علمائے کرام کی ارکانِ پارلیمنٹ سے درد مندانہ اپیل

ادارہ

الحمدﷲ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سیدنا وشفیعنا ومولانا محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین،ومن تبعہم باحسان إلی یوم الدین۔ أما بعد:

معزز ارکانِ پارلیمنٹ!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان جن نامساعد حالات سے گذر رہاہے،او رجس نازک صورتِ حال سے دوچار ہے، اور اس نے پوری پاکستان قوم کو جس تشویش او رفکر میں مبتلا کررکھا ہے ،وہ اہلِ نظر پر پوشیدہ نہیں۔ الحمدﷲ!کہ قومی اسمبلی،سینٹ کے منتخب ممبران او رحکومت کے سرکردہ افراد اس پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس نازک صورتِ حال پر غور کرنے کے لیے جمع ہیں۔اس اہم موقع پر ہماری یہ قومی اور شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کی خدمت میں اپنی کچھ گذارشات پیش کریں،تاکہ امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور ملک کے موجودہ بحران کے حقیقی اسباب اور حکومتی اقدامات اور خارجی وقومی پالیسیوں کا جائزہ لے کر متفقہ لائحہ عمل تجویز کیا جاسکے۔

ہمارے خیال میں اگر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ صوبہ سرحد، قبائلی علاقوں او رسوات وغیرہ کے بگڑتے ہوئے حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہاں کے عوام وخواص درج ذیل طبقات میں منقسم نظر آتے ہیں:

(الف) مسلمانوں کی وہ بھاری اکثریت جو ہمیشہ پُرامن رہی ہے اور اب بھی پُرامن ہے وہ پاکستان کی بھرپور حامی رہی ہے،او راب بھی پاکستان کی صرف حامی ہی نہیں بلکہ اس کی شمالی سرحدوں کی نگہبان و محافظ بھی ہے، وہ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی بھی محافظ رہی ہے، اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی بھی، اور دشمن کے لیے ہمیشہ ناقبلِ تسخیر رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی قدیم روایات کی بھی حامل ہے، یہ بھاری اکثریت پاکستان کے دوسرے علاقوں کی بہ نسبت نماز ،روزہ وغیرہ کے اعتبار سے زیادہ دین دار اور باغیرت ہے، اگر کوئی حکومت دین یااہل دین کا مذاق اڑائے،یا دین یا اور اہل دین کو رسوا کرنے ،یا ان کی قدیم روایات کو پامال کرکے ان پر غیر ملکی حکمرانوں کو ،یا غیر ملکی نظریات کو مسلط کرنے کی کوشش کرے تو وہ مکمل طور پر پُرامن ہونے کے باوجود اسے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،او رغیر ملکی افواج،یا غیر ملکی نظریات کے تسلط کو اپنے لیے اور ملک وملّت کے لیے ہرحالت میں ناقابلِ برداشت سمجھتے ہیں، ان علاقوں کے علماءِ کرام ان میں سر فہرست ہیں،اس وقت ان علاقوں میں جو بمباری ہورہی ہے،یا تشدد کو روکنے کے لیے متشددانہ کاروائیاں ہورہی ہیں، ان کا زیادہ نشانہ یہی مظلوم اکثریت ہے،جس میں جواں بھی شامل ہیں ،بوڑھے بھی، عورتیں بھی ان کاروائیوں کا نشانہ ہیں،اور معصوم بچے بھی۔

(ب) (الف) میں ذکرکردہ مسلمانوں کی اس بھاری اکثریت میں سے چند مخلص مگر حد سے زیادہ مشتعل نوجوان ایسے بھی مسلسل رونما ہورہے ہیں جو جامعہ حفصہ اور اپنے علاقوں میں مظلوم مسلمانوں کی شہادت پر اور حکومت کی خلافِ اسلام اورافغانستان پالیسی پر انتقام کی آگ میں جل اٹھے ہیں، اور انہوں نے علماے کرام کے منع کرنے کے باوجود دینی اخلاص ،علاقائی غیرت،اور اپنے پیارے عزیزوں کی لاشیں دیکھ کر ہتھیار اٹھالیے ہیں،یا خودکُش حملوں کا پاکستان کے اندر ہی وہ راستہ اختیار کرلیا ہے جو حد درجہ خطرناک ہے،او رعام مسلمانوں کے درمیان ان حملوں کو علما اپنے ایک مشترکہ مؤقف میں بالاتفاق ناجائز قرار دے چکے ہیں، لیکن مذکورہ بالا اسباب کی بنا پر یہ جذباتی او رمشتعل نوجوان انتقام کی پیاس کو خود اپنے خون سے سیراب کررہے ہیں۔

