(اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۸ کو شروع ہونے والے اجلاس کے موقع پر پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی نے ارکان پارلیمنٹ اور قومی پریس کی خدمت میں مندرجہ ذیل عرض داشت پیش کی گئی۔)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بگرامی خدمت معزز ارکان پارلیمنٹ اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی؟
ملک بھر کے محب وطن اور اسلام دوست عوام بالخصوص علماے کرام اور دینی حلقوں کے لیے یہ بات باعث مسرت واطمینان ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کے منتخب نمائندے ۸؍اکتوبر ۲۰۰۸ سے ملک کی موجودہ نازک، سنگین اور حساس صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی دار الحکومت اسلام آباد میں جمع ہو رہے ہیں اور انھیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک میں امن وامان کی تازہ ترین صورت حال اور حکومتی اقدامات اور پالیسیوں کے بارے میں بریف کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ آٹھ برس سے ملک جس بدترین شخصی آمریت سے دوچار تھا اور قوم، اس کے نمائندوں اور جمہوری اداروں کو جس طرح قومی پالیسیوں کے حوالے سے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا تھا، اس فضا میں پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا ہے جس پر ملک کے ہر محب وطن شہری نے یک گونہ طمانینت محسوس کی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ یہ اجلاس اپنے مقاصد کے حوالے سے بارآور ہو اور قومی وقار اور اعتماد کی بحالی کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
اس موقع پر ہم ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں حب الوطنی، قومی ہمدردی اور ملی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ عوام کے منتخب نمائندے ملک وقوم کو درپیش اس سنگین بحران کے بارے میں قومی رائے اور پالیسی طے کرتے وقت ان کو بھی ضرور سامنے رکھیں گے۔
معزز ارکان پارلیمنٹ!
وطن عزیز کو اس وقت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے سرفہرست چند اہم ترین مسائل کی طرف اس وقت ہم آپ کو توجہ دلا رہے ہیں:
- اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اساس اور اسلامی تشخص کو خدانخواستہ ختم کرنے یا کم از کم غیر موثر بنا دینے کے لیے بین الاقوامی سازشوں کا اس وقت ہر طرف جال پھیلا ہوا ہے جس کی تقویت کے لیے ملک کے اندر سیکولر حلقے اور لادین عناصر بھی متحرک ہیں اور اس کے لیے ریاستی وسائل کا بھی بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی اساس اسلام اور مسلمانوں کا جداگانہ تشخص ہے۔ اسی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہوئی تھی اور پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ کوئی بھی قوم اپنی نظریاتی اساس اور تہذیبی تشخص سے محروم ہو کر دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتی، اس لیے عوام کے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی نظریاتی اساس، اسلامی تشخص اور تہذیبی امتیاز کے تحفظ کی طرف خصوصی توجہ دیں اور ان عناصر سے ہوشیار رہیں جو:
۱۔ ملک کے دستور وقانون کی اسلامی دفعات کو غیر موثر بنانے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں۔
۲۔ میڈیا اور ابلاغ کے ذرائع کو فحاشی وعریانی کے فروغ اور اسلامی تہذیبی اقدار کو خدا نخواستہ مٹانے کے لیے مسلسل اور بے تحاشا استعمال کر رہے ہیں۔
۳۔ نئی نسل کو اسلامی تعلیمات اور ملت اسلامیہ کے ماضی سے لاتعلق اوربے خبر بنانے کے لیے ملک کے تعلیمی نظام کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں اور
۴۔ لسانی وعلاقائی عصبیتیں پھیلا کر قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔ - قومی خود مختاری کا تحفظ بلکہ بحالی اس وقت ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو بڑھتے بڑھتے اب ساٹھ سال کے بعد یہ خوف ناک اور شرم ناک صورت اختیار کر گیا ہے کہ غیر ملکی فوجیں پاکستان کی سرحدوں کے اندر حملے کر رہی ہیں، بمباری کی جا رہی ہے، بے گناہ شہریوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور بین الاقوامی سرحدات کا تقدس مسلسل پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے بہت سے راہ نماؤں اور حکمرانوں کی مسلسل غفلت، بے پروائی اور امریکہ کے ساتھ ان کی فدویانہ وفاداری کے تلخ ثمرات ہیں جو پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہے ہیں اور ان کا ایک انتہائی اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ خاکم بدہن ملک کی جغرافیائی وحدت، قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کے مستقبل کے بارے میں بین الاقوامی حلقوں میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور مشرقی پاکستان کی تاریخ دہرائے جانے کی باتیں بھی زبانوں پر آنے لگی ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کی سرحدوں کے اندر غیرملکی فوجوں کے زمینی اور فضائی حملوں کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر دوٹوک اور باوقار موقف اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری کے تحفظ کا ہمہ جہت جائزہ لینابھی ضروری ہے اور قومی پالیسیوں کے تعین اور ملکی انتظامات کے حوالے سے دستوری اور قومی اداروں کی آزادانہ حیثیت کی بحالی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ قومی خود مختاری کا اصل سرچشمہ پارلیمنٹ ہے۔ اگر عوام کے منتخب نمائندے اپنی دستوری، جمہوری اور اخلاقی پوزیشن کا صحیح طور پر ادراک کرتے ہوئے اپنا دستوری کردار موثر طریقے سے ادا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو وطن عزیز کی سالمیت، خود مختاری اور جغرافیائی وحدت کے خلاف اندرونی وبیرونی ہر قسم کی سازشوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔
ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ (۱) دستور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کا تحفظ (۲) پارلیمنٹ کا آزادانہ کردار اور (۳) دستور کے مطابق آزاد عدلیہ کی بحالی ہی پاکستان اور پاکستانی قوم کے محفوظ، باوقار اور بہتر مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس سارے معاملے کی کنجی اس وقت پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کے ہاتھ میں ہے اور اگر خدا نخواستہ اس نازک ترین مرحلے میں بھی عوام کے منتخب نمائندے اپنی دستوری پوزیشن کے موثر استعمال کی بجائے وقتی مفادات اور محدود وابستگیوں کی بھول بھلیاں میں گم رہے تو وطن عزیز اور پاکستانی قوم کو درپیش سنگین خطرات اور ان کے ممکنہ تلخ نتائج وثمرات کی ذمہ داری سے وہ عند اللہ اور عند الناس کسی جگہ بھی سرخروئی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ - ملک میں مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کی مسلسل شہادتیں بھی ایک بڑا قومی المیہ ہے جس پر ہر شہری مضطرب اور پریشان ہے۔ ہم نے ملک کے اندر خود کش حملوں، دینی یا سیاسی مقاصد کے لیے ہتھیار اٹھانے اور کسی بھی مطالبہ کے لیے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے کے طرز عمل کی ہمیشہ مخالفت کی ہے، اسے ناجائز قرار دیتے ہوئے بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی مذمت کی ہے اور اب بھی ہم اسے قابل مذمت سمجھتے ہیں، لیکن اس کے اسباب وعوامل کو نظرانداز کرتے ہوئے یک طرفہ مذمت اور ہرحال میں کچل دینے کی پالیسی کو بھی ہم درست نہیں سمجھتے۔ ہمارے نزدیک اس کے اسباب میں بین الاقوامی محرکات اور علاقائی محرومیاں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں اور ان عوامل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیتے ہوئے ان کا سدباب کیے بغیر ان پر قابو پانا ممکن ہی نہیں ہے۔
اس امر کے شواہد اب کھلم کھلا سامنے آ رہے ہیں کہ اس کار شر میں بین الاقوامی ایجنسیاں بھی ملوث ہیں اور پوری پلاننگ کے ساتھ مختلف حلقوں میں ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ عوام اور پاکستانی فوج کے درمیان تصادم کے مواقع پیدا ہوں اور ملک کے اندر عوام اور فوج کے درمیان بے اعتمادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دینی قوتوں اور بالخصوص طالبان کو بدنام کرنے کی مہم کو آگے بڑھایا جائے۔ افغانستان کے طالبان کے بارے میں ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا پاکستان کے اس داخلی خلفشار سے کوئی تعلق نہیں ہے اور طالبان کے بعض ذمہ دار راہ نماؤں نے اس سلسلے میں خود وضاحت بھی کی ہے، لیکن میڈیا کے یک طرفہ پراپیگنڈے کے ذریعے ’’طالبان‘‘ کا نام استعمال کر کے ان غریبوں کی خواہ مخواہ کردار کشی کی جا رہی ہے، جبکہ وہ اپنے ملک افغانستان کا اندر غیر ملکی فوجی مداخلت کے خلاف آزادئ وطن کی جنگ میں مصروف ہیں اور پاکستان کے اندر اس قسم کی کارروائیاں کرنا یا ایسی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنا خود ان کے مفاد کے خلاف ہے۔ اس لیے ہم عوام کے منتخب نمائندوں سے گزارش کریں گے کہ وہ اس مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بین الاقوامی محرکات اور عوامل کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں اور اس کے اصل ذمہ دار عناصر کو بے نقاب کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کریں۔
