمن کا صحیح نشانہ لگاکر اس کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے اور اس گن کی وجہ سے امریکی فوجی اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ انہوں نے مارے خوف کے پیمپرز(pampers) پہننا شروع کر دیے ہیں۔حقائق یہ ہیں کہ عراق کو امریکہ نے جہنم کی بھٹی بنا رکھا ہے اور اگر امریکہ ‘عراق سے نکل بھی جائے تو اس نے پیچھے کیا چھوڑا کہ جس پر مجاہدین اللہ کے دین کا غلبہ کریں گے؟ویران کھنڈر!کہ جن کے زیر زمین مکینوں کی تعداد اوپر رہنے والوں سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔اگربالفرض امریکہ ‘عراق سے نکل بھی جائے کہ جس کے نکلنے کے دور دور تک کوئی امکانات بھی نظر نہیں آ رہے تو پھر بھی عراق کو معاشی طور پر خود کفیل ہونے میں ایک صدی کا عرصہ درکار ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ عراق میں مجاہدین کی حکومت قائم ہونے کے بعد وہاں امریکہ اپنے مفادات کو خطرہ محسوس کرنے کی صورت میں دوبارہ حملہ آور نہیں ہو گا‘اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ عراق میں سنی مجاہدین کی حکومت ہو گی یا شیعہ کی ؟ علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی مجاہد کی فدائی کاروائیوں کے نتیجے میں دو امریکی فوجی جہنم واصل ہوتے ہیں تو پچاس مسلمان بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوتے ہیں کہ جسکے بارے میں جہادی تحریکوں کے پاس یہ عذر ہے کہ جنگ میں تو سب جائز ہے۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا جنگ میں جانتے بوجھتے سینکڑوں مسلمانوں کی جان لینا جائز ہو جاتا ہے؟جبکہ ایک مسلمان کی جان کی حرمت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے کی حرمت سے بڑ ھ کر بیان کیا ہے۔ حقائق سے متعلقہ یہ اور اس جیسے بیسیوں سلگتے ہوئے سوالات ایسے ہیں کہ جس کے جوابات کسی جہادی تحریک کے پاس نہیں ہیں ۔
ہم عراق میں ہونے والے قتال کے خلاف نہیں ہیں لیکن ہمارے خیال میں عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ قتال کے لیے ابھارنے والے ان واعظین کو عوام الناس سے تصویر کا دوسرا رخ چھپانا نہیں چاہیے تاکہ ہر مسلمان حقائق کی روشنی میں خود فیصلہ کرلے کہ معاصر جہادی تحریکوں کا یہ جہاداپنے نتیجے کے اعتبار سے امت مسلمہ کو کوئی فائدہ پہنچا رہا ہے یا نہیں؟اگر تو کوئی مسلمان صدق دل سے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ ریاست کے بغیر ہونے والے اس قتال سے امریکہ ٹوٹ جائے گا یاا نڈیا فتح ہو جائے گا یااسرائیل سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا جا ئے گا تو اسے ضرور بالضرور اس قتال میں شریک ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے اس قتال میں شرکت فرض عین ہے۔اور اگر کوئی بندہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگرچہ مسلمانوں کو کوئی فتح تو نصیب نہیں ہوگی لیکن اس سے دشمن کو کوئی بڑا مالی یا جانی ضرر پہنچایا جا سکتا ہے تو ایسی صورت میں بھی اس کے لیے یہ قتال مستحب ہو گا ‘لیکن اگر کوئی مؤمن اپنے مشاہدے‘ تجزیے اور تجربے کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جس قتا ل کا وہ حصہ ہے یا حصہ بننے جا رہا ہے اس سے کسی جہادی تحریک کے رہنماؤں کے مفادات وابستہ ہیںیا کسی جہادی تحریک کے لیڈر‘علما اور قتال کو فرض عین کہنے والے مفتی حضرات حب جاہ‘ حب مال اور اپنے وی آئی پی پروٹوکول کی خاطرقتال کے لیے نوجوانوں کو تیار کرتے ہیں حالانکہ وہ خود اور اپنی اولاد کواسی قتال کی سعادت سے محروم رکھتے ہیںیا معصوم‘ لاعلم اورسیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے ان تحریکوں کے معسکرات ایسے خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں جو ان کو جبراً فریضہ قتال کی ادائیگی پر مجبور کرتے رہتے ہیں اور اس کی انتہاء ایک مجاہد کے اپنے گھر والوں کے لیے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں واپس ہونا چاہتا ہوں لیکن اب میرے لیے واپسی کا کوئی رستہ نہیں ہے شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے اگر میدان جنگ میں نہ شہید ہو ا تو یہ مجھے شہید کردیں گے‘ یا اگر کوئی بندہ مؤمن یہ سمجھتا ہے کہ اس قسم کے قتال سے اگر دو امریکی مریں گے تو ساتھ ہی پچاس مسلمان بھی شہید ہوں گے اور اس قتال کا نتیجہ مسلمانوں کی نسل کشی کے سوا کچھ نہیں ہے تو ایسے شخص پریہ فرض عین ہے کہ قتال کے نام ہونے والے اس ظلم سے ممکن حد تک دور چلا جائے۔
ریاست کی سطح پرایسی جنگ‘ کہ جس کے نتیجے میں امریکہ کے ٹوٹنے کے پچاس فی صد بھی امکانات ہوں‘میں اگرپچاس ہزار مسلمان بھی شہید ہو جائیں تو کوئی پرواہ نہیں ہے لیکن دو امریکی فوجیوں کو مارنے کے پچاس مسلمانوں کو شہید کرنا کون سی عقلمندی ہے؟
ہمارے ہاں عام طور پر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے حالانکہ حقائق بالکل اس کے خلاف ہیں ۔روس کے ٹکڑے مجاہدین کے ہاتھوں اس لیے ہوئے کہ اس قتال کے پیچھے دو ریاستوں امریکہ اور پاکستان کا پورا عمل دخل موجود تھا۔ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا روس جو کہ اس وقت عالمی سپر پاور تھا ‘اس کے لیے کیایہ مشکل تھا کہ وہ امریکہ کی طرح افغانستان پر بمباری کر کے مجاہدین کو پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتا؟ ہمارے خیال میں روس بالکل ایساکرسکتا تھا لیکن اس کو اس وقت امریکہ اور دوسری عالمی طاقتوں کے جس دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا، امریکہ کو طالبان پر حملہ کرتے وقت اس سے واسطہ نہیں پڑا۔طالبان کی حکومت کو اگر صرف پاکستانی ریاست و حکومت کی امداد بھی حاصل ہوتی تو امریکہ کو کبھی بھی افغانستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔
کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر میں ہونے والے قتال میں تو پاکستانی ریاست کا تعاون بھی شامل ہے اس لیے وہاں قتال کی صورت میں کامیابی کے امکانات ہیں۔ہمارے خیال میں یہ کامیابی ممکن تو کیاقطعی اور یقینی ہے بشرطیکہ پاکستانی فوج اور ایجنسیاں واقعتا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے میں مخلص ہوں۔
کشمیر میں بہت سی جہادی تحریکیں کام کر رہی ہیں جن میں حزب المجاہدین‘جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ‘ حرکۃ الأنصار‘ تحریک جہاد ‘ جمعیت المجاہدین‘ الجہاد‘ تحریک المجاہدین‘ العمر مجاہدین‘ مسلم جانباز فورس ‘ حزب اللہ ‘ الفتح ‘ حزب المؤمنین اور جموں و کشمیر اسلامک فرنٹ وغیرہ شامل ہیں ۔یہ تیرہ عسکری جماعتیں متحدہ جہاد کونسل کی ممبربھی ہیں کہ جس کہ بنیاد ۱۹۹۰ء میں رکھی گئی‘متحدہ جہاد کونسل کا ہیڈ کوارٹر مظفرآباد میں ہے۔ان عسکری تناظیم کے علاوہ لشکر طیبہ ‘ جیش محمد اور البدر بھی معروف جماعتیں ہیں۔
جہاد کشمیرکے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ جہاد فرض ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مظلوم مسلمانوں کے لیے جہاد و قتال کو امت مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا ہے :
’’اور اے مسلمانو!تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال کیوں نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد‘ عورتیں اور بچے کہہ رہے ہیں: اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکال کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی ولی یا مددگار مقرر فرما۔‘‘(النساء: ۱۷۵)
ہمارے نزدیک کشمیر کا جہاد فرض ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کس پرفرض ہے ؟اس مسئلے میں ہمیں جہادی تحریکوں کے موقف سے اختلاف ہے ۔ہمارے موقف کے مطابق کشمیر کا جہاد پاکستانی حکمرانوں اور افواج پر فرض ہے جو کہ اُس کی کامل استطاعت رکھتے ہیں جبکہ پاکستان کے عوام کے لیے ہم اس جہاد کو فرض عین نہیں سمجھتے ۔عامۃ الناس کا فرض یہی ہے کہ وہ اُس جماعت کو جہاد و قتال پر آمادہ کریں جو کہ اس کی استطاعت و اہلیت رکھتی ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ عوام الناس کروڑوں نہیں بلکہ أربوں روپے اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ ملکی افواج اپنے عوام اور ان کی علاقائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور پاکستانی افواج کی بقا کامقصد ہی یہی ہے۔لہذا ہمارے نزدیک اصلاً کشمیر کا جہاد پاکستانی افواج کی ذمہ داری ہے اور اگر اس میں مجاہدین کی معاونت بھی ان کو شامل ہو جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کے فورا بعد افواج پاکستان کے ساتھ مل کر جب مجاہدین نے کاروائیاں کیں تو موجودہ آزاد کشمیر ہمیں حاصل ہوا اور اس کی تازہ ترین مثال کارگل کی جنگ ہے۔لہذاکشمیر کی آزادی کے مسئلے کا واحد حل ہمارے نزدیک یہی ہے کہ اس محاذ پر پاکستانی افواج لڑیں جو کہ اس کو آزاد کرانے کی استطاعت و صلاحیت بھی رکھتی ہیں اور ان کا مقصد حیات و بنیادی ذمہ داری بھی یہی ہے اور اسی کی وہ تنخواہ بھی لیتی ہیں۔
جو لوگ بھی’ جیش محمد‘ اور’ لشکر طیبہ‘ کی عسکری تربیت کے نظام سے گزرے ہیں، وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے معسکرات میں عسکری تربیت کم ہوتی ہے اور مسلکی تعصب کی تعلیم زیادہ دی جاتی ہے۔ دونوں مکاتب فکرکے معسکرات میں تقاریر و دروس کے ذریعے احسن طریقے سے ایک دوسرے کے مسلک کا رد کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات دوسری جماعت کے مجاہدین سے اس قدر تعصب کا اظہار کیا جاتاہے کہ ’تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتی‘ والی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ کشمیر‘ انڈیا سے آزاد ہونے کے بعد ایک خود مختار آزاد ریاست کے طور پر قائم رہ سکتا ہے‘ جیسا کہ دنیا میں اس طرح کی اور بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی موجود ہیں مثلا کویت وغیرہ‘ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی سی آزاد مسلم ریاست کا حکمران کون ہو گا؟ کشمیری عوام کی ترجمان سیاسی ‘سماجی اور مذہبی تنظیمیں یا غیر کشمیری جہادی تحریکیں؟صرف آل پارٹیز حریت کانفرنس تقریبا۳۰ سیاسی و سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے جو کشمیری عوام کی آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں مسلم کانفرنس‘ تحریک حریت ‘ کشمیری جمعیت علمائے اسلام‘ عوامی کانفرنس‘ جماعت اسلامی‘ اتحاد المسلمین‘ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(یسین ملک) ‘عوامی لیگ‘ آزادی کونسل‘ جموں و کشمیر عوامی کانفرنس‘ عوامی ایکشن کمیٹی‘ انجمن تبلیغ اسلام‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت حمدانیہ‘ کشمیر بار ایسوسی ایشن‘ کشمیر بزم توحید‘ تحریک حریت کشمیری‘ سیاسی کانفرنس‘ جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیٹی‘ سٹوڈنٹ اسلامک لیگ‘ دختران ملت اور جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ(امان اللہ خان) وغیرہ ہیں۔ان سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی تنظیموں کااصل منشورانڈیا کے مظالم سے کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ اعلائے کلمۃ اللہ۔ اگر تو جہادی تحریکوں کا منشور بھی وہی ہے جو کہ ان سیاسی و سماجی کشمیری تنظیموں کا ہے تو پھر ان عسکری تناظیم کو چاہئے وہ اپنے موقف میں اس بات کو اچھی طرح واضح کریں کہ وہ کسی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے نہیں لڑ رہے بلکہ ایک خطہ ارضی کے حصول کے لیے قربانی دے رہے ہیں اور ان کا مقصد صرف کشمیری عوام کی آزادی ہے نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ۔ اور اگر جہادی تحریکیں یہ موقف اپناتی ہیں کہ ہم اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے لڑ رہی ہیں تو پھر ان کے پاس اس سوال کا جواب کیا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کے عوام اور ان کی مقامی سیاسی تنظیموں کو کشمیر میں حکمرانی کا حق حاصل ہے یا غیر ملکی پاکستانی مجاہدین کو(اگرکشمیر علیحدہ ریاست بنے گا تو اس صورت میں پاکستانی مجاہدین کشمیریوں کے لیے غیر ملکی ہوں گے)۔
بفرض محال اگرہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کا الحاق نہ پاکستان کے ساتھ ہو گا اور نہ انڈیا کے ساتھ‘ بلکہ یہ ایک آزاد خود مختار ریاست ہو گی اور ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کے بعد اس کی تمام مقامی سیاسی ‘ سماجی اورمذہبی جماعتیں مجاہدین کے حق میں حکومت اور اس کی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جاتی ہیں ‘ توپھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کشمیر میں کون سی عسکری تنظیم اپنا اقتدار قائم کرے گی۔ اس وقت کشمیر میں تقریباً سترہ عسکری تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن میں سے بعض مقامی مجاہدین پر مشتمل ہیں مثلا حزب المجاہدین وغیرہ ۔۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ راقم الحروف اٹک کالج میں ایف۔ ایس۔ سی کا طالب علم تھا کہ اس دوران کالج میں ایک معروف جہادی تنظیم حزب المجاہدین کے ایک سپریم کمانڈر کی تقریر سننے کا موقع ملا۔خطاب کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک طالب علم نے یہی سوال اٹھایا کہ کشمیر میں اس وقت چودہ عسکری جماعتیں کام کر رہی ہیں تو کشمیر کی آزادی کے بعد کشمیر پر حکومت کون سی جماعت کرے گی اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ جماعتیں افغانستان کی طرح ایک دوسرے کے خلاف جہاد نہ شروع کر دیں گی؟تو ان مجاہد صاحب کا جواب یہ تھا کہ ہم نے کشمیر کے چودہ حصے بنا رکھے ہیں جن کو ہم آپس میں بانٹ لیں گے لہذا آپ حضرات اطمینان رکھیں کشمیر میں افغانستان جیسی خانہ جنگی پیدا ہونے کا ذرا برابر بھی امکان نہیں ہے۔ و اللہ المستعان علی ما تصفون!
جہادی کشمیری تحریکوں کے مفتیان کرام نے عرصہ دراز سے یہ رٹ لگا رکھی ہے کہ جہاد کشمیر فرض عین ہے ۔جہادی تحریکوں کا یہ طرز عمل بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان میں جن لوگوں پر ان تحریکوں کی طرف سے کفر و شرک کے فتوے لگائے جاتے ہیں انہی کی آزادی کے لیے قتال کو عامۃا لناس پر فرض عین قرار دیاجاتا ہے۔اس کی سادہ سی مثال ایک معروف جہادی تحریک کے مفتی صاحب کی کتاب ’کلمہ گو مشرک‘ ہے ۔ان مفتی صاحب نے جس گروہ اور طبقے کے لیے یہ کتاب لکھی اسی فرقے کی اکثریت مقبوضہ کشمیر میں آباد ہے۔جہادی تحریک سے وابستہ ایک مفتی صاحب جس گروہ کو مشرک قرار دے رہے ہیں اسی جماعت کے ایک دوسرے مفتی صاحب ’الجہاد الاسلامی‘ نامی کتاب میں اس گروہ کی آزادی کے لیے قتال کو فرض عین قرار دے رہے ہیں۔فیا للعجب!مشرکین کی آزادی کے لیے مسلمانوں پر قتال کیسے فرض عین ہو گیا؟
’قتال فرض عین ہے ‘کی ایک نئی تعبیر جو کہ کشمیری جہادی تحریکوں کے مفتی حضرات نے متعارف کروائی ہے‘ وہ یہ ہے کہ’ قتال فرض عین ہے‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مفتی صاحب یا کسی جہادی تحریک کے سربراہ خود بھی میدان جنگ میں جا کر لڑیں‘بلکہ ’قتال فرض عین ہے‘ کا فتوی دینے والے مفتی صاحب جہادی تحریک کے کسی مدرسے میں بیٹھے سارا سال ’بخاری‘ پڑھاتے ہیں یا کسی جہادی تحریک کے امراء‘ نوجوانوں کو جہاد کی ترغیب و تشویق دلانے کے لیے تقاریر و سیمینارز کا انعقاد کرواتے ہیں تو یہ بھی قتال ہی ہے ۔
ہمارے خیال میں ایسے مفتی حضرات یا تو فرض عین کا مطلب نہیں سمجھتے یا ان کا علم ان کی عقل سے مستغنی ہے ‘کیا نماز فرض عین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ وضو کرلیں اور بعض سنتیں پڑھ لیں اور بعض فرائض ادا کرلیں تو سب کی نماز اد ہو جائے گی یا روزے کے فرض عین ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ بعض لوگ سحری کا خرچہ اٹھا لیں‘ بعض سحری تیار کر دیں اور بعض روزہ رکھ لیں تو فرض عین ادا ہو جائے گا۔اگر یہ مفتی حضرات اپنی اور اپنے أمراء کی قتال سے جان بچانے کے لیے ’کتاب الحیل‘ کا سہارا نہ لیں تو قتال کے فرض عین ہونے کا مطلب اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ بنفس نفیس میدان جنگ میں جاکر لڑا جائے ‘اور جو بھی میدان جنگ میں لڑ رہا ہے وہ اس فرض کو ادا کر رہا ہے اور جو نہیں لڑ رہا وہ اس فرض کو ادانہیں کررہا۔فتوی یہ حضرات قتال کے فرض عین ہونے کا دیتے ہیں اور اس فرض عین کی تعبیر و تشریح وہ کرتے ہیں جو کہ فرض کفایہ کی ہے۔ أئمہ سلف میں سے کس فقیہ یا محدث نے قتال کے فرض عین ہونے کا یہ مفہوم بیان کی ہے کہ وہ عامۃ الناس کے لیے تو میدان جنگ میں جا کر لڑنا ہے لیکن جہادی تحریکوں کے مفتیان کرام و أمرا کے لیے بخاری پڑھانا یا میجر جنرل کے اعزازی عہدے کی سہولیات و پروٹو کول سے فائدہ اٹھانا ہے۔
بعض جذباتی قسم کے نوجوانوں سے جب یہ بات کی جاتی ہے کہ قتال اصل میں حکومت کا فرض ہے تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور جواباً کہتے ہیں: مسلمان قتل ہورہے ہیں‘ ان کے بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے‘ ان کی عورتوں کی عزتیں لٹ رہی ہیں‘ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں ہم قتال نہ کریں ۔
اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے یہ بالکل بھی نہیں کہا کہ مسلمان قتال نہ کریں ‘ ہم توقتال کے قائل ہیں بلکہ قتال کے منکر کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ‘ہمارا موقف یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اس کوختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ اسلامی ریاستوں کی سطح پر قتال ہو۔کشمیر ہو یا افغانستان‘عراق ہو یا فلسطین ‘اگر صرف مملکت خدادادپاکستان کے حکمران ہی ریاست کی سطح پر امریکہ یا یہود و نصاری سے قتال کرتے تو آج ان مقبوضہ علاقوں میں ہمیں یہ ظلم و ستم نظر نہ آتا۔جن حکمرانوں کے قتال سے امت مسلمہ کے مسائل کا حل ممکن ہے انہیں تو اس طرف توجہ نہیں دلائی جاتی بلکہ سا را زور اس بات پر صرف ہوتاہے کہ عامۃ الناس پر کسی نہ کسی طرح اس کو فرض عین قرار دیا جائے۔دوسری بات یہ ہے کہ آج دنیا میں تمام مسلمان ریاستوں میں فاسق و فاجر اور ظالم حکمران مسلط ہیں جنہوں نے اللہ کی شریعت کے بالمقابل اپنے ظالمانہ قوانین کا نفاذ کر رکھا ہے ‘ اگرکوئی شخص ذاتی طور پر محسوس کرتا ہے کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا اور قاتل کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں لہذا ایسے قاتل کو اپنے طور پر قتل کر دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے مظلوم بھائی کی مدد کر سکے تو ہم اسے یہی مشورہ دیں گے کہ تمہارے لیے یہ جائز نہیں ہے۔ تمہارے کرنے کااصل کام ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے جسے اللہ کے رسولﷺ جہاد قرار دیا ہے ‘اس لیے تمہارا جہاد ان حالات میں حکمران کے فریضے اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہے بلکہ حکمران کو اس فریضے کی ادائیگی پر مجبور کرنا ہے۔
ہم جہاد کشمیر کو بھی فرض عین سمجھتے ہیں لیکن ریاست کے حکمرانوں اور افواج پاکستان پر‘ جوکہ اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتے ہیں۔عامۃ الناس کے لیے ہمارے نزدیک جہادی ٹریننگ تولازم ہے لیکن جہاد کشمیر نہیں۔جہاد کشمیر کے بارے میں عوام الناس کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس جماعت کو جہاد کی ادائیگی پر بذریعہ تقریر ‘ تحریر‘ میڈیا‘پریس‘قانونی ‘ آئینی ‘ سیاسی اور انقلابی جدوجہد آمادہ کریں کہ جس پر یہ فرض عین ہے اور جو اس کی صلاحیت و اہلیت رکھتی ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے نبی! اہل ایمان کو قتال پر ابھاریں۔اگر تم میں بیس ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ ایک ہزار کافروں پرغٖالب آئیں گے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو کہ سمجھتے نہیں ہیں۔اب اللہ تعالی نے تمہارے لیے تخفیف کر دی ہے کہ اگر تم میں ایک سو ڈٹ جانے والے ہوں گے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو وہ دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے اور اللہ تعالی ڈٹ جانے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘(الأنفال:۶۵‘۶۶)
آیت :۶۶ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کی کسی جماعت یا حکومت پر قتال اس وقت فرض ہوتا ہے جبکہ اس کی قوت ‘ دشمن کی قوت سے نصف ہو۔ امام قرطبی ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:
’’میں یہ کہتا ہوں:حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث اس طرف رہنمائی کر رہی ہے کہ یہ حکم (آیت نمبر ۶۵ والا) مسلمانوں پر فرض تھا پھر جب اس حکم کی فرضیت ان کو بھاری محسوس ہوئی تو اللہ تعالی نے فرضیت میں تخفیف کرتے ہوئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ایک دو کی نسبت ہو تو پھر اس کی فرضیت باقی ہے(اور اس سے کم ہو تو ساقط ہے)۔پس اللہ تعالی نے ان سے تخفیف کر دی اور ان پر یہ فرض کر دیا کہ دو سو کے مقابلے میں ایک سو میدان جنگ سے نہ بھاگیں۔اس قول کے مطابق یہ حکم تخفیف کا ہے نہ کہ نسخ کا‘ اور یہ قول بہترین ہے۔‘‘(تفسیر قرطبی:الأنفال:۶۶)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قوت میں تعداد کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی لہذا اس کا تذکرہ آیت میں کر دیا گیا ہے۔ آج بھی اگر مسلمانوں کی کسی جماعت یا حکومت کے پاس دشمن کے مقابلے میں نصف قوت موجود ہو تو اس پردفاعی یا دوسرے خطوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف اقدامی و دفاعی قتال فرض ہو گااور اگر نصف سے کم قوت ہو تو پھر قتال کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں یعنی یہ مستحب بھی ہو سکتا ہے او ر حرام بھی ۔امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
’’انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چو تھا درجہ حرام ہے ۔‘‘(اعلام ا لموقعین: جلد ۳‘ص۱۵۱)
حکومت پاکستان پر کشمیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے ظلم و ستم سے بچانے کے قتال فرض عین ہے لیکن عوامی جہادی تحریکیں جب بھی قتال کریں گی چاہے وہ کشمیر میں ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے میں ‘ اس قتال کی یہ چاروں صورتیں بنیں گی جو کہ ابن قیم ؒ نے بیان کی ہیں۔اصل میں علماء کا دنیا بھر میں ہونے والے جہاد سے علمی اختلاف اسی مسئلے میں ہے ۔یعنی علماء جہاد کی نصوص یا احکام کے انکاری نہیں ہیں۔وہ اسلامی ریاستوں کے لیے جہاد و قتال کو فرض قرار دیتے ہیں لیکن عوامی جہادی تحریکوں کی صورت میں اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ اس جہاد کے نتیجے میں ظلم و منکر ختم ہو رہا ہے یا بڑھ رہا ہے ۔کشمیر یا دنیا کے مختلف خطوں میں جہادی تحریکوں کے جہادسے ظلم ختم ہورہا ہے یا بڑھا رہا ہے‘ اس کاتعلق شریعت سے نہیں ہے بلکہیہ حالات و واقعات کا موضوع ہے۔اگر کوئی عالم دین حالات و اخبار عالم سے واقف ہے اور اس کا گہرائی میں تجزیہ کرتے ہوئے اس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ جہاد کو اللہ تعالی نے ظلم ختم کرنے کے لیے مشروع کیا تھا لیکن فلاں فلاں خطے میں جہادی تحریکوں کے جہاد کے نتیجے میں ظلم بڑھ رہا ہے تو اس عالم دین کو منکر جہاد یا امریکہ کا حمایتی کہنا سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ہاں جہادی تحریکوں کے رہنماؤں اور ہمدردوں کو یہ چاہیے کہ وہ علماء پر اس قسم کے فتوے لگانے کی بجائے یہ ثابت کریں کہ واقعتاً ان کے جہاد و قتال کے نتیجے میں ظلم ختم ہورہا ہے‘ امریکہ تباہ ہو جائے گا ‘ انڈیا فتح ہو جائے گا اور اسرائیل کا غرور خاک میں مل جائے گا۔ یہ واضح رہے کہ قتال نہ تو ہر آدمی پر فرض ہوتا ہے اور نہ ہی ہر صورت میں فرض ہوتا ہے ۔ہرصورت میں اس کے فرض نہ ہونے کو ہم بیان کر چکے ہیں کہ جب مسلمانوں کی تعدادو قوت دشمنوں کی نصف تعداد و قوت سے بھی کم ہو تو ان حالات میں ان پر قتال فرض نہیں ہے۔اور ہر آدمی پر اس کے فرض نہ ہونے کی مثال غزوہ تبوک ہے ‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی ریاست پر شاہ روم کے ممکنہ حملے کی خبر کے پیش نظر تبوک کی طرف نکلے تھے ۔اور موقع پر ہر مسلمان پر قتال فرض نہیں کیا گیا تھا۔اس لحاظ سے غزوہ تبوک دفاعی و اقدامی قتال کی ایک ملی جلی صورت تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’نہیں ہے کمزور لوگوں پر کوئی گناہ اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے جو کہ مریض ہیں اور ان لوگوں پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے جو کہ خرچ نہیں پاتے جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر خواہ ہوں ‘ہر کام کو بخوبی انجام دینے والوں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘اور نہ ان لوگوں پر کوئی گناہ ہے جو کہ آپؐ کے پاس آئے تاکہ آپؐ ان کو کسی سواری پر سوار کریں توآپؐ ان کو کہتے ہیں میں کوئی ایسی چیز نہیں پاتا جس پر تم کو سوار کروں‘وہ پھر جاتے ہیں اس حال میں کہ ان کی آنکھیں غم کی وجہ سے آنسو بہا رہی ہوتی ہیں کہ وہ ایسی چیز نہیں پاتے کہ جس کووہ خرچ کر سکیں۔‘‘(التوبۃ:۹۱)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ عورتو ں پر قتال غزوہ تبوک کے موقع پر نفیرِ عام کے باوجودبھی فرضِ عین نہیں تھا حالانکہ اس دور میں عورتیں نہ صرف قتال کی اہلیت رکھتی تھیں بلکہ بالفعل کئی غزوات میں شریک بھی ہوتی تھیں اور ان میں میدان جنگ میں اسلام کے دشمنوں سے لڑنے کا جذبہ بھی بدرجہ أتم موجود تھا جیسا کہ بعض روایات کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ‘ اس سب کے ہوتے ہوئے بھی ان پر قتال فرض نہیں کیا گیا۔اسی طرح وہ صحابہ کرامؓ کہ جن میں قتال کی اہلیت نہیں تھی یعنی بوڑھے اور مریض ‘ان پر بھی قتال فرض نہیں کیا گیا‘علاوہ ازیں وہ صحابہ ؓ کہ جن میں قتال کی اہلیت و قدرت توتھی لیکن ان کے پاس قتال کے أسباب و ذرائع یعنی کوئی سواری یارستے کا خرچ نہیں تھا تو ان کو بھی مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں قتال کی فرضیت سے مستثنی قرار دیا گیا۔لیکن جن لوگوں میں قتال کی اہلیت بھی تھی اور ان پر وہ فرض بھی تھا اور ان کے پاس اس فرض کی ادائیگی کے ذرائع و وسائل بھی موجود تھے لیکن اس کے باوجود وہ غزوہ تبوک میں نفیرِ عام کے بعد بھی شریک نہ ہوئے تو ان کا مواخذہ کیا گیا جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
