(۱)
محترم ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔ الشریعہ جون ۲۰۰۸ء کے شمارے میں ’’ غامدی صاحب کا تصور سنت‘‘ کے عنوان سے استاذِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے افکار پر آپ کی تنقید و تبصرہ دیکھنے کا موقع ملا۔ اصحاب المورد جب بھی اپنے پیش کردہ افکار پر کسی جید عالم کی طرف سے کوئی تنقید و تبصرہ دیکھتے ہیں تو تہہ دل سے اُن کے شکر گزار ہوتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ علما کی یہ توجہ اُن کے لیے رہنمائی کی باعث ہو گی۔ چونکہ آپ نے راقم الحروف کی ایک تحریر کو غامدی صاحب کی فکر پر بحث کرنے کا ذریعہ بنایا ہے، اس لیے میں آپ کی اس حوصلہ افزائی سے ہمت پاتے ہوئے،آپ کی تنقید و تجزیے کے بارے میں کچھ گزارشات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
۱۔ آپ نے ایسا کیوں مناسب سمجھا کہ قرآن، سنت اور حدیث (اسوۂ رسول اور دین کی تفہیم و تبیین)، ان سب کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف، جو ان کی کتاب ’’میزان‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہوا ہے اور یہ کتاب آپ کو میسر بھی ہے، اُن کی کتاب کے بجائے ان کے ایک رفیق کار کی طرف سے کسی سوال کے جواب میں لکھی جانے والی تحریر سے اخذ کیا جائے؟ سوال کا جواب تو لازماً سوال کے زاویے اور اس کے دائرے کی محدودیت کے ساتھ وجود میں آتا ہے، اور کسی مخصوص سوال کے جواب میں مسئلے کے تمام پہلووں کا احاطہ مقصود نہیں ہوتا۔
۲۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ استاذ محترم ’’سنت‘‘ کی تعریف میں عام رائے سے اختلاف کرتے ہیں، لیکن یہ محض اصطلاح کا اختلاف ہے۔ عام طور پر سنت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تشریع کے طور پر قرآن کے علاوہ جو قول فعل یا تقریر صادر ہوئی، وہ سنت ہے‘‘۔ اس تعریف کے مطابق اعمالِ سنن، آپ کی بیان کردہ تفہیم و تبیین اور آپ کا اسوہ سب کچھ سنت شمار ہوتا ہے۔ جب کہ غامدی صاحب ’’سنت‘‘ کا اطلاق دین کے ان مستقل بالذات احکام پر کرتے ہیں جن کی ابتدا قرآن سے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ دین سے متعلق احادیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اسے وہ دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
۱۔ قرآن و سنت کی تفہیم و تبیین
۲۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ
ان دو چیزوں کو وہ سنت کی اصطلاح کے تحت نہیں لاتے، بلکہ انھیں وہ تفہیم و تبیین اور اسوہ کے الفاظ سے بیان کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ
’’(تفہیم و تبیین اور اسوہ کے )دائرے کے اندر ، البتہ اِس (حدیث) کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (اصول و مبادی، ص۱۵)
سوال یہ ہے کہ کیا غامدی صاحب نے واضح طور پر ’’سنت‘‘ کے علاوہ احادیث میں بیان ہونے والی تفہیم و تبیین اور آپؐ کے اسوے کی حجت کو پوری طرح سے تسلیم نہیں کیا؟ اگر تسلیم کیا ہے تو پھر آپ نے چھ نکات کی صورت میں غامدی صاحب پر جو اعتراضات بیان فرمائے ہیں، وہ بالکل وارد نہیں ہوتے۔
۳۔ آپ نے غامدی صاحب کی تعریف سنت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ:
’’جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حاکم، قاضی، کمانڈر اور ڈپلومیٹ وغیرہ کے طور پر جو کچھ کیا ہے اور جو کچھ فرمایا ہے، وہ بھی سنت کے مفہوم سے خارج ہے۔‘‘
ہمارا سوال یہ ہے کہ قضا اور تشریع میں فرق تو علماے امت نے ہمیشہ کیا ہے۔ یہی فرق غامدی صاحب بھی کر رہے ہیں، اور اسی لیے وہ قضا سے متعلق امور کو ’’سنت‘‘ میں نہیں لاتے۔
۴۔ آپ نے ایمان بالقدر اور مسلمانوں کے جہنم سے نکلنے کے بارے میں جو احادیث بیان کی ہیں، غامدی صاحب انھیں اسی طرح قبول کرتے ہیں جیسے آپ کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں وہ آپ سے مختلف نہیں ہیں، لہٰذا اس حوالے سے بھی ان پر اعتراض سمجھ میں نہیں آتا۔