اس کے ساتھ ہم اس امکان کو بھی کلیتاً مسترد نہیں کر رہے کہ اس خطے میں امریکہ کے جبری اقدامات اور اس کی حمایت میں سابقہ مشرف حکومت کی عوام دشمن کارروائیوں کا رد عمل بھی ان خود کش حملوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے اور بعض ایسے لوگ بھی اس میں ملوث ہو سکتے ہیں جن کے خلوص پر تو شبہ نہیں کیا جا سکتا لیکن ان کا طریق کار یقیناًدرست نہیں ہے اور ایسے افراد کو ان کاموں سے روکنے کے لیے ان کی شکایات او رمحرومیوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مثلاً سوات کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے کہ انھیں وہ شرعی عدالتی نظام واپس کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ ریاست سوات کے الحاق کے وقت ختم کر دیا گیا تھا۔ ان کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ وہ اس عدالتی شرعی نظام کے ساتھ مانوس چلے آرہے ہیں، یہ نظام ان کے عقیدہ وایمان اور کلچر وثقافت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور یہ عدالتی نظام سستے اور فوری انصاف کا ضامن ہے، جیسا کہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی تحریک کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود ان کا یہ مطالبہ بالکل درست تھا کہ ملک میں شرعی نظام نافذ کیا جائے۔
حکومتی حلقے بھی ان کے اس مطالبہ کو جائز تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ پہلے بھی اس خطے میں شرعی نظام عدل ریگولیشن نافذ کیا گیا تھا جو محض رسمی اور غیر واضح ہونے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکا تھا اور اب بھی سرحد حکومت سوات ومالاکنڈ کے عوام سے شرعی نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کا بار بار وعدہ کر رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اس خطے کے عوام کا مطالبہ درست ہے اور حکومت اس کو تسلیم بھی کرتی ہے تو اس میں مسلسل تاخیر اور ٹال مٹول کرکے بے اعتمادی کو بڑھانے اور ان لوگوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کرنے کی آخر کیا تک ہے؟ اس لیے ہم گزارش کریں گے کہ مبینہ دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بین الاقوامی اور داخلی محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور ان کے اسباب وعوامل اور زمینی ومعروضی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس سلسلے میں واضح حکمت عملی طے کی جائے۔
قابل صد احترام ارکان پارلیمنٹ!
ملک کے اندر مبینہ دہشت گردی کے خاتمہ، خود کش حملوں کی روک تھام اور امن عامہ کی بحالی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پر قابو پانا بھی ہمارے سرفہرست قومی مسائل میں سے ہے۔ اشیاے صرف کی قیمتوں نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے، عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے، خود کشیاں بڑھ رہی ہیں اور انارکی کا خوف ناک عفریت منہ کھولے مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے جس پر لوڈ شیڈنگ جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا بھی عوام کے منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے اور انھیں محض بیورو کریسی کے رحم وکرم پر چھوڑ دینا غریب عوام سے ووٹ لے کر ایوان اقتدار اور پارلیمنٹ تک پہنچنے والوں کے شایان شان نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کا قومی سطح پر اور ہنگامی بنیادوں پر حل تلاش کیا جانا ضروری ہے اورہمارے خیال میں شرعی اصولوں کی بنیاد پر بیت المال کا قیام اور ملک کے تمام شہریوں کو ان کی ضروریات زندگی ان کی قوت خرید کے اندر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم، سرمایہ دارانہ نظام سے گلو خلاصی، تعیش اور لگژری پر پابندی اور قناعت اور بچت کے ساتھ غریب عوام کو بنیادی ضروریات میں سبسڈی کی فراہمی کے بغیر کوئی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہم ارکان پارلیمنٹ سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے بھی موثر کردار ادا کریں گے اور اس سلسلے میں کوئی واضح اور ٹھوس پروگرام طے کرنے کی طرف عملی پیش رفت کریں گے۔
ہم ایک بار پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے انعقاد پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ملتمس ہیں کہ عوام کے منتخب نمائندے ہماری ان مخلصانہ گزارشات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کو ملک وقوم کی بہتری کے لیے اچھے اور نتیجہ خیز فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