۶ اپریل ۲۰۰۸ بمطابق ۲۸؍ ربیع الاول ۱۴۲۹ھ بروز اتوار صبح دس بجے فکر ولی اللٰہی کے وارث اور ترجمان، مفسر قرآن، محقق ومورخ، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بانی مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ لاکھوں عقیدت مندوں، شاگردوں اور عزیز واقارب کو داغ مفارقت دے کر قبرستان کلاں گوجرانوالہ میں آسودۂ خاک ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی کو اپنے دین کی اشاعت کے لیے منتخب کرتا ہے تو پھر اس پر خصوصی التفات فرماتا ہے۔ شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتی انھی چنیدہ افراد میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں شنکیاری (مانسہرہ) کے ایک دور دراز گاؤں چیڑاں ڈھکی سے اٹھایا اور دنیاے اسلام کی عظیم دینی وتعلیمی شخصیات میں لا کھڑا کیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مدرسے سے حاصل کی۔ کئی دینی مدارس سے فیض یاب ہونے کے بعد آپ نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں بھی تعلیمی پیاس بجھائی۔ یہاں آپ کو جمعیۃ علماے ہند کے مرکزی راہ نما حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ سے استفادہ کا موقع ملا۔ ۱۹۴۲ء میں آپ نے دار العلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی اور سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے طبیہ کالج حیدر آباد دکن سے طب یونانی کی سند حاصل کی اور پھر دار المبلغین لکھنو سے بھی تربیت حاصل کی۔ آپ کو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حضرت مولانا اعزاز علی، حضرت مولانا عبد الشکور لکھنوی، حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا عبد القدیر کیمل پوری اور حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمہم اللہ جیسی نابغہ روزگار ہستیوں سے اکتساب فیض کا موقع ملا۔
گوجرانوالہ کو خان پور سانسی سے گوجرانوالہ بننے کا شرف ملا تو اسے پہلوانوں کے شہر کا نام اور تعارف ملا۔ علمی سطح پر اس وقت مدرسہ انوار العلوم اور مرکزی جامع مسجد ملحقہ شیرانوالہ باغ محدث گوجرانوالہ مولانا عبد العزیز کی یادگار کی حیثیت سے جگمگا رہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد سینکڑوں افراد کے اس شہر میں لوگوں کی تعداد لاکھوں کو چھونے لگی۔ بدعت، بدعقیدگی اور ہندوانہ رسوم نے اس شہر پر سایہ کر لیا۔ اس ماحول میں حضرت صوفی صاحب نے گوجرانوالہ شہر کے بارہ دروازوں سے باہر چوک گھنٹہ گھر سے متصل شہر کا پانی جمع ہونے سے بننے والے ایک بڑے سے جوہڑ کے کنارے مدرسہ نصرت العلوم اور عظیم الشان مسجد نور کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اس کام کا آغاز بے سروسامانی کے عالم میں کیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوہڑ غائب ہو گیا اور آج عظیم جامعہ نصرت العلوم نقشہ عالم پر جگمگا رہا ہے۔
آپ نے شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کی فکر اور شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری کی اتباع میں مدرسہ نصرت العلوم میں دورۂ تفسیر کا اجرا کیا جو حضرات شیخین (حضرت صوفی صاحب اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر) کی علالت تک جاری رہا۔ آپ کی سرپرستی میں مدرسہ نصرت العلوم سے مجلہ نصرت العلوم کا بھی اجرا ہوا جو دینی اصلاح اور تحقیق کا مرقع ہوتا ہے۔
جب تک آپ کی صحت نے اجازت دی، آپ مسجد نور میں باقاعدگی سے درس قرآن وحدیث ارشاد فرماتے رہے۔ ان دروس سے اردو کی سب سے بڑی اور جدید وسہل تفسیر ’’معالم العرفان فی دروس القرآن‘‘ ۲۰ جلدوں میں منصہ شہود پر آئی جو اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں باطل فرقوں اور باطل نظریات کی تردید کی گئی ہے اور جدید دور کے سائنسی اور فکری مسائل کا حل سلیس اور آسان اردو میں دیا گیا ہے۔ اس میں جدید وقدیم تفسیری ذخیرے کا خلاصہ بھی ہے۔ آپ سے ہزاروں شاگردوں نے اکتساب فیض کیا ہے اور لاکھوں لوگ معالم العرفان فی دروس القرآن، نماز مسنون اور دیگر تصانیف اور خطبات سے مستفید ہو کر جادۂ حق پر گام زن ہوئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے فکر وفلسفہ کے امین امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی کے افکار کو جن حضرات نے گہرائی میں جا کر سمجھا اور ان کی توضیح واشاعت کے لیے کام کیا، ان میں حضرت صوفی صاحب کا نام نہایت قابل احترام ہے۔ آپ نے اس بات کو غلط ثابت کیا کہ امام انقلاب مولانا سندھی کمیونزم سے متاثر تھے۔ آپ اس موضوع پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے اور آپ نے ’’مولانا عبید اللہ سندھی کے علوم وافکار‘‘ کے عنوان سے ایک شاہکار کتاب بھی تصنیف کی ہے۔
حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی بہت ہی زبردست قوت اصلاح کے مالک تھے۔ آپ نے لاکھوں لوگوں کے ایمان وعقیدہ کی اصلاح کی۔ مجھے ۲۸ سال تک ان کی سرپرستی اور راہ نمائی سے مستفید ہونے کا موقع ملا اور مجھ جیسے کالجیٹ جب حضر ت صوفی صاحب کے پاس حاضر ہوتے تو قدرتی طور پر ایسا رعب ودبدبہ طاری ہو جاتا کہ پاس ادب سے زبان گنگ ہو جایا کرتی تھی۔ آپ کی مجلس میں حاضری سے قبل یہ تسلی کر لیتے تھے کہ کہیں آپ کسی بات پر ہم سے نالاں تو نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم محدث اعظم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ کے پاس حاضر ہو کر کچھ حوصلہ پاتے، پھر صوفی صاحب کی مجلس میں سلام کر کے ایک جانب ہو کر بیٹھ جاتے۔ سرزنش کے بعد آپ کی نصیحتیں اور دعائیں ذہنی اور قلبی تسکین کا باعث ہوتیں۔
۶؍ اپریل کا دن وہ دن ہے جس نے ہم سے ہمارا مربی، سرپرست، ہمدرد اور مخلص راہ نما، قائد اور استاذ چھین لیا ہے۔ ان کی توجہ، ان کی محبت اور ان کی دعائیں یقیناًہمارے لیے توشہ آخرت ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ روز آخرت آپ کی رفاقت نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