حضرت مولانا حسن جانؒ کی شہادت اور مولانا شفیق الرحمن درخواستی کی وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا حسن جانؒ صاحب کی شہادت اور حضر ت مولانا شفیق الرحمن درخواستی کی اچانک وفات کی خبر میں نے دارالہدیٰ واشنگٹن میں سنی۔ دونوں بزرگ ہمارے ملک میں حدیث نبوی کے بڑے اساتذہ میں سے تھے اور دونوں کی وفات دینی وعلمی حلقوں کے لیے صدمہ کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی نقصان کا بھی باعث ہے۔

حضرت مولانا حسن جان شہیدؒ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی معذوی اور وفات کے بعد ان کی مسند تدریس پر رونق افروز ہوئے اور پھر پشاور صدر کی درویش مسجد میں دینی درس گاہ قائم کر کے علوم حدیث کی ترویج و اشاعت کو زندگی بھر مشن بنائے رکھا۔ وہ سیاست میں بھی آئے اور خان عبد الولی خان مرحوم جیسی قدر آور شخصیت کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، لیکن سیاست انھیں راس نہیں آئی۔ وہ تو سیاست میں آئے لیکن سیاست ان میں آنے کا راستہ نہ پا سکی، بالآخر انھوں نے اسے طلاق بائن دے دی۔ وہ اس میدان کے بزرگ ہی نہیں تھے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کی واحد جولان گاہ علم اور صرف علم تھا۔ اپنے مزاج کے حوالے سے وہ مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت تھے۔ خدا جانے ان کے سفاک قاتلوں کو ان کی جان لینے میں کس پہلو سے دلچسپی تھی۔ بہرحال ہم ان کے قتل کی مذمت کرتے ہیں، ان کے قاتلوں کی گرفتاری اور انھیں کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان کے لیے جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات کی دعا کرتے ہوئے اہل خاندان، تلامذہ اور عقیدت مندوں کے ساتھ اس غم میں شریک ہیں۔

حضرت مولانا شفیق الرحمن درخواستی ہمارے مخدوم ومحبوب امیر حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے نواسے اور ان کی علمی وتدریسی روایات کے امین تھے۔ انھوں نے حضرت درخواستی کے زیر سایہ تعلیم وتربیت حاصل کی اور پھر جامعہ مخزن العلوم والفیوض خان پور اور پھر ان کی موجودگی میں ان کی مسند تدریس پر بیٹھ کر ان کے تعلیمی وتدریسی سلسلہ کو جاری رکھا۔ بعد میں خان پور میں ہی جامعہ عبد اللہ بن مسعودؓ قائم کر کے تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ مسلکی حمیت سے مالامال تھے اور دینی تحریکات کی ہمیشہ سرپرستی فرماتے تھے۔ ان کی اچانک وفات صرف درخواستی خاندان کے لیے نہیں بلکہ ملک بھر کے دینی وعلمی حلقوں کے لیے صدمہ کا باعث ہے، حضرت درخواستی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق وعقیدت کے حوالے سے بھی اور اس حوالے سے بھی کہ ہم قحط الرجال کے اس دور میں ایک باعمل عالم دین، باصلاحیت استاذ حدیث اور جذبہ حق گوئی سے بہرہ ور دینی راہ نما سے محروم ہو گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ درجات سے نوازیں، ان کے اہل خاندان، تلامذہ اور عقیدت مندوں کو صبر جمیل کی توفیق دیں اور ان کے برادران وفرزندان کو ان کا علمی صدقہ جاریہ تادیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا الٰہ العالمین

اخبار و آثار

(اکتوبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter