بجلی کا بحران ۔ چند تجاویز

پروفیسر محمد شفیق ملک

اس وقت ملک عزیز میں جمہوری حکومت کی تشکیل مکمل ہوچکی ہے اور وزیراعظم پاکستان جناب یوسف رضاگیلانی نے مسائل اورپریشانیوں میں مبتلاپاکستان کے شہریوں کے لیے کچھ فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ٹریڈیونین اور طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ ساتھ ورکرز کی بنیادی تنخواہ چھ ہزار روپے ماہانہ کرنے کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت عوام کی توقعات پر پوری اترے گی اور قوم کو خوشحالی کی طرف لے جائے گی۔ انہوں نے توانائی کی بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کااعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی نیک نیتی شک سے بالاتر ہے، ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی کابینہ کوجرات مندانہ فیصلے کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین ۔ 

پاکستان میں ہرحکومت عوام کے مسائل حل کرنے کے وعدے اورکسی حد تک کوشش بھی کرتی رہی ہے، لیکن ساٹھ سال گزرنے کے باوجود پاکستان آج بھی دنیاکے پس ماندہ ترین ملکوں کی فہر ست میں قابل افسو س مقام پر کھڑا ہے۔ اس وقت ہمارا ملک توانائی کے شدید بحران میں مبتلاہے، بجلی کی کمی نے ملک کی معیشت کوہلاکررکھ دیا ہے،ہزاروں کی تعداد میں مزدور بے روزگارہوگئے ہیں، اکثر فیکٹریوں کی پیداوار نہ ہونے کے برابرہے، چھوٹے چھوٹے کاروبار تو بندہوچکے ہیں، مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام دن رات کی تگ ودو کے بعد بمشکل روٹی حاصل کرپاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ساٹھ سال کے عرصہ میں آج تک مستقبل کی ضروریات کومدنظر رکھ کر بجلی پیداکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ توانائی کے بحران پر قابو پانا ہے جوکہ انتہائی مشکل اورکسی حدتک ناممکن نظر آتاہے ۔ وفاقی کابینہ نے کچھ اقدامات فوری طورپر کرنے کی منظوری دی ہے جن پر کام شرو ع ہوچکاہے لیکن اس مسئلہ میں حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کابھی فرض ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں تعاون کرے۔ حکومتی دعوے اور کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ان کو عوام کی خدمت حاصل نہ ہو۔ فوری طورپر بڑے ڈیم بنانا ناممکن ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر حصوں میں آٹھ سے سولہ گھنٹے تک بجلی غائب رہتی ہے۔ فوری قابوپانے کے لیے کچھ ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی جرم کے مترادف ہوگی۔ حکومتی مشیزی کے ماہرین اگرچہ جانتے ہیں کہ اس کافوری حل ممکن نہیں کیونکہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں زیادہ تر ڈنگ پٹاؤ پالیسیاں ہی جاری رکھیں گئی اوردوسرا آمروں نے اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ اب جبکہ جمہوری حکومت ہے اورپاکستان کی تاریخ میں پہلی حکومت ہے جسے تقریباًتمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے اورملک کی بڑی پارٹیوں کی نمائندگی بھی شامل ہے، اس حکومت کے ماہرین معاشیات اور منصوبہ سازوں کو ٹھوس اور طویل المیعاد پالیسیاں بنانی ہونگی۔ ملک سے بجلی کی قلت کودور کرنے کے لیے صرف اور صرف ملکی مفاد کو سامنے رکھنا ہوگا۔ بڑے ڈیم اورمنصوبے مکمل ہونے میں دیرلگے گی، جبکہ پچاس فی صد سے زائد بجلی کی قلت کامسئلہ حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرناہوگا۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز ہیں جومعاون ثابت ہوسکتی ہیں :

۱۔ سرکاری دفاتر کے اوقات کارمیں ایک گھنٹہ کی کمی کردی جائے۔

۲۔ فوری طورپر تمام سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں ہفتہ وار دوچھٹیاں کردی جائیں۔

۳۔تمام قسم کے جنریٹروں سے ہرقسم کی ڈیوٹی اور ٹیکس فوری طورپر ختم کردیے جائیں۔

۴۔ بڑے صنعتی یونٹوں کواپنی بجلی پیداکرنے کے لیے یونٹ لگانے کی ا جازت دی جائے۔

۵۔ شادی بیاہ پر چراغاں اور غیر ضروری بجلی کے استعمال پر سخت پابندی لگائی جائے۔

۶۔ عام بلب بنانے کے تمام یونٹ بند کر کے سٹاک ضائع کر دیا جائے اور انرجی سیور کے استعمال کو رواج دیا جائے۔

۷۔ایسے مکانات، پلازے اور ہوٹل بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے جن میں دن کے وقت روشنی نہ آسکے اور بجلی کے استعمال کی ضرورت پڑے۔

۸۔ ڈیزل اور پٹرول سے ہرقسم کے ٹیکس ختم کرکے ان کو مناسب قیمت پر لایا جائے۔ 

۹۔ نندی پور بجلی گھر کی طرح کے چھوٹے چھوٹے پاور سٹیشن فوری طورپر لگائے جائیں۔

۱۰۔ واپڈا کے اندر کالی بھیڑوں کی کمی نہیں جو بجلی چوری کرواتے ہیں۔ اس طرح چوری کی بجلی استعمال کرنے والے بجلی کا ضیاع کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوبعض اوقات بااثر افراد بشمول افسران اور سیاست دانوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ حکومت میں شامل لوگ ان کی سرپرستی نہ کریں، بلکہ ان کی نشاندہی کر کے ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ 

۱۱۔ تمام سرکاری افسران، وزرا، اعلیٰ حکومتی عہدے داران اور آرمی افسران کے سرکاری دفاتر سے AC کی سہولت فوری طورپر ختم کر کے پا بندی لگا دی جائے، خلاف ورزی پر سخت سرزنش کی جائے۔

اس مہم میں عوام کوبھی حکومت سے تعاون کرنا ہوگا، گھیراؤ جلاؤ کی پالیسی ترک کرکے حکومت کی کوششوں میں اس کا ساتھ دینا ہوگا۔ عوام کو اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ پرتعیش زندگی گزارنے کی عادات پر قابو پانا ہوگا۔ ACکے استعمال کوترک کرنا ہوگا تاکہ یہ بجلی کارخانوں کو چلانے میں کام آسکے۔ اپنے مکانات کو اس طرح بناناہوگا کہ دن کے وقت تمام کمروں میں سورج کی روشنی سے ہی کام چلایا جا سکے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ تاجر برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ دیکھا گیاہے کہ اکثر تجارتی مارکیٹیں اور بڑے بڑے کاروباری مرکز تنگ وتاریک گلیوں اور بازاروں میں ہیں جن کو روشن رکھنے کے لیے دکانداروں نے بڑے بڑے بلب لگا رکھے ہیں۔ اس رجحان کو بدلنا ہوگا۔ تاجر تنظیموں کو حکومتی اقدامات کا ساتھ دیتے ہوئے رات آٹھ بجے کے بعد دکانیں بند کرنا ہوں گی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ بہت سے کاروباری مرکز اور بڑی بڑی مارکیٹوں کے بعض دکاندار ہفتہ وار چھٹی نہیں کرتے۔ دکانداروں کوہفتے میں دو دن بازار بند رکھنا ہوں گے۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(مئی ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter