ثقافتی انقلاب کی ضرورت

ڈاکٹر محمد امین

پاکستان میں سیاسی تبدیلی عوام کے ہاتھوں آچکی۔ گو فوج کی لائی ہوئی آمریت اپنی بقا اور اپنی پالیسوں کے تسلسل کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ یہ بجھتی ہوئی شمع کی آخری بھڑک ہے۔ جب شاہوار ملک مشرق سے طلوع ہو چکا اور سپیدۂ سحر نمودار ہو چکا تو اب تاریکی کا وجود کیسے باقی رہ سکتا ہے؟ اس کا مقدر یہی ہے کہ کو نوں کھدروں میں چھپتی پھرے اور اپنی نیستی کو قبول کر لے۔ 

یہ بھی تسلیم کر لیجیے کہ یہ تبدیلی تھوڑی غیر متوقع اور قدرے حیران کن ہے۔ اگر چہ اس تبدیلی کے لیے کئی سیاسی قوتیں میدان میں تھیں اور کشمکش و مزاحمت عرصے سے جاری تھی لیکن یہ توقع پھر بھی بہت سے لوگوں کونہ تھی کہ یہ تبدیلی انتخابات کے ذریعے آئے گی اور رائے عامہ کے زور سے آئے گی کیونکہ آمریت نے اپنے بدیسی آقاؤں کی مرضی ، خواہش اور تعاون سے رائے عامہ کو دبانے، کچلنے اور غیر موثر کر نے کے سارے انتظامات باطمینان خاطر کر رکھے تھے اور ہر روزن بند کر نے کے بعد اس کی پوری کوشش تھی کہ روشنی کی کرن کہیں سے نہ پھوٹے لیکن بالآخر اسے انتخابات کروانے پڑے اور وہ بھی بڑی حد تک شفاف، جس کے نتیجے میں اس کا دھڑن تختہ ہوگیا۔

ہم اس مثبت تبدیلی کو سراہتے اور اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ تپتے ہوئے صحرا میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے جس نے میدان سیاست میں مشام جاں کو معطر کیا اور حیات نو کی نوید دی ہے، لیکن کیا اس سے ہمارے سارے زخم بھر جائیں گے، ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے؟ پُرامیدی اور خوش امیدی کے باوجود اس کا جواب ہاں میں دینا محض مبالغہ آرائی ہوگی۔ ہاں! یہ کہنا شاید صحیح ہو کہ سیاسی میدان میں یہ ایک مثبت پیش رفت کا آغاز ہے اور اگر سیاست میں یہ روش جاری رہتی ہے کہ انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں اور وہ شفاف بھی ہوں اور ان میں حقیقی رائے عامہ بھی ابھر کر سامنے آتی رہے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ کچھ بہتر ہوجائے، انسانوں کے رہنے کے قابل ہوجائے اورلوگوں کے دکھ درد میں کچھ کمی ہو جائے اور ان کے کچھ مسائل حل ہونے لگیں، لیکن سیاسی میدان میں یہ تبدیلی یا مثبت رجحان بہر حال کوئی امرت دھارا نہیں ہے کہ اس سے ہمارے سارے امراض کا علاج ہو جائے اور ہمارے سارے نظریاتی ،معاشرتی،معاشی، قانونی، تعلیمی، تربیتی مسائل حل ہوجائیں۔ خصوصاً اس حوالے سے سو چیے کہ ہمارا سیاسی نظام اصلاً مغربی جمہوریت پر مبنی ہے (اور ہم نے اپنے ہاں کے دینی عناصر اور دین پسند عوام کے دباؤ پر محض ان کی اشک شوئی کے لیے اس میں بعض اسلامی اجزا کا اضافہ کر رکھا ہے) جو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور مغرب کے لادین طرز حیات کا مظہر اور عکاس ہے۔ یوں جمہوریت محض ایک سیاسی نظام نہیں اور اسی طرح سرمایہ داری محض ایک معاشی سسٹم نہیں بلکہ یہ دونوں اس وحدت کے اجزا ہیں جسے ہم مغربی تہذیب کہتے ہیں اور مغربی تہذیب نام ہے ایک ملحدانہ ورلڈ ویو اور ایک لادین طرز زندگی کا جس کی بنیاد ہیومنزم، سیکولرزم، کیپٹل ازم، سائنس ازم جیسے ملحدانہ نظریات پر ہے۔ یو ں سمجھیے کہ مغربی تہذیب ایک دین ہے جو ساری انسانی زندگی کا احاطہ کرتا ہے، جو فرد اور اجتماع کے سارے اعمال کو کنٹرول کر تا ہے اور چونکہ یہ اس وقت غالب اور طاقتور ہے لہٰذا یہ ہر اس فکر، نظریے اور معاشرے کو کچل کر آگے بڑھ رہا ہے جو اس سے موافقت نہ کر ے یا اس کی راہ میں مزاحم ہو۔ لہٰذا مغربی جمہوریت کو محض ایک سیاسی نظام سمجھنا پہاڑ جتنی بڑی غلطی ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک پورا ’’دین‘‘ ہے اور مکمل طرز زندگی ہے جس کی دست برد سے فرد اور اجتماع کا کوئی معاملہ بچا ہوا نہیں ہے یا یوں کہیے کہ یہ ایک اکٹوپس (ہشت پا) ہے جس کے شکنجے سے نکل کر آپ کہیں نہیں جاسکتے۔

سیاسی تبدیلی مسئلے کا حل نہیں

آپ خود سوچیے! کیا اس جمہوری تبدیلی سے جو پاکستان میں آئی ہے، آپ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست ہوجائے گا اور جو فحاشی، عریانی اور ذہنی و فکری پراگندگی وہ پھیلا رہا ہے اسے بریک لگ جائے گی؟ کیا اس سیاسی تبدیلی سے آپ کا تعلیمی نظام ٹھیک ہو جائے گا، نصاب اسلام اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں کو پورا کر نے والا اور بچوں کو اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے والا بن جائے گا؟ کیا معیشت سے سود ختم ہو جائے گا اور افلاس کم ہو جائے گا اور غریبوں کے دن پھر جائیں گے؟ کیا اس جمہوری تبدیلی سے لوگوں کے اخلاق بہتر ہوجائیں گے اور وہ فراڈ، رشوت ، بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے باز آ جائیں گے؟ کیا اس سے چوریاں ، ڈاکے ، زنا اور قتل بند ہو جائیں گے ؟ معاف کیجیے گا، ان میں سے کچھ بھی نہ ہوگا۔ بدی کا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے گا۔

آپ یہ دیکھیے کہ ایم ایم اے کے نام سے پاکستان کی ساری بڑی دینی جماعتوں کا اتحاد ایک صوبے پر پانچ سال تک بر سراقتدار رہا، وہاں وہ کیا اسلامی اور تعمیری تبدیلی لاسکا؟ کچھ بھی نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا سارا ریاستی نظام اور آپ کا سارا معاشرتی سیٹ اپ مغربی فکر و تہذیب کے قائم کردہ اداروں کی گرفت میں ہے۔ آپ اگر مغربی جمہوریت کے تحت قائم کردہ سیاسی اداروں کو قبول کر کے اور ان سے مصالحت کرتے ہوئے سیاسی میدان میں کامیاب ہو بھی جائیں تو آپ مغربی فکرو تہذیب سے مختلف اور ان کی مخالف دینی، اخلاقی، تعلیمی، معاشرتی تعلیمات و اقدار کو معاشرے میں مقبول نہیں کراسکتے اور انہیں رائج اور نافذنہیں کر سکتے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ایم ایم اے یا دینی جماعتوں کو بالفرض پورے پاکستان میں بھی اقتدار مل جائے (جس کا پاکستان کی عملی سیاست میں دور دور تک کوئی امکان نہیں، پانچ دس فیصد بھی نہیں) تو پھر بھی وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے؟ (جس طرح کہ وہ صوبہ سرحد میں نہیں لا سکے) بس زیادہ سے زیادہ کچھ قانون بنا لیں گے اور کاغذوں میں شریعت نافذکر لیں گے اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ جنرل ضیاء الحق صاحب نے بھی اسلامی حدود نافذ کر دی تھیں اور یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے۔ گو یاتیئیس برس ہونے کو ہیں۔ کیا کسی ایک چور کا بھی ہاتھ کٹا ہے؟ کوئی ایک زانی بھی سنگسار ہوا ہے؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق نے آئین میں آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کا اضافہ کر کے اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کے لیے اخلاقی معیار طے کردیا تھا۔ کیا اس کے بعد اسمبلیوں کے جتنے انتخابات ہوئے ہیں، ان میں حصہ لینے والے اس اخلاقی معیار پر پورا اترتے ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

خلاصہ یہ کہ تازہ سیاسی تبدیلی موجودہ تپتی جھلستی فضا میں ٹھنڈی ہواکا ایک خوشگوار جھونکا ضرور ہے لیکن اس سے ہمارے مسائل حل نہ ہو سکیں گے، خصوصاً ہمارے تہذیبی اور نظریاتی تناظر میں۔ لہٰذا ہمیں ضرورت ہے ایک ثقافتی انقلاب کی، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اورہماری تہذیب میں پیوست ہوں، جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی۔ ہم نے اسے دینی اس لیے نہیں کہا کہ نمازیں تو ہم اب بھی پڑھتے ہیں، روزے تو ہم اب بھی رکھتے ہیں لیکن نہ ہمارے اعمال ان سے بدلتے ہیں اور نہ ہمارا کردار۔ دراصل ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارا کردار بدلے، ہمارے رویے تبدیل ہوں۔ اسی لیے ہم نے اسے ثقافتی انقلاب کا نام دیا ہے۔

مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے خدوخال 

یہ عرض کرنے کے بعد کہ سیاسی تبدیلی سے ہمارے مسائل حل نہ سکیں گے بلکہ اس کے لیے ایک ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے، ایک ایسے ثقافتی انقلاب کی جس کی جڑیں ہمارے عقائد، ہماری اقدار اور ہماری تہذیب میں پیوست ہوں،جو فکری بھی ہو اور اخلاقی بھی، اب ہم یہ عرض کر نے کی کوشش کریں گے کہ مجوزہ ثقافتی انقلاب کیسے آ سکتا ہے اور اسے کون لائے گا ؟ لیکن اس سے بھی پہلے ایک بنیادی بات کہ اس ثقافتی انقلاب کا فکری منہج کیا ہوگا؟ ہمارے نزدیک مجوزہ ثقافتی انقلاب تین اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے:

۱۔ اسلامی فکروتہذیب سے وابستگی (کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں) 

۲۔ مغربیت اور مغربی تہذیب کا ردّ (کیونکہ وہ اسلامی فکر و تہذیب سے مختلف اور اس کی مخالف ہے) 

۳۔ مندرجہ بالا دو اصولوں کے مطابق فکر وعمل اور طرز زندگی میں عملاً تبدیلی تاکہ ہماری دنیا سنور جائے اور آخرت میں بھی کامیابی ملے۔ 

ان اصولوں کے مطابق پاکستان میں ثقافتی انقلاب کیسے آئے گا؟ ہماری رائے یہ ہے کہ اس کے لیے ایک بھرپور عوامی تحریک چلنی چاہیے۔ اس تحریک کو چند ایسے عملی اقدامات کی بنیاد پر اٹھایا جا سکتا ہے جو متفق علیہ ہوں اور اختلافی نہ ہوں مثلاً :

۱۔ غریبوں کی مدد 

۲۔ اخلاقی سدھار

۳۔ تعلیم عام کرنا 

۴۔ فحاشی اور عریانی کا خاتمہ۔۔۔۔۔۔وغیرہ 

وضاحت کی خاطر ہم صرف پہلے نکتے کے بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں ۔ جو لوگ غریب، نان جویں کے محتاج اور بھوک سے خودکشیاں کر رہے ہیں، وہ آخر کہیں تو رہتے ہیں۔ کسی کے تو عزیز رشتہ دار ہیں۔ تو لوگ اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنی بستی، اپنے محلے کے غریبوں کی مدد کریں ، اپنی برادری اور خاندان کے غریبوں کی مدد کریں۔ ہم کہتے ہیں کہ امیروں کو چھوڑیے۔ اگر ہر متوسط طبقے کا گھرانہ ایک سو روپیہ بھی ماہانہ اس مد میں دے (جو وہ بسہولت دے سکتا ہے) تو اتنی رقم آسانی سے جمع ہو سکتی ہے جو اس بستی ، اس محلے کے غریبوں کو مرنے نہیں دے گی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایوب خاں کے زمانے میں حکومت نے ’’ایک پیسہ ایک ٹینک‘‘ کا نعرہ دیا تھا یعنی ایک پاکستانی اگر ایک پیسہ روزانہ دے تو ایک دن کی آمدنی سے پاک فوج کے لیے ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے اور اس وقت لوگوں کی جذباتی کیفیت ایسی تھی کہ لوگوں نے پیسے دیے اور وہ اسکیم کامیاب رہی۔ کراچی کے ایک ٹرسٹ نے افغانستان میں لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے وہاں کئی بستیوں میں تندورکھول دیے تھے جہاں سے لوگوں کو بلا قیمت روٹی مل جاتی تھی اور ایسے بہت سے لوگ تھے جو مثلاً ایک گاؤں یا بستی کے لیے ایک تندور کا سارا خرچ آسانی سے دے دیتے تھے۔ ہم پچھلے ہفتے ایک دینی مدرسے میں موجود تھے جہاں ہمیں پتہ چلا کہ اس دن مدرسے میں غریب دینی طلبہ کے لیے اتنا گوشت آیا تھا جو ضرورت سے زیادہ تھا اور انتظامیہ اسے سنبھالنے سے قاصر تھی، لہٰذاملازمین کو کہاگیا کہ وہ سستے داموں اسے خرید لیں۔ ان مثالوں سے ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ابھی بانجھ نہیں ہوا ، جذبہ اور اخلاص موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ایک شفاف اور قابل اعتماد نظام تشکیل پا جائے اور لوگوں کو اس کے لیے متحرک کر دیا جائے۔ اگر ہر بستی، ہر محلے اور ہر برادری میں اس طرح کی ایک کمیٹی تشکیل پا جائے جو شریف اور دیانت دار افراد پر مشتمل ہوتو لوگ اس پر اعتماد کریں گے اور وسائل کی قلت نہ ہوگی۔ مسجد یا مقامی سکول کو اس کا مرکز بنایا جا سکتا ہے۔ یہ ہم نے ایک شعبے کی مثال دی ہے کہ اس طرح ہر بستی کے غریبوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح کی اسکیم دیگر تین نکات اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے لیے بھی بنائی اور چلائی جا سکتی ہے۔ تاہم طوالت سے بچنے کی خاطر ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کرتے ہیں۔ 

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مذکورہ عوامی تحریک کون چلائے گاکہ مجوزہ ثقافتی انقلاب آ سکے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اور معاشرے کے مختلف طبقات مثلاً ادیبوں، صحافیوں، وکیلوں، اساتذہ، طلبہ وغیرہ میں ایسے لوگوں کی ہرگز کمی نہیں جو مذکورہ بالا تین نکات سے اتفاق کرتے ہوں اور اصلاح فرد و معاشرہ کے لیے ان نکات پر اکٹھے ہو سکتے ہوں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ وہ متحرک و منظم ہو جائیں اور قافلہ چل پڑے اور اس کی سمت درست ہو۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے اور طبقے سے ایسے چیدہ چیدہ لوگ جمع ہوں جن کو مجوزہ ثقافتی انقلاب اور اس کے اصول و مناہج سے اصولی اتفاق ہو اور وہ مل کر ایک وسیع البنیاد قومی کونسل تشکیل دے لیں اور تحریک کے لیے عملی پروگرام کی نوک پلک سنوار کر اسے آخری شکل دے دیں اور اللہ کا نام لے کر کام کا آغاز کر دیں۔ تحریک ان شاء اللہ آہستہ آہستہ زور پکڑتی جائے گی اور اپنے اثرات مرتب کرتی جائے گی۔ 

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اتنے بڑے انقلاب اور عوامی تحریک کا خواب دیکھنا تو آسان ہے، لیکن اسے عملاً برپا کرنا مشکل بلکہ ناممکن اور ناقابل عمل ہے۔ یہ وہ بھاری پتھر ہے جسے چوم کر تو چھوڑا جا سکتا ہے ، اٹھایا نہیں جا سکتا۔ یہ تو K2 بلکہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے برابر ہے۔ ہم کہتے ہیں دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا۔ ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ نیت صادق اور جذبہ قوی ہو اور ٹھوس پلاننگ کے ساتھ بھرپور جدوجہد کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو اور اسی سے توفیق طلب کی جائے۔ عقلی استدلال یہ ہے کہ مجوزہ عوامی تحریک پاکستانی معاشرے میں کامیابی سے چلائی جاسکتی ہے کیونکہ معاشرے اور ریاست کے معمول کے ادارے لوگوں کے مسائل حال کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ لوگ مایوس ہو رہے ہیں۔ جھنجھلائے ہوئے ہیں۔ ان کے کام نہیں ہورہے۔ وہ جدھر جائیں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور وہ موجودہ سسٹم سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ انہیں تعمیری اور مثبت انداز میں متحرک کر دیا جائے تا کہ وہ خود اپنے مسائل کو حل کر سکیں اور اپنے نظریات اور اپنے عقیدے کے مطابق حل کرسکیں۔ 

آپ پاکستان کے ماضئ قریب کے حالات پر غور کیجیے۔ جب سیاسی جماعتیں تبدیلی لانے میں ناکام ہو گئیں تو وکلا تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ کیا ایسا کسی ایک فردیا چند افراد نے پلاننگ سے کیا؟ ہماری رائے میں ہرگز نہیں۔ بہتا ہوا پانی اپنا رستہ خودبخود بنا لیتا ہے بشرطیکہ وہ سراٹھا کر زمین کا سینہ شق کرنے میں کامیاب ہوجائے اور جب اس کی مقدار زیادہ ہو اور وہ زور لگائے تو وہ زمین کا سینہ شق کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی سرزمین اس ثقافتی انقلاب کے لیے تیار ہو چکی ہے۔ اب کسی بھی وقت لاوا پھٹ پڑے گا اور جس طرح وکلا تحریک نمودار ہوگئی، اسی طرح اس ثقافتی تحریک کے لیے بھی مختلف لوگ اور مختلف طبقے اٹھ کھڑے ہوں گے، ان شاء اللہ۔ 

دیکھیے، اس ملک کی روایتی دینی قوتیں نتائج کے لحاظ سے ناکام ہوچکی ہیں۔ دینی سیاسی جماعتوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ تبلیغی جماعت اور دینی مدارس اس طرح کا فرد تیارہی نہیں کر رہے جو موجودہ معاشرے کی رہنمائی کر سکے اور دین کا رشتہ حاضر و موجود سے جوڑ سکے۔ سیاسی لوگوں کی کارکردگی بھی مایوس کن رہی ہے۔ وقتی طور پر حالات کچھ بہتر ٹرن لیتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے سیاستدانوں اور اصحاب اقتدار کی کارکردگی تباہ کن اور عبرتناک رہی ہے۔یہی حال سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سول و فوجی بیوروکریسی کا ہے۔ مطلب یہ کہ جو اس معاشرے کے بالا دست طبقات تھے، جنہوں نے معاشرے میں تبدیلی لانا تھی اور مسائل کو حل کرناتھا وہ ناکام ہو چکے ہیں۔ لہٰذا معاشرے کی فطری ضرورت یہ ہے کہ یہ خلا پُر ہو اور یہ خلا پُر کرنے والے منطقی طور پر وہ لوگ ہو ں گے جو مذکورہ بالا ناکام شدہ طبقات میں سے نہیں ہوں گے۔ مثلاًہم سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کواٹھ کھڑے ہونا چاہیے، وہ کسی حد تک منظم بھی ہیں اور ہمارے معاشرے میں ان کی ایک توقیر، منصب اور مقام بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں مزدور اور کسان زیادہ منظم نہیں ہیں اورنہ ان کی فعال انجمنیں ہیں حالانکہ سب سے زیادہ مظلوم تو وہی ہیں۔ تاہم جو اور جتنی موجود ہیں، انہیں متحرک ہو جانا چا ہیے۔ اسی طرح صحافیوں، ادیبوں، وکیلوں، انجینئرز، چھوٹے دکانداروں اور متوسط طبقے کے دوسرے عناصر کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر اسکولوں، کالجوں، اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ متحرک ہو جائیں توان کا ایک بڑا ٹارگٹ یہ ہونا چاہیے کہ وہ طلبہ کو منظم اورمتحرک کریں اور طلبہ جب اس ثقافتی اور معاشرتی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے تو کامیابی یقینی ہے کیونکہ نوجوانوں میں قوت کار اور جذبہ وافر مقدار میں موجود ہوتاہے اور وہ کسی بھی تحریک کا بہترین سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اللہ کرے ہماری یہ تحریر ان لوگوں کے لیے خرد افروزی،فکر انگیزی اور تحریک کا سبب بنے جو اس معاشرے اور ملک کے لیے سوچتے ہیں، جو اپنی دنیا وآخرت کی بہتری کی فکر رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں اور مجوزہ ثقافتی انقلاب و عوامی تحریک کے لیے بیج کاکام دے، ایسا بیج جو نرم و نازک کلی کی طرح پھوٹتا ہے لیکن پھر شجر سایہ دار بن کر انسانوں کو ٹھنڈک اور سایہ پہنچاتا اور زندگی کی کڑی دھوپ سے بچاتا ہے۔ 

دین اور معاشرہ

(مئی ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter