اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو فرائض بیان کیے ہیں، ان میں ایک فریضہ تلاوت کتاب اللہ بھی ہے۔ چونکہ آپ کے اولین مخاطب اہل عرب تھے جن کی مادری زبان عربی تھی، جو اپنے وقت میں فصاحت وبلاغت اور نطق وبیان کے امام سمجھے جاتے تھے، اس لیے وہ محض قرآن پاک کی تلاوت ہی سے اس کا مطلب ومفہوم سمجھ لیتے تھے اور اس کی شیرینی اور ٹھوس دلائل سے لطف اندوز اور متاثر ہوتے تھے۔ قرآن کریم کا طرز ادا، اسلوب بیان اور ترغیب وترہیب کا انداز اس قدر سادہ اور موثر ہے کہ اس سے جس طرح ایک بڑے سے بڑا فلسفی محظوظ ہوتا ہے، اسی طرح اس کے دل کش بیان سے اونٹوں اوربکریوں کا چرواہا بھی اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور جیسے ایک ماہر فلسفی اور عالم اس کے انداز بیان پر داد تحسین دینے پر مجبور ہے، اسی طرح ایک سادہ بدو بھی اس کے پند وموعظت اور رشد وہدایت کے ہمہ گیر اصول پر صد آفرین کہنے پر مجبور ہے۔ یہ قرآن کریم ہی تھا جس نے پہاڑ جیسے مضبوط دلوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان میں ایمان واصلاح کا تخم بویا جس سے اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ کے شیریں ثمرات نمودار ہوئے۔ قرآن کریم وہ اعلیٰ واکمل کتاب ہے جس میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ عبارت انتہائی سلیس وفصیح، اسلوب بیان نہایت موثر وشگفتہ اور تعلیم بے حد متوسط ومعتدل ہے جو ہر زمانہ اور ہر طبیعت کے مناسب اور عقل سلیم کے بالکل مطابق ہے۔ اس میں افراط وتفریط کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں ہے۔ اس کا ہر مضمون جچاتلا ہے۔
قرآن کریم کے ذریعے سے جب وحی الٰہی کی بارش ہوتی ہے تو تسلیم کرنے والوں کے دلوں میں ایمان کا پودا اگتا، بڑھتا، پھولتا اور پھلتا ہے اور اس کی بدولت رضاے الٰہی کے ثمرۂ شیریں سے لذت اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ قرآن پاک کی اس شیریں مقالی سے گھبرا کر کفار قریش یہ منصوبہ باندھنے پر کمر بستہ ہو گئے اور بالآخر اس پر عمل کر ہی دکھایا کہ ’’نہ سنو اس قرآن کو اور اس کے سننے میں شور وغل مچا دو تاکہ تم غالب آ جاؤ‘‘۔ (حم السجدۃ آیت ۲۶) اس سے بڑھ کر شکست کا اور کیا مظاہرہ ہو سکتا ہے؟ اور اس سے یہ بھی بخوبی آشکارا ہو گیا کہ وہ لوگ بھی جو اپنی فصاحت وبلاغت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے، قرآن کریم کے دلائل قاہرہ اور براہین ساطعہ سے کس قدر بدحواس ہو جاتے تھے اور قرآن کریم کی آیات کی معجزانہ ادا نے ان کے لیے کس قدر مشکلات پیدا کر دی تھیں۔