۵۔ آپ نے غامدی صاحب کی اس رائے کو کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کو وفات دینے کے بعد آسمان کی طرف اٹھایا گیا تھا، حدیث کو حجت تسلیم نہ کرنے کا نتیجہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ اختلاف دراصل ’متوفیک‘ کی تفسیر پر مبنی ہے۔ اگر ’متوفیک‘ کی وضاحت کسی حدیث میں موجود ہوتی اور غامدی صاحب اس کی نسبت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت مانتے ہوئے اس سے اختلاف کرتے تو آپ کا اعتراض درست قرار دیا جا سکتا تھا،لیکن کیا کوئی ایسی مستند حدیث موجود ہے جس میں ’متوفیک‘ کی تفسیر کرتے ہوئے یا ویسے بطور ایک واقعہ کے یہ بات کہی گئی ہو کہ مسیح علیہ السلام کو زندہ اٹھایا گیا تھا؟
محمد رفیع مفتی
ریسرچ فیلو، المورد
(۲)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ آپ ایمان وصحت کی بہترین حالت میں دین متین کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے اور ہم سب کو ہمہ وقت دین کی خدمت کے لیے قبول رکھے۔
حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات تمام اہل حق کے لیے نقصان عظیم ہے، مگر موت تو اٹل حقیقت ہے اور اس کائنات رنگ وبو میں آیا ہی ہر کوئی جانے کے لیے ہے۔ ایسے حضرات بظاہر ’کل نفس ذائقۃ الموت‘ کے قاعدے کے تحت موت کا پیالہ ضرور پیتے ہیں کہ اس کے بغیر چارۂ کار نہیں اور قدرت کا طریقہ کار بھی ہے نیز رب تعالیٰ کا فیصلہ بھی جہاں چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کی گنجایش ہی نہیں، مگر ایسے حضرات مرتے نہیں ہیں بلکہ اپنے تقویٰ، اخلاص، للہیت، اپنی دینی خدمات، اپنی تحریر اور اپنی شاندار تدریسی اور تقریری روایات کی شکل میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ حضرت نے دنیا سے انتقال ضرور فرمایا ہے اور حضرت پر وہ کیفیت جس کا نام موت ہے اور جو نزع وسکرات سے شروع ہو کر روح کی پرواز پر ختم ہوتی ہے، ضرور طاری ہوئی ہے مگر حضرت اپنی مختلف تصانیف اور اپنے دروس اور اپنے تلامذہ کی شکل میں زندہ ہیں۔ بارہا حضرت کی خدمت میں حاضری کا سوچا مگر میری انتہائی بدقسمتی تھی کہ زیارت سے محروم رہا اور آپ کے انتقال کا دو دن کے بعد گاؤں میں علم ہوا۔ بہر کیف رب کریم نے جو توفیق دی، تلاو ت اور استغفار کی صورت میں ہدیہ بھیجنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔
اس خط کے ذریعے سے حاضری کا اصل مقصد تو آپ سے تعزیت ہے، ساتھ ہی ایک چھوٹا سا شکوہ بھی کہ شکوہ بھی ہمیشہ اپنوں سے ہی کیا جاتا ہے نہ کہ غیروں سے۔ دو شمارے قبل ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں سیف الحق نامی ایک صاحب نے، جو خدا جانے قادیانی ہیں یا پرویزی، جدید روشن خیال یا مادہ پرست، یا کسی این جی او کے نمائندہ ہیں، بیک جنبش قلم دنیا بھر کی جہادی تحریکات کو لتاڑا ہے اور اس انداز میں رگیدا ہے کہ گویا دنیا بھر کی مشکلات کا سبب یہی تحریکات ہیں اور شاید موجودہ معاشرے کے سب سے بڑے گنہگار بھی۔ حالانکہ میرے ایمان کے مطابق یہی چند تحریکات اس وقت گھپ اندھیرے میں امید کے چراغ ہیں۔ تنظیمات اور ادارے افراد پر مشتمل ہوا کرتے ہیں اور افراد مختلف طبائع، رنگ ونسل نیز تعلیم، برادری، علاقائیت اور مختلف قسم کی تربیت کے حامل ہوتے ہیں۔ غلطیاں افراد میں ہوتی ہیں، ان کا الزام اداروں یا تنظیمات کو دینا کم ظرفی ہی نہیں، بے وقوفی بھی ہوتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کون سی تنظیم ٹھیک ہے اور کون سی غلط، سوال یہ ہے کہ اگر القاعدہ سے لے کر حماس تک، حرکت المجاہدین سے لے کر حزب المجاہدین تک، اور جیش محمد سے لے کر لشکر طیبہ تک یہ سب غلط ہیں تو پھر صحیح کون ہے؟ اور اگر یہ جو کچھ کفار کے ساتھ کر رہے ہیں، وہ جہاد نہیں تو پھر جہاد وقتال کہاں ہے اور نعوذ باللہ قرآن پاک کی وہ ۴۸۲ آیات کس کھاتے میں ہیں جو جہاد وقتال سے متعلق ہیں؟ اگر یہ سب کچھ غلط ہے تو پھر جو لوگ کشمیر ، افغانستان، عراق اور چیچنیا میں شہید ہو گئے ہیں، وہ کس کھاتے میں ہیں اور پھر ماضی میں تمام اکابر علماے حق مثلاً ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب، ڈاکٹر شامزئی شہید، حضرت لدھیانوی شہید، مفتی عبد السمیع شہید، مفتی احمد الرحمن شہید اور حضرت ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی سرپرستی کس کھاتے میں ہے؟ نیز حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا مجاہدین کے ساتھ تعلق اور سرپرستی اور مختلف مواقع پر ان کا خطاب اور تربیتی نشستوں میں تعلیم کس طرح جائز ہے؟
میں صرف ایک مثال دوں گا۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں تقریباً ۱۷۸۰ نفوس قدسیہ کو خاک وخون میں غرق کر دیا گیا۔ اب اس کے مقابلے میں ری ایکشن تو ہونا ہی تھا اور اگر یہ کچھ نہ ہوتا تو شاید آج تک بڑے بڑے مدارس بھی بلڈوز ہو چکے ہوتے۔ آج مذہبی جماعتیں ہوں یا سیاسی، نہ جانے کس مجبوری کے تحت مشرف/بش ایجنڈے کی تکمیل میں کوشاں ہیں، سوائے چند ایک جماعتوں کے جو اب بھی صحیح نہج پر چل رہی ہیں۔ ہم وانا کا گلہ کرتے ہیں۔ میں اصل دشمن کے علاوہ جہاں کوئی اور چارہ کار نہ ہو، کسی کے خلاف خودکش حملوں کو جائز نہیں سمجھتا ۔ میں بھی فوج اور سیکیورٹی فورسز کے قتل عام کا قائل نہیں ہوں، مگر آپ ہی فرمائیں یا سیف الحق صاحب جواب دیں کہ جب مرد، عورتوں کی جامہ تلاشی لیں گے یا جب کسی مطلوب فرد کی جوان بہن، جوان بیوی یا ۶۰ سالہ بوڑھی والدہ کو تھانوں میں ننگا کیا جائے گا تو کیا وہ فوج اور پولیس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کرے گا یا اپنی جان داؤ پر لگا کر انھیں سبق سکھلائے گا؟ جب کشمیری مجاہدین کو ہراساں کیا جائے گا بلکہ انہیں گرفتار کر کے ان کے ساتھ بدترین سلوک ہوگا تو پھر رد عمل کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اگر کسی تنظیم کے کسی فرد نے پاکستان میں کوئی کارروائی کی ہے تو وہ انفرادی انتقام تو ہو سکتا ہے، تنظیمی پالیسی نہیں۔
گستاخی معاف، مگر یہ چند تلخ حقائق ہیں جن کا ادراک ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ڈالروں کے عوض ہمارے نمازی پرہیز گار لوگوں کو امریکہ کے ہاتھ بیچا گیا؟ ان کا کیا جرم تھا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ آج ہر ڈاڑھی والے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کیا دین دار لوگوں کو جینے کا حق نہیں؟ اور پھر معاملات یہاں تک پہنچے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے اعلیٰ عہدے دار کو خود انصاف کی بھیک مانگنی پڑ رہی ہے۔ یہ سب کچھ یہودیوں اور عیسائیوں کے ایجنٹوں کی کارستانی ہے جو انہوں نے ہمارے اوپر مسلط کیے ہوئے ہیں، کبھی مشرف شیطانی کی شکل میں اور کبھی نام نہاد گیلانی کی شکل میں۔ انہوں نے دین کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش شروع کی ہوئی ہیں۔ فوج کے لیے یہ بدنامی کا سبب ہیں۔ قومی ہیروز کو یہ ذلیل کر رہے ہیں اور پاکستان کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ امریکہ اور دیگر عالم کفر کے معاون ہیں۔ کیا بچا ہے ا س ملک میں؟ یہ سب کچھ قرآن وسنت اور جہاد سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔ اگر جہاد اپنے جوبن پر ہوتا تو شاید یہ دن اس بدقسمت پاکستانی قوم کو نہ دیکھنے پڑتے۔
مانا کہ آپ حضرات انتہائی وسیع الظرفی کے ساتھ دین کی خدمت کے لیے کوشاں ہیں اور کھلے دل ودماغ کے ساتھ لوگوں کو دعوت فکر دے رہے ہیں، نیز بحث ومباحثہ میں سنجیدہ رویہ اپنا رہے ہیں، مگر کہیں فراہی صاحب، غامدی صاحب اور مودودی صاحب کی طرح حد سے باہر ہی معاملہ نہ نکل جائے۔ ایسی تحریر جو لچر گفتگو پر مشتمل ہے، جس میں صرف اندھی تنقید ہو اور جس سے خبث باطن ظاہر ہو رہا ہو اور جس میں ذاتی بغض کارفرما ہو، ایسی تحریر ایسے علمی مجلہ کے ہرگز لائق نہیں بلکہ میرے خیال میں تو ایسی تحریر کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنا بھی اس ٹوکری کی توہین ہوگی۔ ایسی تحریرات کو چھان پھٹک کر رسالہ کی زینت بنانا چاہیے، نہ کہ جو رطب ویابس آئے، اسے شائع کر دیا جائے۔ حضرت صوفی صاحب، حضرت شیخ الحدیث صاحب اور پھر مولانا زاہد الراشدی کا پوری دنیا میں ایک نام ہے۔ ایسی تحریرات ان کے لیے بھی بدنامی کا سبب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نازک وقت میں مجاہدین جو درحقیقت محافظین اسلام وپاکستان ہیں، ان کی پشت پناہی کی جائے نہ یہ کہ اپنے پاکیزہ مجلے میں اسلام وجہاد دشمن عناصر کی تحریرات شائع کر کے کفر کے ہاتھوں کو مضبوط کیا جائے۔ جو کچھ یہودی اور عیسائی اور لادین عناصر کہہ رہے ہیں، وہی زبان اگر ہم نے بھی استعمال کی تو پھر شاید ہماری داستاں بھی نہ رہے داستانوں میں۔
