ہماری درس گاہوں میں عربی زبان و ادب کی پس ماندگی

مولانا محمد بشیر سیالکوٹی

میں آج کی نشست میں وطن عزیز کی سرکاری اور غیرسرکاری درسگاہوں میں، جن میں ہمارے قابل قدر دینی مدارس یا عربی مدارس سرفہرست ہیں، عربی زبان و ادب کی تعلیم و تدریس کی پسماندگی اور اس کے اسباب اور اس سے پیدا ہونے والے متنوع نتائج پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

تدریس عربی میں پس ماندگی سے کیا مراد ہے؟

اولاً میں اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ خصوصا ہماری دینی درسگاہوں میں عربی زبان وادب کی نہایت وقیع اور معیاری کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، نیز عربی گرامر کے دونوں شعبوں یعنی علم صرف اور علم نحو میں مستند اور مفصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے اور ان کی تعلیم وتدریس کئی سال جاری رہتی ہے، جو بڑی محنت اور جانفشانی سے کی جاتی ہے۔ اور پھر ان تینوں علوم (عربی زبان، علم صرف اور علم نحو) کی تدریس کی ذمہ داری صرف کہنہ مشق اور محنتی اساتذہ کو ہی دی جاتی ہے۔ چنانچہ طلبہ وطالبات علم صرف کی گردانوں اور قواعد کو بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں بلکہ حفظ کرتے اور فرفر سناتے ہیں اور نحو کے قواعد کو بھی نہایت محنت اور توجہ سے پڑھایا جاتا ہے، پھر بڑی جماعتوں میں عربی زبان کی بلاغت اور معانی کی مستند کتابوں کی تدریس بھی ہوتی ہے۔ تو ان علوم پر اتنی توجہ اور اہتمام کے باوجود ہمارے طلبہ وطالبات ان میں پسماندہ کیوں رہتے ہیں؟ اور اس پسماندگی کا کیا مفہوم ہے؟

اسلامی درسگاہوں کی ان مفید خدمات اور روشن پہلوؤں کے باوجود ہم ان کے فضلا کو دیکھتے ہیں کہ وہ عربی زبان اور عربی ادب دونوں میں پس ماندہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان علوم کی پچیس تیس کتابیں پڑھنے کے باوجود عربی زبان کے عملی استعمال یعنی اس میں گفتگو اور تحریر کی قدرت نہیں رکھتے اور سخت ضرورت کے وقت معمولی عربی بول چال اور تحریر سے بے بس نظر آتے ہیں، نیز اہل زبان سے ملاقات کے وقت ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتے، اور عصر حاضر کے عربی اخبارات اور مجلات سے استفادہ نہیں کرسکتے۔ وہ صرف قدیم کتابوں کی عبارتوں کو سمجھتے ہیں لیکن جدید عربی لٹریچر کا مطالعہ نہیں کر پاتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے طویل تعلیمی عرصے میں ان کی کتابوں کا اردو ترجمہ یاد کرتے ہیں، اور ان کے قواعد اور اصولوں کو صرف نظری اور زبانی حد تک رٹنے میں صرف کرتے ہیں اور عربی الفاظ اور تراکیب کے ان روزمرہ استعمالات اور محاوروں سے ناواقف رہتے ہیں جو اہل زبان کے معاشرے میں لکھے بولے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ یہ فاضل حضرات صرف عربی زبان کے مفرد اسماء اور افعال کو کسی حد تک جانتے ہیں اور ان کے عملی استعمال کی شکلوں اور تراکیب سے ناواقف رہتے ہیں۔

اس لیے مدارس کے طلبہ اور اساتذہ اولاً تو عربی بولنے یا لکھنے سے بچتے ہیں۔ اگر ان میں سے کچھ اسے بولنے یا لکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کے جملوں میں لغت، صرف، نحو اور محاوروں کی غلطیاں اتنی کثرت سے ہوتی ہیں کہ ان کی اصلاح کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے اگرچہ زبان کے ان چاروں اجزا کو سالہا سال تک پڑھا بلکہ رٹا ہوتا ہے لیکن انہیں ان کے عملی استعمال کی مشق اورتربیت سے محروم رکھا گیا ہے، لہٰذا اسے لکھنے یا بولنے کی استعداد حاصل نہیں کرسکے، حالانکہ ان کیلئے عربی ایک نہایت آسان زبان ہے۔ اگر انہیں کچھ ہی عملی تربیت کرادی جاتی تو وہ اسے خوب لکھ بول سکتے۔

