جمعے کی امامت اور غامدی صاحب کا نقطۂ نظر

الیاس نعمانی ندوی

ماہنامہ اشراق (بابت ماہ اپریل ۲۰۰۸ء) کے شذرات کے کالم میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی گفتگو پر مبنی ایک تحریر نظر نواز ہوئی ہے۔ عنوان ہے: ’’جمعے کی امامت‘‘۔ اسی کی بابت کچھ عرض کرنے کا اس وقت ارادہ ہے۔ غامدی صاحب کا حاصل مدعا خود انہی کے الفاظ میں یہ ہے:

’’جہاں تک جمعے کی نماز کا تعلق ہے تو اس کا قانون پنج وقتہ نماز سے کچھ مختلف ہے۔ اس کی رو سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی، یعنی حکومت وریاست کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک دن جمعے کے روز خصوصی نماز کا اہتمام کریں۔ ۔۔۔اس نماز کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کا اہتمام عام مسلمان نہیںِ بلکہ ان کے حکمراں کرتے ہیں۔ اس کی امامت اور خطاب کا حق بھی انہی کو حاصل ہے اور اس کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہے۔‘‘

جمعہ کی امامت کی بابت یقیناًاصل حکم شرعی یہی ہے، اور ملت کے بعض مصالح کی بنا پر یہ ایک ایسا مؤکد حکم ہے کہ رسالت مآب (ﷺ) کی یہ صراحت بعض احادیث میں موجود ہے کہ امام متقی ہو کہ فاسق وفاجر بہر حال اس کے پیچھے نماز پڑھی جائیگی۔ (ملاحظہ ہو:سنن ابو داوٗد: ۲۵۳۳، سنن ابن ماجہ:۱۰۸۱)لیکن غامدی صاحب نے جس ’’گرد وپیش‘‘ میں پہلے یہ گفتگو فرمائی اور پھر اسی ماحول میں یہ شائع بھی ہوئی ہے اسکی بنا پر یہ عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ یہ حکم تب تک ہے جب تک حکمراں ( چاہے وہ فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو) اسلام وکفر کی کشمکش میں کفر کی طاقتوں کا ساتھ نہ دے،اس کے برخلاف اگر اس کا حال یہ ہو کہ وہ عالمی سیاست میں ان طاقتوں کا حلیف اور معاون ہو جو اسلام کے خلاف براہ راست برسر پیکار اور قرآن مجید کے الفاظ میں ’إفساد في الأرض‘ کی مجرم ہوں ،وہ مملکت کے اندرامن عالم،اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو فوجی کاروائیاں کرنے کی اجازت دے اور خود بھی دوسروں کے کہنے پربے قصوروں کا قتل کرے تو ایسے حکمراں کا یہ حق ہرگز نہ ہوگا۔ بلکہ ایسی صورت میں شریعت کا اصل حکم تویہ ہے کہ ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔ (ملاحظہ ہو:بخاری:۷۰۵۶، مسلم: ۱۷۰۹)ہاں اگر ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی کوششوں میں کامیابی کی امید نہ ہو اور مزید فتنہ بھڑکنے کا ڈر ہو تو ان کو برداشت تو کرلیا جائے گا لیکن ان کو حکمرانوں والے اختیارات حاصل نہ ہوں گے۔