’’سوا اس کے نہیں گناہ تو ان لوگوں پر ہے جو کہ آپ سے غنی ہونے کے باوجود اجازت طلب کرتے ہیں ‘وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ وہ پیچھے رہ جانے والیوں کے ساتھ ہو جائیں‘اور اللہ تعالی نے ان کے دل پر مہر لگا دی ہے پس وہ نہیں جانتے۔‘‘ (التوبۃ:۹۳)
لہٰذا قتال امت کے اس خاص طبقے کے لیے‘ خاص حالات میں فرض ہوتا ہے جو اس کی ادائیگی کی اہلیت اورأسباب و ذرائع رکھتا ہے۔ہر دور میں قتال کی مکمل اہلیت و استطاعت اور أسباب وذرائع کسی بھی خطے میں مسلمانوں کی حکمران جماعت کے پاس ہوتے ہیں۔
جہاد کشمیر کے مفتیان کرام کے نزدیک جب یہ جہاد پاکستانی عوام پرفرض عین ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی افواج ‘ ایجنسیاں اور حکمران اہل پاکستان میں شامل نہیں ہیں ؟اگر عامۃ الناس کو یہ سبق پڑھا یا جا سکتا ہے تو ’جہادِ کشمیر فرض عین ہے ‘ کایہی فتوی حکمرانوں اور ایجنسیوں کو کیوں نہیں سنایا جا سکتا۔کیا پاکستانی افواج و پاکستانی حکمرانوں کا جہاد صرف وزیرستان ‘ سوات اور لال مسجد کے طلباء و عوام کے خلاف ہی ہونا چاہیے۔جتنا زور جہادی تحریکیں عامۃ الناس پر جہاد کشمیر کو فرض عین قرار دینے میں صرف کرتی ہیں اگر اس کا دسواں حصہ بھی حکمرانوں کو جہاد کشمیر کے لیے کھڑا کرنے میں لگایا جاتا تونتائج بہت بہتر ہوتے۔ اگر ایجنسیاں مجاہدین کو کشمیر کا باڈر کراس کروا دیتی ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ فوج نے اپنے حصے کا فرض عین ادا کر دیا ہے ۔ہمیں تو کشمیری جہادی تحریکوں کے مفتی حضرات کے فتاوی سے یہی سمجھ میںآتا ہے کہ جہاد کشمیر فرض عین ہے لیکن غریب عوام کے لیے ‘ نہ کہ ان مفتی حضرات کے لیے اورنہ جہادی تحریکوں کے سربراہان اور پاکستانی حکمرانوں کے لیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس میدان جنگ میں شریک ہوتے تھے لہذا جہادی تحریکوں کے سربراہان کو بھی چاہیے کہ امارت و قیادت اپنے پچھلوں کے سپرد کر کے کشمیر میں قتال کرتے ہوئے شہادت حاصل کر یں اور جہاد کشمیر کے فرض عین ہونے کی گواہی اپنے قول کے ساتھ عمل سے بھی دیں۔عام طور پرجہادی تحریکوں کے کارکنان کی طرف سے یہ عذر بھی پیش کیاجاتا ہے کہ جہاد کشمیر تو فرض عین ہے لیکن ہمارے امیر صاحب بیمار ہیں یا اس قابل نہیں ہیں کہ وہ میدان جنگ میں شریک ہوںیاانہیں فلاں عذر ہے یا انہیں گھٹنوں کی تکلیف ہے۔معلوم ایسا ہوتا ہے کہ امیر صاحب نے جب سے تحریک شروع کی اس وقت سے بیمار ہیں اگر نہیں تو اس وقت انہوں نے جہاد کیوں نہیں کیا جبکہ وہ صحت مند تھے اور تحریک میں شامل بھی تھے۔کیا امیر صاحب کے علاوہ باقی تمام اعلی عہدیدار اوراراکین شوری بھی بیمار ہیں اگر ایسا ہی ہے تو بیماروں کی اس تحریک کو ختم کر دینا چاہیے اور جہاد کے لیے کوئی صحت مند افراد تلاش کرنے چاہئیں اور اگر ایسا معاملہ نہیں ہے تو ان اعلی عہدیدران کے لیے قتال فرض عین ہونے کا معنی مفتی صاحب کیا بیان فرماتے ہیں ؟اور اس معنی کی دلیل شرعی کیا ہے؟ جہادی تحریکوں کے بعض ارکان یہ عذر بھی پیش کرتے ہیں کہ ہمارے امیر صاحب نے ہمیں تعلیمی ‘ تدریسی ‘ دعوتی‘ تبلیغی یا انتظامی ذمہ داریاں سونپی ہیں اس لیے ہمارے لیے قتال فرض عین ہونے کا معنی یہی ذمہ داریاں ادا کرنا ہے۔اگر قتال فرض عین ہونے کا یہ معنی جہادی تحریکوں کے اراکین کے لیے ہوسکتا ہے تو ان علماء یا مذہبی جماعتوں کے افراد کے لیے کیوں نہیں ہو سکتاجوکہ کسی جہادی تحریک میں شامل نہیں ہیں اور تعلیم‘ تدریس‘دعوت یاتبلیغ وغیرہ کے میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔جہادی تحریکوں کے مفتیان علماء پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ جہاد کا عمومی معنی مراد لیتے ہیں اور دین کے لیے ہر قسم کی جدوجہد کو جہاد میں شامل کرتے ہیں جبکہ خود جہادی تحریکوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جہاد تو کجا قتال کوبھی اسی عمومی معنی میں لیتے ہوئے زندگی کے ہر شعبے میں دین اسلام کی خدمت کو قتال کا نام دیتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط یہ لگاتے ہیں کہ کسی جہادی تحریک کے امیر صاحب سے اس کام کے کرنے کی اجازت لے لی جائے۔ہمارے خیال میں صرف وہ چند مجاہدین جو کہ بالفعل کشمیر میں لڑ رہے ہیں جہادی تحریکوں کے مفتیان کے فتوی کے مطابق فرض عین قتال کی ادائیگی کر رہے ہیں جبکہ جہادی تحریکوں کے باقی تمام افرادبشمول مفتی صاحبان اس فرض عین کی ادائیگی سے محروم ہیں۔نماز فرض عین کا یہ معنی کس فقیہ نے بیان کیا ہے کہ اس کے فرض عین ہونے سے مراد یہ ہے کہ بعض لوگ اس کو ادا کر لیں بعض اس کی ادائیگی کے لیے لوگوں کو تقاریر و خطبات سے تیار کریں اوران کا فرض عین اسی سے ادا ہو جائے گا اور بعض اس کے فرض عین ہونے کا صرف فتوی جاری کر دیں تو ان کا فرض عین ادا ہو جائے گا۔ سبحن ربک رب العزۃ عما یصفون
علماے دیوبند‘ علماے اہل حدیث‘ سعودی علما اور عالم اسلام کے بڑے بڑے نامی گرامی فقہا‘ محدثین ‘ مجتہدین اور اسکالرز کی ایک بہت بڑی جماعت کے علاوہ تبلیغی جماعت‘ جماعت اسلامی اور ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اسلامی سے وابستہ‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مؤمنین صادقین جہادی تحریکوں کے منہج جہاد و قتال کو درست نہیں سمجھتے اور اس پر گاہے بگاہے نقد کرتے رہتے ہیں ۔جہادی تحریکوں کو ان تمام تنقیدات کی روشنی میں اپنے لائحہ عمل اور منہج پر غور کرنا چاہیے نہ کہ ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے ان پر مخالفین جہاد کا فتویٰ لگا دینا چاہیے۔ میں تو کہتا ہوں کہ آج اگر شیخ عبد اللہ عزام ؒ زندہ ہوتے تو وہ اپنے اس منہج سے رجوع کر لیتے جو کہ انہوں نے اپنی کتاب ’ قتال فرض عین ہے ‘ میں پیش کیا تھا جیسا کہ سعودی علماء کی ایک بہت بڑی جماعت جو کہ روس کے خلاف ہونے والے جہاد کے حق میں تھی اور اس کی فرضیت کے فتوے بھی جاری کرتی رہی۔ اب القاعدۃ و طالبان تحریک کے رہنماؤں کو بھی اپنا منہج تبدیل کرنے کا مشورہ کئی سالوں سے دے رہی ہے۔
