ہمارے ملی ادارے جوکبھی عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے تھے، آہستہ آہستہ ذاتی اورموروثی اداروں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ہر ادارے کے منتظم کی یہ خواہش چھپی نہیں رہتی کہ ادارہ اس کی اولاد اور خاندان تک محدود ہو کر رہ جائے۔ یہ ساری ریشہ دوانیاں اور اتھل پتھل، کہیں دبی دبی بے چینی اور کہیں کھلا کھلا انتشار سب اسی خواہش کانتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ اصل میں اس طرز عمل سے بہت سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے اور وہ کھلاپن باقی نہیں رہتاکہ ہرشخص کو اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے اور ترقی کرنے کے مساوی موقعے مل سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جب حق داروں کوان کاحق نہیں ملتا اور محنت کرنے والوں کی محنت کانتیجہ ان کے سامنے نہیں آتا تو پھر اداروں میں چاپلوسی، خوشامد اور انتظامیہ کو ہر حال میں خوش رکھنے کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی سچائی ہے، چاہے کڑوی ہی کیوں نہ ہو کہ ہمارے ملک میں اب بہت سے اداروں کا مدار باہر کے ملکوں سے امداد پر زیادہ ہو گیا ہے۔ کیونکہ یہ باہر کا پیسہ قانونی مرحلے طے کر کے نہیں پہنچتا، اس لیے یا تو اس پیسے کو ظاہر نہیں کیا جاتا یا پھر فرضی حساب بنایا جاتا ہے۔ پہلے ہمارے اداروں کی بڑی مفصل سالانہ روئیدادیں شائع ہوا کرتی تھیں جن میں ایک ایک پیسہ کی آمد وخرچ کے حسا ب کی تفصیل حاصل ہوتی تھی، تعلیم کی پوری کارکردگی آئینے کی طرح سامنے ہوتی تھی، طلبہ کے مکمل نام، ان کے حاصل کردہ نمبرات، یہ سب بڑی تفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے رکھ دیے جاتے تھے اور لوگ بھی اپنے اداروں کی کارکردگی دیکھ کرمطمئن رہتے تھے۔ یہ اصل میں عوامی محاسبے کاایک بہت ہی سائنٹیفک اور صاف ستھرا انتظام تھا۔ اب یہ سب کچھ دھیرے دھیرے سمٹتا جا رہا ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ خیال تعلیم کے معیار کا رہتا تھا۔ اسباق کی پابندی، طلبہ کی حاضری کا خیال، حاضری پر ان کو انعامات، مقررہ نصاب کی تکمیل، ان سب پر بہت زیادہ توجہ رہتی تھی۔ اس کے ساتھ طلبہ کی تربیت اوراخلاقی حالت پر پوری نظر رکھی جاتی تھی۔ ماننا چاہیے کہ اب ان سب چیزوں سے زیادہ عمارتوں پر توجہ ہے، بڑی بڑی عمارتیں، پرشکوہ بلڈنگیں ہمارے اداروں کی شان بنتی جا رہی ہیں۔
دیوبند جانا ہوتا رہتا ۔ہے کئی بار دیکھا ہے کہ طلبہ کی ایک بڑی بھیڑ کہیں سے نکلی چلی آرہی ہے جس سے سڑک پر آمد و رفت معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ معلوم کیا توپتہ لگا کہ ہمارے طلبہ عزیز کہیں ٹیلی ویژن مرکز پر کرکٹ کا میچ دیکھ کر آرہے ہیں جہاں ہر دیکھنے والے سے پانچ روپے لے کر ٹیلی ویژن پر میچ دکھایا جاتا ہے۔ اب نہ فکر نماز کی نہ اسباق کی، کرکٹ کی شکست وفتح ہمارے طلبہ عزیز کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ چند باتیں کچھ اشارات کے طورپر عرض کر دی گئیں اور ان کامنشا اپنی اس فکر مندی کا اظہار ہے جو ملی اداروں کی حالت دیکھ کر قدرتی طور پر ہوتاہے اور شاید ہر حساس انسان کو ہونا بھی چاہیے۔
بات چلی تھی کہ ہمارے ادارے ذاتی اور موروثی حیثیت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ غالباًوقت آچکاہے کہ ملت کے دردمند لوگ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اعلیٰ سطح کی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دیں جو ان اداروں پر خاص طورپر مرکزی حیثیت کے مدرسوں اور اہم جماعتوں پر نظر رکھیں اور اس کمیٹی کو عوام کا اتنااعتماد حاصل ہو جائے کہ لوگ اس کی غیر جانب داری اور انصاف پسندی پر بھر پور اعتماد کر سکیں۔ اس سے ان اداروں کو اس بات کا خیال رہے گا کہ بہرحال عوام کے سامنے جواب دہ ہیں اور عوامی اداروں کے لیے عوام کا اعتماد کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ (طارق عمیر عثمانی)
(بشکریہ ماہنامہ دار السلام، اپریل ۲۰۰۸۔ مالیر کوٹلہ، بھارت)
جمعیۃ العلماء ہند میں چچا بھتیجے کے اختلاف کا موضوع ہم چھیڑنا نہیں چاہتے۔ اخبارات میں یہ مسئلہ جس انداز سے آتا رہا ہے، وہ سبھی کے لیے تکلیف دہ رہا ہے۔ ڈر یہ ہے کہ اس اختلاف کا اثر دار العلوم دیوبند پر نہ پڑے اور وہاں کی فضا میں کوئی ایسی ہلچل پیدا نہ ہو جو دار العلوم کے مستقبل کے لیے نقصان دہ ہو۔
اس قضیہ نامرضیہ میں ایک بات جو شروع سے ہمیں کھلتی رہی ہے، وہ یہ ہے کہ کیا پورے ملک میں اس خاندان کے دو گروپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے جو ملت کے مسئلوں کو سلجھانے کے لیے آگے بڑھے؟ جمعیۃ العلماء مولانا اسعد میاں صاحب کے زمانے سے ہی ان کے حلقہ مریدین کی جماعت بن کر رہ گئی تھی۔ ہمیں معلوم ہے، اگرچہ کافی وقت گزر چکا ہے، کہ ہمارے والد محترم جس زمانے میں دار العلوم دیوبند کے شعبہ فارسی میں پڑھانے کی خدمت انجام دے رہے تھے، جمعیۃ العلماء کا ترجمان روزنامہ ’الجمعیۃ‘ مولانا عثمان فارقلیط کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ مولانا فارقلیط نے ایک اداریہ لکھا جس میں شکوہ کیا کہ جمعیۃ العلماء کی ممبر سازی عوامی طور پر کرنے کے بجائے خاص لوگوں کے نام بھر دیے جاتے ہیں اورممبر سازی کے پیسے دفتر میں جمع کرا دیے جاتے ہیں۔ یہ ممبر حقیقی طور پر ممبر نہیں ہوتے، بلکہ بعض کو تو یہ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمیں ممبر بنایا گیا ہے۔ یہ اداریہ شائع ہوا تو میرے والد صاحب نے اس کی تائید میں ایڈیٹر کو ایک خط لکھ دیا اور غضب یہ ہوا کہ حضرت مولانا محمد میاں صاحب نے اپنے تائیدی نوٹ کے ساتھ اس خط کو نمایاں طور پر شائع کر دیا۔ بس پھر کیا تھا، پورے حلقے میں ایک ہلچل مچ گئی۔الجمعیۃ ترجمان جمعیۃ کے تعلق سے اداریہ اور پھر اس خط کی اشاعت!