غامدی صاحب نے اپنی اسی گفتگو میں ’’جمعے کے منبر کے حکمرانوں کی تحویل سے نکلنے اور علما کی تحویل میں جانے کے نہایت مضر رساں[کذا] نتائج‘‘ بیان کیے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ :’’حکمرانوں کے لیے عبادت اور اللہ کے دین کے ساتھ تعلق کا ایک لازمی موقع ختم ہوگیاہے۔ حکمران اگر جمعے کے لیے مسجدوں میں آتے تو ان کا کچھ وقت عبادت میں گزرتا۔ خطبۂ جمعہ میں وعظ ونصیحت کے لیے انھیں دینی تعلیمات سے رجوع کرنا پڑتا۔ نماز کی امامت میں تلاوت کے لیے قرآن کے اجزاء کو یاد کرنا پڑتا۔ ایسی وضع اختیار کرنی پڑتی جو مسجد میں حاضری کے لیے موزوں ہو۔یہ ساری چیزیں ظاہر ہے کہ انھیں اللہ اور اس کے دین سے قریب کرنے کا باعث بنتیں‘‘۔لیکن ہماری عقل ناقص کے مطابق تو یہ خیال محض خوش فہمی ہی ہے، ہمارے حکمرانوں کا جب حال یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر سے دین پسندی کی ہر’’ تہمت‘‘ ہٹانا چاہتے ہیں، اقتدار میں آتے ہیں تو ’’عالمی برادری‘‘ کو یہ پیغام دینا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں کہ وہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے قائل ہیں لہٰذا وقت کے چیرہ دست سپر پاوروں کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، اوراس کے لیے ہر حد تک چلے جائیں گے، تو کیا ان حکمرانوں کے سلسلے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اکیلا جمعے کا منبر ان کو راہ ہدایت پر لے آئے گا اور ’’انھیں اللہ اور اس کے دین سے قریب کرنے کا ‘‘ باعث بنے گا۔ اور کیا ان کو یہ خوف لاحق نہ ہوگا کہ اگر بر سر منبر ہوئے تو شدید تنقید اور احتساب کا سامنا کرنا پڑے گااور ایسی صورت میں ان کو عافیت کیا اس میں نظر نہیں آئے گی کہ ع

اگر ٹھہری یہ شرطِ وصلِ لیلیٰ
تو استعفیٰ میرا با حسرت ویاس

کہتے ہوئے راہ فرار اختیار کرلیں۔ خود غامدی صاحب کا بیان ہے کہ: ’’بنو امیہ کے زمانے تک جمعے کا منبر حکمرانوں ہی کے پاس رہا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ حکمران لوگوں سے خوف زدہ ہونا شروع ہوگئے۔ یعنی وہ جب مسجد میں آتے تو انھیں لوگوں کی تنقید اور رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس خوف کی وجہ سے انہوں نے جمعہ کے منبر کو چھوڑ دیا‘‘۔ تو اب کے حکمراں کیسے عوام میں آئیں گے، اور کیسے وہ رد عمل سہیں گے جو ان کے ظلموں کے نتیجہ میں عوام میں پنپ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے نائبین کو جمعہ کا منبر سونپ دیں گے، اور ان کے نائبین؟ بس اللہ نہ کہلوائے۔

’’جمعے کے منبر کے حکمرانوں کی تحویل سے نکلنے اور علما کی تحویل میں جانے‘‘ کا ایک نتیجہ غامدی صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ:’’ مسجدیں فرقہ بندی کا مرکز بن گئی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر مسجد کسی نہ کسی فرقہ سے منسوب ہے۔ چنانچہ یہاں پر اہل حدیث کی مسجدیں ہیں،دیوبندیوں کی مسجدیں ہیں اور بریلویوں کی مسجدیں ہیں۔۔۔‘‘۔ لیکن اگر یہ منبر حکمرانوں کی تحویل میں ہوتے تو منظر اس سے بھی زیادہ درد ناک ہوتا، عالمی ایجنسیز میں سے جس کو جس علاقہ میں اپنے پاؤں جمانے ہوتے اس علاقے کی مسجدوں کے منبر اس ایجنسی کے زیر تصرف ہوتا، یہ خدشہ کوئی بے بنیاد نہیں ہے بلکہ ان حکمرانوں کا طرز عمل یہی بتاتا ہے، جو پالیسی ساز ادارے ان کے زیر تصرف ہیں کیا ان میں ایسا نہیں ہے؟ اکیلے محکمۂ تعلیم کی ہی مثال سب کچھ سمجھنے کے لیے کافی ہے۔

اپنی اس گفتگو کے آخر میں غامدی صاحب نے اپنے موقف کو فقہ حنفی کے عین مطابق بتایا ہے، اس موقع پر غالباً ان کے ذہن سے یہ بات اوجھل ہوگئی کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے اپنی زندگی میں ہمارے بعض موجودہ حکمرانوں سے بدرجہا بہتر حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کی مدد فرمائی تھی، یعنی امام صاحب کے نزدیک بھی ایسے حکمراں حکمرانوں والے حقوق نہیں رکھتے ورنہ وہ کیوں ان کے خلاف ہونے والی بغاوتوں میں کسی طور شریک ہوتے۔

آراء و افکار

(اگست ۲۰۰۸ء)

تلاش

Flag Counter