پیکر علم وعمل، علماے حق کی تابندہ روایات کے امین شیخ المفسرین والمحدثین حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان صاحب سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ طویل علالت کے بعد ۶؍اپریل ۲۰۰۸ ء بروز اتوار صبح تقریباًساڑھے نو بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی وفات سے امت مسلمہ ایک نکتہ رس مفسر، عظیم محدث، مایہ ناز محقق ومولف، اسلامی علوم وفنون کے ممتاز مدرس اور علوم ومعارف ولی اللہٰی کے محقق ومدون سے محروم ہوگئی ہے۔ آپ کی وفات ملک بھر کے تمام علمی، دینی، تحریکی حلقوں کے لیے سانحہ عظیم ہے۔ بہرحال دارفانی سے داربقا کی طرف ہر ذی روح کاانتقال ایک طے شدہ حقیقت ہے۔ خداوند قدوس آپ کی مساعی جمیلہ کواپنی بارگاہ عالیہ میں اپنی شان کے مطابق قبول فرمائے اورآپ کی بشری لغزشوں سے درگزر فرماتے ہوئے آپ کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطافرمائے، آمین یارب العالمین۔
حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ ضلع مانسہرہ کی ایک غیر معروف بستی چیڑاں ڈھکی داخلی کڑمنگ بالا میں ۱۹۱۷ء میں پید اہوئے۔ آپ نے درس نظامی کی اکثرتعلیم رئیس المدرسین حضرت مولانا عبدالقدیر کیمل پوری ؒ کی زیرنگرانی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی اور پھر ۱۹۴۱ء میں عظیم بین الاقوامی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبندسے سند فراغت حاصل کی۔ آپ کے استاد محترم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے آپ کی علمی لیاقت پر اعتماد کرتے ہوئے آپ کواپنی طرف سے دارالعلوم کی سند کے علاوہ بھی خصوصی سند عطافرمائی۔ ۱۹۵۲ء میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم پرتوکل کرتے ہوئے گوجرا نوالہ میں ایک دینی درسگاہ مدرسہ نصر ت العلوم کی بنیاد رکھی اورپھر شباب سے شیب تک کازمانہ اسی مرکز حق میں تدریس کرتے ہوئے صرف کیا۔ آپ اپنے زمانہ تدریس میں دینی علوم وفنون کی تمام کتابیں پڑھاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر فن میں کمال عطافرمایا تھا، لیکن علم تفسیر اورعلم حدیث میںآپ کو ایک امتیازی شان حاصل تھی۔ آپ نے صحاح ستہ میں شامل احادیث کی تمام کتب، بالخصوص بخاری شریف اورمسلم شریف کئی مرتبہ پڑھائیں۔ آپ کو شاہ ولی اللہ ؒ کے علوم ومعارف سے بھی ایک خصوصی شغف وتعلق تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ شاہ ولی اللہ ؒ محدث دہلوی کی شہرۂ آفاق تصنیف حجۃ اللہ البالغہ مسلسل پینتیس سال پڑھاتے رہے۔
آپ مجموعی طورپر تقریباًپچاس برس مسند تدریس پر رونق افروز رہے اورہزاروں تشنگان علم نے اس چشمہ علم سے اپنی پیاس بجھائی۔ آج آپ کے تلامذہ جنوبی ایشیا تمام ممالک میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ نے تصنیفی میدا ن میں بھی گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے دروس پر مشتمل اردو زبان میں برصغیر کی سب سے ضخیم تفسیر معالم الفرقان فی دروس القرآن بیس جلدوں میں منظرعام پر آچکی ہے اور علمی حلقوں میں اس کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ قرآنی علوم ومعارف اورحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے شغف کایہ عالم تھا کہ تقریباًنصف صدی تک آپ باقاعدگی سے ہفتہ میں چار دن بعداز نماز فجرقرآن حکیم کا اورتین دن حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادرس ارشادفرماتے رہے۔ بے شمار بندگان خداکواس مبارک سلسلہ سے فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ آپ زندگی بھر امت مسلمہ کے اجتماعی معاملات میں بھی ہمیشہ ایک متحرک کردار اداکرتے رہے۔ گو آپ کا ذوق ومزاج سیاسی نہ تھا، لیکن جب کبھی ضرورت پیش آئی اورحالات نے پکاراتوآپ نے اپنے شیخ طریقت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مصائب وآلام کی پروا کیے بغیر جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر پوری تن دہی سے اس میدان میں بھی پھر پورحصہ لیا اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ پاکستان میں اسلامی قانون سازی کی جدوجہد، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی، تحریک جامع مسجدنور گوجرانوالہ میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے اپنے روشن کردارسے بعد میںآنے والوں کویہ مثالی درس دیا کہ ’جدا ہودین سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی ‘۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کی تمام دینی تحریکات کی بھرپور حمایت کرتے رہے۔ تقویٰ وپرہیزگاری ،خلوص وایثار ،محبت ومودت میںآپ اپنے اکابر کی تابندہ روایات کے مظہر تھے۔ آپ انتہائی منکسرالمزاج، خوش اخلاق اور خندہ جبیں تھے۔ کم گوئی آپ کا خاص وصف تھا۔ بقدرضرورت تکلم فرماتے، ورنہ خاموش رہتے۔ زیرتدریس طلبہ کے ساتھ توآپ کاتعلق ایک مشفق باپ کا سا تھا۔ عصرکی نماز کے بعد مدرسہ کے دارالاقامۃ کے برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ جاتے اور طلبہ آپ کے اردگرد جمع ہو جاتے۔ طلبہ سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے اورگاہے گاہے ان سے خوش طبعی کرتے اورطلبہ میںیوں گھل مل جاتے کہ کوئی بھی طالب علم بلاجھجک آپ سے اپنے ذوق کا سوال کرسکتاتھا۔ آپ کبھی کسی طالب کے سوال سے ناراض نہ ہوتے بلکہ خندہ پیشانی اور خوش روئی سے اس کا جواب مرحمت فرماتے۔
راقم اکثر آپ سے اکابراہل علم کے متعلق مختلف سوال پوچھتا توآپ ہمیشہ نرمی اور شفقت سے جواب دیتے۔ ایک مرتبہ راقم نے آپ سے شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کے دست حق پرست پر بیعت کی وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ عزیز! حضرت مدنی ؒ میدان تصوف کے ہی شاہسوار نہ تھے بلکہ میدان جہاد کے بھی عظیم شاہسوار تھے، اسی لیے میں نے آپ کے دست حق پرست پربیعت کی۔ آپ نے عامۃ الناس کی دینی راہنمائی کے لیے ایک جریدہ ماہنامہ نصرت العلوم کابھی اجرا کیا جس کی اشاعت کا سلسلہ بحمداللہ تعالیٰ اب بھی خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ آپ تواپنا فرض خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے بخوبی نبھا چکے۔ اب یہ ذمہ داری آ پ کے تمام متعلقین وتلامذہ کے کندھوں پرآپڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ذمہ داری سے عہد برآہ ہونے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔
آپ کی حیات طیبہ اورمساعی جمیلہ کے ہرگوشہ کومحفوظ کرنا اورانہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانا بے حد ضروری ہے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف آپ کے روشن کردارسے واقف ہو سکیں،بلکہ اس پر عمل کرتے ہوئے دارین کی سرخروئی بھی حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ استاد محترم کو کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے اور آپ کے علمی فیض کوعام اورتام فرمائے اورآپ کے علمی جانشین استاذمحترم حضرت مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی کویہ ہمت اور توفیق عطا فرمائیں کہ وہ اپنے عظیم والد کے عظیم علمی ورثہ کوآنے والی نسلوں تک بخوبی منتقل کرسکیں۔ آمین یارب العالمین۔