ہمیں معلوم ہے کہ درجہ فارسی میں ایک مدرس ہوا کرتے تھے مولانا شمیم احمد عثمانی دیوبندی۔ یہ مولانا اسعد میاں صاحب کے بہت قریبی رازدار دوستوں میں سے تھے۔ انھوں نے والد صاحب سے کہا کہ جمعیۃ العلماء کی ممبر سازی ہونے والی ہے۔ اب کی مرتبہ آپ اس میں حصہ لیں اور ممبر بنائیں۔ والد صاحب نے کہا کہ ہم ضرور تیار ہیں۔ ہمیں آپ رسید بک لا کر دے دیں، ان شاء اللہ ہم ممبر سازی کریں گے۔ کہنے کو تو انھوں نے کہہ دیا مگر والد صاحب کے بار بار یاد دلانے اور تقاضا کرنے کے باوجود انھوں نے والد صاحب کو ممبر بنانے کا موقع نہیں دیا۔ جب ممبر سازی کی تاریخ نکل گئی تو والد صاحب نے ان سے کہا کہ ہمیں یہی امید تھی کہ آپ ہمارے ذریعے ممبر نہیں بنائیں گے اور اس وقت ایک لفظ ان کی زبان سے نکلا کہ ’’سکہ بند‘‘ لوگوں کے علاوہ کس کی مجال ہے جو جمعیۃ میں داخل ہو سکے۔
تو حقیقت یہی ہے کہ جمعیۃ العلماء مریدوں کے حلقے میں محدود ہو کر رہ گئی تھی اور آج بھی کچھ صورت حال مختلف نہیں ہے، اس لیے جمعیۃ العلماء کا ماضی کتنا بھی شاندار رہا ہو، اب وہ ایک حلقے میں محدود ہے۔ یہی حال ان لوگوں نے دار العلوم دیوبند کا کر دیا کہ قبضے کے بعد سے اس پر ایک ہی خاندان اور ایک ہی فکر کے لوگ قابض ہیں۔ جب تک یہ صورت حال نہیں بدلے گی، چاہے اختلافات ہوں، لڑائیاں بجتی رہیں یا کچھ بھی ہوتا رہے، ملت کے لیے یہ ایک مستقل ناسور بنا رہے گا۔ لوگ کہیں گے علما لڑ رہے ہیں، حالانکہ علما نہیں، بلکہ ایک خاندان کے لوگ اپنی انا اور مفادات کے لیے برسر پیکار ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس امت پر رحم فرمائے کہ اس نازک دور میں بھی لوگ اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
(طارق عمیر عثمانی)
(بشکریہ ماہنامہ دار السلام، مئی ۲۰۰۸۔ مالیر کوٹلہ، بھارت)
تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے کی بات پر زور دیا جاتا ہے، نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔ پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ طریقہ امت کے عوام طبقہ کے لیے درست ہو سکتا ہے جس کو سرے سے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دین کیا ہے؟ خدا، رسول اور آخرت کیا ہے؟ لیکن اب میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ عوام ہوں یا خواص، تبلیغی جماعت میں جڑنے کے بعد مسلمان ذہنی جمود کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سے باہر کسی بات پر سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں رہتا، اس لیے کہ اس میں کچھ گنی چنی باتوں کو دہرایا جاتا ہے اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے، بنا کسی دلیل کے۔
میرے محلے کا واقعہ ہے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے میری بیٹی کے گھر ڈلیوری ہونے والی تھی۔ میرے داماد پر محلے کی جماعت کے ساتھیوں نے چار مہینہ جماعت میں لے جانے کے لیے زور دیا۔ اس پر میں نے یہ بات جماعت والوں کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ اللہ سب اچھا کرے گا۔ ایسا کہہ کر وہ اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ دنوں بعد میری لڑکی کی طبیعت خراب ہو گئی۔ پھر میں اس کو اپنے گھر لایا اور اسپتال میں بھرتی کرایا جس میں مجھے قریب ۱۷۰۰۰ روپے کا خرچ اٹھانا پڑا۔ نہیں تو میری بچی کی جان خطرے میں تھی۔یہ بات جب میں نے اپنے داماد کو جماعت سے واپس آنے پر بتائی تو وہ میرا احسان ماننے کے بجائے مجھ سے جھگڑا کرنے لگے اور ۱۷۰۰۰ میں سے ایک پیسہ بھی مجھے نہیں دیا۔ تب سے مجھے جماعت کے نام سے نفرت ہو گئی ہے۔ یہ بات مذکورہ صاحب نے مجھے اس وقت بتائی جب میں نے ان سے فجر کی نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلتے وقت پوچھا کہ آج کل آپ تعلیم میں کیوں نہیں بیٹھتے؟ اسی طرح کے اور بھی واقعات ہیں۔
اصل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت میں بھیڑ دیکھ کر آدمی اس سے جڑ تو جاتا ہے لیکن وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔ الرسالہ پڑھنے کے بعد جب میرے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہوا تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ آپ لوگ صبح شام ایک ہی کتاب پڑھتے رہتے ہیں اور وہ فضائل اعمال ہے، اور بات کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کی۔ حالانکہ آپ کا طریقہ تو یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے اور قرآن سے ہی دعوت دیتے تھے، جبکہ ان کی مخاطب قوم تو جہالت کی حد پر تھی۔ پھر جب وہ قوم قرآن کے ذریعے ہمارے لیے نمونہ بنا دی گئی تو ہمیں جھوٹے فضائل کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ جس دین میں خدا کی کتاب ہی کا وجود نہیں، وہ دین کیسا؟ میری اس بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، لہٰذا وہ کسی مفتی سے یہ جواب لے آئے کہ قرآن کو صرف علما ہی سمجھ سکتے ہیں، عام مسلمان اس کو پڑھنے سے بھٹک سکتا ہے۔ اس طرح کی باتوں سے جماعت کے آدمی کا ذہن ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ خود کسی بات پر کھلے ذہن سے سوچ نہیں پاتا۔ بس ایک بات یا جملہ ان کے بڑوں نے کہہ دیا تو وہ پتھر کی لکیر ہو گئی۔ صحیح ہے یا غلط، اس پر کسی کو عقل لگانے کی ضرورت نہیں۔ (شکیل احمد، اندور)
تبلیغی جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے ذمے داروں نے عوام کے اندر دینی شوق پیدا کرنے کے لیے اس کام کو شروع کیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ عوام زیادہ گہری باتوں کو سمجھ نہیں سکتے، اس لیے انھوں نے فضائل کی روایات کے اوپر اپنی تحریک کی بنیاد رکھی۔ عوام کی اصلاح کے اعتبار سے یہ طریقہ مفید ہو سکتا ہے لیکن بعد کو یہ ہوا کہ تبلیغ کے ذمے داروں نے اپنے طریق کار کو بدلے بغیر خواص کو اپنے دائرۂ عمل میں شامل کر لیا۔ تبلیغی جماعت کی یہ توسیع الٹا نتیجہ پیدا کرنے کا سبب بن گئی کیونکہ فضائل کی روایتیں عوام کو متاثر کر سکتی تھیں، لیکن خواص کا ذہن اس سے ایڈریس نہیں ہوتا، چنانچہ خواص تبلیغی جماعت سے قریب ہونے کے بعد جلد ہی اس سے دور ہونے لگے۔
خواص کی یہ دوری سادہ طور پر تبلیغ سے دوری نہ تھی، بلکہ عملاً وہ دین سے دوری کا سبب بن گئی۔ خواص یہ سمجھنے لگے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو عوام کی ضرورت کو تو پوری کرتا ہے، لیکن اس میں خواص کے لیے اطمینان کا سامان نہیں۔ دہلی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان، جو پہلے تبلیغی جماعت سے قریب ہوئے تھے اور پھر وہ دل برداشتہ ہو کر اس سے دور ہو گئے، انھوں نے ا س معاملے کو بتاتے ہوئے یہ بامعنی جملہ کہا: ’’تبلیغ والوں نے پہلے میواتیوں کو مسلمان بنایا، اب وہ مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔‘‘ (مولانا وحید الدین خان)
(بشکریہ ماہنامہ تذکیر لاہور، جون ۲۰۰۸)