تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی‘‘

’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی افکار کا تقابلی جائزہ‘‘ (برائے ایم فل اقبالیات) کی مبسوط جلدسامنے ہے۔ یہ مقالہ جناب محمد یونس میو کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو اتنی ضخیم کتاب کو دیکھ کر ایک مرعوب کن تاثر ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی خیال گزرتا ہے کہ اتنی ضخامت میں رطب و یابس بھی ہو گا۔ آخور کی بھرتی ہی سے ایسی طول کلامی ہو سکتی ہے، کیونکہ ’ خیرالکلام ماقل ودل‘ کا فرمان رسول بھی اپنے ا ندر حقائق کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ شیکسپیئر نے بھی کہا تھا اور سچ ہی کہا تھا: Brevity is the soul of will ۔

قاری حوصلہ کر کے پہلے تو اس کے محتویات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر جی کڑا کر کے آگے بڑھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں اس کے مشمولات نظر سے گزرتے ہیں، ایک بے نام مسرت بھی ہوتی ہے اور مقالہ نگار کی ژرف نگاہی کے لیے ستایش کا داعیہ بھی ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حسن ترتیب کی گرہیں بھی کھلتی چلی جاتی ہیں، تاآنکہ پیش لفظ سے گزر کر پہلے باب اور پھر چھٹے باب کے آخر میں فقہ واجتہاد اور کتابیات تک پہنچتے پہنچتے یہ مرعوبیت فاضل مقالہ نگار کی علمی وجاہت کی حد تک تو قائم رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، مگر علم وآگہی اور معلومات فراواں کی جو قندیلیں فروزاں ہوتی چلی جاتی ہیں، ان کی روشنی میں دونوں جید ہستیوں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلتیں اور ذہنی ہم آہنگی کے مختلف پہلو دل ودماغ میں نئی کسمسا ہٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔ دونوں کے تعلیمی نظریات، سیاسی نظریات بالخصوص دو قومی نظریہ، تصوف، نظریہ شعر وسخن، تحریک علی گڑھ اور اس کے اساطین کے بارے میں مستند معلومات اور آخر میں دونوں کے نظریہ اجتہاد اور دینی تفقہ سے متعلق گراں قدر معلومات قاری کو ایک انسائیکلوپیڈیائی فضا میں لے جاتی ہیں۔ 

مقالہ نگار کا یہ تقابلی مطالعہ ا ن کی علمی بصیرت، تحقیقی کاوش، موضوع پر مضبوط گرفت اور ہمہ جہت مطالعے کا آئینہ دار ہے۔ ان عظیم شخصیتوں کے افکار وخیالات اور احوال وکوائف کے ساتھ ساتھ کتنی ہی علمی وادبی شخصیات کے احوال وآثار اور روشن فکری کے گوشے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ دیوبند، علی گڑھ اور ندوۃ العلماء کی کئی جہتیں اس مقالے سے روشن تر ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔ سید انور شاہ کشمیری، خواجہ عزیزالحسن مجذوب، مولانا ڈاکٹر عبدالحئ عارفی، ذکی کیفی، سید سلیمان ندوی، مولانا شاہ حکیم محمد اختر جیسے مختلف الجہات عظیم رجال اپنی گوناگوں صفات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ 

سیاسی میدان میں اقبال وتھانوی کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح، موہن داس کرم چند گاندھی، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبدالباری جیسی سیاسی شخصیات کے سیاسی نظریات اور موضوع مقالہ کی دونوں عظیم شخصیتوں سے ان کے ربط وارتباط کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ 

یوں تو مقالے کا ایک ایک باب اور ہر باب کے ذیلی عنوان اپنی پوری تحقیقی روح کے ساتھ مقالہ نگار کے علم وآگہی کا پتہ دیتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے اس کی تحریر وتسوید، مواد کی چھان پھٹک، اصول تحقیق کی پابندی سے لے کر تبویب وتدوین کے جملہ مراحل میں کئی ہفت خواں طے کیے ہیں، تاہم تصوف اور اجتہاد جیسے دقیق موضوعات میں اصل مآخذ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نے مقالے کو بڑا ہی جاندار، شاندار اور قابل قدر بنا دیا ہے۔ 

وحدت الوجود جیسا دقیق اور پیچیدہ موضوع جس میں اتفاق واختلاف رکھنے والے مشرق ومغرب کے بعد پرہیں، علامہ اقبال اور مولانا تھانوی کے تعلق سے تحقیقی مقتضیات کو پورا کرتے ہوئے اس سے عہدہ برآ ہونا مقالہ نگار کی علمی گہرائی اور فنی مہارت کا غماز ہے، بالخصوص یہ باور کرانا کہ علامہ اقبال مولانا تھانوی کے پیروکار تھے اور اسے پرزور دلیل سے ثابت کرنا کارے دارد۔ موصوف کی یہ رائے ہے کہ ’’مولانا کے اتحاد وحلول کی نفی اور وجود حقیقی کامل کے سامنے ان کے وجود کو کالعدم اور لاشی سمجھنا‘‘ ایک دلیل قاطع ہے۔

تصوف کی بات چھڑی تو مقالے میں دونوں بزرگوں کی زندگی سے متعلق معلومات تو ہیں ہی اور ان کی فکر کے میلانات تو سامنے آئے ہی ہیں، ابن عربیؒ ، حلاج، جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی سے ان کی فکری یگانگت یا جزوی اختلافات بھی نکھر کر منظر عام پر آ گئے ہیں۔ ان اتفاقات واختلافات کو سامنے رکھ کر قاری خود اخذ نتائج اور اقامت رائے کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ 

تقلید واجتہاد کا باب اس مقالے میں خاص اہمیت کاحامل ہے۔ علامہ اقبال کا تجدیدی فکرونظر کے لیے سراپا ستایش ہونا اور عموماً تقلید سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کے باوجود ان کی ذہنی یافت کا نتیجہ ہے۔ مقالہ نگار نے ڈاکٹر سید عبداللہ کے حوالے سے اقبال کا ایک اقتباس پیش کر کے انہیں تقلید جامد سے متنفر اور تقلید اجتہاد آمیز کا قائل ثابت کیا ہے، کیونکہ اقبال ایک طرف تو کہتے ہیں:

کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد

دوسری طرف ان کا کہنا ہے :

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی 
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے 

خطاب ’’مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ از عبداللہ کا اقتباس یہ ہے : ’’اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کا چسکا ڈال دیا ہے، تاہم میرا مسلک بھی وہی تھے جو قرآن کا ہے۔ میرا میلان بھی قدیم کی طرف ہے۔‘‘ (مقالہ ہذا، ص۴۳۲)

جہاں تک مولانا تھانوی کا تعلق ہے وہ تو مسلمانوں کے شاندار ماضی کے بہت بڑے مناد ہیں۔ وہ اپنی تمام تحریروں میں ماضی کے شفاف آئینے میں جھانک کر حال واستقبال کی اصلاح و ابقا کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ وہ ماضی سے کسی صورت میں ہٹ سکتے ہیں نہ کٹ سکتے ہیں۔ یوں دونوں ( اقبال و تھانوی) میں کامل ہم آہنگی موجود ہے۔ دونوں ہی ماضی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اس مقام پر دونوں میں فکری مماثلت بھی بدرجہ اتم پیدا ہو گئی ہے اور عملی مساعی بھی قدرے اختلاف کے ساتھ ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ دونوں تجدد کے زبردست مخالف ہیں، مگر بصد احتیاط تجدید واجتہادکے سرگرم داعی بھی ہیں۔ ترکی کی مغرب پرستی اور غیر اسلامی تجدد، اذان ونماز کو ترکی زبان کاجامہ پہنانا دونوں کے نزدیک ناقابل قبول بھی ہے اور ناقابل عمل بھی۔ مقالہ نگار نے اس پہلو کوبطریق احسن پیش کیا ہے۔ دونوں کے نزدیک اجتہاد وتجدید دین کا دروازہ تو کھلا ہے مگر ہرکہ ومہ کومنہ اٹھائے اندر جانے کی اجازت نہیں، سوائے ان اہل خبرونظر کے جواس میں داخلے کی اہلیت و استعداد سے بہرہ مند ہوں۔ ان کے نزدیک صلاحیت وصالحیت دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ 

پایان کار یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ اتنے اچھے مواد کو جس حسن وخوبی سے پیش کیا گیا ہے وہ لائق توصیف ہے مگریہ بات رہ رہ کر کھٹکتی ہے کہ اس ضخامت کے مقالے کی مسودہ خوانی جس امعان نظر کے ساتھ ہونی چاہیے تھی، نہیں کی گئی۔ زیر نظر کاپی میں ان گنت غلطیاں ہیں۔ بہت سی تصحیح کر دی گئی ہے مگر بہت سی ایسی باتیں ہیں جو استیعا باً مطالعے کی متقاضی ہیں جس کے لیے فاضل مقالہ نگار کو خصوصی محنت ودقت نظر سے کام لینا چاہیے۔ اشعار میں بہت غلطیاں ہیں اور عربی عبارات میں تو اغلاط کی بھرمار ہے۔ جب تک ان کانٹوں کو ہٹا نہیں دیا جاتا، یہ گل تراپنی اصلی بہار نہیں دکھا سکتا۔ 