(ج) جب کسی علاقے میں افراتفری ،بمباری او رخانہ جنگی کی سی صورتِ حال پید ہوجاتی ہے تو سماج دشمن عناصر مثلاً چور ،ڈاکوؤں کی بن آتی ہے، وہ بھی اپنے مذموم عزائم کی خاطر کبھی غیر ملکی افواج سے جاکر مل جاتے ہیں ،کبھی ملکی افواج سے، او رکبھی ان نوجوانون کے ساتھ آکر شریک ہوجاتے ہیں جن کا ذکر (ب )میں گذرا، اور حالات کی خرابی میں وہاں کے باخبر اور بااثر حضرات کے بیان کے مطابق ایسے عناصر کا بھی بڑا حصہ ہے۔

(د) امریکی افواج اپنی معاون نیٹو افواج نیز بھارتی ایجنسیوں کے ساتھ گذشتہ سات سال سے افغانستان پر فتح حاصل کر نے کی کوشش کرتی رہی ہیں،اب ان کے اپنے کمانڈروں ،او رسفارت کاروں نے ان تمام کوششوں کی ناکامی کا مختلف بیانات کے ذر یعے اقرار کرلیا ہے،ان غیر ملکی افواج نے اپنی کھلی آنکھوں نظر آنے والی شرمناک شکست کو فتح ،یا باعزت پسپائی میں بدلنے کے لیے آخر ی کوشش یہ کی ہے کہ انہوں نے اپنے ایجنٹوں کو اسلحہ، ڈالر او رافغانی ،اور پاکستانی کرنسی دیکر ہمارے قبائلی علاقوں میں گھسا دیا ہے، او ریہ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ جب یہ ایجنٹ پکڑے گئے ،یا ان لاشیں ملیں تو ان میں سے کئی غیر مختون تھے، اور بہت سے واضح طو رپر غیر ملکی افواج کے نمائندے تھے،جو طالبان کے بھیس میں پاکستانی افواج سے لڑے، او ران علاقوں میں افرا تفری پیدا کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے۔ایسے ایجنٹوں کی تعداد اب روز بروز بڑھ رہی ہے،حتیٰ کہ بعض قبائلی علاقوں کے علماء نے یہ بتایا کہ اب ہمیں اپنے علاقوں میں وہ وہ چہرے بکثرت نظر آرہے ہیں جنہیں ہم نے ساری زندگی کبھی نہیں دیکھا۔یہ امریکی ،بھارتی ایجنٹ اصل طالبان کو بدنام کرنے کے لیے طالبان کے روپ میں پاکستانی افواج سے لڑ رہے ہیں، اور علاقے میں اور پاکستان کے شہروں میں بم دھماکوں میں بربادی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔

اگر گذشتہ ساری صورتِ حال سامنے رکھی جائے تو صاف واضح ہوگا کہ (الف) میں ذکرکردہ مسلمانوں کی بھاری اکثریت جن میں علماے کرام بھی شامل ہیں، اس وقت سب سے زیادہ متأثر ہیں،غیر ملکی افواج کے، بغیر پائلٹ طیاروں کی بمباری ہو، یا ان کے میزائلوں کی بارش ہو،یا پاکستانی مسلح فورسز کی کاروائیاں ہوں،ان کا زیادہ تر نشانہ وہ بے گناہ مسلمان بن رہے ہیں جن کا (الف )میں ذکر کیا گیا ہے۔ (ب) میں ذکرکردہ نوجوان جو بہت کم تعداد میں ہیں وہ تو ویسے ہی اپنا خون دینے کے لیے تیار ہیں۔اور (ج) اور (د) میں مذکور طبقات اپنے اثرورسوخ ،سازشوں اور غیر ملکی پشت پناہی کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں،او رسارا نزلہ عام مسلمانوں پر گر رہا ہے۔

علاج:

اس پیچیدہ صورتِ حال کا اس کے سواکوئی علاج نہیں ہے کہ :

۱۔ بمباری ،میزائلوں کی بارش او راندھادھند فوجی کاروائیاں فوی طور پر بند کی جائیں۔

۲۔ ہر علاقے کے مقامی علما، دین دار حضرات اور محب وطن سرداروں کو ساتھ ملاکر ان لوگوں کو پکڑا جائے جن کا ذکر (ج) اور (د ) میں کیا گیا ہے، اور ان کو سرِ عام عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔

۳۔ (الف) اور (ب)میں ذکرکردہ حضرات کے جو جائز مطالبات ہیں انہیں فوری طور پر خلوص دل سے اس طرح پورا کیا جائے کہ علاقے لوگوں کو یہ اطمینان ہو کہ حکومت یہ کام محض وقت گذاری کے لیے نہیں کررہی بلکہ واقعتا وہ یہاں انصاف مہیا کرکے امن وامان قائم کررہی ہے۔

۴۔ اندرون ملک بھی خلافِ اسلام پالیسیوں او راقدامات کا سلسلہ بند کیا جائے۔

۵۔ غیر ملکی طاقتوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا رویہ ختم کرکے محب وطن عوام کو ساتھ ملایا جائے ، اور ان کے تمام جائز مطالبات کو ممکنہ حد تک پورا کیا جائے۔

۶۔ اپنی موجودہ خارجہ پالیسی اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے ’’اُس کی دہشت گردی میں تعاون‘‘ کے شرمناک معاہدے سے جان چھڑانے کا محتاط راستہ جلد از جلد نکالا جائے، جو درحقیقت اپنی سلامتی کا راستہ ہے۔

۷۔ عدلیہ کو آزاد او ربحال کیا جائے کیونکہ فوری انصاف کی فراہمی، او رآزاد عدلیہ کے بغیرامن وامان کا قیام ممکن نہیں۔

آخرمیں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی او رمعاشی بدحالی کے موجودہ طوفان کے مختلف اسباب ہیں، لیکن تین بڑے سبب یہ ہیں:

۱۔بدامنی:جسے ختم کیے بغیراسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشی استحکام کاتصوّر نہیں کیا جاسکتا،بدامنی کے خاتمہ کے لیے تجاویز اوپر تحریر کردی گئی ہیں۔

۲۔ کرپشن:کرپشن کی یہ دیمک اس وقت ملک کے بالائی طبقات سے لے کر نچلے طبقات تک سرایت کرچکی ہے، امانت ودیانت او رسچائی کے ساتھ کسبِ حلال کا تصوّر کم سے کم ہوتا جارہا ہے، ان اخلاقی اسلامی اوصاف کا احیا ہر سطح پر ضروری ہے تاکہ کرپشن کا کا خاتمہ کیا جاسکے، او راس کے لیے موجودہ قوانین کا آزاد عدلیہ کے ذریعہ نفاذ ضروری ہے۔

۳۔ تعیشانہ زندگی :پاکستان کے بالائی طبقات جس پُر عیش زندگی کے عادی ہوگئے ہیں اس کے واقعات اب عوام کی زبانوں پر ہیں،اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تعیشانہ زندگی ختم کرکے ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے ،اور ملک وقوم کے لیے جو پیسہ بچایا جاسکتا ہے اسے ہر قیمت پر بچایا جائے۔

یہ سب تجاویز نیک نیتی او راخلاص کے ساتھ دی جارہی ہیں،ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں،امید ہے کہ آپ حضرات اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہوئے ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ ان پر غور فرمائیں گے۔

اللہ جل شانہ ہمیں اپنے محبوب وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جغرافیائی او رنظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی توفیق نصیب کرے۔آمین۔ وآخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین۔

گزارش کنندگان:

* مولانا محمد سرفراز خان صفدر، شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ * مولانا سلیم اللہ خان، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان * ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر، مہتمم جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی * مفتی محمد رفیع عثمانی، صدر جامعہ دار العلوم کراچی * مفتی محمد تقی عثمانی، نائب صدر جامعہ دار العلوم کراچی *مفتی منیب الرحمن، صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان * مولانا نعیم الرحمن، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس السلفیہ پاکستان * مولانا عبد المالک، صدر رابطۃ المدارس الاسلامیہ پاکستان * علامہ ریاض حسین نجفی، صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان * علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ پاکستان * پیر امین الحسنات شاہ، رئیس دار العلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف *مولانا عبد الرحمن سلفی، امیر جماعت غرباے اہل حدیث پاکستان * مولانا حافظ محمد سلفی، مدیر جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مولانا محمود احمد حسن، شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مولانا حافظ محمد انس مدنی، وکیل جامعہ ستاریہ اسلامیہ *مفتی محمد ادریس سلفی، رئیس دار الافتاء جماعت غرباے اہل حدیث پاکستان * مولانا عبید اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور *قاری محمد حنیف جالندھری، مہتمم جامعہ خیر المدارس ملتان * مولانا انوار الحق، نائب مہتمم دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک *مولانا محمود اشرف، نائب مفتی جامعہ دار العلوم کراچی * مفتی عبد الرؤف، نائب مفتی جامعہ دار العلوم کراچی *مفتی سید عبد القدوس ترمذی، مہتمم جامعہ حقانیہ ساہیوال سرگودھا *مفتی محمد، رئیس دار الافتاء والارشاد کراچی *مفتی عزیز الرحمن، جامعہ دار العلوم کراچی * مولانا فضل الرحیم، ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ لاہور *مولانا زاہد الراشدی، شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ * مولانا فداء الرحمن درخواستی، امیر پاکستان شریعت کونسل * مولانا عبد الغفار، منتظم جامعہ فریدیہ اسلام آباد * قاری ارشد عبید، ناظم اعلیٰ جامعہ اشرفیہ لاہور *مولانا محمد اکرم کاشمیری، رجسٹرار جامعہ اشرفیہ لاہور * مولانا محمد صدیق، شیخ الحدیث جامعہ خیر المدارس ملتان * مفتی عبد اللہ، جامعہ خیر المدارس ملتان *مفتی محمد طیب، صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد * مفتی محمد زاہد، نائب صدر جامعہ امدادیہ اسلامیہ فیصل آباد *مولانا محمد یوسف کرخی، مدیر مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن، گلشن بلال کراچی۔


حالات و واقعات

(نومبر و دسمبر ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter