(فاضل مقالہ نگار نے اپنے مفصل مقالے میں اہل سنت کے تصور فطرت کی وضاحت میں طویل اقتباسات جمع کیے ہیں جنھیں اختصار کے پیش نظر حذف کرتے ہوئے مضمون کا وہ حصہ یہاں شائع کیا جا رہا ہے جو سید منظور الحسن کے دلائل کی تنقید سے متعلق ہے۔ مدیر)
راقم الحروف نے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کا ایک تنقیدی جائزہ لیا تھا جو کہ ماہنامہ ’الشریعہ‘ فروری ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ غامدی صاحب کے ایک شاگرد رشید جناب منظور الحسن صاحب نے ہماری اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت ‘کے دفاع میں ایک مضمون لکھا جو ماہنامہ ’الشریعہ‘ جولائی ۲۰۰۷ اور پھر ماہنامہ ’اشراق‘ اگست و ستمبر ۲۰۰۷ میں شائع ہوا۔ہمارے پیش نظر اس وقت منظور الحسن صاحب کی طرف سے غامدی صاحب کے ’تصور فطرت‘ کے دفاع میں لکھا جانے والا مضمون ہے۔
قرآن ‘سنت اور محققین اہل لغت کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سے مراد وہ ابتدائی تخلیق ‘ پیدائشی حالت اور ہیئت ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور فطرت کے اس لغوی مفہوم پر اہل لغت کا اجماع بھی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ وہ فطرت یعنی ابتدائی تخلیق یا ہیئت کیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پیدا کیا ہے؟ اس بارے میں اہل علم کے مختلف اقوا ل ہیں۔ جمہور علماے محققین کے قول کے مطابق فطرت انسانی ایک قوت یااستعداد ہے کہ جس کے ذریعے انسان اسلام کے بنیادی حقائق‘اپنے رب کی معرفت اور حق وخیر کی طرف میلان محسوس کرتا ہے اور باطل وشر سے دور بھاگتا ہے۔اس کی سادہ سی مثال انسان کی قوت سماعت ہے جو پیدائش کے وقت ہر انسان میں بالقوۃ موجود ہوتی ہے اور جیسے جیسے انسان بڑا ہوتاجاتا ہے، اپنی اس قوت و صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اپنی معلومات کو وسیع کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ مجرد قوت سماع کسی علم کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو علم کے حصول کا ایک ذریعہ یا صلاحیت ہے جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی فطرت یعنی پہلی ہیئت تخلیق یہ ہے کہ اس میں قوت سماعت موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا قوت سماعت ‘ قوت بصارت اورقوت فکر وغیرہ کی طرح ہر انسان میں پیدائشی طور پر ایک قوت یا مَلکہ ایسا بھی موجود ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان پنی بلوغت کے بعد اپنے رب کی معرفت اورخیروحق بات کی طرف میلان اور شرو باطل سے ابا محسوس کر سکتاہے۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ قوت سماعت کی طرح فطرت مجرد ایک صلاحیت، قوت یا استعداد کا نام ہے کہ جس کا کوئی تعلق علم سے نہیں ہے ۔
قرآن و سنت ‘لغت عرب اور اہل سنت کے مذہب کے مطابق فطرت نہ تو مأخذ علم ہے نہ ہی مصدر شریعت ‘بلکہ یہ ایک قوت اور صلاحیت ہے کہ جو ہر انسان میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اس قوت اور صلاحیت کو استعمال کر کے انسان توحید ربوبیت کی معرفت حاصل کر سکتا ہے‘نبی کی دعوت کو حق سمجھ کر قبول کرتا ہے‘ ہرشرعی خیر کی طرف اپنے نفس میں ایک میلان محسوس کرتا ہے اور شریعت میں بیان کر دہ ہر شر سے اپنے نفس میں نفرت کرتا ہے اور اگر بیرونی و خارجی موانع و عوارض نہ ہوں تو ہر انسان بلوغت کے بعد اسی پیدائشی حالت پر برقرار رہے گا۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک قرآنی معروف و منکر ‘ کھانے کی چیزوں میں طیبات و خبائث کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا ‘ نیزفنون لطیفہ مثلا موسیقی ‘ رقص و سرود ‘مجسمہ سازی اور عشقیہ شاعری وغیرہ بھی فطرت کی بنیاد پر جائز ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ اہل سنت کا قرآن و سنت کی روشنی میں تصور فطرت غامدی صاحب کے تصور فطرت سے بالکل مختلف ہے۔
منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع کے طور پر بعض آیات کو بطور دلیل بیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ منظور الحسن صاحب کے پیش کردہ دلائل کا مسلمہ اصول تفسیر کی روشنی میں حقیقی معنی و مفہوم کیا ہے ؟
پہلی دلیل: منظور الحسن صاحب نے سور ۃ الشمس کی آیات ’ونفس وما سوھا فألھمھا فجورھا وتقوھا‘ کو غامدی صاحب کے تصور فطرت کی دلیل بنایا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں ’الہام‘ کے چار معانی بیان کیے ہیں:
۱) جمہور علما کا کہنا یہ ہے اس آیت مبارکہ میں’الہام‘ کا معنی واضح کرنے ‘بیان کرنے‘ بتلا دینے اور سمجھا دینے کے ہیں۔ کسی چیز کا خیر یا شر ہونا اللہ کے بتلانے اور واضح کرنے سے متعین ہوا لیکن اللہ کے بتلائے ہوئے خیر کو خیر اور شر کو شر سمجھنے کے لیے انسان نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں یعنی اپنی عقل و فطرت کو استعمال کیا۔امام ابن جریر طبریؒ لکھتے ہیں:
فبین لھا ما ینبغی لھا أن تأتی أو تذر من خیر أو شر أو طاعۃ أو معصیۃ (تفسیر طبری: سورۃ الشمس: ۷ تا ۸)
’’پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اس چیز کو واضح کر دیا کہ کون سے خیر اور اطاعت کے کام اسے کرنے چاہئیں اور کون سے شر اور معصیت کے کاموں سے وہ اجتناب کرے۔‘‘
یہ رائے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ‘ قتادۃؒ ‘ مجاہدؒ ‘ ضحاکؒ ‘ مقاتل ؒ ‘ سفیان ثوریؒ ‘طبریؒ ‘واحدیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بیضاویؒ ‘فراء‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ابن عادل الحنبلیؒ ‘أبو جعفر النحاسؒ ‘ ابو المظر بن السمعانیؒ ‘ بقاعیؒ ‘ أبو سعودؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ علامہ صابونیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘شیخ حسنین محمد خلوفؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولاناثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ وغیرہم کی ہے ۔
۲) ’الہام ‘سے مراد توفیق اور خذلان ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن میں تقوی رکھ کر اسے نیکی کی توفیق دی اور کافر میں فجور رکھ کر اسے ذلیل کر دیا۔ یہ قول ابن زید ؒ کاہے۔ زجاج ؒ اور ابن عجیبہؒ نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ابن بطہؒ نے اس قول کی نسبت أبو حازم ؒ کی طرف بھی کی ہے۔ (شوکانی، فتح القدیر: سورۃ روم: ۳۰)
۳) ’الہام‘ سے مراد ساتھ لگا دینا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ اس کی بدبختی یا سعادت کو ساتھ لگا دیا ہے۔ یہ قول صحیح سند کے ساتھ ابن عباسؓ سے مروی ہے۔ امام حاکمؒ نے اس قول کو مستدرک حاکم میں بیان کرنے کے بعد صحیح کہا ہے اور اس قول کی صحت میں امام ذہبی ؒ نے امام حاکم ؒ کی موافقت کی ہے۔یہ قول سعید بن جبیرؒ سے بھی منقول ہے ۔علامہ بدر الدین عینیؒ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا یہ قول اس آیت کا ایک مصداق ہے جیسا کہ بعض علما مثلا الشیخ مساعد بن سلیمان الطیار نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ابن عباسؓ کے اس قول کی بنیاد مسئلہ قدر میں مروی ایک صحیح روایت ہے کہ جس کے آخر میں آپؐ نے ان آیات کی تلاوت کی ہے۔ لہٰذا اس قول کو ابن عباسؓ کے پہلے قول کے معارض نہ سمجھا جائے۔ صحابہؓ کا یہ معمول تھا کہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر سمجھانے کے لیے اس کے کسی ایک مصداق کی طرف اشارہ کر دیتے تھے جبکہ کسی دوسری مجلس میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی آیت کے کسی دوسرے مصداق کو بیان کردیتے تھے۔ سحابہؓ کی ایسی تمام تفاسیر اپنے مقام پر صحیح ہوتی ہیں۔بعض ناواقف لوگ صحابہؓ اور تابعینؒ کے ان تفسیری اقوال کے ظاہری اختلاف کو تعارض سمجھتے ہیں حالانکہ در حقیقت وہ اختلاف تنوع ہوتا ہے ۔
۴) ان آیات کاچوتھا معنی ان مفسرین نے کیا ہے جن میں تجدد کا عنصر کسی نہ کسی درجے میں پایا جاتا ہے اور یہ بات علما میں واضح ہے کہ یہ حضرات اپنے خلوص ‘تقویٰ‘ تدین اورامت مسلمہ کے لیے علمی و عملی خدمات کے باوصف قرآن کی تفسیر میں بہت سے مقامات پر ’فھم النصوص علی منہج السلف الصالحین‘ کے بالمقابل تجدد پسند ی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ اس قول کے مطابق ’فألھمھا فجورھا وتقواھا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی میں خیر و شر کا علم رکھ دیا ہے اور انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی عقل و فطرت سے معلوم شدہ خیر و شر کے علم کی اتباع کرے۔ اس فلسفے کو تفصیلاً امین احسن اصلاحی صاحب ؒ نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں بیان کیا ہے۔ سید جمال الدین قاسمی ؒ ‘ سید قطب شہیدؒ اور مولانا مودودیؒ کی تفاسیر میں موجود عبارات میں بھی اس قسم کے اشارات ملتے ہیں کہ یہ حضرات بھی اسی فکرکے حاملین میں سے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ چوتھی رائے غلط ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
۱) اس آیت مبارکہ میں فطرت کا لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ‘نفس‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔فطرت انسانی اور نفس انسانی میں بہت فرق ہے ۔قرآن و سنت کے مطابق ’فطرت ‘ سے مراد وہ قوت اور استعداد ہے کہ جس کی وجہ سے انسان خیر و شر اور حق و باطل کو پہنچانتا ہے، جبکہ ’نفس‘ سے مراد وہ روح ہے جوانسانی جسم میں داخل ہو کر اپنی تدبیر شروع کر دیتی ہے۔امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں :
و النفس ھی الروح المدبرۃ للجسم مثلا نفس الانسان اذا کانت فی جسمہ (مجموع الفتاوی‘ امام ابن تیمیہ‘جلد۴‘ص۱۱۸)
’’ ’نفس‘سے مراد وہ روح ہے جو انسانی جسم میں تدبیر کرتی ہے مثلاً انسان کا نفس جبکہ روح اس کے جسم میں ہو۔‘‘
’نفس‘ کی یہی تعریف امام اہل السنۃ ابن أبی العز الحنفیؒ نے شر ح عقیدہ طحاویہ میں بھی کی ہے۔ لہٰذا صحابہؓ و تابعین ؒ و جمہور مفسرین کی تفسیر صحیح ہے جو کہ قرآنی لفظ ’نفس‘ کے عین مطابق ہے کہ نفس انسانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا و رسل اور کتابوں کے ذریعے واضح کر دیا کہ اسے کس چیز کو اختیار کرنا چاہیے اور کس کو چھوڑنا چاہیے، جبکہ آیت کا وہ معنی مرادلینا جو چوتھے قول میں بیان ہوا ہے، اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ قرآن کے ظاہر کی تاویل کرتے ہوئے نفس کو فطرت کے معنی میں نہ لیا جائے۔ اور قرآن کی ایسی تاویل بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں ہے، لہٰذا سورۃ الشمس میں ’نفس‘ سے مراد اس کا حقیقی معنی یعنی نفس انسانی ہے نہ کہ مجازی معنی یعنی فطرت ہے۔ علاوہ ازیں فطرت بھی اس صورت میں نفس کا مجازی معنی ہو گا جبکہ کلام عرب سے اس بات کے دلائل اور شواہد مل جائیں کہ اہل عرب نفس کو فطرت کے معنی میں استعمال کرتے تھے، اور ہمارے علم کی حد تک کلام عرب میں نفس کالفظ فطرت کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ۔
۲) غامدی صاحب کا بیان کردہ یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْءًا (النحل :۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ ‘‘
امام ابن قیمؒ لکھتے ہیں کہ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَاللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘
امام ابن قیمؒ کے علاوہ امام ابن تیمیہؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب حنبلیؒ نے بھی قرآن کی اس آیت کوا س مسئلے میں بطور دلیل بیان کیاہے کہ پیدا ئش کے وقت انسان کے پاس کسی قسم کا کوئی فطری علم نہیں ہوتا ‘ہم ان جلیل القدر أئمہ کی عبارات پیچھے بیان کر چکے ہیں۔ جناب منظور الحسن صاحب کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کی اس آیت کا یہ مفہوم قرآن کے سیاق و سباق کے خلاف ہے۔ منظور الحسن صاحب کے لیے پہلا جواب تو یہ ہے کہ کیاان کے خیال میں امام ابن تیمیہؒ ‘امام ابن قیمؒ ‘ امام قرطبیؒ اور ابن رجب الحنبلیؒ جیسے جلیل القدر مفسرین قرآن کے سیاق و سباق سے ناواقف تھے جو سبھی اس آیت کو بطور دلیل نقل کرتے چلے آئے ہیں؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ جس کو منظور الحسن صاحب قرآن کا سیاق و سبا ق کہہ رہے ہیں، اس کی حیثیت ان کے ذاتی فہم سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عربی زبان کا یہ معروف قاعدہ ہے کہ نفی کے سیاق میں جب نکرہ آئے تو وہ اپنے عموم میں نص بن جاتا ہے، لہٰذا ’لا تعلمون شیئا‘ میں نفی کے سیاق میں نکرہ ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ تمہارے پاس کسی قسم کا بھی علم نہ تھا اورقرآن کے اس قدر صریح مفہوم کی اپنے ذاتی فہم سے تخصیص کرنا جائز نہیں ہے۔ امام النحو أبو حیان الاأندلسیؒ اس کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
و الأولی عموم لفظ شیء و لاسیما فی سیاق النفی (البحر المحیط: سورۃ النحل:۷۷)
’’راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ شے سے مراد اس کا عموم ہے جبکہ اس کے سیاق میں نفی بھی موجود ہے ۔‘‘
اسی طرح علامہ آلوسی ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
و الظاہر العموم و لا داعی الی التخصیص (روح المعانی: سورۃ النحل:۷۷)
’’ظاہر نص یہی کہتی ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔‘‘
چوتھا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کو ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق بنا رہے ہیں، حالانکہ ’وجعل لکم السمع والأبصار و الأفئدۃ‘ کسی طرح بھی ’واللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا سیاق نہیں بن رہا ہے کیونکہ ’ و جعل...‘ میں ’واؤ‘ استیناف کا ہے اور ’وجعل لکم السمع و الأبصار والأفئدۃ‘ جملہ مستأنفہ ابتدائیہ ہے۔ اگر ’و جعل ...‘ کے ’واؤ‘ کو عطف کا واؤ مانیں تو پھربھی ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ کا جملہ ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کا معنوی سیاق نہیں بنتا کیونکہ انسان کی سماعت ‘ بصارت اور دل تو اس وقت بھی موجود تھے جبکہ وہ ماں کے پیٹ میں تھا، لہٰذا انسان اپنی قوت سماعت ‘ بصارت اور دل کے وجود کے ساتھ اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اور وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا، پھر جب وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تو اس وقت بھی وہ کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس آیت کے سیاق سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتاہے کہ انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کے پاس کسی قسم کا علم تو نہیں ہوتا لیکن ایسے آلات ضرور ہوتے ہیں کہ جن سے وہ علم حاصل کر سکتا ہے۔ امام رازیؒ لکھتے ہیں :
’’انسانی اپنی ابتدائی پیدائشی حالت میں جبکہ وہ پیدا ہوتا ہے‘ مختلف اشیا کے علم سے خالی ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے سماعت‘ بصارتیں اور دل بنائے‘اور اس کا معنی یہ ہے کہ انسانی نفوس چونکہ اپنی پیدائشی حالت میں اللہ کی معرفت اور اس سے متعلقہ علوم سے خالی ہوتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ حواس عطا کیے ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعے معارف اور علوم کو حاصل کرے۔‘‘ ( مفاتیح الغیب: سورۃ النحل: ۷۷)
۳) غامدی صاحب کا یہ بیان کردہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
اَللّٰھُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرٌ مَنْ زَکَّاھَا
’’اے اللہ تعالیٰ! تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ(یعنی تقویٰ کی رہنمائی ) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے‘ بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے ۔ ‘‘
اگر ’فجور‘ اور’ تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہے تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیاضرورت ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دُعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تَقْوٰی‘ سے مراد اس( تقویٰ) کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس( فجور) کی پہچان ہے جیسا کہ صحابہؓ و تابعینؒ نے بیان کیاہے۔منظور الحسن صاحب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی چیز بھی مانگی جا سکتی ہے جو کہ انسان کو حاصل ہو اور اس کی دلیل کے طور پر انہوں نے ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کی آیت کو پیش کیا ہے کہ مسلمانوں کو ہدایت حاصل ہے وہ پھر بھی اللہ تعالیٰ سے ہر نمازمیں ہدایت مانگتے ہیں۔ منظور الحسن صاحب کو پہلا جواب تو یہ ہے ان کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مسلمان بنایا ہے اور وہ پانچ وقت کی نماز میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ تو مجھے مسلمان بنا دے، حالانکہ ایسی دعا کی امید و توقع کسی صاحب عقل سے نہیں کی جا سکتی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ منظور الحسن صاحب کو ’اھدنا الصراط المستقیم‘ کا صحیح مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ابن رجب الحنبلیؒ ’اھدنا الصراط المستقیم‘ میں بیان شدہ ہدایت کا مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک مومن کااللہ سے ہدایت طلب کرنا ہے ‘ تو اس کی دو قسمیں ہیں۔ایک مجمل ہدایت ہے اور اس سے مراد اسلام اور ایمان کی ہدایت ہے اور وہ ہر مومن کو حاصل ہے اور دوسری مفصل ہدایت ہے اور اس سے مراد ایمان اور اسلام کے اجزا کواس کی تفصیلات کے ساتھ جاننا ہے اور ان پر عمل کرنے کے لیے اللہ کی مدد کا طلب گار ہونا ہے ۔یہ وہ ہدایت ہے کہ جس کا ہر مومن دن رات میں محتاج ہے اور اسی ہدایت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو پانچ وقت کی نماز میں یہ دعا پڑھنے کا حکم دیاہے ’اے اللہ !توہمیں سیدھا رستہ دکھا‘۔ اور اللہ کے رسول ﷺ بھی رات کی نماز میںیہ دعا کرتے تھے:اے اللہ !جن معاملات میں اختلاف کیا گیاہے ان میں حق بات کی طرف اپنے حکم سے تو میری رہنمائی فرما دے۔بے شک جس کو تو چاہتا ہے سیدھے رستے کی ہدایت عنایت فرماتا ہے۔ ‘‘ (جامع العلوم و الحکم: فصل الحدیث الرابع و العشرون)
۴) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم صحابہ کرامؓکی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓکا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’یقول: بین الخیر و الشر‘، یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے ۔‘‘
اہل سنت میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ صحابہؓ اگر قرآن کی کسی آیت کا لغوی مفہوم بیان کریں تو اس کو قبول کرنا واجب ہے کیونکہ وہ قرآن کی لغت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں جبکہ صحابہؓ کی تفسیر اجتہادی میں علما کا اختلاف ہے کہ اس کا قبول کرنا حجت ہے یا نہیں ۔یہاں پر ابن عباسؓ قرآنی لفظ ’الہام‘ کالغوی معنی بیان کر رہے ہیں کہ’ الہام‘ سے مراد’تبیین‘ ہے، لہٰذا ابن عباسؓ کی یہ تفسیر حجت ہے ۔
۵) غامدی صاحب کا بیان کردہ مفہوم جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔امام طبری ؒ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت مجاہدؒ سے روایت کیا ہے کہ’’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰاہَا‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گناہ اور تقویٰ بتلا دیاہے ۔‘‘
امام مجاہد ؒ معروف تابعی اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے شاگرد ہیں۔مشہورمحدث سفیان ثوری ؒ فرماتے تھے کہ جب تمہیں مجاہدؒ سے تفسیر پہنچ جائے تو بس بالکل کافی ہے۔امام ابن تیمیہؒ نے ’رسالہ اصول تفسیر‘ میں لکھا ہے کہ جلیل القدر أئمہ امام شافعیؒ ‘ امام احمدؒ اور امام بخاریؒ وغیرہ حضرت مجاہدؒ کی تفسیر پر بہت زیادۃ اعتماد کرتے تھے۔ امام طبریؒ نے یہی تفسیر قتادہ، ضحاک اور سفیان سے بھی نقل کی ہے۔ جمہور مفسرین امام طبریؒ ‘واحدیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بیضاویؒ ‘فراء‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ مجدالدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘نسفیؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ابن عادل الحنبلیؒ ‘أبو جعفر النحاسؒ ‘ ابو المظر بن السمعانیؒ ‘ بقاعیؒ ‘ أبو سعودؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ أبو بکر الجزائریؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ علامہ صابونیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘شیخ حسنین محمد خلوفؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولاناثناء اللہ امرتسریؒ اور مولانا عبد الرحمن کیلانیؒ وغیرہم نے بھی اس آیت کایہی مفہوم بیان کیا ہے جو کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے حوالے سے اوپر بیان ہوچکا ہے ۔
۶) اگر بفرض محال چوتھے قول کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم ودیعت کردیا ہے تو پھر بھی اس آیت سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کاپابند بھی بنایا ہے کہ وہ اپنے اس فطری علم کے مطابق زندگی گزارے اور نہ ہی اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس کے اس فطری علم کی بنیاد پر آخرت میں کچھ مواخذہ بھی فرمائیں گے جیسا کہ غامدی صاحب کا یہ موقف واضح ہے۔
منظور الحسن صاحب نے امام ابن کثیرؒ ‘مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ‘ مولانامودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کے اقوال اپنی اس رائے کی تائید میں نقل کیے ہیں کہ ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ والی عام آیت اپنے سیاق ’وجعل لکم السمع و الأبصار و الأفئدۃ‘ سے خاص ہے۔اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ ہمارے نزدیک علما کے اقوال دلیل نہیں ہیں۔ اصل دلیل قرآن و سنت ہے۔ ہاں قرآن و سنت سے ثابت شدہ مسئلے کی تائید میں علما کے اقوال نقل کیے جا سکتے ہیں، لہٰذا منظور الحسن صاحب کا یہ کہنا کہ اس آیت کی تفسیر میں ہم نے فلاں علما کے یہ اقوال نقل کیے اور حافظ صاحب نے ان کاجواب نہیں دیا، ایک لایعنی بحث ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ خود آپ نے ’و اللہ أخرجکم من بطون أمھتکم لا تعلمون شیئا‘ کی تفسیر میں ان علما کے جو چار اقوال نقل کیے ہیں، کسی ایک کے قول سے بھی آپ کے اس موقف کی تائید نہیں ہوتی کہ قرآن کی یہ آیت اپنے سیا ق کے اعتبار سے خاص ہے اور اس آیت سے فطری علم کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ صرف حواس و مشاہدے سے حاصل شدہ علم کی نفی مراد ہے ۔
دوسری دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں دوسری دلیل قرآن کی درج ذیل آیت کو بنایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اناھدیناہ السبیل إما شاکرا وإما کفورا (الإنسان:۳)
ہمارا جواب یہ ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے تین اقوال ہیں:
۱) اس آیت میں ہدایت سے مراد واضح کرنا ‘بیان کرنا‘ رہنمائی کرنا اور بتلا دینا ہے۔امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
بینا لہ و عرفناہ طریق الھدی و الضلال و الخیر و الشر ببعث الرسل فأمن أو کفر (تفسیر قرطبی: سورۃ الإنسان: ۳)
’’ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کے لیے ہدایت ‘ گمراہی ‘خیر اور شر کے رستوں کو رسولوں کی بعثت سے واضح کر دیاہے پس انسان چاہے تو ایمان لے آئے اور چاہے تو کفر کرے۔ ‘‘
یہ قول جمہور مفسرین مجاہدؒ ‘ عکرمۃؒ ‘ عطیہ العوفی ؒ ‘ ابن زیدؒ ‘طبریؒ ‘ رازیؒ ‘ قرطبیؒ ‘ جلال الدین محلیؒ ‘ شوکانیؒ ‘ علامہ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ علامہ سمرقندیؒ ‘ زمخشریؒ ‘ بغویؒ ‘ ابن کثیرؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ فراءؒ ‘ابن جوزیؒ ‘ نسفیؒ ‘ خازنؒ ‘ أبو حیانؒ ‘ الثعالبیؒ ‘ ابن عادل الحنبلیؒ ‘ البقاعیؒ ‘ علامہ آلوسیؒ ‘ واحدیؒ ‘ الثعلبیؒ ‘ سید طنطاویؒ ‘ علامہ أبو بکر الجزائری‘ علامہ صابونیؒ ‘ مولانا ثناء اللہ أمر تسریؒ نواب صدیق الحسن خانؒ ‘شیخ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ ‘ علامہ وحید الزمانؒ ‘ مولانا پیر کرم شاہ صاحبؒ اور مولانا مفتی شفیع صاحبؒ وغیرہم کا ہے ۔مقاتل بن حیانؒ ‘ بیضاوی اور أبو سعود ؒ کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ ان حضرات کارجحان بھی اسی قول کی طرف ہے۔ ہدایت کا یہ معنی قرآن کی دوسری آیات سے بھی واضح ہے جیسا کہ امام ا بن کثیرؒ لکھتے ہیں :
أی بینا لہ و وضحنا ہ و بصرناہ بہ کقولہ تعالی جل و علا أما ثمود فھدیناھم فاستحبوا العمی علی الھدی ( تفسیر ابن کثیر: سورۃ الإنسان: ۳)
’’ہدایت سے مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کے لیے اس رستے کو بیان اور واضح کر دیا اور اسے وہ رستہ دکھا بھی دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے :جہاں تک قوم ثمود کا معاملہ ہے پس انہوں نے ہدایت کے بالمقابل اندھے پن کو پسند کیا۔‘‘
۲) دوسرا قول یہ ہے کہ رستے کی ہدایت سے مراد انسان کا اپنے ماں کے پیٹ سے نکلنا ہے۔امام ابن کثیرؒ نے اس قول کو غریب قرار دیاہے ۔وہ لکھتے ہیں:
و روی عن مجاہد و أبی صالح و الضحاک و السدی أنھم قالوا فی قولہ تعالی إنا ھدیناہ السبیل یعنی خروجہ من الرحم وھذا قول غریب و الصحیح المشھور الأول۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۃ الإنسان: ۳)
’’مجاہد ؒ ‘أبو صالحؒ ‘ ضحاکؒ اور سدیؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد انسان کا اپنی ماں کے پیٹ سے نکلنا ہے اور یہ قول غریب ہے جبکہ پہلا قول ہی صحیح اور معروف و مشہور ہے۔‘‘
۳) تیسرا قول اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ ہدایت سے مراد الہام ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیرو شر کا علم الہام کردیا ہے اور انسان سے اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ ہے کہ وہ اس فطری خیر و شر کی پابندی کرے۔یہ تفسیر مولانا اصلاحی ؒ ‘ مولانا مودودیؒ اور جناب غامدی صاحب کی ہے ۔ اس آیت مبارکہ کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) ہدایت کا لفظ عربی زبان ‘ قرآن اور سنت میں اکثرو بیشتر رہنمائی کرنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہی اس کا حقیقی معنی ہے اور جب تک قرآن کے الفاظ سے حقیقی معنی مراد لیا جا سکتا ہو اس وقت تک اس سے مجاز مراد لینا صحیح نہیں ہے۔ قرآن کے کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کسی بھی کلام میں اصل حقیقت ہوتی ہے جبکہ مجاز مراد لینے کے کوئی دلیل چاہیے۔
۲) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ’السبیل‘ کالفظ استعمال کیا ہے جواس بات کا قرینہ ہے کہ اس رستے سے مراد شریعت کا بتایاہوارستہ ہے کہ جس میں خیر وشر دونوں کو واضح کر دیا گیاہے نہ کہ فطری خیر و شرمراد ہے۔کیونکہ فطری خیر و شر کی طرف اشارہ کرنا اگر مقصود ہوتا تو اس کے لیے ’السبیلین‘ کا لفظ زیادہ مناسب تھا جیسا کہ سورۃ البلد میں ’النجدین‘ کا لفظ استعمال کیاگیاہے۔ علامہ ابن جوزیؒ ‘ نسفیؒ ‘ محلیؒ ‘ بیضاویؒ ‘ زمخشریؒ ‘ أبو حیان الأندلسیؒ ‘واحدیؒ ‘ طنطاویؒ اور علامہ أبوبکرؒ الجزائریؒ وغیرہ نے ’السبیل‘ سے شریعت یا ہدایت یعنی ایک رستہ مراد لیا ہے جبکہ مفسرین کی ایک دوسری جماعت نے’ السبیل‘ سے مراد خیر وشر یا ہدایت و ضلالت یعنی دو رستے مراد لیے ہیں لیکن ان حضرات سلف کے نزدیک خیر و شر کے یہ دونوں رستے ایک ہی رستے یعنی شریعت سے معلوم ہوئے ہیں۔ لہٰذا سلف کا اختلاف لفظی ہے سب کے نزدیک ’السبیل‘ سے ایک ہی رستہ مراد ہے ۔
۳) آیت کا سباق ’فجعلناہ سمیعا و بصیرا‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد وہ ہدایت کہ جس کے حصول کا ذریعہ حواس یعنی سماعت و بصارت ہو اور ایسی ہدایت انبیا و رسل کی دی ہوئی اخبار یا اللہ کا اتارا ہوا کلام ہی ہوسکتی ہے۔
۴) آیت کا سیاق ’إنا أعتدنا للکفرین سلسلا وأغلالا و سعیرا‘ بھی اس مسئلے میں واضح قرینہ ہے کہ پچھلی آیت میں ہدایت سے مراد شرعی ہدایت ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس ہدایت کی ناشکری کرنے والوں کو کافر کہا ہے اور جہنم کی وعید سنائی ہے جبکہ فطری علم کا منکر کسی کے نزدیک بھی کافر نہیں ہے اورہم نصوص قرآنیہ سے یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ آخرت کی سزا صرف شرعی علم و ہدایت کے پہنچنے کے بعد ہے۔
۵) آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے ساتھ ’السبیل‘ کالفظ استعمال کیا ہے جو اس بات کا صریح قرینہ ہے کہ یہاں الہام مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اہل عرب جب ہدایت کے لفظ کے ساتھ ’سبیل ‘ یا ’طریق‘ کے لفظ کو بطور مفعول استعمال کرتے ہیں تو اس وقت ہدایت سے ان کی مراد اس رستے کو واضح کرنا اور بیان کرنا ہوتاہے جیسا کہ معروف عربی لغات معجم مقاییس اللغۃ‘ لسان العرب اورا لقاموس المحیط وغیرہ میں ہے علاوہ ازیں اگر ہدایت کو الہام کے معنی میں لے بھی لیا جائے تو پھر رستے کے الہام کے کیا معنی ہوئے ؟
۶) اگر تو ہدایت سے مراد اس کا حقیقی معنی یعنی وضاحت ‘ بیان اور رہنمائی مراد ہو تو پھر ’السبیل‘ کامطلب بھی واضح ہے۔لیکن اگر ہدایت سے وہ معنی مراد لیا جائے جو کہ غامدی صاحب لیتے تو بغیر محذوف نکالے وہ معنی مراد لینا ممکن نہیں ہے۔ مثلاً ہدایت کو الہام کے معنی میں لینے کی صورت میں سبیل سے پہلے علم اور بعد میں خیر و شر کے الفاظ محذوف نکالنے پڑیں گے اور تقدیرعبارت ’ھدیناہ علم سبیل الخیر و الشر‘ ہو گی۔سبیل کے بعد خیر و شر کو بعض علمائے سلف نے محذوف مانا ہے لیکن خیر وشر کو محذوف ماننے کے باوجود ہدایت سے الہام کا معنی لینا اس وقت تک درست نہیں ہے جب تک کہ سبیل سے پہلے بھی علم کو محذوف نہ مان لیا جائے۔ اورعلم کو یہاں کسی نے بھی محذوف نہیں مانا۔ علاوہ ازیں اتنے محذوفات نکالنے کی دلیل کیا ہے؟ کیونکہ کلام میں اصل یہ ہے کہ اس میں حذف نہیں ہوتا اور کچھ محذوف نکالنے کے کوئی قرینہ یا دلیل چاہیے ہوتی ہے۔
ہمیں ا س سے انکار نہیں کہ ہدایت کے لفظ کا بعض سلف نے الہام بھی معنی کیا ہے لیکن ان کی مراد اس الہام سے توفیق الٰہی ہوتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان کے دل میں کوئی بات ڈال کر اسے کوئی کام کرنے کی توفیق دے دیتے ہیں جیسا کہ امام ابن تیمیہؒ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں لکھا ہے۔سلف کی بعض عبارات میں الہام کے الفاظ استعمال کرنے سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے خیر اور شر کو انسان کی پیدائش کے وقت اس کے دل میں ڈال دیاہے جیسا کہ معتزلہ کا خیال ہے،بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقت میں ایک خاص شخص کے دل میں کوئی بات ڈال دی ۔
تیسری دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں تیسری دلیل کے طور پر سورۃ البلد کی آیت ’و ھدیناہ النجدین‘ کو بیان کیا ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مفسرین کے چار اقوال ہیں :
۱) اس آیت میں ہدایت سے مراد واضح کرنااوربیان کرنا ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کے دونوں رستوں کو اپنی شریعت کے ذریعے واضح اور بیان کر دیا ۔امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
و ھدیناہ النجدین یعنی الطریقتین طریق الخیر و طریق الشر أی بینا ھما لہ بما أرسلناہ من الرسل (تفسیر قرطبی: سورۃ البلد: ۱۰)
’’اور ہم نے ان کی دو رستوں کی طرف یعنی خیر اور شر کے رستوں کی طرف رہنمائی کی یعنی ہم نے ان دونوں رستوں کو اس وحی سے واضح کر دیا کہ جس کے ساتھ ہم نے رسولوں کو بھیجا ہے ۔ ‘‘
یہ رائے مقاتلؒ ‘ الثعلبیؒ ‘ مجد الدین فیروز آبادیؒ ‘ ابن عطیہؒ ‘ سمر قندیؒ ‘ ابن جوزیؒ ‘فراءؒ ‘ الثعالبیؒ ‘واحدی ؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ طنطاویؒ ‘ عبد الرحمن بن ناصر السعدیؒ ‘ علامہ وحید الزمان ؒ ‘ مولانا مودودیؒ اورمولاناپیر کرم شاہ صاحبؒ کی ہے ۔ان کے علاوہ ابن عباسؓ ‘ عبد اللہ بن مسعودؓ ‘مجاہدؒ ‘ ضحاکؒ ‘ عکرمہؒ ‘ ابن زیدؒ ‘ ربیع بن خثیمؒ ‘ عطاا لخراسانیؒ ‘ أبو صالح ؒ ‘ محمد بن کعبؒ ‘ أبو وائلؒ ‘ حسن بصریؒ ‘ ابن قتیبہؒ ‘ فراءؒ ‘ نسفیؒ ‘عز بن عبد السلام ؒ ‘ طبریؒ ‘ زمخشریؒ ‘ رازیؒ ‘خازنؒ ‘ ابن عادل الحنبلیؒ ‘ نواب صدیق الحسن خانؒ اور أبو مسعود ؒ کا رجحان بھی اس طرف ہے ۔
۲) ’و ھدیناہ النجدین‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی رہنمائی اس کی پیدائش کے وقت اس کی ماں کی چھاتیوں کی طرف کی ہے کہ جہاں سے وہ اپنی خوراک حاصل کر سکتا ہے ۔ یہ رائے ابن عباسؓ ‘ علیؓ ‘ سعید بن مسیبؒ ‘ قتادۃ ؒ ‘ ضحاکؒ ‘ ربیع بن خثیم ؒ اور أبو حاتمؒ سے مروی ہے ۔امام بیضاویؒ اور امام بن کثیر ؒ کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ دونوں اقوال درست ہیں ہمارے نزدیک بھی یہ قول راجح ہے کہیہ دونوں اقوال اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے دو مصداقات ہیں۔
۳) تیسرا قول اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں یہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد الہام ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں خیر و شر کاعلم القاء کر دیا ہے ۔یہ رائے البقاعیؒ ‘ ابن عجیبہؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘جمال الدین قاسمیؒ ‘احمد مصطفی المراغیؒ ‘ مولانا اصلاحیؒ اور غامدی صاحب کی ہے۔
۴) مولانا مفتی شفیع صاحبؒ ‘ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ‘نواب صدیق الحسن خانؒ اور علامہ ابو بکر الجزائری کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں ہدایت سے مراد فطری اور شرعی ہدایت دونوں ہیں۔لیکن ان حضرات کے نزدیک فطری ہدایت سے مرادشرعی خیرو شر کی طرف میلان و رجحان کا مادہ و استعداد ہے جیسا کہ فطرت کی بحث میں ہم تیسرے قول کی تشریح میں پڑھ چکے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں تیسرا قول درست نہیں ہے اور اس کے درج ذیل دلائل ہیں :
۱) ہم یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ ہدایت کا حقیقی معنی واضح کرنا ‘بیان کرنا اور رہنمائی کرنا ہے جبکہ الہام اس کا مجازی معنی ہو گا اور جہاں حقیقت مراد لینا ممکن ہو وہاں مجاز ی معنی کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کلام میں اصل حقیقت ہے۔
۲) ہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ اہل عرب جب ہدایت کے لفظ کے ساتھ ’سبیل ‘ یا ’طریق‘ کے لفظ کو بطور مفعول استعمال کرتے ہیں تو اس وقت ہدایت سے ان کی مراد اس رستے کو واضح کرنا اور بیان کرنا ہوتاہے جیسا کہ معروف عربی لغات معجم مقاییس اللغۃ‘ لسان العرب اورالقاموس المحیط وغیرہ میں ہے ۔
۳) اگر اس آیت میں ہدایت سے مرادفطری ہدایت لے بھی لی جائے تو پھر بھی اس سے مراد کسی خیر و شر کا علم نہ ہو گا بلکہ اس سے مراد وہ ہدایت ہو گی کہ جس کا تذکرہ ’وأعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی‘ میں ہے۔اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے جن و انسان حتی کہ حیوانات تک کو فطری ہدایت دی ہے اور اس فطری ہدایت سے مراد ان بنیادی چیزوں کی طرف ہر ایک نوع کے افرادکا رجحان و میلان ہے جو کہ ان کے درمیان مشترک ہیں۔جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے ’حجۃ اللہ البالغۃ ‘ میں اس کی وضاحت کی ہے ۔اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ پیدائش کے وقت ہر بچہ منہ مارتا ہے۔ اب بچے کا منہ مارنا اس کی فطرت ہے لیکن بچے کو یہ علم نہیں ہے کہ اس نے اپنا منہ کہاں مارنا ہے یا وہ کون سی جگہ ہے جہاں سے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتا ہے، لہٰذا بچہ نہ تواپنی غذا اپنے ساتھ لے کردنیا میں آتا ہے اور نہ ہی وہ یہ شعور رکھتا ہے کہ اسے اس کی غذا کہاں سے ملے گی اور کون سی غذا اس کے جسم کے لیے صالح ہے یہ بھی اس کے علم میں نہیں ہوتا۔اگر بچے کو ایسی غذا مل جائے جو کہ اس کے جسم کے لیے نفع بخش ہو جیسے کہ ماں کا دودھ ہے تو یہ غذا حاصل کر کے اس کے جسم کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور اس کا جسم اس غذا کو قبول کرتا ہے۔اسی طرح ہر انسان میں پیدائشی طور پر خیر کوحاصل کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن انسان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ خیر اس کو کہاں سے ملے گااس کے لیے وہ اللہ کی وحی کامحتاج ہوتا ہے ۔ اور جب بذریعہ وحی اس کو کوئی خیر ملتا ہے تو اس کی طرف انسان اپنی فطرت میں ایک رجحان محسوس کرتا ہے ۔ اس شرعی خیر پر عمل اس کے جسم کے لیے نفع بخش ہوتا ہے اور اس پر عمل سے اس کو اپنے نفس میں اطمینان و سکون حاصل ہوتا ہے۔
۴) اگر بفرض محال یہ مان بھی لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم ودیعت کردیا ہے تو پھر بھی اس آیت سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس بات کاپابند بھی بنایا ہے کہ وہ اپنے اس فطری علم کے مطابق زندگی گزارے اور نہ ہی اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان سے اس کے اس فطری علم کی بنیاد پر آخرت میں کچھ مواخذہ بھی فرمائیں گے۔
چوتھی دلیل: غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں منظور الحسن صاحب کی چوتھی دلیل سورۃ القیامۃ کی آیت ’بل الإنسان علی نفسہ بصیرۃ‘ ہے۔
ہمار جواب یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علماء کے تین اقوال ہیں:
۱) اس قول کے مطابق اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال سے خوب واقف ہے او ر وہ قیامت کے دن بذات خود ان پر گواہ ہو گا۔یہ رائے أبو العالیہؒ ‘ عطاءؒ ‘ ابن کثیر ؒ ‘ زمخشریؒ ‘ اخفشؒ ‘ عز بن عبد السلامؒ ‘ فیروز آبادیؒ ‘ سمر قندیؒ ‘ فراءؒ ‘ أبو حیانؒ ‘أبو سعودؒ ‘ ابن عجیبہؒ ‘ ابن عاشورؒ ‘ آلوسیؒ ‘ طنطاویؒ ‘ شنقیطیؒ ‘ مولانا ثناء اللہ ؒ ‘ صابونیؒ ‘سعدیؒ ‘مولانا وحید الزمان ؒ ‘مولانا پیر کرم شاہ صاحبؒ ‘ مولاناشبیر احمد عثمانیؒ ‘مولانا مودودیؒ ‘ مولانا مفتی شفیع صاحبؒ ‘ کا ہے ۔اس قول کے قائلین نے اپنے موقف کی تائید میں آیت قرآنی ’کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا‘ کو نقل کیا ہے۔
۲) بعض مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراداس کے اعضاء و جوارح ہیں جو کہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے جیسا کہ ’ألیوم نختم علی أفواھھم و تکلمنا أیدیھم و تشھد أرجلھم بما کانوا یکسبون‘ وغیرہ جیسی آیات میں مذکور ہے ۔یہ قول ابن عباسؓ ‘ سعید بن جبیرؒ ‘ ابن قتیبہؒ ‘ مقاتلؒ ‘ عکرمہ ؒ ‘ا لثعلبیؒ ‘قرطبیؒ ‘ بیضاویؒ ‘محلی ؒ ‘ نسفیؒ ‘ خازنؒ ‘ واحدی‘ؒ المراغیؒ اور الجزائریؒ کا ہے۔ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کا بیان ہیں۔ لہٰذا اس آیت کی تفسیر میں یہ دونوں اقوال ہی درست ہیں ۔
۳) اس قول کے مطابق آیت کی تفسیر یہ ہے کہ آیت میں لفظ ’بصیرۃ‘ سے مراد فطرت انسانی میں موجود خیر و شر کاعلم ہے۔جس کی روشنی میں انسان دنیا میں ہی اپنے نفسانی اعمال کا جائزہ لے سکتا ہے۔ اس قول کو البقاعیؒ اورا صلاحیؒ صاحب نے اختیار کیا ہے ۔ابن عطیہ ؒ نے احتمال کے الفاظ کے ساتھ اس سے ملتی جلتی بات کہی ہے ۔ ہمارے خیال میں اس آیت کی تفسیر میں تیسرا قول بعیداز قیاس ہے اور اس کی درج ذیل وجوہات ہیں :
۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ‘ میں ’بل‘ انتقال کے لیے ہے لیکن اس کے باوجود ’ینبؤ الانسان یو مئذ بما قدم و أخر‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ آیت آخرت کے بارے میں ہے کیونکہ انتقال سے مراد مضمون کلام میں انتقال ہے نہ کہ موضع میں ۔
۲) ’بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ‘کے بعد ’ولو ألقی معاذیرہ‘ بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ آیت آخرت کے بارے میں ہے نہ کہ اس میں دنیا کا معاملہ بیان ہو رہا ہے۔تقریبا تمام مفسرین نے بھی اس آیت کو آخرت سے ہی متعلق کیاہے ۔
۳) آیت میں موجود لفظ ’بصیرۃ‘ سے خیر و شر کا علم مراد لینے کے بھی کوئی شرعی دلیل یا قرینہ چاہیے چہ جائیکہ اس آیت کو فطری علم کے وجود کی دلیل بنایا جائے۔جمہور مفسرین نے ’بصیرۃ‘ سے مراد ’شاہد‘ یعنی گواہ لیا ہے جبکہ بعض مفسرین نے ’عین‘ محذوف نکال کر ’عین بصیرۃ‘ مراد لی ہے۔ پہلا معنی مجازی ہے اور علاقہ ملازمت کا ہے کیونکہ کوئی بھی گواہ ایسا نہیں ہوتاجو کہ دیکھنے والا نہ ہو۔کسی فعل یا واقعے کا گواہ کہتے ہی اس کو ہیں کہ جس نے اس کو دیکھا ہے جبکہ دوسرا معنی حقیقی ہے اور مراد یہ ہے کہ ہر انسان کی آنکھ اس کے اعمال کو دیکھ رہی ہے اور قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گی۔ ’بصیرۃ‘ سے خیر و شر کا علم مراد لینا اس کا مجازی معنی ہے کہ جس کے لیے کوئی قرینہ چاہیے۔
پانچویں دلیل: منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کے تصور فطرت کے دفاع میں پانچویں دلیل کے طور پر سورۃ أعراف کی آیت مبارکہ ’فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سوآتھما فطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ‘ نقل کی ہے ۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ :
۱) منظور صاحب کا قرآن کی اس آیت سے غامدی صاحب کے تصور فطرت پر استدلال ایسا ہی ہے جیساکہ منکرین حجاب کا ’فتمثل لھا بشرا سویا‘ سے حجاب کے عدم وجوب پر استدلال ہے ۔ایک دفعہ راقم الحروف کوایک صاحب نے لکھا کہ قرآن سے یہ ثابت ہوتاہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ نہیں ہے اور اس کی دلیل قرآن سے یوں دی کہ قرآن میں ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جب فرشتے آئے تھے توان کی اہلیہ بھی پاس موجود تھیں اور انہوں نے فرشوں سے پردہ نہیں کیا۔ اسی طرح قرآن میں یہ بھی ہے کہ حضرت مریم ؑ کے پاس حضرت جبرئیل ؑ تنہائی میں آئے تو انہوں نے پردہ نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت موسی ؑ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ انہوں نے دو عورتوں کی بکریوں کو پانی پلا دیا تھا اور ان دونوں عورتوں نے حضرت موسی ؑ سے پردہ نہیں کیا تھا ۔
۲) ہم یہ بات مانتے ہیں کہ ہر انسان میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے احکامات کی طرف ایک فطری رجحان رکھ دیا ہے، لہٰذا حضرت آدم ؑ کا اپنے جسم کو جنت کے پتوں سے چھپانا اسی فطرت کی وجہ سے تھا کہ جس کی تشریح ہم فطرت کے باب میں تیسرے قول کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں ۔اپنے جسم کو چھپانا انسان کی فطرت بھی ہے لیکن شریعت نے بھی ہمیں اس کاحکم دیا ہے اور اس شرعی حکم کی بنیاد پر جسم نہ چھپانے کی صورت میں ہم سے آخرت میں مواخذہ ہوگا۔
۳) اس آیت مبارکہ میں تو صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ حضرت آدم ؑ اور ہوا ؑ نے اپنی شرم گاہوں کو چھپانا شروع کر دیا تھا ۔کیا مرد و عورت اپنے فطری علم کے مطابق صرف اپنی شرم گاہوں کو چھپائیں اور جسم کے باقی اعضا کو ظاہر کرنے میں کوئی شرم و جھجک محسوس نہ کریں۔اس قسم کی آیات سے اس طرح کے استدلالات سے اہل مغرب کی فطرت کو تو شاید کچھ فائدہ ہوجائے اور ان کی فطرت ‘اپنے باپ حضرت آدم ؑ کے مطابق بھی ثابت ہو جائے لیکن اہل اسلام کو سوائے‘عریانی ‘ فحاشی اور کتاب وسنت کی خلاف ورزی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
۴) اس آیت سے غامدی صاحب کا یہ تصور ثابت نہیں ہوتا کہ فطرت انسانی سے جو علم حاصل ہو اس کے مطابق زندگی گزارنے کو کسی وحی کے پہنچنے سے پہلے بھی ہر انسان پر لازم قرار دیاگیاہے اور اس فطری علم پر عمل نہ کرنے کی صورت میں آخرت میں مواخذہ بھی ہو گا۔
چھٹی دلیل: جناب منظور صاحب نے غامدی صاحب کے دفاع میں بعض علما کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ یہ علما مولانا اصلاحیؒ ‘ مولانا مودودیؒ ‘ مفتی شفیع صاحبؒ ‘ مولانا شبیر احمدعثمانیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ ہیں ۔مولانا اصلاحیؒ اور مولانا مودودیؒ کے بارے میں تو ہم پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں کہ فطری خیر وشر کے بارے میں ان حضرات کے تصورات وہی ہیں جو کہ غامدی صاحب کے ہیں۔ جہاں تک مفتی شفیع صاحبؒ اور مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی عبارات کا معاملہ ہے تو وہ خیر وشر کے مسئلے میں غامدی صاحب کے تصور فطرت کی تائید نہیں کر تیں بلکہ یہ عبارات درحقیقت فطرت کے اس تصور کو پیش کر رہی ہیں جسے ہم نے فطرت کی بحث میں تیسرے قول کے ذیل میں بیان کیاہے ۔شاہ ولی اللہؒ کی’حجۃ اللہ البالغۃ‘ کی عبارات اس مسئلے میں کافی پیچیدہ ہیں:
پہلی صورت تو یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کی ان عبارات کو ان کے ظاہری مفہوم پر محمول کیا جائے تو اس صورت میں غامدی صاحب کا موقف وہی ہے جو کہ شاہ صاحبؒ کا تھا۔لیکن اس صورت میں شاہ صاحب کایہ موقف شاذ ہے اور خود شاہ صاحبؒ کے بقول ان کا یہ موقف قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ شاہ صاحب نے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ اگر ان کی کوئی رائے جمہور علما کے موقف کے خلاف ہو جائے تو اس کو رد کر دیاجائے۔ اور جمہور کیا اس مسئلے میں جمیع اہل سنت ماتریدیہ ‘ اشاعرہ اورسلفیہ کا موقف ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ جس کے مطابق أخروی جزا و سزا عقلی خیرو شر کی بجائے نبوت اور دعوت کے پہنچنے کے بعد ہے ۔شاہ صاحب ؒ لکھتے ہیں :
’’سن لو! میں ہر س بات سے بری ہوں جو بات مجھ سے قرآن و سنت کے خلاف یا خیر القرون کے اجماع کے مخالف یا جمہور مجتہدین اور مسلمانوں کے سواد اعظم کے خلاف صادر ہو گئی ہو۔اگر اس قسم کی کوئی بات مجھ سے صادر ہوئی ہو تو وہ خطا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرے اور ہماری کوتاہیوں پر متنبہ کرے۔ ‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ‘ جلد۱‘ ص۲۰)
دوسری صورت یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ کی ان عبارات کی کوئی مناسب تاویل کی جائے۔شاہ صاحب ؒ نے اپنی کتاب ’المسویٰ‘ میں فطرت کا وہی معنی بیان کیا ہے جو کہ جمہور نے مراد لیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’سب سے صحیح قول جو کہ اس حدیث کی شرح میں بیان کیاگیاہے وہ یہ ہے کہ فطرت سلیمہ دین حق کے لیے ایک رستے اور سبب کی حیثیت رکھتی ہے اور بچہ صحیح و سالم صلاحیت اور دین کو قبول کرنے کے لیے تیار طبیعت لے کر پیدا ہوتا ہے ۔اگر بچے کواس کی اس فطرت پر چھوڑ دیاجائے تووہ اس پر برقرار رہے گا اور کسی دوسرے دین کی طرف متوجہ نہ ہوگا۔اگر کوئی شخص اپنی اس فطرت سے پھرے گا تو وہ ارتقاء کی آفات میں سے کسی آفت یا والدین کی تقلید کی وجہ سے پھرے گا۔اور بچے میں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہوتی جو کہ اس کے لیے ایمان لانے کے حکم کوواجب کرے اور نہ ہی فطرت دین کوقبول کرنے کے لیے کوئی قطعی علت ہے بلکہ اس حدیث سے اصل مقصود دین اسلام کی تعریف اور یہ بیان کرناہے کہ اس دین کا محل عقل ہے اور اس کا حسن نفوس انسانیہ میں موجود ہے۔‘‘ (المسویٰ شرح المؤطا‘ کتاب الصلاۃ‘ باب جامع الجنائز)
شاہ صاحب ؒ کے ’المسوی‘ کے قول کو بنیاد بناتے ہوئے مفتی شفیع صاحبؒ نے’ معارف القرآن‘ میں، مولانا ادریس کاندھلویؒ نے ’التعلیق الصبیح‘ میں اور مولانا عبیداللہ مبارکپوریؒ نے ’مرعاۃ المفاتیح‘ میں شاہ صاحب کی’ حجۃ اللہ البالغۃ‘ کی عبارات کی تاویل کرتے ہوئے ان کے نزدیک فطرت کا وہی مفہوم بیان کیا ہے جس کو جمہور نے بیان کیا ہے اور خود شاہ صاحبؒ نے بھی’المسوی‘ میں اسی کو اختیار کیاہے۔
شاہ صاحب ؒ کے ’حجۃ اللہ البالغۃ‘ اور ’المسوی‘ کے اقوال میں تطبیق کی ایک تیسری صورت جو کہ راقم الحروف کے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ ’المسوی‘ میں شاہ صاحبؒ نے فطرت کو جمہور کے قول کے مطابق ایک دین حق کی قبولیت کے لیے ایک رستہ اور استعداد قراردیا ہے جبکہ ’حجۃ اللہ البالغۃ‘میں شاہ صاحبؒ نے یہ واضح کیا ہے کہ اپنی فطرت سلیمہ کی بنیاد پر انسان دین اسلام کے کون کون سے احکامات کی طرف میلان اور رجحان محسوس کرتا ہے ۔شاہ صاحبؒ کے نزدیک انسان اپنی فطرت کی وجہ سے دین اسلام کے ان کلی اصولوں کی طرف اپنے نفس میں ایک رجحان و میلان محسوس کرتا ہے جو کہ تمام انبیا کے دین میں مشترک رہے ہیں۔اور اگر انسان اپنے اس فطری رجحان پر انبیاء کی بعثت سے پہلے عمل نہ کرے گا تو اس کے دنیاوی نتائج برے نکلیں گے جس کو شاہ صاحب ؒ نے ’مؤاخذۃ‘ کا نام دیا ہے ۔شاہ صاحبؒ بعض اوقات’حجۃ اللہ البالغۃ‘ میں مؤاخذۃ اورمجازاۃ کے الفاظ استعمال کر تے ہیں تو ان کی مراداس سے کوئی اخروی عذاب یا محاسبہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس سے دنیامیں انسان کو اس کے اعمال کا ملنے والا بدلہ مراد لے رہے ہوتے ہیں، جیسا کہ شاہ صاحب ؒ نے ’مبحث کیفیۃ المجازاۃ فی الحیاۃ و بعد المماۃ‘ کے عنوان سے’ حجۃ للہ البالغۃ‘ میں ایک مبحث قائم کی ہے۔ لہٰذاشاہ صاحبؒ کا یہ کہنا کہ انبیا کی بعثت سے پہلے بھی خیر وشر کے کلی اصولوں میں انسانوں سے ’مؤاخذۃ‘ثابت ہے‘ اس سے ان کی مراد انبیا کی بعثت سے پہلے اپنے فطری رجحان کے خلاف چلنے والے انسانوں کے افعال کے دنیاوی نتائج یعنی دنیاوی جزا و سزاہے۔واللہ أعلم بالصواب۔
(باقی)