اب میں محترم علماے کرام، تعلیمی ماہرین، عربی زبان و ادب کے معلمین اورمعلمات نیز اپنے عزیز طلبہ وطالبات کے سامنے اس مسئلے کو آسانی سے پیش کرنے کے لئے عربی زبان کی تعلیم وتدریس کی چند مثالیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ 

پہلا طریقہ تدریس

یہ ہمارے فاضل دوست جامعہ ..... میں عربی زبان کے مدرس ہیں۔ اس وقت ان کے سامنے اٹھارہ بیس طلبہ بیٹھے ہیں۔ وہ انہیں وفاق المدارس العربیۃ کے نصاب میں مقرر نصابی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول پڑھا رہے ہیں جو حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے۔ معلم اور طلبہ کے ہاتھوں میں کتاب کا ایک ایک نسخہ موجود ہے۔ ان کی تدریس کا طریقہ یہ ہے کہ معلم خود سبق کی عبارت پڑھ رہا ہے اور طلبہ کو اس کے الفاظ اور جملوں کا لفظی اردو ترجمہ بتا رہا ہے جسے وہ سنتے ہیں اور ذہن نشیں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح یہ طلبہ اپنے معلم سے سبق کی عبارت کا لفظی اردو ترجمہ پڑھتے اور اسے یاد کرتے ہیں۔ معلم کے پاس اپنی تیاری کیلئے اس کتاب کا چھپا ہوا اردو ترجمہ موجود ہے جسے وہ حسب ضرورت دیکھ لیتے ہیں۔

نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کا لفظی اردو ترجمہ سمجھنے اور یاد کرنے لگتے ہیں۔

دوسرا طریقہ تدریس

یہ ہمارے ایک فاضل دوست موقر دار العلوم ...... میں عربی زبان وادب کے مدرس ہیں۔ یہ ابتدائی اور متوسط جماعتوں کو پڑھانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی اس پیریڈ میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول کی تدریس کر رہے ہیں۔ تاہم ان کی تدریس کا طریقہ پہلے مدرس کے طریقہ تدریس سے کچھ مختلف ہے۔ ان کی جماعت میں تختہ سیاہ موجود ہے اور ہر طالب علم کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ اپنی کاپی اور قلم موجود ہے۔ معلم سبق کے آغاز میں تختہ سیاہ پر مناسب اور خوبصورت خط میں سبق کے منتخب الفاظ کی تشریح لکھ رہا ہے جس میں عربی افعال کے معنی اور ان کا ماضی، مضارع اور مصدر، نیز اسم مفرد کا معنی اور جمع، اور جمع اسم کا معنی اور مفرد وغیرہ۔ طلبہ الفاظ کی اس تشریح کو اپنی کاپیوں میں نقل کرکے اسے یاد کر رہے ہیں۔ بعد ازاں معلم سبق کی تدریس اس طریقے پر کرتا ہے کہ ایک طالب علم سبق کی عبارت پڑھتا ہے اور معلم اس کا اردو ترجمہ کرتا جاتاہے۔ یوں پہلے سبق کی تکمیل ہوتی ہے اور طلبہ سبق کی عبارت کے اردو معنی کوآسانی سے سمجھنے لگتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔

نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کے اردو ترجمہ اورالفاظ کی تشریح کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

تیسرا طریقہ تدریس

یہ تیسرے معلم معہد اللغۃ العربیۃ اسلام آباد میں اپنے طلبہ کو یہی کتاب قصص النبیین، الجزء الاول پڑھا رہے ہیں۔ بچوں کے سامنے ایک وائٹ بورڈ آویزاں ہے اور ہر بچے کے پاس نصابی کتاب کے علاوہ ایک کاپی اور قلم موجود ہے۔ نیز معلم اور ہر طالب علم کے پاس اس کتاب کی تدریسی گائیڈ (ورک بک) موسومہ دلیل قصص النبیین، الجزء الاول موجود ہے۔ وہ اس گائیڈ کے مطابق سبق کے آغاز میں وائٹ بورڈ پر سبز مارکر سے منتخب الفاظ کے معنی اور تشریح لکھتے ہیں، جسے ہر طالب علم بلند آواز سے پڑھتا ہے، اور اس کے صحیح تلفظ کی مشق کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ اسے اپنی کاپی میں درج کرتا ہے۔ اس کے بعد معلم عربی میں کہتے ہیں: الآن بدأ الدرس، الآن نبدأ الدرس۔ اور سبق کی تدریس شروع ہوتی ہے، تو سبق کو معلم خود نہیں پڑھتا بلکہ اسے باری باری مختلف طلبہ پڑھتے ہیں اور معلم اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ بولتا ہے۔ پھر معلم گاہے گاہے طلبہ کو مناسب ہدایات دیتے ہوئے عربی بولتا ہے۔ مثلاً الآن اقرأ أنت یاخالد، الآن اقرأ أنت یا حمزۃ، اور کسی طالب علم کے اچھے نطق پر أحسنت! بارک اﷲ فیک اور کسی سے غلطی سرزد ہونے پر لا، یا عبد الرحمن اور سبق کے اختتام یر الآن انتہی الدرس، الآن انتہت الحصۃ وغیرہ۔ نیز معلم طلبہ کو جملوں کے لفظی ترجمہ سکھانے کے بجائے ان کا بامحاورہ ترجمہ بتاتا ہے۔ اس طرح معلم پہلے پیریڈ میں پہلے سبق کی تدریس مکمل کرتا ہے۔

پھر دوسرے دن وہ طلبہ کو دلیل قصص النبیین، الجزء الاول کے مطابق اس سبق پر عربی میں بول چال کی مشق کراتا ہے، جو دو مشقوں پر مشتمل ہے۔ پہلی مشق میں سبق کے مضمون کے بارے میں عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے سوال دئیے گئے ہیں۔ معلم ایک سوال بولتا ہے، تو طلبہ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر طلبہ کا جواب غلط یا ناقص ہو تو معلم اسے درست کراتا ہے۔ دوسری مشق میں سبق کے بارے میں لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے پر کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔

عربی بول چال کی ان دونوں مشقوں کو طلبہ دو بار زبانی اور تحریری دونوں طرح حل کرتے ہیں؛ پہلے کلاس میں اپنے معلم کی نگرانی میں زبانی حل کرتے ہیں اور پھر انہیں اپنی کاپیوں میں تحریری طور پر حل کرکے لاتے ہیں اور معلم اسے چیک کرتا اور حسب ضرورت تصحیح کرکے اس پر اپنے دستخط کرتا ہے۔

نتیجہ : طلبہ سبق کی عبارت کا با محاورہ اردو ترجمہ سیکھتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی لغوی تشریح کے ساتھ ان کے تلفظ کی صحت سیکھتے ہوئے روزمرہ کی ابتدائی عربی زبان کو سمجھنے، لکھنے اور بولنے لگتے ہیں کیونکہ انہیں عربی لکھنے اور بولنے کا اچھا ماحول میسر آیا ہے۔

چوتھاطریقہ تدریس

یہ معہد اللغۃ العربیۃ میں عربی زبان وادب کے ایک دوسرے معلم ہیں۔ آئیے ان کی کلاس کو دیکھتے ہیں۔ یہ آج راقم الحروف کی کتاب اقرأ، الجزء الاول کا پہلا سبق پڑھا رہے ہیں۔ اس سبق میں چونکہ ہر چیز کی تصویر کے ساتھ اس کا عربی نام لکھا ہے، اسلئے وہ الفاظ کا اردو ترجمہ نہیں کرتے، بلکہ ہر چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا عربی نام پڑھنے کی مشق کراتے ہیں اور اگر طالب علم سے کسی اسم کی خواندگی میں تلفظ کی غلطی واقع ہو تو اسے درست کراتے ہیں۔ کلاس کے شرکاء بالکل نئے ہیں اور آج پہلے دن عربی زبان پڑھنے لگے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں براہ راست عربی پڑھنے اور بولنے کی مشق کرا رہے ہیں۔ وہ تمام طلبہ کو ضروری ہدایات بھی عربی میں ہی دے رہے ہیں، اور جہاں دقت پیش آتی ہے، اشارے سے کام لیتے ہیں۔ اب کلاس پہلا سبق ختم کر رہی ہے تو معلم نے انہیں کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ما ہذا؟ سے سوال کرنا سکھا دیا ہے اور اس کا جواب بھی ہذا قلم وغیرہ سمجھا دیا ہے۔اس کے علاوہ ایک اہم اضافی مشق یعنی کسی شخص کے بارے میں سوال کرتے ہوئے من ہذا؟ اور اس کا جواب بھی سکھا دیا ہے، اور اس کے لیے جماعت کے شرکا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے من ہذا؟ ہذا أکرم، من ہذا؟ ہذا جمیل الرحمن وغیرہ کی مشق کرادی ہے۔ اور اس نہج کو جاری رکھتے ہوئے سبق کی تینوں مشقیں بھی حل کر ا دی ہیں۔

یوں ان نووارد طلبہ نے آج اٹھارہ بیس چیزوں کے عربی نام سیکھ لئے ہیں اوران کے بارے میں سوال وجواب کی مشق کرلی ہے، اور اس طرح پندرہ بیس اشخاص کے بارے میں من ہذا؟ کی مشق بھی کرلی ہے اور مجموعی طور پر پہلے ہی دن ہذا ......، ہذا ...... کی طرح کے تیس سے زیادہ عربی جملے فرفر بولنے لگے ہیں۔ اب معلم نے طلبہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ کل ان مشقوں کو اپنی کاپیوں میں تحریر کرکے لائیں۔

نتیجہ : طلبہ سبق کے جملوں کو براہ راست سمجھنے کے علاوہ انہیں باربار پڑھنے بولنے اور لکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں اور ان کے تلفظ کی تصحیح بھی کرچکے ہیں۔ کیونکہ انہیں خالص عربی ماحول میں بول چال کی مشق کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔

ہمارے ہاں مروجہ طریقہ تدریس

اب آئیے دیکھیں کہ ہم اپنی درسگاہوں میں اپنے بچوں کو بنیادی عربی زبان کی تعلیم ان چار طریقوں میں کس طریقے پر دے رہے ہیں؟ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں ہماری درسگاہوں میں عرصہ دراز سے عربی زبان وادب کی تعلیم کا پہلا طریقہ تدریس ہی رائج ہے اور ہمارے اساتذہ سبق کے لفظوں یا عبارت کو خود پڑھتے ہیں یا کبھی کبھی کسی طالب علم سے پڑھوا کر اس کا اپنی مقامی زبان اردو وغیرہ میں ترجمہ کرتے ہیں، جسے طلبہ وطالبات سنتے اور یاد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری اکثر درسگاہوں میں تفہیم وتعلیم کا بنیادی ذریعہ تختہ سیاہ یا وائٹ بورڈ موجود نہیں ہوتا، اگر موجود ہوتا ہے تو اسے بہت کم استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو عربی الفاظ کی تشریح لکھوانے کا اہتمام بہت ہی کم کیا جاتا ہے۔ یوں ہمارے مروجہ نظام تعلیم میں عربی زبان وادب، قرآن کریم اور حدیث شریف نیز صرف ونحو اور فقہ کی تدریس کا یہی منہج جاری ہے کہ سال اول سے لیکر سال ہشتم (دورہ شہادۃ عالمیۃ) تک اور مڈل سے لے کر ایم اے عربی، ایم اے اسلامیات تک، بلکہ پی ایچ ڈی تک عربی عبارتوں کا اردو ترجمہ ہی سکھاتے ہیں، اور ان کا اردو ترجمہ کرلینے اور اپنی زبان میں ان کے مفہوم کی تشریح کرنے کو کامیابی کی منزل قرار دیتے ہیں۔ اس کے سوا وہ اس پورے عرصے میں عربی زبان کے الفاظ اور محاوروں کو لکھنے یا بولنے اور ان کے متنوع استعمالات کی کوئی مشق نہیں کرتے، اور نہ ہی انہیں عربی زبان میں زبانی یا تحریری بول چال کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔ مثلاً ملک کے عربی مدارس کے تمام وفاقوں کے نصاب تعلیم کو دیکھ لیجیے، اس میں ایسی درسی کتابیں بہت کم ملیں گی جن میں متعلقہ مضمون پر سوال وجواب، عربی بول چال اور تحریر وانشاء کی مشقیں موجود ہوں، اور جہاں ایسی بہت ہی کم کتابوں میں ایسی مشقیں موجود ہوتی ہیں ان کی تدریس کرنے والے اساتذہ انہیں نظرانداز کردیتے ہیں اور وہ انہیں زبانی یا تحریری طور پر حل کرانے کا اہتمام نہیں کرتے الا قلیل منہم۔

ہمارے نظام تعلیم میں عربی زبان عملاً متروک ہے

اگر آپ اپنے ملک کے قرآن وحدیث اور عربی ادب کوپڑھنے والے نہایت ذہین اور محنتی طلبہ بلکہ نہایت وسیع اور طویل تدریسی تجربات کے مالک اساتذہ کرام کو دیکھتے ہیں کہ وہ بوقت ضرورت عربی زبان میں گفتگو اور تحریر میں بے بس ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ عربی زبان اس قدر مشکل یا پیچیدہ ہے کہ اسے طویل عرصہ تک پڑھنے اور پڑھانے کے باوجود اس میں مناسب صلاحیت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہیں ان کی طویل تعلیمی مدت کے دوران ایسی تربیت نہیں دی گئی۔ بلکہ انہیں عربی زبان اور ادب کے زبانی اور تحریری استعمال سے مکمل محروم رکھا گیا۔ اس لئے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نظام میں عربی زبان کو، غیر شعوری طور پر ہی سہی، عملی طور پر اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے فضلا اس فن میں ترقی نہیں کرسکتے۔

ہماری درسگاہوں میں عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے دوران کئی صورتوں میں اس کے عملی استعمال کی راہ نکل سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکے۔ چنانچہ عربی کو ترک کرنے اور نظرانداز کرنے کی کئی صورتیں بالکل واضح ہیں:

۱۔ ہماری نصابی کتابوں میں تمرین وتربیت کی مشقیں موجود نہیں ہیں۔

۲۔ ہمارے اساتذہ بول چال اور تحریر کی مشقیں نہیں کراتے۔

۳۔ ہمارے اداروں میں تشریح وتعلیم کیلئے تختہ سیاہ استعمال نہیں کیا جاتا۔

۴۔ ہمارے اداروں کے داخلی ماحول میں عربی بول چال کا ماحول پیدا نہیں کیا جاتا۔

۵۔ ہمارے معلمین بھی اپنے اسباق کے دوران کلاس میں ایسا عربی ماحول پیدا نہیں کرتے جس سے معلم اور طلبہ کے درمیان باہمی گفتگو میں عربی زبان کے روزمرہ محاورے استعمال ہوتے ہوں۔

اس طرح ہمارے طلبہ اور مدرسین دونوں کو عربی الفاظ یا عبارتوں کا مقامی زبان اردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ تو یاد رہتا ہے لیکن عربی الفاظ کی سرسری قرأت کے بعد اس کے عملی استعمال کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یوں ہم اپنے تمام اسباق میں اور تمام تعلیمی مراحل میں عربی زبان کو عملاً اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں۔

اسلئے ہمارے طلبہ وطالبات بلکہ اساتذہ بھی عربی ایسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی معمولی صلاحیت سے قاصر رہتے ہیں۔ اس فرسودہ طریقہ تدریس سے عربی زبان مسلسل ’’متروک‘‘ رہتی ہے۔ اس لئے ہمارے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور اسلامی درسگاہوں میں عربی زبان عملاً ’’متروک‘‘ ہے۔ اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس چیز سے آپ زندگی بھر گریزاں رہیں بلکہ اسے آپ عمداً ترک کریں، وہ آسان ہونے کے باوجود آپ کو نہیں آئے گی۔

معلم کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے

محترم حضرات! میں نے بنیادی عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے جن چار مختلف طریقوں کا ذکر کیا ہے، ان سب میں ایسی نصابی کتابوں کی مثالیں دی ہیں جو ہمارے اپنے ملک یا علاقے میں لکھی گئی ہیں اور ان میں ہمارے اداروں اور ہمارے طلبہ وطالبات کی ضروریات اور معیار کو ملحوظ رکھا گیاہے اور وہ یہاں زیر تعلیم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہر معلم کی مہارت، تجربے اور محنت کی بدولت اس کا طریقہ تدریس دوسرے سے یکسر مختلف ہے اور اس کے مقاصد اور نتائج بھی مختلف ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ

  • تدریس کا پہلا طریقہ بالکل سادہ اور سطحی ہے، اور اس میں عربی عبارت کا صرف لفظی اردو ترجمہ سکھایا جاتا ہے۔
  • دوسرے طریقے میں اردو ترجمہ کے ساتھ منتخب الفاظ کی تشریح سکھائی جا رہی ہے۔
  • جبکہ تیسرا طریقہ تدریس کئی طرح کی محنت اور منصوبہ بندی سے تیار کیا گیا ہے اور اس سے پانچ فوائد کی تکمیل ہورہی ہے۔ (۱) بامحاورہ اردو ترجمہ، (۲) الفاظ کی تشریح، (۳) نطق کی تصحیح، (۴) عبارت کا مکمل فہم اور (۵)عربی لکھنے بولنے کی استعداد۔
  • اسی طرح چوتھا طریقہ تدریس بھی بڑی مہارت اور توجہ سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ کسی زبان کی تدریس کا سب سے زیادہ مؤثر اور نہایت کامیاب طریقہ تدریس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس سے قارئین اردو ترجمہ کے بجائے براہ راست عربی زبان میں غور وفکر کرتے ہوئے اسے پڑھنے لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے: و اَن لیس للانسان الا ما سعٰی  (اور اس حقیقت کو یاد رکھو کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق ہی نتیجہ ملتا ہے)، بہرحال یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت اور تدریس میں معیاری اور اچھی تدریسی کتاب کے ساتھ معلم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس نکتے پر مزید گفتگو کسی دوسرے موقع پر کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(اکتوبر ۲۰۰۷ء)

تلاش

Flag Counter