اگر کوئی بات طبع پر گراں گزرے تو پیشگی معذرت۔ ویسے بھی ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی رائے سے اتفاق ضروری نہیں۔
قاضی محمد حفیظ
ناظم تعلیمات مدرسہ عبد اللہ بن عمر
میرا تنولیاں۔ مظفر آباد۔ آزاد کشمیر
(۳)
محترمی ومکری حضرت مولانا زاہدا لراشدی صاحب
السلام علیکم
امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہو ں گے۔ گزشتہ ماہ حضرت صوفی صاحبؒ کے ارتحال کی خبر علمی حلقوں کے لیے حادثہ فاجعہ سے کم نہ تھی کہ قحط الرجال کے دور میں ایسی جبال العلم ہستیا ں یقیناًاللہ تعالیٰ کا محض فضل اور رحمت ہوا کرتی ہیں۔ جنازہ میں حاضری ہو گئی تھی مگر ازدحام کی بنا پر آپ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ آپ سے تعزیت کے ساتھ رب العزت سے عاجزانہ التماس ہے کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی دینی خدمات کواپنی بارگاہ عالی میں قبول فرمائیں اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں۔ آمین۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی اکابرین کے صحیح جانشین اور تمام اہل علم کے لیے سرمایہ حیات ہیں۔ ر ب کریم سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ نصیب فرمائے اور ان کا سایہ تادم دیر ہم سب پر قائم رکھے اور ہم سب کو ان کی روحانی برکات سے حصہ نصیب فرمائے ۔ آمین۔
’’الشریعہ ‘‘ ہمارے مدرسہ میں اعزازی مل رہا ہے جس کے لیے ہم انتہائی مشکور ہیں۔ حالات حاضرہ اور بعض علمی نکات کے حل میں الشریعہ کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس سعی کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین۔
ماہ اپریل ۲۰۰۸ ء کے شمارے میں ’’مکاتیب‘‘ کے ذیل میں کسی سیف الحق نامی (سیف الحق کم اور زیغ الحق زیادہ) شخص کا خط شائع ہوا ہے۔ خط کیا ہے، الزامات ا ور ہر زہ سرائی کا مرقع ہے۔ ہمیں اس شخص کی تحریر پر کو ئی دکھ نہیں، اس لیے کہ برتن کے اندر سے وہی کچھ نکلتا ہے جو اس میں بھر ا ہوتا ہے۔ اس شخص کاامیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد، شیخ اسامہ، ایمن الظواہری اور دیگر مقتدر ومحترم شخصیات وتنظیمات پر کیچڑا چھالنا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے اور چاند پر تھوکا ہو ا ہمیشہ تھوکنے والے کے اپنے منہ پر گرتا ہے اور چاند اپنی اسی آب وتاب کے ساتھ چمکتا رہتا ہے۔
اعتراض یہ نہیں کہ کسی ناعاقبت اندیش نے ان محترم حضرات کے خلاف زبا ن کیوں استعمال کی۔ وہ تو بیمار ذہنیت کا مالک تھا، یہاں توجدید روشن خیالی کی آڑ میں امام بخاری ؒ کو بھی گالیاں دی جاتی ہیں۔ شکوہ تو یہ ہے کہ ’’الشریعہ‘‘ جیسے موقر جریدے میں، جو کہ علماے حق اور اسلامی تحریکات کا نمائندہ اور ترجمان سمجھا جاتا ہے، یہ زہر آلودہ تحریر کیسے شائع ہو گئی۔ حیرت ہے کہ آپ کے ادارے نے اس تحریر کو من وعن شائع کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یا آپ کے ادارے کے کسی شخص کو اس تحریر سے اتفاق نہیں ہو گا، لیکن کیا کوئی تحریر آپ کے ادارہ میں کسی علما دشمن اور جہاد مخالف اور اکابر امت کے خلاف گندی گالیوں سے آلودہ پہنچتی ہے تو کیا آپ اس کو بغیر تبصرہ کے اور بغیر کسی تحقیق کے شائع کر دیں گے جس سے یہ تاثر ملے کہ آپ کے ادارے کا بھی کسی درجے میں اس سے اتفاق ہے؟ حضرت محترم! اس خط سے سینکڑوں مجاہدین اور ہزاروں اہل علم کی دل آزاری ہوئی ہے اور ہزاروں شہدا کے ورثا کو تکلیف پہنچی ہے۔ عالم بالا سے شہدا کی ارواح آپ سے سوال کر رہی ہیں کہ آپ توہمارے سرپرست تھے، آپ نے توہمیشہ تحریری وتقریری طور پر ہماری حمایت کی ہے، آپ کادست شفقت تو ہمیشہ ہمارے سر پر رہا ہے، پھر کیوں ایسا ہوا کہ ہمیں اس تحریر میں نہ صرف یہ کہ مطعون کیا گیا بلکہ ہماری شہادت کو بھی مشکوک بنایا گیا۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ وحدت امت کا داعی اور غلبہ اسلام کا علمبردار کہلاتا ہے، لیکن اس قسم کاروے سخن جو اس خط میں مستعمل ہوا، وہ اس نعرے کی نفی کرتا ہے۔ وحدت تو تب ہی قائم ہو گی جب حقائق کو مسخ نہ کیا جائے بلکہ دن کو دن اور رات کو رات کہا جائے۔ غلطی ممکن ہے۔ خطا سے مبراکوئی نہیں مگر بیک جنبش قلم دنیا بھر کی تحریکات جہاد کی نفی اور ا ن پر لعن طعن کم از کم ماہنامہ الشریعہ اور اس کے عملہ کے وقار کے منافی ہے۔ یقیناًیہ خط آپ کی جہاد کی حمایت میں لکھی گئی تحریر کا جواب ہے مگر یہ خط صرف سستی شہرت کے حصول کا ذریعہ اور محرر کے باطنی بغض کا اظہار ہے۔ یہ کسی فلمی اخبار یا مجلے کی زینت تو بن سکتا ہے مگر ’الشریعہ‘ جیسے پاکیزہ مجلے کے اجلے دامن پر بدنما اور بد بودار داغ ہے۔ اگر تحریر میں کوئی سقم ہو تو پیشگی معذرت ۔
(مولانا) محمد فاروق کشمیری
امیر حرکت المجاہدین جموں وکشمیر
(۳)
بخدمت جناب ابوعمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
میں ..... یونیورسٹی ..... کے شعبہ فائن آرٹس کی طالبہ ہوں۔ روزنامہ اسلام میں آپ کے کالم کی قاریہ بھی ہوں۔ عموماً آپ کے کالم فکری، انقلابی اور تہذیبی تصادم کے متعلق ہوتے ہیں۔ فکری انقلاب کسی معاشرے کو بدلنے کے لیے جڑ اور بنیاد ہے۔ اللہ کرے یہ بات دینی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی سمجھ میں آجائے۔ اگر دینی جماعتوں کے کارکن، تمام دینی مدارس کے اساتذہ، طلبہ اور طالبات ہفتہ میں صرف دو دن تعلیمی اوقا ت سے فارغ ہو کر صرف دوگھنٹے، ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، بے لوث ہو کر، جذبہ رحم سے، فروعی اختلاف سے ہٹ کر، خالص دینی ذمہ داری کا احساس پیدا کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کر دیں اور اس میں تسلسل جاری رکھیں تو اس کا وہ نتیجہ نکلے گا کہ بڑی بڑی کانفرنسیں، جلسے اورطویل تدریسی محنت وہ نتیجہ نہیں دے سکتی۔ غریب اورمتوسط طبقہ آپ کا میدان ہے۔ انقلاب ہمیشہ اسی طبقے سے آتا ہے اور قربانی بھی یہی طبقہ دیتا ہے، مگر علما اور دینی جماعتوں کا اس طبقہ سے عمومی رابطہ نہیں ہے۔
حضر ت مجد د الف ثانی ؒ نے طبقہ امرا میں جس طرز پر محنت کی، اس کے نتیجہ میں جو دینی اقدار کو بعد والی صورتوں میں تحفظ ملا، علما کا ایک طبقہ جو سنجیدہ ہو، جو دینی ضرورت پر ذاتی خواہشات کو قربان کرنا جانتا ہو، مضبوط علمی دلائل کے ساتھ تحمل وبرداشت کا عنصر رکھتاہو، ایسے علما حضرت مجد د الف ثانی کے طرز پر اپنے علاقے کے اعلیٰ افسران، صوبائی وقومی اسمبلی کے ممبرا ن، ناظم وغیرہ سے دینی بنیا د پر بار بار ملاقات کریں، ان سے رابطہ پیدا کریں، خطوط کے ذریعہ اعلیٰ سطح پر اٹھنے والے دینی مسائل کو مضبوط دلائل سے ذہن نشین کرا کر قانون سازی کرنے والوں پر دباؤ بڑھائیں۔ آپ صرف چھ ماہ اس کا تجربہ کرلیں اور پھر برسوں کی محنت کو سامنے رکھ کر نتیجہ اخذکرلیں، آپ خود حیران ہوں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے قبل علما اور عمومی وفود دینی مسائل دیکر ان کو اجلاسوں میں روانہ کریں، ان کی طرف سے قانون ساز اداروں میں دینی آواز کا اٹھنا دینی کام کرنے والوں کے لیے معاون ہوگا۔
آپ فکری اور تہذیبی کشمکش کی بات ہر مجلس میں کرتے ہیں۔ میر ی گزارش ہے کہ اسلامی تہذیب کے بنیادی اصول کیا ہیں؟ اسلامی تہذیب وتمدن سے ایک مسلم نوجوان کیسے متعارف ہو سکتا ہے؟ یورپ وامریکہ جو اپنی تہذیب کو اعلیٰ تہذیب کہتے ہیں، اس میں اور اسلامی تہذیب میں بنیادی فرق کیا ہے؟ اس کے متعلق کوئی جاندار کتاب اگر ہو تو رہنمائی کریں۔ یورپ اور امریکہ میں دفتروں میں، علاج معالجہ، جانی ومالی تحفظ، عوامی سہولیات میں جو مراعات ہیں، کیا یہ اسلامی تہذیب کاحصہ نہیں جو ہم نے چھوڑ دیا اور انہوں نے اپنا لیا؟
مولانا صاحب !دینی مدارس کے متعلق چند تلخ حقیقتیں تحریر کرنے کی جسا ر ت کر رہی ہوں۔ امیدہے محسو س نہیں کریں گے۔
(۱) علما اور دینی طبقہ میں دوسرے کا موقف سننے کے لیے تحمل وبرداشت بالکل نہیں، جلد غصہ میں آجاتے ہیں اور اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔
(۲) دینی کام جس طبقہ میں کرناہے، اس کے لیے طویل منصو بہ بندی اور نفسیات کا مطالعہ اور رعایت نہیں۔
(۳) طریقہ تعلیم میں طلبا کا چناؤ نہیں، ہر طالب علم کو ایک جیسا نصا ب پڑھنا پڑتا ہے، خواہ اس کی استعداد رکھتا ہو یا نہیں، خواہ اس کی طبیعت کا میلان اس مضمون میں ہو یا نہیں، حالانکہ آپ کا موجودہ نصاب فطین، نہایت ذہین اور ذہین کے لیے مفید ہے، متوسط اور غبی کے لیے اس نصاب کوجاری رکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہے۔
(۴) بچیوں کے نصاب پر آپ کے علما خود مطمئن نہیں۔ جو مقصد آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ اس سے حاصل نہیں ہو رہا اور قوم کا کروڑوں روپیہ اس پر خرچ ہو رہا ہے۔ جو استعداد چار سال پڑھ کر فارغ ہونے والی طالبات میں ہے، میرے سروے کے مطابق وہ صرف ایک سال میں صرف اردو کی دینیات کا نصا ب مرتب کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔
۵۔ مولانا صاحب! میرے اور کچھ طلبا کے ذمہ دینی مدارس کا تعلیمی اور تہذیبی سروے کرنا تھا جسے ایک ماہ میں مکمل کرنا تھا۔ اس کی چند بنیاد ی چیزیں جو عملی مشاہد ہ میں آئیں، تحریر کر رہی ہوں۔
(۱) دینی مدارس میں صفائی کا اہتما م نہیں۔
(۲) عمارت کی اکثر تعمیر بغیر منصوبہ بندی کے کی جاتی ہے جسے کئی دفعہ گرا کر بنانا پڑتاہے اور قوم کا سرمایہ ضائع ہوتا ہے۔
(۳) اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کا معاشی معیار میں فرق ہے جس سے چھوٹے اساتذہ میں کافی احساس کمتری ہے۔ بعض مدارس کے منتظمین کے آفس وزرا کے آفس معلوم ہوتے ہیں جبکہ درسگا ہ میں دری بھی پھٹی ہوئی ہے اور شعبہ حفظ کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔
(۴) شعبہ حفظ جو مدارس کا بنیادی شعبہ ہے، اس میں اساتذہ کا انتخاب انتہائی غیر معیاری ہے جس میں سادہ حفظ کے علاوہ کوئی تعلیمی قابلیت شرط نہیں، کوئی تدریسی تربیت ضروری نہیں، حالانکہ بچوں میں یہی زمانہ فکری انقلاب کا ہے۔ شعبہ حفظ کے اساتذہ کی اکثر یت سادہ اردو، بنیادی دینی تعلیم، اپنے شعبہ کے متعلق بنیادی تجویدی قواعد کا علم نہیں رکھتی۔ تمام علما کی رائے ہے کہ مکمل حفظ فرض نہیں مگر طلبا کو ان میں حفظ کی صلاحیت ہویانہ، حفظ پر مجبور کیا جاتا ہے، سخت سزا دی جاتی ہے۔ بعض طلبا ایسے بھی تھے جن کو شعبہ حفظ میں چھ سال سے زائد عرصہ گزر چکا تھا مگر حفظ مکمل نہ تھا۔ شعبہ حفظ کے بچوں کے لیے بنیادی لکھنے پڑھنے کا اہتما م نہیں، بنیادی دینی تعلیم بھی اس شعبہ کے نصا ب میں شامل نہیں ۔
(۵)ہمیں شعبہ عربی اور اسلامیات کے پروفیسر حضرات کی طرف سے دینی مدارس کے تعلیمی وتہذیبی سروے میں راہنمائی کے لیے ایک سوال نامہ دیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ سوال فقہ کے متعلق تھے۔ چنانچہ ایک بڑے دینی ادارہ کے کچھ طلبہ سے رابطہ کر کے میں نے ہدایہ کی جماعت کے چند طلبہ سے گفتگو کی۔ مجھے معلوم ہوا کہ وہ چار سال سے فقہ کا مضمون پڑھ رہے ہیں اور یہ آخری کتاب ہے۔ میرا سوال تھاکہ اگر میں اپنے لاکٹ میں دس لاکھ کا ہیرا بطور زینت کے لگوا لوں تو کیا اس کی مالیت پر مجھ پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ نیز جدید کاروبار کے متعلق چند عمومی سوال تھے، مگر کوئی طالب علم مجھے مطمئن نہ کر سکا۔ آپ کے موجودہ نصاب میں ہر فن میں بعض قدیم ترین کتب شامل ہیں جو موجودہ زمانہ میں اپنی افادیت شاید نہ رکھتی ہوں اور موجودہ ز مانہ کے تقاضوں کو پورا نہ کریں، مگر ان کی تعلیم بدستور جاری ہے جو وقت کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔ مکمل نصاب عربی میں ہونے کے باوجود عربی ز بان وادب کی اہلیت نہیں۔
(۶) دینی مدارس کے متعلق سنا تھا کہ ان کا اصل مقصد اخلاقی ودینی تربیت ہے۔ اس کے ٹیسٹ کے لیے تہذیب وکلچر کی پروفیسرصاحبہ نے تین طالبات اور تین طلبا کوتیارکیا۔ طالبات کا لباس دینی مدرسہ کے ماحول کے اعتبار سے کوئی بہت زیادہ مناسب نہ تھا۔ آخری سال کے طلبہ سے ملاقات مقصودتھی۔ طالبات کو ہدایت تھی کہ گفتگوکے دوران سوالات کے جواب سے زیادہ جواب دینے والوں کی جسمانی حرکات نوٹ کرنی ہیں۔ مولانا صاحب!آپ یقین کریں کہ ان کی حرکات یونیورسٹی کے طلبہ سے کوئی زیادہ مختلف نہ تھیں۔ بعض طلبا نے اشاروں میں فقرے بھی کہے۔
(۷) دینی مدارس کا چندہ کیسے ہوتا ہے؟ مدارس کے سفیر کیا کرتے ہیں؟ کچھ طلبہ نے اس پر سروے کرنا ہے۔ غالباً رمضان المبارک میں اس پر کام ہوگا۔ اگراس کی رپورٹ مجھے مل سکی تو ضرور ارسال کروں گی۔
مولانا صاحب! میر ا تعلق بنیاد ی طورپر مذہبی گھرانہ سے ہے۔ اپنی دوست کے ذریعے جو ایک عالم کی بیٹی ہے، آپ کا ایڈریس معلوم کر کے یہ خط ارسال کر رہی ہوں اور آپ سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اسلامی تہذیبی اقدار اور روایات کے متعلق کوئی مواد عنایت فرما سکیں تو عنایت ہوگی۔ شاید اپنے شعبہ میں کسی موقع پر میں اسلام کی ترجمانی کر سکوں۔
ایک مزید گزارش ہے کہ ایک دینی تعلیمی نصا ب تجویز فرماکر ممنون فرمائیں جس کے تین درجے ہوں: چالیس روزہ، چھ ماہ، ایک سال۔ تعلیمی دورانیہ یومیہ چار گھنٹے میں جس کو کم فرصت خواتین وحضرات فائد ہ حاصل کر سکیں اور علما وعالمات کے ذریعہ اسے محلوں میں شروع کیا جا سکے جس سے معاشرہ کی دینی ضروریات پوری ہو سکیں۔
حنا ر اشد
(۴)
حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
سلام مسنون! امید ہے مزاج گرامی خیریت سے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قدم قدم پر حفاظت فرمائیں۔
ایک سال سے زیادہ عرصہ سے ’’الشریعہ‘‘ کا قار ی ہوں۔ رسالہ جاری کروانے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ آپ کی معتدل سوچ ہے اور اسلامی فلسفہ کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ دوسرا جہاں بہت سے اکابر ا سلام کی فکری اور نظریاتی سرحدات کے محافظ ہیں، الحمدللہ آپ کا شمار بھی ان میں سے ہے۔ جب بھی کوئی مسئلہ اٹھتا ہے تو آپ کی رائے کی طرف بھی خصوصیت سے توجہ ہوتی ہے کہ آپ اس مسئلہ کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔
’’الشریعہ‘‘ کا اداریہ بہت عمد ہ ہوتا ہے جس کو پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے، مگر بعض اوقات مضامین کی بھرمار ہوتی ہے۔ سوائے آپ کے اداریہ کے باقی مضامین انتہائی مشکل، طویل اور ذہن پر مزید بوجھ لاتے ہیں اور طبیعت اکتا جاتی ہے۔ الشریعہ کے تمام مضامین پر کمانڈ نہیں ہوتی۔ اگر الشریعہ صرف علما اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ کے لیے ہے تو پھر تود رست ہے لیکن اگر متوسطہ طبقہ کو بھی آپ اپنے ساتھ شامل رکھنا چاہتے ہیں تو پھر مضامین کا معیار اونچا ہو مگر عام فہم ہوں تاکہ قاری آسانی کے ساتھ مطلوبہ نتائج تک پہنچ سکے۔ انڈیا کا ’’الفرقان‘‘ اس وقت ایک بہترین جرید ہ ہے جس کے مضامین اور اداریوں کو جتنی داد دی جائے کم ہے۔ اول تا آخر پورے رسالہ پر اپنی فکر کو حاوی رکھتے ہیں اور آگے پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور جس چیز کو حق سمجھتے ہیں، پوری جرات سے اس کو بیان کرتے ہیں، خواہ کوئی چین بہ جبیں ہو۔ آپ سے بھی یہی گزارش ہے کہ ازاول تا آخر رسالہ آپ کی فکر ونظر کا امین ہو اور ہمارے اکابر کی فکر ونظر کاامین ہو۔ موجود ہ زمانے کی کشمکش میں اسلامی فکر کو جس طرح ہمارے اکابر نے پیش کیا ہے، اس کی مثال نہ ملے گی۔
انتہائی ادب کے ساتھ صرف سمجھنے کے لیے دوسری گزارش پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں۔ جون ۲۰۰۸ کے شمارے میں سالگرہ سے متعلق آپ کا اداریہ پڑھا۔ اس میں آپ نے گنجایش دی ہے مگر عوام تو حدود کو پھلانگ جاتے ہیں۔ یہی سالگرہ بے جا اسراف اور غیرشرعی امور مثلاً فوٹو گرافی، ویڈیو وغیرہ کا سبب بن جاتی ہے اور اس سالگرہ میں ناچ اور گانے وغیرہ کی محفل بھی بعض دفعہ سجائی جاتی ہے۔ عوام کو تھوڑی سی اجازت ملنے سے حدود سے تجاوز ہو جاتا ہے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی فعل خلاف شریعت ہو تو وہ گناہ او ر معصیت ضرور ہو گا مگر بدعت نہیں کہا جا سکتا۔ بدعت وہی ہے جس کو دین کا کام سمجھ کر او ر موجب اجر وثواب خیال کر کے کیا جائے۔ اس سے بدعت اور رسم میں فرق نکلتاہے ۔ رسم بے اصل اور خلاف شرع ہوتی ہے مگر بہت سی رسوم کو دین سمجھ کر نہیں کیا جاتا۔ بخلاف بدعت کے کہ وہ بے اصل ہے مگر لوگ اسے دین سمجھ کر کرتے ہیں۔‘‘ (فضل الباری ۴۴ تا ۴۵ ج ۱) اس سے معلوم ہوا کہ رسم بھی معصیت ہے۔