۴) عام طور پر جہادی تحریکوں کی طرف سے حضرت أبو بصیرؓ جیسے واقعات کوریاست و امیر کے بغیر قتال کے جواز کی دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے ؟
ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ ہم اس کے قائل ہیں کہ ریاست کے بغیر بھی قتال ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس سے دشمن کو کوئی بڑا ضرر پہنچ رہا ہو لیکن خودجہادی تحریکیں ایک امیر کے تحت قتال نہیں کر رہی اور اس کے مفاسد بہت زیادہ ہیں۔ہمارے خیال میں اگر کسی خطہ ارضی میں ایک امیر کے بغیر قتال ہو رہا ہو تو وہ ایک امیر کے تحت ہونا چاہیے۔ اگر تو وہ ایک سے زائد امرا کے تحت ہو رہا ہے تو ایسے قتال کا نتیجہ سوائے فساد کے کچھ نہیں ہے جیسا کہ ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فتنوں کے دور میں اپنے ایک صحابیؓ کو نصیحت فرمائی:
’’تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو‘پس میں(حذیفہ بن یمانؓ) نے کہا: اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اور ان کا امام نہ ہو تو آپؐ نے فرمایا:پھر تمام فرقوں سے علیحدہ رہ ‘یہاں تک کہ تجھے کسی درخت کی جڑ ہی کیوں نہ چبانی پڑ جائے یہاں تک کہ تجھے موت آ جائے اور تو اسی حال میں ہو۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الفتن‘ بابکیف الأمر اذا لم تکن جماعۃ)
اس حدیث کا اطلاق اس قتال پر بھی ہوتا ہے کہ جو ایک امیر کی قیادت کے تحت نہ ہو رہا ہو جیسا کہ ہم دیکھتے کہ افغانستان میں روس کے خلاف ہونے والا قتال ایک امیر کے تحت نہ ہونے کی وجہ سے فساد بن گیا تھا اور جہادی تحریکیں اور ان کے امرا اقتدار کی خاطر باہم دست و گریبان ہو گئے تھے ۔یہی حال اس وقت کشمیر میں ہونے والے قتال کا بھی نکل سکتاہے۔
مسلمانوں کی جماعت اور اس کے امیر کے بغیر ہونے والے قتال کے حق میں فتوی دیتے وقت علما کواس قسم کے قتال کے نتائج اورنقصانات سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہیے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان میں موجود تمام معروف جہادی تحریکیں ایک سرابرہ بیت اللہ محسود کی قیادت میں اکٹھی ہیں ‘اللہ اس اتحاد کو برقرار رکھے۔ریاست کی سطح پر فوج میں بالقوۃ یہ طاقت موجود ہوتی ہے کہ بغاوت کے امکانات کم سے کم ہوں لیکن جہادی تحریکوں کے اتحادوں میں اس قسم کے خطرات ہر وقت سر پر منڈالتے رہتے ہیں۔
قتال کی علت
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو احکامات دیے ہیں وہ علل پر مبنی ہوتے ہیں بعض اوقات ان احکامات کی علل خود شارع کی طرف سے نصوص میں بیان کر دی جاتی ہے جبکہ بعض اوقات فقہاء ان کو مسالک علت کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔قتال کی علت جو کہ اللہ سبحانہ و تعالے نے قرآن میں بیان کی ہے وہ ظلم ہے یعنی ظلم کے خاتمے کے لیے اللہ تعالی نے قتال کو مشروع قراردیا ہے ‘جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا ( الحج:۳۹)
اجازت دی گئی ان لوگوں کو (قتال کی)جو کہ قتال کرتے ہیں اس وجہ سے کہ ان پر ظلم ہوا۔
اس آیت میں ‘باء‘ تعلیلیہ ہے یعنی یہ اذنِ قتال کی علت بیان کر رہا ہے۔یہ ذہن میں رہے کہ حکم قتال کی علت کفر یا شرک نہیں ہے اگرچہ قتال اصلاً مشرکین اور کافروں سے ہی سے ہوتا ہے۔مسلمانوں کوکافروںیا مشرکین سے قتال کا حکم اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ کافر یا مشرک ہیں یا اسلام کا مقصود دنیا کو کافروں یا مشرکین سے پاک کرنا نہیں ہے بلکہ کافروں اور مشرکین سے قتال کے حکم کی بنیادی وجہ بھی ظلم ہی ہے کیونکہ جہاں جس قدر شرک اور کفر ہو گا وہاں اتنا ہی ظلم ہو گا اس لیے کافروں اور مشرکین سے قتال دراصل ظالمین سے قتال ہے کیونکہ ظلم اور کفر و شرک تقریباًلازم و ملزوم ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں قرآن میں کئی جگہ شرک کے لیے ظلم اور کافروں کے لیے ظالمین کے الفاظ آئے ہیں۔لہذا گر ظلم مسلمان بھی کرے تو اس سے بھی قتال ہو گا جیسا کہ ارشاد باری ہے :
’’اور اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر(صلح کے بعد) ان میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ (الحجرات:۹)
اسی طرح اگر کافر‘ظالم نہ ہو تو اس کے ساتھ قتال نہیں ہو گابلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حسن سلوک بھی جائز ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
’’اللہ تعالی تمہیں ان کافروں سے حسن سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (الممتحنۃ:۸)
لہٰذا قتال صرف ان کافروں اور مشرکین سے ہے جوکہ ظلم کے مرتکب ہوں ۔اب ظلم کئی طرح کا ہوتاہے‘ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے جیسا کسی شخص کا‘ کافر یا مشرک ہونابھی ایک ظلم ہے لیکن ایسا ظلم جو کہ کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اس ظلم کے خلاف بھی قتال نہیں ہے بلکہ اسلام ایسے ظلم کو برداشت کرتا ہے جیساکہ یہود و نصاریٰ کے صریح کفر و شرک کے باوجود اللہ نے ان کو زندہ رہنے کی اجازت دی ہے‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’تم یہود و نصاری سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘(التوبۃ:۲۹)
لیکن ایسا ظلم جو کہ متعدی ہویعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود نہ ہوں بلکہ عامۃ الناس بھی اس کے ظلم سے متأثر ہو رہے ہوں تو ایسے شخص کے خلاف قتال ہو گا۔قرآن و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کی حکومت اللہ تعالی کبھی بھی برداشت نہیں کرتے کیونکہ جہاں بھی کافریا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ظلم متعدی ہو گا اور عوام الناس اس ظلم سے متأثر ہوں گے اس لیے اہل کتاب کے انفرادی کفر وشرک کو برداشت کیا گیا ہے لیکن مذکورہ بالاآیت میں ان کی ذلت و رسوائی اور حکو مت کے خاتمے کو قتال کی غایت وانتہاء قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس آیت میں اعطائے جزیہ اور اہل کتاب کی ذلت کو قتال کی غایت قرار دیا ہے تو ایک اور جگہ اللہ تعالی نے مشرکین سے قتال میں فتنے کے خاتمے اور اطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو قتال کا منتہائے مقصود بیان کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے :
’’اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) کل کی کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘ (الأنفال:۲۹)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اجتماعی کفر(یعنی کفر کی حکومت) اور اجتماعی شرک (یعنی شرک کی حکومت ) کو پسند نہیں کرتے کیونکہ ایسی حکومت میں ہمیشہ ظلم ہوتا ہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کافر سے قتال کا حکم دیا ہے کہ جس کا ظلم متعدی ہو۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’(اے مسلمانو!)اور تمہیں کیاہو گیا ہے کہ تم اللہ کے رستے میں قتال نہیں کرتے جبکہ کمزور مرد اور عورتیں اور بچے یہ کہہ رہے ہیں :اے ہمارے رب!ہمیں اس بستی سے نکا ل کہ جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور تو ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک ولی مقرر کر اور ہمارے لیے اپنی طرف سے ایک مددگار بنا۔‘‘ (النساء:۷۵)
ایک اور جگہ قرآن میں ایسے کفار سے دوستی اور حسن سلوک کر نے سے بھی منع فرمایا ہے‘کہ جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’سوا اس کے نہیں اللہ تعالی تم کو ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جنہوں نے دین کے معاملے میں تم سے قتال کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر (تمہارے دشمنوں ) کی مدد کی۔پس یہی کافر ظالم ہیں۔‘‘(الممتحنۃ:۹)
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دیے ہیں، ان کو فقہا نے دو طرح سے تقسیم کیا ہے: ایک حسن لذاتہ اور دوسرے حسن لغیرہ۔ حسن لذاتہ سے مراد ایسے احکامات ہیں جو کہ فی نفسہ اسلام میں مطلوب ہیں۔ اسلام نے لڑنے بھڑنے کو فی نفسہ ناپسند قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’لا تتمنوا لقاء العدو‘ میں مذکورہے کہ دشمن سے ملاقات کی تمنا نہ کرو۔اسلام نے کچھ مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے قتال کو فرض قرار دیا ہے لہذا قتال حسن لذاتہ نہیں ہے بلکہ حسن لغیرہ ہے ۔ظلم کے خاتمے کے لیے انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیا گیا اور جس مقصد کے لیے قتال کو جائز کہا گیا ہے اگر وہ مقصود ہی پور انہ ہو رہا ہو اور جہاد و قتال سے ظلم ختم ہونے بجائے بڑھ رہا ہو تو ہمارے نزدیک یہ جہاد و قتال جائز نہیں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ جہاد و قتال ظلم کو ختم کرنے کے لیے ہے نہ کہ ظلم بڑھانے کے لیے ہے۔
قتال کی غایت
قتال کی غایت یا منتہائے مقصود ایسے فتنے ‘عدم اطاعت ‘کفر ‘شرک یا زیادتی کا خاتمہ ہے جس کا نتیجہ ظلم ہو۔ یعنی قتال ہر ایسے فتنے‘عدم اطاعت‘کفر ‘شرک یا زیادتی کے ختم ہونے تک جاری رہے گا کہ جس سے دوسروں پر ظلم ہو رہا ہو‘جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرۃ:۱۹۳)
اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ (الأنفال:۲۹)
اور ان (یعنی مشرکین)سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت) کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔
اس آیت میں فتنے سے مرادکفار کی طرف سے مسلمانوں پر ہونے والا وہ تشدداور ظلم ہے جو کہ اہل ایمان کے ایمان کے لیے آزمائش بن جا تا ہے جبکہ ’دین‘ کا بنیادی معنی اطاعت اور بدلہ ہے جیسا کہ امام راغب ؒ نے لکھاہے اور یہاں پردین سے مراد اجتماعی اطاعت ہے کیونکہ انفرادی اطاعت میں تو مسلمان بھی بعض اوقات اللہ کی اطاعت نہیں کرتے ‘اس لیے یہاں پر مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی اطاعت ہے کہ جس کے عدم کی صورت میں کسی پر ظلم لازم آئے مثلا اللہ کے نازل کردہ حدود کے نفاذ میں اس کی اطاعت کا نہ ہونامعاشرے میں ظلم کا سبب ہو گااس لیے حدوداللہ میں اللہ کی اطاعت تک امت مسلمہ پر کافروں سے قتال واجب رہے گا۔
لہٰذا ان آیات کامفہوم یہ ہے کہ قتال اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ جاری رہتا ہے یاجب تک کفار و مشرکین کو ہر اس معاملے میں مطیع و فرمانبردار نہ بنا لیا جائے کہ جس کی عدم اطاعت کی صورت میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہو۔ظاہری بات ہے کہ کفار و مشرکین کے اپنے عقیدے پر قائم رہنے یا اس کے مطابق عبادات کرنے سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں ہوتی لہذا ان سے اس معاملے میں اطاعت جبرا نہیں کروائی جائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’دین (قبول کرنے میں)میں کسی قسم کا جبر نہیں ہے۔‘‘ (البقرۃ:۲۵۶)
لیکن ریاست و حکومت کے انتظامی أمور میں کفار و مشرکین کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور قتال اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ تمام کے تمام کافر و مشرک اس دنیا وی نظام میں اللہ کے مطیع و فرمانبردار نہیں بن جاتے یعنی جب تک اللہ کے دین کا غلبہ تما م ادیان باطلہ پر نہیں ہو جاتا اس وقت تک قتال جاری رہے گا۔ اسی بات کو قرآن نے اس طرح بھی بیان کیاہے :
’’تم یہود و نصاریٰ سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘ (التوبۃ:۲۹)
اور اسی بات کو ایک اور جگہ اس طرح بیان کیاہے :
’’وہی اللہ تعالیٰ ہے کہ جس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا قرآن مجید اور دین حق دے کر تاکہ وہ اس کو تمام ادیان (باطلہ) پر غالب کردے اگرچہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔‘‘(التوبۃ:۳۳)
اور اسی بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا ہے:
’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کرو جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم نہ کریں اور زکوٰۃ اداکریں پس جب وہ یہ کر لیں گے تو اپنے مال اور جانیں مجھ سے بچا لیں گے سوائے اسلام کے حق کے‘اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الایمان‘ باب فان تابوا وأقامو ا الصلاۃ و آتوا الزکوۃ)
اس حدیث مبارکہ میں ’الناس‘ سے مراد مشرکین ہیں کیونکہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی کی ایک روایت میں ’أن أقاتل المشرکین‘ کے الفاظ آئے ہیں‘قرآن میں سورۃ توبہ میں بھی یہ حکم ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
’’پس تم مشرکین کو قتل کرو جہاں بھی ان کو پاؤ اور ان کو پکڑو اور ان کا گھیراؤ کرو اور ان کے لیے ہر گھات لگانے کی جگہ میں بیٹھو پس اگر وہ لوٹ آئیں(یعنی اپنے کفر سے)اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘(التوبۃ:۵)
قرآن کے اسی حکم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’أمرت أن أقاتل الناس‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اسی آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی اس لیے ان کے معاملے میں یہود و نصاری اور دوسرے کفارکی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور ان کے لیے جزیہ کی صورت باقی نہیں رکھی گئی ۔ ان مشرکین کے لیے دو ہی صورتیں تھیں یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں یا تیسری صورت یہ تھی کہ حجاز کاعلاقہ چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
یہ واضح رہے کہ قتال کی اس علت اور غایت کی بنیاد پر قتال اس وقت ہوگا جبکہ کوئی مسلمان ریاست یا جہادی تحریک ان اسباب و ذرائع اور اس استعداد و صلاحیت کی حامل ہو کہ جن کا ہم اس مضمون میں بار بار ذکر کر چکے ہیں ۔جب تک ہمارے پاس کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے، اس وقت اسلام کے پھیلانے کا منہج دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ جنگ و جدال‘ اور کفار کے ظلم کا جواب صبرہے نہ کہ قتال۔اسلام کے کسی بھی معاشرے میں نفوذ کے لیے مسلمانوں کو ان کے حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو منہج دیے گئے ہیں ایک دعوت و تبلیغ کا ور دوسرا جہاد و قتال کا‘ دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں کام کیا ہے اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیاجائے گا۔یہ کہنا کہ دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت کا منہج منسوخ ہو چکاہے ‘ ایک باطل دعوی ہے کہ جس کی کوئی دلیل شریعت اسلامیہ میں موجود نہیں ہے۔دعوت و تبلیغ اور صبر و مصابرت سے متعلق قرآن کی سینکڑوں آیات کو بغیر کسی دلیل کے منسو خ قرار دینا سوائے جہالت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔امام زرکشی ؒ نے ’البرہان‘ میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اس موضوع پر عمد ہ کلا م کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج اب بھی برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیار کیاجا سکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ’الفوز الکبیر‘ میں قرآن کی صرف پانچ آیات کو منسوخ قرار دیاہے۔بعض قتالی حضرات تو قرآن کی قتال سے متعلق ان آیات کو بھی بغیر کسی دلیل کے منسوخ قرار دیتے ہیں کہ جن میں کفار کے ساتھ کسی صلح یا معاہدے کا حکم ہے اور عملاً قرآن کاایک تہائی حصہ منسوخ ہو کر رہ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام
ہم آخر میں ایک دفعہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم قتال کے خلاف نہیں ہیں۔ہم جہادی تحریکوں کے اس موقف سے متفق ہیں کہ امریکہ بہادر‘ انڈیا ور اسرائیل کے ظلم و ستم کا جواب صرف صبر کرنا یا دعوت تبلیغ نہیں ہے بلکہ ان ظالموں کا واحد علاج قتال ہے، لیکن کس کے قتال میں؟یہاں ہمیں جہادی تحریکوں ا ور ان کے رہنماؤں سے اختلاف ہے ۔ہماری رائے اس مسئلے میںیہ ہے کہ ریاست یا ایک امیر کے بغیر قتال میں دشمن کو کچھ نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس سے نہ تو دین کا غلبہ ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا خاتمہ‘ پوری دنیا میں مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل ریاستی اور ایک امیر کے تحت ہونے والے قتال میں ہے اور اسی کے لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور توانائیاں صرف کرنی چاہئیں‘کیونکہ ایک ایسا قتال شریعت اسلامیہ میں حرام ہے کہ جس سے ایک چھوٹا منکر تو رفع ہو جائے لیکن اس سے بڑا منکر یا منکرات کے پیدا ہو نے کے امکانات ہوں۔اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں ایسا قتال کہ جس کے نتیجے میں پرویز مشرف کی حکومت تو ختم ہو جائے لیکن بش کی حکومت قائم ہو جائے ‘حرام ہو گا۔اسی بات کو امام ابن قیمؒ نے بڑے خوبصورت پیرایے میں بیان کیاہے ۔ امام صاحب ؒ فرماتے ہیں :
’’انکار منکر کے چار درجات ہیں پہلا درجہ وہ ہے کہ جس سے منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر کم ہو جائے اگرچہ مکمل ختم نہ ہو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ وہ منکر تو ختم ہو جائے لیکن اس کی جگہ ایک ویسا ہی منکر اور آ جائے اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ اس منکر کے خاتمے کے بعد اس سے بھی بڑا اور بدترین منکر آ جائے ۔پس پہلے دو درجے مشروع ہیں جبکہ تیسرا درجہ اجتہاد کا میدان ہے اور چو تھا درجہ حرام ہے ۔‘‘(اعلام ا لموقعین: جلد ۳‘ص۱۵۱)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جہادی تحریکوں کی مساعی اور مجاہدین کی قربانیوں سے کئی منکرات کا خاتمہ ہو رہا ہے لیکن کیا ریاست کے بغیر ہونے والے اس جہاد سے کچھ اور منکرات اور مفاسد بھی پیدا رہے ہیں؟ تو یہ سارا حالات حاضرہ اور تاریخ کا موضوع ہے اس کا کوئی تعلق شریعت سے نہیں ہے اور اگر حالات پر گہری نظر رکھے والے بعض علما یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے قتال سے کئی بڑے بڑے منکرات پیدا ہو رہے ہیں تو ایسے علما پر یہ فتوے لگانا کہ وہ جہاد کے مخالف ہیں‘ محض تنگ نظری‘ ہٹ دھرمی اور جماعتی تعصب ہے۔اس لیے ہماری نظر میں اس وقت مسئلہ شرعی نہیں ہے‘ کیونکہ شرعاً تو تمام علما قتال کو جائز سمجھتے ہیں‘بلکہ أصل مسئلہ أمر واقعہ کا ہے کہ فقہ الواقع میں کیاہو رہا ہے؟ کیا یہ وہی جہاد و قتال ہے کہ جس کا قرآن و سنت کی نصوص میں تذکرہ ہے ؟قرآن و سنت میں قتال کے بارے میں آنے والی نصوص اور کسی جہادی تحریک کے قتال میں بہر حال زمین و آسمان کا فرق ہے۔یہ نصوص صحابہ کرامؓ کے قتال کی تائید تو کرتی ہیں کہ جس کے بارے میں ان کا نزول ہوا لیکن کوئی جہادی تحریک ان نصوص کا مصداق بنتی ہے یا نہیں ‘یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس میں اختلاف کی گنجائش ہر زمانے میں باقی رہے گی۔