(۱۴ نومبر ۲۰۰۶ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے تربیتی نظام کی ضرورت اور تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ تربیتی ورکشاپ میں پڑھا گیا۔)
مولانا ابو عمار زاہدا لراشدی و دیگر معزز علماے کرام و شرکائے سیمینار!
میں سب سے پہلے تو آج کی تقریب کے میزبانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے مجھ جیسے ایک طالب علم کو علما کی اس مجلس میں مدارس سے تعلق رکھنے والے ایک خصوصی مسئلے پر اظہار خیال کی دعوت دی۔ میں سمجھتاہوں کہ اس مسئلے پر زیادہ بہتر تھا کہ دینی مدارس کے کسی استاذ محترم کو اظہار خیال کی دعوت دی جاتی جو اس موضوع پر یقیناًمجھ سے بہتر آپ کی رہنمائی کرتے۔ غالباً میزبانوں کا خیال ہے کہ اس عنوان پر کسی غیر جانب دار مبصر کو اظہار خیال کے لیے کہا جائے، اس لیے ان کی نظر انتخاب مجھ جیسے شخص پر پڑی ہے۔ بایں ہمہ میں کوشش کروں گا کہ مجھے جو ذمہ داری تفویض ہوئی ہے، اس پر ایک غیر جانب دار مبصر کے طورپر روشنی ڈالوں۔
اس سے قبل کہ میں اپنے موضوع پر گفتگو کروں، مناسب خیال کرتاہوں کہ میں ابتدا ہی میں اپنے اس تجربے کا تذکرہ کروں جو مجھے اپنی ابتدائی زندگی میں دینی مدارس کے ایک طالب علم کے طورپر حاصل ہوا۔ مجھے اس پر فخرہے کہ میں نے دینی تعلیم دینی مدارس کے ایک باقاعدہ طالب علم کے طورپر حاصل کی ہے۔ میری طالب علمی کا دور ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۳ء تک پھیلاہواہے اوران آٹھ برسوں میں، میں نے پانچ شہروں میں واقع چھ مدارس سے دینی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت وفاق المدارس کا موجودہ سیٹ اب موجود نہ تھا اورطالب علم تعلیمی درجات اور مراحل کے انتخاب میں کافی حد تک آزاد ہوتا تھا اور آٹھ سال کا کورس چھ یا سات برسوں میں مکمل کر لیا جاتا تھا۔ چنانچہ میں نے ایک سال تو فارسی پڑھی اور باقی سالوں میں مدرسہ کاشف العلوم شیخوپورہ، مدرسہ حسینیہ شہداد پور سندھ، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دار العلوم کبیر والا اور جامعہ مدنیہ وجامعہ اشرفیہ لاہور میں درس نظامی کی تکمیل کی اور دورۂ حدیث میں مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ اورمولانا محمد موسیٰ خان صاحبؒ جیسے اساتذہ کرام سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ تحدیث نعمت کے طورپرعرض ہے کہ اس وقت کے سالانہ امتحان میں مدارس میں اول پوزیشن حاصل کرنے کی سعادت تک حاصل ہوتی رہی اور راقم الحروف کا شمار ہمیشہ اچھے طلبہ میں ہوتا رہا۔
اس تفصیل سے اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ آج کے اس سیمینار میں دینی مداس کی تعلیم کے حوالے سے جو کچھ عرض کیاجائے گا، وہ محض سنائی سنائی باتوں پر مبنی نہیں، بلکہ اس میں سے بہت کچھ ’’آپ بیتی‘‘ اور ذاتی مشاہدے کا نتیجہ ہے۔
دینی مدارس میں تربیتی نظام کی اہمیت وضرورت
جہاں تک آج کے موضوع کا تعلق ہے تو یہ میرے خیال میں بہت اہم بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی، اور اگریہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ تربیت نام کی شے ابھی تک دینی مدارس کی حدود میں داخل نہیں ہوئی۔ دینی مدارس میں تربیتی نظام نہ ہونے کی بنا پر انداز تدریس اور اسلوب تدریس میں عجیب بو العجبیاں دیکھنے میں آتی ہیں اور دینی مدارس سے جو طلبہ فارغ ہوتے ہیں، دینی مدارس کے ذ مہ دار حضرات انہی میں سے کسی ایک کا، ذاتی تعلق یاکسی سفارش کی بنیاد پر اپنے مدرسہ میں استاذ کی آسامی پر تقرر کر دیتے ہیں اور یہ دیکھنے اور جاننے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے کہ مذکورہ فرد میں پڑھانے کی صلاحیت بھی ہے یا نہیں، اور چونکہ مدارس سے طالب علموں کی جو کھیپ تیار ہو رہی ہے، وہ زیادہ تر ایسے ہی اساتذہ کے ’’فیضان علمی‘‘ کا نتیجہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دن بدن طالب علموں کا علمی اور فکری معیار گرتا جا رہا ہے اور درس نظامی سے فراغت حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت کسی بھی عربی کتاب کو سمجھنا تو درکنار، اس کی عبارت تک پڑھنے سے ناواقف رہتی ہے اور مقابلے کے امتحانات میں معلومات کے فقدان اور نصاب پر گرفت نہ ہونے کی بنا پر اکثرناکام رہتی ہیں اور اکثر وبیشتر نشانہ تضحیک بنتی ہے۔
دینی تعلیم وتربیت کا پس منظر
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دینی تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے تسلسل کے ساتھ کابراً عن کابر چلا آ رہا ہے اور اس میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی انقطاع واقع نہیں ہوا اور اس میں مسلمانوں کی محنت سے زیادہ قرآن حکیم اور اس کے سایے تلے نشوونما پانے والے علوم وفنون کے اعجازی پہلو کا زیادہ تعلق ہے، اس لیے یقیناًوہ لوگ خوش قسمت اور خوش نصیب ہیں جنہیں ان علوم وفنون کو پڑھنے اور پڑھانے کا موقع ملتا رہا اور جن کے سینے ’’یاد یار مہرباں‘‘ سے اور ہونٹ ’’ذکر یار‘‘ سے معطر اور منور رہے ہیں اور انہوں نے دشمنوں کی ہزاروں کوششوں اور ہزار کاوشوں کے باوجود اس تعلیم کاپرچم سربلند رکھا۔ اللہ تعالیٰ علوم اسلامیہ کے ان جاں بازوں پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔
تاہم دینی مدارس کے موجودہ نصاب اور موجودہ نظام تعلیم کا تعلق متاخرمغلیہ دو رسے تعلق رکھنے والی ایک قد آور اور بالغ نظر ہستی ملا نظام الدین سہالویؒ (۱۰۸۸۔۱۰۸۹ھ مطابق ۱۱۶۱ھ؍۱۷۴۸ء) کی ذات سے ہے جنہوں نے ایک ایسا جامع اور عمدہ نصاب تعلیم متعارف کروایا جو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اسی آب وتاب اور اسی جوش وخروش اور دینی جذبے سے پڑھایا جا رہا ہے۔ اسے دارالعلوم دیوبند کی علمی تحریک نے نئے ’’بال وپر‘‘ عطاکیے جو انگریز کے مکمل تسلط، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی اور ۱۹۳۵ء میں لارڈ میکالے کی طرف سے آنے والی تعلیمی پالیسی کے عملی نفاذ کے بعد سامنے آئی۔ ملانظام الدین سہالویؒ کا تیار کردہ نصاب تعلیم کا اگر دارالعلوم دیوبند کی علمی اور فکری تحریک کے ذریعے احیا اور اجرا نہ ہوا ہوتا تو شاید یہ نصاب تعلیم ہندوستان کے دوسرے کئی نصا ب ہائے تعلیم کی طرح کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا۔ یقیناًاسے دوسری زندگی دارالعلوم دیوبند کی علمی تحریک نے عطا کی ہے۔
نصاب تعلیم کی طرح انداز تدریس بھی صدیوں کی روایت اور قدامت رکھتاہے اور آج بھی درس نظامی کی کتب کو پڑھانے کا طریقہ اورانداز وہی ہے جو صدیوں پہلے ہندوستان بھر میں خصوصاً اور باقی دنیائے اسلام میں عموماً رائج اور نافذ تھا۔ ابتدائی دور میں چونکہ پڑھانے والے اساتذہ تدریس میں خصوصی مہارت رکھتے تھے اور پڑھنے والے بھی محض ذاتی شوق اور محنت سے پڑھایا کرتے تھے، اس لیے اس وقت اساتذہ کی تربیت نہ ہونے کے باوجود بہت عمدہ طریقے سے کام چل رہا تھا۔ اس وقت استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کا جو لازوال رشتہ قائم ہوتا تھا، وہ انہیں ایک دوسرے کے قریب کرتا تھا اور چونکہ طلبہ اپنے اساتذہ کے ساتھ جو وقت گزارتے تھے، اس کے دوران وہ اپنے اساتذہ سے سیکھنے کا عمل جاری رکھتے تھے، اس لیے جب وہ مسند تدریس پر فائز ہوتے تو انہیں کوئی دقت اور دشواری پیش نہیں آتی تھی۔
دوسرا اہم اور امتیازی فرق یہ تھا کہ اس دورمیں علوم آلیہ (صرف ونحو اور منطق) پر شروع میں خوب محنت کرائی جاتی تھی جس کی بنا پر طالب علم کی عربی عبارت اور گریمر پر گرفت مضبوط ہو جاتی تھی۔ اس کے لیے اپنے استاد سے سیکھنے کا عمل بہت بہتر ہوتا تھا۔ مگر اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے اور طالب علم اور استاد میں فاصلے بڑھ گئے ہیں اور اساتذہ کے دروس محض حاشیوں اور شروح تک محدود ہو گئے ہیں۔ جس استاد محترم سے میں نے کافیہ پڑھا، انہوں نے سات دن اس کے پہلے جملے ’الکلمۃ لفظ وضع لمعنی مفردٌ مفرداً مفردٍ‘ کی تشریح پر لگائے جس کے دوران انہوں نے کافیہ کی ایک شرح کی پوری باتیں اپنے طالب علموں کے گوش گزار کیں، لیکن ان سات دنوں کی اس تقریر میں شایدہی کوئی ایسی بات ہو جو اس وقت کے میرے طالب علمانہ ذہن میں بیٹھی ہو۔ اس طرح مختلف کتابوں کے اساتذہ کرام کی کاپیاں کافی مشہور تھیں۔ میرے ایک استاد محترم نے اس وقت (۱۹۷۳ء میں) ہمیں حدیث کی ایک کتاب کے جو نوٹس لکھوائے تھے، برسہا برس گزرنے کے باوجود نہ تو ان کے ان نوٹس کے الفاظ بدلے ہیں اور نہ ہی ان کے معانی ومضامین میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
یہ میرے اساتذہ کرام کی محنت کا ثمر تھاکہ حدیث کی تعلیم کے دوران بھی ہم پر حدیث کا کوئی رنگ نہیں چڑھا اور ہم بخاری، مسلم اور ترمذی کے درسوں میں بھی قدوری، ہدایہ اور نور الانوار کا مزہ لیتے رہے اورمجھے یہ بھی یاد نہیں کہ چند ایک اساتذہ کرام کے سوا کسی ایک استاد نے کتاب کے مصنف کا یا ان کے حالات کا ذکر کیا ہو اور یہ بتایا ہو کہ یہ کتاب کس دور میں لکھی یا تصنیف کی گئی۔ بعض اساتذہ گھنٹہ بھر کی تدریس کے بعد جب درس گاہ سے رخصت ہوتے تو ہمارا ذہن کورے کاغذ کی طرح خالی اور صاف ہوتا اور ہمیں ان کی لچھے دار تقریروں میں سوائے دوچار جملوں کے کچھ بھی یاد نہ رہتا تھا۔ پھر علا مہ تفتازانی اور جرجانی کے حاشیہ در حاشیوں کا مسئلہ اس پر مستزاد ہے جن کی اٹھائی ہوئی منطقی موشگافیوں سے ذہن تو یقیناًتیز ہوتا ہے، مگر طالب علم کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور مجبوراً امتحان کے وقت دوسرے لوگوں کی تیار کردہ کاپیوں یا نوٹس کا سہارا لینا پڑتا ہے اور جب سے وفاق المدارس کا نظام قائم ہوا ہے، اس وقت سے تو یہ کاپیاں اور یہ نوٹس ایک بین الملکی شے بن گئے ہیں اور طالب علموں کے لیے Guess paper کا سا درجہ رکھتے ہیں۔
دراصل ہر مضمون کو اس کے اپنے ماحول میں مطالعہ کرنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر دینیات کو منطق کے رنگ میں یا حدیث کوفقہ کے انداز میں پڑھایا جائے تو اس سے اس مضمون کی افادیت ختم ہو جاتی ہے اور پڑھنے والا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے ان رویوں پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ یہ حالات اورہمارے دینی مدارس سے تیار ہونے والی علما کی کھیپ اور ان کا معیارِ علمی اور معیارِ تعلیمی، دینی مدارس کے زعما کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے جس کی بنا پر مذہب کی دنیا میں بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دے رہی ہیں اور ہمیں شاید ابھی تک اس مسئلے کی نزاکت اور اہمیت کا احساس نہیں ہے۔ یہ محض تصویرکا وہ رخ ہے جو شاید ہمارے سامنے نہیں ہے یا جس کی طرف سے ہم نے اپنی آنکھیں عملاً بند کر رکھی ہیں اور ہم کسی بھلے وقت کا انتظار کر رہے ہیں جو شاید کبھی نہیں آئے گا اور ہمیں وہی کچھ ملے گا جو اہم اپنی ان نسلوں کے ذہنوں میں بو رہے ہیں۔
پس چہ باید کرد
اب سوال یہ ہے کہ دینی مدارس کے معیار تعلیم، وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طالب علموں کی بالغ نظری اور انہیں وقت اور زمانے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا سکھانے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے اب یہ بات ناگزیر ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کی مناسب وموزوں تربیت کا بھی انتظام اور اہتمام ہونا چاہیے۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہ بات عملاً تسلیم کر لی گئی ہے کہ دوسروں کو پڑھانا یا تعلیم دینا یہ ایک الگ اور مستقل فن ہے اوریہ بات ضروری نہیں ہے کہ ایک اچھا عالم ایک اچھا استاد بھی ہو اور یہ فن بھی تعلیم وتعلم کا محتاج ہے۔ خود لفظ تعلیم میں اس عملی پہلو کی طرف رہنمائی پائی جاتی ہے۔ نامورماہر لغات علامہ راغب الاصفہانی نے لفظ تعلیم کی توضیح کرتے ہوئے لکھاہے:
والتعلیم اختص بما یکون بتکریر وتکثیر حتی یحصل منہ اثر فی نفس المتعلم وقال بعضہم التعلیم تنبیہ النفس لتصور ذالک (الراغب الاصفہانی،مفردات فی غریب القرآن،ص۳،بذیل مادہ علم)
’’تعلیم کسی شے کو دہرانے اور کثرت کے ساتھ اس کے تکرار کا نام ہے، تاآنکہ اس کا اثر طالب علم کے نفس پر ظاہر ہو جائے۔ بعض علما نے کہاہے کہ تعلیم اس کے تصور کے لیے نفس کو متنبہ اور آگاہ کرنے کا نام ہے۔‘‘
تعلیم کی اس لغوی تشریح سے واضح ہو جاتا ہے کہ تعلیم بذات خود ایک الگ اور مستقل فن ہے جو سیکھنے سکھانے کا محتاج ہے۔ جبکہ تربیت کا مادہ’’رب‘‘ہے جو کہ مصدر ہے۔ علامہ راغب اس کے متعلق لکھتے ہیں:
الرب فی الاصل التربیۃ ھو انشاء الشئ حالا فحالا الی التمام یقال ربہ ورباہ ورببہ فالرب مصدر مستعار للفاعل (ایضاً، ص۱۸۹، بذیل مادہ رب)
’’الرب کے لغوی معنی ’’تربیت‘‘ کے ہیں، یعنی کسی شے کو درجہ بدرجہ کمال تک پہنچانا۔ اسی مفہوم کے اعتبار سے کہاجاتاہے: ’ربہ ورباہ ورببہ‘۔ اس طرح ’الرب‘ لغوی لحاظ سے مصدر ہے جو فاعل (تربیت کرنے والے) کے مفہوم میں مستعار لیا گیا ہے۔‘‘
اور اگر جدید علم التعلیم کے حوالے سے بات کی جائے تو فن تعلیم یا فن تدریس سے مراد نصاب کو موثر انداز میں طلبہ تک پہنچانے کے لیے موثر حکمت عملی کو اپنانے کا نام ہے۔ اس کے لیے اصول نفسیات اور طرق تدریس کاصحیح فہم ہونا بھی ضروری ہے۔ نظام تعلیم کا یہ پہلو اطلاقی وعملی حیثیت رکھتا ہے۔
مزید برآں آج کل تعلیم وتدریس کو کسی ایک طریقے تک محدود نہیں سمجھا جاتا، بلکہ دور حاضر میں تعلیم اور تدریس کے بیسیوں طریقے ہیں جو طالب علم اور طالب علموں کے رویے اور ان کی ذہنی سطح اور ان کے فکری افق کو سامنے رکھ کر اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے خود استاد یا معلم کی تربیت کا ہونا ضروری ہے۔ پھر جس طرح علم کی تحصیل‘ محنت کے علاوہ اساتذہ کی طرف سے مناسب رہنمائی کی محتاج ہے، اس طرح ’’تربیت معلم‘‘ کے لیے طالب علم میں مناسب وموزوں اہلیت کا ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی طرف سے مناسب رہنمائی کا ملنا بھی ضروری ہے۔
اب آئیے، ہم دیکھیں کہ دینی مدارس کے اساتذہ کی کن کن پہلوؤں پر رہنمائی یا تربیت ضروری ہے۔
۱۔ مقاصد
دنیا میں جس طرح علوم وفنون میں تنوع اور رنگا رنگی ہے، اسی طرح تدریسی مناہج اور تعلیمی طریقوں میں بھی بڑا تنوع پایا جاتا ہے اور مقاصدتعلیم کو سامنے رکھ کر تعلیم کا منہج اور تدریس کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر مختلف قومیں اور مختلف ممالک اپنی تعلیمی پالیسیاں جاری کرتے ہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے دینی مدارس میں تعلیمی مقاصد پر کوئی توجہ اور کوئی دھیان نہیں دیا جا رہا۔ اس میں شک نہیں کہ دینی مدارس میں تعلیم کاسب سے بڑا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے اوریہ مقصد بذات خود بڑا مقصد ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے ضمنی اور جزوی مقاصد کا تعین بہرحال ضروری ہے۔
تعلیمی مقاصد کا تعین اوران کے مطابق تعلیمی انداز اور منہج کا اختیار کرنا اس لیے بھی ضروری ہو گیا ہے کہ اب دنیا کا ماحول بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اورایک استاد کو اس با ت کا احساس اور ادراک ہونا ضروری ہے کہ اسے کس ماحول میں اورکس انداز سے اپنی بات کہنی ہے۔
۲۔ تعلیم کے جدید طریقے
پھر جیساکہ اوپر ذکر ہوا، ہمارے دینی مدارس میں زیادہ تر، تدریس کا ایک ہی طریقہ رائج اور نافذ ہے جسے درسی کتب کا طریقہ کہا جا سکتا ہے۔ اس طریقے میں استاد خود درسی کتاب سے کچھ حصہ پڑھتاہے یا کسی طالب علم سے پڑھواتاہے اورپھر استاد عبارت کے مشکل مقامات کی تشریح کرتا جاتا ہے اور حسب ضرورت طلبہ سوالات کے ذریعے بھی اپنی مشکلات حل کرتے ہیں۔ تعلیم اور تدریس کا یہ طریقہ اتنا فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس سے نہ تو طالب علم میں کوئی علمی مہارت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی استاد کی علمی اور فکری صلاحیتوں میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس انداز تعلیم سے کلاس کے صرف ذہین طلبہ ہی مستفید ہو سکتے ہیں اور ایسے طلبہ جن کا ذہنی اور فکری مستویٰ مختلف ہو، یہ طریقہ تدریس ان کے لیے چنداں فائدہ مند نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس عصر حاضر میں تعلیم ایک ’’فن‘‘ اور ایک ’’سائنس‘‘ بن گیاہے اورطالب علموں کو مضمون پڑھانے کے لیے بیسیوں طریقے ایجاد کیے جاچکے ہیں جن میں سمعی اور بصری ذرائع اور وسائل کو اختیار کرکے طالب علموں کے لیے حصول علم میں آسانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ ہر مضمون اور ہر ایک Subject))کو پڑھانے کا مستقل طریقہ یا طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں، اور جو مضمون جتنا اہم ہوتا ہے، اتنا ہی اسے آسان اور سہل طریقے سے پڑھانے کا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے عربی صرف ونحو، حدیث ، فقہ اور قرآن مجید کی تدریس کے آسان اور سہل طریقے اختیار کرنا وقت کی سب سے اہم اور سب سے بڑی ضرورت ہے۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ طریقہ ہائے تدریس میں وسعت اور تنوع سب سے پہلے مسلمان علما کے ہاں پیدا ہوا جس کے لیے صحیح بخاری کی کتاب العلم کو دیکھا جا سکتاہے جس میں مسلمانوں کے ہاں اس بارے میں پائی جانے والی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
۳۔ طلبہ میں نظم ونسق کا مسئلہ
اس سلسلے میں سب سے خراب صورت حال طلبہ کے ساتھ معاملات کی ہے۔ دینی مدارس میں طلبہ کے ساتھ اساتذہ کا رویہ اور ان کا معاملہ بے حد افسوس ناک حیثیت رکھتا ہے۔ عام طورپر دینی مدارس میں طلبہ کی وہی حیثیت ہے جو جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاں ان کے مزارعوں اور نوکروں کی ہے اوراگر یہ کہاجائے تو بجا ہوگا کہ دینی مدارس میں طلبہ کے کوئی آئینی حقوق نہیں ہیں۔ اسباق کے دوران طلبہ کو زیادہ سوالات پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے قدوری کے سبق میں اپنے استاد سے یہ پوچھا تھا کہ اگر نماز کے دوران میں نمازی کو ایک سے زیادہ مرتبہ سہو ہو جائے تو اس کا کیاحکم ہے؟ تو میرے استاد محترم نے جواب دیا تھا کہ ’’تم مودودی کی طرح خواہ مخواہ کے سوال نہ اٹھایا کرو۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اس کا مزید جواب دینے سے انکار کر دیا تھا۔ بعض اساتذہ سوال پوچھنے پر اپنی درس گاہ سے طالب علم کو نکال دیتے ہیں جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاں دینی مدارس میں طلبہ کی ذہنی استعداد بڑھانے اور اس بارے میں ان کی رہنمائی کرنے کے بجائے ان کے اندر موجود علمی اورفکری صلاحیتوں کو کچلنے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں مدارس میں طالب علموں کا گلا گھونٹنے کا قدم قدم پر بندوبست ہوتا ہے تاکہ ان کے اند ر سے ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کی کوئی آواز بلند نہ ہو سکے۔ یہ طالب علم انتہائی خوف کے عالم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ مدارس کی انتظامیہ ہر ممکن طریقے سے طالب علموں کی تذلیل گوار ااور روا رکھتی ہے۔ سب سے زیادہ دکھ ذہنی اورفکری تذلیل کا ہے جس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ ان رویوں اور طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ ترطلبہ کا تعلق پس ماندہ علاقوں اور پس ماندہ خاندانوں سے ہوتاہے، اس لیے وہ اس گھٹے ہوئے اور تذلیل وتحقیر کے ماحول کو برداشت کرنے پر مجبور ہیں، لیکن ان کے ساتھ روارکھا جانے والا یہ رویہ ان کے اندر موجود ان کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کے خاتمے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھناکہ وہ احیا و اشاعت دین کا کام کریں گے، احمقانہ سی بات ہے۔ موجودہ زمانے میں طلبہ سے ڈیلنگ بھی ایک مستقل فن اور ایک مستقل علم بن چکا ہے اور اس کے لیے بھی اساتذہ کی بھر پور توجہ کی ضرورت ہے۔
مختصراً یہ کہ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے دینی مدارس میں اساتذ ہ کی تربیت کا کوئی معقول نظام اپنایا جائے۔ یہ کام وفاق المدارس کی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے اورمختلف مدارس کی سطح پر بھی۔ جن مضامین اور موضوعات میں انہیں تربیت کی ضرورت ہے اورجن جن طریقوں سے انہیں تربیت مہیا کی جا سکتی ہے، ان کا تعین باہم مشاورت سے کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ کے لیے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ دینی مدارس میں بطور استاد ہونے والی نئی بھرتی میں انہی تربیت یافتہ اساتذہ کو موقع دیاجائے۔ ا س سے دینی مدارس کی تعلیم میں بہتری آئے گی اور طالب علم کے ذہنی افق میں اضافہ ہوگا۔