خدا م الدین صفحہ ۳۲ جنوری ۲۰۰۴ء میں دارالافتا جامعہ فاروقیہ کے فتویٰ کا متن شائع ہوا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ’’سالگرہ ایک فضول رسم ہے۔ اس میں مال خرچ کرنا اسراف اور وقت صرف کرنا تضییع اوقات ہے، لہٰذا اس سے بہرصورت اجتناب ضروری ہے۔ مسلمانوں کا وقت اورمال اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے ہے۔‘‘
فتاویٰ رحیمیہ جلد ۱ صفحہ ۱۹۲ میں عنوان ہے: ’’سالگرہ کا کیا حکم ہے؟‘‘ سائل کہتا ہے کہ انگلینڈ میں عیسائیوں کے اندر بچہ کی سالگرہ (برتھ ڈے) منانے کا دستور ہے۔ جواب میں مفتی صاحب نے دیگر احادیث کے ساتھ ساتھ ’من تشبہ بقوم فھو منھم‘ بھی درج کی ہے۔ ۱۹۲سے ۱۹۶تک اس پر بحث کی ہے۔ ص۱۹۴پر لکھا ہے کہ ’’حضرت عثمان بن ابی العاص ختنہ کی دعوت میں شریک نہ ہوتے تھے۔ .... رسم سالگرہ، یہ خالص غیر اقوام کا طریقہ اور ا نہی کی رسم ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مذکورہ طریقہ سے اجتناب کریں ورنہ اس کی نحوست سے ایمان خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ‘‘
خیرالفتاویٰ ص۵۵۴ جلد۱ میں ختنہ کی دعوت کو بدعت لکھا اور شریک ہونے سے منع فرمایا ہے۔ نیز ۵۶۷ جلد۱ پر سہرا بندی کو رسم کفر کہا ہے۔ اب سوال یہ ہے اگر سالگر ہ منائی جا سکتی ہے تو پھر ختنہ کی دعوت اور پھر سہرا بندی کا جوپرانا رواج ہے، اس کا کیا بنے گا؟ دوسری بات یہ کہ کیا واقعی سالگرہ ہماری علاقائی رسم ہے یا عیسائیت کی رسم ہے؟ تیسرے اگر حدود سے تجاوز ہو تو پھر بھی علاقائی رسم سمجھ کر شرکت کرنا درست ہے یا نہیں؟
میرے ذہن میں چند اشکالات تھے جولکھ دیے ہیں۔ باقی اس بے ادبی اور جرات پر پھر معافی کا خواستگار ہوں۔ چونکہ آپ کی شخصیت عام نہیں ہے، لہٰذا آپ کے اقوال اور قلم سے نکلے ہوئے الفاظ پر لوگوں کی نظر ہوتی ہے۔ جب آپ کی طرف سے اجازت سمجھیں گے تو شاید کل وہ کسی بڑے فساد میں مبتلا ہو جائیں، کیونکہ سنت تو حد بند ی کرتی ہے مگر رسم کی کوئی حد بندی نہیں۔ یہ ایک رواں دواں سلسلہ ہے جو آنے والے وقت میں نئے نئے گل کھلاتا ہے۔
محمد اسلم معاویہ
چاہ ملک والا ڈاکخانہ مریالی
ڈیرہ اسماعیل خان
(۵)
محترمی و مکرمی جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
گزشتہ ہفتے محترم مولانا زاہد الراشدی کے دست شفقت سے ’الشریعہ‘ جون ۲۰۰۸ء کا شمارہ ملا جس کو ابتدا سے آخر تک پڑھنے کا موقع ملا۔ ’الشریعہ‘ کے کلمہ حق سے لے کر اخبار و آثارتک ایک ایک چیز متعدد مرتبہ پڑھی۔ پڑھنے کے بعد یہ احساس پیدا ہوا کہ بلا شبہ ’الشریعہ‘ جیسے رسالہ کی یقیناًضرورت تھی، ایک ایسا رسالہ جس میں علمی ابحاث کے ساتھ ساتھ جدید زمانہ میں پیدا ہونے والے مسائل پر بھی علمی اور تحقیقی انداز میں قلم اٹھایا جائے اور جو جدیدزمانہ میں عوام کی رہبری و راہنمائی اور شرعی مسائل سے آگاہی کا فریضہ سرانجام دے سکے۔ میرے خیال میں الشریعہ دینی رسائل میں اعلیٰ مقام کا حامل مجلہ ہے۔ آج کے دور میں اس وقت تک کو ئی عالم معاشرہ کے مسائل پر تک قلم نہیں اٹھا سکتا جب تک وہ معاشرتی، سماجی، سیاسی اور معاشرہ میں پائے جانے والے رسوم رواج سے آگاہ نہ ہو۔ آج ہمارا دینی طبقہ عوامی مسائل اور سماج سے بہت دور ہے ا ور شاید یہ دوری کئی خلیجوں سے کم نہ ہو۔ الشریعہ اس لحاظ اپنی ذمہ داری پو ری کرتا نظر آاتا ہے۔ ۲۵ جون کو اسلامک میڈیا فانڈیشن کے اجلاس منعقدہ گوجرانوالہ کے موقع پر الشریعہ کے چند سابقہ شمارے بھی ملے جن کو پڑھنے کے بعد اپنے احساس کو مزید تقویت ملی۔ اللہ آپ کی اس محنت جلیلہ کو قبول فرمائے۔
حافظ محمد ابوبکر چودھری (سابق لکچرر)
پنجاب یونیوسٹی کالج آف انفار میشن ٹیکنالوجی
پنجاب یونیوسٹی لاہور