میرا خیال ہے کہ اگر ان اغلاط کا ازالہ کر دیا جائے تو یہ مقالہ ایم فل کے چوٹی کے مقالات میں شمار کیے جا نے کے قابل ہے۔ معلومات کی فراوانی، اسلوب کی ندرت، تحقیق وتدقیق کے تقاضوں کی تکمیل اور موضوع سے شیفتگی کی حد تک وابستگی اس تحریرکو اہل ذوق کے لیے اپنی سطح کا ایک نادرہ کار کارنامہ بنا رہی ہے۔ مقالے میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ موضوع وسعت طلب تھا، اس میں گہرائی کا آنا ایک بدیہی امر تھا۔ مقالہ نگار نے ’’دریا بحباب اندر‘‘ کے مصداق اس وسعت صحرا کو سمیٹ کر قارئین کے سامنے پھولوں سے لدی پھندی کیاری بنا دیا ہے۔ (پروفیسر غلام رسول عدیم)


’’عصر حاضر میں اجتہاد: چند فکری وعملی مباحث‘‘

(۱)

لغت کا ایک لفظ ہے ’یلغار‘۔ اس لفظ کے ساتھ فوری طور پر یہ تصویر ذہن میں بنتی ہے کہ ایک گروہ یا لشکر اپنی قوت کے بل بوتے پر دوسرے کو پچھاڑنے، بے بس کرنے یا اپنی مرضی کا تابع بنانے کے لیے امڈا چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے دین اسلام کے کچھ ’ہمدردوں‘ نے تو واقعی اس لفظ کے پردے میں خود اسلام کی ’تشکیل نو‘ کے لیے یلغار کر رکھی ہے۔ وہ جو دین کی ابجد سے بھی واقف نہیں اور وہ جو اس لفظ کے دائرۂ اثر کی نزاکتوں اور عملی سطح پر اس کی وسعتوں تک سے بے خبر ہیں، وہ بھی اس لفظ کو اس زعم میں گھما پھرا کر اسلامی فکریات کے ایوان پر دے مارتے ہیں کہ گویا اہل دین تو دین اور دنیا سے بے خبر بیٹھے ہیں اور عقل ودانش کی دولت بس اس یلغاری گروہ کی ملکیت ہے۔ یہ ایک عجیب منظر ہے۔ 

مولانا زاہد الراشدی اس کتاب میں مذکورہ صورت حال پر نظر دوڑانے کے ساتھ علماے کرام کو دین، ایمان اور عقل کی بنیاد پر وسعت نظر، منصبی ذمہ داری اور قوت عمل کی دعوت دیتے ہیں: ’’ایک طرف سرے سے اجتہاد کی ضرورت سے انکار کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اجتہاد کے نام پر امت کے چودہ سو سالہ علمی مسلمات اور اجتماعی اصولوں کا دائرہ توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حق ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔‘‘ (ص ۲۸۷)

زیر نظر کتاب اجتہاد کے حوالے سے اس بحث کے پس منظر، عملی جہتوں، اس کے مقدمات، نظائر، امکانات اور مضمرات کو اس طرح پیش کرتی ہے کہ قاری بڑی حد تک معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب مولانا راشدی کے ان بیش تر اخباری کالموں پر مشتمل ہے جو انھوں نے اکتوبر ۱۹۹۰ء سے تاحال سپرد قلم کیے (مگر اخباری کالم ہونے کے باوجود ان میں گہرائی اور تازگی ہے) چنانچہ اس عرصے کے دوران میں زیر بحث موضوع کے بارے میں اٹھنے والے مناقشوں کا ایک ریکارڈ بھی سامنے آ جاتا ہے۔ مصنف نے استدلال کے لیے عام فہم نظائر اور مثالوں کو خوبی سے چن چن کر فکر وخیال کا دیوان سجایا ہے۔ چند در چند ناہمواریوں کے باوجود اہل دین ان کی اس کاوش کو یقیناًخوش آمدید کہیں گے۔

مصنف کو علمی حلقے ایک معتدل شخصیت کے طور پر جانتے ہیں، تاہم زیر تبصرہ کتاب میں یہ نثر پارہ ان کی مذکورہ حیثیت کو متاثر کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مولانا ]عبید اللہ[ سندھیؒ اور ابو الکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انھیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی جو خود مولانا مودودی اور ان کے رفقا نے ان کی تحریروں پرعلما کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجے میں وہ جمہور علما ]؟[ کے مدمقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے۔‘‘ (ص ۳۱۷) اس ٹکڑے میں الزام تراشی اور مبالغہ آمیزی کا وہ لحن کارفرما ہے جو گزشتہ صدی کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں منظر پر چھایا ہوا تھا۔ ]موصوف نے یہ عجب دعویٰ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی نے اس غوغا آرائی کا جواب نہ ہونے کے برابر دیا اور ان کے رفقا نے گنتی کی چند چیزوں کے سوا کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ دوسری جانب سے تنقید کا ایک طوفان اٹھایا جاتا رہا[ سبحان اللہ، ان ’جمہور علما‘ میں سے واقعی کتنے حضرات نے خدا ترسی اور علمی مناسبت سے تنقید کی اور کتنے حضرات نے عصبیت کی چوکھٹ پر سچائی، اخلاق، علم اور شائستگی کا خون کیا؟ مذکورہ بالا فرد جرم کا جائزہ اور ’جمہور علما‘ کے اسلوب نگارش کا گل دستہ اس مختصر تبصرے میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ’کرم فرماؤں‘ کو خوش رکھے۔ (تبصرہ نگار: سلیم منصور خالد)

(بشکریہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور، جولائی ۲۰۰۸)

(۲)

ابو عمار زاہد الراشدی علمی حلقوں میں نام ور ہیں۔ ان کے یہ مضامین مختلف اخبارات اور ماہنامہ الشریعہ (گوجرانوالہ) میں شائع ہوئے اور اب اس موضوع کو انھوں نے زیر نظر کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔ 

مولانا راشدی صاحب پیش لفظ میں لکھتے ہیں:

’’اجتہاد موجودہ دور میں زیر بحث آنے والے اہم موضوعات میں سے ایک ہے اور دین کی تعبیر کے حوالے سے قدیم وجدید حلقوں کے درمیان کشمکش کی ایک وسیع جولان گاہ ہے۔ اس پر دونوں طرف سے بہت کچھ لکھا گیا، لکھا جا رہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا اور جب تک قدیم وجدید کی بحث جاری رہے گی، یہ موضوع بھی تازہ رہے گا۔‘‘

اجتہاد کے حوالے سے دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک طبقے کا نظریہ ہے کہ اجتہاد کی تکمیل ہو گئی ہے اور اب مزید کی ضرورت نہیں رہی اور دروازہ بند کر دیا۔ دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ اجتہاد کا عمل جاری رہنا ضروری ہے اور ان کے نزدیک اس دروازے کو بند کرنا نقصان کا باعث ہے۔ مولانا راشدی صاحب نے ان مضامین میں اس بحث کو مختلف انداز میں دیکھا ہے۔ اب اگر ہم راشدی صاحب کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کا ایک نہایت اہم خطبہ ’’دور جدید میں اجتہا دکی ضرورت اور دائرۂ کار‘‘ دیکھنا ہوگا۔ مولانا فرماتے ہیں:

’’جہاں تک اجتہاد کے بنیادی اصول وضوابط کے تعین کی بات ہے، اس کا دروازہ تو ابتدائی تین صدیوں کے بعد اس لحاظ سے بند ہے کہ اس کے بعد اجتہاد کا عمل انھی دائروں میں ہوتا آ رہا ہے جو مسلمہ فقہی مکاتب فکر نے طے کر دیے تھے اور یہ دروازہ کسی کے بند کرنے سے بند نہیں ہوا، بلکہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد فطری طور پر خود بخود بند ہو گیا ہے جیس اکہ کسی بھی علم کا فطری پراسس ہوتا ہے۔‘‘

مولانا راشدی صاحب اکثر ملکی اور غیر ملکی سفر کرتے ہیں، اس لیے ان کا مکالمہ عام طور پر عوام سے ہوتا ہے جنھوں نے اجتہاد کا نام تو سنا ہے مگر اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔ شاید عالم لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب کو ضرورت پڑنے پر تبدیل کر دیا جائے تو یہی اجتہاد ہے، جبکہ ایسا نہیں۔ دین کے بنیادی قوانین میں ترمیم ممکن نہیں ہے، وہ جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ اجتہادی گنجایش ہر جگہ ممکن بھی نہیں ہے۔ 

مولانا کے انداز تحریر کی خوبی یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کے مسائل اور مطالبات کو زیر بحث لاتے ہیں اور ان کے خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا انداز بیان سہل ہے، اس لیے قارئین کو ان کی بات سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی۔ زیر نظر کتاب کی خوبی یہی ہے کہ یہ عام لوگوں کے لیے جو عالم نہیں ہیں، لیکن اپنے طور پر دین کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں سوال پیدا ہوتے ہیں۔ اجتہاد بھی ایک ایسا ہی سوال ہے۔ اس کتاب میں اس موضوع پر تمام سوالات کے جواب آپ کو مل جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس کتاب کی تدوین سے ایک مشکل موضوع کو ایک آسان راستہ مل گیا۔ یہی خوبی راشدہ صاحب کی ہے۔ وہ مشکل بات کو آسان انداز میں بیان کرنے پر بے پناہ عبور رکھتے ہیں۔ (تبصرہ نگار: جاوید اختر بھٹی)

(بشکریہ ماہنامہ نقیب ختم نبوت ملتان، جولائی ۲۰۰۸)

تعارف و تبصرہ

(اگست ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter