(۱)
گرامی قدر حضرت والد صاحب دام مجدہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بین الاقوامی سطح پر غیر مسلم لابیاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر آلود پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ ان کے موثر جواب کے لیے مسلم رہنما اسلامی ٹی وی چینل اور کیبل کا سوچ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں علما کی دو رائے سامنے آ رہی ہیں۔ ایک طبقہ، جس کی قیادت مولانا عبد الحفیظ مکی صاحب مدظلہ اور مولانا علی احمد سراج صاحب مدظلہ وغیرہ کر رہے ہیں، یہ کہتا ہے کہ ایسا ٹی وی چینل اور کیبل جائز اور درست ہے جس میں فوٹو بھی آتی ہے اور ان حضرات نے آپ کے حوالے سے ایک خبر شائع کی جو کہ اخبارات میں شائع ہوئی کہ آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان مرحوم کو ایسے چینل کی اجازت دی تھی اور پھر علما کے ایک وفد سے بھی، جس میں مولانا محمد اسلم شیخوپوری صاحب مدظلہ بھی تھے، آپ نے ایسے الفاظ فرمائے جس میں فوٹو والے چینل کی تائید ہوتی ہے۔ علما کے اس نظریے کے باعث اب مساجد اور مدارس میں بھی دینی مجالس کی فوٹو اور ان کی سی ڈی بے دھڑک تیار کی جا رہی ہیں۔ علما کے دوسرے طبقے کا، جس میں سرفہرست مولانا سعید احمد صاحب جلال پوری مدظلہ ہیں، خیال یہ ہے کہ دنیا میں ایسے چینل اور کیبل بھی کام کر رہے ہیں جن میں فوٹو نہیں آتی اور آواز سے مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں، اس لیے فوٹو والا چینل اور کیبل ناجائز ہے۔
آپ کے بیانات اور تحریروں میں تصویر کو ناجائز کہا گیا ہے، خواہ وہ تصویر کیمرہ کی ہو یا ویڈیو سے تیار شدہ ہو۔ جب آپ کے ہاں تصویر ہر حال میں حرام ہے تو آپ نے تصویر والے ٹی وی چینل اور کیبل کی اجازت کیسے دے دی ہے؟ اس بارے میں کسی عزیز سے اپنے موقف کی ایسی وضاحت فرمائیں کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور آپ کے ہزاروں شاگرد اور لاکھوں معتقدین اس کی روشنی میں ٹھوس رائے قائم کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور تادیر آپ کا سایہ ہمارے سروں پر سلامت رکھے۔ آمین ثم آمین۔
حافظ عبد القدوس قارن
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
۲۰؍ رمضان المبارک، ۲۱ ستمبر ۲۰۰۸
حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کا جواب
میں نے کبھی بھی فوٹو کی اجازت نہیں دی۔ میرا موقف وہی ہے جو مولانا سعید احمد جلال پوری کا ہے۔ جس چیز میں فوٹو ہو، وہ قطعاً جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیز میری طرف منسوب ہے، وہ یا غلط بیانی ہے یا کج فہمی ہے۔ مولانا اسلم شیخوپوری صاحب سے جو میں نے کہا تھا، وہ اسلامی بینکاری اور بغیر تصویر والے چینل سے متعلق تھا۔
ابو الزاہد محمد سرفراز
(۲)
محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ دو ڈھائی برس سے آپ کی جانب سے تو نہیں، البتہ آپ کے قابل قدر پرچے میں جماعت اسلامی، مولانا مودودی، ترجمان القرآن، قاضی حسین احمد، پروفیسر خورشید احمد پر طعنہ زنی اور گاہے بہتان طرازی کا ایک ہوکا پڑھنے کو ملتا ہے۔ یہ خدمت کوئی ایڈووکیٹ صاحب انجام دیتے ہیں۔
اب کے پانچویں مرتبہ، اور وہ بھی نہایت بھونڈے انداز میں، ستمبر ۲۰۰۸ کے شمارے میں انھی حضرت کی جانب سے یہ کھیل کھیلا گیا ہے۔ اگر تو یہ سب آپ کی پالیسی کے عین مطابق ہے تو پھر بسرو چشم، جو جی میں آئے کہیے، بلکہ فرمائیے ]کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کی کوثر وتسنیم سے دھلی زبان سے زیادہ شائستہ زبان بھلا کس کے نصیبے میں ہے! اگر وہ پڑھ سن لی تو یہ کس شمار قطارمیں[۔ لیکن اگر خود آپ کی ترجیحات میں، چن کر کسی ایک شخصیت یا جماعت کو ہدف بنانا شامل نہیں ہے تو پھر ایک ایسا فرد جو جماعت کی اجتماعی زندگی میں اپنے افعال، گفتار اور غیر متوازن رویوں کے باعث اخراج شدہ ہے، اس کی جانب سے انفرادی سطح پر بہانے ہی بہانے میں جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین کو نفرت کا نشانہ بنانے کا کھیل کسی درجے میں سمجھ میں آتا ہے، مگر کیا ’’وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علم بردار‘‘ یہ الشریعہ ہی اس مقصد کے لیے رہ گیا ہے کہ بستہ بند ایڈووکیٹ صاحب اپنی فکری تلچھٹ اور قلمی پھوہڑ پن کو قارئین کے سامنے پے درپے انڈیلتے چلے جائیں۔
میں آپ سے ہرگز، ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ اس شغل کو بند کر دیں، مگر یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ لڑنا ہے، حملہ کرنا ہے تو میرے بھائی، اپنے ہتھیاروں سے لڑیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بچہ جمہورا کے ہاتھوں لذت ثواب لے رہے ہیں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور محبت ونفرت کی راہوں پر بھی اپنے خاص فضل سے نوازے۔
سلیم منصور خالد
486/C، سیٹلائیٹ ٹاؤن، گوجرانوالہ
یہ خط اشاعت کی غرض سے نہیں، توجہ کی غرض سے ہے۔ باقی آپ صاحب اختیار ہیں۔
(۳)
حضرت مولانا
السلام اور عید مبارک، آپ کو اور کل اصحاب شریعہ کو۔ آپ امریکا سے بالا بالا واپس ہو گئے۔ ہم انتظار سحر دیکھتے رہے۔ اللہ کرے عافیت سے ہوں۔
اکتوبر کا الشریعہ آ پہنچا ہے۔ اسلامی معاشیات پر مضمون تمام ہوا۔ میں اس موضوع پر کچھ پڑھنے کے لیے کبھی اپنے اندر دلچسپی نہیں پا سکا۔ یہ پہلا مضمون ہے جس نے پکڑ لیا۔ یہ کون صاحب ہیں؟ اس پر کسی رد عمل کا انتظار رہے گا۔ چودھری محمد یوسف صاحب کے تبصرے پر جو تبصرہ آیا ہے، بالکل برحق کہے جانے کے لائق ہے۔ مجھے بھی تقاضا اس کے بارے میں لکھنے کا ہوا تھا کہ اس کی اشاعت ’الشریعہ‘ کے صفحات اور قارئین دونوں کے ساتھ نا انصافی کا درجہ رکھتی ہے۔
(مولانا) عتیق الرحمن سنبھلی
لندن
(۴)
عزیز القدر عمار خان ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی عظیم القدر تالیف ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ موصول ہوئی۔ شگفتہ عبارت، تحقیق کا اعلیٰ معیار، تفقہ فی الدین کا حسین اسلوب، فکر انگیز طرز استدلال، کسر جمود کی خوب صورت سعی!
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
آپ نے کل ۱۳۹ ؍مراجع ومصادر کے حوالے دیے ہیں۔ کاش کتاب کے آخر میں ’’المصادر والمراجع‘‘ کے عنوان سے اندراج ہو جاتا تو ایک حسین اضافہ ہو جاتا۔ فقیر نے آپ کی اس نادر تالیف کو مورخہ ۲۷ رمضان المبارک کی شب میں ختم کر دیا اور ۲۸ کی شب کو مصادر ومراجع کی فہرست مرتب کردی۔ تفصیلی تبصرہ پھر کسی نشست، سر دست فہرست مراجع ارسال ہے۔
میری تجویز ہے کہ مصنف کا نام پہلے مع تاریخ ولادت ووفات، اور پھر کتاب کا نام، جیسے
المرغینانی، برہان الدین، مولود .....، متوفی ....، ہدایہ
فہرست مراجع کمپوز کروا کر ارسال کی جا رہی ہے۔
اگر آپ کے پاس مقاصد الشریعہ اسحاق شاطبی ہو تو اس سے ضرور استفادہ کریں۔ آپ کے تمام مباحث کے لیے یہ کتاب امہات الکتب کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ آئندہ ایڈیشن کے لیے قواعد الاحکام لعز بن عبد السلام کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
راشدی صاحب سے دیباچہ لکھوا کر آپ نے اس کاوش کی توقیر میں اضافہ کردیا ہے۔ جزاہ اللہ وجزاک اللہ۔
پرخلوص دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ۔
(مولانا قاضی) محمد رویس خان ایوبی
سرپرست مجلس افتاء آزاد کشمیر، میر پور
(۵)
برادرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب زید مجدہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی وقیع اور قابل قدر علمی کاوش ’’حدود وتعزیرات‘‘ کے عنوان سے وصول ہوئی۔ اس کتاب کا ہر عنوان اور ہر صفحہ گواہی دیتا ہے کہ آپ نے اخذ واستنباط، محنت اور جستجو کا حق ادا کیا ہے۔ بڑا نازک موضوع تھا جس پر آپ نے قلم اٹھایا مگر مشکل مقامات سے جس طرح آپ دامن بچا کر نکلے ہیں، اس نے صغر سنی کے باوصف علمی حلقوں میں آپ کا قد بہت اونچا کر دیا ہے۔ ’’شاب شیخ‘‘ کی ترکیب بجا طو رپر آپ پر صادق آتی ہے۔ مخدوم ومحترم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم خوش نصیب ہیں کہ انھیں آپ جیسا ذہین وفطین اور مطالعہ کا شوقین فرزند عطا ہوا۔
یقیناًآپ کی تحقیق کے بعض نتائج سے اختلاف کیا جائے گا اور اختلاف کرنا بھی چاہیے کہ اختلاف رحمت ہے اور خوب سے خوب تر کو سامنے لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اختلاف، اختلاف ہی رہے، ضد او رخلاف میں تبدیل نہ ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ بھی دلائل کی بنیاد پر کیے جانے والے اختلاف کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے اور اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ ظاہر نہیں کریں گے۔
دعا ہے کہ باری تعالیٰ شرور وفتن سے آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے علم، قلم، زبان اور ذہنی صلاحیتوں سے امت مرحومہ کو بیش از بیش فائدہ پہنچے۔
(مولانا) محمد اسلم شیخوپوری
جامع مسجد توابین۔ سیکٹر Y6
گلشن معمار۔ کراچی
(۶)
بخدمت جناب محترم محمد عمار خان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی ارسال کردہ کتاب ’’حدود وتعزیرات۔ چند اہم مباحث‘‘ وصول ہوئی۔ بھیجنے پر مشکور ہوں، لیکن اس کا ظاہر وباطن دیکھ کر دلی رنج ہوا۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ پھر کسی موقع پر۔ اس وقت تو صرف رسید دینی مقصود تھی۔
(مولانا مفتی) عبد الواحد
دار االافتاء جامعہ مدنیہ لاہور
(۷)
عزیز القدر محمد عمار خان ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
آج آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ موصو ل ہوئی۔ نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یاد رکھا۔ قبل ازیں آپ کی دونوں ارسال کردہ کتابیں بھی موصول ہو گئی ہیں۔ آپ کی یہ کتاب ماشاء اللہ نہایت علمی ہے، کیونکہ چیدہ چیدہ مقامات میں نے دیکھے ہیں۔ ان شاء اللہ عید الفطر کے بعد پوری کتاب کا مطالعہ کروں گا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب کو بھی میرا سلام مسنون عرض کر دیں۔
(مولانا) حکیم محمود احمد ظفر
روڈس روڈ ۔مبارک پورہ ۔سیالکوٹ
(۸)
مکرمی محمد عمار خان صاحب
السلام علیکم
آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات، چند اہم مباحث‘‘ مجھے ۴؍ اکتوبر کو لاہور کے پتے پر موصول ہو گئی تھی۔ یہ عرصہ میں سفر میں ہوں اور اس طرح مجھے کتاب کو پڑھنے کا موقع بھی مل گیا، لیکن خط لکھنے میں تاخیر کا باعث یہ ہوا کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کتاب بھجوانے کا شکریہ آپ کا ادا کرنا ہے یا اس تحفہ کے متعلق جناب غامدی صاحب کو خط لکھنا ہے یا اسے میں جناب زاہد الراشدی صاحب کی مہربانی سمجھوں۔ کتاب کے ساتھ کوئی خط یا کارڈ منسلک نہیں تھا۔ بہرحال میں یہ خط آپ کو بھیج رہا ہوں۔ دونوں حضرات کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دیں۔
آپ نے بلاشبہ اہم موضوعات پر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ بطور خاص ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر آپ کا مضمون قابل قدر اضافہ ہے۔ راشدی صاحب کا دیباچہ آپ کی تحقیقی کاوش کا خوب صورت تعارف ہے۔
کتاب بھجوانے کا بار دگر شکریہ!
(جسٹس) سید افضل حیدر
جج فیڈرل شریعت کورٹ، اسلام آباد
(۹)
برادر محترم حافظ عمار خان صاحب
السلام علیکم
’’حدود وتعزیرات‘‘ مل گئی۔ بے حد شکریہ! مگر شاید میں تبصرہ نہ کر سکوں، کیونکہ جاوید غامدی صاحب اور ان کے حلقہ احباب کے بارے میں بے حد تلخ تجربہ ہے۔ خود آنجناب نے بھی بندہ کے خط کا جواب دینے سے معذرت کی تھی۔ اگر آپ اس وقت بات کر لیتے تو ارتداد سے متعلق آپ کی کتاب کا مبحث بہتر ہو سکتا تھا کیونکہ مرتد سے متعلق آنجناب کا مقدمہ محض روایت پرستی پر مبنی ہے، یعنی بنیادی مقدمہ ہی غلط ہے۔ خبر واحد سے صفحہ ؟؟ پر آپ کا استدلال؟ حیرت ہے۔
محمد امتیاز عثمانی
I-157,158 سردار عالم خان روڈ
نزد کمیٹی چوک۔ راول پنڈی
(۱۰)
محترم عمار خان ناصر صاحب
سلام مسنون
آپ کی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ اتفاقاً راول پنڈی میں ایک صاحب کے پاس نظر سے گزری۔ اس میں ارتداد کی سزا پڑھ کر یہ سطور لکھنے پر مجبور ہوا۔ قرآن حکیم کے واضح ارشادات کے مطابق صرف دو قسم کے لوگوں کو قتل کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اولاً: محارب یعنی فساد فی الارض کے مرتکب کو، ثانیاً: قاتل کو۔ یقیناًنبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام اس کے خلاف ’من بدل دینہ فاقتلوہ‘ نہیں فرما سکتے، کیونکہ آپ وحی کی اتباع کے پابند تھے نہ کہ اس میں تغییر وتبدیل یا نسخ کے۔
امید ہے میری گزارشات پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے۔
محمد رضوان حیدر
مکان ۱۴۔ گلی ۵۔ ماڈل ٹاؤن
HMC روڈ۔ ٹیکسلا